اور پھر اس کی بحث ہی نہیں کہ انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں یا نہیں کیونکہ جب یہ تسلیم کر لیا گیا کہ
رہا حیاۃ انبیاء کا مسئلہ تو وہ صحیح احادیث اور نص قرآنی سے ثابت ہے ۔
اب رہ جاتا ہے
ایک ہی مسئلہ کہ کیا انبیاء علیہم السلام اپنی قبور انوار میں نماز پڑھتے ہیں یا نہیں اور جو اس دھاگے کا موضوع بھی ہے
اور اس مسئلے کو لیکر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں نماز نہیں پڑھتے ایک ضعیف حدیث کو بنیاد بنا کر
جبکہ میں صحیح مسلم کی احادیث پیش کرکے ثابت کرچکا کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں نماز پڑھتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ مسجد اقصیٰ
میں
انبیاء علیہم السلام کا تنہا نماز پڑھنا اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا بھی ثابت کرچکا
السلام و علیکم محترم علی بہرام صاحب -
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ معراج کا معاملہ ہماری عقل و فہم سے ماورا ہے - کیوں کہ معراج کے موقعے پر الله کے نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ سلام کو صرف ایک مرتبہ ہی اپنی قبر میں نماز پڑھتے نہیں دیکھا بلکہ دو اور مرتبہ بھی حضرت موسیٰ علیہ سلام سے نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کی ملاقات ہوئی -ایک جب آپ صل الله علیہ وآ لہ وسلم سدرہ المنتہی کی طرف عازم سفر تھے تو چوتھے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ سلام سے ملاقات کرنا اورحضرت موسیٰ علیہ سلام کے اسرار پر امّت محمّدی پر نماز میں تخفیف کروانا اور دوسرے مسجد الاقصیٰ میں تمام انبیاء کی امامت کے وقت حضرت موسیٰ علیہ سلام کا نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کرنا -بظاھردیکھا جائے تو یہ معاملہ عالم برزخ کا ہے - ظاہر ہے کہ تمام انبیاء مسجد الاقصیٰ میں دفن نہیں - لیکن تمام انبیا ء نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کررہے ہیں - ظاہر ہے کہ وہ اپنی زمینی قبروں سے نکل کر تو مسجد الاقصیٰ نہیں پہنچے یہ ایک تمثیل کےطور پر ہے - جیسے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے اپنی امّت کے بدکاروں ، سود خوروں ، جھوٹ بولنے والوں، چغلی کھانے والوں وغیرہ کو عذاب میں مبتلا دیکھا - جب کہ ابھی نہ کوئی مردہ زندہ ہوا ہے نہ قیامت قائم ہوئی ہے اور نہ ہی امّت محمّدی کا حساب کتاب قائم ہوا ہے -لیکن آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا ان گناہ گاروں کو پہلے سے عذاب میں مبتلا دیکھنا ایک تمثیل کے طور پر ہے -
صحیح بخاری کو حدیث میں ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم نے دجال کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا -ملاحظہ ہو حدیث نبوی :
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي أَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ سَبْطُ الشَّعَرِ بَيْنَ رَجُلَيْنِ يَنْطُفُ رَأْسُهٗ مَاءً فَقُلْتُ مَنْ هٰذَا قَالُوا ابْنُ مَرْيَمَ فَذَهَبْتُ أَلْتَفِتُ فَإِذَا رَجُلٌ أَحْمَرُ جَسِيمٌ جَعْدُ الرَّأْسِ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنٰی کَأَنَّ عَيْنَهٗ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ قُلْتُ مَنْ هٰذَا قَالُوا هٰذَا الدَّجَّالُ أَقْرَبُ النَّاسِ بِهٖ شَبَهًا ابْنُ قَطَنٍ وَابْنُ قَطَنٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْمُصْطَلِقِ مِنْ خُزَاعَةَ۔ ( صحیح بخاری۔ جلد:۲)
ابوالیمان، شعیب، زہری، سالم بن عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا تو میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہوں، ایک گندم گوں آدمی پر نظر پڑی جن کے بال سیدھے تھے اور دو آدمیوں کے درمیان ان کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا: ابن مریم ہیں (حضرت عیسی علیہ سلام) ! پھر میں واپس ہونے لگا تو ایک سرخ آدمی کو دیکھا جو وزنی جسم کا تھا، اس کے سر کے بال گھنگریالے تھے، دائیں آنکھ کا کانا تھا؛ گویا اس کی آنکھ بے نور انگور کی طرح تھی، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا: دجال ہے! اور یہ دجال آدمیوں میں ابن قطن سے زیادہ مشابہت رکھتا تھا، ابن قطن خزاعہ کے قبیلہ بنی المصطلق کا ایک آدمی تھا -
ایک اور حدیث میں ہے کہ میں دیکھا کہ وہ دو دجال اکبر دو آدمیوں کے کندھوں پر سوار خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہے-
آپ جانتے ہیں کہ دجال اکبر کافر ہے- اور وہ قرب قیامت ظاہر ہو گا -پھر نبی صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں اس کا خانہ کعبہ کا طواف کرنا- آپ کے نزدیک کیا معنی رکھتا ہے ؟؟
اسطرح ایک اور حدیث میں ہے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہ سے پوچھا کہ یہ کون سی پہاڑی ہے - صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نے بتایا تو آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے فرمایا "
میں دیکھ رہا ہوں ( کَأَنِّيْ أَنْظُرُ) حضرت موسیٰ علیہ سلام اس پہاڑی ٹیلے سے تلبیہ پڑھتے ہوے اتر رہے ہیں"-(مسلم، کتاب الایمان، باب الإسراء برسول اللہ ﷺ إلی السماوات وفرض الصلوات، رقم: 420)
یعنی صحابہ کرام رضوان الله اجمعین وہاں موجود تھے لیکن صرف نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ سلام دکھائی دیے - یہ ایک تمثیل تھی - حقیقت میں ایسا نہیں-
ورنہ اگر حضرت موسیٰ علیہ سلام کے قبر میں نماز پڑھنے سے انبیاء کی زندگی ثابت ہوتی ہے- تو اسطرح انبیاء کا تلبیہ پڑھنے سے ان کا حج کرنا بھی ثابت ہونا چاہیے -
کیا کہتے ہیں آپ ؟؟؟