• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے نکاح

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
الٹے بانس بریلی۔۔۔
موضوع کیا تھا اور مدعا کیا ہے۔۔۔
لہذا مداری پن سے اجتناب برتیں۔۔۔
بڑے ادب سے درخواست کررہا ہوں۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بہرام صاحب،
کچھ پوائنٹس نوٹ کیجئے:
1۔ اہل سنت کے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت علی و فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہم کے نکاح میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
2۔ موجودہ دھاگے میں ہم اہل سنت کے مؤقف کے بجائے اہل تشیع کے مؤقف پر بات کررہے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے مؤقف کی وضاحت کیجئے۔
3۔ اہل تشیع کے مؤقف کے لئے بھی چند حوالہ جات دئے گئے ہیں۔ ان پر بات چیت کیجئے۔
4۔ اس نکاح کے تعلق سے جو چند سوالات اوپر پیش کئے گئے ہیں، براہ راست ان کے جوابات دیجئے، ادھر ادھر کی لاحاصل و بے معنی گفتگو نہ کریں۔

آپ کا سوال غیر متعلق ہے۔ اہل سنت کی ایک روایت پر بحث سے آپ کو کچھ فائدہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تائید میں دیگر کئی احادیث اور علمائے کرام کی تصدیقات موجود ہیں۔ لیکن چونکہ آپ کے اعتراض سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جانب سے کوئی جانتے بوجھتے بددیانتی کی گئی ہے۔ اس کا مختصر جواب حاضر ہے۔ اسی روایت پر مفصل گفتگو کرنی ہو تو علیحدہ دھاگا کھول لیجئے۔

فقال له (کہا ان سے)
بعض من عنده (بعض افراد نے جو ان کے پاس تھے)
يا أمير المؤمنين (اے امیر المومنین)
أعط هذا (یہ دیجئے)
ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کو)
التي عندك (جو کہ آپ کے پاس ہے، یعنی آپ کے نکاح میں ہے)
يريدون (ان کی مراد تھی)
أم كلثوم بنت علي (ام کلثوم بنت علی)

ہمارے اصول کے مطابق ایک حدیث دوسرے کی تشریح کرتی ہے۔ معلوم نہیں آپ کا اصول کیا ہے۔ خیر، التی عندک کے الفاظ سے واضح ہے کہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں۔ اور یہ پاس ہونا اصطلاحاً و دیگر روایات کی روشنی میں واضح ہے کہ بہ سبب نکاح تھا۔

لیجئے، اب ہمارے سوالات کے جوابات بھی عنایت کر دیجئے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ایسے ادب سے اللہ کی پناہ
اور یہ جو طوفان بدتمیزی بپاہے اس کو کیا نام دیں۔۔۔ جو اختلاف کی صورت میں آپ کی جانب سے پیش کیا گیاہے۔۔۔ کیا یہ علمی اعتراض ہے؟؟؟۔۔ بھائی جان یہ کہلاتا ہے فساد فی الارض اس کی سزا آپ بھی جانتے ہیں اور ہم تو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔۔۔

آپ پہلے تو اس سوال کا جواب دیں کہ کیا شیعہ مذہب کے داعی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تھے؟؟؟۔۔۔ کوئی شیعہ اس کا قائل نہیں اگر ایسا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمین وپیروکاروں کو مرتد ومنافق کہنے کی بجائے مومن وشیعہ مانتے۔۔۔ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ و حسنین رضی اللہ عنھم مذہب شیعہ کے داعی تھے؟؟؟۔۔۔ یہ بڑا اہم نقطہ ہے۔۔۔ کیونکہ کوئی بھی شیعہ رافضی اپنے مذہب کے اُصول وفروع اُہلبیت سے ثابت نہیں کرسکتا تب ہی تو ان پر تقیہ کا الزام شنیع لگاتے ہیں۔۔۔ ہاں! البتہ شیعہ رافضی اپنے مذہب کا معلم اول حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کو مانتے اور اپنی نسبت جعفری ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔۔۔ بھلا بتلائیے جو مذہب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین، اہل بیت رضوان اللہ علیہ سے ثابت نہ ہو وہ سب مسلمانوں پر کیسے حجت ہوسکتا ہے؟؟؟۔۔۔

لہذا ہماری صحاح کی کتابوں پر اعتراض کرنے والے پہلے اپنا قبلہ درست کریں اور ثابت کریں جس مذہب کے آپ پیروکار ہیں وہ کس بنیاد پر خود کو مسلمان سمجھتا ہے؟؟؟۔۔۔

ایک سوال کا جواب دیں! کیا امامت علی رضی اللہ عنہ پر چار صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے بیزاری، ان کی بدگوہی اور امان سے خارج ماننا شیعہ مذہب میں ضروری ہے؟؟؟۔۔۔ اگر یہ باتیں شیعہ کا عین ایمان ہیں تو ان کے موجد حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ نہ تھے بلکہ ایک دشمن یہودی تھا۔۔۔

شیعہ کے معتبر عالم علامہ کشی رقم طراز ہیں!۔
بعض اہل علم کا بیان ہے کہ عبداللہ بن سباء یہودی تھا اور مسلمان بن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے لگا وہ اپنی یہودیت کے دوران بھی غلو سے کہتا تھا کہ حضرت یوشع، موسٰی علیہ السلام کے وصی ہیں تو دوران اسلام، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق وصی وامام (بلافضل) ہونے کا دعوٰی کیا یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کو فرض (وجز وایمان) بتایا آپ کے سیاسی مخالفین سے تبرا کیا ان کی خوب توہین کرکے ان کو کافر بتایا یہیں سے مخالفین شیعہ کہتے ہیں۔۔۔

اصل تشیع والرفض ماخوذ من الیھود
مذہب شیعہ کی بنیاد یہودیت سے لی گئی ہے (رجال کشی صفحہ ٧١)۔۔۔

کیا شیعہ اعتقاد حضرت علی رضی اللہ عنہ مافوق الاسباب، مشکل کشا، حاجت روا، روزی رساں، مختار کل، عالم الغیب اور اوصآف بشریت سے بالا بہت کچھ تھے؟؟؟۔۔۔ اگر جواب اثبات میں ہے تو حضرت علی رضی اللہ کے رب ومشکل کشا ہونے کی تعلیم اس یہودی نے دی۔۔۔

حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ فرماتے ہیں!
عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المومنین رضی اللہ عنہ میں اوصاف ربوبیت کا دعوٰی کیا اللہ کی قسم حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے عاجز وطائع بندے تھے جو ہم پر جھوٹ باندھے اس پر تباہی ہو ایک قوم (شیعہ) ہمارے متعلق وہ کچھ کہتے ہیں جو ہم اپنے متعلق نہیں کہتے ہم ان سے بیزار ہیں ہم ان سے بیزار ہیں ہم اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں (رجال کشی صفحہ ٧١)۔۔۔

اب رافضی کھلی آنکھوں سے دیکھیں۔۔۔ جعفری کہلانے والے۔۔۔ دراصل امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے مذہب پر نہیں بلکہ عبداللہ بن سبا یہودی کے مذہب کے پیروکار ہیں۔۔۔ یہ سنہری الفاظ امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے ہیں۔۔۔

تو اب جواز یہ بنتا ہے۔۔۔ کہ یہودیوں کو یہ حق کس نے دیا ہے کے وہ ہمارے علماء کی لکھی ہوئی کتابوں پر اعتراض پیش کریں۔۔۔ حضرات اہل بیت کے الفاظ بھی یہاں پیش کردوں تاکہ گرتی ہوئی دیوار کو جھٹکا دینے کی بجائے پلکی سی پھونک سے گرا کر منہدم کردیا جائے۔۔۔

ملا باقر مجلسی نے یہ بات طبرسی کی مذکورہ بالا روایت کے مطابق یہاں بیان کی ہے اور مزید آپ کہتے ہیں کہ!۔
امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا! اللہ کی قسم!، میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے ایسا عہد لوں جس میں میری جان کی حفاظت ہو اور میرے اہل کی امان ہو، وہ میرے لئے اس چیز سے بہتر ہے کہ میرے شیعہ مجھے قتل کرڈالیں اور میرے اہل بیت کو تباہ وبرباد کردیں۔۔۔(بحار الانوار از ملا باقر مجلسی شیعی صفحہ ٨٧ جلد ١٠ تحت مالی امور ہما۔۔۔۔ الخ)۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے دوست نما دشمن (عثمان کے قاتل باغیوں) کا حال معلوم ہوا تو!۔
با ربار یوں بدُعائیں دیں تمہیں ہدایت کی توفیق نہ ہو نہ سیدھی راہ دیکھنا نصیب ہو کاش میں تمہیں (نہ دیکھا ہوتا) چھوڑ کر کہیں چلا جاتا جب تک شمالی جنوبی ہوائیں چلتی رہتیں تمہیں کھبی طلب نہ کرتا
(نہج البلاغہ خطبہ ١١٧)۔۔۔
واللہ تعالٰی اعلم
والسلام علیکم۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام صاحب،
کچھ پوائنٹس نوٹ کیجئے:
1۔ اہل سنت کے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت علی و فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہم کے نکاح میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
2۔ موجودہ دھاگے میں ہم اہل سنت کے مؤقف کے بجائے اہل تشیع کے مؤقف پر بات کررہے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے مؤقف کی وضاحت کیجئے۔
3۔ اہل تشیع کے مؤقف کے لئے بھی چند حوالہ جات دئے گئے ہیں۔ ان پر بات چیت کیجئے۔
4۔ اس نکاح کے تعلق سے جو چند سوالات اوپر پیش کئے گئے ہیں، براہ راست ان کے جوابات دیجئے، ادھر ادھر کی لاحاصل و بے معنی گفتگو نہ کریں۔

آپ کا سوال غیر متعلق ہے۔ اہل سنت کی ایک روایت پر بحث سے آپ کو کچھ فائدہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تائید میں دیگر کئی احادیث اور علمائے کرام کی تصدیقات موجود ہیں۔ لیکن چونکہ آپ کے اعتراض سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جانب سے کوئی جانتے بوجھتے بددیانتی کی گئی ہے۔ اس کا مختصر جواب حاضر ہے۔ اسی روایت پر مفصل گفتگو کرنی ہو تو علیحدہ دھاگا کھول لیجئے۔

فقال له (کہا ان سے)
بعض من عنده (بعض افراد نے جو ان کے پاس تھے)
يا أمير المؤمنين (اے امیر المومنین)
أعط هذا (یہ دیجئے)
ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کو)
التي عندك (جو کہ آپ کے پاس ہے، یعنی آپ کے نکاح میں ہے)
يريدون (ان کی مراد تھی)
أم كلثوم بنت علي (ام کلثوم بنت علی)

ہمارے اصول کے مطابق ایک حدیث دوسرے کی تشریح کرتی ہے۔ معلوم نہیں آپ کا اصول کیا ہے۔ خیر، التی عندک کے الفاظ سے واضح ہے کہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں۔ اور یہ پاس ہونا اصطلاحاً و دیگر روایات کی روشنی میں واضح ہے کہ بہ سبب نکاح تھا۔
ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے نکاح

مضمون نگار: حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ
حوالہ: الحدیث حضرو : 75

سوال: کیا یہ ثابت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم سے نکاح کیا تھا؟
اہل سنت اور شیعہ دونوں فریقوں کی کتابوں سے تحقیق کر کے ثبوت پیش کریں۔ (ایک سائل)

الجواب:

جی ہاں! یہ نکاح ثابت ہے اور اس کے مستند حوالے فریقین کی کتابوں سے پیش خدمت ہیں:

(اہل سنت )
1
۔ ثعلبہ بن ابی مالک (القرظی) رحمہ اللہ و رضی عنہ سے روایت ہے کہ

صحیح بخاری کے اس حوالے سے ثابت ہوا کہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔
جاری ہے۔۔۔
ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ ام کلثوم حضرت عمر کے پاس تھیں اور اس پاس ہونے کی مراد یہ لیتے ہیں کہ وہ حضرت عمر کی بیوی تھیں جبکہ پاس ہونے سے مراد پاس کھڑی ہوئی تھیں بھی لی جاسکتی ہے اب ایک ایسے لفظ جس کے کئی معنٰی مراد لئے جاسکتے ہوں اس سے صرف یہ معنیٰ مراد لینا کہ ام کلثوم حضرت عمر کی بیوی تھی یہ ناانصافی ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس شخص سے اپنی بیٹی کا ہاتھ مانگنے پر عمروں کے فرق کا ذکر کرکے منہ موڑ چکے ہوں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابزادی کی بیٹی کی شادی عمر سے ہو
خطب أبو بكرٍ وعمرُ رضِيَ اللهُ عنهما فاطمةَ ، فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : إنها صغيرةٌ ، فخطبها عليٌّ فزوَّجها منه

الراوي: بريدة بن الحصيب الأسلمي المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 3221

خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

ابوبکر اور عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حضرت زہرا[سلام الله عليها] کی خواستگاری کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا وہ ابھی چھوٹی ہیں پھر علی علیہ السلام نے خواستگاری کی تو ان سے شادی کروادی ۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر و عمر سے فرمایا کہ تمہاری عمر کے لحاظ سے فاطمہ چھوٹی ہیں لیکن ایسی وقت جب حضرت علی نے رشتہ مانگا تو ان سے شادی کردی اور یہ نہیں فرمایا کہ وہ ابھی چھوٹی ہیں
غور کریں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آپ کی پیش کی گئی یہ روایت مکمل نہیں !!!
"ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خطب الیٰ علی رضی اللہ عنہ ام کلثوم فقال: انکحنیھا فقال علی: انی ارصدھا لابن اخی عبداللہ بن جعفر فقال عمر: انکحنیھا فو اللہ ما من الناس احد یرصد من امرھا ما ارصدہ، فانکحہ علی فاتی عمر المھاجرین فقال: الاتھنونی؟ فقالوا: بمن یاامیر المومنین؟ فقال: بام کلثوم بنت علی وا بنۃ فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔"
بے شک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم کا رشتہ مانگا، کہا: اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اسے اپنے بھتیجے عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہ) کے لئے تیار کر رہا ہوں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ کیونکہ اللہ کی قسم! جتنی مجھے اس کی طلب ہے لوگوں میں سے کسی کو اتنی طلب نہیں ہے۔ (یا مجھ سے زیادہ اس کے لائق دوسرا کوئی نہیں ہے۔)
پھر علی (رضی اللہ عنہ ) نے اسے (ام کلثوم کو) ان (عمر) کے نکاح میں دے دیا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ مہاجرین کے پاس آئے تو کہا: کیا تم مجھے مبارکباد نہیں دیتے؟
انہوں نے پوچھا: اے امیر المومنین! کس چیز کی مبارکباد؟
تو انہوں نے فرمایا: فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کی مبارکباد۔۔۔(المستدرک للحاکم 3/142 حدیث 4684 و سندہ حسن، وقال الحاکم: "صحیح الاسناد" وقال الذہبی: " منقطع" السیرۃ لابن اسحاق ص 275-276 و سندہ صحیح)
مکمل روایت کچھ اس طرح ہے
أنَّ عمرَ بنَ الخطابِ خطب إلى عليٍّ رضيَ اللهُ عنهُ أمَّ كلثومٍ فقال أنكِحْنِيها فقال إني أرصدُها لابنِ أخي عبدِ اللهِ بنِ جعفرَ فقال عمرُ أنكِحْنيها فواللهِ ما من الناسِ أحدٌ يرصدُ من أمرها ما أرصدُه فأنكحَه عليٌّ فأتى عمرُ المهاجرينَ فقال ألا تُهِنُّوني فقالوا بمَن يا أميرَ المؤمنين فقال أمُّ كلثومٍ بنتُ عليٍّ وابنةُ فاطمةَ بنتُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ إني سمعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كلُّ سببٍ ونسبٍ مُنقطعٌ يومَ القيامةِ إلا سبَبي ونسَبي
الراوي: عمر بن الخطاب المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 5/59
خلاصة حكم المحدث: بين الانقطاع

ترجمہ :
بے شک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم کا رشتہ مانگا، کہا: اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اسے اپنے بھتیجے عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہ) کے لئے تیار کر رہا ہوں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ کیونکہ اللہ کی قسم! جتنی مجھے اس کی طلب ہے لوگوں میں سے کسی کو اتنی طلب نہیں ہے۔ (یا مجھ سے زیادہ اس کے لائق دوسرا کوئی نہیں ہے۔)
پھر علی (رضی اللہ عنہ ) نے اسے (ام کلثوم کو) ان (عمر) کے نکاح میں دے دیا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ مہاجرین کے پاس آئے تو کہا: کیا تم مجھے مبارکباد نہیں دیتے؟

انہوں نے پوچھا: اے امیر المومنین! کس چیز کی مبارکباد؟
تو انہوں نے فرمایا: فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کی مبارکباد

کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا روز قیامت سارے سبب ونسب منقطع ہوجائیں گے صرف میرے سبب ونسب کے
یہ بات بھی مسلم ہے کہ حضرت عمر رسول اللہ کے سسر ہیں جب حضرت عمر کا رسول اللہ سے پہلے ہی سببی رشتہ قائم ہے تو پھر کیوں اس شادی کے بعد وہ یہ دلیل دے رہے ہیں جب کہ اس شادی کے بعد بھی حضرت عمر کا رسول اللہ سے سببی رشتہ ہی قائم ہورہا ہے یہ ایک معمہ ہے جو حل ہو کے نہیں دے رہا ؟؟؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
فرمان مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبنت عدو الله عند رجل واحد

ترجمہ از داؤد راز
خدا کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہوسکتیں
صحیح بخاری ،کتاب فضائل اصحاب النبی ،حدیث نمبر: 3729

فاطمه بنت وليد بن مغيره، وہ عورت ہے جس سے عمر نے 18 ہجری میں یعنی اسی سال جس میں ام کلثوم سے شادی کی اس سے بھی شادی کی ہوئی تھی۔
اور وليد بن مغيره، كفار قريش کے سرداروں میں سے ہیں ، اور ان افراد میں سے جو جنگ بدر میں واصل جہنم ہوا تھا اور اسی کی مذمت میں قرآن کی آیت نازل ہوئی!
ابن سعد نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے :
عبد الرحمن بن الحارث بن هشام بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن مخزوم بن يقظة بن مرة وأمه فاطمة بنت الوليد بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن مخزوم ويكنى عبد الرحمن أبا محمد وكان بن عشر سنين حين قبض النبي صلى الله عليه وسلم ومات أبوه الحارث بن هشام في طاعون عمواس بالشام سنة ثماني عشرة فخلف عمر بن الخطاب على امرأته فاطمة بنت الوليد بن المغيرة وهي أم عبد الرحمن بن الحارث
عبد الرحمن بن حارث بن هشام بن مغيرة... اسکی ماں فاطمه بنت وليد بن مغيره ہے ؛ جب رسول اکرم[ص] اس دنیا سے گئے تو اسکی عمر 10 سال تھِی اسکا باپ حارث بن ہشام 18 ہجری میں طاعون عمواس سے مر گیا پھر عمر نے اسکی بیوی سے شادی کی اور یہ عبد الرحمان بن حارث کی ماں ہے !

الطبقات الكبرى، ج 5، ص 5، ناشر: دار صادر - بيروت.
لنک: الطبقات الكبرى
ابن حجر عسقلانى نے ترجمه عبد الرحمن بن الحارث بن هشام اسی کو دھرایا ہے :
الإصابة في تمييز الصحابة، ج 5، ص 29، رقم: 6204، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
وليد بن مغيره اور ابوجهل،‌ دونوں ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدترین دشمن تھے پس اگر ابوجہل کی بیٹی سے امیر المومنین علی علیہ السلام کی شادی حرام ہے تو عمر کے لئے بھی ولید بن مغیرہ کی بیٹی بھی حرام ہے ۔
یا تو اب یہ قبول کرنا پڑے گا کہ ام کلثوم بنت علی کی شادی حضرت عمر سے نہ ہوئی یا یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف کام کیا اور یہ نہ ممکن ہے کہ حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف کام کریں تو بہتر یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ ام کلثوم بنت علی کی حضرت عمر سے شادی نہیں ہوئی
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
فرمان مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبنت عدو الله عند رجل واحد

ترجمہ از داؤد راز
خدا کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہوسکتیں
صحیح بخاری ،کتاب فضائل اصحاب النبی ،حدیث نمبر: 3729
یہ حدیث پوری پیش کردیں بحث ختم۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے دوست نما دشمن (عثمان کے قاتل باغیوں) کا حال معلوم ہوا تو!۔
با ربار یوں بدُعائیں دیں تمہیں ہدایت کی توفیق نہ ہو نہ سیدھی راہ دیکھنا نصیب ہو کاش میں تمہیں (نہ دیکھا ہوتا) چھوڑ کر کہیں چلا جاتا جب تک شمالی جنوبی ہوائیں چلتی رہتیں تمہیں کھبی طلب نہ کرتا
(نہج البلاغہ خطبہ ١١٧)۔۔۔
آپ کے ساتھ کیا پروبلم ہے کہ آپ ہر تھریڈ میں قتل عثمان کی دھائی دیتے رہتے ہیں آپ موضوع کی مناسبت سے بات کرے تو بہترہے اور جہاں تک عثمان کے قاتلون کی بات ہے تو پہلے آپ یہ پڑھ لیں
عبد الرحمن بن عديس صحابی تھے اور بیعت رضوان میں بھی شامل تھے یہ مصریوں کے لشکر کی قیادت کررہے تھے جس نے عثمان کا محاصرہ کیا اور انہیں قتل کیا
أسد الغابة في معرفة الصحابة
لنک : فصل: عبد الرحمن بن عديس|نداء الإيمان

‏"‏ب د ع‏"‏ عبد الرحمن بن عديس بن عمرو بن عبيد بن كلاب بن دهمان بن غنم بن هميم بن ذهل بن هني بن بلي‏.‏

كذا نسبه ابن منده وأبو نعيم، وهو بلوي‏.‏ له صحبة، وشهد بيعة الرضوان، وبايع فيها‏.‏ وكان أمير الجيش القادمين من مصر لحصر عثمان بن عفان، رضي الله عنه، لما فتلوه‏.‏
 
Top