وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مقتدی کیلئے سورۂ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ جس کی دلیل یہ حدیث مبارکہ ہے:
عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔ ( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن )
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔
پہلے اس بات کو صراحتاً ثابت کریں کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی تھی۔ علاوہ ازیں یاد رہے کہ واقعہ اسراء ومعراج مکی دور کا ہے۔
اسلام علیکم،
بھائی میرا یہاں سوال کرنے کا مقصد اپنی اصلاح کرنی ہے نا کہ لڑائی،اچھا تو بات کو اگے بڑھاتے ہیں
تو محترم بھائی یہاں کچھ احادیث دے رہا ہوں تو اس کی بھی وضاحت کریں،جزاک اللہ خیرا
عن جابر بن عبد اللہ قال قال النبی ص، من کان لہ امام فقراۃ الامام لہ قراۃ،،،ابن ماجہ ص،61) ،،،،( عن انس قال قال صلی بنا رسول اللہ ثم اقبل علینا بوجھہ فقال اتقرٰون والامام یقرا فسکتوا فسالھم ثلاثا فقالوا انا نفعل قال فلا تفعلوا،،،طحاوی ص،107) ( عن جابر بن عبد اللہ قال قال رسول اللہ من صلی خلف امام فان قراۃ الامام لہ قراۃ ،،طحاوی ،ص،106) ،،،،،اب آخری حدیث پیش کرتا ھوں ( عن ابی ھریرہ ان رسول اللہ قال من ادرک رکعۃ من الصلاۃ فقد ادرکھا قبل ان یقیم الامام صلبہ ،،،دارقطنی ،ص،348) ،،،،،اس حدیث میں غور کرو کہ جس نے امام کی پشت سیدھی ھونے سے پیلے امام کو رکوع میں پالیا تو اس نے رکعت پالی،