• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں روایت کی تحقیق

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
میں دیوبندی علما، کی عبارتوں کا ذمہ دار نہیں ہوں ان کا جواب تو کوئی دیوبندی ہی دے سکتا ہے ۔

کیا آپ اپنے دیوبندی ہونے کا رد کرتے ہیں - یا آپ کو دیوبندی حیاتی کہتے ہیں -​
 

محمود

رکن
شمولیت
اگست 19، 2013
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
41
محمود نے کہا ہے: ↑
یہ بات میری نہیں علامہ زرقانی کی ہے ۔
کیا علامہ زرقانی کی بات آپ کے نزدیک حجت ہے یا نہیں
میں نے صرف یہ تصیح کی تھی کہ جو قول آپ میری طرف منسوب کر رہے ہیں وہ علامہ زرقانی کا ہے ۔
کسی کا قول ہونا اور بات ہے اور کسی سے اتفاق کرنا اور بات ۔
میں دوبارہ عرض کئے دیتا ہوں
یہ قول علامہ زرقانی کا ہے اور میں اس سے اتفاق کرتا ہوں ۔
علامہ زرقاوی کا صحیح قول کیا ہے - جو آپ نے پیش کیا وہ یا احمد رضا بریلوی نے جو لکھا -
مجھے آپ کی بات کی سمجھ نہیں آئی ۔ میں نے جو قول علامہ زرقانی کا پیش کیا اس کا احمد رضا صاحب کے پیش کردہ قول سے کیا تعلق ؟
میں نے جو علامہ زرقانی کا حوالہ دیا تھا کہ انبیا، کی ارواح وفات کے بعد لوٹا دی گئی ہیں یہ بات انہوں نے زرقانی شرح مواہب الدنیہ ج 3 ص 233 میں بیان کی ہے ۔ اس کا سکین میرے پاس نہیں ہے ورنہ ضرور لگا دیتا ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
علامہ زرقانی فرماتے ہیں انبیا، کی ارواح وفات کے بعد لوٹا دی گئیں پس وہ شہدا کی طرح اللہ کے ہاں زندہ ہیں ،
پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہیں ،
شہدا تو اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور ان کی روح کو واپس دنیا میں نہیں لوٹایا جاتا​
اوپر آپ فرما رہے ہیں کہ​
انبیا، کی ارواح وفات کے بعد لوٹا دی گئیں پس وہ شہدا کی طرح اللہ کے ہاں زندہ ہیں ،


اگر انبیا، شہدا کی طرح اللہ کے ہاں زندہ ہیں تو​
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں اپنے جسم کے ساتھ کیسے زندہ ہیں -​
شہید تو اللہ کے ہاں زندہ ہیں​
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں جسم کے ساتھ زندہ ہیں​
کیا یہ قبر دوسرے انبیا، اور شہدا کو بھی نصیب ہوتی ہے یا صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہوئی ہے​
قبر سے آپ کیا مراد لیتے ہیں​
یہ دنیا میں جو بنتی ہے یا عالم برزخ میں جو سب کو نصیب ہوتی ہے​
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ

انسان پر اللہ کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔
سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲​

علامہ زرقانی فرماتے ہیں انبیا، کی ارواح وفات کے بعد لوٹا دی گئیں پس وہ شہدا کی طرح اللہ کے ہاں زندہ ہیں ،

آپ اس آیت سے کیا مراد لیتے ہیں - کیا اس آیت کا اطلاق انبیا، اور شہدا پر بھی ہوتا ہے یا یہ صرف دوسروں کے لیے ہے​
وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
اور ان کے آگے اس دن تک برزخ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔
سورۃ المومنون ۱۰۰​
 

محمود

رکن
شمولیت
اگست 19، 2013
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
41
شہدا تو اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور ان کی روح کو واپس دنیا میں نہیں لوٹایا جاتا
میرے بھائی ! آپ بہت سی باتوں کو گڈمڈ کر دیتے ہیں ۔
اگر شہدا، کی ارواح ان کے جسموں میں لوٹائی نہیں جاتیں تو وہ پھر وہ زندہ کیسے ؟؟؟
اور ان کی ارواح کو دنیا میں لوٹایا بھی کیوں جائے گا ؟ جب کہ ان کے جسم تو قبروں میں ہیں
ہم قبر اسے ہی کہتے ہیں جو اس زمین میں بنتی ہے لیکن
میرے بھائی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔۔۔۔الخ الحدیث
عند ربھم میں عند کا وہی مطلب ہے جو ان الدین عند اللہ الاسلام میں عند اللہ کا مطلب ہے
وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
آخر قرآن شہدا، کے بارے میں یہ کہہ کر کہ ولا تحسبن الذین قتلو فی سبیل اللہ اموات بل احیا ۔۔۔۔الخ کچھ تو تخصیص بیان کر ہی رہا ہے ۔ کیا خیال ہے ؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
محمود

[quote="محمود, post: 180074, member: 3522"

اگر شہدا، کی ارواح ان کے جسموں میں لوٹائی نہیں جاتیں تو وہ پھر وہ زندہ کیسے ؟؟؟
آخر قرآن شہدا، کے بارے میں یہ کہہ کر کہ ولا تحسبن الذین قتلو فی سبیل اللہ اموات بل احیا ۔۔۔۔الخ کچھ تو تخصیص بیان کر ہی رہا ہے ۔ کیا خیال ہے ؟
[/quote]

شہدا کی روحوں کے جنت میں ہونے اور شہدا کے زندہ ہونے اور اپنے رب سے رزق دیے جانے کے بیان میں
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 388 حدیث قدسی مکررات 4 متفق علیہ 1 بدون مکرر
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ وَعِيسَی بْنُ يُونُسَ جَمِيعًا عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا
یحیی بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی معاویہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ، محمد بن عبداللہ بن نمیر حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
(جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں) تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالی ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ہم قبر اسے ہی کہتے ہیں جو اس زمین میں بنتی ہے لیکن
میرے بھائی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔۔۔۔الخ الحدیث

ہر مذہب یا معاشرے کا اپنے مردوں کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جیسے ہندو اپنے مردے جلا دیتے ہیں اور انکی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ہے اسی طرح پارسی اپنے مردوں کو پرندوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ انکے خیال میں یوں مردہ جسم کو قدرت کے حوالے کر دینا ہی مناسب طریقہ ہے، اسی طرح بہت سی لاوارث لاشوں کو چیر پھاڑ کر میڈیکل کے طالبعلم اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ایسی لاشوں کو بعد میں تیزاب میں گلا کر ختم کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی بہت سے لوگوں کو تو دنیا میں قبر ملتی ہی نہیں لیکن جب ہم قران پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قبر ہر انسان کو دی جاتی ہے ۔​
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ

انسان پر اللہ کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔

سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲

پس ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے دنیا میں اسکی لاش جلا کر راکھ کردی جائے اور یا پھر وہ جانوروں اور مچھلیوں کی خوراک بن جائے اور یہی وہ اصلی قبر ہے جو ہر ایک کو ملتی ہے اور جہاں روح کو قیامت تک رکھا جائے گا اور ثواب و عذاب کے ادوار سے گزارا جائے گا۔ اسی حوالے سے ایک اور مثال ہمیں فرعو ن اور اسکے حواریوں کی ملتی ہے جن کے بارے میں قران ہمیں بتاتا ۔

حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِي۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زيادتی سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب ڈوبنےلگا کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبردار میں سے ہوں۔ اب یہ کہتا ہے اورتو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔ سو آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو اوربے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔

سورة یونس، آیات ۹۰ تا ۹۲

فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ۔ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ

پھر الله نے اسے تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آ پڑا۔ وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔

سورة غافر، آیات ٤۵۔٤٦

اسطرح ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فرعون اور اسکے لوگ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اور قیامت کے بعد اس عذاب میں مزید شدت آ جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو صبح و شام کا یہ عذاب کہاں ہو رہا ہے؟ کیونکہ مصر کے لوگ تو اپنے مردوں کو ممی بنا کر محفوظ کر لیتے تھے اور آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انکی لاشیں یا ممیاں شیشے کے تابوتوں میں مصر اور دنیا کے دیگر عجائب خانوں میں ساری دنیا کے سامنے پڑی ہیں۔ اب جو یہ فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کی ارواح کو انکی قبروں میں مدفون مردہ اجسام سے جوڑ دیا جاتا ہے تو فرعون اور فرعونیوں کے حوالے سے یہ سب ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ کیا کبھی کسی نے ان ممیوں کو ہلتے یا عذاب کی حالت میں چیختے چلاتے دیکھا ہے؟

قران کے علاوہ حدیث میں بھی ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ مردے سے سوال و جواب اور اسکے بعد عذاب کا سلسلہ فوراً ہی شروع ہو جاتا ہے چاہے اسکی لاش ابھی دفنائی بھی نہ گئی ہو۔ ملاحظہ کیجئے صحیح مسلم کی یہ حدیث:

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابوبکر، عمرۃبنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے پر سے گزرے اس پر رویا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ تو اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اسکی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔

صحیح مسلم، جلد اول، جنازوں کا بیان

فرقوں کے بقول مردہ انسان کی تدفین کے فوراً بعد انسانی روح اسکے جسم میں واپس ڈال دی جاتی ہے پھر فرشتے آکر اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال و جواب کرتے ہیں اور پھر اسکے جوابات کی روشنی میں اس پر عذاب یا راحت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو جسم اور روح دونوں پر یکساں ہوتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتاہے کہ پھر مندرجہ بالاحدیث میں اس یہودیہ کے سوال و جواب کہاں ہوئے اور کہاں اس پر عذاب شروع بھی ہو گیا جبکہ اسے ابھی دفن بھی نہیں کیا گیا تھا؟ اور کیوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے عذاب دیا جا رہا ہے؟ لہذا ایک بار پھر ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ مردے کے سوال و جواب اور پھر سزا و جزا اسکی اصلی قبر یعنی برزخ میں وفات کے فوراً بعد ہی شروع ہو جاتے ہیں چاہے اسکے لواحقین کئی دن اسے دفن نہ بھی کریں کہ اللہ کا نظام اور اس کی سنّت انسانوں کے قوانین اور ضابطوں کے محتاج نہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لاوارث لاشیں کئی کئی ماہ مردہ خانوں میں پڑی رہتی ہیں جب تک کہ انکے رشتہ دار مل نا جائیں اور یا پھر جو لوگ قتل ہوتے ہیں انکا پہلے پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے، تحقیقات ہوتی ہیں اور پھر کہیں جا کر لاش ورثاء کو ملتی ہے
تو کیا فرشتے اتنا عرصہ انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب مردے کے لواحقین لاش کو دفن کریں اور وہ اس میں روح لوٹا کر سوال و جواب کریں؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اگر شہدا، کی ارواح ان کے جسموں میں لوٹائی نہیں جاتیں تو وہ پھر وہ زندہ کیسے ؟؟؟
اور ان کی ارواح کو دنیا میں لوٹایا بھی کیوں جائے گا ؟ جب کہ ان کے جسم تو قبروں میں ہیں
ہم قبر اسے ہی کہتے ہیں جو اس زمین میں بنتی ہے لیکن
میرے بھائی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔۔۔۔الخ الحدیث
عند ربھم میں عند کا وہی مطلب ہے جو ان الدین عند اللہ الاسلام میں عند اللہ کا مطلب ہے

آخر قرآن شہدا، کے بارے میں یہ کہہ کر کہ ولا تحسبن الذین قتلو فی سبیل اللہ اموات بل احیا ۔۔۔۔الخ کچھ تو تخصیص بیان کر ہی رہا ہے ۔ کیا خیال ہے ؟

شہداء۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہا ہے، اللہ رب العالمین فرما رہے ہیں :" أَحْيَاء "زندہ ہیں" عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ [آل عمران : 169] " اللہ کے پاس ان کو رزق دیا جاتا ہے۔اور پھر فرمار ہے ہیں: " فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ "اللہ نے جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے یہ لوگ اس پر خوش بھی ہیں۔" وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ" ان کو خوشخبریاں بھی دی جاتی ہیں۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ شہداء احدکی روحیں سبز رنگ کے پرندوں میں ہیں، وہ جنت کے جو مرضی پھل چاہیں، کھائیں، خوشہ چینی کریں۔لہٰذا ثابت ہوا کہ اس قبر کے اندر عذاب اور سزا نہیں بلکہ عذاب کےلیے آسمانوں سے اوپر کوئی برزخ ہے ، کوئی قبر ہے، جہاں پر اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔اور روح اس جسم کے اندر نہیں لوٹتی، بلکہ اس روح کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ساری کی ساری باتیں اور اعتراضات غلط ہیں"

محترم : جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تھی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اشکال ہوا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے جواب میں جو ارشاد فرمایا تھا اسے غور سے پڑھیں:

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ وَعِيسَی بْنُ يُونُسَ جَمِيعًا عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا

صحیح مسلم:جلد سوم:امارت اور خلافت کا بیان :شہدا کی روحوں کے جنت میں ہونے اور شہدا کے زندہ ہونے اور اپنے رب سے رزق دیے جانے کے بیان میں حدیث قدسی مکررات 4 متفق علیہ 1 بدون مکرر

یحیی بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی معاویہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ، محمد بن عبداللہ بن نمیر حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

قرآن مجید فرقان حمید کی اس آیتِ کریمہ کی تفسیر رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے اور اس میں آپ ﷺ نے صاف صاف فرمایا کہ شھدا کی ارواح سبز رنگ کے پرندوں کے جوف میں رہ کر جنت میں سیر کرتی ہیں اورعرش کے نیچے لٹکی قندیلوں بسیرا کرتی ہیں اور جن اللہ رب العزت اُن سے پوچھتے ہیں
کہ کچھ مانگو تو وہ کہتے ہیں "يَا رَبِّ نُرِيدُأَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا"
اے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں

جناب کہتے ہیں کہ روحیں قبروں میں مدفون جسموں میں ہوتی ہیں اور امام الانبیاء ﷺفرماتے ہیں کہ شھدا کی روحیں جنت میں ہوتی ہیں اور شھدا کہتے ہیں کہ ہماری روحیں جسموں میں لو ٹا دے ۔اگر شھدا کی روحیں اُن کے جسموں میں ہوتیں تو وہ یہ مطالبہ کیوں کرتے۔اب جناب کی مرضی اپنے دل کی مانیں یا امام الانبیاء ﷺ کی؟

ایک اور حدیث مبارکہ پڑھیں:

حضرت کعب بن مالکؓ کی روایت ھےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (انما نسمۃ المومین من طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ)۔(رواہ مالک و نسائی بسند صحیح)

مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رھے گی، یھاں تک کہ قیامت کے روز اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔

ثابت ہوا کہ مرنے کے بعدمومنین کی روحوں کا ٹھکانہ جنت میں ہوتا ہے اور قیامت سے پہلے وہ اپنے جسموں میں نہیں لوٹائی جاتیں ۔

دلائل تو اور بھی بہت ہیں مگر ماننے والوں کے لئے یہی کافی ہیں


سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 2077 حدیث مرفوع مکررات 4

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ کَانَ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَبْعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَی جَسَدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ


قتیبہ، مالک، ابن شہاب، عبدالرحمن بن کعب، کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مومن کی جان جنت کے درختوں پر پرواز کرتی رہے گی یہاں تک کہ خداوند قدوس اس کو قیامت کے دن اس کے جسم کی طرف بھیج دے گا۔


سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1152 حدیث مرفوع مکررات 4

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَعْبٍ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ کَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ يَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَرْجِعَ إِلَی جَسَدِهِ يَوْمَ يُبْعَثُ
سوید بن سعید، مالک بن انس، ابن شہاب، عبدالرحمن حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں چگتی پھرتی ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اپنے اصلی بدن میں ڈالی جائے گی۔
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
محترم بھائی محمود صاحب : اُصول و ضوابط طے ہو جانے کے بعد اگر دلائل دئے جائیں تو یقینا" فائدہ سے خالی نہیں ہونگے ، بندہ اسی لئے پہلے انہیں طے کرنے کی کوشش کر رہا ہے
جناب نے کسی لگی لپٹی کے بغیر میرے سوالوں کے جواب دئے تو اسکا نتیجہ سامنے ہے کہ چار با توںمیں میرا اور آپ کا بغیر کسی بحث کے اتفاق ہو گیا ، ایک دو چیزیں جو رہ گئی ہیں امید ہے کہ وہ بھی طے ہو جائیں۔
محترم میرے پانچویں سوال کو غور سے پڑھئے (نبی اکرم ﷺ کا جسم اقدس دو دن کے بعد دفنایا گیا اس دو دن میں جسم اقدس روح کے یغیر تھا یا اس میں روح موجود تھی ؟ اگر روح کے بغیر تھا تو اسے زندہ کہنا چاہئیے یا میت؟) یہاں میں پوچھ یہ رہا ہوں کہ آپ ﷺ کا جسمِ اقدس دو دن زمین کے اُوپر موجود رہا کیا اس میں روح موجود تھی یا نہیں؟ اگر نہیں تھی تو کیا اُس وقر جسمِ اقدس میت تھا یا نہیں ؟
اسکا جواب چھٹے سوال کو ساتھ ملا کر نہ دیں الگ سے دیں تو مہربانی ہوگی، اس جواب سے کئی مسئلے حل ہو جائیں گے
بندہ نے لکھا تھا کہ "اصول میں یہ بات طے ہے کہ دلیل مدعی کے ذمہ ہوتی ہے منکر کے نہیں(بخاری کی حدیث ہے "البیّنۃ علی المدعی والیمین علی من انکر"
اسکے جواب میں بھائی نے لکھا ہے کہ "میرے بھائی ہم کوئی مناظرہ تھوڑی کر رہے ہیں اور آپ یہ بات بھی بھول رہے ہیں کہ انکار بھی ایک طرح کا دعوی ہوتا ہے جبکہ وہ کسی دلیل پر ہو ۔
اور دیکھیں آپ خود بھی تو دعوی ہی کر رہے ہیں ناں!"
میرے پیارے بھائی میں نے بخاری کے حوالہ سے لکھا تھا کہ مدعی کے ذمہ گواہ ہیش کرنا ہے منکر کے نہیں ، جناب بھی حدیث نقل کر دیں کہ منکر کے ذمہ بھی گواہ پیش کرنا ہے تو میں حاضر ہوں
اگر آپ نے فنِّ مناظرہ کی کتاب رشیدیہ کا مطالعہ کیا ہوتا تو یہ بات ہر گز نہ لکھتے ،
جناب نے یہ بھی لکھا کہ " آپ خود بھی تو دعوی ہی کر رہے ہیں" بندہ نے جناب کیے اس دعویٰ "روح کے واپس آ جانے کے بعد زندہ سمجھتا ہوں" کے جواب میں بندہ نے کون سا دعویٰ لکھا ہے وہ نقل کر دیں ، اور دعویٰ کی تعریف بھی نقل کریں؟
میں نے جناب سے پوچھا تھا کہ "عقائد" کن دلائل سے ثابت ہوتے ہیں ،اسکے جواب میں جناب نے خاموشی میں عافیت سمجھی کیوں؟ مہربانی فرمائیں باحوالہ نقل کر دیں کہ عقائد کے دلائل کیا ہیں؟کیا کسی عالم ،بزرگ،مفسر، محدث کے قول سے عقائد ثابت ہوتے ہیں؟
شھید کے بارے پہلے اپنا عقیدہ لکھیں کہ جناب شھید کو کہاں اور کس طرح حیات مانتے ہیں ؟ میں نے پوچھا تھا کہ کیا شھید کو جنت میں روحانی حیات حاصل ہے ؟یا قبر میں روح اور جسم کے ساتھ حیات مانتے ہیں؟ یا شھید قتل ہونے کے بعد ہی زندہ ہوتا ہے خواہ قبر میں دفن ہو یا نہ ہو؟ صاف صاف عقیدہ لکھیں۔
محترم : موت کی تعریف جو میں کروں یا آپ وہ نہیں چلے گی کسی دلیل سے ثابت کریں کہ یہ موت کی تعریف ہے ، کسی مستند لغت سے لکھیں کہ موت کی یہ تعریف ہے خود موت کی تعریف نہ کریں ۔ اسی طرح یہ کہنے (زندہ یا حی اسے کہا جائے گا جس کی روح اس کے جسم میں ہو ،) سے بات نہیں چلے گی اسکی کوئی دلیل نقل کریں
شھیدِ فی سبیل للہ کے بارے قرآن کہتا ہے کہ انہیں مردہ نہ کہو اور کیا جس کی موت زہر کے اثر کی وجہ سے ہو کہیں قرآن و سنت میں آیا ہے کہ اُسے بھی مردہ نہ کہو؟
شھیدِ فی سبیل للہ اور زہر کے اثر سے جس کی موت واقع ہو ان دونوں کی شھادت ایک ہی زمرہ میں شمار ہوگی؟ اور کیا ان دونوں کے احکام بھی ایک ہی ہونگے؟ضرور وضاحت کریں
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
یہاں آپ نے یہ ترجمہ اپنے مطلب براری کے لئے اس طرح کیا ہے لیکن یہی حدیث تفسیر ابن کثیر میں بھی بیان کی گئی ہے
لیکن وہاں اس کا اردو ترجمہ کچھ اور کیا گیا ہے
وہاں اس کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے
اگر موسیٰ علیہ السلام تم میں آجائیں اور تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آجائیں کا کیا مطلب؟؟؟؟ یہی آپ۔ سمجھیں کسی کا موجود نہ ہونا،،،،،،،وہ بھی آپ کی تحریر کی گئی بات
 
Top