اچھی بات ہے کہ آپ کم از کم یہ تو تسلیم کرلئے کہ سورۃ فاتحہ قرآن ہی کی اک سورۃ ہے ۔
رہی بات یہ کہ ترمذی کی یہ حدیث آپ نے پیش کی
تو اس حدیث کے فورا بعد امام ترمذی نے اگلے باب میں بھی دو احادیث پیش فرمائی ہیں اور ان میں سے ایک کو
حسن اور دوسری کو
حسن صحیح قرار دیا ہے۔
دیکھئے
حدثنا الأنصاري حدثنا معن حدثنا مالك بن أنس عن ابن شهاب عن ابن أكيمة الليثي عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال هل قرأ معي أحد منكم آنفا فقال رجل نعم يا رسول الله قال إني أقول مالي أنازع القرآن قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلوات بالقراءة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وفي الباب عن ابن مسعود وعمران بن حصين وجابر بن عبد الله قال أبو عيسى هذا حديث حسن
سنن الترمذي،کتاب الصلاۃ
ترجمہ
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اک مرتبہ جہری نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک شخص نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب ہی تو میں کہتا ہوں کہ مجھ سے قرآن میں جھگڑا کیوں کیا جاتا ہے۔
راوی کہتے ہیں پھر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت سے رک گئے۔اس باب میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایات مروی ہیں۔
امام ابو عیسٰی ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے۔
اسی حدیث کے ساتھ ہی چند سطر بعد حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی کا قول نقل فرماتے ہیں اس حدیث کے بارے میں جسے آپ نے پیش کیا
قال أحمد بن حنبل فهذا رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم تأول قول النبي صلى الله عليه وسلم لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب أن هذا إذا كان وحده
ترمذی ،کتاب الصلاۃ،جلد اول
ترجمہ
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اکیلے نماز پڑھنے والے پر محمول ہے ۔ان کا استدلال حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہے کہ انہون نے فرمایا جس شخص نے کسی رکعت میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی گویا کہ اس نے نماز نہیں پڑھی ہی نہیں سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے (مقتدی) ہو۔
ترمذی ،کتاب الصلاۃ،جلد اول
پس ثابت یہ ہوتا ہے کہ پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی اجازت تھی بعد میں منع کردیا گیا اور مندرجہ بالا حدیث میں بھی یہی ظاہر ہے کہ
قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلوات بالقراءة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم
راوی کہتے ہیں پھر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت سے رک گئے
دوسری حدیث جو امام ترمذی رحمہ اللہ لائے ہیں اس سے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو قراءت نہیں کرنی سوائے اکیلے نمازی کے۔
حدثنا اسحٰق بن موسٰی الانصاری نا معن نا مالک عن ابی نعیم وھب ابن کیسان انہ سمع جابر بن عبداللہ یقول من صلی رکعۃ ثم یقرا فیھا بام القران فلم یصل الا یکون وراء الامام۔ ھذٰا حدیث حسن صحیح۔
ترمذی جلد اول صفحہ 212
ترجمہ
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس نے اک رکعت بھی سورۃ فاتحہ کے بغیر گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو
۔یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
ایسی بات کہنے سے پہلے آپ کو کوئی صریح حدیث پیش کرنا ضروری تھا کہ جس میں ہوتا کہ سری نمازوں میں اور ہر نماز جو امام کے پیچھے پڑھی جاتی ہے اس کی تیسری اور چوتھی رکعت میں قرآن کی سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔
لیکن آپ نے یا امتیوں کی رائے کی پیروی کی ہے یا اپنی رائے پیش کی ہے جو کہ آپ کی دلیل نہیں ۔
جو بات آپ کی دلیل بن سکتی ہے وہ میں پہلے پیش کرچکا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ۔دیکھئے
ترمذی جلد اول کی اس حدیث میں مطلق منع وارد ہوا ہے مقتدی کے لئے خواہ جہری نماز ہو یا سری خواہ پہلی رکعت ہو یا دوسری،تیسری یا چوتھی۔ بغیر تاویل کئے تو یہی مطلب نکلتا ہے اور اگر آپ دیکھیں تو یہ حدیث حسن صحیح ہے ، سونے پر سہاگہ اسی کو کہتے ہیں ۔
امام کی آواز سنائی دے یا نہ دے امام قراءت تو کرتا ہی ہے ناں ؟ اگر آپ جہری نماز میں خاموشی کے قائل ہیں تو پھر یہ بتائیے کہ آپ کو جماعت شروع ہوتے وقت ایسی جگہ ملی جو امام سےآٹھ دس صف پیچھے ہو اور لاؤڈ اسپیکر بھی خاموش ہوجائے پھر آپ کیا کریں گے ؟ یاد رہے نماز جہری ہے امام قراءت کر رہا ہے یہ آپ کو معلوم ہے مگر آواز آپ تک نہیں پہنچ رہی پھر آپ آمین بھی فاتحہ کے اختتام پر نہیں کہہ سکتے کیونکہ آمین تو کہنی ہے امام کے
غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہنے پر ۔مگر آپ جس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس میں پھر آپ کو دیگر مقتدیوں کی تقلید کرنی پڑے گی ،کیونکہ جو مقتدی امام کے پاس ہیں اور وہ قراءت سن رہے ہیں ،وہ تو امام کے
غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہنے پر آمین کہہ لیں گے اور آپ جو امام کی آواز نہیں سن سکتے ،آمین کہیں گے دیگر مقتدیوں کی آمین کی تقلید میں ۔
ایسی صورت میں اگر آپ جہری نماز میں قراءت اپنی کریں گے تو صریح احادیث کی مخالفت ہوگی یا نہیں ؟اور اگر تقلید کرتے ہوئے دیگر مقتدیوں کی، آمین کہیں گے تو تقلید کے مرتکب ہوں گے یا نہیں
؟ ان دونوں سوالوں کے جواب بھی بادلیل دیجئے گا ۔
حدیث نمبر1 اور حدیث نمبر دو
حدیث نمبر1
واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
جب وہ (امام)قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔
حدیث نمبر 2
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،انما جعل الامام لیؤتم بہ فاذا کبر فکبروا واذا قراء فانصتوا
سنن ابن ماجۃ صفحہ 61،سنن النسائی جلد 1 صفحہ146
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد گرامی نقل فرماتے ہیں کہ امام اسلئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے اس لئے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔
بے شک ان دونوں احادیث میں سر کی صراحت نہیں لیکن تیسری حدیث میں مطلق منع آیا ہے اسے آپ نے نظر انداز کردیا یا سمجھ نہیں سکے؟
دیکھئے
حدیث نمبر3
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : کل صلاۃ لایقراء فیھا باءم الکتاب فھی خداج الا صلاۃ خلف امام
کتاب القراءۃ للبیہقی صفحہ 170،171
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نامکمل ہے مگر وہ نماز (نامکمل نہیں) جو امام کے پیچھے پڑھی جائے۔
اس حدیث میں مطلق امام کے پیچھے نماز کا زکر آیا ہے اور اس میں جہری و سری دونوں قسم کی نمازوں کا حکم موجود ۔ الحمدللہ
کیا اس حدیث میں مقتدی کا ذکر ہے ؟ یا یہ آپ کی یا کسی اور امتی کی رائے ہے کہ یہ حدیث مقتدیوں کے بارے میں ہے ؟
مجھے کم از کم اس حدیث میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ جس سے معلوم ہو کہ امام کے پیچھے نماز پڑھنے والے
مقتدی کو بھی شامل کیا گیا ہے،(
اگر اس حدیث میں ایسی کوئی بات ہے تو برائے مہربانی اس پر نشان لگاکر دوبارہ پیش کردیجئے گا) ۔ ہاں جب امام یا منفرد نماز پڑھے گا تو اس پر آپ اس حدیث کو مان سکتے ہیں ۔
محمد علی جواد صاحب کوئی ایسی حدیث پیش کریں جس میں صریحا مقتدی کے بارے میں حکم ہو کہ وہ امام کے پیچھے قرآن کی سورۃ فاتحہ پڑھا کرے اسکے بغیر اس کی نماز ناقص ہے اور امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا فرض ،واجب یا سنت ہے۔
ابوداؤد کی اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے اور اسی حوالے سے اوپر کچھ گزارشات پیش کردی ہیں اور یہاں چونکہ آپ نے صرف ابوداؤد کی
صحیح حدیث لکھا ہے اسلئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ اپنی
طبیعت سے ھٹ کر لکھوں تاکہ دیکھنے پڑھنے والے آپ کے لکھے کو پڑھ کر کہ
"ابوداؤد کی صحیح حدیث"،مغالطہ میں نہ پڑ جائیں۔ناچاھتے ہوئے بھی لکھ رہا ہوں کہ
مزکورہ حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
اب آپ سے پہلی گزارش ہے کہ خود آپ کے نزدیک غیر صحیح حدیث کو صحیح نہ کہیں ہاں امام ترمذی رحمہ اللہ نے
"حسن" کہا ہے تو ٹھیک ہے ۔ مگر ترمذی کی ہی دو مزید احادیث میں نے پیش کردی ہیں جنہیں امام ترمذی رحمہ اللہ نے
"حسن" اور
"حسن صحیح" قرار دیا ہے
جن سے ترک قراءت خلف الامام ثابت ہورہی ہے۔
کوئی دلیل صریح کہ ہر ہر نماز کی ہر ہر رکعت میں امام کے پیچھے صرف قرآن کی سورۃ فاتحہ پڑھنا فرض ہے؟
پہلی بات
سب سے پہلے تو مزکورہ حدیث میں آپ کے موقف پر فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے
بلکہ قول صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے ۔
اور بدقسمتی سے قول صحابی کو آپ حجت تسلیم نہیں کرتے اور کر بھی نہیں سکتے ۔ کیونکہ اگر اس قول صحابی کو حجت تسلیم کریں گے آپ ، تو پھر حلفا کہنا پڑھے گا آپ کو کہ جتنے بھی قول صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں تمام اختلافی مسائل میں ان سب کو بھی ماننا ہوگا اور منوانا بھی ہوگا آپکی جماعت سے ۔ کم از کم اس فورم پر تو ماننا ہی پڑے گا ۔ اشارہ میں دئیے دیتا ہوں موٹے موٹے مسائل کا۔
تین طلاق
بیس تراویح
دوسری آذان
وغیرہ
اگر تو آٌپ تیار ہیں ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے قول کو حجت ماننے کے لئے تو پھر ایک حلف نامہ پہلے آپ کی جماعت اہل حدیث کی جانب سے پوسٹ کردیجئے اور سب اہل حدیث
ممبران اس پر متفق کا بٹن دبائیں پھر اگر
سوفیصد ممبران صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قول کو حجت مان لیں تو پھر ٹھیک ہے میں آپ کے حق میں اس حدیث کو تسلیم کرلوں گا کہ یہ حدیث آپ کو ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان مبارک کے مطابق سمجھنے اور ماننے اور عمل کرنے کا حق دیتی ہے ۔لیکن اگر آپ قول صحابی کو حجت نیست مانتے ہیں تو پھر میری نظر میں آپ کو قول صحابی پیش کرکے من پسند معنی لینے کا بھی کوئی حق نہیں ۔
دوسری بات
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فرمان عالی شان ہے کہ
اقرابہا فی نفسک اس کا ایک معنی آپ نے کیا ہے کہ
آہستہ پڑھاکرو ۔
اب یہ آپ بتادیں کہ کتنا آہستہ پڑھنا ہے ؟ کیونکہ اس کا معنی یہ بھی آیا ہے کہ
"جب تم اکیلے ہو تو پڑھاکرو" اور
دل میں پڑھا کرو ۔
کتنا آہستہ پڑھنا ہے اس بارے میں وضاحت آپ کردیں ،کیونکہ دل میں پڑھنا قراءت نہیں اور اکیلے پڑھنے والا مطلب میرے موقف کی حمایت کرتا ہے کہ دل میں پڑھنا نماز کو کافی نہیں جب تک کہ اپنے ہی کان میں آواز نہ آئے ۔(مجھے مولوی صاحب نے یہی سمجھایا تھااور میں اس بات کو مانتا ہوں کیونکہ جاہل جو ہوا) اور میں جب اکیلا نماز پڑھتا ہوں تو اتنی آواز میں پڑھتا ہوں کہ میرے اپنے کانوں تک میری آواز آتی ہی ہے اور یہ کام دل میں پڑھنے سے نہیں ہوسکتا کیونکہ زبان ہلتی نہیں اور کان میں آواز آتی نہیں۔
امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے؟
اب آتے ہیں کچھ ایسی باتوں کی طرف جنہیں آپ نے اپنے جواب میں شامل نہیں کیا
1
بہت ضروری سوال ہے محمد علی جواد صاحب ۔اسکا جواب دینا اب نہ بھولئے گا ۔چونکہ آپ پچلی اپنی پوسٹ میں فرض کہہ چکے ہیں تو اب آپ کو فرض کہنے والی زات کا بتانا ہے اور کچھ علماء فرقہ جماعت اہل حدیث واجب بھی کہتے رہے ہیں اس زات کا بھی نام بتائیے گا کہ واجب،فرض وغیرہ کہنے والی زات کونسی ہے؟
2
-
-
-
-
شکریہ
والسلام