اگر شہدا، کی ارواح ان کے جسموں میں لوٹائی نہیں جاتیں تو وہ پھر وہ زندہ کیسے ؟؟؟
اور ان کی ارواح کو دنیا میں لوٹایا بھی کیوں جائے گا ؟ جب کہ ان کے جسم تو قبروں میں ہیں
ہم قبر اسے ہی کہتے ہیں جو اس زمین میں بنتی ہے لیکن
میرے بھائی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔۔۔۔الخ الحدیث
عند ربھم میں عند کا وہی مطلب ہے جو ان الدین عند اللہ الاسلام میں عند اللہ کا مطلب ہے
آخر قرآن شہدا، کے بارے میں یہ کہہ کر کہ ولا تحسبن الذین قتلو فی سبیل اللہ اموات بل احیا ۔۔۔۔الخ کچھ تو تخصیص بیان کر ہی رہا ہے ۔ کیا خیال ہے ؟
شہداء۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہا ہے، اللہ رب العالمین فرما رہے ہیں
:" أَحْيَاء "زندہ ہیں" عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ [آل عمران : 169] " اللہ کے پاس ان کو رزق دیا جاتا ہے۔اور پھر فرمار ہے ہیں:
" فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ "اللہ نے جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے یہ لوگ اس پر خوش بھی ہیں۔" وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ" ان کو خوشخبریاں بھی دی جاتی ہیں۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ شہداء احدکی روحیں سبز رنگ کے پرندوں میں ہیں، وہ جنت کے جو مرضی پھل چاہیں، کھائیں، خوشہ چینی کریں۔لہٰذا ثابت ہوا کہ اس قبر کے اندر عذاب اور سزا نہیں بلکہ عذاب کےلیے آسمانوں سے اوپر کوئی برزخ ہے ، کوئی قبر ہے، جہاں پر اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔اور روح اس جسم کے اندر نہیں لوٹتی، بلکہ اس روح کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ساری کی ساری باتیں اور اعتراضات غلط ہیں"
محترم : جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تھی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اشکال ہوا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے جواب میں جو ارشاد فرمایا تھا اسے غور سے پڑھیں:
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ وَعِيسَی بْنُ يُونُسَ جَمِيعًا عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا
صحیح مسلم:جلد سوم:امارت اور خلافت کا بیان :شہدا کی روحوں کے جنت میں ہونے اور شہدا کے زندہ ہونے اور اپنے رب سے رزق دیے جانے کے بیان میں حدیث قدسی مکررات 4 متفق علیہ 1 بدون مکرر
یحیی بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی معاویہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ، محمد بن عبداللہ بن نمیر حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
قرآن مجید فرقان حمید کی اس آیتِ کریمہ کی تفسیر رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے اور اس میں آپ ﷺ نے صاف صاف فرمایا کہ شھدا کی ارواح سبز رنگ کے پرندوں کے جوف میں رہ کر جنت میں سیر کرتی ہیں اورعرش کے نیچے لٹکی قندیلوں بسیرا کرتی ہیں اور جن اللہ رب العزت اُن سے پوچھتے ہیں
کہ کچھ مانگو تو وہ کہتے ہیں
"يَا رَبِّ نُرِيدُأَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا"
اے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں
جناب کہتے ہیں کہ روحیں قبروں میں مدفون جسموں میں ہوتی ہیں اور امام الانبیاء ﷺفرماتے ہیں کہ شھدا کی روحیں جنت میں ہوتی ہیں اور شھدا کہتے ہیں کہ ہماری روحیں جسموں میں لو ٹا دے ۔اگر شھدا کی روحیں اُن کے جسموں میں ہوتیں تو وہ یہ مطالبہ کیوں کرتے۔اب جناب کی مرضی اپنے دل کی مانیں یا امام الانبیاء ﷺ کی؟
ایک اور حدیث مبارکہ پڑھیں:
حضرت کعب بن مالکؓ کی روایت ھےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (انما نسمۃ المومین من طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ)۔(رواہ مالک و نسائی بسند صحیح)
مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رھے گی، یھاں تک کہ قیامت کے روز اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔
ثابت ہوا کہ مرنے کے بعدمومنین کی روحوں کا ٹھکانہ جنت میں ہوتا ہے اور قیامت سے پہلے وہ اپنے جسموں میں نہیں لوٹائی جاتیں ۔
دلائل تو اور بھی بہت ہیں مگر ماننے والوں کے لئے یہی کافی ہیں
سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 2077 حدیث مرفوع مکررات 4
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ کَانَ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَبْعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَی جَسَدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
قتیبہ، مالک، ابن شہاب، عبدالرحمن بن کعب، کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مومن کی جان جنت کے درختوں پر پرواز کرتی رہے گی یہاں تک کہ خداوند قدوس اس کو قیامت کے دن اس کے جسم کی طرف بھیج دے گا۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1152 حدیث مرفوع مکررات 4
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَعْبٍ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ کَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ يَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَرْجِعَ إِلَی جَسَدِهِ يَوْمَ يُبْعَثُ
سوید بن سعید، مالک بن انس، ابن شہاب، عبدالرحمن حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں چگتی پھرتی ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اپنے اصلی بدن میں ڈالی جائے گی۔