abdullah786
رکن
- شمولیت
- نومبر 24، 2015
- پیغامات
- 428
- ری ایکشن اسکور
- 25
- پوائنٹ
- 46
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
@عبدالله صاحب نے کہا :
جناب اگر آپ کی سوچ کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو پھر (((قَدْ أَوْجَبُوا ))) سے پہلے اور بعد میں جنت کا لفظ نہیں ہے تو پھر ان پر کیا واجب ہوئی ؟؟؟
یہ آپ کی کم علمی ہے کہ (((مَغْفُورٌ لَهُمْ ))) کو جنت سے باہر نکال رہے ہیں ۔
حافظ ابن حجر بخاری کی شرح میں ابن التین وغیرہ کے اقوال نقل کیے ہیں۔
ابن التين وابن المنير بما حاصله: أنه لا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله صلى الله عليه وسلم مغفور لهم مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم اتفاقا فدل على أن المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرة فيه منهم(فتح الباری تحت رقم 2942)
اس میں یہی بیان ہوا ہے کہ اہل علم کا اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مغفور لھم اس شرط سے مشروط ہے کہ اگر کوئی اس غزوہ کے بعد مرتد ہو گیا تو وہ اس عمومی بشارت میں داخل نہیں ہے پس یہ دلیل ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ مغفرت یافتہ وہی ہو گا جس میں اس کی شرائط پائی جائیں۔
تو اس سے یہی ثابت ہے کہ مغفرت اس وقت ہو گی جب تک آگے بھی نیک اعمال پر قائم رہے ورنہ مغفرت سے محروم ہو جائے گا۔
اور یہی بات تقریبا بخاری کے کئی شارح نے بیان کی ہے
(1) امام عینی نے بھی یہی لکھا ہے۔
(2) امام قسطلانی نے بھی یہی لکھا ہے۔
محترم ،
قد اجبو سے محدثین اور شارحین نے جنت ہی مراد لئے ہے اور الفاظ بھی یہی بتاتے ہیں کہ جب جہاد کیا تو ان پر واجب ہو گئی نیک کا کام کیا تو جنت ہی واجب ہو گی اس لئے محدثین اور شارحین یہاں جنت مراد لی ہیں کیوں وہ عربی اسلوب سے واقف ہیں اور دوسرے کے لئے جنت کے وجوب کا بیان نہیں ہے اسلئے کے اس کی نوعیت مختلف ہے اس سے پچھلے گناہوں کی معافی ہے اور یہ صرف میں کوئی اپنا خیال نہیں ہے حدیث کے محدثین اور شارحین نے یہ بیان کیا ہے اپ کے لئے دبارہ لکھنا پڑے گا پڑھ لیں
اور شاہ ولی محدث دہلوی جن کا احترام تینوں (اہلحدیث، دیوبندی،برہلوی)کرتے ہیں چنانچہ وہ اپنی کتاب بخاری تراجم ابواب میں اسی قتال الروم کے تحت رقمطراز ہیں۔
انہ لا یثبت بھذا الحدیث الا کونہ مغفورا لہ ما تقدم من ذنبہ علی ھذہ الغزوۃ لان الجھاد من الکفارات و شان الکفارات ازالۃ آثار الذنوب السابقۃ علیھا لا الواقعۃ بعدھا۔
نعم لو کان مع ھذا الکلام انہ مغفور لہ الی یوم القیامۃ لدل علی نجاتہ۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے واضح فرما دیا کے جہاد کفارہ ہوتا ہے جس سے سابقہ گناہ معاف ہوتے ہیں ہاں اگر اس مغفور لھوم کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو یہ اس کی نجات کی دلیل ہوتے۔
آئمہ کے ان اقوال سے اظہر من الشمس ہے کہ وہ دونوں احادیث میں جو مغفور لھم کی بشارت ہے وہ سابقہ گناہوں کی بخشش ہے اور اس کی آئمہ سے بھی تائید ہوتی ہے۔
تو اپ اس کو میری کم علمی کہنا چھوڑ دیں یہ ان کی تصریحات ہیں جو اپ سے اور مجھ سے کہیں زیادہ عربی جانتے اور سمجھتے تھے اور جن کو امت امام اور حافظ حدیث مانتی ہے اس لئے اگر اب بھی اپ کو یہ کم علمی لگتی ہے تو پھر ان سے بڑے صاحب علم کا قول پیش کردیں کہ مغفور لھم میں جنت کے واجب ہونے کا بیان ہے .