• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام اور مقتدی کے لیے قرات کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم سہج صاحب -

پہلے محترم آپ لولی آل ٹائم صاحب کا جواب پیش کردیں -کہ آپ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے قول کو حجت مانتے ہیں یا نہیں-پھر اس مسلے پر مزید بات ہوگی - آپ احناف کا حال تو یہ ہے کہ اپنے امام کی باتوں سے ہی انحراف کر جاتے ہیں - تو پھر احادیث نبوی پر بحث و مباحثہ کیسا ؟؟- آپ' کے اپنے پیارے امام ابو حنیفہ رح اپنے آخری وقت میں فاتحہ خلف الامام کے قائل ہوگئے تھے -لیکن کیا کریں کہ ان احناف کے علماء غیر مقلدین کی دشمنی میں اتنے آگے بڑھہ گئے کہ اپنے ہی امام تک کو اس مسلے میں رجوع کرنے پر ان کے نظریات سے مونھ پھیر لیا -باقی معملات تو دور کی بات -آج تک یہ دیوبندی احناف جو تصوف کے دلدادہ ہیں یہ ثابت نہیں کر سکے کہ حنفیت کی رو سے تصوف فرض ہے، واجب ہے ، سنّت ہے نفل ہے یا فرض کفایہ ہے ؟؟ لیکن سوال اٹھاتے ہیں فاتحہ خلف الامام پر کہ آیا یہ فرض ہے یا واجب یا سنّت ؟؟
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
سہج بھائی پہلے آپ اپنا حلف نامہ لکھ کر یہاں لگا دیں کہ آپ سوفیصد ممبران صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قول کو حجت مانتے ہیں یا نہیں​
کیوں کہ آپ کے اپنے پیارے بابے یہ فتویٰ دے رھے ہیں​
ہم آپ کی بات کو مانیں یا آپ کے بابوں کی​
پہلے اپنے بابوں کی فکر کرو میرے بھائی پھر دوسروں سے حلف نامہ لکھوا لو​
مسٹر لولی ساراوقت جھوٹے پر اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے "شاید" آپ جانتے ہوں؟

اسلئے آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ پیش کردہ فتوٰی کی عبارت میں سے یہ الفاظ نشان لگا کر واضح کردیں کہ صحابہ کا ذاتی اجتہاد حجت نہیں اگر یہ الفاظ فتوے میں نہیں تو پھر اپنے آپ کو جھوٹا مان لو اور خاموشی کے ساتھ محمد علی جواد کو جوابی مراسلہ لکھنے دو ۔

باقی رہی بات یہ کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی باتوں کو حجت مانتے ہیں یا نہیں اس کا جواب ہی تو آپ کے ہم فرقہ محمد علی جواد سے مانگا تھا ؟ یہ عجیب دغا بازی ہے کہ میرے سوال کو ہی مجھ پر الٹا کر تھریڈ کا موضوع تبدیل کرنے کی کوشش شروع ؟ جبکہ میں نے عین تھریڈ کے موضوع میں رہتے ہوئے اس طرح کی بات کی تھی۔

مسٹر لولی سارا وقت پہلے مجھے میرے سوال کا جواب حاصل کرنے دیں کیوں کہ اس تھریڈ میں محمد علی جواد صاحب نے قول صحابی کو پیش کیا ہے آپ کے فرقہ کے نزدیک ایک فرض کو "فرض" ثابت کرنے کے لئے ۔ اور اسے اسی صورت میں ثابت مانا جاسکتا ہے جب صحابہ کو حجت است ماننا ثابت فرمائیں۔

امید ہے کہ محمد علی جواد صاحب ڈھکوسلہ قسم کے ھتھکنڈے استعمال نہیں کریں گے جواب دینے سے بھاگنے کی خاطر کیونکہ جو سوال میں نے اٹھائے ہیں ان کا جواب آنا چاھئے ناکہ کسی کی ٹانگ اڑالینے پر اس کی آڑ لیکر چھپ کر بیٹھ جانا۔

شکریہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
مسٹر لولی ساراوقت جھوٹے پر اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے "شاید" آپ جانتے ہوں؟

اسلئے آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ پیش کردہ فتوٰی کی عبارت میں سے یہ الفاظ نشان لگا کر واضح کردیں کہ صحابہ کا ذاتی اجتہاد حجت نہیں اگر یہ الفاظ فتوے میں نہیں تو پھر اپنے آپ کو جھوٹا مان لو اور خاموشی کے ساتھ محمد علی جواد کو جوابی مراسلہ لکھنے دو ۔

باقی رہی بات یہ کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی باتوں کو حجت مانتے ہیں یا نہیں اس کا جواب ہی تو آپ کے ہم فرقہ محمد علی جواد سے مانگا تھا ؟ یہ عجیب دغا بازی ہے کہ میرے سوال کو ہی مجھ پر الٹا کر تھریڈ کا موضوع تبدیل کرنے کی کوشش شروع ؟ جبکہ میں نے عین تھریڈ کے موضوع میں رہتے ہوئے اس طرح کی بات کی تھی۔

مسٹر لولی سارا وقت پہلے مجھے میرے سوال کا جواب حاصل کرنے دیں کیوں کہ اس تھریڈ میں محمد علی جواد صاحب نے قول صحابی کو پیش کیا ہے آپ کے فرقہ کے نزدیک ایک فرض کو "فرض" ثابت کرنے کے لئے ۔ اور اسے اسی صورت میں ثابت مانا جاسکتا ہے جب صحابہ کو حجت است ماننا ثابت فرمائیں۔

امید ہے کہ محمد علی جواد صاحب ڈھکوسلہ قسم کے ھتھکنڈے استعمال نہیں کریں گے جواب دینے سے بھاگنے کی خاطر کیونکہ جو سوال میں نے اٹھائے ہیں ان کا جواب آنا چاھئے ناکہ کسی کی ٹانگ اڑالینے پر اس کی آڑ لیکر چھپ کر بیٹھ جانا۔

شکریہ


جواب دیں گے اور حنفی حضرات ۔ جھوٹی فقہ جھوٹے امام جھوٹی کتابیں جس کا مذہب ہوں - وہ جواب دیں گے -
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
جواب دیں گے اور حنفی حضرات ۔ جھوٹی فقہ جھوٹے امام جھوٹی کتابیں جس کا مذہب ہوں - وہ جواب دیں گے -
مسٹڑ لولی ساراوقت آپ سے صرف یہی گزارش کی ہے کہ آپ کے ہی پیش کردہ فتوے میں صرف یہ دکھادیں کہ صحابہ کا ذاتی اجتہاد حجت نہیں کہاں لکھا ہوا ہے ؟ بس ۔ اس میں اتنا ناراض کیوں ہورہے ہیں ۔(مسکراتے ہوئے)
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
مسٹر لولی ساراوقت جھوٹے پر اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے "شاید" آپ جانتے ہوں؟

اسلئے آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ پیش کردہ فتوٰی کی عبارت میں سے یہ الفاظ نشان لگا کر واضح کردیں کہ صحابہ کا ذاتی اجتہاد حجت نہیں اگر یہ الفاظ فتوے میں نہیں تو پھر اپنے آپ کو جھوٹا مان لو اور خاموشی کے ساتھ محمد علی جواد کو جوابی مراسلہ لکھنے دو ۔

باقی رہی بات یہ کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی باتوں کو حجت مانتے ہیں یا نہیں اس کا جواب ہی تو آپ کے ہم فرقہ محمد علی جواد سے مانگا تھا ؟ یہ عجیب دغا بازی ہے کہ میرے سوال کو ہی مجھ پر الٹا کر تھریڈ کا موضوع تبدیل کرنے کی کوشش شروع ؟ جبکہ میں نے عین تھریڈ کے موضوع میں رہتے ہوئے اس طرح کی بات کی تھی۔

مسٹر لولی سارا وقت پہلے مجھے میرے سوال کا جواب حاصل کرنے دیں کیوں کہ اس تھریڈ میں محمد علی جواد صاحب نے قول صحابی کو پیش کیا ہے آپ کے فرقہ کے نزدیک ایک فرض کو "فرض" ثابت کرنے کے لئے ۔ اور اسے اسی صورت میں ثابت مانا جاسکتا ہے جب صحابہ کو حجت است ماننا ثابت فرمائیں۔

امید ہے کہ محمد علی جواد صاحب ڈھکوسلہ قسم کے ھتھکنڈے استعمال نہیں کریں گے جواب دینے سے بھاگنے کی خاطر کیونکہ جو سوال میں نے اٹھائے ہیں ان کا جواب آنا چاھئے ناکہ کسی کی ٹانگ اڑالینے پر اس کی آڑ لیکر چھپ کر بیٹھ جانا۔

شکریہ

محترم سہج صاحب -

ہم تو صحابہ کرام کے فہم کے قائل ہیں اور آئمہ کے اقوال پر ان کے فہم کو فوقیت دینے والے ہیں - البتہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان سے بھی خطاء ممکن ہے- اگر آپ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے فہم کو اپنے امام کے فہم پر فوقیت دیتے ہیں تو اچھی بات ہے -اور یہ بھی کہ آپ کے اس مرسلے میں احادیث نبوی کو ہی اصل فوقیت ہے (احناف کے فہم کو کوئی فوقیت نہیں ہے ) تو ہم مزید اس موضوع پر بحث و مباحثہ علمی انداز میں کر سکتے ہیں-

لیکن اگر آپ کا مقصد حنفی ہونے کی حثیت سے غیرمقلدین کو نیچا دکھانا ہے تو میں مزید کچھ لکھنے سے معذرت کروں گا - کیوں کہ آپ کا بار بار یہی سوال ہے کہ ثابت کریں کہ فاتحہ خلف الامام فرض ہے یا سنّت ہے یا واجب ؟؟؟ - تو پھر ہم غیر مقلدین بھی آپ احناف سے بہت سے معاملات میں یہ سوال کرنے کے لئے حق بجانب ہیں کہ :

بہت سے امور جو آپ کے ہاں رائج ہیں اور جن کو آپ دین میں اولیت دیتے ہیں جیسے:
تیجا ، چالیسواں ، تصوف ، قبر پرستی، مردے کا سننا، سر پر ٹوپی رکھ کر نماز پڑھنا، نماز کے بعد امام کا لمبی چوڑی اجتماعی دعایں کرنا- کیا یہ سب کچھ جائز یا نا جائز ہے اگر جائز ہے تو فرض ہے یا سنّت ہے، واجب ہے یا نفل ہے وغیرہ ؟؟ اور یہ سب کچھ آپ کو فقہ حنفی سے ثابت کرنا ہو گا - کیوں تیار ہیں آپ اس کے لئے؟؟؟

آپ کے جواب کا انتظار رہے گا - تا کہ مزید فاتحہ کاخلف الامام پر بات ہو سکے -
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
محترم سہج صاحب -

ہم تو صحابہ کرام کے فہم کے قائل ہیں اور آئمہ کے اقوال پر ان کے فہم کو فوقیت دینے والے ہیں - البتہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان سے بھی خطاء ممکن ہے- اگر آپ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے فہم کو اپنے امام کے فہم پر فوقیت دیتے ہیں تو اچھی بات ہے -اور یہ بھی کہ آپ کے اس مرسلے میں احادیث نبوی کو ہی اصل فوقیت ہے (احناف کے فہم کو کوئی فوقیت نہیں ہے ) تو ہم مزید اس موضوع پر بحث و مباحثہ علمی انداز میں کر سکتے ہیں-

لیکن اگر آپ کا مقصد حنفی ہونے کی حثیت سے غیرمقلدین کو نیچا دکھانا ہے تو میں مزید کچھ لکھنے سے معذرت کروں گا - کیوں کہ آپ کا بار بار یہی سوال ہے کہ ثابت کریں کہ فاتحہ خلف الامام فرض ہے یا سنّت ہے یا واجب ؟؟؟ - تو پھر ہم غیر مقلدین بھی آپ احناف سے بہت سے معاملات میں یہ سوال کرنے کے لئے حق بجانب ہیں کہ :

بہت سے امور جو آپ کے ہاں رائج ہیں اور جن کو آپ دین میں اولیت دیتے ہیں جیسے:
تیجا ، چالیسواں ، تصوف ، قبر پرستی، مردے کا سننا، سر پر ٹوپی رکھ کر نماز پڑھنا، نماز کے بعد امام کا لمبی چوڑی اجتماعی دعایں کرنا- کیا یہ سب کچھ جائز یا نا جائز ہے اگر جائز ہے تو فرض ہے یا سنّت ہے، واجب ہے یا نفل ہے وغیرہ ؟؟ اور یہ سب کچھ آپ کو فقہ حنفی سے ثابت کرنا ہو گا - کیوں تیار ہیں آپ اس کے لئے؟؟؟

آپ کے جواب کا انتظار رہے گا - تا کہ مزید فاتحہ کاخلف الامام پر بات ہو سکے -
محمد علی جواد صاحب آپ نے امام کے پیچھے قرآن کی سورۃ فاتحہ پڑھنے کو مقتدی کے لئے فرض قرار دیا اور پیش کیا قول صحابی ۔ تو بھائی میرے اسی لئے میں نے پوچھا تھا قول صحابی کی حجیت کے بارے میں ۔بس اتنی سی بات ہے۔
آپ بے شک صحابی کے قول سے فرض واجب مانو مگر واضح تو کرو کہ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ ہم اللہ اور اللہ کے رسول کی بات کو ہی دلیل مانتے ہیں اور آپ ہیں کہ قول صحابی سے "فرض" کو ثابت فرمارہے ہیں ۔

برائے مہربانی میری پوسٹ39 کے مطابق جواب پیش کیجئے ۔
شکریہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
مسٹڑ لولی ساراوقت آپ سے صرف یہی گزارش کی ہے کہ آپ کے ہی پیش کردہ فتوے میں صرف یہ دکھادیں کہ صحابہ کا ذاتی اجتہاد حجت نہیں کہاں لکھا ہوا ہے ؟ بس ۔ اس میں اتنا ناراض کیوں ہورہے ہیں ۔(مسکراتے ہوئے)

آپ صحابہ کا ذاتی اجتہاد حجت نہیں کی بات کر رھے ہیں - ارے میرے بھائی آپ کی فقہ شریف تو صحابہ کی صحابیت سے ہی انکار کر رہی ہے -

sihabiyat say ankar.jpg


کیا اب صحابہ کرام کو فقہ حنفی کی ضرورت ھو گی اپنے آپ کو صحابی کہلوانے کی




۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اچھی بات ہے کہ آپ کم از کم یہ تو تسلیم کرلئے کہ سورۃ فاتحہ قرآن ہی کی اک سورۃ ہے ۔

رہی بات یہ کہ ترمذی کی یہ حدیث آپ نے پیش کی

تو اس حدیث کے فورا بعد امام ترمذی نے اگلے باب میں بھی دو احادیث پیش فرمائی ہیں اور ان میں سے ایک کو حسن اور دوسری کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔
دیکھئے
حدثنا الأنصاري حدثنا معن حدثنا مالك بن أنس عن ابن شهاب عن ابن أكيمة الليثي عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال هل قرأ معي أحد منكم آنفا فقال رجل نعم يا رسول الله قال إني أقول مالي أنازع القرآن قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلوات بالقراءة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وفي الباب عن ابن مسعود وعمران بن حصين وجابر بن عبد الله قال أبو عيسى هذا حديث حسن
سنن الترمذي،کتاب الصلاۃ
ترجمہ
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اک مرتبہ جہری نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک شخص نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب ہی تو میں کہتا ہوں کہ مجھ سے قرآن میں جھگڑا کیوں کیا جاتا ہے۔راوی کہتے ہیں پھر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت سے رک گئے۔اس باب میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایات مروی ہیں۔ امام ابو عیسٰی ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے۔
اسی حدیث کے ساتھ ہی چند سطر بعد حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی کا قول نقل فرماتے ہیں اس حدیث کے بارے میں جسے آپ نے پیش کیا
قال أحمد بن حنبل فهذا رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم تأول قول النبي صلى الله عليه وسلم لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب أن هذا إذا كان وحده
ترمذی ،کتاب الصلاۃ،جلد اول
ترجمہ
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اکیلے نماز پڑھنے والے پر محمول ہے ۔ان کا استدلال حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہے کہ انہون نے فرمایا جس شخص نے کسی رکعت میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی گویا کہ اس نے نماز نہیں پڑھی ہی نہیں سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے (مقتدی) ہو۔
ترمذی ،کتاب الصلاۃ،جلد اول
پس ثابت یہ ہوتا ہے کہ پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی اجازت تھی بعد میں منع کردیا گیا اور مندرجہ بالا حدیث میں بھی یہی ظاہر ہے کہ
قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلوات بالقراءة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم
راوی کہتے ہیں پھر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت سے رک گئے
دوسری حدیث جو امام ترمذی رحمہ اللہ لائے ہیں اس سے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو قراءت نہیں کرنی سوائے اکیلے نمازی کے۔
حدثنا اسحٰق بن موسٰی الانصاری نا معن نا مالک عن ابی نعیم وھب ابن کیسان انہ سمع جابر بن عبداللہ یقول من صلی رکعۃ ثم یقرا فیھا بام القران فلم یصل الا یکون وراء الامام۔ ھذٰا حدیث حسن صحیح۔


ترمذی جلد اول صفحہ 212


ترجمہ
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس نے اک رکعت بھی سورۃ فاتحہ کے بغیر گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


ایسی بات کہنے سے پہلے آپ کو کوئی صریح حدیث پیش کرنا ضروری تھا کہ جس میں ہوتا کہ سری نمازوں میں اور ہر نماز جو امام کے پیچھے پڑھی جاتی ہے اس کی تیسری اور چوتھی رکعت میں قرآن کی سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔
لیکن آپ نے یا امتیوں کی رائے کی پیروی کی ہے یا اپنی رائے پیش کی ہے جو کہ آپ کی دلیل نہیں ۔
جو بات آپ کی دلیل بن سکتی ہے وہ میں پہلے پیش کرچکا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ۔دیکھئے



ترمذی جلد اول کی اس حدیث میں مطلق منع وارد ہوا ہے مقتدی کے لئے خواہ جہری نماز ہو یا سری خواہ پہلی رکعت ہو یا دوسری،تیسری یا چوتھی۔ بغیر تاویل کئے تو یہی مطلب نکلتا ہے اور اگر آپ دیکھیں تو یہ حدیث حسن صحیح ہے ، سونے پر سہاگہ اسی کو کہتے ہیں ۔

امام کی آواز سنائی دے یا نہ دے امام قراءت تو کرتا ہی ہے ناں ؟ اگر آپ جہری نماز میں خاموشی کے قائل ہیں تو پھر یہ بتائیے کہ آپ کو جماعت شروع ہوتے وقت ایسی جگہ ملی جو امام سےآٹھ دس صف پیچھے ہو اور لاؤڈ اسپیکر بھی خاموش ہوجائے پھر آپ کیا کریں گے ؟ یاد رہے نماز جہری ہے امام قراءت کر رہا ہے یہ آپ کو معلوم ہے مگر آواز آپ تک نہیں پہنچ رہی پھر آپ آمین بھی فاتحہ کے اختتام پر نہیں کہہ سکتے کیونکہ آمین تو کہنی ہے امام کے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہنے پر ۔مگر آپ جس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس میں پھر آپ کو دیگر مقتدیوں کی تقلید کرنی پڑے گی ،کیونکہ جو مقتدی امام کے پاس ہیں اور وہ قراءت سن رہے ہیں ،وہ تو امام کے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہنے پر آمین کہہ لیں گے اور آپ جو امام کی آواز نہیں سن سکتے ،آمین کہیں گے دیگر مقتدیوں کی آمین کی تقلید میں ۔
ایسی صورت میں اگر آپ جہری نماز میں قراءت اپنی کریں گے تو صریح احادیث کی مخالفت ہوگی یا نہیں ؟اور اگر تقلید کرتے ہوئے دیگر مقتدیوں کی، آمین کہیں گے تو تقلید کے مرتکب ہوں گے یا نہیں ؟ ان دونوں سوالوں کے جواب بھی بادلیل دیجئے گا ۔

حدیث نمبر1 اور حدیث نمبر دو
حدیث نمبر1
واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
جب وہ (امام)قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔
حدیث نمبر 2
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،انما جعل الامام لیؤتم بہ فاذا کبر فکبروا واذا قراء فانصتوا
سنن ابن ماجۃ صفحہ 61،سنن النسائی جلد 1 صفحہ146
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد گرامی نقل فرماتے ہیں کہ امام اسلئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے اس لئے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔
بے شک ان دونوں احادیث میں سر کی صراحت نہیں لیکن تیسری حدیث میں مطلق منع آیا ہے اسے آپ نے نظر انداز کردیا یا سمجھ نہیں سکے؟
دیکھئے
حدیث نمبر3
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : کل صلاۃ لایقراء فیھا باءم الکتاب فھی خداج الا صلاۃ خلف امام
کتاب القراءۃ للبیہقی صفحہ 170،171
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نامکمل ہے مگر وہ نماز (نامکمل نہیں) جو امام کے پیچھے پڑھی جائے۔
اس حدیث میں مطلق امام کے پیچھے نماز کا زکر آیا ہے اور اس میں جہری و سری دونوں قسم کی نمازوں کا حکم موجود ۔ الحمدللہ



کیا اس حدیث میں مقتدی کا ذکر ہے ؟ یا یہ آپ کی یا کسی اور امتی کی رائے ہے کہ یہ حدیث مقتدیوں کے بارے میں ہے ؟


مجھے کم از کم اس حدیث میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ جس سے معلوم ہو کہ امام کے پیچھے نماز پڑھنے والے مقتدی کو بھی شامل کیا گیا ہے،(اگر اس حدیث میں ایسی کوئی بات ہے تو برائے مہربانی اس پر نشان لگاکر دوبارہ پیش کردیجئے گا) ۔ ہاں جب امام یا منفرد نماز پڑھے گا تو اس پر آپ اس حدیث کو مان سکتے ہیں ۔ محمد علی جواد صاحب کوئی ایسی حدیث پیش کریں جس میں صریحا مقتدی کے بارے میں حکم ہو کہ وہ امام کے پیچھے قرآن کی سورۃ فاتحہ پڑھا کرے اسکے بغیر اس کی نماز ناقص ہے اور امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا فرض ،واجب یا سنت ہے۔

ابوداؤد کی اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے اور اسی حوالے سے اوپر کچھ گزارشات پیش کردی ہیں اور یہاں چونکہ آپ نے صرف ابوداؤد کی صحیح حدیث لکھا ہے اسلئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ اپنی طبیعت سے ھٹ کر لکھوں تاکہ دیکھنے پڑھنے والے آپ کے لکھے کو پڑھ کر کہ "ابوداؤد کی صحیح حدیث"،مغالطہ میں نہ پڑ جائیں۔ناچاھتے ہوئے بھی لکھ رہا ہوں کہ
مزکورہ حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
اب آپ سے پہلی گزارش ہے کہ خود آپ کے نزدیک غیر صحیح حدیث کو صحیح نہ کہیں ہاں امام ترمذی رحمہ اللہ نے "حسن" کہا ہے تو ٹھیک ہے ۔ مگر ترمذی کی ہی دو مزید احادیث میں نے پیش کردی ہیں جنہیں امام ترمذی رحمہ اللہ نے "حسن" اور "حسن صحیح" قرار دیا ہے جن سے ترک قراءت خلف الامام ثابت ہورہی ہے۔



کوئی دلیل صریح کہ ہر ہر نماز کی ہر ہر رکعت میں امام کے پیچھے صرف قرآن کی سورۃ فاتحہ پڑھنا فرض ہے؟



پہلی بات
سب سے پہلے تو مزکورہ حدیث میں آپ کے موقف پر فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے بلکہ قول صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے ۔ اور بدقسمتی سے قول صحابی کو آپ حجت تسلیم نہیں کرتے اور کر بھی نہیں سکتے ۔ کیونکہ اگر اس قول صحابی کو حجت تسلیم کریں گے آپ ، تو پھر حلفا کہنا پڑھے گا آپ کو کہ جتنے بھی قول صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں تمام اختلافی مسائل میں ان سب کو بھی ماننا ہوگا اور منوانا بھی ہوگا آپکی جماعت سے ۔ کم از کم اس فورم پر تو ماننا ہی پڑے گا ۔ اشارہ میں دئیے دیتا ہوں موٹے موٹے مسائل کا۔
تین طلاق
بیس تراویح
دوسری آذان
وغیرہ
اگر تو آٌپ تیار ہیں ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے قول کو حجت ماننے کے لئے تو پھر ایک حلف نامہ پہلے آپ کی جماعت اہل حدیث کی جانب سے پوسٹ کردیجئے اور سب اہل حدیث ممبران اس پر متفق کا بٹن دبائیں پھر اگر سوفیصد ممبران صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قول کو حجت مان لیں تو پھر ٹھیک ہے میں آپ کے حق میں اس حدیث کو تسلیم کرلوں گا کہ یہ حدیث آپ کو ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان مبارک کے مطابق سمجھنے اور ماننے اور عمل کرنے کا حق دیتی ہے ۔لیکن اگر آپ قول صحابی کو حجت نیست مانتے ہیں تو پھر میری نظر میں آپ کو قول صحابی پیش کرکے من پسند معنی لینے کا بھی کوئی حق نہیں ۔
دوسری بات
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فرمان عالی شان ہے کہ اقرابہا فی نفسک اس کا ایک معنی آپ نے کیا ہے کہ آہستہ پڑھاکرو ۔ اب یہ آپ بتادیں کہ کتنا آہستہ پڑھنا ہے ؟ کیونکہ اس کا معنی یہ بھی آیا ہے کہ "جب تم اکیلے ہو تو پڑھاکرو" اور دل میں پڑھا کرو ۔
کتنا آہستہ پڑھنا ہے اس بارے میں وضاحت آپ کردیں ،کیونکہ دل میں پڑھنا قراءت نہیں اور اکیلے پڑھنے والا مطلب میرے موقف کی حمایت کرتا ہے کہ دل میں پڑھنا نماز کو کافی نہیں جب تک کہ اپنے ہی کان میں آواز نہ آئے ۔(مجھے مولوی صاحب نے یہی سمجھایا تھااور میں اس بات کو مانتا ہوں کیونکہ جاہل جو ہوا) اور میں جب اکیلا نماز پڑھتا ہوں تو اتنی آواز میں پڑھتا ہوں کہ میرے اپنے کانوں تک میری آواز آتی ہی ہے اور یہ کام دل میں پڑھنے سے نہیں ہوسکتا کیونکہ زبان ہلتی نہیں اور کان میں آواز آتی نہیں۔
امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے؟
اب آتے ہیں کچھ ایسی باتوں کی طرف جنہیں آپ نے اپنے جواب میں شامل نہیں کیا
1

بہت ضروری سوال ہے محمد علی جواد صاحب ۔اسکا جواب دینا اب نہ بھولئے گا ۔چونکہ آپ پچلی اپنی پوسٹ میں فرض کہہ چکے ہیں تو اب آپ کو فرض کہنے والی زات کا بتانا ہے اور کچھ علماء فرقہ جماعت اہل حدیث واجب بھی کہتے رہے ہیں اس زات کا بھی نام بتائیے گا کہ واجب،فرض وغیرہ کہنے والی زات کونسی ہے؟
2

-
-
-
-

شکریہ
والسلام

السلام و علیکم محترم -

پہلی بات تو یہ کہ قول رسول صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا پتا ہی قول صحابی سے لگتا ہے - تو ظاہر ہے صحابی حجت ہوا - اور اس بنیاد پر اسماء رجال کا علم وجود میں آیا کہ کون سا قول رسول صل الله علیہ و آ لہ وسلم صحیح ہے کون سا ضعیف-

دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی عمل کے فرض ہونے کے لئے قول رسول مندرجہ ذیل خصوصیت کا حامل ہونا ضروری ہے:

١- قول رسول متواتر ہو اور صحیح روایات سے ثابت ہو -اگر خبر واحد ہو تو اس کے تعارض میں کوئی دوسری حدیث موجود نہ ہو -
٢-قول رسول میں اس عمل کی بہت زیادہ تاکید ہو اور فضیلت و ثواب میں بھی بہت زیادہ ہو -
٣-قول رسول میں اس عمل کے نہ کرنے پر وعید ہو یا اس عمل کی یا اس نوعیت کے دوسرے عمل کی عدم قبولیت پائی جائے- (مثال کے طور پر ایک انسان عشاء کے فرض چھوڑ دیتا ہے اور وتر پڑھ لیتا ہے تو وتر قبول نہیں ہونگے)- یا ان کے پڑھنے والے کو وتر کا ثواب نہیں ملے گا -
٤-قول رسول میں اس عمل کے بجا لانے پر انسان قادر ہو (جیسے حج کرنا اگرچہ ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن اگر استطاعت نہ ہو تو فرض نہیں ہوتا)
٥-صحابہ کرام کی اکثریت کا اس عمل کی فرضیت پر اجماع ہو -

فرض نہ ہونے کی ایک مثال وہ امور کہ جن کے بارے میں اگر چہ احادیث نبوی میں بہت تاکید آئی ہے جیسے مسواک اور تہجد کی نماز وغیرہ کی بہت فضیلت اور تاکید ہے - لیکن اس عمل کے نہ بجا لانے پر کوئی وعید وغیرہ نہیں - اس لئے فرض نہیں -

نومولود بچے کے کا عقیقہ کرنے کی تاکید لیکن نہ کرنے پر وعید نہیں ہے - اس لئے فرض نہیں -

آئمہ و مجتہدین کا سوره فاتحہ خلف الامام کا فرض ہونے کی دلیل یہی مندرجہ بالا اصول ہیں -

جیسے نماز میں قیام کے متعلق سب جانتے ہیں کہ یہ فرض ہے اس طرح سوره فاتحہ خلف الامام فرض ہے

اب سوال یہ ہے کہ جو احادیث آپ نے پیش کیں ہیں کہ جن میں امام کی قراءت کے دوران مقتدی کو کچھ بھی پڑھنے سے روکا گیا ہے -

ال أحمد بن حنبل فهذا رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم تأول قول النبي صلى الله عليه وسلم لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب أن هذا إذا كان وحده
ترمذی ،کتاب الصلاۃ،جلد اول
ترجمہ

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اکیلے نماز پڑھنے والے پر محمول ہے

اس کو سوره فاتحہ خلف الامام کے پیچھے نہ پڑھنے پر محمول کر بھی لیں - تو اگر کوئی مقتدی غلطی سے سوره فاتحہ پڑھ بھی لیتا ہے - کیا اس کی نماز فاسد ہو گی یا اس پر کوئی وعید کی گئی یا فاتحہ خلف الامام کرنے والے کو سجدہ سہو کرنا پڑے گا وغیرہ وغیرہ - اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ اس کو احدیث نبوی سے ثابت کریں ؟؟؟ جب ایسا نہیں تو پھر کون سی چیز ایسی ہے جو فاتحہ خلف الامام کو فرض ہونے میں مانع ہونے سے روک رہی ہے؟؟

جب کہ وہ احدیث نبوی جن میں فاتحہ خلف الامام کی تاکید کی گئی ہے - اور نہ پڑھنے کی صورت میں نماز کے فاسد ہونے کی وعید بھی کی گئی ہے - تعداد میں بہت زیادہ ہیں

علامہ سندھی حنفی حاشیہ بخاری (1 / 95) پر لکھتے ہیں:
والحق أن الحدیث یفید بطلان الصلاۃ إذا لم یقرأ فیھا بفاتحۃ الکتاب'
' یعنی حق بات یہ ہے کہ جس نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے، اس حدیث عبادہ سے اس نماز کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے۔
امام نووی المجموع شرح مہذب (3 / 326) مصری میں فرماتے ہیں:
یعنی جو شخص سورہ فاتحہ پڑھ سکتا ہے ، اس کے لیے اس کا پڑھنا نماز کے فرائض میں سے ایک فرض اور نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے، اور فاتحہ نماز میں ایسی معین ہے کہ نہ تو اس کی بجائے غیر عربی میں اس کا ترجمہ قائم مقام ہوسکتا ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی کوئی دیگر آیت، اور اس تعیین فاتحہ میں تمام نمازیں برابر ہیں، فرض ہوں یا نفل، جہری ہوں یا سری، مرد ہو یا عورت ، یا مسافر لڑکا (نابالغ ) اور کھڑا ہو کر نماز پڑھنے والا اور بیٹھـ کر نماز پڑھنے والا اور حالت خوف اور امن میں نماز پڑھنے والا سب اس حکم میں برابر ہیں اور اس سورہ فاتحہ امام ومقتدی اور اکیلا نماز پڑھنے والا بھی برابر ہے۔

اس کی شرح سے آپ کے اس سوال کا جواب ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ :.
کوئی دلیل صریح کہ ہر ہر نماز کی ہر ہر رکعت میں امام کے پیچھے صرف قرآن کی سورۃ فاتحہ پڑھنا فرض ہے؟

آپ کا سوال

دوسری بات
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فرمان عالی شان ہے کہ اقرابہا فی نفسک اس کا ایک معنی آپ نے کیا ہے کہ آہستہ پڑھاکرو ۔ اب یہ آپ بتادیں کہ کتنا آہستہ پڑھنا ہے ؟ کیونکہ اس کا معنی یہ بھی آیا ہے کہ "جب تم اکیلے ہو تو پڑھاکرو" اور دل میں پڑھا کرو ۔
کتنا آہستہ پڑھنا ہے اس بارے میں وضاحت آپ کردیں ،کیونکہ دل میں پڑھنا قراءت نہیں اور اکیلے پڑھنے والا مطلب میرے موقف کی حمایت کرتا ہے کہ دل میں پڑھنا نماز کو کافی نہیں جب تک کہ اپنے ہی کان میں آواز نہ آئے ۔(مجھے مولوی صاحب نے یہی سمجھایا تھااور میں اس بات کو مانتا ہوں کیونکہ جاہل جو ہوا) اور میں جب اکیلا نماز پڑھتا ہوں تو اتنی آواز میں پڑھتا ہوں کہ میرے اپنے کانوں تک میری آواز آتی ہی ہے اور یہ کام دل میں پڑھنے سے نہیں ہوسکتا کیونکہ زبان ہلتی نہیں اور کان میں آواز آتی نہیں۔

آپ کے اس بات کا جواب عبادہ بن صامت کی فجر کی نماز کے دوران نبی کریم کا لوگوں کو عام قرءات سے روکنا اور سوره فاتحہ خلف الامام کی تاکید ہے -
عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ ﷺ في صلاۃ الفجر فقرأ رسول اللہ ﷺ فثقلت علیہ القراء ۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرؤون خلف امامکم، قلنا نعم ھذاً یا رسول اللہ! قال: لا تفعلوا إلا بفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرأ بھا'' (سنن ابی داود: 1 / 120، سنن ترمذی: 1 / 41، وقال حسن 1/ 72) یعنی حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ فجر کی نماز ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے پڑھ رہے تھے، رسول اللہ نے پڑھا (قرأت کی ) تو آپ پر پڑھنا دشوار ہوگیا ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو، ہم نے کہا ہاں، یا رسول اللہ ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں، آپ نے فرمایا: سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو، کیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔

رسول اللہ نے پڑھا (قرأت کی ) تو آپ پر پڑھنا دشوار ہوگیا - یہ اسی لئے ہوا کہ صحابہ کرام نبی کریم کی آواز سے آواز ملا کر پڑھ رہے تھے - لیکن سوره فاتحہ چوں کہ بار بار دہرائی جاتی ہے اس لئے اس معاملے میں امام کو کوئی دشواری نہیں ہوتی اس لئے اس کی تاکید کی گئی -

اور کتنی آواز میں پڑھی جائے تو حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے اپنے اجتہاد سے فرمایا کہ: اقرأ بھا في نفسک : اس کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے آہستہ آہستہ سورہ فاتحہ پڑھا کر، کما قال الإمام البیھقي في کتاب القراء ۃ ص 17، والإمام النووی في شرح صحیح مسلم: 1 / 170

سوره فاتحہ خلف الامام پر ایک اور دلیل حضرت عائشۃ رضی الله عنہ سے یہ روایت ہے :
عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ ﷺ: من صلی صلاۃ لم یقرأ فیھا بفاتحۃ الکتاب فھي خداج غیر تمام۔ (کتاب القراء ۃ ص 38، جزء القراء ۃ ص 8)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے کسی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی وہ نماز ناقص ہے (بے کار ہے) پوری نہیں ہے

اس حدیث میں کہیں یہ صراحت نہیں کہ یہ حکم اکیلے نماز پڑھنے والے کے لئے ہے -

ابو عبیدہ نے فرمایا: اخدجت الناقۃ اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹنی اپنے بچے کو (قبل از وقت ) گرادے اور گرا ہوا بچہ مردہ ہوتا ہے، جس سے نفع نہیں اٹھایا جاسکتا ۔ (یعنی نماز باطل وفاسد ہوتی ہے).

آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ : فاتحہ خلف الامام کے مسلے پر دور حاضر میں تین گروہ وجود میں آے ہیں -

١-غیر مقلدین جو فاتحہ خاف الامام کو فرض کہتے اور سمجھتے ہیں - (صحیح احادیث کی روشنی میں)
٢-وہ میانہ رو احناف جو کہتے ہیں کہ احتیاط سوره فاتحہ امام کے پیچھے پڑھ لینا ہی بہتر ہے - کیوں کہ یہ مسلہ متواتر احادیث سے ثابت ہے- لیکن کچھ احادیث میں اس معاملے میں تعارض بھی پایا جاتا ہے -(ان میں آپ کے پیارے امام ابو حنیفہ رح) بھی شامل ہیں - (یعنی ان کے نزدیک فاتحہ خلف الامام) مستحب ہے لیکن فرض نہیں -
دلیل اس کی یہ ہے کہ :
کانوا یرون علی الماموم القراءۃ فیما یسر فرجعا من قولھما الأول إلی الثاني احتیاطا۔
یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے اس مسئلہ (قرأت فاتحہ خلف الامام) میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ مقتدی کے لیے الحمد شریف نہ واجب ہے نہ سنت اور یہ ان کا پہلا قول ہے، امام محمد نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قدیم قول کو داخل کیا اور ان کے نسخے اطراف میں پھیل گئے (اس لیے یہ قول زیادہ مشہور ہوگیا) دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کو احتیاطا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا مستحسن وبہتر ہے اور آہستہ نماز میں کوئی کراہت نہیں ہے
٣- وہ متشدد احناف (جو غیر مقلدین کی دشمنی میں) سوره فاتحہ خلف الامام کے کسی بھی طرح قائل نہیں -

اب آپ بتا دیں آپ کون سے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں -

والسلام -
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
السلام و علیکم محترم -
پہلی بات تو یہ کہ قول رسول صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا پتا ہی قول صحابی سے لگتا ہے - تو ظاہر ہے صحابی حجت ہوا - اور اس بنیاد پر اسماء رجال کا علم وجود میں آیا کہ کون سا قول رسول صل الله علیہ و آ لہ وسلم صحیح ہے کون سا ضعیف-
-
سب سے پہلے تو آپ اپنے ہی فرقہ کے علماء کا یہ فتوٰی دیکھ لیں
(۳) حقیقتاً یا حکماً مرفوع روایت یا مرفوع کے حکم میں نہ ہو تو دین میں حجت ودلیل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {فَرُدُّوْہُ إِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ} الآیۃ [تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف پھیرو]
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 01 ص 518
صرف پتہ لگنے کی بات نہیں جناب محمد علی جواد صاحب اسے اس دلیل سے ثابت کرنا ہے جو آپ کے ہاں حجت ہو مزکورہ حدیث میں جن الفاظ پر آپ کا زور ہے وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے زاتی الفاظ ہیں اور انہیں آپ رضی اللہ عنہ نے ایک فرد واحد کے سوال پر اسے بتایا اور ان الفاظ کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اکیلے میں پڑھا کرو یا دل میں پڑھا کرو جبکہ آپ کہتے ہیں کہ ہلکی آواز میں پڑھنے کا کہا ۔ چلو اگر مان بھی لیں کہ ہلکی آواز سے پڑھنے کا کہا تھا تو کیا کسی جماعت کو کہا ؟ یا صرف ایک فرد واحد کو کہا ؟ یہ آپ بتائیں گے ۔
اور صحابی کی بات کو غیر مرفوع ہونے کی صورت میں حجت تسلیم نہیں کیا جاتا آپ کے فرقہ میں ، تو آپ کس فرقہ کے اصول سے حجت ثابت فرمارہے ہیں ؟ غیر مقلد نام کے فرقہ میں تو حجت نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی عمل کے فرض ہونے کے لئے قول رسول مندرجہ ذیل خصوصیت کا حامل ہونا ضروری ہے:
١- قول رسول متواتر ہو اور صحیح روایات سے ثابت ہو -اگر خبر واحد ہو تو اس کے تعارض میں کوئی دوسری حدیث موجود نہ ہو -
٢-قول رسول میں اس عمل کی بہت زیادہ تاکید ہو اور فضیلت و ثواب میں بھی بہت زیادہ ہو -
٣-قول رسول میں اس عمل کے نہ کرنے پر وعید ہو یا اس عمل کی یا اس نوعیت کے دوسرے عمل کی عدم قبولیت پائی جائے- (مثال کے طور پر ایک انسان عشاء کے فرض چھوڑ دیتا ہے اور وتر پڑھ لیتا ہے تو وتر قبول نہیں ہونگے)- یا ان کے پڑھنے والے کو وتر کا ثواب نہیں ملے گا -
٤-قول رسول میں اس عمل کے بجا لانے پر انسان قادر ہو (جیسے حج کرنا اگرچہ ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن اگر استطاعت نہ ہو تو فرض نہیں ہوتا)
٥-صحابہ کرام کی اکثریت کا اس عمل کی فرضیت پر اجماع ہو -
-
پہلے یہ سارے اصول کسی صحیح صریح غیر معارض حدیث سے ثابت کردیجئے ورنہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ اصول امتیوں کے بنائے ہوئے ہیں اور امتیوں کی رائے بھی آپ کی دلیل شرعی نہیں۔
فرض نہ ہونے کی ایک مثال وہ امور کہ جن کے بارے میں اگر چہ احادیث نبوی میں بہت تاکید آئی ہے جیسے مسواک اور تہجد کی نماز وغیرہ کی بہت فضیلت اور تاکید ہے - لیکن اس عمل کے نہ بجا لانے پر کوئی وعید وغیرہ نہیں - اس لئے فرض نہیں -
نومولود بچے کے کا عقیقہ کرنے کی تاکید لیکن نہ کرنے پر وعید نہیں ہے - اس لئے فرض نہیں -
آئمہ و مجتہدین کا سوره فاتحہ خلف الامام کا فرض ہونے کی دلیل یہی مندرجہ بالا اصول ہیں -
جیسے نماز میں قیام کے متعلق سب جانتے ہیں کہ یہ فرض ہے اس طرح سوره فاتحہ خلف الامام فرض ہے
اب سوال یہ ہے کہ جو احادیث آپ نے پیش کیں ہیں کہ جن میں امام کی قراءت کے دوران مقتدی کو کچھ بھی پڑھنے سے روکا گیا ہے -
ال أحمد بن حنبل فهذا رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم تأول قول النبي صلى الله عليه وسلم لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب أن هذا إذا كان وحده
ترمذی ،کتاب الصلاۃ،جلد اول
ترجمہ

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اکیلے نماز پڑھنے والے پر محمول ہے
اس کو سوره فاتحہ خلف الامام کے پیچھے نہ پڑھنے پر محمول کر بھی لیں - تو اگر کوئی مقتدی غلطی سے سوره فاتحہ پڑھ بھی لیتا ہے - کیا اس کی نماز فاسد ہو گی یا اس پر کوئی وعید کی گئی یا فاتحہ خلف الامام کرنے والے کو سجدہ سہو کرنا پڑے گا وغیرہ وغیرہ - اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ اس کو احدیث نبوی سے ثابت کریں ؟؟؟ جب ایسا نہیں تو پھر کون سی چیز ایسی ہے جو فاتحہ خلف الامام کو فرض ہونے میں مانع ہونے سے روک رہی ہے؟؟
پہلی بات
امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے حدیث نہیں ویسے ہی جیسے ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں
دوسری بات
آپ نے قراءت قرآن یعنی فاتحہ کو خلف الامام پڑھنا فرض قرار دیا ۔اب سوال یہی ہے کہ فرض کس نے قرار دیا ؟ اللہ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ؟ یا کسی امتی نے ؟ امتی کا تو قول آپ کے فرقہ میں حجت نہیں بلکہ صحابی کا قول فعل حجت نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر معاذ اللہ اگر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی رائے سے کچھ فرمائیں تو وہ بھی حجت نہیں ۔ کیوں ایسا ہی ھے یا کچھ غلط کہا میں نے؟ تو پھر فرض کہنا کا معاملہ کسی رکن نماز کو کیسے ایک امتی کے کہنے پر مانا جاسکتا ہے کیونکہ آپ کے فرقہ جماعت اہل حدیث کی دوہی دلیلیں ہیں ایک قرآن اور دوسری حدیث ۔
تو آپ پر لازم ہے کہ آپ قرآن کی سورۃ فاتحہ کو فرض دکھاہیں گے مقتدی کے لئے صراحت کے ساتھ قرآن سے یا حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ یاد رہے صریح دلیل سے۔
تیسری بات
خود آپ کے ہم مزھب فرقہ کے علماء کا کہنا آپ سے مختلف ہے یعنی آپ نے فرض قرار دیا (جس کی دلیل صریح دکھانا باقی ہے) اور باقائدہ فتوہ ہے اس بارے میں کہ خلف الامام فاتحہ واجب ہے۔دیکھئے
''امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی قراء ۃ مقتدی کے لیے کیا حکم رکھتی ہے کیا وہ اس پر واجب ہے یا سنت؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وَاجِبَةٌ ''واجب ہے
احکام و مسائل
نماز کا بیان ج1ص 141
محمد علی جواد صاحب آپ بتائیے آپ کی بے دلیل فرض کہی گئی بات کو مانا جائے یا فتوے میں واجب کہنے کو مانا جائے ؟ دونوں میں سے کس کی بات امتی کی نہیں ؟یہ آپ بتائیں گے۔
جب کہ وہ احدیث نبوی جن میں فاتحہ خلف الامام کی تاکید کی گئی ہے - اور نہ پڑھنے کی صورت میں نماز کے فاسد ہونے کی وعید بھی کی گئی ہے - تعداد میں بہت زیادہ ہیں
-
تعداد جتنی بھی زیادہ ہو منع کے لئے صرف ایک ہی حدیث یا آیت کافی ہوجاتی ہے الحمدللہ
دیکھئے
حدثنا الأنصاري حدثنا معن حدثنا مالك بن أنس عن ابن شهاب عن ابن أكيمة الليثي عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال هل قرأ معي أحد منكم آنفا فقال رجل نعم يا رسول الله قال إني أقول مالي أنازع القرآن قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلوات بالقراءة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وفي الباب عن ابن مسعود وعمران بن حصين وجابر بن عبد الله قال أبو عيسى هذا حديث حسن
سنن الترمذي،کتاب الصلاۃ
ترجمہ
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اک مرتبہ جہری نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک شخص نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب ہی تو میں کہتا ہوں کہ مجھ سے قرآن میں جھگڑا کیوں کیا جاتا ہے۔راوی کہتے ہیں پھر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت سے رک گئے۔اس باب میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایات مروی ہیں۔ امام ابو عیسٰی ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے۔
دیکھ لیجئے محمد علی جواد صاحب ایک ہی حدیث سے منع ثابت ہوگیا ۔
علامہ سندھی حنفی حاشیہ بخاری (1 / 95) پر لکھتے ہیں:
والحق أن الحدیث یفید بطلان الصلاۃ إذا لم یقرأ فیھا بفاتحۃ الکتاب'
' یعنی حق بات یہ ہے کہ جس نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے، اس حدیث عبادہ سے اس نماز کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے۔
امام نووی المجموع شرح مہذب (3 / 326) مصری میں فرماتے ہیں:
یعنی جو شخص سورہ فاتحہ پڑھ سکتا ہے ، اس کے لیے اس کا پڑھنا نماز کے فرائض میں سے ایک فرض اور نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے، اور فاتحہ نماز میں ایسی معین ہے کہ نہ تو اس کی بجائے غیر عربی میں اس کا ترجمہ قائم مقام ہوسکتا ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی کوئی دیگر آیت، اور اس تعیین فاتحہ میں تمام نمازیں برابر ہیں، فرض ہوں یا نفل، جہری ہوں یا سری، مرد ہو یا عورت ، یا مسافر لڑکا (نابالغ ) اور کھڑا ہو کر نماز پڑھنے والا اور بیٹھـ کر نماز پڑھنے والا اور حالت خوف اور امن میں نماز پڑھنے والا سب اس حکم میں برابر ہیں اور اس سورہ فاتحہ امام ومقتدی اور اکیلا نماز پڑھنے والا بھی برابر ہے۔
-
محمد علی جواد صاحب اگر امتی کی ہی بات ماننی ہے آپ نے تو پھر اپنے آپ کو فرقہ جماعت اہل حدیث سے جوڑنا چھوڑ دیجئے اور حنفی مسلک اختیار کرلیں تاکہ جدید دور کے علماء کی تقلید کرنے کی بجائے قدیم دور کے افضل امتیوں کی ماننے والے بن جائیں ۔
دیکھئے تفسیر ابن کثیر میں افضل امتیوں کی رائے
وَ اِذَا قُرِیَٔ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ
اعراف204
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت فرض نماز کے بارے میں ہے ۔ طلحہ کا بیان ہے کہ عبید بن عمر اور عطاء بن ابی رباح کو میں نے دیکھا کہ واعظ و عظ کہہ رہا تھا اور وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے تو میں نے کہا تم اس وعظ کو نہیں سنتے اور وعید کے قابل ہو رہے ہو؟ انہوں نے میری طرف دیکھا پھر باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور پھر باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھ اور پھر اپنی باتوں میں لگ گئے ، میں نے پھر تیسری مرتبہ ان سے یہی کہا ۔ تیسری بار انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا یہ نماز کے بارے میں ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں نماز کے سوا جب کوئی پڑھ رہا ہو تو کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں اور بھی بہت سے بزرگوں کافرمان ہے کہ مراد اس سے نماز میں ہے ۔ حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ یہ آیت نماز اور جمعہ کے خطبے کے بارے میں ہے ۔ حضرت عطاء سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ حسن فرماتے ہیں نماز میں اور ذکر کے وقت ، سعید بن جبیر فرماتے ہیں بقرہ عید اور میٹھی عید اور جمعہ کے دن اور جن نمازوں میں امام اونچی قرأت پڑھے ۔ ابن جریر کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ مراد اس سے نماز میں اور خطبے میں چپ رہنا ہے جیسے کہ حکم ہوا ہے امام کے پیچھے خطبے کی حالت میں چپ رہو ۔
تفسیر ابن کثیر
آپ کے اس بات کا جواب عبادہ بن صامت کی فجر کی نماز کے دوران نبی کریم کا لوگوں کو عام قرءات سے روکنا اور سوره فاتحہ خلف الامام کی تاکید ہے -
عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ ﷺ في صلاۃ الفجر فقرأ رسول اللہ ﷺ فثقلت علیہ القراء ۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرؤون خلف امامکم، قلنا نعم ھذاً یا رسول اللہ! قال: لا تفعلوا إلا بفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرأ بھا'' (سنن ابی داود: 1 / 120، سنن ترمذی: 1 / 41، وقال حسن 1/ 72) یعنی حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ فجر کی نماز ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے پڑھ رہے تھے، رسول اللہ نے پڑھا (قرأت کی ) تو آپ پر پڑھنا دشوار ہوگیا ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو، ہم نے کہا ہاں، یا رسول اللہ ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں، آپ نے فرمایا: سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو، کیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
-
1
حدثنا اسحٰق بن موسٰی الانصاری نا معن نا مالک عن ابی نعیم وھب ابن کیسان انہ سمع جابر بن عبداللہ یقول من صلی رکعۃ ثم یقرا فیھا بام القران فلم یصل الا یکون وراء الامام۔ ھذٰا حدیث حسن صحیح۔
ترمذی جلد اول صفحہ 212
ترجمہ
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس نے اک رکعت بھی سورۃ فاتحہ کے بغیر گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
مندرجہ بالا حدیث میں صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے اور عین ہمارے عمل کے مطابق ہے کہ مقتدی قرآن نہیں پڑھے گا چاھے سری نماز ہو یا جہری ہاں منفرد پر فاتحہ و دیگر سورتیں پڑھنا لازمی ہیں۔
2
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم فاقیمو صفو فکم ثم لیسومکم احدکم فاذا کبر فکبر واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین یحبکم اللہ۔
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، جب امام تکبیر کئے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اسطرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔
نوٹ:معلوم ہوا الحمد سے لے کر ولاالضالین تک صراحتا خاموش رہنے کا حکم رسول اللللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےآیا ہے ۔
نوٹ: محمد علی جواد صاحب آپ کی جانب سے اقرار کہ سورۃ فاتحہ قرآن ہے کہ بعد ،اب آپ اس حکم پر تاویل پیش نہیں کرسکتے یہ یاد رکھئے گا ۔(ابتسامہ)
رسول اللہ نے پڑھا (قرأت کی ) تو آپ پر پڑھنا دشوار ہوگیا - یہ اسی لئے ہوا کہ صحابہ کرام نبی کریم کی آواز سے آواز ملا کر پڑھ رہے تھے - لیکن سوره فاتحہ چوں کہ بار بار دہرائی جاتی ہے اس لئے اس معاملے میں امام کو کوئی دشواری نہیں ہوتی اس لئے اس کی تاکید کی گئی -
-

حدثنا يحيى بن يحيى ويحيى بن أيوب وقتيبة بن سعيد وابن حجر قال يحيى بن يحيى أخبرنا وقال الآخرون حدثنا إسمعيل وهو ابن جعفر عن يزيد بن خصيفة عن ابن قسيط عن عطاء بن يسار أنه أخبره أنه سأل زيد بن ثابت عن القراءة مع الإمام فقال لا قراءة مع الإمام في شيء

صحيح مسلم ،كتاب المساجد ومواضع الصلاة
حضرت عطاء بن یسار نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ قراءت کرنے کی بابت پوچھا تو آپ رضی للہ عنہ نے فرمایا کہ کسی بھی نماز میں امام کے ساتھ قراءت نہیں کرنا چاھئیے۔
صحیح مسلم کی یہ روایت بھی فیصلہ کن ہے الحمدللہ
فیصلہ اللہ کے حبیب ﷺ کے صحابی رضی اللہ عنہ کی جانب سے پیش کردیا ہے اور صحابی رضی اللہ عنہ کی بات کو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی بات قرار دے چکے ہیں
السلام و علیکم محترم -
پہلی بات تو یہ کہ قول رسول صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا پتا ہی قول صحابی سے لگتا ہے - تو ظاہر ہے صحابی حجت ہوا - اور اس بنیاد پر اسماء رجال کا علم وجود میں آیا کہ کون سا قول رسول صل الله علیہ و آ لہ وسلم صحیح ہے کون سا ضعیف-
-
اب چونکہ امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کی دلیل صحیح و صریح پیش کردی گئی تو میں سمجھتا ہوں مزید آپ کی کسی پیش کردہ بات کا جواب دینا ضروری نہیں ۔

امید ہے بات کو سمجھ گئے ہوں گے آپ۔
شکریہ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
سب سے پہلے تو آپ اپنے ہی فرقہ کے علماء کا یہ فتوٰی دیکھ لیں

صرف پتہ لگنے کی بات نہیں جناب محمد علی جواد صاحب اسے اس دلیل سے ثابت کرنا ہے جو آپ کے ہاں حجت ہو مزکورہ حدیث میں جن الفاظ پر آپ کا زور ہے وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے زاتی الفاظ ہیں اور انہیں آپ رضی اللہ عنہ نے ایک فرد واحد کے سوال پر اسے بتایا اور ان الفاظ کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اکیلے میں پڑھا کرو یا دل میں پڑھا کرو جبکہ آپ کہتے ہیں کہ ہلکی آواز میں پڑھنے کا کہا ۔ چلو اگر مان بھی لیں کہ ہلکی آواز سے پڑھنے کا کہا تھا تو کیا کسی جماعت کو کہا ؟ یا صرف ایک فرد واحد کو کہا ؟ یہ آپ بتائیں گے ۔
اور صحابی کی بات کو غیر مرفوع ہونے کی صورت میں حجت تسلیم نہیں کیا جاتا آپ کے فرقہ میں ، تو آپ کس فرقہ کے اصول سے حجت ثابت فرمارہے ہیں ؟ غیر مقلد نام کے فرقہ میں تو حجت نہیں۔

پہلے یہ سارے اصول کسی صحیح صریح غیر معارض حدیث سے ثابت کردیجئے ورنہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ اصول امتیوں کے بنائے ہوئے ہیں اور امتیوں کی رائے بھی آپ کی دلیل شرعی نہیں۔

آپ کی بات کا مختصر جواب یہ ہے -

سنت کا اطلاق آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے صحابہ کرامؓ رضوان الله اجمعین کے اقوال وافعال پر بھی ہوتاہے۔ مثلاً آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا ارشاد ہے:

عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ ''تمہارے اوپر میری سنت اور برسرِ ہدایت خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی لازم ہے ا سے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو (مضبوطی سے تھام لو)''۔

صحابہ کرام رضوان الله اجمعین براہ راست نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے تعلیم یافتہ تھے - اس لئے ان کا اجتہاد قابل عمل اور حجت ہے -اگر ان سے کسی مسلے میں اجتہادی غلطی ہوئی بھی تو انہوں نے تحقیق کے بعد اس سے رجوع کیا - یہی وجہ ہے کہ ان کے پاک دور میں کوئی نیا مسلک وجود میں نہیں آیا - لیکن بعد میں لوگوں کی نفس پرستی کے سبب آئمہ اربع کی آراء پر مختلف مسالک وجود میں آ گئے - اور ان آئمہ آراء کی پیروی (تقلید)، امّت میں ہدایت کے بجاے گمراہی کا ہی سبب بنی-
 
Top