معصرین میں اگر کوئی یزید کو نیک کہے تو وہ قبول مگر کوئی بد بخت کہ
معاصرین میں سے بھی کوئی بات بادلیل کہے تو قبول ہے ۔ خواہی وہ یزید کے نیک ہونے سے متعلق ہو یابرا ہونے سے لیکن یہاں یزید کے نیک یا براہونے کا مسئلہ موضوع بحث نہیں ہے بلکہ ایک خاص روایت پر بحث ہے اس لئے موضوع سے نہ ہٹیں۔
برحال میں اپ کو فطر بن خلیفہ کے مدلس ہونے کے دلائل پیش کرتا ہوں۔
ولذا قال علي بن المديني: قلت ليحيى بن سعيد القطان يعتمد على قول فطرثنا، ويكون موصولاً فقال: لا فقلت: أكان ذلك منه شجبه؟ قال: نعم، وكذا قال الفلاس: أن القطان قال [ص 183] له: وما ينتفع بقوله فطرثنا عطا، ولم يسمع منه.(فتح المخیث جلد ا ص 318 باب بحث التدلیس)
یحیی بن القطان نے اس کو مدلس کہا ہے اور یہاں تک لکھا کے کہ جب یہ سماع کی تصریح یعنی ثناء فلان بھی کہے تو بھی اس کا اعتبار نہیں ہے
اور اسی لئے اس کو شیخ الدمینی نے اپ کتاب التدلیس الحدیث میں تیسرے درجہ کا مدلس نقل کیا ہے کہ یہ کبھی سماع کی تصریح بھی کر دیتا ہے مگر اس سے اس کا سماع ثابت بھی نہیں ہوتا ہے( التدلیس الحدیث ص 325)
تو یہ عصر حاضر کے علماء نہیں بلکہ امام سخاوی امام المدینی اور ابن القطان نے مدلس کہا ہے۔
یہاں صرف امام القطان کا قول ہے جسے آپ ابن المدینی اور سخاوی کاقول بناکرپیش کررہے ہیں۔اوراسے دلائل کانام دے رہے ہیں ۔
بہرحال ابن القطان کا یہ قول بھی فطر کے مدلس ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔اورتیسرے طبقہ کے مدلس ہونے کا توسوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔لیکن اس پر بحث سے پہلے آپ سے مطالبہ ہے کہ آپ ابن القطان کے قول کوصحیح سند سے پیش کریں اس کے بعد اس پر بات ہوگی کہ اس سےفطر کامدلس ہونا کیوں ثابت نہیں ہوتا۔
دوسری بات اپ نے لکھا ہے کہ ابو شھاب ثقہ ہے بہت سے ایسے بخاری کے ثقہ روای ہے جن سے دوسری کتب میں روایت بیان کرنے میں غلطی لگی ہے جیسا ابن وھب کو ہی لیں سنابلی صاحب نے اس سے ایک روایت نقل کی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کر دوں گا(الفاظ میں کمی بیشی ہو سکتی ہے) مگر انہوں نے دیگر رواۃ سے موجود روایات سے ثابت کیا کہ ان سے اس روایت میں غلطی لگی ہے اور یہ الفاظ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہیں ( یزید پر اعتراضات کا جواب)
سنابلی صاحب کوئی دلیل ہیں کہ آپ ان کا حوالہ دلیل کے طور پر دے رہے ہیں ؟
اگران کی بات دلیل کے ساتھ ہے تو آپ بھی اپنی بات کو مدلل کریں اور ان کی بات بے دلیل ہے تو ان کاحوالہ دینا بے کارہے؟
اسی طرح ابو شھاب ثقہ ہے مگر یہ روایت اس کی منفرد ہے اور خاص طور پر یہ الفاظ ملک رحمہ جو کہ دیگر روایات سے ملک عضوض ثابت ہوتا ہے
اول تو ملک رحمہ کی روایت میں ابوشہاب منفرد نہیں ہے۔
دوم بالفرض منفرد ہے تو محض انفراد ہی سے کسی کی روایت رد نہیں ہوتی بلکہ انفراد کے ساتھ مزید دلائل درکا رہوتے ہیں اور یہاں ان کے انفراد کے رد پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
آپ نے جو یہ کہا کہ دیگر روایات سے ملک عضوض ثابت ہوتا ہے تو:
اول کیا ملک عضوض والی روایت اس سے زیادہ قوی ہے یاقوت میں اس سے کم تر ہے ؟ اگرزیادہ قوی ہے تو اس کو دلیل کے ساتھ ثابت کریں اور اگر اس سے قوت میں کم تر ہے تو ملک عضوض والی روایت سے یہ روایت رد نہیں ہوگی بلکہ اس روایت سے ملک عضوض والی روایت رد ہوگی ؟
دوم:ملک عضوض والی روایت سے مراد آپ کی حذیفہ رضی اللہ عنہ والی روایت ہے جیساکہ آگے آپ نے کہا ہے:
اس کی شاہد روایت حذیفہ رضی اللہ عنہ والی ہے جس میں ملک عضوض کے الفاظ ہے۔
تویہ حذیفہ رضی اللہ عنہ والی روایت فطر کی روایت کے خلاف ہے ہی نہیں ۔کیونکہ خود حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے محفوظ الفاظ میں ملک رحمہ کا تذکرہ اجمالی طورپر ہے اورفطر کی روایت میں اس کی صراحت ہے ۔اس لئے عدم تذکرہ والی روایت کو بھی اسی پر محمول کیا جائے گا اس طرح حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت تو فطر والی روایت کی مؤید ہے نہ کہ مخالف ۔
اورالبانی صاحب نے اس روایت کو سلسلہ احادیث صحیحہ میں 3270 پر نقل کر کے لکھا ہے کہ اس کی شاہد وہ حدیث ہے جو حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان ہوئی ہے۔اس کا مطلب کہ البانی صاحب کے نزدیک یہ روایت اس لیے صحیح ہے کہ اس کی شاہد روایت حذیفہ رضی اللہ عنہ والی ہے جس میں ملک عضوض کے الفاظ ہے۔
جب علامہ البانی رحمہ اللہ دونوں روایت کو حسن کہہ رہے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ بھی معنوی طور پر دونوں روایات کو ایک مفہوم میں لے رہے ہیں جس کی وضاحت اوپر کی گئی ہے اس لئے یہ دونوں روایات علامہ البانی کے نزدیک حسن ہیں ۔
اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے شاہد کا تذکرہ اس لئے نہیں کیا کہ پہلی روایت ضعیف ہے ۔بلکہ پہلی روایت کی مزید تائید کے لئے شاہد کا تذکرہ کیا ہے۔کیونکہ پہلے علامہ البانی رحمہ اللہ ابن عباس والی روایت کی سند کے بارے میں کہا:
هذا إسناد جيد، رجاله كلهم ثقات؛ غير سعيد بن حفص النفيلي،ففيه كلام يسير، وقد وثقه ابن حبان (8/268) ، وأخرج له في "صحيحه "ثلاثة أحاديث، والذهبي، والعسقلاني فقال:"صدوق تغير في آخر عمره ".
سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (7/ 803)
یعنی علامہ البانی رحمہ اللہ اس کی سند کو جید یعنی حسن کہا ہے۔
اس لئے شاہد کے ذکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلی اصل روایت ضعیف ہے ۔
اگراصل روایت کی تحسین کرنے کے بعد شاہد کے ذکر کرنے کا مطلب آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلی یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ والی اصل روایت ضعیف ہے ۔تو آپ کومعلوم ہونا چاہئے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت جہاں ذکر کی ہے وہاں کوئی شاہد بھی پیش نہیں کیا ہے اوروہاں بھی اصل حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی سند کے ایک راوی کے بارے میں بھی جرح پیش کی ہے بلکہ فطر سے بڑی جرح پیش کی اورکہا:
لكن حبيبا هذا قال البخاري: فيه نظر.وقال ابن عدي: ليس في متون أحاديثه حديث منكر، بل قد اضطرب في أسانيد مايروي عنه، إلا أن أبا حاتم وأبا داود وابن حبان وثقوه، فحديثه حسن على أقل الأحوال إن شاء الله تعالى. سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (1/ 35)
دیکھیں یہا ں ایک راوی کے بارے میں فیہ نظر جیسی شدید جرح پیش کی ہے؟اس کے بعد اصل روایت پر حسن کا حکم صیغہ تمریض ان شاء اللہ کے ساتھ لگایا ہے؟اورکوئی شاہد بھی پیش نہیں کیا
تو کیا حذیفہ رضی اللہ عنہ والی روایت بھی علامہ البانی کی نظر میں ضعیف ہے ؟
کتب تراجم کے مؤلفین نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ ہرراوی کے اساتذہ اور تلامذہ کے فہرست بتلائیں گے؟
اس بارے میں یہی عرض ہے کہ سنابلی صاحب نے بھی اپنی کتاب یزید پر اعتراضات کا جواب میں اسی قسم کی بات نقل کی ہے مگر جب الذماری کی وہ روایت جس پر کعبہ پر حملہ کرنے کا ثبوت موجودہے اس کے ایک راوی کو مجھول ثابت کرنے کے لئے اس راوی کے حوالے سے یہی لکھتے ہیں کہ اس کے اساتذہ میں الذماری کا نام موجود نہیں ہے تو یہ کہنا کہ اس بات کی رواۃ کے تلامذہ اور اساتذہ کی یہ فہرست ہی بے کار ہے ایسا نہیں ہے اس سے کم از کم یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ معروف اور مشہور اساتذہ اور تلامذہ نقل کیے جاتے ہیں مجھول وغیرہ نقل کرنا ذیادہ نہیں ہوتے ہیں اور میرے خیال سے فطر بن خیلفۃ معروف راوی ہے۔
جب آپ نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اس مقام پر ابوشہاب نام کا ایک خاص راوی ہی ہے تو پھر یہ بحث ہی فضول ہے۔
ورنہ آپ بتلائیں کہ آپ اساتذہ اورتلامذہ کی فہرست سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟
سعید بن حفص النفیلی کا تغیر کے زمانے میں کوئی روایت نہیں ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے اپ کو گھر میں بند کر لیا تھا جناب ابن صلاح نے بھی بخاری کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ جن رواۃ کو تغیر ہوا تھا امام بخاری نے ان کے تغیر سے قبل روایت لی ہے مگر ایسا ہے نہیں سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں اس کا رد کیا ہے(یزید پر اعتراضات کا جواب) تو کسی کا یہ کہنا کہ تغیر کے بعد روایت نہیں کی ہے ایسا ضروری یا لازم نہیں ۔
جس راوی کا تغیر کے بعد روایت کرناثابت ہے اس سے امام بخاری کا تغیر کے بعدوالی روایت انتقاء کی بنیاد پر لینا ۔
اورجس راوی کا تغیرکے بعد حدیث روایت کرنا ہی ثابت نہیں ہے ۔
ان دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
آپ کچھ تو سوجھ بوجھ سے کام لیں کہا ں کی بات کو کہاں جوڑرہےہیں ۔
یہاں بات یہ نہیں ہو رہی کہ سعیدبن حفص کا تغیرکے بعد روایات کرنا مسلم ہے او رامام بخاری نے تغیر کے بعدان کی بیان کردہ روایت لی ہے یا نہیں ۔
بلکہ بات یہ ہوری ہے کہ سعید بن حفص نے تغیر کے بعد کچھ روایت کیا ہے یانہیں ؟آپ اس بات کی دلیل دیں کہ سعید بن حفص نے تغیر کے بعد روایت کیا ہے؟
جبکہ ثبوت موجود ہے کہ اس روایت میں ملک عضوض جیسی صحیح روایت کے الفاظ میں ایک راوی جس کے حافظہ پر کلام ہے اس نے ان صحیح الفاظ کو بدل دیا ہے تو صواب بات یہی ہو گی کہ یہ الفاظ اس کے تغیر کا نتیجہ ہے
بدلنے والی بات تو بالکل غلط ہے اس کا کوئی ثبوت ہی موجود نہیں ۔
بالفرض مان لین کہ اس راوی نے اس روایت میں غلطی کی ہے توکیا اس کا یہ مطلب ہو گاکہ اس نے یہ روایت زندگی کے اخیر میں حالت تغیرمیں بیا ن کی ہے؟
دوسرے الفاظ میں آپ کی بات کا مطلب یہ ہوگاکہ اس روایت میں جس شاگرد ( أحمد بن النضر العسكري)نے ان سے روایت کیا ہے ا ن کاسماع (سعید بن حفص) سے ان کے تغیر کے بعد ہے!
کیا آپ بتائیں گے کہ کس محدث نے یہ صراحت کی ہے کہ (أحمد بن النضر العسكري) نے (سعید بن حفص ) سے ان کے تغیر کے بعد روایت کیا ہے اورکس محدث نے اس بنیاد پر کسی روایت کو ضعیف کہا ہے۔
جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حافظ ضیاء نے (سعید بن حفص )سے (أحمد بن النضر العسكري) کی روایت کو صحیح کہا ہے دیکھئے:(الأحاديث المختارة 8/ 312)
بہرحال آپ اس بات کی کوئی دلیل نہیں پیش کرسکے کہ سعید بن حفص نے تغیر کے بعد کوئی روایت بیان کی ہے۔
اورملک عضوض والی جس روایت کو آپ سعید بن حفص کی روایت کے خلاف بتلارہے ہیں اس ملک عضوض والی روایت میں تو ایسا راوی بھی ہے جس پر سخت جرح موجود ہے۔ اس لئے آپ کے اصول کے مطابق ملک عضوض والی روایت ہی ضعیف ہے ۔آپ مہربانی فرماکر اپنی ملک عضوض والی روایت کی سند بھی پیش کردیں پھر آپ کو بتلایاجائے گا کہ اس میں کس کس راوی پر کتنا کتنا کلام ہے!
آپ ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت کے ایک راوی کے سلسلے میں بے مطلب کے تغیر کے پیچھےپڑے ہیں لیکن ذرا یہ بھی تو دیکھ لیں کہ آپ کی ملک عضوض والی روایت کے راویوں پر کیا کیا جرح ہے؟
اور جیسا البانی صاحب نے بھی اس کی جانب اشارہ کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ والعسقلانی فقال تغیرہ فی آخر عمرہ"
پھر آگے فرماتے ہیں
وللحدیث شاہد بنحوہ من حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ وقد مضی فی اول المجلد الاول رقم 5( سلسلہ احادیث صحیحۃ رقم 3270) تو البانی صاحب نے بھی اس کو تغیر مانا ہے اور اس لیے اس کی شواہد کے طور پر وہ حذیفہ رضی اللہ عنہ والی روایت پیش کی ہے جس میں ملک عضوض کا لفظ ہے اور جو صحیح ترین روایت ہے اور الطبرانی کی روایت کی سند بالکل صحیح ہے جس میں ملک عضوض کے الفاظ ہے ان کے راوی بھی اچھی طرح چیک کر لیجیئے گا۔
حدثنا محمد بن جعفر بن أعين ثنا أبو بكر بن ابي شيبة ثنا زيد بن الحباب ثنا العلاء بن المنهال الغنوي حدثني مهند القيسي وكان ثقة عن قيس بن مسلم عن طارق بن شهاب ع
(6/345)
ن حذيفة بن اليمان قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إنكم في نبوة ورحمة وستكون خلافة ورحمة ثم يكون كذا وكذا ثم يكون ملكا عضوضا يشربون الخمور ويلبسون الحرير وفي ذلك ينصرون إلى أن تقوم الساعة (الطبرانی الاوسط رقم 6581)
تو یہ ملک رحمہ والی روایت ضعیف ہے جو دیگر صحیح روایت میں موجود ملک عضوض کے الفاظ کے مخالف ہے
اللہ سب کو ہدایت دے
تغیر کے سلسلے میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابن حجر رحمہ اللہ کے قول پراعتماد کیا ہے اور ابن حجررحمہ اللہ کے قول کی بنیاد جس قول پر ہے اس کے مطابق سعید بن حفص نے تغیر کے بعد کوئی روایت بیان ہی نہیں کی ہے۔جیساکہ تحریر التقریب کے مصنفین نے بھی کہا ہے۔
اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے تغیر کاقول نقل کرنے کے بعد بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی سند کی تحسین کی ہے۔
یعنی انہوں نے تغیر کے سبب حدیث کو حسن کہا لیکن ضعیف نہیں کہا ہے۔اورنہ اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے جو آپ سمجھ بیٹھے ہیں ۔
اورطبرانی کی جس روایت کو آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے خلاف کہاں ہے بلکہ معنوی طورپر ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے عین موافق ہی ہے ۔
کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رویات میں دور خلافت کے فورا بعد ملک عضوض کا ذکر نہیں ہے بلکہ دور خلافت کے بعد ملک رحمہ کا ذکر ہے اس کے بعد ملک عضوض کاذکرہے۔یعنی دور خلافت اور ملک عضوض کے بیچ ایک اوردور کاذکرہے۔
اوریہی بات طبرانی کی اس روایت میں بھی ہے جسے آپ بالکل صحیح کہہ رہے کیونکہ اس میں بھی دورخلافت کے فورابعد ملک عضوض کاذکر نہیں بلکہ اس کے بعد ( ثم يكون كذا وكذا ) کہہ کراجمالی طور پر ایک اور دور کا ذکر ہے پھر اس کے بعد چوتھے نمبر پرملک عضوض کاذکر ہے۔اوراس اجمال کی تفصیل ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں آگئی ہے کہ خلافت اور ملک عضوض کے بیچ کا یہ دور ملک رحمہ کادور ہے ۔
یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ اورآپ کی صحیح قراردی گئی طبرانی کی روایت، دونوں میں ملک عضوض کو چوتھے دور میں ذکر کیا گیاہے۔پھرتو یہ دونوں روایت آپ کی اس روایت کے خلاف ہوگئی جس میں ملک عضوض کا ذکر دورخلافت کے بعد ہی یعنی تیسرے نمبر پرہے۔یعنی صحیح روایات کی بنیادپر ادوارحکومت کی ترتیب اس طرح ہوگی :
پہلا دور : ۔دورنبوت
دوسرا دور: ۔دورخلافت
تیسرادور:۔دورملک رحمہ
چوتھا دور: ۔دورملک عضوض
اس اعتبار سے آپ ہی کے اصولوں سے وہ روایت باطل ثابت ہوتی ہے جس میں دورخلافت کے بعد فورا یعنی تیسرے نمبرپرملک عضوض کا ذکر ہے۔
اب آپ اپنے ہی اصولو ں کی روشنی میں یہ تسلیم کرلیں کہ دورخلافت کے بعد والا دور ملک عضوض کا دور نہیں ہے ۔