• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں روایت کی تحقیق

شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
محترم علی معاویہ بھائی !
مجھے آپ کے سوالات کا جواب دینے میں کوئی اعتراض نہیں لیکن یہ بات مجھے مناسب معلوم نہیں ہوتی کہ میرے سوالات کا تو جواب نہ دیا جائے الٹا سوال پر سوال کیا جاتا رہے ،
اب لولی ٹائم بھائی مسلسل میرے سوالات کو نظر انداز کر رہے ہیں الٹا مجھ سے کہا جا رہا ہے کہ میرے سوالات کا جواب میرے عقائد کا پول کھول دے گا ، حالانکہ ان کا میرے ان تین سوالات کا جواب نہ دینا ہی اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ ان کا میرے ان تین سوالات کا جواب دینا ان کے لئے مسئلہ پیدا کر دے گا ، میرا ان سوالات پر اصرار اس لئے بھی ہے کہ ان سوالات کے جواب میں ہی لولی بھائی کے سوالات کا جواب موجود ہو گا،
آپ سے بھی میری گزارش یہی ہے کہ آپ ان تین سوالات کے جواب عنایت فرما دیں اس کے بعد میں آپ کے سوالات کے جواب دے دوں گا ، آپ کے جوابات سے میں آپ کے سوالات کا بہتر انداز میں جواب دے سکوں گا ، جزاک اللہ

زندہ اور مردہ کا اطلاق کس پر ہوتا ہے ؟
اور یہ بھی بتا دیں کیا آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میت کہتے اور مانتے ہیں ؟
دنیاوی اور برزخی زندگی کی تعریف فرما دیں ۔
محمود بھائی : اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے
محترم آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ "لوّلی" بھائی سے اپنے سوالات کا جواب مانگیں اور انہوں نے جو آپ سے سوال کئے ہیں وہ اُن کا جواب طلب کریں ،اپنے حقوق کی جنگ لڑتے رہیں ،مجھے تو اپنے سوالات کا جواب چاہئے
میرے سوالات کے بارے جناب نے لکھا ہے کہ "مجھے آپ کے سوالات کا جواب دینے میں کوئی اعتراض نہیں" یہ بات لکھ کر "لوّلی" بھائی سے کئے ہوئے سوالوں کا جواب مجھ سے طلب کرنا کچھ اور ہی ظاہر کرتا ہے؟
اگر جناب کو میرے سوالات کا جواب دینے میں کوئی اعتراض نہیں؟(اور ہونا بھی نہیں چاہئے ،) اپنی اس بات کا پاس رکھتے ہوئے پہلی فرست میں اُن کے جوابات باترتیب عنایت فرما دیں جناب کی مہربانی ہوگی ۔ میرے سوالات کا مکمل جواب دینے کے بعد اگر کوئی سوال جناب کے ذہن میں ہو تو ضرور کریں بندہ اس کے جواب کا پابند ہوگا
امید ہے کہ جناب تکرار نہیں کریں گے
 

محمود

رکن
شمولیت
اگست 19، 2013
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
41
محترم محمود بھائی :بحث برائے بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ،ایک ہی بات کی تکرار کرنا بھی درست نہیں ۔میں چند باتیں عرض کرتا ہوں اگر آپ تھوڑی توجہ دیں گے اور ان کا صاف صاف جواب عنایت کر دیں گے تو ان شاء اللہ کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکل آئیگا
(1) نبی اکرم ﷺ اس دنیا میں روح اور جسم کے ساتھ زندہ تھے کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں ؟ (2) جب آپ ﷺ پر موت کا ورود ہوا تو آپ ﷺ کے جسم ااقدس سے روحِ مبارک کا اخراج ہو گیا کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں ؟(3) صحابہ کرام نے آپ ﷺ کے جسمِ اقدس کو میت سجمھ کر دفنایا؟کیا جناب اس سے اتفاق کرتے ہیں ؟(4)کیا :نبی اکرم کو بعد از دفن جسم میں روح کے واپس آجانے کے بعد زندہ سمجھتے ہیں یا روح کے تعلق کے ساتھ؟(5)نبی اکرم ﷺ کا جسم اقدس دو دن کے بعد دفنایا گیا اس دو دن میں جسم اقدس روح کے یغیر تھا یا اس میں روح موجود تھی ؟ اگر روح کے بغیر تھا تو اسے زندہ کہنا چاہئیے یا میت؟ اگر روح جسم میں مو جود تھی تو کیا صحابہ کرام نے (نعوذ باللہ ) آپ ﷺ کو زندہ دفن کیا؟(6) جس انسان(نبی یا غیر نبی) کی روح جسم سے نکل جائے اُسے میت کہنا صحیح ہے یا نہیں؟
امید ہے کہ جناب ان باتوں کا صاف صاف جوان عنایت کریں گے[/ quote]

علی معاویہ بھائی ! میں نے کہا تھا کہ ( آپ سے بھی گزارش ہے) آپ نے غالبا لفظ بھی پر غور نہیں فرمایا ، اینی وے آپ کے سوالات کے جواب پیش خدمت ہیں ،
سوال نمبر 1 تا 3
جواب:جی میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں،
سوال 4 کا جواب : روح کے واپس آ جانے کے بعد زندہ سمجھتا ہوں
سوال 5 اور 6 کا جواب : نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر انک میت کا قراںی وعدہ پورا ہوا ، صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میت سمجھ کر ہی دفن کیا ، جس انسان کی روح جسم سے نکل جائے اسے میت کہنا صحیح ہے،


اب آپ سے میری گزارش یہ ہے کہ ان نکات پر بھی غور فرمائیں
آپ کے سوالات سے موت کی جو تعریف سامنے آتی ہے وہ یہ ہوئی کہ جب انسان کے جسم سے روح خارج ہو جائے ،
اور جس کے جسم سے روح خارج ہو جائے وہ میت کہلاتا ہے
اس تعریف سے ہمیں حی یا زندہ کی تعریف بھی پتہ چل گئی کہ زندہ یا حی اسے کہا جائے گا جس کی روح اس کے جسم میں ہو ،
تو جب ہم کہیں کہ فلاں زندہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے جسم میں روح موجود ہے ،
اس سے یہاں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ زندہ اور مردہ کا اطلاق یا تعلق جسم کے ساتھ ہے

اب قرآن میں شہدا کے لئے صاف حکم آ گیا ہے کہ ان کو میت یا مردہ گمان بھی نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں ،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہدا سے افضل ہونے کی وجہ سے زندہ ہونے کے زیادہ حق دار ہیں اور ویسے بھی صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس زہر کی وجہ سے ہوئی جو خیبر میں آپ کو دیا گیا تھا اس لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہیں اس لئے حکم قرآنی کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اب ہم میت یا مردہ گمان بھی نہیں کر سکتے،


علامہ زرقانی فرماتے ہیں انبیا، کی ارواح وفات کے بعد لوٹا دی گئیں پس وہ شہدا کی طرح اللہ کے ہاں زندہ ہیں ،

پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہیں ،

فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے الانبیا، احیا،فی قبورھم یصلون
اور اس کی تصدیق مسلم کی حدیث سے ہوگئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا،
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
کیا اللہ روح کو لوٹاتا ہے
allah rohoon ko lotatta hai.png
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2724 حدیث قدسی مکررات 1 متفق علیہ 1 بدون مکرر
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَکَانِ يُصْعِدَانِهَا قَالَ حَمَّادٌ فَذَکَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَکَرَ الْمِسْکَ قَالَ وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَائِ رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَائَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْکِ وَعَلَی جَسَدٍ کُنْتِ تَعْمُرِينَهُ فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَی رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ يَقُولُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ قَالَ حَمَّادٌ وَذَکَرَ مِنْ نَتْنِهَا وَذَکَرَ لَعْنًا وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَائِ رُوحٌ خَبِيثَةٌ جَائَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ قَالَ فَيُقَالُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً کَانَتْ عَلَيْهِ عَلَی أَنْفِهِ هَکَذَا
عبید اللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالی تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے سجن کی طرف لے چلو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی
(کافر کی روح کی بدبو ظاہر کرنے کے لییے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا)








 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1584 حدیث مرفوع مکررات 4
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَتَغَشَّاهُ فَقَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام وَا کَرْبَ أَبَاهُ فَقَالَ لَهَا لَيْسَ عَلَی أَبِيکِ کَرْبٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ يَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ يَا أَبَتَاهْ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ يَا أَبَتَاهْ إِلَی جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام يَا أَنَسُ أَطَابَتْ أَنْفُسُکُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ
سلیمان بن حرب، حماد، ثابت، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی زیادتی سے بیہوش ہو گئے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روتے ہوئے کہا افسوس میرے والد کو بہت تکلیف ہے، آپ نے فرمایا، آج کے بعد پھر نہیں ہوگی، پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ کہہ کر روئیں کہ اے میرے والد، آپ کو اللہ نے قبول کرلیا ہے
، اے میرے والد آپ کا مقام جنت الفردوس ہے
، ہائے میرے ابا جان میں آپ کی وفات کی خبر جبریل کو سناتی ہوں، جب آپ کو دفن کیا جا چکا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تو لوگوں نے کیسے گوارہ کرلیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی میں چھپا دو.
سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1847 حدیث موقوف مکررات 4
أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ فَاطِمَةَ بَکَتْ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ مَاتَ فَقَالَتْ يَا أَبَتَاهُ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهُ يَا أَبَتَاهُ إِلَی جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ يَا أَبَتَاهُ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ
اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، ثابت، انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی تو حضرت فاطمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات پر رونے لگ گئیں اور عرض کرنے لگیں کہ
اے میرے والد تم اپنے پروردگار کے نزدیک آگئے
اے میرے والد ماجد! میں تمہاری وفات کی خبر حضرت جبرائیل تک پہنچاتی ہوں اے میرے والد! تمہارا مقام جنت ہے۔
سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 1629 حدیث مرفوع مکررات 4
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ أَبُو الزُّبَيْرِ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ لَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ کَرْبِ الْمَوْتِ مَا وَجَدَ قَالَتْ فَاطِمَةُ وَا کَرْبَ أَبَتَاهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا کَرْبَ عَلَی أَبِيکِ بَعْدَ الْيَوْمِ إِنَّهُ قَدْ حَضَرَ مِنْ أَبِيکِ مَا لَيْسَ بِتَارِکٍ مِنْهُ أَحَدًا الْمُوَافَاةُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
نصر بن علی، عبداللہ بن زبیر، ثابت بنانی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سکرات شروع ہوئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہائے میرے والد کی تکلیف۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آج کے بعد تمہارے والد پر کبھی سختی اور تکلیف نہ آئے گی۔ تمہارے والد پر وہ وقت آگیا جو سب پر آنے والا ہے
اب قیامت کے روز ملاقات ہوگی۔
سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 1630 حدیث موقوف مکررات 4
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنِي حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنِي ثَابِتٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَتْ لِي فَاطِمَةُ يَا أَنَسُ کَيْفَ سَخَتْ أَنْفُسُکُمْ أَنْ تَحْثُوا التُّرَابَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ و حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ فَاطِمَةَ قَالَتْ حِينَ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَا أَبَتَاهُ إِلَی جِبْرَائِيلَ أَنْعَاهُ وَا أَبَتَاهُ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهُ وَا أَبَتَاهُ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ وَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ قَالَ حَمَّادٌ فَرَأَيْتُ ثَابِتًا حِينَ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ بَکَی حَتَّی رَأَيْتُ أَضْلَاعَهُ تَخْتَلِفُ
علی بن محمد، ابواسامہ، حماد بن زید، ثابت، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت فاطمہ نے کہا اے انس ! تمہارے دلوں کو یہ کیسے گوارا ہو کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مٹی ڈال دی۔ حضرت ثابت ، حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو حضرت فاطمہ نے کہا آہ میرے والد ! میں جبرائیل علیہ السلام کو ان کے وصال کی اطلاع دیتی ہوں۔
آہ میرے والد ! اپنے ربّ کے کس قدر قریب ہو گئے۔ آہ میرے والد ! جنت فردوس ان کا ٹھکانہ ہے
۔ حماد کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ ثابت ہمیں یہ حدیث سناتے ہوئے رو رہے تھے حتیٰ کہ ان کی پسلیاں اوپر تلے ہو گیئں ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم محمود صاحب -

آپ کا نظریہ ہے کہ چوں کہ شہید زندہ ہیں اس بنا پر انبیاء فضیلت میں ان سے زیادہ ہونے کی بنا پر بدرجہ اولیٰ زندہ ہیں- تو اس میں تو کوئی شک نہیں - لیکن وہ کہاں زندہ آیا اپنی زمینی قبر میں یا عالم برزخ میں؟؟؟ تو اس کا جواب خود قرآن دیتا ہے - الله کا فرمان عالی شان ہے -



وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ سوره ال عمران ١٦٩
اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں سے رزق دیے جاتے ہیں-
فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ سوره آل عمران ١٧٠
الله نے اپنے فضل سے جو انہیں دیا ہے اس پر خوش ہونے والے ہیں اور ان کی طرف سے بھی خوش ہوتے ہیں جو ابھی تک ان کے پیچھے سے ان کے پاس نہیں پہنچے اس لئے کہ نہ ان پر خوف ہے او رنہ وہ غم کھائیں گے-



ظاہر ہے کہ ان آیات میں غور کرنے سے پتا لگتا ہے کہ یہ شہداء اس دنیا میں نہیں - بلکہ عالم برزخ میں الله کے پاس اعلیٰ مقام پر موجود ہیں اور خوشی خوشی الله سے اس کا دیا جانے والا رزق حاصل کررہے ہیں - اور ان کے وہ دوست احباب جو ابھی موت سے ہمکنار نہیں ہوے ان کا خوشی خوشی انتظار کر رہے ہیں -

اور اب چاہے وہ انبیاء ہوں یا شہداء یا مومن الله ان کی روحوں کو قیامت کے دن ہی ان کے اجسام میں جو زمینی قبروں میں جس حال میں بہ لوگ دفن ہوے یا موت سے ہمکنار ہوے ان کے اندر ڈال کر دوبارہ زندہ کر دے گا-

ارشاد باری تعالیٰ ہے -.
يَاا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ - ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً -فَادْخُلِي فِي عِبَادِي-وَادْخُلِي جَنَّتِي سوره الفجر ٢٧-٣٠
(ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح- اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی- پس میرے بندو ں میں شامل ہوجا - اور میری جنت میں داخل ہوجا
-


والسلام -
 

محمود

رکن
شمولیت
اگست 19، 2013
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
41
جواد بھائی ! اسلام علیکم
میں نے علی معاویہ بھائی کو دئے گئے جواب میں یہ بھی عرض کر دیا تھا
اب آپ سے میری گزارش یہ ہے کہ ان نکات پر بھی غور فرمائیں
آپ کے سوالات سے موت کی جو تعریف سامنے آتی ہے وہ یہ ہوئی کہ جب انسان کے جسم سے روح خارج ہو جائے ،
اور جس کے جسم سے روح خارج ہو جائے وہ میت کہلاتا ہے
اس تعریف سے ہمیں حی یا زندہ کی تعریف بھی پتہ چل گئی کہ زندہ یا حی اسے کہا جائے گا جس کی روح اس کے جسم میں ہو ،
تو جب ہم کہیں کہ فلاں زندہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے جسم میں روح موجود ہے ،
اس سے یہاں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ زندہ اور مردہ کا اطلاق یا تعلق جسم کے ساتھ ہے
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے الانبیا، احیا،فی قبورھم یصلون
اور اس کی تصدیق مسلم کی حدیث سے ہوگئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا،
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
محمود بھائی بندہ آپ کا مشکور ہے کہ جناب نے کسی تکرار کے بغیر میرے سوالوں کے جواب عنایت فرمائے ،اللہ تعالی اپکو جزائے خیر عطا فرمائے
جناب نے ان باتوں سے اتفاق کیا ہے !
(1) نبی اکرم ﷺ اس دنیا میں روح اور جسم کے ساتھ زندہ تھے، (2)آپ ﷺ پر موت کا ورود ہوا تو آپ ﷺ کے جسم ااقدس سے روحِ مبارک کا اخراج ہو گیا، (3) صحابہ کرام نے آپ ﷺ کے جسمِ اقدس کو میت سجمھ کر دفنایا، (4)جس انسان(نبی یا غیر نبی) کی روح جسم سے نکل جائے اُسے میت کہنا صحیح ہے؟
ان چار باتوں میں میرا اور آپ کا مکمل اتفاق ہے
میرے پانچویں سوال کا جواب جناب نے نہیں لکھا ۔سوال دوبارہ پڑھیں اور اسکے مطابق جواب لکھیں(نبی اکرم ﷺ کا جسم اقدس دو دن کے بعد دفنایا گیا اس دو دن میں جسم اقدس روح کے یغیر تھا یا اس میں روح موجود تھی ؟ اگر روح کے بغیر تھا تو اسے زندہ کہنا چاہئیے یا میت؟)
جناب نے چوتھے سوال (نبی اکرم کو بعد از دفن جسم میں روح کے واپس آجانے کے بعد زندہ سمجھتے ہیں)کے جواب میں لکھا ہے کہ "روح کے واپس آ جانے کے بعد زندہ سمجھتا ہوں"
بندہ جناب کے اس عقیدہ کا کا منکر ہے۔
اصول میں یہ بات طے ہے کہ دلیل مدعی کے ذمہ ہوتی ہے منکر کے نہیں(بخاری کی حدیث ہے "البیّنۃ علی المدعی والیمین علی من انکر"
اب آپ یہ فرمائیں کہ عقیدہ کے اثبات کے لئے کن دلائل کی ضرورت ہوتی ہے؟
باقی بندہ نے جناب کے نکات پر غور کیا ہے ،ان پر کچھ اشکال پیش کرتا ہوں اِن پر جناب غور فرمائیں اور انکا جواب عنایت کریں
موت کی با حوالہ صحیح تعریف نقل کریں ، اسی طرح لفظِ حیّ اور حیات کی با حوالہ تعریف نقل کریں ، شھدا کی حیات کے متعلق پہلے اپنا عقیدہ واضع کریں کہ شھدا کو روحانی حیات جنت میں حاصل ہے یا قبر میں روح اور جسم کے ساتھ زندہ سمجھتے ہیں؟
جب یہ سب طے ہو جائیگا تو ان شاء اللہ پھر ضرور دلائل دیجئے ابھی نہیں
 

محمود

رکن
شمولیت
اگست 19، 2013
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
41
علی معاویہ بھائی ! اسلام علیکم
میرے پانچویں سوال کا جواب جناب نے نہیں لکھا ۔سوال دوبارہ پڑھیں اور اسکے مطابق جواب لکھیں(نبی اکرم ﷺ کا جسم اقدس دو دن کے بعد دفنایا گیا اس دو دن میں جسم اقدس روح کے یغیر تھا یا اس میں روح موجود تھی ؟ اگر روح کے بغیر تھا تو اسے زندہ کہنا چاہئیے یا میت؟)
جن
میں نے اس حوالے سے بالکل واضح جواب دے دیا تھا کہ
سوال 5 اور 6 کا جواب : نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر انک میت کا قراںی وعدہ پورا ہوا ، صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میت سمجھ کر ہی دفن کیا ، جس انسان کی روح جسم سے نکل جائے اسے میت کہنا صحیح ہے،
غور فرمائیں میت سمجھ کر ہی دفن کیا ۔
اصول میں یہ بات طے ہے کہ دلیل مدعی کے ذمہ ہوتی ہے منکر کے نہیں(بخاری کی حدیث ہے "البیّنۃ علی المدعی والیمین علی من انکر"
میرے بھائی ہم کوئی مناظرہ تھوڑی کر رہے ہیں اور آپ یہ بات بھی بھول رہے ہیں کہ انکار بھی ایک طرح کا دعوی ہوتا ہے جبکہ وہ کسی دلیل پر ہو ۔
اور دیکھیں آپ خود بھی تو دعوی ہی کر رہے ہیں ناں!
بندہ جناب کے اس عقیدہ کا کا منکر ہے۔
باقی بندہ نے جناب کے نکات پر غور کیا ہے ،ان پر کچھ اشکال پیش کرتا ہوں اِن پر جناب غور فرمائیں اور انکا جواب عنایت کریں
موت کی با حوالہ صحیح تعریف نقل کریں ، اسی طرح لفظِ حیّ اور حیات کی با حوالہ تعریف نقل کریں ، شھدا کی حیات کے متعلق پہلے اپنا عقیدہ واضع کریں کہ شھدا کو روحانی حیات جنت میں حاصل ہے یا قبر میں روح اور جسم کے ساتھ زندہ سمجھتے ہیں؟
آپ نے میرے نکات پر اشکال کب پیش کئے ہیں ؟ آپ نے تو سوالات پیش کر دئے۔
میں اپنی طرف سے موت اور حیات کی تعریف پیش کر چکا ہوں اس سے آپ کو اگر اتفاق نہیں ہے تو اس کی وجہ تو آپ کو بتانی ہے ۔
شہید کے حوالے سے میں بالکل واضح بات کر چکا ہوں
آپ کے سوالات سے موت کی جو تعریف سامنے آتی ہے وہ یہ ہوئی کہ جب انسان کے جسم سے روح خارج ہو جائے ،
اور جس کے جسم سے روح خارج ہو جائے وہ میت کہلاتا ہے
اس تعریف سے ہمیں حی یا زندہ کی تعریف بھی پتہ چل گئی کہ زندہ یا حی اسے کہا جائے گا جس کی روح اس کے جسم میں ہو ،
تو جب ہم کہیں کہ فلاں زندہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے جسم میں روح موجود ہے ،
اس سے یہاں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ زندہ اور مردہ کا اطلاق یا تعلق جسم کے ساتھ ہے
اب قرآن میں شہدا کے لئے صاف حکم آ گیا ہے کہ ان کو میت یا مردہ گمان بھی نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں ،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہدا سے افضل ہونے کی وجہ سے زندہ ہونے کے زیادہ حق دار ہیں اور ویسے بھی صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس زہر کی وجہ سے ہوئی جو خیبر میں آپ کو دیا گیا تھا اس لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہیں اس لئے حکم قرآنی کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اب ہم میت یا مردہ گمان بھی نہیں کر سکتے،
علامہ زرقانی فرماتے ہیں انبیا، کی ارواح وفات کے بعد لوٹا دی گئیں پس وہ شہدا کی طرح اللہ کے ہاں زندہ ہیں ،
پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہیں ،
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے الانبیا، احیا،فی قبورھم یصلون
اور اس کی تصدیق مسلم کی حدیث سے ہوگئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا،
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
امارت اور خلافت کا بیان
شہدا کی روحوں کے جنت میں ہونے اور شہدا کے زندہ ہونے اور اپنے رب سے رزق دیے جانے کے بیان میں
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 388 حدیث قدسی مکررات 4 متفق علیہ 1 بدون مکرر
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ وَعِيسَی بْنُ يُونُسَ جَمِيعًا عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا
یحیی بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی معاویہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ، محمد بن عبداللہ بن نمیر حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالی ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
قرآن کی تفسیر کا بیان
باب سورةآل عمران کے متعلق
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 928 حدیث قدسی مکررات 4
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَقَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَأُخْبِرْنَا أَنَّ أَرْوَاحَهُمْ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ وَتَأْوِي إِلَی قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ بِالْعَرْشِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّکَ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُکُمْ قَالُوا رَبَّنَا وَمَا نَسْتَزِيدُ وَنَحْنُ فِي الْجَنَّةِ نَسْرَحُ حَيْثُ شِئْنَا ثُمَّ اطَّلَعَ إِلَيْهِمْ الثَّانِيَةَ فَقَالَ هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُکُمْ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَمْ يُتْرَکُوا قَالُوا تُعِيدُ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا فَنُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
ابن ابی عمر، سفیان، اعمش، عبداللہ بن مرة، مسروق، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے اس آیت ولا تحسبن الذین۔ کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ہم نے بھی اسکی تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ان کی )یعنی شہداء کی( روحیں سبز پرندوں )کی شکل( میں جو جنت میں جہاں چاپتے ہیں وہاں پھرتے ہیں۔ ان کا ٹھکانہ عرش سے لٹکی ہوئی قندیلیں ہیں پھر اللہ تعالی نے ان کی طرف جھانکا اور پوچھا کیا تم لوگ کچھ اور بھی چاہتے ہو جو میں تمہیں عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا یا اللہ ہم اس سے زیادہ کیا چاہیں گے کہ ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے پھرتے ہیں پھر دوبارہ اللہ تعالی نے ان سے اسی طرح کیا تو ان شہداء نے سوچا کہ ہم اس وقت تک نہیں چھوٹیں گے جب تک کوئی فرمائش نہیں کریں گے۔ تو انہوں نے تمنا ظاہر کی کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں واپس کر دی جائیں تاکہ ہم دنیا میں جائیں اور دوبارہ تیری راہ میں شہید ہو کر آئیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 929 حدیث مرفوع مکررات 4
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ مِثْلَهُ وَزَادَ فِيهِ وَتُقْرِئُ نَبِيَّنَا السَّلَامَ وَتُخْبِرُهُ عَنَّا أَنَّا قَدْ رَضِينَا وَرُضِيَ عَنَّا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ
ابن ابی عمر، سفیان، عطاء بن سائب، ابوعبیدہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ ابن ابی عمر نے بواسطہ سفیان، عطاء بن سائب اور ابوعبیدہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے اسکی مثل روایت کیا لیکن اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ ہمارے نبی کو ہماری طرف سے سلام پہنچایا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ہم اپنے رب سے راضی اور ہمارا رب ہم سے راضی ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
جہاد کا بیان
اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 958 حدیث قدسی مکررات 4
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فِي قَوْلِهِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ کَطَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ فِي أَيِّهَا شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ بِالْعَرْشِ فَبَيْنَمَا هُمْ کَذَلِکَ إِذْ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ رَبُّکَ اطِّلَاعَةً فَيَقُولُ سَلُونِي مَا شِئْتُمْ قَالُوا رَبَّنَا مَاذَا نَسْأَلُکَ وَنَحْنُ نَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ فِي أَيِّهَا شِئْنَا فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَا يُتْرَکُونَ مِنْ أَنْ يَسْأَلُوا قَالُوا نَسْأَلُکَ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا إِلَی الدُّنْيَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ فَلَمَّا رَأَی أَنَّهُمْ لَا يَسْأَلُونَ إِلَّا ذَلِکَ تُرِکُوا
علی بن محمد، ابومعاویہ، اعمش، عبداللہ بن مرہ، مسروق، حضرت عبداللہ بن مسعود ارشاد خداوندی (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ( 3۔ آل عمران:169) جو لوگ راہ خدا میں شہید کر دئیے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال مت کرنا بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق دئیے جاتے ہیں ۔ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں غور سے سنو ہم نے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی مانند جنت میں جہاں چاہتی ہیں چرتی پھرتی ہیں پھر رات کو عرش سے متعلق قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں۔ ایک بار وہ اسی حالت میں تھیں کہ اللہ رب العزت انکی طرف خوب متوجہ ہوئے اور فرمایا مجھ سے جو چاہو مانگ لو ان روحوں نے عرض کیا اے ہمارے پروردگار ! ہم آپ سے کیا مانگیں حالانکہ ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں چرتی پھرتی ہیں۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ کچھ مانگے بغیر انہیں چھوڑانہ جائے گا )اور مانگے بغیر کوئی چارہ نہیں( تو عرض کیا ہم آپ سے یہ سوال کرتی ہیں کہ ہم )روحوں کو( ہمارے جسموں میں داخل کر کے دوبارہ دنیا بھیج دیں تاکہ پھر آپ کی راہ میں لذت شہادت سے متمتع ہوں جب اللہ نے دیکھا کہ انکی صرف یہی خواہش ہے )جو قانون خداوندی کے لحاظ سے پوری نہیں کی جاسکتی( تو انکو انکے حال پر چھوڑ دیا۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
علامہ زرقانی فرماتے ہیں انبیا، کی ارواح وفات کے بعد لوٹا دی گئیں پس وہ شہدا کی طرح اللہ کے ہاں زندہ ہیں ،
آپ بھی علامہ زرقانی کا قول پیش کر رھے ہیں اور بریلوی بھی پیش کر رھے ہیں - اپنا پیش کیا گیا قول بھی دیکھ لیں اور بریلوی حضرت کا پیش کیا گیا قول بھی دیکھ لیں​
لنک یہ ہے
اور سکین یہ ہے​
ima zarqawi.gif
کیا آپ علامہ زرقانی کا پورا قول جو بریلوی حضرت نے پیش کیا ہے مانتے ہیں -​
 
Top