یہی عرض میں نے بھی کیا کہ شریعت کا ماخذ قرآن و سنّت ہے- تو جواب ملا، کے اچھا پھر قرآن و سنّت سے یہ ثابت کرو کہ مقتدی آہستہ آواز میں تکبیر کہے گا- :)
اچھا! اس کا مطلب ہے کہ اگر کتاب وسنت سے مقتدی کے آہستہ آواز میں تکبیر کہنے کی دلیل نہیں دی جاسکتی تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ قرآن و سنت مآخذ شریعت نہیں بلکہ قول امام ہی مآخذ شریعت ہے۔ یا پھر اگر اہل حدیث ایسا نہ کرسکیں تو اہل حدیث مجتہد نہیں بلکہ مقلد ہیں؟
ایک الزامی اعتراض ہے کہ چلو ہم تسلیم کئے لیتے ہیں کہ اہل حدیث مقلد ہیں لیکن حنفیوں کے ’’امام‘‘ ابوحنیفہ تو مقلدین کے نزدیک مجتہد اعظم تھے اور مقلدین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مجتہد کو تقلید حرام ہے اور اسکا کام کتاب و سنت سے براہ راست دلائل و مسائل اخذ کرنا ہیں تو برائے مہربانی مقلدین بتائیں کہ مقتدی کے آہستہ آواز میں تکبیر کہنے کی دلیل قرآن و حدیث سے ابوحنیفہ نے کیا بیان کی ہے؟؟؟ اگر کچھ بیان نہیں کی تو کیا مقلدین ابوحنیفہ کو مقلد تسلیم کرنے کو تیار ہیں؟
مقلدین کی بدقسمتی اور بدنصیبی کے ان کے اکابرین بھی یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ ابو حنیفہ کے پاس دلائل نہیں تھے بلکہ وہ ہوائی فتوے دیتے تھے۔ دیکھئے ایک دیوبندی اکابر کا اعتراف:
امام صاحب سےمتون تو منقول ہیں دلائل منقول نہیں ہیں۔(تقریر ترمذی، صفحہ ٧٢، بحوالہ تحفہ حنفیہ بجواب تحفہ اہل حدیث، صفحہ ١٥)
بطور فائدہ عرض ہے کہ شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ نے مقتدی کے آہستہ آواز سے تکبیر کہنے کی دلیل اپنی تصنیف حقیقتہ التقلید و اقسام المقلدین میں قرآن وحدیث سے ثابت کی ہے۔ اس کے علاوہ مقلدین کے اسی اعتراض کا کافی شافی جواب حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بھی ذکر کیا ہے۔ والحمداللہ!
لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے عام شیوخ بھی ابوحنیفہ سے بڑے مجتہد ہیں۔