• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام احمد کا تقلید کے بارے میں قول اور غیر مقلدوں کے لئے لمحہ فکریہ

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ء

آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ احناف عملا اپنے امام کے قول کر حرف آخر سمجتھے ہیں اور عملا اپنے امام کے اقوال پر آنکیھں بند کرکے عمل کرتے ہیں ۔ اگر واقعی یہ بات سچ ہے تو آپ مجھے ایک حنفی دکھادیں کہ اس نے کسی بھی شرعی معاملہ میں اپنے امام کے قول کی مخالفت نہ کی ہو۔ ایسا حنفی ڈھونڈنے کے لئیے آپ کو محلوں ، گھروں میں گھمومنا نہیں پڑے گا بلکہ ایک آسان سا طریقہ ہے کہ آپ احناف کے علماء نے جو فقہی مسائل کی کتب مدون کی ہیں ان کا تقابل امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال سے کرلیں اور ایک حنفی دکھادیں جس نے کسی بھی شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ کی مخالفت نہ کی ہو ۔ اگر آپ کے پاس احناف کے متقدمیں علماء کی کتب نہیں تو آپ احناف کے متآخریں علماء کی کتب کا امام ابو حنیفہ کے اقوال سے تقابل کرلیں مثلا اشرف علی تھانوی کی بہشتی زیور اٹھالیں یا مفتی رشید احمد کی احسن الفتاوی یا رشید احمد گنگوہی فتاوی رشیدیہ وغیرہ اور خود دیکھ لیں کہ کیا احناف اپنے امام کے اقوال کو حرف آخر سمجھتے ہیں ۔
اگر احناف اپنے امام پر اندھے عمل کر رہے ہوتے اور ان کے اقوال کو حرف آخر سمجھ رہے ہوتے تو کبھی ان کے اقوال سے اختلاف نہ کرتے اور ایک حنفی تو مل جاتا جس نے کہیں بھی امام ابو حنیفہ کے اقوال سے اختلاف نہ کیا ہوتا
حنفی صرف مقلد ہوتا ہے جس کا کام اپنے ائمہ کے اقوال اور اپنے مذہب کے مسائل پر اندھا بن کر عمل کرنا ہوتا ہے اختلاف کا اسے حق حاصل ہے نہ اپنی رائے دینے کی گنجائش موجود ہے۔ بس جو کچھ انکی فقہ میں موجود ہے وہی بدقسمت مقلد کی قسمت ہے۔

ہم نے جو کچھ کہا وہ ایسا سچ ہے جسے آپ بھی نہیں جھٹلاسکتے۔ آپ مجھے دنیا میں کوئی ایک ایسا مقلد بتا دیجئے جس نے دلیل کی بنیاد پر اپنے امام سے اختلاف کیا ہو؟ چلیں اپنا ہی بتادیں کہ آپ نے کتنے مسائل میں ابوحنیفہ سے اختلاف کیا ہے؟ نہ تو آپ اپنی ذات کو پیش کرسکتے ہو نہ ہی اس وقت دنیا میں موجود اپنے کسی عالم، کسی مفتی یا کسی عام مقلد کا حوالہ دے سکتے ہو جس نے مسائل میں امام صاحب سے ذرہ برابر بھی اختلاف کیا ہو۔ بات صرف اتنی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے شاگردوں نے جن مسائل میں ابوحنیفہ سے اختلاف کیا ہے آپ کے متاخرین علماء جیسے شامی، صاحب ہدایہ وغیرہ نے امام صاحب کے شاگردوں کے اسی اختلاف پر فتویٰ دے دیا ہے اور اب وہی حنفی مذہب ہے۔ لہٰذا آپ لوگ صرف مقلد ہو کچھ مسائل میں ابوحنیفہ کے،کچھ مسائل میں انکے شاگردوں کے۔ ان کے بعد اختلاف تو پھر کسی مقلد نے بھی نہ کیا۔

آپ احناف کے متآخریں علماء کی کتب کا امام ابو حنیفہ کے اقوال سے تقابل کرلیں مثلا اشرف علی تھانوی کی بہشتی زیور اٹھالیں یا مفتی رشید احمد کی احسن الفتاوی یا رشید احمد گنگوہی فتاوی رشیدیہ وغیرہ اور خود دیکھ لیں کہ کیا احناف اپنے امام کے اقوال کو حرف آخر سمجھتے ہیں ۔
اوّل تو ابوحنیفہ سے اختلاف کے لئے آپ لوگوں کے نزدیک مجتہد ہونا شرط ہے جبکہ ان تینوں افراد میں سے جن کا آپ نے نام لیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے ابوحنیفہ سے شرعی مسائل میں اختلاف کیا ہے کوئی بھی مجتہد نہیں بلکہ تینوں ٹھیٹ مقلد تھے۔ پھر آخر کس بنیاد پر انہوں نے اپنے امام سے اختلاف کیا؟ یہ تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اختلاف نقل کیا ہو لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ خود اجتہاد کرتے ہوئے اپنے امام کے اقوال ٹھکرا دئے ہوں۔ جیسے بہشتی زیور اشرف علی تھانوی کی ذاتی تصنیف نہیں بلکہ انہوں نے فقہ حنفی کی کتابوں سے عورتوں کے مسائل ایک جگہ اکھٹا کرنے کی کوشش کی ہے اگر اس میں کہیں کوئی قول ابو حنیفہ کے خلاف ہے تو اشرف علی تھانوی کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ نہیں ہے۔ اور یہی حال ذکر کردہ دوسرے دو علماء کا بھی ہے۔ آپ ایسا کریں کہ ان تینوں علماء کی کتابوں سے وہ چند مسائل نقل فرمادیں جن میں انہوں نے ذاتی طور پر اپنے امام سے اختلاف کیا ہو۔

حنفیوں کے جن گنے چنے علماء جیسے ابویوسف، امام محمد، امام زفر نے اپنے استاد سے اختلاف کیا ہے۔ ان کے لئے بھی جائز نہ تھا کہ وہ ایسا اختلاف کرتے کیونکہ فقہ حنفی میں درج ہے کہ اس شخص پر ریت کے ذروں سے بھی زیادہ لعنت ہو جو امام صاحب کے قول کو ٹھکرائے۔ اسطرح تو ابوحنیفہ سے اختلاف کرنے والے شاگرد اس اختلاف کی بنا پر لعنتی ہوگئے کیا آپ لوگوں کو انکا لعنتی ہونا منظور ہے؟ پھر اس کے بعد کیا کسی مقلد میں اتنا حوصلہ اور ہمت ہے کہ امام صاحب سے کسی بھی شرعی مسئلہ میں چاہے وہ کسی حد تک بھی قرآن و حدیث کے خلاف ہو امام صاحب سے اختلاف کرسکے؟؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اسلام و علیکم

مقلدین سے گزارش ہے کہ تقلید کی شرعی حثیت کی نفی صرف اسی بات سے ہو جاتی ہے کہ کسی مسلے میں یہ لوگ جس امام کی پیروی اور اثبات میں دن رات ایک کر دیتے ہیں انہیں اس کا یہی یقین نہیں کہ ان کے امام کی راے اس میں حتمی تھی یا نہیں ؟؟؟ سو ال یہ ہے کہ اگر ان کے امام نے بعد ازاں اپنی راے یا مؤقف بدل لیا ہو تو مقلد پھر جس راے یا اجتہاد میں اس کی پیروی کرے گا تو گمراہ ہی ہو گا

جیسے فاتحہ خلف الامام کے مسلے میں بقول امام شعرانی امام ابو حنیفہ نے آخری وقت میں اپنی راے سے رجوع کر لیا تھا -جب کہ حنفی اب تک ان کی پہلی راے کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور اس پر مضبو طی سے قا ۶م ہیں
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اگر تمام اہل حدیث صرف قرآن وحدیث سے مدلل جواب دیتے ہیں اور اپنی رائے کا رتی بھر بھی آمیزش نہیں کرتے تو ان میں کبھی اختلاف نہ ہوتا ۔ کیوں کہ قرآن و حدیث میں تو اختلاف ہے نہیں اگر آپ کے علماء میں اختلاف ہے تو وہ ان کی ذاتی رائے کی وجہ سے ہے ۔
اپنی رائے کی بجائے صرف قرآن وسنت سے استدلال کرنے والوں میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کتاب وسنت میں کوئی اختلاف نہیں لیکن علماء میں (نہایت خالص نیت کے باوجود) کتاب وسنت کے فہم میں اختلاف ہوجانا اظہر من الشمس بات ہے۔

صحابہ کرام ﷢ میں بھی بہت سے مسائل میں اختلاف تھا۔ کیا وہ بھی کتاب وسنت کو چھوڑ کر اپنی رائے چلاتے تھے؟؟؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
حنفی صرف مقلد ہوتا ہے جس کا کام اپنے ائمہ کے اقوال اور اپنے مذہب کے مسائل پر اندھا بن کر عمل کرنا ہوتا ہے اختلاف کا اسے حق حاصل ہے نہ اپنی رائے دینے کی گنجائش موجود ہے۔ بس جو کچھ انکی فقہ میں موجود ہے وہی بدقسمت مقلد کی قسمت ہے۔

ہم نے جو کچھ کہا وہ ایسا سچ ہے جسے آپ بھی نہیں جھٹلاسکتے۔ آپ مجھے دنیا میں کوئی ایک ایسا مقلد بتا دیجئے جس نے دلیل کی بنیاد پر اپنے امام سے اختلاف کیا ہو؟ چلیں اپنا ہی بتادیں کہ آپ نے کتنے مسائل میں ابوحنیفہ سے اختلاف کیا ہے؟ نہ تو آپ اپنی ذات کو پیش کرسکتے ہو نہ ہی اس وقت دنیا میں موجود اپنے کسی عالم، کسی مفتی یا کسی عام مقلد کا حوالہ دے سکتے ہو جس نے مسائل میں امام صاحب سے ذرہ برابر بھی اختلاف کیا ہو۔ بات صرف اتنی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے شاگردوں نے جن مسائل میں ابوحنیفہ سے اختلاف کیا ہے آپ کے متاخرین علماء جیسے شامی، صاحب ہدایہ وغیرہ نے امام صاحب کے شاگردوں کے اسی اختلاف پر فتویٰ دے دیا ہے اور اب وہی حنفی مذہب ہے۔ لہٰذا آپ لوگ صرف مقلد ہو کچھ مسائل میں ابوحنیفہ کے،کچھ مسائل میں انکے شاگردوں کے۔ ان کے بعد اختلاف تو پھر کسی مقلد نے بھی نہ کیا۔


اوّل تو ابوحنیفہ سے اختلاف کے لئے آپ لوگوں کے نزدیک مجتہد ہونا شرط ہے جبکہ ان تینوں افراد میں سے جن کا آپ نے نام لیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے ابوحنیفہ سے شرعی مسائل میں اختلاف کیا ہے کوئی بھی مجتہد نہیں بلکہ تینوں ٹھیٹ مقلد تھے۔ پھر آخر کس بنیاد پر انہوں نے اپنے امام سے اختلاف کیا؟ یہ تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اختلاف نقل کیا ہو لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ خود اجتہاد کرتے ہوئے اپنے امام کے اقوال ٹھکرا دئے ہوں۔ جیسے بہشتی زیور اشرف علی تھانوی کی ذاتی تصنیف نہیں بلکہ انہوں نے فقہ حنفی کی کتابوں سے عورتوں کے مسائل ایک جگہ اکھٹا کرنے کی کوشش کی ہے اگر اس میں کہیں کوئی قول ابو حنیفہ کے خلاف ہے تو اشرف علی تھانوی کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ نہیں ہے۔ اور یہی حال ذکر کردہ دوسرے دو علماء کا بھی ہے۔ آپ ایسا کریں کہ ان تینوں علماء کی کتابوں سے وہ چند مسائل نقل فرمادیں جن میں انہوں نے ذاتی طور پر اپنے امام سے اختلاف کیا ہو۔
شاہد نذیر صاحب کبھی آپ کہتے ہیں

صرف امام کے اقوال پر اندھے بن کر عمل کئے جاؤ
عمل تو قول امام پر ہو
حدیث رسول چھوڑ دینا قول امام مت چھوڑنا
جب میں جواب دیا تو اب آپ نے موقف بدلا اور امام کی جگہ ائمہ کہنا شروع کردیا

جس کا کام اپنے ائمہ کے اقوال اور اپنے مذہب کے مسائل پر اندھا بن کر عمل کرنا ہوتا ہے
لہٰذا آپ لوگ صرف مقلد ہو کچھ مسائل میں ابوحنیفہ کے،کچھ مسائل میں انکے شاگردوں کے۔
آپ پہلے فیصلہ کرلیں کہ ہم صرف امام ابو حنیفہ کے قول کو حرف آخر سمجھتے ہیں یا دلیل کی بنیاد پر ان کے قول کو چھوڑ کر دیگر ائمہ کی اقوال پر چلتے ہیں ( اگر ان کا قول قرآن و سنت کے موافق ہو) یا آپ نے ایک بار پھر موقف بدلنا ہے تو فائنل موقف بتادیں ، میں پھر ہی کچھ عرض کرسکوں گآ


حنفیوں کے جن گنے چنے علماء جیسے ابویوسف، امام محمد، امام زفر نے اپنے استاد سے اختلاف کیا ہے۔ ان کے لئے بھی جائز نہ تھا کہ وہ ایسا اختلاف کرتے کیونکہ فقہ حنفی میں درج ہے کہ اس شخص پر ریت کے ذروں سے بھی زیادہ لعنت ہو جو امام صاحب کے قول کو ٹھکرائے۔ اسطرح تو ابوحنیفہ سے اختلاف کرنے والے شاگرد اس اختلاف کی بنا پر لعنتی ہوگئے کیا آپ لوگوں کو انکا لعنتی ہونا منظور ہے؟ پھر اس کے بعد کیا کسی مقلد میں اتنا حوصلہ اور ہمت ہے کہ امام صاحب سے کسی بھی شرعی مسئلہ میں چاہے وہ کسی حد تک بھی قرآن و حدیث کے خلاف ہو امام صاحب سے اختلاف کرسکے؟؟؟
آپ کے فہم کی کوئی اہمیت نہیں ۔ ہمارے فقہی ائمہ اس قول کی تشریح کرچکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو محمد أمين بن عمر (ابن عابدين) کہتے ہیں


أي على من رد ما قاله من الأحكام الشرعية محتقرا لها ، فإن ذلك موجب للطرد والإبعاد ، لا بمجرد الطعن في الاستدلال ; لأن الأئمة لم تزل يرد بعضهم قول بعض
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اپنی رائے کی بجائے صرف قرآن وسنت سے استدلال کرنے والوں میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کتاب وسنت میں کوئی اختلاف نہیں لیکن علماء میں (نہایت خالص نیت کے باوجود) کتاب وسنت کے فہم میں اختلاف ہوجانا اظہر من الشمس بات ہے۔

صحابہ کرام ﷢ میں بھی بہت سے مسائل میں اختلاف تھا۔ کیا وہ بھی کتاب وسنت کو چھوڑ کر اپنی رائے چلاتے تھے؟؟؟
انس نضر بھائی ،
میں شاہد نذیر صاحب کو اسی طرف لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرا ماننا ہے کہ اہل سنت و الجماعت کے تمام مسالک کے درمیاں فرق فہم قرآن و سنت کا ہے ۔ شاید الفاظ کا چنائو کچھ غلط ہو گيا ہو
احناف آپ کے قرآن و سنت کے فہم کو رد کرتے ہیں نہ کہ قرآن و سنت کو۔ لیکن چوں کہ آپ حضرات سمجتھے ہیں کہ آپ حضرات کا فہم درست ہے تو آپ میں اکثر حضرات کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ شاید معاذاللہ ہم قرآن و سنت کو رد کر رہےہیں
فہم ایک ایسی چیز ہے ہم کسی کے فہم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کوئی اپنی رائے کا اظہار نہ کرے۔ مجھے بعض اہل حدیث حضرات ایسے بھی ملے ہیں جن کو خوش فہمی تھی کہ اہل حدیث علماء صرف قرآن و حدیث پر فتوے دیتے ہیں اور ان کا ذاتی فہم کچھ نہیں وہ تو صرف قرآن و حدیث بیان کرتے ہیں۔ کچھ ایسا گمان مجھے شاہد نذیر کی پوسٹ سے ہوا تھا جس کی وجہ میں نے علماء کی رائے کے متعلق ایک سوال کیا تھا ۔
جزاک اللہ خیرا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
حوالہ مطلوب ہے۔
علامہ شعرانی نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ مقتدی کو الحمدنہیں پڑھنا چاہئیے ان کا پرانا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پرانے قول سے رجوع کرلیا ہے اورمقتدی کے لیے الحمد پڑھنے کو سری نماز میں مستحسن اورمستحب بتایاہے۔ چنانچہ علامہ موصوف لکھتے ہیں:
لابی حنیفۃ ومحمد قولان احدھما عدم وجوبہا علی الماموم بل ولاتسن وہذا قولہما القدیم وادخلہ محمد فی تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ الی الاطراف وثانیہا استحسانہا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراہتہا عندالمخالفۃ الحدیث المرفوع لاتفعلوا الابام القرآن وفی روایۃ لاتقروا بشئی اذا جہرت الابام القرآن وقال عطاءکانوا یرون علی الماموم القراۃ فی ما یجہر فیہ الامام وفی مایسرفرجعا من قولہما الاول الی الثانی احتیاطا انتہیٰ کذا فی غیث الغمام، ص: 156 حاشیۃ امام الکلام۔
خلاصہ ترجمہ: اس عبارت کا یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے دوقول ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدی کوالحمد پڑھنا نہ واجب ہے اورنہ سنت اوران دونوں اماموں کا یہ قول پرانا ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قول کو درج کیاہے اور ان کے نسخے اطراف وجوانب میں منتشر ہوگئے اور دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کونماز سری میں الحمد پڑھنا مستحسن ہے علی سبیل الاحتیاط۔ اس واسطے کہ حدیث مرفوع میں وارد ہواہے کہ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور ایک روایت میں ہے کہ جب میں باآوازبلند قرات کروں توتم لوگ کچھ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور عطاءرحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ ( یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم ) کہتے تھے کہ نماز سری وجہری دونوں میں مقتدی کوپڑھنا چاہئیے۔ پس امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے احتیاطاً اپنے پہلے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا۔
بقول علامہ شعرانی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہوا بلکہ مستحسن ومستحب۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
انس نضر بھائی ،
میں شاہد نذیر صاحب کو اسی طرف لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرا ماننا ہے کہ اہل سنت و الجماعت کے تمام مسالک کے درمیاں فرق فہم قرآن و سنت کا ہے ۔ شاید الفاظ کا چنائو کچھ غلط ہو گيا ہو
احناف آپ کے قرآن و سنت کے فہم کو رد کرتے ہیں نہ کہ قرآن و سنت کو۔ لیکن چوں کہ آپ حضرات سمجتھے ہیں کہ آپ حضرات کا فہم درست ہے تو آپ میں اکثر حضرات کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ شاید معاذاللہ ہم قرآن و سنت کو رد کر رہےہیں
فہم ایک ایسی چیز ہے ہم کسی کے فہم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کوئی اپنی رائے کا اظہار نہ کرے۔ مجھے بعض اہل حدیث حضرات ایسے بھی ملے ہیں جن کو خوش فہمی تھی کہ اہل حدیث علماء صرف قرآن و حدیث پر فتوے دیتے ہیں اور ان کا ذاتی فہم کچھ نہیں وہ تو صرف قرآن و حدیث بیان کرتے ہیں۔ کچھ ایسا گمان مجھے شاہد نذیر کی پوسٹ سے ہوا تھا جس کی وجہ میں نے علماء کی رائے کے متعلق ایک سوال کیا تھا ۔
جزاک اللہ خیرا

اسلام و علیکم

میرے بھائی تقلید کہتے ہی اس بات کو ہیں کہ جس میں ایک آ دمی کسی کے اجتہاد یا فہم کو بغیر تحقیق اور دلیل کے ما نتا ہے چاہے امام جس کی تقلید کی جا رہی ہے قرآن اور حدیث سے ہی مفہوم اخذ کر رہا ہو - یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے درمیان بھی حدیث یا قرآن کے فہم میں اختلاف راے ہوتا تھا لیکن تحقیق کے بعد دلیل ملنے پر وہ اپنی راے سے رجوع کر لیتے تھے - کسی ایک صحابی نے بھی کبھی اپنے سے بلند مرتبہ صحابی کی کسی بھی معاملے میں تقلید نہیں کی اور ہمیشہ مسلک پرستی سے دور رہے -

وسلام
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بات صرف تقلید کی ہورہی تھی اور آپ نے موضوع میں تحریف کرتے ہوئے بات کو تقلید شخصی کی طرف لے گئے ۔ میں نے امام احمد رحمہ اللہ کے حوالہ سے تقلید شخصی کی بات ہی نہ کی اور نہ موضوع میں تقلید شخصی ہے ۔
دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں عملا کون کتربونیت کر رہا ہے اور الزام تراشی کون کر رہا ہے
اگر آپ پہلی پوسٹ میں دیا گیا پوسٹر دیکھیں تو وہاں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ایک عبارت سے حنفیوں نے عامی پر مجتہد کی تقلید کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے جبکہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی علماء سے سوال پوچھنے کی نصیحت کو زبردستی تقلید سمجھنا اور اس پر ظلم کرتے ہوئے تقلید کے ساتھ واجب کا اضافہ کردینا انتہائی بددیانتی اور معنوی تحریف ہے۔ لیکن مقلدین کا یہ ظلم تلمیذ صاحب کو نظر نہیں آرہا کہ مقلدین ان حرکات کے اتنی بری طرح عادی ہوچکے ہیں کہ انہیں غلط بھی صحیح نظر آنے لگا ہے۔

میرا تقلید کو تقلید شخصی کی جانب لے جانا کوئی ایسا بڑا مسئلہ تو نہیں کہ جس پر آپ الزام تراشی اور کتربونیت کو میری جانب منسوب فرما رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ باقی نہیں رہا اور دلائل سے دامن خالی ہوچکا ہے (بلکہ دلائل سے تو خود امام صاحب کا دامن بھی خالی ہی رہا ہے تو مقلدین سے دلائل کی امید کس طرح کی جاسکتی ہے؟) اس لئے اب آپ فضول باتوں میں بحث کو الجھانا چاہ رہے ہیں۔

اول تو میں مطلق تقلید سے تقلید شخصی کی طرف اس لئے بات لے گیا کہ تقلیدمطلق کے آپ سرے سے قائل و فاعل ہی نہیں ہیں بلکہ مطلق تقلید تو آپ کے مذہب میں گمراہی، اور اپنے دین کو کھلونا بنا دینے کے مترادف ہے۔ تفصیل و دلائل یہاں دیکھئے: دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا
اس لئے آپ یہ اعتراض پیش کرسکتے تھے ایک حنفی سے مطلق تقلید کی بحث کرنا غلط ہے کیونکہ مطلق تقلید تو موجودہ حنفیوں کا مسلک و مذہب ہی نہیں ۔اب اگر میں خود ہی اصل موضوع پر آگیا تو اس پر بھی آپ کو اعتراض ہے جبکہ آپکو مجھ پر اعتراض کے بجائے میرا شکر گزار ہونا چاہیے تھا کہ میں نے آپکو خلط مبحث سے بچا لیا ہے۔

نجانے کیوں حنفی حضرات دوسروں کو دن رات بے وقوف بنانے کی فکر میں رہتے ہیں مسلک انکا تقلید شخصی کا ہے لیکن اکثر دلائل تقلید مطلق کے دیتے ہیں۔حنفیوں ذرا ہوش میں آوکیونکہ مقلد حنفیوں کو مطلق تقلید کے دلائل پیش کرنا بھی غلط ہے اور کسی عبارت سے مطلق تقلید پر استدلال کرنا بھی دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ موجودہ حنفی چونکہ تقلید شخصی بھی صرف اور صرف ابوحنیفہ کی کرتے ہیں اس لئے ان پر لازم ہے کہ صرف ابوحنیفہ کی تقلید کے واجب ہونے پر قرآن وحدیث اور اجماع سے واضح دلائل پیش کریں۔

دوم ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ اگر آپ اپنے مسلک و مذہب ’’تقلید شخصی‘‘ کے بجائے مطلق تقلید پر بحث کریں۔ لیکن آپ تو اب تک احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے قول سے عامی پر مجتہد کی تقلید کا واجب ہونا بھی ثابت نہیں کر پائے۔

آپ عربی عبارات پر غور کر لیں بات سمجھ میں آجائے گي صرف تراجم سے کام چلائیے گے تو ایسی ہی مجتھدانہ کلام کرتے رہیں گے
آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں آپکے امام ابوحنیفہ کی طرح عربی زبان سے ناواقف ہوں! پھر بھی آپکا جان بوجھ کر عربی عبارات پیش کرنا غیر اخلاقی حرکت ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ عربی عبارات سے بھی آپکا موقف ثابت نہیں ہورہا ہوگا اسی لئے تو آپ نے انکا ترجمہ نہیں کیا اگر واقعی عربی عبارات آپ کے حق میں ہوتیں تو اب تک آپ انکا ترجمہ پیش کرچکے ہوتے۔ تلمیذ بھائی آپ اخلاقیات کا خیال کریں اور آئندہ دوران بحث برائے مہربانی ایسی عربی عبارات پیش نہ کریں جس پر آپکا استدلال قائم ہو۔

نوٹ: عربی نہ جانتے ہوئے جب ابوحنیفہ مجتہدانہ کلام کرسکتے ہیں تو میں کیوں نہیں جبکہ اجتہاد کا حق ہی صرف اہل حدیث کو ہوتا ہے۔

جی ہاں بالکل فرق ہے ۔ اہل حدیث اپنے علماء سے سوال ضرور کرتا لیکن ساتھ بغیر قابلیت کے خود بھی اجتھاد کرنے بیٹھ جاتا ہے اور اگر اس کا یہ جاہلانہ اجتھاد اپنے علماء کے مطابق نہیں ہوتا تو اپنے علماء کو بھی متساہل اور نہ جانے کیا کیا کہنے سے نہیں چوکتا
یہ تو فضول باتیں ہیں ورنہ سچ یہ ہے کہ ہر اہل حدیث اپنی استطاعت اور علم کے مطابق اجتہاد کرتا ہے لیکن کسی بھی مقام پر تقلید نہیں کرتا۔ پس میں نے بھی اپنے علم کے مطابق اجتہاد کیا اور استطاعت کے مطابق تحقیق کی۔

آپ کو غلطی فہمی لاحق ہوئی ہے میں نے اپنے تمام علماء پر تنقید نہیں کی بلکہ نام لئے بغیر صرف ان چند علماء پر جو واقعی متساہل ہیں معمولی تنقید کی ہے اور اس لسٹ میں صرف اہل حدیث علماء ہی شامل نہیں بلکہ دیگر فرقوں کے علمائے سوء بھی شامل ہیں جو واقعی بدعی اصولوں کو رواج دینے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

اگر تمام اہل حدیث صرف قرآن وحدیث سے مدلل جواب دیتے ہیں اور اپنی رائے کا رتی بھر بھی آمیزش نہیں کرتے تو ان میں کبھی اختلاف نہ ہوتا ۔ کیوں کہ قرآن و حدیث میں تو اختلاف ہے نہیں اگر آپ کے علماء میں اختلاف ہے تو وہ ان کی ذاتی رائے کی وجہ سے ہے ۔
کوئی اہل حدیث شرعی مسائل میں اپنی ذاتی رائے استعمال نہیں کرتا یہ صرف ابوحنیفہ ہی کا کام تھا۔ علمائے اہل حدیث میں اختلاف دو وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے پہلی وجہ دلائل کا راجح ااور مرجوع ہونا۔ اسکی ایک مثال قربانی کے ایام ہیں۔ اکثر اہل حدیث علماء چار دن کی قربانی کو جائز سمجھتے ہیں کیونکہ انکی تحقیق میں وہ احادیث راجح ہیں جن میں چار دن کی قربانی کا تذکرہ ہے۔ اسکے برعکس حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے نزدیک چار دن کی قربانی کی احادیث ضعیف و مرجوع ہیں جس کی بنا پر تین دن کی قربانی کا موقف ہی ان کے نزدیک راجح ہے۔ ایسا اختلاف مذموم نہیں کیونکہ ہر مجتہد چاہے وہ خطاء پر ہی کیوں نہ ہو ایک نیکی پانے کا حقدار تو ضرور ہے۔

دوسری وجہ حدیث کو سمجھنے کا اختلاف ہے جس کی حالیہ ایک مثال وضو کے بعد شرمگاہ پر پانی چھڑکنے کی ہے۔
حکم بن سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب پیشاب کرتے پھر وضو کرتے تو اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکتے تھے۔(ابوداود، نسائی) اس یا اس جیسی دیگر روایات کی بنیاد پر اہل حدیث وضو کے بعد شرمگاہ کے مقام پر شلوار پر پانی چھڑکتے ہیں۔ جبکہ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: کسی حدیث یا کسی صحابی سے شلوار پر پانی چھڑکنا ثابت نہیں۔(الحدیث: ١٠٢، ص ١٠) زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے نزدیک اس حدیث کا مطلب براہ راست شرمگاہ پر پانی چھڑکنا ہے ناکہ شلورا یا ازار پر! اپنے اس موقف پر حافظ صاحب نے ایک صحابی اور تابعی کا صحیح اثر بھی پیش کیا ہے۔ دیکھئے: (الحدیث: ١٠٢، ص ١٠)
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اگر آپ پہلی پوسٹ میں دیا گیا پوسٹر دیکھیں تو وہاں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ایک عبارت سے حنفیوں نے عامی پر مجتہد کی تقلید کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے جبکہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی علماء سے سوال پوچھنے کی نصیحت کو زبردستی تقلید سمجھنا اور اس پر ظلم کرتے ہوئے تقلید کے ساتھ واجب کا اضافہ کردینا انتہائی بددیانتی اور معنوی تحریف ہے۔ لیکن مقلدین کا یہ ظلم تلمیذ صاحب کو نظر نہیں آرہا کہ مقلدین ان حرکات کے اتنی بری طرح عادی ہوچکے ہیں کہ انہیں غلط بھی صحیح نظر آنے لگا ہے۔
میں نے کہا تھا کہ

یہاں امام احمد رحمہ اللہ کے حوالہ سے قول ذکر کیا گيا ہے وہ عامیوں کو چند علماء سے مسائل پوچھنے کا کہتے تھے لیکن اپنے مجتھد علماء کو اجتھاد کا کہتے تھے اور ان علماء سے مسائل پوچھنے سے روکتے تھے
ہر ذی عقل سمجھ سکتا ہے کہ یہاں امام احمد رحمہ اللہ عامیوں کا علماء سے مسائل پوچھنے کو تقلید کہ رہے ہیں۔
اب یہاں میں نے تقلید کے جواز یا عدم جواز ک بات ہی کوئی نہ کی صرف یا بات ہو رہی ہے امام احمد رحمہ اللہ کے نذدیک تقلید کا کیا مفہوم تھا ۔ میرے نذدیک یہ تھریڈ امام احمد کے ایک قول سججھنے کے لئیے ہے ۔ تقلید کے جواز و وجوب کے حوالہ سے احناف کی کتب قرآن و حدیث کے دلائل سے مزین ہیں اور وہاں بطور دلائل کے اقوال ائمہ نہیں بلکہ بطور تائید کے ہیں ۔ یہاں بھی امام احمد کا قول کا مقصد سمجھنا ہے نہ کہ تقلید کے جواز عدم جواز پر بات کرنا ۔ صاحب پوسٹر کے نظریہ سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں

میرا تقلید کو تقلید شخصی کی جانب لے جانا کوئی ایسا بڑا مسئلہ تو نہیں کہ جس پر آپ الزام تراشی اور کتربونیت کو میری جانب منسوب فرما رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ باقی نہیں رہا اور دلائل سے دامن خالی ہوچکا ہے (بلکہ دلائل سے تو خود امام صاحب کا دامن بھی خالی ہی رہا ہے تو مقلدین سے دلائل کی امید کس طرح کی جاسکتی ہے؟) اس لئے اب آپ فضول باتوں میں بحث کو الجھانا چاہ رہے ہیں۔

اول تو میں مطلق تقلید سے تقلید شخصی کی طرف اس لئے بات لے گیا کہ تقلیدمطلق کے آپ سرے سے قائل و فاعل ہی نہیں ہیں بلکہ مطلق تقلید تو آپ کے مذہب میں گمراہی، اور اپنے دین کو کھلونا بنا دینے کے مترادف ہے۔ تفصیل و دلائل یہاں دیکھئے: دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا
اس لئے آپ یہ اعتراض پیش کرسکتے تھے ایک حنفی سے مطلق تقلید کی بحث کرنا غلط ہے کیونکہ مطلق تقلید تو موجودہ حنفیوں کا مسلک و مذہب ہی نہیں ۔اب اگر میں خود ہی اصل موضوع پر آگیا تو اس پر بھی آپ کو اعتراض ہے جبکہ آپکو مجھ پر اعتراض کے بجائے میرا شکر گزار ہونا چاہیے تھا کہ میں نے آپکو خلط مبحث سے بچا لیا ہے۔

نجانے کیوں حنفی حضرات دوسروں کو دن رات بے وقوف بنانے کی فکر میں رہتے ہیں مسلک انکا تقلید شخصی کا ہے لیکن اکثر دلائل تقلید مطلق کے دیتے ہیں۔حنفیوں ذرا ہوش میں آوکیونکہ مقلد حنفیوں کو مطلق تقلید کے دلائل پیش کرنا بھی غلط ہے اور کسی عبارت سے مطلق تقلید پر استدلال کرنا بھی دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ موجودہ حنفی چونکہ تقلید شخصی بھی صرف اور صرف ابوحنیفہ کی کرتے ہیں اس لئے ان پر لازم ہے کہ صرف ابوحنیفہ کی تقلید کے واجب ہونے پر قرآن وحدیث اور اجماع سے واضح دلائل پیش کریں۔
نہ جانےکیوں مجھے یہ کبھی کبار یہ وہم ہونے لگا ہے کہ مسلک اہل حدیث کی بنیاد امام ابو حنیفہ اور حنفی مسلک کی مخالفت ہے ۔ بات کچھ بھی ہو اکثر اہل حدیث کی عادت ہے بات کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف ضرور لائیں گے۔ بھائی ہم صرف امام احمد رحمہ اللہ کے قول کے مفہوم پر بات کرہے ہیں ،
آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں آپکے امام ابوحنیفہ کی طرح عربی زبان سے ناواقف ہوں! پھر بھی آپکا جان بوجھ کر عربی عبارات پیش کرنا غیر اخلاقی حرکت ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ عربی عبارات سے بھی آپکا موقف ثابت نہیں ہورہا ہوگا اسی لئے تو آپ نے انکا ترجمہ نہیں کیا اگر واقعی عربی عبارات آپ کے حق میں ہوتیں تو اب تک آپ انکا ترجمہ پیش کرچکے ہوتے۔ تلمیذ بھائی آپ اخلاقیات کا خیال کریں اور آئندہ دوران بحث برائے مہربانی ایسی عربی عبارات پیش نہ کریں جس پر آپکا استدلال قائم ہو۔

نوٹ: عربی نہ جانتے ہوئے جب ابوحنیفہ مجتہدانہ کلام کرسکتے ہیں تو میں کیوں نہیں جبکہ اجتہاد کا حق ہی صرف اہل حدیث کو ہوتا ہے۔
اولا
آپ حضرات تو ہر معاملہ میں امام ابو حنیفہ کی مخالفت کرتے ہیں تو یہاں بھی مخالفت کرلیں ، یا تو آپ عربی سیکھ لیں یا مجتھد کے عھدے سے مستعفی ہوجائیں (ابتسامہ)
ثانیا
اہل حدیث حضرات کی مہربانی سے آج ایک عربی سے جاہل مجتھد دیکھنے کو بھی مل گيا اور پتا نہیں کیا کیا دیکھنے کو ملتا ہے
ثالثا
کیا آپ اپنے معتبر علماء کا فتوی ۔ تحریر دکھا سکتے ہیں کہ عربی پر عبور حاصل کیے بغیر اجتھاد کیا جاسکتا ہے
رابعا
اگر عربی زبان نہ جانتے ہوئے جو اجتھاد کر رہے ہیں اور بقول آپ کے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی ایسے کرتے تھے اس معاملہ آپ حنفی کب سے ہوگے

ی
ہ تو فضول باتیں ہیں ورنہ سچ یہ ہے کہ ہر اہل حدیث اپنی استطاعت اور علم کے مطابق اجتہاد کرتا ہے لیکن کسی بھی مقام پر تقلید نہیں کرتا۔ پس میں نے بھی اپنے علم کے مطابق اجتہاد کیا اور استطاعت کے مطابق تحقیق کی۔

آپ کو غلطی فہمی لاحق ہوئی ہے میں نے اپنے تمام علماء پر تنقید نہیں کی بلکہ نام لئے بغیر صرف ان چند علماء پر جو واقعی متساہل ہیں معمولی تنقید کی ہے اور اس لسٹ میں صرف اہل حدیث علماء ہی شامل نہیں بلکہ دیگر فرقوں کے علمائے سوء بھی شامل ہیں جو واقعی بدعی اصولوں کو رواج دینے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
میرے خیال میں تکفیر معین کے سلسلے میں آپ نے اپنے تمام علماء کو نشانہ بنایا تھا ۔ آپ کی تنقید سے وہ علماء مستثنی ہو گے جنہوں نے دیوبندیوں یا بریلویں کی تکفیر معین کی ہوگي ۔ ایسے علماء کی مجھے فہرست دکھدایں
کوئی اہل حدیث شرعی مسائل میں اپنی ذاتی رائے استعمال نہیں کرتا یہ صرف ابوحنیفہ ہی کا کام تھا۔ علمائے اہل حدیث میں اختلاف دو وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے پہلی وجہ دلائل کا راجح ااور مرجوع ہونا۔ اسکی ایک مثال قربانی کے ایام ہیں۔ اکثر اہل حدیث علماء چار دن کی قربانی کو جائز سمجھتے ہیں کیونکہ انکی تحقیق میں وہ احادیث راجح ہیں جن میں چار دن کی قربانی کا تذکرہ ہے۔ اسکے برعکس حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے نزدیک چار دن کی قربانی کی احادیث ضعیف و مرجوع ہیں جس کی بنا پر تین دن کی قربانی کا موقف ہی ان کے نزدیک راجح ہے۔ ایسا اختلاف مذموم نہیں کیونکہ ہر مجتہد چاہے وہ خطاء پر ہی کیوں نہ ہو ایک نیکی پانے کا حقدار تو ضرور ہے۔

دوسری وجہ حدیث کو سمجھنے کا اختلاف ہے جس کی حالیہ ایک مثال وضو کے بعد شرمگاہ پر پانی چھڑکنے کی ہے۔
حکم بن سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب پیشاب کرتے پھر وضو کرتے تو اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکتے تھے۔(ابوداود، نسائی) اس یا اس جیسی دیگر روایات کی بنیاد پر اہل حدیث وضو کے بعد شرمگاہ کے مقام پر شلوار پر پانی چھڑکتے ہیں۔ جبکہ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: کسی حدیث یا کسی صحابی سے شلوار پر پانی چھڑکنا ثابت نہیں۔(الحدیث: ١٠٢، ص ١٠) زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے نزدیک اس حدیث کا مطلب براہ راست شرمگاہ پر پانی چھڑکنا ہے ناکہ شلورا یا ازار پر! اپنے اس موقف پر حافظ صاحب نے ایک صحابی اور تابعی کا صحیح اثر بھی پیش کیا ہے۔ دیکھئے: (الحدیث: ١٠٢، ص ١٠)
یہی وہ تعصب ہے جس کی وجہ میں اہل حدیث حضرات کو سخت علطی پر سمجھتا ہوں ، جب اپنے علماء کے اختلاف کی بات ہو تو راجح و مرجوح کی بات کردیتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ حدیث کو سمجھنے کا اختلاف ہے لیکن جب احناف سے کسی حدیث پر اختلاف ہو تو احناف کو احادیث کا مخالف گردانا جاتا ہے
اللہ ہی سے ہدایت کا سوال ہے
 
Top