گزشتہ سے پیوستہ:
اب شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی کتابوں سے دس حوالے پیش خدمت ہیں:
1۔ ابو جعفر الکلینی نے کہا:
"حمید بن زیاد عن ابن سماعۃ عن محمد بن زیاد عن عبداللہ بن سنان و معاویۃ بن عمار عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال: ۔۔۔ان علیاً لما توفی عمر اتی ام کلثوم فانطلق بھا الیٰ بیتہ۔"
ابو عبداللہ (جعفر الصادق) علیہ السلام سے روایت ہے کہ۔۔۔جب عمر فوت ہوئے تو علی آئے اور ام کلثوم کو اپنے گھر لے گئے۔(الفروع من الکافی 6/115)
اس روایت کی سند شیعہ کے اصول سے صحیح ہے۔ اس کے تمام راویوں مثلاً حمید بن زیاد، حسن بن محمد بن سماعہ اور محمد بن زیاد عرف ابن ابی عمیر کے حالات مامقانی (شیعہ) کی کتاب : تنقیح المقال میں موجود ہیں۔
2۔ ابو جعفر الکلینی نے کہا:
"علی بن ابراھیم عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن ھشام بن سالم و حماد عن زرارۃ عن ابی عبداللہ علیہ السلام فی تزویج ام کلثوم فقال: ان ذلک فرج غصبناہ"
ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر صادق رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے ام کلثوم کی شادی کے بارے میں کہا: یہ شرمگاہ ہم سے چھین لی گئی تھی۔ (الفروع من الکافی 5/ 346)
اس روایت کی سند بھی شیعہ اصول سے صحیح ہے۔ اس کے راویوں علی بن ابراہیم بن ہاشم القمی وغیرہ کے حالات تنقیح المقال میں مع توثیق موجود ہیں۔
تنبیہ: اہل سنت کے نزدیک یہ روایت موضوع ہے اور مام جعفر صادق رحمہ اللہ اس سے بری ہیں۔
3۔ ابو عبداللہ جعفر الصادق رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ
جب عمر فوت ہو گئے تو علی نے آ کر کلثوم کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے گھر لے گئے۔ (الفروع من الکافی 6/115-116)
4۔ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی نے
" الحسین بن سعید عن النضر بن سوید عن ھشام بن سالم عن سلیمان بن خالد" کی سند کے ساتھ نقل کیا کہ ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر الصادق رحمہ اللہ ) نے فرمایا:
جب عمر فوت ہوئے تو علی علیہ السلام نے آ کر ام کلثوم کا ہاتھ پکڑا پھر انہیں اپنے گھر لے گئے۔ (الاستبصار فیما اختلف من الاخبار 3/472 ح 1258 )
اس روایت کی سند بھی شیعہ اسماء الرجال کی رو سے صحیح ہے۔ ان کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم کے نکاح کا ذکر موجود ہے:
5: تہذیب الاحکام (8/161، 9/262)
6: الشافی للسید المرتضیٰ علم الھدی (ص 116)
7: مناقب آل ابی طالب لابن شھر آشوب (3/162)
8: کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ للاربلی (ص 10)
9: مجالس المومنین للنور اللہ الشوستری (ص 76)
19۔ حدیقۃ الشیعہ للاردبیلی (ص 277)
نیز دیکھئے علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کی عظیم کتاب : الشیعہ و اھل البیت (ص 105-110)
خلاصہ یہ کہ اہل سنت اور شیعہ (اثنا عشریہ ) دونوں کی مستند کتابوں اور مستند حوالوں سے یہ ثابت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما سے نکاح ہوا تھا اور ان سے زید بن عمر بن الخطاب رحمہ اللہ بھی پیدا ہوئے تھے۔
آخر میں ایک عبرت انگیز واقعہ پیش خدمت ہے:
وزیر معز الدولہ احمد بن بویہ شیعہ تھا۔ (دیکھئے سیر اعلام النبلاء 16/190)
اس کی موت کے وقت ایک عالم اس کے پاس گئے تو صحابہ کرام کے فضائل بیان کئے اور فرمایا: بے شک علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح عمر بن خطاب سے کیا تھا۔
اس (احمد بن بویہ) نے اس بات کو بہت عظیم جانا اور کہا: مجھے اس کا علم نہیں تھا پھر اس نے (توبہ کر کے) اپنا اکثر مال صدقہ کردیا، اپنے غلاموں کو آزاد کر دیا، بہت سے مظالم کی تلافی کر دی اور رونے لگا حتیٰ کہ اس پر غشی طاری ہو گئی۔ (المنتظم لابن الجوزی 14/183 ت 2653)
اہل تشیع سے درخواست ہے کہ وہ اپنے اس وزیر کی طرح توبہ کر لیں ورنہ یاد رکھیں کہ رب العالمین کے سامنے اپنے تمام اقوال و افعال کا جواب دہ ہونا پڑے گا اور اس دن اللہ کے عذاب سے چھڑانے والا کوئی نہیں ہے۔
تنبیہ: سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کرام کے ساتھ علیہ السلام کے بجائے رضی اللہ عنہ یا رضی اللہ عنہا لکھنا چاہئے اور یہی راجح ہے۔
(3 جنوری 2010)
٭٭٭٭٭٭تمت٭٭٭٭٭٭٭