• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر یزید اور (حديث الخلافة ثلاثون عاما)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
@عبدالله صاحب نے کہا :


جناب اگر آپ کی سوچ کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو پھر (((قَدْ أَوْجَبُوا ))) سے پہلے اور بعد میں جنت کا لفظ نہیں ہے تو پھر ان پر کیا واجب ہوئی ؟؟؟
یہ آپ کی کم علمی ہے کہ (((مَغْفُورٌ لَهُمْ ))) کو جنت سے باہر نکال رہے ہیں ۔


حافظ ابن حجر بخاری کی شرح میں ابن التین وغیرہ کے اقوال نقل کیے ہیں۔

ابن التين وابن المنير بما حاصله: أنه لا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله صلى الله عليه وسلم مغفور لهم مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم اتفاقا فدل على أن المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرة فيه منهم(فتح الباری تحت رقم 2942)
اس میں یہی بیان ہوا ہے کہ اہل علم کا اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مغفور لھم اس شرط سے مشروط ہے کہ اگر کوئی اس غزوہ کے بعد مرتد ہو گیا تو وہ اس عمومی بشارت میں داخل نہیں ہے پس یہ دلیل ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ مغفرت یافتہ وہی ہو گا جس میں اس کی شرائط پائی جائیں۔
تو اس سے یہی ثابت ہے کہ مغفرت اس وقت ہو گی جب تک آگے بھی نیک اعمال پر قائم رہے ورنہ مغفرت سے محروم ہو جائے گا۔
اور یہی بات تقریبا بخاری کے کئی شارح نے بیان کی ہے
(1) امام عینی نے بھی یہی لکھا ہے۔
(2) امام قسطلانی نے بھی یہی لکھا ہے۔


محترم ،
قد اجبو سے محدثین اور شارحین نے جنت ہی مراد لئے ہے اور الفاظ بھی یہی بتاتے ہیں کہ جب جہاد کیا تو ان پر واجب ہو گئی نیک کا کام کیا تو جنت ہی واجب ہو گی اس لئے محدثین اور شارحین یہاں جنت مراد لی ہیں کیوں وہ عربی اسلوب سے واقف ہیں اور دوسرے کے لئے جنت کے وجوب کا بیان نہیں ہے اسلئے کے اس کی نوعیت مختلف ہے اس سے پچھلے گناہوں کی معافی ہے اور یہ صرف میں کوئی اپنا خیال نہیں ہے حدیث کے محدثین اور شارحین نے یہ بیان کیا ہے اپ کے لئے دبارہ لکھنا پڑے گا پڑھ لیں
اور شاہ ولی محدث دہلوی جن کا احترام تینوں (اہلحدیث، دیوبندی،برہلوی)کرتے ہیں چنانچہ وہ اپنی کتاب بخاری تراجم ابواب میں اسی قتال الروم کے تحت رقمطراز ہیں۔
انہ لا یثبت بھذا الحدیث الا کونہ مغفورا لہ ما تقدم من ذنبہ علی ھذہ الغزوۃ لان الجھاد من الکفارات و شان الکفارات ازالۃ آثار الذنوب السابقۃ علیھا لا الواقعۃ بعدھا۔

نعم لو کان مع ھذا الکلام انہ مغفور لہ الی یوم القیامۃ لدل علی نجاتہ۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے واضح فرما دیا کے جہاد کفارہ ہوتا ہے جس سے سابقہ گناہ معاف ہوتے ہیں ہاں اگر اس مغفور لھوم کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو یہ اس کی نجات کی دلیل ہوتے۔

آئمہ کے ان اقوال سے اظہر من الشمس ہے کہ وہ دونوں احادیث میں جو مغفور لھم کی بشارت ہے وہ سابقہ گناہوں کی بخشش ہے اور اس کی آئمہ سے بھی تائید ہوتی ہے۔


تو اپ اس کو میری کم علمی کہنا چھوڑ دیں یہ ان کی تصریحات ہیں جو اپ سے اور مجھ سے کہیں زیادہ عربی جانتے اور سمجھتے تھے اور جن کو امت امام اور حافظ حدیث مانتی ہے اس لئے اگر اب بھی اپ کو یہ کم علمی لگتی ہے تو پھر ان سے بڑے صاحب علم کا قول پیش کردیں کہ مغفور لھم میں جنت کے واجب ہونے کا بیان ہے .
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب میں نے کب کہا ایسا ؟؟؟
میں نے تو آج تک اس موضوع پر گفتگو نہیں کی -
تو بہتر ہے آپ بھی میرے سامنے بے محل واقعیات پیش نہ کریں -
محترم ،
اپ سے مراد اپ نہیں اہل حدیث کی جماعت ہے جو احسان الہی ظہیر صاحب کو مانتی ہے
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
درج ذیل وضاحت کا جواب بھی اگر تفصیلاًَ دے دیں تو بہت بہتر ! :-
جناب
اگر شہادت حسینؓ رضی اللہ عنہ کے پیچھے یزیدؒ رحمۃاللہ کی مرضی یا سازش ہوتی تو عبداللہ بن عمرؓ رضی اللہ عنہ یہ کبھی نہ کہتے کہ ان کو اہل عراق نے قتل کیا ہے ۔ وہ کبھی حق کو چھپانے والے نہیں تھے اور اُس وقت موجود تمام صحابہؓ رضی اللہ عنہما اس سانحہ پر خاموش ہیں جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اُس وقت تمام صحابہؓ رضی اللہ عنہما اس سانحہ کا الزام یزیدؒ کو نہیں دیتے تھے بلکہ اہل عراق کو مجرم سمجھتے تھے ۔ کیونکہ وہ بھی ان پیشنگوئیوں کے متعلق جانتے تھے ، اور یزیدؒ کا کردار بھی ان کے سامنے تھا ۔
اور عبد اللہ بن عمر ؓ کا یہ کہنا کہ حسین ؓ کو اہل عراق نے قتل کیا ہے ۔ اس پرعراقی شخص کی خاموشی بتا رہی ہے کہ عبد اللہ بن عمر ؓ کا یہ کہنا صحیح تھا کہ حسین ؓ کو اہل عراق نے قتل کیا ہے۔

ابن عمر ؓ سے ایک شخص نے مچھر کے مارنے کا خون بہا ( کفارہ)پوچھا تو انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو اس نے بتایا کہ میں عراق کا رہنے والا ہوں ، فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو مچھر کے خون کا کفارہ (تاوان) پوچھتا ہے ، حالانکہ اس کے ملک والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نواسہ کو (دھوکے سے بلاکر) قتل کر ڈالا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سنا ہے کہ یہ دونوں (حسنؓ اور حسینؓ ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد )
اگر یزیدؒ نے کوئی قصور کیا ہوتا تو کیا ابن عمر ؓ یہ جواب دیتے ؟؟؟کیا آپ مانتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمرؓ نے جھوت بولا تھا ؟؟؟؟
کچھ تو انصاف سے کام لیجیے - الله کا خوف کیجیے -
اور جناب عبداللہ بن زبیرؓ کےمقابلے میں بھی اس وقت عبداللہ بن عمرؓ ،و عبداللہ بن زید ؓ ،و انسؓ اور دوسرے صحابہؓ و تا بعیین نے نہ تو بیعت توڑی اور نہ اس بغاوت کو اچھا سمجھا بلکہ انہوں نے باقیوں کو بھی منع کر دیا کہ نہ تو یزیدؒ کی بیعت توڑیں اور نہ ہی اس سازش میں شریک ہوں ۔
جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یزیدؒ ایک اچھے انسان تھے اور خلافت کا اہل بھی تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اس وقت موجود اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ان کو کبھی بھی برداشت نہ کرتے ۔
عبداللہ بن عمرؓ کا یہ کہنا کہ "ہم نے یزید ؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر بیعت کی تھی" اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یزیدؒ امارت کے اہل تھے-
والحمد للہ رب العالمین

خاموش تھے نہیں ظلم کی وجہ سے صبر کر چکے تھے اور معامله الله کے سپرد کر دیا تھا
اس کی مثال ابن عمر رضی الله عنہ کے اس قول سے ملتی ہے کہ
اگر یہ مصیبت ہے تو ہم صبر کریں گے (ابن ابی دنیا )
یہ الفاظ انہوں نے اس وقت فرماے جب یزید کی بیعت لی جا رہی تھی
یہ الفاظ ٤ خلفاء کی بیعت کرتے ہوۓ کیوں نہ کہے محترم صاحب فتح الباری پڑھو ابن حجر نے صاف لکھا ہے کہ یزید کی بیعت فتنہ سے بچنے کے لئے کی تھی اور یہ ان کا قول اس پر گواہ ہے سمجھے
غزوہ خندق میں پڑھو الله ہدایت دے .
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب عبداللہ بن زبیرؓ کےمقابلے میں بھی اس وقت عبداللہ بن عمرؓ ،و عبداللہ بن زید ؓ ،و انسؓ اور دوسرے صحابہؓ و تا بعیین نے نہ تو بیعت توڑی اور نہ اس بغاوت کو اچھا سمجھا بلکہ انہوں نے باقیوں کو بھی منع کر دیا کہ نہ تو یزیدؒ کی بیعت توڑیں اور نہ ہی اس سازش میں شریک ہوں ۔
جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یزیدؒ ایک اچھے انسان تھے اور خلافت کا اہل بھی تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اس وقت موجود اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ان کو کبھی بھی برداشت نہ کرتے ۔
محترم ،
بخاری پڑھ لی اس کی شرح بھی پڑھ لیتے
یزید اگر اچھا تھا تو ابن عمر رضی الله عنہ نے پہلے ہو کیوں نہ بیعت کر لی معاویہ رضی الله عنہ نے ان کو پیسے بھجے تھے اور اس کے چند دن بعد ایک آدمی بھیجا جس نے کہا کے اپ یزید کی بیعت کیوں نہیں کر لیتے اس پر انہوں نے کہا کہ یہ پیسے اس لئے بھیجے تھے پھر تو میرا دین بڑا سستا ہے اگر یزید اتنا ہی اچھا ہوتا تو پہلے ہی مان جاتے اور یہ کیوں کہتے کے میرا دین سستا ہے کسی نیک کی بیعت کرنے میں دین کا کیا نقصان ہے نیک کی بیعت تو خوشی خوشی کرنی چاہیے تھی پہلے پڑھو اس کے بعد بات کرتے ہیں
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46

محترم ،
اپ لوگوں کو حسین رضی الله عنہ کی شہادت کبھی سمجھ نہیں آئے گی کہ وہ کیا ظلم کی اندھی تھی جس کے سامنے وہ کھڑے ہو گئے تھے کچھ نہیں تو کم از کم اقبال ہی کو پڑھ لو
چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت

 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
پھر لکھا :

تو جناب اپنے اس دعویٰ کی دلیل بھی دے دیجیے - اور بہتر ہو گا دلیل صحیح ہو !
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
وَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 718 )
" تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون , ثم يرفعها الله إذا شاء أن يرفعها
ثم تكون خلافة على منهاج النبوة , فتكون ما شاء الله أن تكون , ثم يرفعها إذا
شاء أن يرفعها , ثم تكون ملكا عاضا فيكون ما شاء الله أن تكون , ثم يرفعها إذا
شاء الله أن يرفعها , ثم تكون ملكا جبريا فتكون ما شاء الله أن تكون , ثم
يرفعها إذا شاء أن يرفعها , ثم تكون خلافة على منهاج النبوة . ثم سكت
في "السلسلة الصحيحة"5

حدثنا عمرو بن عون ثنا هشيم عن العوام بن حوشب عن سعيد بن جمهان عن سفينة قال
Y قال رسول الله صلى الله عليه و سلم " خلافة النبوة ثلاثون سنة ثم يؤتي الله الملك من يشاء أو ملكه من يشاء "
سنن ابوداود رقم ٤٦٤٧

 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
آپ نے تو صحابہ پر بہتان لگا دیا کہ انہوں نے حق بات کو بیان نہیں کیا -
حالانکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ الْجِهَادِ کَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ
بہترین جہاد انصاف وحق کی بات ظالم بادشاہ یا ظالم حاکم کے سامنے کہنا ہے۔
(سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 950 و نسائی و ترمزی و ابن ماجہ )

محترم ،
یہ اپ کے خیالات ہے اپ ہی تک رہیں ان کو میرے منہ میں ڈالنے کی کوشش نہ کریں
میرے موقف واضح ہے کہ انہوں نے صبر کر لیا تھا اس کے لئے حوالے پیش کر دیتا ہوں
abu hurerah.png

بخاری رقم ١٢٠ کتاب العلم
ابوھریرہ رضی الله عنہ حدیث کیوں نہیں بتا رہے حق کیوں چھپا رہے ہیں یہ بخاری ہے بخاری اس کی شرح فتح الباری اس حدیث کے تحت پڑھنا ابن حجر نے لکھا ہے کہ وہ ظالم حکمرانوں کے نام تھے اور وہ اپنی جان کی خوف سے نہیں بتاتے تھے اور یہ دورکس کا تھا معاویہ رضی الله عنہ کا دور تھا اس پر امن دور میں حدیث رسول بتانے میں جان کا خوف ؟
میرے موقف واضح ہے انہوں نے صبر کر لیا تھا اور الله کے حوالے معاملہ کر دیا تھا اس لئے میں نے عرض کیا تھا
بھائی بخاری پڑھنے کے ساتھ فتح الباری بھی پڑھو .


 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
یہ ایک سیاسی معاملہ تھا جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، البتہ اگر جذبات کو دخل دیا جائے تو پھر اسلام کیا، نجات کا معاملہ بھی بنا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
خطیب بغدادی نے اس کو ثقہ کہا ہے (تاریخ بغداد)
(1) ابن کثیر فرماتے ہیں

قُلْتُ: وَالسُّنَّةُ أَنْ يُقَالَ لِمُعَاوِيَةَ مَلِكٌ، وَلَا يُقَالُ لَهُ خليفة لحديث «سفينة الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا» .( البدایہ الالنھایہ ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ)


http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-یزید-بن-معاویہ-نے-حسین-رضی-اللہ-عنہ-کو-قتل-کرنے-کا-حکم-دیا-تھا؟.32892/page-14#post-269860

عجیب فارمولا ہے؟

کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا

PicsArt_11-08-08.22.31.jpg
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
محترم،
کسی بھی بات کو اس کے سیاق سے ہٹا کر بیان کرنا خیانت کہلاتی ہے
میں نے T.k.H نے مجھے تاریخ کی روایات کے حوالے سے کہا کہ اس میں یزید کی بیعت سب نے کر لی تھی اس پر میں نے کہا تھا تاریخ کو آگ لگاؤ ان روایات کو جو تاریخ میں بیان ہوئی ہے جبکہ کتب احادیث سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے اور اپ مجھے تاریخ بغداد کے میرے قول دکھا رہے ہیں اس میں امام خطیب نے راوی کی توثیق کی ہے یہ یزید کے بارے میں کوئی روایات ہیں کچھ اللہ کا خوف کرو دوسروں پر اپنے ذہن کے مفہوم کیوں تھوپ رہے ہیں اس بارے میں اپ کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے تھا کہ اپ اس بارے میں مجھ سے وضاحت مانگتے کہ اس بات سے آپ کا مقصد کیا ہے
ستم سر عام مجھ پر یہ ڈھاتے ہیں
اپنے انگار سے میرا گھر جلاتے ہیں
اللہ ہدایت دے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top