اور
یہ جو طوفان بدتمیزی بپاہے اس کو کیا نام دیں۔۔۔ جو اختلاف کی صورت میں آپ کی جانب سے پیش کیا گیاہے۔۔۔ کیا یہ علمی اعتراض ہے؟؟؟۔۔ بھائی جان یہ کہلاتا ہے فساد فی الارض اس کی سزا آپ بھی جانتے ہیں اور ہم تو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔۔۔
آپ پہلے تو اس سوال کا جواب دیں کہ کیا شیعہ مذہب کے داعی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تھے؟؟؟۔۔۔ کوئی شیعہ اس کا قائل نہیں اگر ایسا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمین وپیروکاروں کو مرتد ومنافق کہنے کی بجائے مومن وشیعہ مانتے۔۔۔ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ و حسنین رضی اللہ عنھم مذہب شیعہ کے داعی تھے؟؟؟۔۔۔ یہ بڑا اہم نقطہ ہے۔۔۔ کیونکہ کوئی بھی شیعہ رافضی اپنے مذہب کے اُصول وفروع اُہلبیت سے ثابت نہیں کرسکتا تب ہی تو ان پر تقیہ کا الزام شنیع لگاتے ہیں۔۔۔ ہاں! البتہ شیعہ رافضی اپنے مذہب کا معلم اول حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کو مانتے اور اپنی نسبت جعفری ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔۔۔ بھلا بتلائیے جو مذہب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین، اہل بیت رضوان اللہ علیہ سے ثابت نہ ہو وہ سب مسلمانوں پر کیسے حجت ہوسکتا ہے؟؟؟۔۔۔
لہذا ہماری صحاح کی کتابوں پر اعتراض کرنے والے پہلے اپنا قبلہ درست کریں اور ثابت کریں جس مذہب کے آپ پیروکار ہیں وہ کس بنیاد پر خود کو مسلمان سمجھتا ہے؟؟؟۔۔۔
ایک سوال کا جواب دیں! کیا امامت علی رضی اللہ عنہ پر چار صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے بیزاری، ان کی بدگوہی اور امان سے خارج ماننا شیعہ مذہب میں ضروری ہے؟؟؟۔۔۔ اگر یہ باتیں شیعہ کا عین ایمان ہیں تو ان کے موجد حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ نہ تھے بلکہ ایک دشمن یہودی تھا۔۔۔
شیعہ کے معتبر عالم علامہ کشی رقم طراز ہیں!۔
بعض اہل علم کا بیان ہے کہ عبداللہ بن سباء یہودی تھا اور مسلمان بن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے لگا وہ اپنی یہودیت کے دوران بھی غلو سے کہتا تھا کہ حضرت یوشع، موسٰی علیہ السلام کے وصی ہیں تو دوران اسلام، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق وصی وامام (بلافضل) ہونے کا دعوٰی کیا یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کو فرض (وجز وایمان) بتایا آپ کے سیاسی مخالفین سے تبرا کیا ان کی خوب توہین کرکے ان کو کافر بتایا یہیں سے مخالفین شیعہ کہتے ہیں۔۔۔
اصل تشیع والرفض ماخوذ من الیھود
مذہب شیعہ کی بنیاد یہودیت سے لی گئی ہے (رجال کشی صفحہ ٧١)۔۔۔
کیا شیعہ اعتقاد حضرت علی رضی اللہ عنہ مافوق الاسباب، مشکل کشا، حاجت روا، روزی رساں، مختار کل، عالم الغیب اور اوصآف بشریت سے بالا بہت کچھ تھے؟؟؟۔۔۔ اگر جواب اثبات میں ہے تو حضرت علی رضی اللہ کے رب ومشکل کشا ہونے کی تعلیم اس یہودی نے دی۔۔۔
حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ فرماتے ہیں!
عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المومنین رضی اللہ عنہ میں اوصاف ربوبیت کا دعوٰی کیا اللہ کی قسم حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے عاجز وطائع بندے تھے جو ہم پر جھوٹ باندھے اس پر تباہی ہو ایک قوم (شیعہ) ہمارے متعلق وہ کچھ کہتے ہیں جو ہم اپنے متعلق نہیں کہتے ہم ان سے بیزار ہیں ہم ان سے بیزار ہیں ہم اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں
(رجال کشی صفحہ ٧١)۔۔۔
اب رافضی کھلی آنکھوں سے دیکھیں۔۔۔ جعفری کہلانے والے۔۔۔ دراصل امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے مذہب پر نہیں بلکہ عبداللہ بن سبا یہودی کے مذہب کے پیروکار ہیں۔۔۔ یہ سنہری الفاظ امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے ہیں۔۔۔
تو اب جواز یہ بنتا ہے۔۔۔ کہ یہودیوں کو یہ حق کس نے دیا ہے کے وہ ہمارے علماء کی لکھی ہوئی کتابوں پر اعتراض پیش کریں۔۔۔ حضرات اہل بیت کے الفاظ بھی یہاں پیش کردوں تاکہ گرتی ہوئی دیوار کو جھٹکا دینے کی بجائے پلکی سی پھونک سے گرا کر منہدم کردیا جائے۔۔۔
ملا باقر مجلسی نے یہ بات طبرسی کی مذکورہ بالا روایت کے مطابق یہاں بیان کی ہے اور مزید آپ کہتے ہیں کہ!۔
امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا! اللہ کی قسم!، میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے ایسا عہد لوں جس میں میری جان کی حفاظت ہو اور میرے اہل کی امان ہو، وہ میرے لئے اس چیز سے بہتر ہے کہ میرے شیعہ مجھے قتل کرڈالیں اور میرے اہل بیت کو تباہ وبرباد کردیں۔۔۔(بحار الانوار از ملا باقر مجلسی شیعی صفحہ ٨٧ جلد ١٠ تحت مالی امور ہما۔۔۔۔ الخ)۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے دوست نما دشمن (عثمان کے قاتل باغیوں) کا حال معلوم ہوا تو!۔
با ربار یوں بدُعائیں دیں تمہیں ہدایت کی توفیق نہ ہو نہ سیدھی راہ دیکھنا نصیب ہو کاش میں تمہیں (نہ دیکھا ہوتا) چھوڑ کر کہیں چلا جاتا جب تک شمالی جنوبی ہوائیں چلتی رہتیں تمہیں کھبی طلب نہ کرتا
(نہج البلاغہ خطبہ ١١٧)۔۔۔
واللہ تعالٰی اعلم
والسلام علیکم۔۔۔