انکار حدیث کی برکات ہیں کہ حدیث تو درکنار ایک عام فہم بات سمجھنا بھی مشکل ہو گئی ہے۔ بہرحال اپنا سوال ان الفاظ میں دہراتا ہوں:
ایک عیسائی کو منکر حدیث پر یہ اعتراض ہے کہ کیا وہ اپنی والدہ یا بیٹی کو یہ آیات پڑھا سکتے ہیں یا نہیں؟
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ﴿٢٢٢﴾ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُم مُّلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٢٢٣
اگر ہاں تو جس شرم کے پیمانے اور معیار کی وجہ سے حدیث کا انکار کیا ہے، اس پیمانے و معیار کی بدولت قرآن کا انکار کیوں نہیں کرتے؟
اگر نہیں تو پھر تو بڑا اعتراض لازم آئے گا کہ یہ کیسا کلام الہی ہے کہ اپنی ماں بیٹی کے سامنے اس کا تذکرہ بھی مناسب نہیں ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ منکرین حدیث کے یہ سارے منگھڑت معیارات شرم وحیا ہیں جنہیں وہ حدیث پر تو اپلائی کرتے ہیں لیکن قرآن پر نہیں کیونکہ پہلے سے خواہش نفس کے سبب سے یہ طے کیا ہوا ہے کہ قرآن کو ماننا ہے اور حدیث کا انکار کرنا ہے۔
زمان و مکان کے اعتبار سے تہذیب و تمدن اور کلچر تبدیل ہوتے رہتے ہیں مثلا دیہات کا کلچر اور ہے اور شہروں کا اور ہے۔ ہمارے ہاں دیہات میں کوئی غسل خانے یا بیت الخلاء نہیں ہوتے ہیں۔ عورتیں کھیتوں میں جایا کرتی تھیں اور نہانے کے لیے کنویں یا ٹیوب ویل پر جا کر کپڑا لگا کر نہا لیتی تھیں۔ اب اگر کسی شہری خاتون کو یہ بتلایا جائے تو یہ اس کے شرم وحیا کے منافی ہے۔
اس پر غور کریں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بیت الخلا یا غسل خانے کیسے ہوتے تھے؟ یہ سب اس دور کا تمدن اور کلچر تھا۔ وہ دور سادگی کا دور تھا اور وہاں عورتوں کا کھیتوں میں بیت الخلا کے لیے جانا اور کنوؤں پر عارضی کپڑے تان کر یا کچی دیواروں کی اوٹ میں غسل کرنا ہی رواج وغیرہ کا حصہ تھا۔ آج کل کے واش روم یا باتھ روم کا تصور تو چالیس، پچاس سال سے زیادہ پرانا نہیں ہے۔