مولانا سرفراز صفدر صاحب کا نظریہ بھی دیکھ لیں
حیاتیوں کا "عقیدہِ خروجِ روح" ، "کیفیتِ موت" اور اکاڑوی کی پریشانی!!!
عبدالشکور ترمذی نے لکھا: ہدیۃ الحیران صفحہ 329 پر
آبِ حیات کے اس نظریہ پر تمام علمائے دیوبند کا اجماع ہے
انبیاء کی ارواح کا اخراج جسم سے نہیں ہوتا ۔۔ارواح سمٹ جاتی ہیں اور دل کے اندر بند کر دیا جاتا ہے روح کو اور حواس معطل ہو جاتے ہیں،بعد از موت زائل ِحیات نہیں ہے۔ انبیاء کی حیات ، دنیوی حیات ہے برزخی نہیں اور ہے بھی برابر کہ موت آنے پر حیات میں کوئی تبدیلی نہیں
مولانا سرفراز صفدر لکھتے ہیں:
"موت کا مفہوم عرفِ عام میں جان نکل جانے کا نام ہے یعنی جب روح جسم سے نکل جاتی ہے تو اس کو موت کہتے ہیں، علماء کا معنٰی کا کیا ہے کہ روح کا تعلق جسم سے منقطع ہو جائے۔قرآن و حدیث کے نصوص و ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ روح وقت سے نکالی جاتی ہے آسمانوں کی طرف لے جائی جاتی ہے اور اپنی مقررہ جگہ پر رکھی جاتی ہے"
(تسکین الصدور صفحہ 212)
جمہور علماء اسلام موت کا معنٰی انقطاع الروح عن البدن ہی کرتے ہیں (تسکین الصدور صفحہ 216)
دلائلِ صریحہ سے ثابت ہے کہ موت کے وقت روح جسم سے نکلای جاتی ہے ( تسکین الصدور صفحہ 102)
اب یا تو مفتی شکور ترمذی کی بات مانو یا مولانا صفدر صاحب کی ! ایک کی مانو تو اجماع کا منکر ہو کے اہلِ سنت سے خارج ہونا پڑے گا ، دوسرے کی مانو تو قرآن و حدیث ،دلائلِ صریحہ کا منکر ہونا پڑے گا۔
عجب مشکل میں پھنسا ہوں – جو یہ ٹانکا تو وہ اجڑا۔۔ جو وہ ٹانکا تو یہ اجڑا
اب اوکاڑوی صاحب اگر روح کا نکلنا مانے تو شکوری فتوے سے اہلِ سنت دیوبند سے خارج۔۔ اگر قلب میں حیات مانتے ، روح کا نکلنا نہ مانے تو صفدری فتوے سے قرآن و سنت کا انکار !! اب اس نے دو کشتیوں پر پاؤں رکھا ہے ! دیکھتے ہیں کدھر تک پہنچ پاتے ہیں یہ !!
تسکین الصدور کتاب یہاں سے ڈونلوڈ کر لیں
۔