بہرام صاحب،
ہمیں معلوم ہے کہ اہل تشیع میں اس موضوع پر اہل تشیع کی روایات کے تحت بات چیت کرنے کی ہمت نہیں۔ جس قدر توجیہات لاطائل کر لیجئے، آپ موضوع کو کبھی ادھر اور کبھی ادھر گھماتے رہیں، لیکن ہمارے یہ سوالات آپ پر ادھار رہیں گے، جب تک آپ ان سے تعرض نہیں فرما لیتے۔
1۔ آیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی عزیز از جان بیٹی، اور وہ بیٹی جو خاص حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے ہیں، کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا یا نہیں؟
2۔ اگر یہ نکاح ہوا ہے، تو کیا اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟
3۔ اگر یہ نکاح، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرضی سے نہیں ہوا، بلکہ بزور "غصب" کر کے کر لیا گیا، تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص ہوتی ہے یا نہیں؟
اب آپ جس طور موضوع گھمانے کی کوشش میں ہیں، ان پر اجمالی تبصرہ۔
پہلی بات ہم نے گزارش کی تھی، کہ خاص اس روایت پر بحث کرنی ہو تو علیحدہ موضوع میں بات کر لیں۔ آپ نے نہیں مانی۔
انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اس روایت کو علیحدہ دھاگے کے تحت جمع کر دیں تاکہ اس میں فقط اسی روایت پر بات چیت آگے بڑھائی جا سکے اور موجودہ دھاگے میں فقط اہل تشیع کے موقف پر گفتگو کرنی ممکن ہو۔
ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ ام کلثوم حضرت عمر کے پاس تھیں اور اس پاس ہونے کی مراد یہ لیتے ہیں کہ وہ حضرت عمر کی بیوی تھیں جبکہ پاس ہونے سے مراد پاس کھڑی ہوئی تھیں بھی لی جاسکتی ہے اب ایک ایسے لفظ جس کے کئی معنٰی مراد لئے جاسکتے ہوں اس سے صرف یہ معنیٰ مراد لینا کہ ام کلثوم حضرت عمر کی بیوی تھی یہ ناانصافی ہے
ہم فقط پاس ہونے سے یہ مراد نہیں لیتے، بلکہ دیگر قرائن کو بھی مد نظر رکھ کر یہ بات کہتے ہیں۔ اور دیگر احادیث سے ام کلثوم بنت علی و فاطمۃ الزہرا علیہم السلام ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی منکوحہ ہونا ثابت ہے۔
دوسری بات یہ کہ روایت کے شروع کے الفاظ یہ ہیں:
قسم مروطا بين نساء من نساء المدينة
(عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ) مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں۔
آپ یہ ماننے کو تیار ہیں کہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ، چادریں لینے کے لئے بنفس نفیس آئی تھیں؟ ہمیں یہ ماننے میں تامل ہے۔ شاید آپ کے لئے اس میں تردد کی کوئی بات نہ ہو۔
روایت کے اگلے الفاظ ہیں:
فقال له بعض من عنده
یہ جو بعض حضرات موجود تھے، ان کے سامنے بغیر پردہ کے حضرت امیررضی اللہ عنہ کی بیٹی کھڑی تھیں، نہیں، تو انہیں کیسے معلوم ہوا کہ فلاں خاتون حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑی ہیں؟
اسی لئے ہم
التی عندک سے پاس کھڑا ہونا مراد نہیں لیتے، بلکہ بیوی ہونا مراد لیتے ہیں۔ جس میں ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی توہین نہیں ہے۔
پھر ان بعض حضرات کا یہ کہنا:
يا أمير المؤمنين أعط هذا ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم
اتنے تعارف کی کیا ضرورت تھی، اگر وہ پاس ہی کھڑی تھیں، فقط اشارہ کر دیتے کہ انہیں دے دیجئے۔
اور اس سارے عرصے میں ام کلثوم رضی اللہ عنہا پاس کھڑی رہیں، مقصد بھی چادر لینا تھا، اور کچھ بولی بھی نہیں۔ دوسرے لوگ ہی ان کے بارے گفتگو کرتے رہے؟
پھر جب آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ:
اب ایک ایسے لفظ جس کے کئی معنٰی مراد لئے جاسکتے ہوں اس سے صرف یہ معنیٰ مراد لینا کہ ام کلثوم حضرت عمر کی بیوی تھی یہ ناانصافی ہے
لہٰذا ہم نے تو عرض کر دی کہ ہم کن قرائن کی بنا پر اس لفظ کے وہ معنیٰ متعین کرتے ہیں، جن سے ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی ہونا قرار پاتا ہے۔ اب آپ اس روایت پر درایت کے اصولوں کی روشنی میں بات کر کے ثابت کیجئے کہ
التی عندک کے الفاظ سے یہاں بیوی مراد لینا غلط ہے اور پاس کھڑا ہونا ہی مراد لینا درست ہے؟
کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس شخص سے اپنی بیٹی کا ہاتھ مانگنے پر عمروں کے فرق کا ذکر کرکے منہ موڑ چکے ہوں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابزادی کی بیٹی کی شادی عمر سے ہو
خطب أبو بكرٍ وعمرُ رضِيَ اللهُ عنهما فاطمةَ ، فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : إنها صغيرةٌ ، فخطبها عليٌّ فزوَّجها منه
الراوي: بريدة بن الحصيب الأسلمي المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 3221
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
ابوبکر اور عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حضرت زہرا[سلام الله عليها] کی خواستگاری کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا وہ ابھی چھوٹی ہیں پھر علی علیہ السلام نے خواستگاری کی تو ان سے شادی کروادی ۔
اسے کہتے ہیں تاریخی حقائق کو توڑ موڑ کرنے کے لئے پوچ اور لچر تاویلات کرنا۔۔ محترم، یہ بتا دیجئے کہ درج بالا روایت میں اس بات کا ذکر کہاں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہی دنوں میں نکاح کی خواستگاری کی تھی؟
حرف "فا" سے یہاں تعقیب بلا مہلت مراد لینے کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟
جبکہ یہ عام ہے کہ حرف "فا" فقط ترتیب بیان کے لئے بھی آتا ہے۔
حدیث سے فقط اتنا ثابت ہوتا ہے کہ پہلے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ نے نکاح کی درخواست کی اور بعد میں حضرت علی نے۔
دوسری بات یہ کہ اگر آپ کے استدلال کے تحت یہاں حرف "فا" سے تعقیب بلا مہلت مراد لی جائے تو رسول اللہ ﷺ پر الزام آتا ہے ، کہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا یا تقیہ کیا (نعوذباللہ من ذلک) ۔ کیونکہ روایت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کو انکار کی وجہ یہ بتلائی:
إنها صغيرةٌ
کہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا چھوٹی ہیں۔
یہ نہیں فرمایا کہ تم عمر میں بڑے ہو۔ یا تمہارے مقابلے میں وہ چھوٹی ہیں۔
کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو مقابلتاً وہ بہت چھوٹی تھیں، تو کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ رشتہ دینے سے انکار کریں، جس میں وہ خود مبتلا ہوئے ہوں؟
لہٰذا ضرور ہے کہ یہاں مانا جائے کہ واقعتاً بی بی فاطمہ صغیرہ سن تھیں اور ابھی بلوغ کی عمر کو نہیں پہنچی تھیں، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے انکار کیا۔
اور جب بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رشتہ کی درخواست کی ، تو بی بی فاطمہ صغیرہ سن نہیں رہی تھیں، اس لئے قبول کر لیا۔
ہمارے استدلال کے تحت نہ رسول اللہ ﷺ پر کوئی حرف الزام آتا ہے اور نہ آپ کا مدعا ثابت ہوتا ہے۔ آپ کے استدلال کے تحت دونوں باتوں کا اثبات ہوتا ہے تو آپ فرمائیے کہ اپنے مدعا کے اثبات میں رسول اللہ ﷺ پر تہمت لگانے کو تیار ہیں؟