• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں روایت کی تحقیق

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
محترم دوستو پہلے تو بالعموم سب سے یہ گذارش ہے کہ جب ہم اس پر متفق ہیں کہ انبیا کو حیات حاصل ہے تو اس سے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں کہ حیات دنیاوی ہے یا کہ برزخی۔۔۔ دونوں صورتوں میں رہنمائی تو ہم نے قرآن و سنت سے ہی لینی ہے ۔۔۔
دوسری بات ارسلان صاحب اور رضا میاں سے ہے کہ جناب حدیث کے نام پر حدیث کا انکار مت کیجئے جب آپ موسٰی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا تسلیم کرتے ہیں تو کیا اس حدیث سے (الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون) والی حدیث ثابت نہیں ہوجاتی چاہے آپ کے بقول راوی ضعیف ہوں۔۔۔ کمال ہے کہ شیخ البانی جب صحاحِ ستہ کی احادیث کو ضعیف کہیں تب تو آپ لوگ مان لیں مگر جب آپ کے نظریہ کے خلاف ہوں تو پھر کیا شیخ البانی ، کیا شیخ محمد بن عبد الوھاب، کیا شیخ شاہ ولی اللہ ، کیا شیخ ابن قیم، کیا ابن جوزی اور کیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمھم اللہ علیہم اجمعین اور خیرالقرون کے سلف سبھی چھوٹے اور غلط ہوجاتے ہیں اور توصیف الرحمان اور زبیر علی زئی وغیرہ جیسے لوگ علم حدیث کے ابطال بن جاتے ہے ۔۔ سبحان اللہ ۔۔۔ جو چاہے تیرا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔۔۔۔۔
سلفی ہونے کا دعوٰی بھی ہے اور سلف پر اعتماد بھی نہیں ۔۔۔
اللهمّ أرِنا الحقّ حقاً وارزُقنا اتّباعه, وأرِنا الباطِل باطِلاً وارزُقنا اجتنابَه, ولا تَجعله مُلتَبساً عَلينا فنضلّ, واجعَلنا للمتّقين إماما
فضول الزامات کے ساتھ آپ اپنے دعوے کی کوئی دلیل بھی دے دیتے؟ جب ایک حدیث ایک محدث کی تحقیق کے مطابق سند کے لحاظ سے صحیح ہے اور دوسرے محدث کی تحقیق کے مطابق سند کے لحاظ سے کمزور یا ضعیف ہے تو ہمیں جس محدث کی تحقیق پر اعتماد ہو گا یا جس کی تحقیق پر دل مطمئن ہو گا ہم تو اس کی بات مانیں گے، کیونکہ یہ اجتہادی معاملہ ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ بھی ایک محدث تھے ان سے خطا ممکن ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اب حدیث کے معاملے میں کسی اور کی تحقیق کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں؟

دوسری بات کہ ہم شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کو مانتے ہوئے اس حدیث کو صحیح قرار دے کر گفتگو کر لیتے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ یہ حیات دنیاوی ہے یا برزخی اس طرف آنے کی ضرورت نہیں؟ حضرت میں کہتا ہوں کہ انبیاء بشر ہی ہوتے ہیں ہاں انبیاء علیھم السلام کا معاملہ عام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے، انبیاء علیھم السلام اللہ کے منتخب کردہ لوگ ہوتے ہیں جو وحی دے کر بھیجے جاتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو انسانی طبیعت سے ماوراء سمجھا جائے، انبیاء اپنی زندگی میں کھاتے پیتے بھی تھے، کاروبار بھی کرتے، شادی بیاہ بھی کی، ان کے بچے بھی پیدا ہوئے، اور عام انسانوں کی طرح فوت بھی ہوئے، فرق یہ ہے کہ انبیاء پر موت حاضر ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں رہنے کو ترجیح دیں یا دنیا سے جانے کو جیسے حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ ہے، لیکن فوت بہرحال ہوتے ہی ہیں، جیسے موسی علیہ السلام کو اگر موت ناپسند ہو تو بیل کے جسم پر ہاتھ رکھنے سے نیچے آنے والے بال کی تعداد کے مطابق سال کی زندگی عطا کرنے کی بات کی گئی تو پھر موسی علیہ السلام نے دریافت کیا کہ کیا پھر اتنے سال گزارنے کے بعد موت سے ہمکنار ہونا پڑے گا، فرشتے کی وضاحت کے بعد موسی علیہ السلام نے کہا کہ پھر ابھی ہی ٹھیک ہے، غور کیجئے کہ فوت ہر حال میں ہونا ہے، لہذا تمام انبیاء فوت ہوئے ہیں، باقی رہا یہ معاملہ تو اس کی کیفیت ہم نہیں سمجھ سکتے، ہمارا کام صرف ایمان لانا ہے، جیسے معراج کی رات انبیاء کی امامت کرانا، انبیاء کی آسمانوں پر ملاقات، موسی علیہ السلام کا حج کی تلبیہ کہتے ہوئے پہاڑ سے نیچے اترنا، یہ تمام باتوں کو ہم نے ماننا ہے لیکن اس کی کیفیت کا ہمیں کچھ پتہ نہیں، اس کیفیت کو دنیاوی کیفیت پر محمول کرنا پھر کیسے درست ہو سکتا ہے؟ کیونکہ انبیاء کی وفات پر قرآن و حدیث کے مضبوط اور واضح نصوص موجود ہیں، جن کو ہم نے علی بہرام کو جواب دیتے وقت ذکر کئے تھے، وہی آپ کو بھی دکھاتے ہیں، ملاحظہ کیجئے:
موسی علیہ السلام کی وفات پانے کی دلیل سنن دارمی کی حدیث:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 436
حضرت جابر بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تورات کا ایک نسخہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول یہ تورات کا ایک نسخہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حضرت عمر نے اسے پڑھنا شروع کردیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہیں عورتیں روئیں کیا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ نہیں رہے؟ حضرت عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو عرض کی میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ہم اللہ کے پروردگار ہونے اسلام کے دین حق ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اب اگر موسی تمہارے سامنے آجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اور اگر آج موسی زندہ ہوتےاور میری نبوت کا زمانہ پالیتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔
اور
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي مَرَرْتُ بِأَخٍ لِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ فَكَتَبَ لِي جَوَامِعَ مِنْ التَّوْرَاةِ أَلَا أَعْرِضُهَا عَلَيْكَ قَالَ فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ ثَابِتٍ فَقُلْتُ لَهُ أَلَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِينَا بِاللَّهِ تَعَالَى رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا قَالَ فَسُرِّيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى ثُمَّ اتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ إِنَّكُمْ حَظِّي مِنْ الْأُمَمِ وَأَنَا حَظُّكُمْ مِنْ النَّبِيِّينَ
مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 220 ، مسند احمد جلد 4 صفحہ 265
حضرت عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کتاب لے کر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بنوقریظہ میں میرا اپنے ایک بھائی پر گذر ہوا اس نے تورات کی جامع باتیں لکھ کر مجھے دی ہیں کیا وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ بدل گیا میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا ہم اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی ہیں تو نبی کریم کی وہ کیفیت ختم ہوگئی پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے- اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو تم گمراہ ہوجاتے امتوں سے تم میرا حصہ ہو انبیاء میں سے میں تمہارا حصہ ہوں ۔
اس سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ موسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ دیگر انبیاء کی وفات کے قرآنی دلائل:
أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَـٰهَكَ وَإِلَـٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٣﴾۔۔۔سورة البقرة
کیا (حضرت) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اوﻻد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباواجداد ابرہیم ﴿علیہ السلام﴾ اور اسماعیل ﴿علیہ السلام﴾ اور اسحاق ﴿علیہ السلام﴾ کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ﴿١٥﴾۔۔۔سورة مريم
ترجمه: اس پر سلام ہے جس دن وه پیدا ہوا اور جس دن وه مرے اور جس دن وه زنده کرکے اٹھایا جائے
وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴿٣٣﴾۔۔۔سورۃ مریم
ترجمہ: اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوباره زنده کھڑا کیا جاؤں گا، سلام ہی سلام ہے
فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴿١٠١﴾۔۔۔سورة يوسف
ترجمہ: اے آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا وآخرت میں میرا ولی (دوست) اور کارساز ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں ملا دے
اس سے ثابت ہوا کہ انبیاء علیھم السلام فوت ہو چکے ہیں، اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور عام انسانوں اور تمام مخلوقات کی وفات کے دلائل ملاحظہ کیجئے:
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ‌ۢ مِّن قَبْلِكَ ٱلْخُلْدَ ۖ أَفَإِي۟ن مِّتَّ فَهُمُ ٱلْخَـٰلِدُونَ ﴿٣٤﴾۔۔۔سورۃ الانبیاء
ترجمہ: آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی، کیا اگر آپ مرگئے تو وه ہمیشہ کے لئے ره جائیں گے
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ ٱلْمَوْتِ۔۔۔سورۃ آل عمران
ترجمہ: ہر جان موت کا مزه چکھنے والی ہے
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ﴿٣٠﴾۔۔۔سورۃ الزمر
ترجمہ: یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَ‌سُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّ‌سُلُ ۚ أَفَإِي۟ن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَـٰبِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ‌ ٱللَّهَ شَيْـًٔا ۗ وَسَيَجْزِى ٱللَّهُ ٱلشَّـٰكِرِ‌ينَ ﴿١٤٤﴾۔۔۔سورۃ آل عمران
ترجمہ: (حضرت) محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں، اگر وہ مر جائیں یا شہید ہو جائیں، تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا، عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا
اب احادیث میں سے دلائل ملاحظہ فرمائیں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر فرمایا:
وَقَالَ: أَلا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لاَ يَمُوتُ،
وَقَالَ: { إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ } [الزمر: 30]،
وَقَالَ: { وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ } [آل عمران: 144]،( رواه البخاري)

اس کے علاوہ دیگر دلائل

اور تیسری سب سے اہم بات کہ جس طرح انبیاء کے دنیا میں زندہ ہونے کی صورت میں بھی عقیدہ توحید نجات تھا، اسی طرح ان کی وفات کے بعد بھی عقیدہ توحید ہی نجات ہے، کیونکہ انسانوں اور جنوں کو پیدا کرنے کا مقصد اللہ کی عبادت ہے، اصل ہمارا اعتراض آپ لوگوں پر جس چیز کا ہے وہ یہ ہے کہ آپ لوگوں نے انبیاء اور اولیاء اللہ کی وفات کے بعد ان لوگوں کی عبادت شروع کر دی ہے، انبیاء اور اولیاء اللہ کو مشکلات میں پکارنا، حاجت کے وقت پکارنا، انبیاء اور اولیاءاللہ کے واسطے، وسیلے دینا، انبیاء اور اولیاءاللہ کے لئے استمداد، استعانت، استغاثہ وغیرہ کرنا، یہ تمام باتیں شرک اکبر ہیں، نہ تو انبیاء نے کبھی ان چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے (مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّـهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ) نا اولیاء اللہ نے کبھی ان باتوں کا حکم دیا ہے، قرآن و حدیث پر اپنا من چاہا مفہوم لے کر ان عقائد کو آپ لوگوں نے گھڑا ہے، ورنہ یہ عقائد نہ تو پہلے تھے اور نہ ہی ان کی ذرہ بھر بھی کوئی گنجائش دین اسلام میں ہے، یہ سراسر باطل اور شرکیہ عقائد ہیں، ان سے بچیں۔ اللہ آپ لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے آمین
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
محترم دوستو پہلے تو بالعموم سب سے یہ گذارش ہے کہ جب ہم اس پر متفق ہیں کہ انبیا کو حیات حاصل ہے تو اس سے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں کہ حیات دنیاوی ہے یا کہ برزخی۔۔۔
دونوں صورتوں میں رہنمائی تو ہم نے قرآن و سنت سے ہی لینی ہے ۔۔۔

دوسری بات ارسلان صاحب اور رضا میاں سے ہے کہ جناب حدیث کے نام پر حدیث کا انکار مت کیجئے جب آپ موسٰی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا تسلیم کرتے ہیں تو کیا اس حدیث سے (الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون) والی حدیث ثابت نہیں ہوجاتی چاہے آپ کے بقول راوی ضعیف ہوں۔۔۔ کمال ہے کہ شیخ البانی جب صحاحِ ستہ کی احادیث کو ضعیف کہیں تب تو آپ لوگ مان لیں مگر جب آپ کے نظریہ کے خلاف ہوں تو پھر کیا شیخ البانی ، کیا شیخ محمد بن عبد الوھاب، کیا شیخ شاہ ولی اللہ ، کیا شیخ ابن قیم، کیا ابن جوزی اور کیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمھم اللہ علیہم اجمعین اور خیرالقرون کے سلف سبھی چھوٹے اور غلط ہوجاتے ہیں اور توصیف الرحمان اور زبیر علی زئی وغیرہ جیسے لوگ علم حدیث کے ابطال بن جاتے ہے ۔۔ سبحان اللہ ۔۔۔ جو چاہے تیرا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔۔۔۔۔
سلفی ہونے کا دعوٰی بھی ہے اور سلف پر اعتماد بھی نہیں ۔۔۔
اللهمّ أرِنا الحقّ حقاً وارزُقنا اتّباعه, وأرِنا الباطِل باطِلاً وارزُقنا اجتنابَه, ولا تَجعله مُلتَبساً عَلينا فنضلّ, واجعَلنا للمتّقين إماما
و علیکم سلام رحمتہ اللہ و برکاتہ -



قرآن سے رہنمائی آپ کے لئے ملاحظه ہو :



وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ سوره الانبیا ء ٨
:اور ہم نے ان [انبیاء] کو ایسی جان نہیں بنایا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں، اور نہ ہی انہیں ہمیشہ رہنے والا بنایا- (یعنی باقی انسانوں کی طرح انھیں بھی موت کا سامنا کرنا ہوتا ہے)-


سنّت کی رو سے آپ کے لئے رہنمائی ملاحظه ہو :

عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار نہیں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی تو پہلے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے ، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے ( کہ چاہیں دنیا میں رہیں یا جنت میں چلیں) چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور سرمبارک میری ران پر تھا ۔ اس وقت آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی طاری ہوئی ۔ پھر جب آپ کو اس سے کچھ ہوش ہوا تو چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے ، پھر فرمایا ''اللھم الرفيق الاعلیٰ'' یعنی '' اے اللہ رفیق اعلیٰ '' ۔ میں نے سمجھ لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم دنیا والوں (کی رفاقت) اختیار نہ کریں گے ۔ میں سمجھ گئی کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحت کے زمانے میں بیان فرمایا کرتے تھے ، یہ وہی بات ہے ۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے زبان سے ادا فرمایا کہ ''اللھم الرفيق الاعلیٰ''۔ صحیح بخاری،
 

محمود

رکن
شمولیت
اگست 19، 2013
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
41
آپ سے کس نے کہہ دیا کہ حیات الانبیا، کے قائل حضرت موسی علیہ السلام کو بیت المقدس میں زندہ نہیں مانتے ؟؟؟ اور آپ نے جو حدیث پیش کی کہ اگر موسی بھی زندہ ہوتے ۔ ۔ ۔ ۔ الخ تو محترم یہاں دنیاوی حیات کی بات ہو رہی ہے جہاں انسان مکلف ہوتا ہے ۔
 

محمود

رکن
شمولیت
اگست 19، 2013
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
41
فضول الزامات کے ساتھ آپ اپنے دعوے کی کوئی دلیل بھی دے دیتے؟ جب ایک حدیث ایک محدث کی تحقیق کے مطابق سند کے لحاظ سے صحیح ہے اور دوسرے محدث کی تحقیق کے مطابق سند کے لحاظ سے کمزور یا ضعیف ہے تو ہمیں جس محدث کی تحقیق پر اعتماد ہو گا یا جس کی تحقیق پر دل مطمئن ہو گا ہم تو اس کی بات مانیں گے، کیونکہ یہ اجتہادی معاملہ ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ بھی ایک محدث تھے ان سے خطا ممکن ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اب حدیث کے معاملے میں کسی اور کی تحقیق کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں؟

دوسری بات کہ ہم شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کو مانتے ہوئے اس حدیث کو صحیح قرار دے کر گفتگو کر لیتے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ یہ حیات دنیاوی ہے یا برزخی اس طرف آنے کی ضرورت نہیں؟ حضرت میں کہتا ہوں کہ انبیاء بشر ہی ہوتے ہیں ہاں انبیاء علیھم السلام کا معاملہ عام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے، انبیاء علیھم السلام اللہ کے منتخب کردہ لوگ ہوتے ہیں جو وحی دے کر بھیجے جاتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو انسانی طبیعت سے ماوراء سمجھا جائے، انبیاء اپنی زندگی میں کھاتے پیتے بھی تھے، کاروبار بھی کرتے، شادی بیاہ بھی کی، ان کے بچے بھی پیدا ہوئے، اور عام انسانوں کی طرح فوت بھی ہوئے، فرق یہ ہے کہ انبیاء پر موت حاضر ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں رہنے کو ترجیح دیں یا دنیا سے جانے کو جیسے حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ ہے، لیکن فوت بہرحال ہوتے ہی ہیں، جیسے موسی علیہ السلام کو اگر موت ناپسند ہو تو بیل کے جسم پر ہاتھ رکھنے سے نیچے آنے والے بال کی تعداد کے مطابق سال کی زندگی عطا کرنے کی بات کی گئی تو پھر موسی علیہ السلام نے دریافت کیا کہ کیا پھر اتنے سال گزارنے کے بعد موت سے ہمکنار ہونا پڑے گا، فرشتے کی وضاحت کے بعد موسی علیہ السلام نے کہا کہ پھر ابھی ہی ٹھیک ہے، غور کیجئے کہ فوت ہر حال میں ہونا ہے، لہذا تمام انبیاء فوت ہوئے ہیں، باقی رہا یہ معاملہ تو اس کی کیفیت ہم نہیں سمجھ سکتے، ہمارا کام صرف ایمان لانا ہے، جیسے معراج کی رات انبیاء کی امامت کرانا، انبیاء کی آسمانوں پر ملاقات، موسی علیہ السلام کا حج کی تلبیہ کہتے ہوئے پہاڑ سے نیچے اترنا، یہ تمام باتوں کو ہم نے ماننا ہے لیکن اس کی کیفیت کا ہمیں کچھ پتہ نہیں، اس کیفیت کو دنیاوی کیفیت پر محمول کرنا پھر کیسے درست ہو سکتا ہے؟ کیونکہ انبیاء کی وفات پر قرآن و حدیث کے مضبوط اور واضح نصوص موجود ہیں، جن کو ہم نے علی بہرام کو جواب دیتے وقت ذکر کئے تھے، وہی آپ کو بھی دکھاتے ہیں، ملاحظہ کیجئے:
موسی علیہ السلام کی وفات پانے کی دلیل سنن دارمی کی حدیث:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 436
حضرت جابر بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تورات کا ایک نسخہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول یہ تورات کا ایک نسخہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حضرت عمر نے اسے پڑھنا شروع کردیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہیں عورتیں روئیں کیا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ نہیں رہے؟ حضرت عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو عرض کی میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ہم اللہ کے پروردگار ہونے اسلام کے دین حق ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اب اگر موسی تمہارے سامنے آجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اور اگر آج موسی زندہ ہوتےاور میری نبوت کا زمانہ پالیتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔
اور
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي مَرَرْتُ بِأَخٍ لِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ فَكَتَبَ لِي جَوَامِعَ مِنْ التَّوْرَاةِ أَلَا أَعْرِضُهَا عَلَيْكَ قَالَ فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ ثَابِتٍ فَقُلْتُ لَهُ أَلَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِينَا بِاللَّهِ تَعَالَى رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا قَالَ فَسُرِّيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى ثُمَّ اتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ إِنَّكُمْ حَظِّي مِنْ الْأُمَمِ وَأَنَا حَظُّكُمْ مِنْ النَّبِيِّينَ
مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 220 ، مسند احمد جلد 4 صفحہ 265
حضرت عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کتاب لے کر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بنوقریظہ میں میرا اپنے ایک بھائی پر گذر ہوا اس نے تورات کی جامع باتیں لکھ کر مجھے دی ہیں کیا وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ بدل گیا میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا ہم اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی ہیں تو نبی کریم کی وہ کیفیت ختم ہوگئی پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے- اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو تم گمراہ ہوجاتے امتوں سے تم میرا حصہ ہو انبیاء میں سے میں تمہارا حصہ ہوں ۔
اس سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ موسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ دیگر انبیاء کی وفات کے قرآنی دلائل:
أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَـٰهَكَ وَإِلَـٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٣﴾۔۔۔سورة البقرة
کیا (حضرت) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اوﻻد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباواجداد ابرہیم ﴿علیہ السلام﴾ اور اسماعیل ﴿علیہ السلام﴾ اور اسحاق ﴿علیہ السلام﴾ کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ﴿١٥﴾۔۔۔سورة مريم
ترجمه: اس پر سلام ہے جس دن وه پیدا ہوا اور جس دن وه مرے اور جس دن وه زنده کرکے اٹھایا جائے
وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴿٣٣﴾۔۔۔سورۃ مریم
ترجمہ: اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوباره زنده کھڑا کیا جاؤں گا، سلام ہی سلام ہے
فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴿١٠١﴾۔۔۔سورة يوسف
ترجمہ: اے آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا وآخرت میں میرا ولی (دوست) اور کارساز ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں ملا دے
اس سے ثابت ہوا کہ انبیاء علیھم السلام فوت ہو چکے ہیں، اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور عام انسانوں اور تمام مخلوقات کی وفات کے دلائل ملاحظہ کیجئے:
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ‌ۢ مِّن قَبْلِكَ ٱلْخُلْدَ ۖ أَفَإِي۟ن مِّتَّ فَهُمُ ٱلْخَـٰلِدُونَ ﴿٣٤﴾۔۔۔سورۃ الانبیاء
ترجمہ: آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی، کیا اگر آپ مرگئے تو وه ہمیشہ کے لئے ره جائیں گے
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ ٱلْمَوْتِ۔۔۔سورۃ آل عمران
ترجمہ: ہر جان موت کا مزه چکھنے والی ہے
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ﴿٣٠﴾۔۔۔سورۃ الزمر
ترجمہ: یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَ‌سُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّ‌سُلُ ۚ أَفَإِي۟ن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَـٰبِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ‌ ٱللَّهَ شَيْـًٔا ۗ وَسَيَجْزِى ٱللَّهُ ٱلشَّـٰكِرِ‌ينَ ﴿١٤٤﴾۔۔۔سورۃ آل عمران
ترجمہ: (حضرت) محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں، اگر وہ مر جائیں یا شہید ہو جائیں، تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا، عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا
اب احادیث میں سے دلائل ملاحظہ فرمائیں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر فرمایا:
وَقَالَ: أَلا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لاَ يَمُوتُ،
وَقَالَ: { إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ } [الزمر: 30]،
وَقَالَ: { وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ } [آل عمران: 144]،( رواه البخاري)

اس کے علاوہ دیگر دلائل

اور تیسری سب سے اہم بات کہ جس طرح انبیاء کے دنیا میں زندہ ہونے کی صورت میں بھی عقیدہ توحید نجات تھا، اسی طرح ان کی وفات کے بعد بھی عقیدہ توحید ہی نجات ہے، کیونکہ انسانوں اور جنوں کو پیدا کرنے کا مقصد اللہ کی عبادت ہے، اصل ہمارا اعتراض آپ لوگوں پر جس چیز کا ہے وہ یہ ہے کہ آپ لوگوں نے انبیاء اور اولیاء اللہ کی وفات کے بعد ان لوگوں کی عبادت شروع کر دی ہے، انبیاء اور اولیاء اللہ کو مشکلات میں پکارنا، حاجت کے وقت پکارنا، انبیاء اور اولیاءاللہ کے واسطے، وسیلے دینا، انبیاء اور اولیاءاللہ کے لئے استمداد، استعانت، استغاثہ وغیرہ کرنا، یہ تمام باتیں شرک اکبر ہیں، نہ تو انبیاء نے کبھی ان چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے (مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّـهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ) نا اولیاء اللہ نے کبھی ان باتوں کا حکم دیا ہے، قرآن و حدیث پر اپنا من چاہا مفہوم لے کر ان عقائد کو آپ لوگوں نے گھڑا ہے، ورنہ یہ عقائد نہ تو پہلے تھے اور نہ ہی ان کی ذرہ بھر بھی کوئی گنجائش دین اسلام میں ہے، یہ سراسر باطل اور شرکیہ عقائد ہیں، ان سے بچیں۔ اللہ آپ لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے آمین
آپ کی یہ ساری بحث ہی غلط ہے ۔ اس سے کس نے انکار کیا ہے کہ انبیا، کو موت نہیں آئی ؟ بحث تو بعد از وفات کی زندگی پر ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
آپ کی یہ ساری بحث ہی غلط ہے ۔ اس سے کس نے انکار کیا ہے کہ انبیا، کو موت نہیں آئی ؟ بحث تو بعد از وفات کی زندگی پر ہے ۔
حضرت آپ کا اعتراض ہی غلط ہے، ہمارے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ انبیاء موت سے مستثنیٰ ہیں (نعوذباللہ) اور وہ دنیا سے پردہ فرما گئے ہیں، اسی لئے ہمارے مخالفین لفظ "فوت" نہیں "وصال" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
بعد از وفات پر آپ کیا بحث کرنا چاہتے ہیں بولیں۔
 

محمود

رکن
شمولیت
اگست 19، 2013
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
41
حضرت آپ کا اعتراض ہی غلط ہے، ہمارے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ انبیاء موت سے مستثنیٰ ہیں (نعوذباللہ) اور وہ دنیا سے پردہ فرما گئے ہیں، اسی لئے ہمارے مخالفین لفظ "فوت" نہیں "وصال" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
بعد از وفات پر آپ کیا بحث کرنا چاہتے ہیں بولیں۔
زندگی میں پہلی دفعہ ایسی بات سننے کا اتفاق ہوا ہے کہ انبیا، موت سے مستثنیٰ ہیں ۔
 

محمود

رکن
شمولیت
اگست 19، 2013
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
41
حیات الانبیا، کے قائل سے کیا مراد ہے آپ کی
یعنی جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ انبیا، بعد از وفات زندہ ہیں اور اپنی قبور میں نماز پڑھتے ہیں ۔
 
Top