بھائی صحیح مسلم کی حدیث میں جو راوی کے الفاظ ہیں اس سے حدیث صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا یہ راوی کی اپنی دانش کا فیصلہ ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے اس سے اس کی مراد سیدنا علی رضہ و سیدنا معاویہ رضہ کے درمیان ہونے والے واقعات ہوں ۔ اور وہ سیدنا معاویہ رضہ کو اس معاملے ایسا سمجھتا ہو جیسا اس نے کہا ۔۔ لیکن اس راوی کی بات غلط ہے ۔ یہی میرہ موقف ہے ۔ حدیث صحیح ہی رہے گی۔ راوی کے اپنے الفاظ سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں۔ لیکن حدیث کی صحت پر کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے ۔ امید ہے آپ کو سمجھا سکا ہوں۔۔
میرے خیال میں پیارے وجاہت بھائی کا اس بات کی طرف دھیان نہیں گیا ورنہ پہلی حدیث پہ استوار کیا گیا مرزا کے موقف کا بیت العنکبوت ہونا واضح ہو جاتا
آج بہت دنوں بعد مچھلی دعوت کی یاد میں آنا ہوا تو دیکھا تو کچھ اصولی بات لکھنے کا سوچا باقی تفصیلی باتیں تو شیخ ابن داود بھائی کو جب فرصت ملے گی وہ کر لیں گے
یاد رکھیں بھائی جان کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۷﴾آل عمران
وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں
ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور بعض
ہیں، تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور جو لوگ علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ یہ سب ہمارے پروردگا کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں
یاد رکھیں کہ کچھ چیزیں واضح ہوتی ہیں جو دین میں ام کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں احتمالات نہیں ہوتے البتہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں ایک سے زیادہ احتمالات ہو سکتے ہیں یعنی متشابہ ہو سکتی ہیں
اسکو ایک مثال سے سمجھاتے ہیں
مثال:
فرض کریں ایک شخص عبداللہ کسی قبر پہ کھڑا ہاتھ اٹھائے دل میں کوئی دعا کر رہا ہے اب ایسی صورت میں تین احتمالات ہو سکتے ہیں
۱۔ وہ اس قبر والے سے بیٹا وغیرہ مانگ رہا ہے (یہ کھلا شرک ہے)
۲۔ وہ اس قبر والے کا واسطہ یعنی وسیلہ دے کر اللہ سے بیٹا وغیرہ مانگ رہا ہے (یہ بعض صورتوں میں بدعت ہے شرک نہیں اور فقہ حنفی میں بھی مکروہ ہے)
۳۔وہ اس قبر والے کی مغفرت کے لئے دعا مانگ رہا ہے (یہ عین سنت ہے)
اب چونکہ وہ دل میں سب کچھ مانگ رہا ہے تو ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اوپر والی تین صورتوں میں کون سی صورت میں ہے تاکہ اسکے مطابق حکم لگ سکے اب اسکا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جہاں کسی کی ذات کے بارے ایک سے زیادہ احتمالات ہوں وہاں دوسری جگہ کو دیکھا جاتا ہے جہاں حتمی کوئی بات ہمیں مل جائے اور اس حتمی بات کے تحت ہم ان احتمالوں سے کسی ایک احتمال کو متعین کر سکیں
اب اوپر والے عبداللہ کی اوپر والی حالت دیکھ کر ہم اوپر تین صورتوں میں سے اپنی مرضی سے کوئی ایک صورت متعین کر لیں گے تو وہ نا انصافی ہو گی فرض کریں اگر ہم خود ہی گمان کر لیں گے کہ یہاں وہ قبر والے سے مانگ رہا ہے اور وہ مشرک ہے تو یہ بہت بڑی زیادتی ہو گی اور کھلی نا انصافی ہو گی کیونکہ ہم نے جو تعین کیا ہے وہ کسی دلیل کی بنیاد پہ نہیں ہے
اسکی بجائے اگر ہم نے کسی دوسری جگہ اسی عبداللہ کو کوئی تقریر کرتے دیکھا ہو کہ وہ شرک کے خلاف تقریر کر رہا تھا اور اس میں کوئی ایک سے زیادہ احتمالات بھی نہیں تھے تو اس تقریر کی وجہ سے کم از کم یہ بات متعین ہو جائے گی کہ وہ اس قبر والے سے نہیں مانگ رہا ہو گا یعنی پہلی والی صورت ختم ہو جائے گی اور آخری دو احتمالات رہ جائیں گے کہ شاید وہ قبر والے کا واسطہ دے کر مانگ رہا ہے یا قبر والے کے لئے دعا مانگ رہا ہے
اب اگر کسی اور جگہ اسکو واسطے کے خلاف درس دیتے بھی دیکھا گیا ہو گا تو پھر دوسری صورت بھی خٹم ہو جائے گی اور صرف اور صرف پہلی صورت متعین ہو جائے گی یہی انصاف کی بات ہے
پس امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے جو اوپر والی حدیث آپ نے بیان کی ہے اس میں کوئی بھی سلیم القلب اور انصاف پسند چاہے وہ رافضی ہی کیوں نہ ہو وہ یہ نہیں کہ سکتا کہ وہاں اس حدیث کے آخری الفاظ سے صرف اور صرف ایک ہی احتمال نکلتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حرام کھانے کا حکم دیتے تھے
بھائی اس میں تو ایک راوی صرف یہ کہ رہا ہے کہ وہ وہ ایسا کرتے تھے جیسا کہ محترم حمزہ بھائی نے سمجھانے کی بھی کوشش کی ہے اس طرح تو سیکڑوں باتیں احادیث سے نکال کر دکھائی جا سکتی ہیں پھر تو نہ ابوبکر رضی اللہ عنہ بچیں گے نہ عمر رضی اللہ عنہ نہ اور جلیل القدر صحابی بچیں گے
یہ تو غیر صحابی کی بات آپ کر رہے ہیں اس طرح تو صحابیوں کی باتیں دوسرے کے خلاف دکھائی جا سکتی ہیں خود فاطمہ رضی اللہ عنھا کی باتیں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنھما کے خلاف فدک کے مال کھانے کے بارے دکھائی جا سکتی ہیں
تفصیل مندرجہ ذیل فتوی پہ دیکھ سکتے ہیں
باغ فدک سے محرومی پر حضرت فاطمۃالزہراء تا دم مرگ ناراض رہیں
اب اس حدیث میں تو بہت زیادہ احتمالات بن سکتے ہیں اور کچھ تو ایسے ہیں کوئی بھی انکو درست نہیں مانے گا اسکو آج کی مثال سے سمجھتے ہیں
اس حدیث میں راوی کی طرف سے الزام لگایا گیا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہمیں آپس میں مال کھانے اور قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں اور جو حدیث عبداللہ بن عمرو نے سنائی تھی اسکی رو سے ایسا کرنا لازمی غلط ہے
اب کوئی آج کہے کہ فوج والے وزیرستان میں اپنے بھائیوں کو مارنے اور انکا مال کھانے کا حکم دیتے ہیں اور یہ بھی اس حدیث کی رو سے غلط ہے پس کوئی کہنے لگ جائے کہ فوج اپنے آپ کو قتل کرنے اور اپنے لوگوں کے مال کھانے کا حکم دیتی ہے تو کیا یہ الزام درست ہو گا؟
ن
وٹ: صحابہ میں جو جنگیں ہوئیں یا اختلافات ہوئے ان میں ایک سے زیادہ احتمالات نکلتے ہیں کہ انہوں نے لڑائی نیک نیتی سے کی ہو گی یہ بھی احتمال ہو سکتا ہے اور بدنیتی سے کی ہو یہ بھی ہو سکتا ہے مگر اسکا تعین کرنے کے لئے گمان کی بجائے باقی زندگی کو جب دیکھتے ہیں تو پھر مجبورا ہمیں غلط احتمالات کو ختم کرنا پڑتا ہے اور یہی کام مرزا نہیں کرتا