• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انجینیئر محمد علی مرزا کے ایک پمفلٹ "واقعہ کربلا ٧٢ صحیح احادیث کی روشنی میں" کا تحقیقی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
چلیں خیر @وجاہت صاحب! اب ذرا صبر کیجیئے!
ان شاء اللہ ان باتوں کا کافی وشافی جواب دیا جائے گا!
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
محترم -

بے جا تنقید تو وہ ہوتی ہے جو رافضی کرتے ہیں شیخین رضی الله عنہ پر اور جو یہ مرزا کررہا ہے بنو امیہ خاندان پر اور سیدنا امیر معاویہ رضی لله عنہ پر- بخاری و مسلم کی روایات کو بے سوچے سمجھے بیان کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟؟ - دوسری بات یہ کہ کسی کو اجتہادی خطاء پر سمجھنا اگر اس کی گستاخی ہے - تو ایسی خطاء تو حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت یونس علیہ سلام سے بھی ہوئی تھی جس کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے- تو کیا اب ہم قرآن پڑھنا چھوڑ دیں. کیا حضرت علی رضی الله عنہ، حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت یونس علیہ سلام سے زیادہ بلند مرتبہ تھے؟؟-

صحابہ کے مابین ہونی والی جنگوں میں کون حق پر تھا اور کون نہیں یہ الله بہتر جانتا ہے لیکن کچھ اصحاب رسول سے صرف اجتہادی غلطی ہوئی- اکثر تاریخی روایات و واقیعات تو دونوں گروہوں کے حق پر ہونے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں اس وقت کے حالات و اسباب کے تحت- خود حضرت علی رضی الله عنہ کے سگے بھائی حضرت عقیل بن ابی طالب رضی الله عنہ جنگ صفین میں سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کے گروپ میں شامل تھے - اب اس بارے میں رافضی اور وہ اہل سنّت جو اہل بیعت کی محبّت میں غلو کا شکار ہیں -کیا کہیں گے ؟؟-

بہر حال میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہے - اور ان پاک ہستیوں کے مابین ہونے والی غلط فہمیوں پر زیادہ بحث و مباحثے سے پرہیز کرنا چاہیے - لیکن ساتھ یہ بھی کہتا چلوں کہ ہمارے لئے صرف اہل بیعت اور حضرت علی رضی الله عنہ ہی نہیں تمام اصحاب رسول بشمول امیر معاویہ رضی اللہ اور ان خاندان کے انتہاہی قابل احترم ہیں- اور کسی ایک کی بھی شان میں گستاخی قابل قبول نہیں-

الله ہمیں ہدایت سے نوازے (آمین)-
میں آپ کی بات سے متفق ہوں - یہ پمفلٹ اس لئے پیش کیا ہے کہ ہم سب مل کر اس کا جواب دیں - لیکن یہاں پر مختلف القابات لگا کر پہلے ہی بات کو ختم کر دیا جاتا ہے -
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لیکن یہاں پر مختلف القابات لگا کر پہلے ہی بات کو ختم کر دیا جاتا ہے -
القابات آپ پر نہیں آپ کی تحریر پر میں نے لگائے ہیں! اور اس کی وجہ آپ کے دیگر تھریڈ کی تحریریں بھی ہیں! اور وہیں یہ القاب لگائے گئے ہیں!
وجاہت صاحب! وہ کہتے ہیں کہ:
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں!
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
محترم -

بے جا تنقید تو وہ ہوتی ہے جو رافضی کرتے ہیں شیخین رضی الله عنہ پر اور جو یہ مرزا کررہا ہے بنو امیہ خاندان پر اور سیدنا امیر معاویہ رضی لله عنہ پر- بخاری و مسلم کی روایات کو بے سوچے سمجھے بیان کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟؟ - دوسری بات یہ کہ کسی کو اجتہادی خطاء پر سمجھنا اگر اس کی گستاخی ہے - تو ایسی خطاء تو حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت یونس علیہ سلام سے بھی ہوئی تھی جس کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے- تو کیا اب ہم قرآن پڑھنا چھوڑ دیں. کیا حضرت علی رضی الله عنہ، حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت یونس علیہ سلام سے زیادہ بلند مرتبہ تھے؟؟-

صحابہ کے مابین ہونی والی جنگوں میں کون حق پر تھا اور کون نہیں یہ الله بہتر جانتا ہے لیکن کچھ اصحاب رسول سے صرف اجتہادی غلطی ہوئی- اکثر تاریخی روایات و واقیعات تو دونوں گروہوں کے حق پر ہونے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں اس وقت کے حالات و اسباب کے تحت- خود حضرت علی رضی الله عنہ کے سگے بھائی حضرت عقیل بن ابی طالب رضی الله عنہ جنگ صفین میں سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کے گروپ میں شامل تھے - اب اس بارے میں رافضی اور وہ اہل سنّت جو اہل بیعت کی محبّت میں غلو کا شکار ہیں -کیا کہیں گے ؟؟-

بہر حال میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہے - اور ان پاک ہستیوں کے مابین ہونے والی غلط فہمیوں پر زیادہ بحث و مباحثے سے پرہیز کرنا چاہیے - لیکن ساتھ یہ بھی کہتا چلوں کہ ہمارے لئے صرف اہل بیعت اور حضرت علی رضی الله عنہ ہی نہیں تمام اصحاب رسول بشمول امیر معاویہ رضی اللہ اور ان خاندان کے انتہاہی قابل احترم ہیں- اور کسی ایک کی بھی شان میں گستاخی قابل قبول نہیں-

الله ہمیں ہدایت سے نوازے (آمین)-
محترم -

بے جا تنقید تو وہ ہوتی ہے جو رافضی کرتے ہیں شیخین رضی الله عنہ پر اور جو یہ مرزا کررہا ہے بنو امیہ خاندان پر اور سیدنا امیر معاویہ رضی لله عنہ پر- بخاری و مسلم کی روایات کو بے سوچے سمجھے بیان کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟؟ - دوسری بات یہ کہ کسی کو اجتہادی خطاء پر سمجھنا اگر اس کی گستاخی ہے - تو ایسی خطاء تو حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت یونس علیہ سلام سے بھی ہوئی تھی جس کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے- تو کیا اب ہم قرآن پڑھنا چھوڑ دیں. کیا حضرت علی رضی الله عنہ، حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت یونس علیہ سلام سے زیادہ بلند مرتبہ تھے؟؟-

صحابہ کے مابین ہونی والی جنگوں میں کون حق پر تھا اور کون نہیں یہ الله بہتر جانتا ہے لیکن کچھ اصحاب رسول سے صرف اجتہادی غلطی ہوئی- اکثر تاریخی روایات و واقیعات تو دونوں گروہوں کے حق پر ہونے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں اس وقت کے حالات و اسباب کے تحت- خود حضرت علی رضی الله عنہ کے سگے بھائی حضرت عقیل بن ابی طالب رضی الله عنہ جنگ صفین میں سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کے گروپ میں شامل تھے - اب اس بارے میں رافضی اور وہ اہل سنّت جو اہل بیعت کی محبّت میں غلو کا شکار ہیں -کیا کہیں گے ؟؟-

بہر حال میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہے - اور ان پاک ہستیوں کے مابین ہونے والی غلط فہمیوں پر زیادہ بحث و مباحثے سے پرہیز کرنا چاہیے - لیکن ساتھ یہ بھی کہتا چلوں کہ ہمارے لئے صرف اہل بیعت اور حضرت علی رضی الله عنہ ہی نہیں تمام اصحاب رسول بشمول امیر معاویہ رضی اللہ اور ان خاندان کے انتہاہی قابل احترم ہیں- اور کسی ایک کی بھی شان میں گستاخی قابل قبول نہیں-

الله ہمیں ہدایت سے نوازے (آمین)-
کیا کہنے ہیں آپ کے
آپ کریں تو بجا تنقید ہے اور مرزا کرے تو بے جا تنقید
یہ بتائیں گے اہل سنت سلف و صالحین نےیہ کہاں لکھا ہے کہ صحابہ کرام پر بجا تنقید جائز ہے اور بے جا تنقید منع ہے۔
دوئم موصوف یہ بتانا پسند کریں گے کہ کہاں تک تنقید کی جائے تو وہ بجا ہو گی اور اس سے آگے بےجا ہو جائی گی یہ کون طے کرے گا کیونکہ آپ مرزا سے پوچھیں گے تو وہ اپنے تنقید کو بجا اور انصاف پر مبنی کہے گا جس طرح اپ فرما رہے ہیں کہ میری تنقید بجا ہے اور انصاف پر مبنی ہے اور اپ کو مرزا کی تنقید بے جا لگتی ہے جس طرح مجھے اپ کی تنقید بےجا لگی یہ فیصلہ کون کرے گا آں جناب خود فرمائیں گے یا اس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا ہے
اور رہی بات اپ کے قرآن سے مثال پیش کرنے کی تو اس پر میں طفل مکتب یہ عرض کرتا ہوں کہ اس طرح کی باتیں یہ مرزا اور اسحاق جھال والا بھی کرتا تھا کہ اللہ نے انبیاء کی اجتھادی خطا جب قرآن میں بیان کر دی توہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی پر تنقید کریں تو کیا ہوا آخر وہ انبیا ء سے تو بڑھ کر نہیں تھے اب بھی اسی راستے پر گامزن ہے اور اپنی غلطی ماننے کے بجائے ان دونوں کی طرح قرآن سے تاویل کر رہے ہیں اس لئے میں کہتا ہوں یہ دروازے ہیں رافضیت اور ناصبیت کے میدانوں میں اترنے کے دونوں میں صرف صحابہ کرام کی گستاخیاں ہی ہیں۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
صحابہ کے مابین ہونی والی جنگوں میں کون حق پر تھا اور کون نہیں یہ الله بہتر جانتا ہے لیکن کچھ اصحاب رسول سے صرف اجتہادی غلطی ہوئی- اکثر تاریخی روایات و واقیعات تو دونوں گروہوں کے حق پر ہونے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں اس وقت کے حالات و اسباب کے تحت
بے شک اللہ ہی جانتا ہے اور اسی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے صحابہ کرام رضی اللہ کے ذریعے بتایا کہ ان جنگوں میں علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے نہ کہ اجتھادی غلطی پر یہ ناصبیوں کا قول ہے اور اپ اس وقت کے حالات کا تاریخ روایات جائزہ لے رہے ہیں جن میں زیادہ تر ابو مجنف ،واقدی ،سیف بن عمر، جیسے کذاب بھرے ہیں اور اس کے مقابلے پر میں اپ سے کائنات کے امام صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پیش کر رہا ہوں اور اہل سنت کے اکابرین کا جنہوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہےاورجنہوں نے صاف کہا کہ وہ ناصبی ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کو ان جنگوں میں غلطی پر مانتے ہیں اور میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ میرا یہ مسلمان بھائی ناداستہ اس میں الجھ گیا ہے
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
خود حضرت علی رضی الله عنہ کے سگے بھائی حضرت عقیل بن ابی طالب رضی الله عنہ جنگ صفین میں سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کے گروپ میں شامل تھے - اب اس بارے میں رافضی اور وہ اہل سنّت جو اہل بیعت کی محبّت میں غلو کا شکار ہیں -کیا کہیں گے ؟؟-
اس لئے کہتا ہوں کہ اہل سنت کے منھج پر آؤ اور اس ناصبیوں کے سردار محمود احمد عباسی کی گپیں نہ بیان کرو جو یہ کہتا تھا کہ امام بخاری گپیں ہانکتا تھا نعوذ باللہ
اہل سنت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا کہا ہے
اختلفوا عَلَيْهِ أحاديث مزورة، وَكَانَ مما أعانهم على ذَلِكَ مغاضبته لأخيه علي، وخروجه إِلَى مُعَاوِيَة، وإقامته معه. ويزعمون أن مُعَاوِيَة قَالَ يوما بحضرته: هَذَا لولا علمه بأني خير لَهُ من أخيه لما أقام عندنا وتركه. فقال عُقَيْل: أخي خير لي فِي ديني، وأنت خير لي فِي دنياي، وقد آثرت دنياي، وأسأل الله تعالى خاتمة الخير.(الاستعاب معرفۃ الاصحاب جلد 3 ص 1073 ترجمہ عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ)
اس میں امام ابن عبدالبر نے کہا کہ ان روایات میں اختلاف ہے جو عقیل رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہیں کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہو گئے تھے اور انہوں نے یہ بھی نقل کیا ہے مرنے سے پہلے انہوں نے اس پر دکھ کا اظہار بھی کیا تھا۔
دوست صحابہ کرام سب قابل احترام ہیں خاص طور پر اہل بیت کیونکہ وہ صحابہ بھی تھے اور اہل بیت بھی اور اہل بیت سے محبت کرنے پر ثواب ملتا ہے اللہ ہم کو اہل سنت کے منھج پر موت عطا کرے
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
پوسٹ نمبر ٥ میں پیش کی گئی حدیث پر دو موقف سامنے آیے ہیں -



اور
بھائی صحیح مسلم کی حدیث میں جو راوی کے الفاظ ہیں اس سے حدیث صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا یہ راوی کی اپنی دانش کا فیصلہ ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے اس سے اس کی مراد سیدنا علی رضہ و سیدنا معاویہ رضہ کے درمیان ہونے والے واقعات ہوں ۔ اور وہ سیدنا معاویہ رضہ کو اس معاملے ایسا سمجھتا ہو جیسا اس نے کہا ۔۔ لیکن اس راوی کی بات غلط ہے ۔ یہی میرہ موقف ہے ۔ حدیث صحیح ہی رہے گی۔ راوی کے اپنے الفاظ سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں۔ لیکن حدیث کی صحت پر کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے ۔ امید ہے آپ کو سمجھا سکا ہوں۔۔
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
اس لئے کہتا ہوں کہ اہل سنت کے منھج پر آؤ اور اس ناصبیوں کے سردار محمود احمد عباسی کی گپیں نہ بیان کرو جو یہ کہتا تھا کہ امام بخاری گپیں ہانکتا تھا نعوذ باللہ
اہل سنت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا کہا ہے
اختلفوا عَلَيْهِ أحاديث مزورة، وَكَانَ مما أعانهم على ذَلِكَ مغاضبته لأخيه علي، وخروجه إِلَى مُعَاوِيَة، وإقامته معه. ويزعمون أن مُعَاوِيَة قَالَ يوما بحضرته: هَذَا لولا علمه بأني خير لَهُ من أخيه لما أقام عندنا وتركه. فقال عُقَيْل: أخي خير لي فِي ديني، وأنت خير لي فِي دنياي، وقد آثرت دنياي، وأسأل الله تعالى خاتمة الخير.(الاستعاب معرفۃ الاصحاب جلد 3 ص 1073 ترجمہ عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ)
اس میں امام ابن عبدالبر نے کہا کہ ان روایات میں اختلاف ہے جو عقیل رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہیں کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہو گئے تھے اور انہوں نے یہ بھی نقل کیا ہے مرنے سے پہلے انہوں نے اس پر دکھ کا اظہار بھی کیا تھا۔
دوست صحابہ کرام سب قابل احترام ہیں خاص طور پر اہل بیت کیونکہ وہ صحابہ بھی تھے اور اہل بیت بھی اور اہل بیت سے محبت کرنے پر ثواب ملتا ہے اللہ ہم کو اہل سنت کے منھج پر موت عطا کرے

محترم -

خود حضرت علی رضی الله عنہ کے سگے بھائی حضرت عقیل بن ابی طالب رضی الله عنہ جنگ صفین میں سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کے گروپ میں شامل تھے - اب اس بارے میں رافضی اور وہ اہل سنّت جو اہل بیعت کی محبّت میں غلو کا شکار ہیں -کیا کہیں گے ؟؟-

صحیح بخاری: کتاب: حج کے مسائل کا بیان

(باب: مکہ شریف کے گھر مکان میراث۔۔۔)

1588 . حَدَّثَنَا أَصْبَغُ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ تَنْزِلُ فِي دَارِكَ بِمَكَّةَ فَقَالَ وَهَلْ تَرَكَ عَقِيلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ وَلَمْ يَرِثْهُ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ فَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ لَا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَكَانُوا يَتَأَوَّلُونَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ الْآيَةَ

ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبردی، انہیں یونس نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں علی بن حسین نے، انہیں عمرو بن عثمان نے اور انہیں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مکہ میں کیا اپنے گھر میں قیام فرمائیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ عقیل نے ہمارے لیے محلہ یا مکان چھوڑا ہی کب ہے۔ ( سب بیچ کھوچ کر برابر کردئیے ) عقیل اور طالب، ابوطالب کے وارث ہوئے تھے۔ جعفر اور علی رضی اللہ عنہما کو وراثت میں کچھ نہیں ملا تھا، کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے اور عقیل رضی اللہ عنہ ( ابتداءمیں ) اور طالب اسلام نہیں لائے تھے۔ اسی بنیاد پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب نے کہا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے دلیل لیتے ہیں کہ ” جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی، وہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ “


=========================
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل

(باب: حج کرنے والے کا مکہ میں قیام کرنا اور اس (مکہ)کے گھرو ں کا وراثت میں منتقل ہونا)

3294 . حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ حُسَيْنٍ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَخْبَرَهُ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَتَنْزِلُ فِي دَارِكَ بِمَكَّةَ؟ فَقَالَ «وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مِنْ رِبَاعٍ، أَوْ دُورٍ»، «وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ، وَلَمْ يَرِثْهُ جَعْفَرٌ، وَلَا عَلِيٌّ شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ، وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ»

یو نس بن یزید نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی کہ علی بن حسین نے انھیں خبر دی کہ عمرو بن عثمان بن عفان نے انھیں اسامہ بن یزید بن حا رثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خبر دی انھوں نے پو چھا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ مکہ میں اپنے (آبائی) گھر میں قیام فر ما ئیں گے؟آپ نے فر ما یا :" کیا عقیل نے ہمارے لیے احا طوں یا گھروں میں سے کو ئی چیز چھوڑی ہے۔ اور طالب ابو طا لب کے وارث بنے تھے اور جعفر اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کو ئی چیز وراثت میں حا صل نہ کی ،کیونکہ وہ دونوں مسلمان تھے ،جبکہ عقیل اور طالب کا فر تھے۔

==============

(بَابُ مِيرَاثِ أَهْلِ الْإِسْلَامِ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ)

سنن ابن ماجہ: کتاب: وراثت سے متعلق احکام ومسائل

(باب: مشرکوں کےترکےمیں مسلمانوں کاحصہ کتناہے؟)

2730 . حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَنْبَأَنَا يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عُثْمَانَ أَخْبَرَهُ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنْزِلُ فِي دَارِكَ بِمَكَّةَ قَالَ وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ وَلَمْ يَرِثْ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ فَكَانَ عُمَرُ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ يَقُولُ لَا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ قَالَ أُسَامَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ

سامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مکہ میں اپنے گھر میں تشریف رکھیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی مکان گھر چھوڑا ہے؟‘‘ ابو طالب کی وراثت عقیل اور طالب کو ملی تھی اور جعفر اور علی رضی اللہ عنہما کو وراثت میں سے کچھ نہیں ملا تھا کیونکہ یہ دونوں مسلمان تھے اور عقیل اور طالب کافر تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ اسی وجہ سے کہا کرتے تھے: مومن کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ اور اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا۔‘‘








 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
محترم -

ایسی خطاء تو حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت یونس علیہ سلام سے بھی ہوئی تھی جس کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے- تو کیا اب ہم قرآن پڑھنا چھوڑ دیں. کیا حضرت علی رضی الله عنہ، حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت یونس علیہ سلام سے زیادہ بلند مرتبہ تھے؟؟-
کون آپ کو روک رہا ہے قرآن پڑھنے سے - یہاں پر بھی تو صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور دوسری کتابوں کی احادیث کو ہی پیش کیا جا رہا ہے - الحمدللہ ہم قرآن بھی پڑھتے ہیں اور احادیث بھی - قرآن اور صحیح احادیث پر ہمارا ایمان ہے - کیا صحیح بخاری کی یہ حدیث پڑھنا اور پیش کرنا اور اس پر موقف جاننا جرم ہے - ایک حوالہ دیتا ہوں ابھی -


صحيح البخاري: كِتَابُ المُحَارِبِينَ مِنْ أَهْلِ الكُفْرِ وَالرِّدَّةِ

(بَابُ رَجْمِ الحُبْلَى مِنَ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ)

صحیح بخاری: کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں

(باب : اگر کوئی عورت زنا سے حاملہ پائی جائے اور وہ شادی شدہ ہو تو اسے رجم کریں گے)

6830 . حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ أُقْرِئُ رِجَالًا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مِنْهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فَبَيْنَمَا أَنَا فِي مَنْزِلِهِ بِمِنًى وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا إِذْ رَجَعَ إِلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَالَ لَوْ رَأَيْتَ رَجُلًا أَتَى أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ الْيَوْمَ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ لَكَ فِي فُلَانٍ يَقُولُ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ لَقَدْ بَايَعْتُ فُلَانًا فَوَاللَّهِ مَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ إِلَّا فَلْتَةً فَتَمَّتْ فَغَضِبَ عُمَرُ ثُمَّ قَالَ إِنِّي إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَقَائِمٌ الْعَشِيَّةَ فِي النَّاسِ فَمُحَذِّرُهُمْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَغْصِبُوهُمْ أُمُورَهُمْ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ وَغَوْغَاءَهُمْ فَإِنَّهُمْ هُمْ الَّذِينَ يَغْلِبُونَ عَلَى قُرْبِكَ حِينَ تَقُومُ فِي النَّاسِ وَأَنَا أَخْشَى أَنْ تَقُومَ فَتَقُولَ مَقَالَةً يُطَيِّرُهَا عَنْكَ كُلُّ مُطَيِّرٍ وَأَنْ لَا يَعُوهَا وَأَنْ لَا يَضَعُوهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا فَأَمْهِلْ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ فَإِنَّهَا دَارُ الْهِجْرَةِ وَالسُّنَّةِ فَتَخْلُصَ بِأَهْلِ الْفِقْهِ وَأَشْرَافِ النَّاسِ فَتَقُولَ مَا قُلْتَ مُتَمَكِّنًا فَيَعِي أَهْلُ الْعِلْمِ مَقَالَتَكَ وَيَضَعُونَهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا فَقَالَ عُمَرُ أَمَا وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَأَقُومَنَّ بِذَلِكَ أَوَّلَ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فِي عُقْبِ ذِي الْحَجَّةِ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ عَجَّلْتُ الرَّوَاحَ حِينَ زَاغَتْ الشَّمْسُ حَتَّى أَجِدَ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ جَالِسًا إِلَى رُكْنِ الْمِنْبَرِ فَجَلَسْتُ حَوْلَهُ تَمَسُّ رُكْبَتِي رُكْبَتَهُ فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ خَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَلَمَّا رَأَيْتُهُ مُقْبِلًا قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ لَيَقُولَنَّ الْعَشِيَّةَ مَقَالَةً لَمْ يَقُلْهَا مُنْذُ اسْتُخْلِفَ فَأَنْكَرَ عَلَيَّ وَقَالَ مَا عَسَيْتَ أَنْ يَقُولَ مَا لَمْ يَقُلْ قَبْلَهُ فَجَلَسَ عُمَرُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَلَمَّا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُونَ قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي قَائِلٌ لَكُمْ مَقَالَةً قَدْ قُدِّرَ لِي أَنْ أَقُولَهَا لَا أَدْرِي لَعَلَّهَا بَيْنَ يَدَيْ أَجَلِي فَمَنْ عَقَلَهَا وَوَعَاهَا فَلْيُحَدِّثْ بِهَا حَيْثُ انْتَهَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ وَمَنْ خَشِيَ أَنْ لَا يَعْقِلَهَا فَلَا أُحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَكْذِبَ عَلَيَّ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةُ الرَّجْمِ فَقَرَأْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ وَاللَّهِ مَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أُحْصِنَ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ إِذَا قَامَتْ الْبَيِّنَةُ أَوْ كَانَ الْحَبَلُ أَوْ الِاعْتِرَافُ ثُمَّ إِنَّا كُنَّا نَقْرَأُ فِيمَا نَقْرَأُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ أَنْ لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ فَإِنَّهُ كُفْرٌ بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ أَوْ إِنَّ كُفْرًا بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ أَلَا ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُطْرُونِي كَمَا أُطْرِيَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ ثُمَّ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ قَائِلًا مِنْكُمْ يَقُولُ وَاللَّهِ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ بَايَعْتُ فُلَانًا فَلَا يَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ يَقُولَ إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ وَلَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا وَلَيْسَ مِنْكُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَلَا يُبَايَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَمَنْ مَعَهُمَا وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ يَا أَبَا بَكْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوَانِنَا هَؤُلَاءِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَانْطَلَقْنَا نُرِيدُهُمْ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْهُمْ لَقِيَنَا مِنْهُمْ رَجُلَانِ صَالِحَانِ فَذَكَرَا مَا تَمَالَأَ عَلَيْهِ الْقَوْمُ فَقَالَا أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ فَقُلْنَا نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَاءِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَا لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ اقْضُوا أَمْرَكُمْ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ فَإِذَا رَجُلٌ مُزَمَّلٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا فَقَالُوا هَذَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقُلْتُ مَا لَهُ قَالُوا يُوعَكُ فَلَمَّا جَلَسْنَا قَلِيلًا تَشَهَّدَ خَطِيبُهُمْ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَكَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِكُمْ فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنْ الْأَمْرِ فَلَمَّا سَكَتَ أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ وَكُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي أُرِيدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ وَكُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى رِسْلِكَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَكَانَ هُوَ أَحْلَمَ مِنِّي وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَكَ مِنْ كَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي إِلَّا قَالَ فِي بَدِيهَتِهِ مِثْلَهَا أَوْ أَفْضَلَ مِنْهَا حَتَّى سَكَتَ فَقَالَ مَا ذَكَرْتُمْ فِيكُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الْأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا وَقَدْ رَضِيتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ فَبَايِعُوا أَيَّهُمَا شِئْتُمْ فَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَنَا فَلَمْ أَكْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا كَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي لَا يُقَرِّبُنِي ذَلِكَ مِنْ إِثْمٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَى قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ تُسَوِّلَ إِلَيَّ نَفْسِي عِنْدَ الْمَوْتِ شَيْئًا لَا أَجِدُهُ الْآنَ فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ فَكَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ حَتَّى فَرِقْتُ مِنْ الِاخْتِلَافِ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَدَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعْتُهُ وَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ ثُمَّ بَايَعَتْهُ الْأَنْصَارُ وَنَزَوْنَا عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فَقُلْتُ قَتَلَ اللَّهُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ قَالَ عُمَرُ وَإِنَّا وَاللَّهِ مَا وَجَدْنَا فِيمَا حَضَرْنَا مِنْ أَمْرٍ أَقْوَى مِنْ مُبَايَعَةِ أَبِي بَكْرٍ خَشِينَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَكُنْ بَيْعَةٌ أَنْ يُبَايِعُوا رَجُلًا مِنْهُمْ بَعْدَنَا فَإِمَّا بَايَعْنَاهُمْ عَلَى مَا لَا نَرْضَى وَإِمَّا نُخَالِفُهُمْ فَيَكُونُ فَسَادٌ فَمَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَلَا يُتَابَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا

حکم : صحیح

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں کئی مہاجرین کو( قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک تھے۔ ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج میں( سنہ۳۲ھ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ
کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ تاچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہوگیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیوں کہ واللہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہوگئی اور پھر وہ مکمل ہوگئی تھی۔ اس پر حضرت عمرص بہت غصہ ہوئے اور کہا میں ان شاءاللہ شام میں لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا یا امیرالمؤمنین ایسا نہ کیجئے۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لئے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہوکر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا اور انتظار کرلیجئے کیوں کہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرماسکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوںگا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے( مسجدنبوی) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی باہر نکلے، جب میں نے انہیں آتے دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ آج حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے اس سے پہلے خلیفہ بنائے جانے کے بعد کبھی نہیں کہی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ آپ کوئی ایسی بات کرہیں گے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھے اور جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اس کی شان کے مطابق کرنے کے بعد فرمایا امابعد! آج میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جس کا کہنا میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم کہ شاید میری یہ گفتگو موت کے قریب کی آخری گفتگو ہو۔ پس جو کوئی اسے سمجھے اور محفوظ رکھے اسے چاہئے کہ اس بات کو اس جگہ تک پہنچادے جہاںتک اس کی سواری اسے لے جاسکتی ہے اور جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میری طرف غلط بات منسوب کرے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود( اپنے زمانہ میں) رجم کرایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کربیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقینا رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہوجائے یاحمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کرلے پھر کتاب اللہ کی آیتوں میں ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے حقیقی باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرو۔ کیوں کہ یہ تمہارا کفر اور انکار ہے کہ تم اپنے اصل باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنی نسبت کرو۔ ہاں اور سن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری تعریف حد سے بڑھاکر نہ کرنا جس طرح عیسیٰ ابن امریم عیلہما السلام کی حد سے بڑھاکر تعریفیں کی گئیں( ان کو اللہ کو بیٹا بنادیاگیا) بلکہ ( میرے لیے صرف یہ کہو کہ) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے کہ واللہ اگر عمرکا انتقال ہوگیا تو میں فلاں سے بیعت کروںگا دیکھو تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ناگاہ ہوئی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوئی ہے اس سے تم کو بچائے رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا متقی، خدا ترس ہو۔ تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لیے اونٹ چلائے جاتے ہوں۔ دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح مشورہ اور اتفاق اور غلبہ آراءکے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوادیں گے اور سن لو بلاشبہ جس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکرص ہم میں سے سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہوگئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہوگئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری انہیں میں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ ( سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جارہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کرڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب( سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہوگیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آرہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار( انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آرہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کرکے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کرچکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کردوں اور انصار کی تقریر جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کردوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور خدا کی قسم وہ مجھ سے زیادہ عقل مند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہوگئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بے شک اس کے لیے سزا وار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کرلو۔ ابوبکر نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کردیا جاتا اور بے گناہ میری گردن ماردی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکادے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذریوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے ارد گرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں ( دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈرگیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑجائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کرلی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کرلی( چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم حضرت سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے( انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کرڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیوں کہ ہم کو ڈرپیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کربیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کرلیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا( پھوٹ پڑجاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کرلے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیوں کہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔

=============

اب امام بخاری نے یہ حدیث لکھی - لیکن اس میں فلاں کا نام نہیں لکھا - اب ایک قاری اس حدیث کو پڑھے تو وہ کیا موقف اختیار کرے - اب اگر یہ بات یہاں پوچھوں تو شک کیا جایے گا

لیکن

بعض شارحین کے نزدیک

اس میں فلاں سے مراد زبیر رضی الله عنہ ہیں بحوالہ فتح الباري (ج ١ / ص ٣٣٨) پر اور إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري از قسطلانی میں ہے

قد مَاتَ عمر لقد بَايَعت فلَانا فِي مُسْند الْبَزَّار والجعديات بِإِسْنَاد ضَعِيف أَن المُرَاد بِالَّذِي يُبَايع لَهُ طَلْحَة بن عبيد الله وَلم يسم الْقَائِل وَلَا النَّاقِل ثمَّ وجدته فِي الْأَنْسَاب للبلاذري بِإِسْنَاد قوي مِنْ رِوَايَةِ هِشَامِ بْنِ يُوسُفَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيّ بِالْإِسْنَادِ الْمَذْكُور فِي الأَصْل وَلَفظه قَالَ عمر بَلغنِي أَن الزبير قَالَ لَو قد مَاتَ عمر بَايعنَا عليا الحَدِيث فَهَذَا أصح


ابن حجر کے مطابق انساب البلازری میں ان صحابی کا نام موجود ہے

البتہ کتاب مصابيح الجامع از ابن الدماميني (المتوفى: 827 هـ) کے مطابق

وفلانٌ المشارُ إليه بالبَيْعة هو طلحةُ بنُ عُبيد الله، وقع ذلك في “فوائد البغوي” عن عليِّ بنِ الجعد، قاله (1) ابن بشكوال (2)، وهو في “مسند البزار” فيما رواه أسلم (3) مولى عمر عن عمر


یہ طلحةُ بنُ عُبيد الله رضی الله عنہ ہیں


اب حدیث پر ہمیں کیا موقف اختیار کرنا چاہیے

 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
بہت سے علماء مشائخ اس معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہوے- یزید بن معاویہ رحم الله کی شخصیت تو ایک طرف - ان کے والد اور صحابی رسول سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کی شخصیت کو بھی ان روایات کے غلط مفاہیم کے زیر اثر داغدار بنانے کی مذموم کوشش کی گئی - جب کہ دوسری طرف علی رضی الله عنہ کی شخصیت کو مکمل و پاک صاف اور ہر اجتہادی غلطی سے مبرّا قرار دیا گیا حتیٰ کہ ان پر نبی ہونے کا گمان ہونے لگا (نعوز باللہ)-
انصار اور حضرت علی سے محبت ایمان اور اس کی علامات میں سے ہے اور
ان سے بغض و نفرت نفاق کی علامات میں سے ہے


صحیح مسلم: کتاب: ایمان کا بیان

باب: اس بات کی دلیل کہ انصار اور حضرت علی سے محبت ایمان اور اس کی علامات میں سے ہے اور ان سے بغض و نفرت نفاق کی علامات میں سے ہے

240 . حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، ح وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زِرٍّ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ: «أَنْ لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ»

حکم : صحیح

حضرت علی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑ اور روح کو تخلیق کیا ! نبی امی ﷺنے مجھے بتا دیا تھا کہ ’’ میرے ساتھ مومن کے سوا کوئی محبت نہیں کرے گا اور منافق کے سوا کوئی بغض نہیں رکھے گا ۔‘‘


 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top