• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انجینیئر محمد علی مرزا کے ایک پمفلٹ "واقعہ کربلا ٧٢ صحیح احادیث کی روشنی میں" کا تحقیقی جائزہ

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@وجاہت صاحب سے کہا بھی تھا، کہ وہ ذرا بریک لگائیں!
پہلے ان کی پیش کردہ دو روایات پر بات کریں گے!
مگر انہیں صبر نہیں!
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
وجاہت بھائی اگر ایک کر کہ روایات پر بات کریں گے تو آپ کس مقصد پہ پھنچ سکین گے ایک جگہ پہ بہت سی روایات وہ مختلف موضوعات پر تو ممکن ہی نہیں کہ خیر خواہ نتیجہ پر آپ پھنچ سکیں ۔ اس لئے آپ ایک کر کہ روایت پیش کریں یہاں اہل علم اس کا جو جواب دیں پھر آپ راء قائم کر سکتے ہیں پھر دوسری روایت پیش کریں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
کیا کہنے ہیں آپ کے
آپ کریں تو بجا تنقید ہے اور مرزا کرے تو بے جا تنقید
یہ بتائیں گے اہل سنت سلف و صالحین نےیہ کہاں لکھا ہے کہ صحابہ کرام پر بجا تنقید جائز ہے اور بے جا تنقید منع ہے۔
دوئم موصوف یہ بتانا پسند کریں گے کہ کہاں تک تنقید کی جائے تو وہ بجا ہو گی اور اس سے آگے بےجا ہو جائی گی یہ کون طے کرے گا کیونکہ آپ مرزا سے پوچھیں گے تو وہ اپنے تنقید کو بجا اور انصاف پر مبنی کہے گا جس طرح اپ فرما رہے ہیں کہ میری تنقید بجا ہے اور انصاف پر مبنی ہے اور اپ کو مرزا کی تنقید بے جا لگتی ہے جس طرح مجھے اپ کی تنقید بےجا لگی یہ فیصلہ کون کرے گا آں جناب خود فرمائیں گے یا اس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا ہے
اور رہی بات اپ کے قرآن سے مثال پیش کرنے کی تو اس پر میں طفل مکتب یہ عرض کرتا ہوں کہ اس طرح کی باتیں یہ مرزا اور اسحاق جھال والا بھی کرتا تھا کہ اللہ نے انبیاء کی اجتھادی خطا جب قرآن میں بیان کر دی توہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی پر تنقید کریں تو کیا ہوا آخر وہ انبیا ء سے تو بڑھ کر نہیں تھے اب بھی اسی راستے پر گامزن ہے اور اپنی غلطی ماننے کے بجائے ان دونوں کی طرح قرآن سے تاویل کر رہے ہیں اس لئے میں کہتا ہوں یہ دروازے ہیں رافضیت اور ناصبیت کے میدانوں میں اترنے کے دونوں میں صرف صحابہ کرام کی گستاخیاں ہی ہیں۔
محترم -

پہلی بات تو یہ کہ صحابی رسول عشرہ مبشرہ حضرت علی رضی کے متعلق میں نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جسے آپ بجا تنقید کہیں یا بے جا تنقید سمجھیں - میرا منشاء تو وہی ہے جو میں پہلے عرض کرچکا ہوں -کہ اہل سنّت ہونے اور کھلانے کے باوجود آخر ہم رافضیت سے اتنے متاثر کیوں ہیں ؟؟داماد رسول علی رضی الله عنہ سے متعلق کسی بات یا ان کے اجتہاد سے متعلق نظریہ پر تو ہمارا انگ انگ کھول اٹھتا ہے اور جب خاندان بنو امیہ کے چشم و چراخ و مہدی امیر معاویہ رضی الله عنہ کی کسی اجتہادی خطا ء پر بات ہو تو ان کا عمل صرف خطا ء نہیں فسق و فجور بن جاتا ہے (جو اس تھریڈ کا موضوع بھی ہے )- ہر وہ روایت جھوٹی نظر آتی ہے جو ان کی فضیلت سے متعلق ہو - کیا یہ دوغلا پن اور منافقت نہیں؟؟ - جب کہ دونوں اصحاب رسول الله کے نبی کے بہت قریبی اصحاب تھے- کیا امیر معاویہ رضی الله عنہ کا دفاع آپ کے نزدیک "ناصبیت" ہے ؟؟ اگر ایسا ہی ہے تو افسوس ہے آپ کی سوچ پر - میں تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ صحابہ کرام وہ پاکیزہ ہستیاں ہے کہ جن کی وساطت سے دین اسلام آج ہماری زندگی کا حصّہ ہے - اور ہم انہی پر انگلی اٹھانے چلے ہیں- اگر یہ رافضیت کے بیج ہمارے اندر سے ختم ہو جائیں تو علی رضی الله عنہ سے متعلق بھی لوگوں میں حقیقی محبّت جاگ اٹھے - لیکن لعنت ہے عبدللہ بن سبا اور اس کے پیروں کاروں پر کہ حضرت علی رضی الله عنہ کو ایک ایسا دیو ملائی انسان بنا کر پیش کردیا کہ وہ معصوم عن الخطاء تھے اور ان سے غلطی کا صدور ممکن ہی نہیں- اور آج اہل سنّت کی اکثریت بھی ایسی ہی ڈگر پر ہیں -

الله ہمارے حالوں پر رحم کرے (آمین )
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اس لئے کہتا ہوں کہ اہل سنت کے منھج پر آؤ اور اس ناصبیوں کے سردار محمود احمد عباسی کی گپیں نہ بیان کرو جو یہ کہتا تھا کہ امام بخاری گپیں ہانکتا تھا نعوذ باللہ
اہل سنت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا کہا ہے
اختلفوا عَلَيْهِ أحاديث مزورة، وَكَانَ مما أعانهم على ذَلِكَ مغاضبته لأخيه علي، وخروجه إِلَى مُعَاوِيَة، وإقامته معه. ويزعمون أن مُعَاوِيَة قَالَ يوما بحضرته: هَذَا لولا علمه بأني خير لَهُ من أخيه لما أقام عندنا وتركه. فقال عُقَيْل: أخي خير لي فِي ديني، وأنت خير لي فِي دنياي، وقد آثرت دنياي، وأسأل الله تعالى خاتمة الخير.(الاستعاب معرفۃ الاصحاب جلد 3 ص 1073 ترجمہ عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ)
اس میں امام ابن عبدالبر نے کہا کہ ان روایات میں اختلاف ہے جو عقیل رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہیں کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہو گئے تھے اور انہوں نے یہ بھی نقل کیا ہے مرنے سے پہلے انہوں نے اس پر دکھ کا اظہار بھی کیا تھا۔
دوست صحابہ کرام سب قابل احترام ہیں خاص طور پر اہل بیت کیونکہ وہ صحابہ بھی تھے اور اہل بیت بھی اور اہل بیت سے محبت کرنے پر ثواب ملتا ہے اللہ ہم کو اہل سنت کے منھج پر موت عطا کرے
یہ بھی خوب کہی آپ نے -

"کہ حضرت عقیل رضی الله عنہ کو تو مرنے سے پہلے امیر معاویہ رضی الله عنہ کا ساتھ دینے پر افسوس تھا اور انہوں نے اس پر دکھ کا اظہار بھی کیا" ؟؟- لیکن حضرت علی رضی الله عنہ کے اپنے بیٹے حضرت حسن رضی الله عنہ کو معاویہ رضی الله عنہ سے مصالحت کی بیعت پر کوئی افسوس نہ ہوا بلکہ بخوشی یہ بعیت کی؟؟- جب کہ (اہل سنت میں ایک مشہور روایت جو کہ اصل میں ضعیف ہے کے مطابق کہ نبی کریم یہ فرما گئے ہیں کہ خلافت کے تیس سال بعد ملک عضوض کا آغاز ہوگا ) حضرت حسن رضی الله عنہ جانتے بوجھتے ان کے لئے خلافت سے دست بردار ہو گئے- یعنی امّت پر ایک ظالم بادشاہ کو مسلط کرکے چلے گئے (نعوز باللہ) ؟؟

سوال ہے کہ اب حرف کس پر آ رہا ہے ؟؟- اہل بعیت کے چشم و چراغ حضرت حسن رضی الله عنہ پر یا جھوٹی روایات بیان کرنے والوں پر- اب کیا یہ بھی ناصبیت ہے ؟؟
 
Last edited:

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
مجھے پوچھنا یہ تھا کہ اس حدیث پر یہاں علماء کا کیا موقف ہے - کیوں کہ اسی فورم پر صحیحین کی صحت پر اجماع ہے پر کئی علماء نے اپنی پوری زندگی لگا دی -
آپ تو ایک راوی کے الفاظ کی بات پر کہہ رہے ہیں کہ اس پر کلام ہے - میرے بھائی شیخ البانی رحم الله نے تو صحیحین کی کئی احادیث کو ہی ضعیف کہا ہے -
میرے بھائی ٹاپک بدل جایے گا - مجھے یہ پوچھنا ہے کہ اس حدیث پر آج کل کے اہلحدیث علماء کا کیا موقف ہے -

پلیز جواب دیا جایے تا کہ دوسری احادیث پر بھی بات ہو -
محدثین نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے لیکن متن روایت میں قابل اعتراض يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْکُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا یہ الفاظ مفقود اور غیر مذکور ہیں۔

یہ قابل اعتراض کلمات راوی کی طرف سے اضافہ شدہ ہے اور اس نے ان کلمات کو اپنے ظن و گمان کے اعتبار سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف ذکر کیا۔

اس مضمون کو شارح مسلم امام نووی رحمتہ اللہ نے بالفاظ ذیل ذکر کیا ہے

الْمَقْصُودُ بِهَذَا الْكَلَامِ : أَنَّ هَذَا الْقَائِلَ لَمَّا سَمِعَ كَلَامَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْروِ بْنِ الْعَاصِ ، وَذِكْرَ الْحَدِيثِ فِي تَحْرِيمِ مُنَازَعَةِ الْخَلِيفَةِ الْأَوَّلِ ، وَأَنَّ الثَّانِيَ يُقْتَلُ ، فَاعْتَقَدَ هَذَا الْقَائِلُ هَذَا الْوَصْفَ فِي مُعَاوِيَةَ لِمُنَازَعَتِهِ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَكَانَتْ قَدْ سَبَقَتْ بَيْعَةُ عَلِيٍّ فَرَأَى هَذَا أَنَّ نَفَقَةَ مُعَاوِيَةَ عَلَى أَجْنَادِهِ وَأَتْبَاعِهِ فِي حَرْبِ عَلِيٍّوَمُنَازَعَتِهِ وَمُقَاتَلَتِهِ إِيَّاهُ مِنْ أَكْلِ الْمَالِ بِالْبَاطِلِ ، وَمِنْ قَتْلِ النَّفْسِ ، لِأَنَّهُ قِتَالٌ بِغَيْرِ حَقٍّ ، فَلَا يَسْتَحِقُّ أَحَدٌ مَالًا فِي مُقَاتَلَتِهِ .

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب راوی عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی کہ خلیفہ اول منتخب ہوجانے کے بعد اس کے ساتھ منازعت حرام ہے اور خلافت کے دوسرے دعویدار کے ساتھ مقاتلہ کرنا چاہئے تو اس راوی نے (اس دور کے حالات کے پیش نظر) یہ گمان کیا کہ یہ وصف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں موجود ہے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت ہوچکی ہے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے خلاف منازعت کئے ہوئے ہیں۔ گویا کہ (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کے خلاف ان کے جنود اور لشکروں پر مال خرچ کرنا باطل طریقہ ہے اور قتال کرنا قتل نفس کی دعوت ہے۔
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
جس طرح بریلویوں کی تفسیر قرآن کے شروع میں آیات قرآنی کے حوالے سے عنوان لگالگا کر ہرطرح کی شرک وبدعت کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اسی طرح مرزا صحیح احادیث لیکر رافضی افکار کو ثابت کرنے کی کوشش کرراہے۔
صرف صحیح احادیث پیش کردینا کافی نہیں ہے صحیح احادیث سے صحیح استدلال بھی پیش کرنا ضروری ہے۔
ورنہ بریلیوں کا کیا قصور ہے وہ تو قرآنی آیات پیش کرکے ہر طرح کا شرکیات و بدعات کو ثابت کرتے ہیں ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
بھائی صحیح مسلم کی حدیث میں جو راوی کے الفاظ ہیں اس سے حدیث صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا یہ راوی کی اپنی دانش کا فیصلہ ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے اس سے اس کی مراد سیدنا علی رضہ و سیدنا معاویہ رضہ کے درمیان ہونے والے واقعات ہوں ۔ اور وہ سیدنا معاویہ رضہ کو اس معاملے ایسا سمجھتا ہو جیسا اس نے کہا ۔۔ لیکن اس راوی کی بات غلط ہے ۔ یہی میرہ موقف ہے ۔ حدیث صحیح ہی رہے گی۔ راوی کے اپنے الفاظ سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں۔ لیکن حدیث کی صحت پر کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے ۔ امید ہے آپ کو سمجھا سکا ہوں۔۔
میرے خیال میں پیارے وجاہت بھائی کا اس بات کی طرف دھیان نہیں گیا ورنہ پہلی حدیث پہ استوار کیا گیا مرزا کے موقف کا بیت العنکبوت ہونا واضح ہو جاتا

آج بہت دنوں بعد مچھلی دعوت کی یاد میں آنا ہوا تو دیکھا تو کچھ اصولی بات لکھنے کا سوچا باقی تفصیلی باتیں تو شیخ ابن داود بھائی کو جب فرصت ملے گی وہ کر لیں گے
یاد رکھیں بھائی جان کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ؃ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۷﴾آل عمران

‏ ‏ وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں
ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور بعض
ہیں، تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور جو لوگ علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ یہ سب ہمارے پروردگا کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں

یاد رکھیں کہ کچھ چیزیں واضح ہوتی ہیں جو دین میں ام کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں احتمالات نہیں ہوتے البتہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں ایک سے زیادہ احتمالات ہو سکتے ہیں یعنی متشابہ ہو سکتی ہیں
اسکو ایک مثال سے سمجھاتے ہیں

مثال:

فرض کریں ایک شخص عبداللہ کسی قبر پہ کھڑا ہاتھ اٹھائے دل میں کوئی دعا کر رہا ہے اب ایسی صورت میں تین احتمالات ہو سکتے ہیں
۱۔ وہ اس قبر والے سے بیٹا وغیرہ مانگ رہا ہے (یہ کھلا شرک ہے)
۲۔ وہ اس قبر والے کا واسطہ یعنی وسیلہ دے کر اللہ سے بیٹا وغیرہ مانگ رہا ہے (یہ بعض صورتوں میں بدعت ہے شرک نہیں اور فقہ حنفی میں بھی مکروہ ہے)
۳۔وہ اس قبر والے کی مغفرت کے لئے دعا مانگ رہا ہے (یہ عین سنت ہے)


اب چونکہ وہ دل میں سب کچھ مانگ رہا ہے تو ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اوپر والی تین صورتوں میں کون سی صورت میں ہے تاکہ اسکے مطابق حکم لگ سکے اب اسکا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جہاں کسی کی ذات کے بارے ایک سے زیادہ احتمالات ہوں وہاں دوسری جگہ کو دیکھا جاتا ہے جہاں حتمی کوئی بات ہمیں مل جائے اور اس حتمی بات کے تحت ہم ان احتمالوں سے کسی ایک احتمال کو متعین کر سکیں
اب اوپر والے عبداللہ کی اوپر والی حالت دیکھ کر ہم اوپر تین صورتوں میں سے اپنی مرضی سے کوئی ایک صورت متعین کر لیں گے تو وہ نا انصافی ہو گی فرض کریں اگر ہم خود ہی گمان کر لیں گے کہ یہاں وہ قبر والے سے مانگ رہا ہے اور وہ مشرک ہے تو یہ بہت بڑی زیادتی ہو گی اور کھلی نا انصافی ہو گی کیونکہ ہم نے جو تعین کیا ہے وہ کسی دلیل کی بنیاد پہ نہیں ہے
اسکی بجائے اگر ہم نے کسی دوسری جگہ اسی عبداللہ کو کوئی تقریر کرتے دیکھا ہو کہ وہ شرک کے خلاف تقریر کر رہا تھا اور اس میں کوئی ایک سے زیادہ احتمالات بھی نہیں تھے تو اس تقریر کی وجہ سے کم از کم یہ بات متعین ہو جائے گی کہ وہ اس قبر والے سے نہیں مانگ رہا ہو گا یعنی پہلی والی صورت ختم ہو جائے گی اور آخری دو احتمالات رہ جائیں گے کہ شاید وہ قبر والے کا واسطہ دے کر مانگ رہا ہے یا قبر والے کے لئے دعا مانگ رہا ہے
اب اگر کسی اور جگہ اسکو واسطے کے خلاف درس دیتے بھی دیکھا گیا ہو گا تو پھر دوسری صورت بھی خٹم ہو جائے گی اور صرف اور صرف پہلی صورت متعین ہو جائے گی یہی انصاف کی بات ہے
پس امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے جو اوپر والی حدیث آپ نے بیان کی ہے اس میں کوئی بھی سلیم القلب اور انصاف پسند چاہے وہ رافضی ہی کیوں نہ ہو وہ یہ نہیں کہ سکتا کہ وہاں اس حدیث کے آخری الفاظ سے صرف اور صرف ایک ہی احتمال نکلتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حرام کھانے کا حکم دیتے تھے
بھائی اس میں تو ایک راوی صرف یہ کہ رہا ہے کہ وہ وہ ایسا کرتے تھے جیسا کہ محترم حمزہ بھائی نے سمجھانے کی بھی کوشش کی ہے اس طرح تو سیکڑوں باتیں احادیث سے نکال کر دکھائی جا سکتی ہیں پھر تو نہ ابوبکر رضی اللہ عنہ بچیں گے نہ عمر رضی اللہ عنہ نہ اور جلیل القدر صحابی بچیں گے
یہ تو غیر صحابی کی بات آپ کر رہے ہیں اس طرح تو صحابیوں کی باتیں دوسرے کے خلاف دکھائی جا سکتی ہیں خود فاطمہ رضی اللہ عنھا کی باتیں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنھما کے خلاف فدک کے مال کھانے کے بارے دکھائی جا سکتی ہیں

تفصیل مندرجہ ذیل فتوی پہ دیکھ سکتے ہیں
باغ فدک سے محرومی پر حضرت فاطمۃالزہراء تا دم مرگ ناراض رہیں

اب اس حدیث میں تو بہت زیادہ احتمالات بن سکتے ہیں اور کچھ تو ایسے ہیں کوئی بھی انکو درست نہیں مانے گا اسکو آج کی مثال سے سمجھتے ہیں
اس حدیث میں راوی کی طرف سے الزام لگایا گیا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہمیں آپس میں مال کھانے اور قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں اور جو حدیث عبداللہ بن عمرو نے سنائی تھی اسکی رو سے ایسا کرنا لازمی غلط ہے
اب کوئی آج کہے کہ فوج والے وزیرستان میں اپنے بھائیوں کو مارنے اور انکا مال کھانے کا حکم دیتے ہیں اور یہ بھی اس حدیث کی رو سے غلط ہے پس کوئی کہنے لگ جائے کہ فوج اپنے آپ کو قتل کرنے اور اپنے لوگوں کے مال کھانے کا حکم دیتی ہے تو کیا یہ الزام درست ہو گا؟
نوٹ: صحابہ میں جو جنگیں ہوئیں یا اختلافات ہوئے ان میں ایک سے زیادہ احتمالات نکلتے ہیں کہ انہوں نے لڑائی نیک نیتی سے کی ہو گی یہ بھی احتمال ہو سکتا ہے اور بدنیتی سے کی ہو یہ بھی ہو سکتا ہے مگر اسکا تعین کرنے کے لئے گمان کی بجائے باقی زندگی کو جب دیکھتے ہیں تو پھر مجبورا ہمیں غلط احتمالات کو ختم کرنا پڑتا ہے اور یہی کام مرزا نہیں کرتا
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اسی طرح عمار رضی اللہ عنہ والی حدیث میں بغاوت کا جو ذکر ہے پہلی بات تو یہ مجھے معلوم نہیں کہ کیا اس پہ کوئی ٹھوس دلیل ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے لوگوں نے ہی شہید کیا یا کسی فسادی نے شہید کیا میں دیکھ کر بتاوں گا
دوسری بات کہ اگر ایسا ہوا بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ یہ امیر معاویہ کی علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے خلاف بغاوت کہلائی جا سکتی ہے اور ایسی بغاوت تو عائشہ رضی اللہ عنھا نے اور طلحہ و زبیر رضی اللہ عنھما بھی پہلے کر چکے تھے اور عائشہ تو نادم بھی تھیں لیکن ایسی بغاوت کی وجہ سے کوئی گمراہ و کافر تو نہیں ہو جاتا
اگر مرزا کے ہاں وہ گمراہ اور کافر یا کم از کم طعن کے قابل ہو بھی جاتا ہے تو پھر یہ سارا طعن والا کام انکو عائشہ اور طلحہ اور زبیر حتی کہ پھر حسین کے بارے بھی کرنا چاہئے واللہ اعلم
 
Top