• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انجینیئر محمد علی مرزا کے ایک پمفلٹ "واقعہ کربلا ٧٢ صحیح احادیث کی روشنی میں" کا تحقیقی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کچھ مصروفیات کی وجہ بھی دیر کا سبب بنی اور پھر دوسرے تھریڈ میں جواب بھی مکمل کرنا تھا، خیر اب یہاں شروع کرتے ہیں!
@وجاہت صاحب!
پہلے تو کچھ باتیں سمجھ لیں! آپ نے کہا:
اتنی لمبی چوڑی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے بھائی -
جناب ! شیطانی سوال تو ایک آدھ جملہ میں بھی ہو جاتا ہے، مگر اس شیطانی وسوسہ کے ازالہ کے لئے بہت محنت بھی کرنا پڑتی ہے، اور بہت کچھ لکھنا پڑتا ہے، تاکہ ایک عام مسلمان قاری، شیطان کے ان وسوسوں کا شکار نہ ہو! لہٰذا آپ کو اس کی ضرورت ہو نہ ہو، ہم تو اپنے مسلمان قارئین کے لئے تفصیل بھی بیان کرتے ہیں!
ہم کیا کریں مجبور ہیں،وگرنہ ہم ایسے اشکالات پھیلانے والے مرزا جہلمی جیسے زندیقوں پرزندیقیت پھیلانے کے جرم میں بڑی سخت تعزیر نافظ کرتے!
عام قاری اس کو پڑھ کر کیا سمجھے -
عام قاری بھی ایک ہی قسم کے نہیں ہوتے!
عام قاری مسلمان بھی ہوتے ہیں، غیر مسلم بھی اور رافضی بھی!
مسلمان عام قاری کو اتنا معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمانوں کے نزدیک تمام صحابہ عادل ہیں، لہٰذا اگر کوئی حدیث وہ ایسی دیکھے کہ جس میں ظاہراً کسی صحابی کی عدالت مجروح قرار پاتی ہوم تو اسے یہی سمجھنا چاہئے کہ یا تو یہ بات درست ثابت نہیں، یا پھر اس کے سمجھنے میں کوئی خامی ہے، اور وہ اہل سنت کے علماء سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرے!
مگر اہل سنت کے علماء سے، نہ کہ مرزا جہلمی جیسے زندیق سے!
اور عام مسلمان قاری کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اسے اہل سنت کے علماء سے دین کی فہم حاصل کرنا چاہئے نہ کہ مرزا جہلمی جیسے زندیق سے!
یا روافض کے عام قاری کو مرزا جہلمی کی ہفوات دل کو بھاتی ہیں، کیوں کہ اسے مرزا جہلمی کی ہفوات اس کے خبیث عقائد و نظریات کے موافق ملتی ہیں!
اس کے علاوہ کچھ عام قاری وہ بھی ہیں، کہ جو خود کو سننی کہتے ہیں مگر ان میں رافضیت کے جراثیم ہیں، انہیں اپنے ان جراثیم کا علاج کروانا چاہئے اور جب وہ خود کو سنی کہتے ہیں تو انہیں اہل سنت کا مؤقف بھی اختیار کرنا چاہئے!
عام قارئین کی ایک خاص قسم اور بھی ہے، جن میں رافضیت کے کیڑے ہوتے ہیں، کہ انہیں توحید ، رسالت ، نماز ، روزہ ، حج، پاکی و طہارت کے مسائل تو معلوم نہیں ہوتے، مگر چھانٹ چھانٹ کر خاص کر تاریخ کی کتب سے یا احادیث کی کتب سے ایسی عبارتیں تلاش کرنے کا خبط سوار رہتا ہے، کہ جن سے کسی بھی طرح صحابہ کو قصوروار ٹھہرایا جاسکے، خواہ وہ روایات ضعیف ہی ہوں، یا کسی صحيح روایت کے غلط معنی میں ڈھال کر صحابہ پر تنقید کی جا سکے!
بہر حال ہم اللہ کی توفیق اب تک کی پیش کردہ روایات سے ممکنہ شیطانی وسوسوں کا رد لکھیں گے۔ ان شاء اللہ

(جاری ہے)
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کچھ مصروفیات کی وجہ بھی دیر کا سبب بنی اور پھر دوسرے تھریڈ میں جواب بھی مکمل کرنا تھا، خیر اب یہاں شروع کرتے ہیں!
@وجاہت صاحب!
پہلے تو کچھ باتیں سمجھ لیں! آپ نے کہا:

جناب ! شیطانی سوال تو ایک آدھ جملہ میں بھی ہو جاتا ہے، مگر اس شیطانی وسوسہ کے ازالہ کے لئے بہت محنت بھی کرنا پڑتی ہے، اور بہت کچھ لکھنا پڑتا ہے، تاکہ ایک عام مسلمان قاری، شیطان کے ان وسوسوں کا شکار نہ ہو! لہٰذا آپ کو اس کی ضرورت ہو نہ ہو، ہم تو اپنے مسلمان قارئین کے لئے تفصیل بھی بیان کرتے ہیں!
ہم کیا کریں مجبور ہیں، کہ ہم ایسے اشکالات پھیلانے مرزا جہلمی جیسے زندیقوں پرزندیقیت پھیلانے کے جرم میں بڑی سخت تعزیر نافظ کریں!

عام قاری بھی ایک ہی قسم کے نہیں ہوتے!
عام قاری مسلمان بھی ہوتے ہیں، غیر مسلم بھی اور رافضی بھی!
مسلمان عام قاری کو اتنا معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمانوں کے نزدیک تمام صحابہ عادل ہیں، لہٰذا اگر کوئی حدیث وہ ایسی دیکھے کہ جس میں ظاہراً کسی صحابی کی عدالت مجروح قرار پاتی ہوم تو اسے یہی سمجھنا چاہئے کہ یا تو یہ بات درست ثابت نہیں، یا پھر اس کے سمجھنے میں کوئی خامی ہے، اور وہ اہل سنت کے علماء سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرے!
مگر اہل سنت کے علماء سے، نہ کہ مرزا جہلمی جیسے زندیق سے!
اور عام مسلمان قاری کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اسے اہل سنت کے علماء سے دین کی فہم حاصل کرنا چاہئے نہ کہ مرزا جہلمی جیسے زندیق سے!
یا روافض کے عام قاری کو مرزا جہلمی کی ہفوات دل کو بھاتی ہیں، کیوں کہ اسے مرزا جہلمی کی ہفوات اس کے خبیث عقائد و نظریات کے موافق ملتی ہیں!
اس کے علاوہ کچھ عام قاری وہ بھی ہیں، کہ جو خود کو سننی کہتے ہیں مگر ان میں رافضیت کے جراثیم ہیں، انہیں اپنے ان جراثیم کا علاج کروانا چاہئے اور جب وہ خود کو سنی کہتے ہیں تو انہیں اہل سنت کا مؤقف بھی اختیار کرنا چاہئے!
عام قارئین کی ایک خاص قسم اور بھی ہے، جن میں رافضیت کا کیڑے ہوتے ہیں، کہ انہیں توحید ، رسالت ، نماز ، روزہ ، حج، پاکی و طہارت کے مسائل تو معلوم نہیں ہوتے، مگر چھانٹ چھانٹ کر خاص کر تاریخ کی کتب سے یا احادیث کی کتب سے ایسی عبارتیں تلاش کرنے کا خبط سوار رہتا ہے، کہ جن سے کسی بھی طرح صحابہ کو قصوروار ٹھہرایا جاسکے، خواہ وہ روایات ضعیف ہی ہوں، یا کسی صحيح روایت کے غلط معنی میں ڈھال کر صحابہ پر تنقید کی جا سکے!
بہر حال ہم اللہ کی توفیق اب تک کی پیش کردہ روایات سے ممکنہ شیطانی وسوسوں کا رد لکھیں گے۔ ان شاء اللہ

(جاری ہے)
میں آپ کی باتوں سے متفق ہوں - میں نے جب اس کا پوسٹر پڑھا تو مختلف احادیث کے حوالے چیک کیے - جو مل بھی گیۓ کچھ نہیں ملے - پھر سوچا کہ اس کو اس کا جواب دیا جایے - اس کو ای میل بھی کی لیکن ابھی تک اس کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا -

آپ صرف یہ بتا دیں کہ اہل سنت کے علماء کون سے ہیں اور محمد علی جہلمی نے جو پمفلٹ لکھا ہے اس میں بھی اس نے شیخ البانی رحمہ الله کے نوٹس بھی دیے ہیں - اور وہ احادیث پیش کی ہیں جن کو شیخ البانی رحمہ الله ، شیخ زبیر علی زئی رحمہ الله اور شیخ شعیب ارنوط رحمہ الله اور شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر حافظ الله نے صحیح کہا ہے -
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کچھ مصروفیات کی وجہ بھی دیر کا سبب بنی اور پھر دوسرے تھریڈ میں جواب بھی مکمل کرنا تھا، خیر اب یہاں شروع کرتے ہیں!
@وجاہت صاحب!
پہلے تو کچھ باتیں سمجھ لیں! آپ نے کہا:

جناب ! شیطانی سوال تو ایک آدھ جملہ میں بھی ہو جاتا ہے، مگر اس شیطانی وسوسہ کے ازالہ کے لئے بہت محنت بھی کرنا پڑتی ہے، اور بہت کچھ لکھنا پڑتا ہے، تاکہ ایک عام مسلمان قاری، شیطان کے ان وسوسوں کا شکار نہ ہو! لہٰذا آپ کو اس کی ضرورت ہو نہ ہو، ہم تو اپنے مسلمان قارئین کے لئے تفصیل بھی بیان کرتے ہیں!

(جاری ہے)
ذرا شیطانی سوالات کی وضاحت تو کر دیں کہ یہ شیطانی سوالات کون کون سے ہیں - تا کہ یہاں سب کے علم میں اضافہ ہو سکے کہ ہمارے پیارے بھائی @ابن داود کے نزدیک یہ سوالات شیطانی ہیں اور ان سوالات کو محدثین میں سے کس نے شیطانی کہا ہے -
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@وجاہت صاحب! آپ اپنے تمام اشکالات نوٹ کرتے جائیں، ''جاری ہے'' لکھا ہے، میرے جواب کے مکمل ہونے پر آپ تمام اشکال پیش کردیجئے گا، تاکہ تسلسل قائم رہے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیوں کہ کہا یہی جاتا ہے کہ صحیحین پر اجماع ہے
پھر یہ دعوه کیوں کیا جاتا ہے کہ صحیحین کی صحت پر اجماع ہے - اگر اجماع ہے تو پھر ایسی روایات کو صحیح مان لینا چاہیے - اور اگر یہ روایات غلط ہیں تو اس کا رد کرنا چاہیے -
کیوں کہ اسی فورم پر صحیحین کی صحت پر اجماع ہے پر کئی علماء نے اپنی پوری زندگی لگا دی -

جب صحیحین پر اجماع کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد ان کی موقوف، معلق روایات مراد نہیں ، اور نہ ہی اس کی مرفوع احادیث میں مدرج اور شاذ الفاظ شامل ہوتے ہیں!
لیکن مرزا جہلمی جیسے فراڈیئے، اس کا علم نہیں رکھتے، اورمحقق بنے پھرتے ہیں، کہ صحیحین پر اجماع ہے لو جی یہ تو صحیحین میں موجود ہے، تو اسے مان لو، جبکہ وہ بات موقوف روایت یا مدرج وشاذ الفاظ ہی کیوں نہ ہوں!
لہٰذا اس بات کو مدنظر رکھا جائے!
دوم کہ معلوم ہونا چاہیئے کہ موقوف روایات بذاتہ حجت نہیں !
(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
فَقُلْتُ لَهُ هَذَا ابْنُ عَمِّکَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْکُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا وَاللَّهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَکُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللَّهَ کَانَ بِکُمْ رَحِيمًا قَالَ فَسَکَتَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ
تو میں نے ان سے کہا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی معاویہ ہمیں اپنے اموال کو ناجائز طریقے پر کھانے اور اپنی جانوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اللہ کا ارشاد ہے اے ایمان والو اپنے اموال کو ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ ایسی تجارت ہو جو باہمی رضا مندی سے کی جائے اور نہ اپنی جانوں کو قتل کرو بے شک اللہ تم پر رحم فرمانے والا ہے راوی نے کہا عبداللہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر کہا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔
پہلے تو دیکھ لیں ؛اس کے ترجمہ میں ایک غلطی ہے، وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی نہیں، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کے چچازاد بھائی ؛
اول کہ یہ کلام کسی صحابی کا بھی نہیں، بلکہ عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ کا ہے!
اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن بن عبدرب کعبہ کی کے اس کلام کی توثیق نہیں کی، اور ایک عمومی قاعدہ بیان کیاکہ:
ثُمَّ قَالَ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ
پھر کہا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔
اس بات کو دیکھیں کہ عبد الرحمن بن عبدرب کعبہ نے یہ کلام کب اور کیوں کیا؛
جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبداللہ بن عمرو بن عاص نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی:
فَقَالَ إِنَّهُ لَمْ يَکُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا کَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَی خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَإِنَّ أُمَّتَکُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَائٌ وَأُمُورٌ تُنْکِرُونَهَا وَتَجِيئُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَتَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ مُهْلِکَتِي ثُمَّ تَنْکَشِفُ وَتَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ هَذِهِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنْ النَّارِ وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَأْتِ إِلَی النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَی إِلَيْهِ وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ إِنْ اسْتَطَاعَ فَإِنْ جَائَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سے قبل کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے ذمے اپنے علم کے مطابق اپنی امت کی بھلائی کی طرف راہنمائی لازم نہ ہو اور برائی سے اپنے علم کے مطابق انہیں ڈرانا لازم نہ ہو اور بے شک تمہاری اس امت کی عافیت ابتدائی حصہ میں ہے اور اس کا آخر ایسی مصیبتوں اور امور میں مبتلا ہوگا جسے تم ناپسند کرتے ہو اور ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا یہ میری ہلاکت ہے پھر وہ ختم ہو جائے گا اور دوسرا ظاہر ہوگا تو مومن کہے گا یہی میری ہلاکت کا ذریعہ ہوگا جس کو یہ بات پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو چاہیے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ اس معاملہ سے پیش آئے جس کے دیئے جانے کو اپنے لئے پسند کرے اور جس نے امام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر دل کے اخلاص سے بیعت کی تو چاہیے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اطاعت کرے اور اگر دوسرا شخص اس سے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن مار دو
تب عبد الرحمن بن عبد کعبہ کو اشکال ہوا کہ بقول عبد الرحمن بن عبد کعبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ قرآن کے برخلاف ناجائز کا حکم دیتے ہیں۔ (آگے اس کی تفصیل بھی بیان ہوگی! انشاء اللہ!)
اور اس طرح عبد الرحمن بن عبد کعبہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرنے پر اشکال پیش کیا!
مگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی، عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ان کے اس اشکال کو رفع کیا، کہ ایسا نہیں، جیسا کہ تم سمجھ رہے ہو، اگر تمہارا یہ گمان ہے، تو آپ ایسا کوئی کام نہ کریں جس میں اللہ کی نافرمانی ہو، لیکن آپ کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرنی لازم ہے، اور اس پر ایک عمومی قاعدہ بیان کیا جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی ہے، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

ثُمَّ قَالَ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ
پھر کہا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔
اب آتے ہیں عبد الرحمن بن عبد کعبہ کے ان الفاظ کی طرف:
فَقُلْتُ لَهُ هَذَا ابْنُ عَمِّکَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْکُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا وَاللَّهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَکُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللَّهَ کَانَ بِکُمْ رَحِيمًا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی معاویہ ہمیں اپنے اموال کو ناجائز طریقے پر کھانے اور اپنی جانوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اللہ کا ارشاد ہے اے ایمان والو اپنے اموال کو ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ ایسی تجارت ہو جو باہمی رضا مندی سے کی جائے اور نہ اپنی جانوں کو قتل کرو بے شک اللہ تم پر رحم فرمانے والا ہے
اب سوال یہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنا مال کس چیز پر خرچ کرنے کا کہا کہ انہوں اسے قرآن کے مخالف قراد دیا!
اس سے متعلق امام النووی فرماتے ہیں:

الْمَقْصُودُ بِهَذَا الْكَلَامِ أَنَّ هَذَا الْقَائِلَ لَمَّا سَمِعَ كَلَامَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْروِ بْنِ الْعَاصِ وَذِكْرَ الْحَدِيثِ فِي تَحْرِيمِ مُنَازَعَةِ الْخَلِيفَةِ الْأَوَّلِ وَأَنَّ الثَّانِيَ يُقْتَلُ فَاعْتَقَدَ هَذَا الْقَائِلُ هَذَا الْوَصْفَ فِي مُعَاوِيَةَ لِمُنَازَعَتِهِ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَتْ قَدْ سَبَقَتْ بَيْعَةُ عَلِيٍّ فَرَأَى هَذَا أَنَّ نَفَقَةَ مُعَاوِيَةَ عَلَى أَجْنَادِهِ وَأَتْبَاعِهِ فِي حَرْبِ عَلِيٍّ وَمُنَازَعَتِهِ وَمُقَاتَلَتِهِ إِيَّاهُ مِنْ أَكْلِ الْمَالِ بِالْبَاطِلِ وَمِنْ قَتْلِ النَّفْسِ لِأَنَّهُ قِتَالٌ بِغَيْرِ حَقٍّ فَلَا يَسْتَحِقُّ أَحَدٌ مَالًا فِي مُقَاتَلَتِهِ قَوْلُهُ (أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ) هَذَا فِيهِ دَلِيلٌ لِوُجُوبِ طَاعَةِ الْمُتَوَلِّينَ لِلْإِمَامَةِ بِالْقَهْرِ مِنْ غَيْرِ إِجْمَاعٍ وَلَا عَهْدٍ.

اس عبارت کا خلاصہ @عدیل سلفی بھائی نے ان الفاظ میں پیش کیا ہے:
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب راوی عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی کہ خلیفہ اول منتخب ہوجانے کے بعد اس کے ساتھ منازعت حرام ہے اور خلافت کے دوسرے دعویدار کے ساتھ مقاتلہ کرنا چاہئے تو اس راوی نے (اس دور کے حالات کے پیش نظر) یہ گمان کیا کہ یہ وصف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں موجود ہے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت ہوچکی ہے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے خلاف منازعت کئے ہوئے ہیں۔ گویا کہ (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کے خلاف ان کے جنود اور لشکروں پر مال خرچ کرنا باطل طریقہ ہے اور قتال کرنا قتل نفس کی دعوت ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 1194 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى النووي - بيت الأفكار الدولية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 324 جلد 12 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى النووي - مؤسسة قرطبة

اب یہاں جس بنا پر عبد الرحمن بن عبد کعبہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو قرآن کے خلاف حکم دینے والا قرار دیا ہے، اس بنا پر تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر بھی لازم آتا کہ وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی گردن ماریں! مگر نہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ کیا، بلکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی، اور یہی نہیں ان کے بیٹوں یعنی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بعیت کی اور انہیں اپنا حاکم و امیر تسلیم کیا! جس کے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ کی ایک پیشنگوئی میں مو جود ہے:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سَمِعْتُ الحَسَنَ، يَقُولُ: اسْتَقْبَلَ وَاللَّهِ الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ مُعَاوِيَةَ بِكَتَائِبَ أَمْثَالِ الجِبَالِ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ العَاصِ: إِنِّي لَأَرَى كَتَائِبَ لاَ تُوَلِّي حَتَّى تَقْتُلَ أَقْرَانَهَا، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ وَكَانَ وَاللَّهِ خَيْرَ الرَّجُلَيْنِ: أَيْ عَمْرُو إِنْ قَتَلَ هَؤُلاَءِ هَؤُلاَءِ، وَهَؤُلاَءِ هَؤُلاَءِ مَنْ لِي بِأُمُورِ النَّاسِ مَنْ لِي بِنِسَائِهِمْ مَنْ لِي بِضَيْعَتِهِمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ رَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ: عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ كُرَيْزٍ، فَقَالَ: اذْهَبَا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ، فَاعْرِضَا عَلَيْهِ، وَقُولاَ لَهُ: وَاطْلُبَا إِلَيْهِ، فَأَتَيَاهُ، فَدَخَلاَ عَلَيْهِ فَتَكَلَّمَا، وَقَالاَ لَهُ: فَطَلَبَا إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُمَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ: إِنَّا بَنُو عَبْدِ المُطَّلِبِ، قَدْ أَصَبْنَا مِنْ هَذَا المَالِ، وَإِنَّ هَذِهِ الأُمَّةَ قَدْ عَاثَتْ فِي دِمَائِهَا، قَالاَ: فَإِنَّهُ يَعْرِضُ عَلَيْكَ كَذَا وَكَذَا، وَيَطْلُبُ إِلَيْكَ وَيَسْأَلُكَ قَالَ: فَمَنْ لِي بِهَذَا، قَالاَ: نَحْنُ لَكَ بِهِ، فَمَا سَأَلَهُمَا شَيْئًا إِلَّا قَالاَ: نَحْنُ لَكَ بِهِ، فَصَالَحَهُ، فَقَالَ الحَسَنُ: وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المِنْبَرِ وَالحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً، وَعَلَيْهِ أُخْرَى وَيَقُولُ: «إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ»، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّمَا ثَبَتَ لَنَا سَمَاعُ الحَسَنِ مِنْ أَبِي بَكْرَةَ، بِهَذَا الحَدِيثِ.
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت امام حسن بصری سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما ( معاو یہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے ، تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا ( جو امیر معاو یہ رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص تھے ) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائےگا ۔ معاو یہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی ، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے ، کہ اے عمرو ! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کردیا ، یا اس نے اس کو کردیا ، تو ( اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ) لوگوں کے امور ( کی جواب دہی کے لیے ) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا ، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبر گیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا ۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا ۔ آخر معاو یہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے ۔ عبدالرحمن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز ، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاو اور ان کے سامنے صلح پیش کرو ، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو ۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا ۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپ یہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہوگئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں ، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں ، بغیر روپ یہ دئیے ماننے والے نہیں ۔ وہ کہنے لگے حضرت امیر معاو یہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا روپ یہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں ۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ۔ حضرت حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا ، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ۔ آخر آپ نے صلح کرلی ، پھرفرمایا کہ میں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا ، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے ، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا ۔ امام بخاری نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت ہوا ہے ۔
‌صحيح البخاري»» كِتَابُ الصُّلْحِ»» بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

لہٰذا یہ بات بلکل واضح ہوجاتی ہے، کہ نہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث کا مصداق سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ قرار پاتے ہیں، اور عبد اللہ بن عبد الرحمن بن رب کعبہ کا گمان بھی باطل ثابت ہوتا ہے۔
کچھ خوراک خالص روافض کے لئے بھی:
وَكَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا وَالْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ، وَنَبِيَّنَا وَاحِدٌ، وَدَعْوَتَنَا فِي الْاِسْلاَمِ وَاحِدَةٌ، لاَ نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الْاِيمَانِ باللهِ وَالتَّصْدِيقِ بِرَسُولِهِ (صلى الله عليه وآله)، وَلاَ يَسْتَزِيدُونَنَا، الْاِمْرُ وَاحِدٌ، إِلاَّ مَا اخْتَلَفْنَا فِيهِ مِنْ دَمِ عُثْمانَ، وَنَحْنُ مِنْهُ بَرَاءٌ!
سیدنا علی بن ابی طالب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فرماتے ہیں:
ہمارے معاملے کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوے جب بظاہر دونوں کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا پیغام ایک تھا نہ ہم اپنے ایمان وتصدیق میں اضافہ کے طلبگار تھے نہ وہ اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے معاملہ بالکل ایک تھا ہمارا اختلاف صرف خون عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کے بارے میں تھا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 448 نهج البلاغة - سید شریف رضی - دار الكتاب المصري - دار الكتاب اللبناني


لیں جناب یہ تو روافض کی اس کتاب سے کہ جسے یہ روافض سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے خطبات ہی نہیں بلکہ ان کی ہی کتاب گردانتے ہیں، اس میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ بات موجود ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ کے درمیان خلافت کا کوئی جھگڑا نہیں تھا، ان کا اختلاف صرف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے قصاص کے حوالہ سے تھا!

(جاری ہے)
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!



پہلے تو دیکھ لیں ؛اس کے ترجمہ میں ایک غلطی ہے، وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی نہیں، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کے چچازاد بھائی ؛
اول کہ یہ کلام کسی صحابی کا بھی نہیں، بلکہ عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ کا ہے!
اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن بن عبدرب کعبہ کی کے اس کلام کی توثیق نہیں کی، اور ایک عمومی قاعدہ بیان کیاکہ:


اس بات کو دیکھیں کہ عبد الرحمن بن عبدرب کعبہ نے یہ کلام کب اور کیوں کیا؛
جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبداللہ بن عمرو بن عاص نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی:


تب عبد الرحمن بن عبد کعبہ کو اشکال ہوا کہ بقول عبد الرحمن بن عبد کعبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ قرآن کے برخلاف ناجائز کا حکم دیتے ہیں۔ (آگے اس کی تفصیل بھی بیان ہوگی! انشاء اللہ!)
اور اس طرح عبد الرحمن بن عبد کعبہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرنے پر اشکال پیش کیا!
مگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی، عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ان کے اس اشکال کو رفع کیا، کہ ایسا نہیں، جیسا کہ تم سمجھ رہے ہو، اگر تمہارا یہ گمان ہے، تو آپ ایسا کوئی کام نہ کریں جس میں اللہ کی نافرمانی ہو، لیکن آپ کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرنی لازم ہے، اور اس پر ایک عمومی قاعدہ بیان کیا جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی ہے، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا:



اب آتے ہیں عبد الرحمن بن عبد کعبہ کے ان الفاظ کی طرف:



اب سوال یہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنا مال کس چیز پر خرچ کرنے کا کہا کہ انہوں اسے قرآن کے مخالف قراد دیا!
اس سے متعلق امام النووی فرماتے ہیں:

الْمَقْصُودُ بِهَذَا الْكَلَامِ أَنَّ هَذَا الْقَائِلَ لَمَّا سَمِعَ كَلَامَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْروِ بْنِ الْعَاصِ وَذِكْرَ الْحَدِيثِ فِي تَحْرِيمِ مُنَازَعَةِ الْخَلِيفَةِ الْأَوَّلِ وَأَنَّ الثَّانِيَ يُقْتَلُ فَاعْتَقَدَ هَذَا الْقَائِلُ هَذَا الْوَصْفَ فِي مُعَاوِيَةَ لِمُنَازَعَتِهِ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَتْ قَدْ سَبَقَتْ بَيْعَةُ عَلِيٍّ فَرَأَى هَذَا أَنَّ نَفَقَةَ مُعَاوِيَةَ عَلَى أَجْنَادِهِ وَأَتْبَاعِهِ فِي حَرْبِ عَلِيٍّ وَمُنَازَعَتِهِ وَمُقَاتَلَتِهِ إِيَّاهُ مِنْ أَكْلِ الْمَالِ بِالْبَاطِلِ وَمِنْ قَتْلِ النَّفْسِ لِأَنَّهُ قِتَالٌ بِغَيْرِ حَقٍّ فَلَا يَسْتَحِقُّ أَحَدٌ مَالًا فِي مُقَاتَلَتِهِ قَوْلُهُ (أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ) هَذَا فِيهِ دَلِيلٌ لِوُجُوبِ طَاعَةِ الْمُتَوَلِّينَ لِلْإِمَامَةِ بِالْقَهْرِ مِنْ غَيْرِ إِجْمَاعٍ وَلَا عَهْدٍ.

اس عبارت کا خلاصہ @عدیل سلفی بھائی نے ان الفاظ میں پیش کیا ہے:

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 1194 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى النووي - بيت الأفكار الدولية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 324 جلد 12 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى النووي - مؤسسة قرطبة

اب یہاں جس بنا پر عبد الرحمن بن عبد کعبہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو قرآن کے خلاف حکم دینے والا قرار دیا ہے، اس بنا پر تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر بھی لازم آتا کہ وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی گردن ماریں! مگر نہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ کیا، بلکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی، اور یہی نہیں ان کے بیٹوں یعنی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بعیت کی اور انہیں اپنا حاکم و امیر تسلیم کیا! جس کے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ کی ایک پیشنگوئی میں مو جود ہے:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سَمِعْتُ الحَسَنَ، يَقُولُ: اسْتَقْبَلَ وَاللَّهِ الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ مُعَاوِيَةَ بِكَتَائِبَ أَمْثَالِ الجِبَالِ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ العَاصِ: إِنِّي لَأَرَى كَتَائِبَ لاَ تُوَلِّي حَتَّى تَقْتُلَ أَقْرَانَهَا، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ وَكَانَ وَاللَّهِ خَيْرَ الرَّجُلَيْنِ: أَيْ عَمْرُو إِنْ قَتَلَ هَؤُلاَءِ هَؤُلاَءِ، وَهَؤُلاَءِ هَؤُلاَءِ مَنْ لِي بِأُمُورِ النَّاسِ مَنْ لِي بِنِسَائِهِمْ مَنْ لِي بِضَيْعَتِهِمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ رَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ: عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ كُرَيْزٍ، فَقَالَ: اذْهَبَا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ، فَاعْرِضَا عَلَيْهِ، وَقُولاَ لَهُ: وَاطْلُبَا إِلَيْهِ، فَأَتَيَاهُ، فَدَخَلاَ عَلَيْهِ فَتَكَلَّمَا، وَقَالاَ لَهُ: فَطَلَبَا إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُمَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ: إِنَّا بَنُو عَبْدِ المُطَّلِبِ، قَدْ أَصَبْنَا مِنْ هَذَا المَالِ، وَإِنَّ هَذِهِ الأُمَّةَ قَدْ عَاثَتْ فِي دِمَائِهَا، قَالاَ: فَإِنَّهُ يَعْرِضُ عَلَيْكَ كَذَا وَكَذَا، وَيَطْلُبُ إِلَيْكَ وَيَسْأَلُكَ قَالَ: فَمَنْ لِي بِهَذَا، قَالاَ: نَحْنُ لَكَ بِهِ، فَمَا سَأَلَهُمَا شَيْئًا إِلَّا قَالاَ: نَحْنُ لَكَ بِهِ، فَصَالَحَهُ، فَقَالَ الحَسَنُ: وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المِنْبَرِ وَالحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً، وَعَلَيْهِ أُخْرَى وَيَقُولُ: «إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ»، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّمَا ثَبَتَ لَنَا سَمَاعُ الحَسَنِ مِنْ أَبِي بَكْرَةَ، بِهَذَا الحَدِيثِ.
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت امام حسن بصری سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما ( معاو یہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے ، تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا ( جو امیر معاو یہ رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص تھے ) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائےگا ۔ معاو یہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی ، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے ، کہ اے عمرو ! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کردیا ، یا اس نے اس کو کردیا ، تو ( اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ) لوگوں کے امور ( کی جواب دہی کے لیے ) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا ، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبر گیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا ۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا ۔ آخر معاو یہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے ۔ عبدالرحمن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز ، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاو اور ان کے سامنے صلح پیش کرو ، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو ۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا ۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپ یہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہوگئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں ، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں ، بغیر روپ یہ دئیے ماننے والے نہیں ۔ وہ کہنے لگے حضرت امیر معاو یہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا روپ یہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں ۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ۔ حضرت حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا ، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ۔ آخر آپ نے صلح کرلی ، پھرفرمایا کہ میں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا ، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے ، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا ۔ امام بخاری نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت ہوا ہے ۔
‌صحيح البخاري»» كِتَابُ الصُّلْحِ»» بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

لہٰذا یہ بات بلکل واضح ہوجاتی ہے، کہ نہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث کا مصداق سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ قرار پاتے ہیں، اور عبد اللہ بن عبد الرحمن بن رب کعبہ کا گمان بھی باطل ثابت ہوتا ہے۔
کچھ خوراک خالص روافض کے لئے بھی:
وَكَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا وَالْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ، وَنَبِيَّنَا وَاحِدٌ، وَدَعْوَتَنَا فِي الْاِسْلاَمِ وَاحِدَةٌ، لاَ نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الْاِيمَانِ باللهِ وَالتَّصْدِيقِ بِرَسُولِهِ (صلى الله عليه وآله)، وَلاَ يَسْتَزِيدُونَنَا، الْاِمْرُ وَاحِدٌ، إِلاَّ مَا اخْتَلَفْنَا فِيهِ مِنْ دَمِ عُثْمانَ، وَنَحْنُ مِنْهُ بَرَاءٌ!
سیدنا علی بن ابی طالب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فرماتے ہیں:
ہمارے معاملے کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوے جب بظاہر دونوں کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا پیغام ایک تھا نہ ہم اپنے ایمان وتصدیق میں اضافہ کے طلبگار تھے نہ وہ اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے معاملہ بالکل ایک تھا ہمارا اختلاف صرف خون عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کے بارے میں تھا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 448 نهج البلاغة - سید شریف رضی - دار الكتاب المصري - دار الكتاب اللبناني


لیں جناب یہ تو روافض کی اس کتاب سے کہ جسے یہ روافض سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے خطبات ہی نہیں بلکہ ان کی ہی کتاب گردانتے ہیں، اس میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ بات موجود ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ کے درمیان خلافت کا کوئی جھگڑا نہیں تھا، ان کا اختلاف صرف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے قصاص کے حوالہ سے تھا!

(جاری ہے)
میرے بھائی اتنا لمبا چوڑا لکھنے کے بجایے آپ یہ جواب دے دیتے جو @رفیق طاھر بھائی نے یہاں دیا ہے - اس حدیث پر - اور موقف سامنے آ جاتا - یہاں بحث نہیں موقف کی بات کر رہے ہیں لیکن آپ صفحات کے صفحات بھر رہے ہیں- جو پہلے بھی یہاں بھرے جا چکے ہیں لیکن نتیجہ صفر -


@رفیق طاھر بھائی کا جواب -


سو اس میں کوئی ایسا بہتان نہیں ہے ۔

یہاں فورم پر @ابن داود بھائی نے صفحات کے صفحات پھر دیے -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!



پہلے تو دیکھ لیں ؛اس کے ترجمہ میں ایک غلطی ہے، وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی نہیں، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کے چچازاد بھائی ؛
اول کہ یہ کلام کسی صحابی کا بھی نہیں، بلکہ عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ کا ہے!
اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن بن عبدرب کعبہ کی کے اس کلام کی توثیق نہیں کی، اور ایک عمومی قاعدہ بیان کیاکہ:


اس بات کو دیکھیں کہ عبد الرحمن بن عبدرب کعبہ نے یہ کلام کب اور کیوں کیا؛
جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبداللہ بن عمرو بن عاص نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی:


تب عبد الرحمن بن عبد کعبہ کو اشکال ہوا کہ بقول عبد الرحمن بن عبد کعبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ قرآن کے برخلاف ناجائز کا حکم دیتے ہیں۔ (آگے اس کی تفصیل بھی بیان ہوگی! انشاء اللہ!)
اور اس طرح عبد الرحمن بن عبد کعبہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرنے پر اشکال پیش کیا!
مگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی، عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ان کے اس اشکال کو رفع کیا، کہ ایسا نہیں، جیسا کہ تم سمجھ رہے ہو، اگر تمہارا یہ گمان ہے، تو آپ ایسا کوئی کام نہ کریں جس میں اللہ کی نافرمانی ہو، لیکن آپ کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرنی لازم ہے، اور اس پر ایک عمومی قاعدہ بیان کیا جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی ہے، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا:



اب آتے ہیں عبد الرحمن بن عبد کعبہ کے ان الفاظ کی طرف:



اب سوال یہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنا مال کس چیز پر خرچ کرنے کا کہا کہ انہوں اسے قرآن کے مخالف قراد دیا!
اس سے متعلق امام النووی فرماتے ہیں:

الْمَقْصُودُ بِهَذَا الْكَلَامِ أَنَّ هَذَا الْقَائِلَ لَمَّا سَمِعَ كَلَامَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْروِ بْنِ الْعَاصِ وَذِكْرَ الْحَدِيثِ فِي تَحْرِيمِ مُنَازَعَةِ الْخَلِيفَةِ الْأَوَّلِ وَأَنَّ الثَّانِيَ يُقْتَلُ فَاعْتَقَدَ هَذَا الْقَائِلُ هَذَا الْوَصْفَ فِي مُعَاوِيَةَ لِمُنَازَعَتِهِ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَتْ قَدْ سَبَقَتْ بَيْعَةُ عَلِيٍّ فَرَأَى هَذَا أَنَّ نَفَقَةَ مُعَاوِيَةَ عَلَى أَجْنَادِهِ وَأَتْبَاعِهِ فِي حَرْبِ عَلِيٍّ وَمُنَازَعَتِهِ وَمُقَاتَلَتِهِ إِيَّاهُ مِنْ أَكْلِ الْمَالِ بِالْبَاطِلِ وَمِنْ قَتْلِ النَّفْسِ لِأَنَّهُ قِتَالٌ بِغَيْرِ حَقٍّ فَلَا يَسْتَحِقُّ أَحَدٌ مَالًا فِي مُقَاتَلَتِهِ قَوْلُهُ (أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ) هَذَا فِيهِ دَلِيلٌ لِوُجُوبِ طَاعَةِ الْمُتَوَلِّينَ لِلْإِمَامَةِ بِالْقَهْرِ مِنْ غَيْرِ إِجْمَاعٍ وَلَا عَهْدٍ.

اس عبارت کا خلاصہ @عدیل سلفی بھائی نے ان الفاظ میں پیش کیا ہے:

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 1194 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى النووي - بيت الأفكار الدولية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 324 جلد 12 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى النووي - مؤسسة قرطبة

اب یہاں جس بنا پر عبد الرحمن بن عبد کعبہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو قرآن کے خلاف حکم دینے والا قرار دیا ہے، اس بنا پر تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر بھی لازم آتا کہ وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی گردن ماریں! مگر نہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ کیا، بلکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی، اور یہی نہیں ان کے بیٹوں یعنی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بعیت کی اور انہیں اپنا حاکم و امیر تسلیم کیا! جس کے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ کی ایک پیشنگوئی میں مو جود ہے:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سَمِعْتُ الحَسَنَ، يَقُولُ: اسْتَقْبَلَ وَاللَّهِ الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ مُعَاوِيَةَ بِكَتَائِبَ أَمْثَالِ الجِبَالِ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ العَاصِ: إِنِّي لَأَرَى كَتَائِبَ لاَ تُوَلِّي حَتَّى تَقْتُلَ أَقْرَانَهَا، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ وَكَانَ وَاللَّهِ خَيْرَ الرَّجُلَيْنِ: أَيْ عَمْرُو إِنْ قَتَلَ هَؤُلاَءِ هَؤُلاَءِ، وَهَؤُلاَءِ هَؤُلاَءِ مَنْ لِي بِأُمُورِ النَّاسِ مَنْ لِي بِنِسَائِهِمْ مَنْ لِي بِضَيْعَتِهِمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ رَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ: عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ كُرَيْزٍ، فَقَالَ: اذْهَبَا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ، فَاعْرِضَا عَلَيْهِ، وَقُولاَ لَهُ: وَاطْلُبَا إِلَيْهِ، فَأَتَيَاهُ، فَدَخَلاَ عَلَيْهِ فَتَكَلَّمَا، وَقَالاَ لَهُ: فَطَلَبَا إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُمَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ: إِنَّا بَنُو عَبْدِ المُطَّلِبِ، قَدْ أَصَبْنَا مِنْ هَذَا المَالِ، وَإِنَّ هَذِهِ الأُمَّةَ قَدْ عَاثَتْ فِي دِمَائِهَا، قَالاَ: فَإِنَّهُ يَعْرِضُ عَلَيْكَ كَذَا وَكَذَا، وَيَطْلُبُ إِلَيْكَ وَيَسْأَلُكَ قَالَ: فَمَنْ لِي بِهَذَا، قَالاَ: نَحْنُ لَكَ بِهِ، فَمَا سَأَلَهُمَا شَيْئًا إِلَّا قَالاَ: نَحْنُ لَكَ بِهِ، فَصَالَحَهُ، فَقَالَ الحَسَنُ: وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المِنْبَرِ وَالحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً، وَعَلَيْهِ أُخْرَى وَيَقُولُ: «إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ»، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّمَا ثَبَتَ لَنَا سَمَاعُ الحَسَنِ مِنْ أَبِي بَكْرَةَ، بِهَذَا الحَدِيثِ.
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت امام حسن بصری سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما ( معاو یہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے ، تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا ( جو امیر معاو یہ رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص تھے ) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائےگا ۔ معاو یہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی ، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے ، کہ اے عمرو ! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کردیا ، یا اس نے اس کو کردیا ، تو ( اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ) لوگوں کے امور ( کی جواب دہی کے لیے ) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا ، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبر گیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا ۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا ۔ آخر معاو یہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے ۔ عبدالرحمن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز ، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاو اور ان کے سامنے صلح پیش کرو ، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو ۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا ۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپ یہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہوگئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں ، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں ، بغیر روپ یہ دئیے ماننے والے نہیں ۔ وہ کہنے لگے حضرت امیر معاو یہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا روپ یہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں ۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ۔ حضرت حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا ، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ۔ آخر آپ نے صلح کرلی ، پھرفرمایا کہ میں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا ، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے ، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا ۔ امام بخاری نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت ہوا ہے ۔
‌صحيح البخاري»» كِتَابُ الصُّلْحِ»» بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

لہٰذا یہ بات بلکل واضح ہوجاتی ہے، کہ نہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث کا مصداق سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ قرار پاتے ہیں، اور عبد اللہ بن عبد الرحمن بن رب کعبہ کا گمان بھی باطل ثابت ہوتا ہے۔
کچھ خوراک خالص روافض کے لئے بھی:
وَكَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا وَالْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ، وَنَبِيَّنَا وَاحِدٌ، وَدَعْوَتَنَا فِي الْاِسْلاَمِ وَاحِدَةٌ، لاَ نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الْاِيمَانِ باللهِ وَالتَّصْدِيقِ بِرَسُولِهِ (صلى الله عليه وآله)، وَلاَ يَسْتَزِيدُونَنَا، الْاِمْرُ وَاحِدٌ، إِلاَّ مَا اخْتَلَفْنَا فِيهِ مِنْ دَمِ عُثْمانَ، وَنَحْنُ مِنْهُ بَرَاءٌ!
سیدنا علی بن ابی طالب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فرماتے ہیں:
ہمارے معاملے کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوے جب بظاہر دونوں کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا پیغام ایک تھا نہ ہم اپنے ایمان وتصدیق میں اضافہ کے طلبگار تھے نہ وہ اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے معاملہ بالکل ایک تھا ہمارا اختلاف صرف خون عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کے بارے میں تھا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 448 نهج البلاغة - سید شریف رضی - دار الكتاب المصري - دار الكتاب اللبناني


لیں جناب یہ تو روافض کی اس کتاب سے کہ جسے یہ روافض سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے خطبات ہی نہیں بلکہ ان کی ہی کتاب گردانتے ہیں، اس میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ بات موجود ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ کے درمیان خلافت کا کوئی جھگڑا نہیں تھا، ان کا اختلاف صرف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے قصاص کے حوالہ سے تھا!

(جاری ہے)
السلام و علیکم و رحمت الله -

جزاک الله -

یہاں اتنا اضافہ کرتا چلوں کہ دونوں نواسہ رسول (حضرت حسن و حسین رضی الله عنہ ) سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ان سے خراج و تحائف وغیرہ وصول کرتے رہے (ابن عساکر)-

اب اگر روایت کے ان الفاظ کو ہم مان لیں " آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی معاویہ ہمیں اپنے اموال کو ناجائز طریقے پر کھانے کا حکم دیتے ہیں" تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو حاکم (معاویہ رضی اللہ عنہ) دوسروں کو ناجائز اموال کھانے کا حکم دیتا ہو تو اس کی خود کی اپنی کمائی بھی ناجائز طریقے پر ہو گی (نعوز باللہ)- اور وہ اسی میں سے اپنے معتقدین کو خراج و تحائف دیتا ہوگا- یعنی حضرت حسن و حسین رضی الله عنہ جانتے بوجھتے (امیر معاویہ رضی الله عنہ) سے اس حرام مال میں سے خراج وصول کرتے رہے- (نعوز باللہ )
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام و علیکم و رحمت الله -

جزاک الله -

یہاں اتنا اضافہ کرتا چلوں کہ دونوں نواسہ رسول (حضرت حسن و حسین رضی الله عنہ ) سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ان سے خراج و تحائف وغیرہ وصول کرتے رہے (ابن عساکر)-

اب اگر روایت کے ان الفاظ کو ہم مان لیں " آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی معاویہ ہمیں اپنے اموال کو ناجائز طریقے پر کھانے کا حکم دیتے ہیں" تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو حاکم (معاویہ رضی اللہ عنہ) دوسروں کو ناجائز اموال کھانے کا حکم دیتا ہو تو اس کی خود کی اپنی کمائی بھی ناجائز طریقے پر ہو گی (نعوز باللہ)- اور وہ اسی میں سے اپنے معتقدین کو خراج و تحائف دیتا ہوگا- یعنی حضرت حسن و حسین رضی الله عنہ جانتے بوجھتے (امیر معاویہ رضی الله عنہ) سے اس حرام مال میں سے خراج وصول کرتے رہے- (نعوز باللہ )

عصر حاضر میں البانی ، شعیب الآرنوط ، احمد شاکر صاحبان نے احادیث کی تصحیح و تضعیف وغیرہ پر کافی محنت کی ہے جو سنن اور مسانید تک ہی محدود ہے- بطور مسلم تاریخ کے حوالے سے ہمارا منہج صحیح نہیں رہا – ہمارے مورخین نے ہر طرح کا رطب و یابس اپنی کتابوں میں نقل کر دیا اور محدثین نے روایات کو فضائل سمجھتے ہوئے یا علامات النبوه میں لکھ دیا – اس طرح انسانی شخصیات بشری جامے سے نکل کر غیر بشری تصورات میں تبدیل ہو گئیں – راویوں کی چھان پھٹک کافی بعد میں شروع ہوئی جب فتنے پورے جوبن پر آ گئے اور محدثین کہنے لگے کہ اسناد دین ہیں اور برملا اعتراف کرنے لگے کہ یہ تب احساس ہوا جب فتنوں نے سر اٹھا لیا- ابن سيرين بتاتے ہیں

كَانُوا لَا يسْأَلُون عَن الْإِسْنَاد فَلَمَّا وَقعت الْفِتْنَة قَالُوا سموا لنا رجالكم


ہم تو اسناد پوچھتے تک نہیں تھے پس جب فتنہ ہوا پھر ہم نے کہنا شروع کیا اپنے رجال کے نام لو


بحوالہ النكت على مقدمة ابن الصلاح از الزرکشی

قرن اول میں ہی جعلی حدیثیں گھڑی گئیں اور ان گھڑنے والوں کی نگاہ انتخاب علی رضی الله اور ان کی اولاد پر تھی جن کو مافوق الفطرت سمجھا جا رہا تھا- علی رضی الله کی موت کا انکار کیا جاتا ، علی رضی الله کو بادلوں میں بتایا جاتا اور ان کی خلافت کو من جانب الله ثابت کرنے کے لئے علی رضی الله ہی کے اصحاب عجیب و غریب اقوال بیان کر رہے تھے


روایت کی سب سے اہم بات نہ تو اس کی جرح تعدیل ہوتی ہے نہ راوی کی بحث بلکہ اس کا متن سب سے اہم ہوتا ہے کہ آخر ایسا کہا ہی کیوں گیا – راوی پر جرح کر کے اس کو رد کرنا آسان ہے لیکن اس کے متن میں چھپی بات تک پہنچنا اسی وقت ممکن ہے جب تمام روایات کو دیکھا اور ان کی جانچ کی جائے تاریخ کے حوالے سے علم الحدیث میں متن کی صنف میں اتنا کام نہیں ہوا جتنا درکار ہے

 
Last edited:

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
اہل سنّت ہونے اور کھلانے کے باوجود آخر ہم رافضیت سے اتنے متاثر کیوں ہیں ؟؟داماد رسول علی رضی الله عنہ سے متعلق کسی بات یا ان کے اجتہاد سے متعلق نظریہ پر تو ہمارا انگ انگ کھول اٹھتا ہے

اپ کا نہیں کھولتا کیوں ؟
اسی کو تو میں نے ناصبیت سے متاثر کہا تھا


کیا امیر معاویہ رضی الله عنہ کا دفاع آپ کے نزدیک "ناصبیت" ہے ؟؟ اگر ایسا ہی ہے تو افسوس ہے آپ کی سوچ پر -
میں نے معاویہ رضی الله عنہ کے دفاع پر نہیں علی رضی الله عنہ پر تنقید پر اپ پر اعتراض کیا تھا

اہل سنت میں ایک مشہور روایت جو کہ اصل میں ضعیف ہے

اس لئے میں نے کہا تھا کہ دفاع صحابہ کے نام علم حدیث بدنام نہ کرو یہ ضعیف حدیث ہے
٢٥ سے زیادہ سلف سے لے کر خلف تک آئمہ محدثین نے اس سی حجت لی ہے
ابن تمییہ نے اس کے حوالے سے لکھا ہے کہ کثیر محدثین نے اس سے حجت لی ہے

وَالْمَقْصُودُ هُنَا أَنَّ كَثِيرًا مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ يَقُولُونَ (2) : إِنَّ خِلَافَتَهُ ثَبَتَتْ بِالنَّصِّ، وَهُمْ يُسْنِدُونَ ذَلِكَ إِلَى أَحَادِيثَ مَعْرُوفَةٍ صَحِيحَةٍ.(منھاج السنۃ جلد 4 ص 403)

(ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ )اس کا مقصود یہ

ہے کہ کثیر اہل سنت کہتے ہیں کہ علی

رضی اللہ عنہ کی خلافت نص سے ثابت ہے

اور اس حوالے سے اسناد معروف اور صحیح ہیں۔

اور امام ابن کثیر نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے

چنانچہ رقمطراز ہیں
" وَإِنَّمَا اتَّفَقَ وُقُوعُ الْخِلَافَةِ الْمُتَتَابِعَةِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ فِي ثَلَاثِينَ سَنَةً، (البدایہ و النھایہ جلد 6 ص 221 فَصْلٌ فِي تَرْتِيبِ الْإِخْبَارِ بِالْغُيُوبِ الْمُسْتَقْبِلَةِ بَعْدَهُ صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم دلائل النبوۃ)

حضرت حسن رضی الله عنہ کو معاویہ رضی الله عنہ سے مصالحت کی بیعت پر کوئی افسوس نہ ہوا بلکہ بخوشی یہ بعیت کی؟؟- جب کہ (اہل سنت میں ایک مشہور روایت جو کہ اصل میں ضعیف ہے کے مطابق کہ نبی کریم یہ فرما گئے ہیں کہ خلافت کے تیس سال بعد ملک عضوض کا آغاز ہوگا ) حضرت حسن رضی الله عنہ جانتے بوجھتے ان کے لئے خلافت سے دست بردار ہو گئے- یعنی امّت پر ایک ظالم بادشاہ کو مسلط کرکے چلے گئے (نعوز باللہ) ؟؟
اپ سے کس نے کہا راضی خوشی ہوئی شاہ ولی الله نے اس بارے میں لکھا ہے صلح ہوئی مگر کدورت کے ساتھ


 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top