- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
انجینئر محمد علی مرزا اور صحابہ کرام کی گستاخی
حافظ ابو یحیی نورپوری
بسم الله الرحمن الرحيم
تاخیر سے ایمان لانے والے صحابہ کی توہینقرآن و سنت اور فہم سلف کے خلاف تفسیر کرتے ہوئے محمدعلی مرزا جہلمی نے کہا ہے :
’’(مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ )محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔(وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ )اور جو ان کے ساتھی ہیں۔ (اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ )وہ کافروں پر تو بڑے سخت ہیں(رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ ) لیکن آپس میں بڑے نرم دل ہیں،ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ہیں۔
لیکن یاد رکھیے گا،یہ تمام صحابہ کے بارے میں نہیں ہے۔یہ صلح حدیبیہ کے موقعے پر آیات نازل ہوئیں۔اس سے مراد بعد کے لوگ نہیں ہیں۔یہ وہ چودہ سو صحابہ کی شان ہے۔اسی لیے میں نے اوپر وہ آیت رکھی تھی کہ اللہ کن سے راضی ہوا ؟ صلح حدیبیہ کے (صحابہ سے)اور انہی کے Context(سیاق)میں یہ آخری آیت اسی سورت کی آ رہی ہے کہ یہ وہ صحابہ ہیں۔اب یہ پکڑ کہ وہ فتح مکہ کے بعد جو معافیاں مانگ کے مسلمان ہوئے،پوری زندگی اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے رہے اور بعد میں موت کے ڈر سے کلمہ پڑھ لیا۔ان کے اوپر یہ آیات لگانا تو یہ قرآنِ پاک کے ساتھ خیانت کرنا ہے اور اپنا لقمہ قرآن کے منہ میں ڈالنے والی بات ہے۔اس سے بڑی کوئی خیانت نہیں ہو سکتی۔‘‘
(لیکچر مسئلہ 96، وقت 32:25 تا 33:40)
مرزا کی یہ باتیں قرآن و سنت سے صریح جہالت اور صحابہ کرام کی واضح گستاخی پر مبنی ہیں۔کچھ قابل غور نکات یہ ہیں :
1 ۔۔۔ اگر کوئی آیت کسی خاص موقع پر نازل ہو لیکن اس کے الفاظ عام ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا مفہوم صرف اسی واقعہ کے ساتھ خاص ہے۔ایسا سوچنا قرآنِ کریم سے جہالت کا نتیجہ ہے۔قرآنِ کریم کے جو الفاظ کسی خاص واقعہ میں نازل ہوئے،وہ الفاظ اسی تناظر کے باقی لوگوں کے لیے بھی عام تھے۔اس کی کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں :
(ا) سب مسلمان اس بات کے اقراری ہیں کہ آیت ِظہار(المجادلۃ 58 : 3)خاص سیدنا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی، لیکن اس کا حکم ان سب لوگوں کے لیے عام ہے جو ظہار کریں۔
(ب) لعان کی آیت بالاتفاق سیدنا ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ پر نازل ہوئی،لیکن سب مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ سیدنا ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ باقی سارے مسلمان بھی اس حکم میں شامل ہیں،جن کے ساتھ ایسا معاملہ پیش آ جائے۔
کیا اب مرزا ان آیات کے بارے میں بھی یہ کہے گا کہ ظہار والی آیت سیدنا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ اور لعان والی آیت سیدنا ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی،لہٰذا ان آیات کا حکم بھی صرف انہی دو صحابہ کے ساتھ خاص ہے،اسے بعد والے مسلمانوں پر فٹ کرنا خیانت ہے؟
مزے کی بات تو یہ ہے کہ ظہار اور لعان والی آیات میں بھی عام الفاظ وَالَّذِيْنَ (وہ لوگ جو) ہیں اور شانِ صحابہ والی آیت میں بھی عام الفاظ وَالَّذِيْنَ (وہ لوگ جو)ہی ہیں۔
آئیے بالترتیب آیت ظہار،آیت ِلعان اور آیت ِشانِ صحابہ ملاحظہ فرمائیں :
(وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ ) المجادلۃ 58 : 3
’’وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں۔۔۔‘‘
(وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ) النور 24 : 6
’’وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں۔۔۔‘‘
(مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ) الفتح 48 : 29
’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جوآپ کے ساتھ ہیں،وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں۔‘‘
اگر خاص واقعہ پر نازل ہونے کے باوجود ظہار اور لعان والی آیات کا حکم خاص نہیں،بلکہ عام الفاظ کی وجہ سے اُن سب لوگوں کے لیے عام ہے جن کے ساتھ ایسا معاملہ پیش آئے،تو رضائے الٰہی اور اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ اور رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ والا امر بھی عام الفاظ کی وجہ سے اُن سب لوگوں کے لیے عام کیوں نہیں،جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بنے؟
2 ۔۔۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی قرآنی آیت کسی خاص صحابی کے بارے میں نازل ہو اور اس کے الفاظ بھی خاص ہی ہوں ، تو بھی وہ اسی صحابی کے ساتھ خاص نہیں رہتی،بلکہ اس کے خاص الفاظ کا حکم بھی عام ہو جاتا ہے،جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کابیان ہے:
ان رجلا اصاب من امرأة قبلة فأتى النبى صلى الله عليه وسلم فأخبره فأنز الله عزوجل: {اَقِمِ الصَّلاَۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ}(ھود : 114)، فقال الرجل: يا رسول الله، ألي هذا ؟ قال : ’لجميع أمتي كلهم‘ ۔
’’ایک صحابی(غیرمحرم)عورت کو بوسہ دے بیٹھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کیا۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : تُو صبح شام اور رات کے اندھیرے میں نماز قائم کر،کیونکہ نیکیاں بُرائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔اس آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول! کیا یہ حکم صرف میرے لیے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں،بلکہ میری ساری امت کے لیے۔‘‘
(صحیح البخاري : 526، 4687، صحیح مسلم : 2763)
اب اس آیت میں جو الفاظ ہیں،وہ واحد کے صیغے کے ساتھ اُسی صحابی کے لیے تھے، لیکن اس کے باوجود حکم کو اُن سب لوگوں کے لیے عام رکھا گیا جو ایسا کرتے ہیں۔جب خاص الفاظ کا حکم بھی عام ہو جاتا ہے توجو الفاظ ہوں ہی عام، ان کے حکم کو خاص قرار دینا اور ان کے عموم کو خیانت قرار دینا کون سی دینی خدمت ہے؟
3 ۔۔۔ اہل سنت کے کسی ایک بھی مفسر یا اہل علم نے اس آیت کو اہل شجرہ کے لیے خاص قرار نہیں دیا اور یہ نہیں کہا کہ اس میں صلح حدیبیہ کے بعد ایمان لانے والے صحابہ کرام شامل نہیں ہیں۔سب نے اسے عام قرار دیتے ہوئے سب صحابہ کرام کی شان میں بیان کیا ہے۔شائقین اس حوالے سے تفسیر طبری اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ کی طرف رجوع کریں۔
کیا اسلاف ِامت قرآنِ کریم کی تفسیر کو بہتر سمجھتے تھے یا آج کے وہ لوگ،جو تفسیر کی ابجد سے بھی جاہل ہیں،وہ زیادہ سمجھتے ہیں؟
4 ۔۔۔ سب صحابہ کرام کے رضائے الٰہی کا بیان اگرچہ یہاں صلح حدیبیہ کے تناظر میں بیان ہوا ہے،اگر اسے چودہ سو صحابہ کے لیے خاص بھی سمجھ لیا جائے تو سورۂ توبہ اور سورۂ حدید کی ان صریح آیات کا کیا کیا جائے گا،جس میں بعد میں ایمان لانے والے صحابہ کرام کو بھی واضح انداز میں یہی خوش خبری سنائی گئی؟
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ )
’’مہاجرین وانصار میں سے پہلے سبقت لے جانے والے اور وہ لوگ جو نیکی میں ان کے راستے پر چلے،اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں،جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘ (التوبة: 100)
یہاں سابقون اولون کے ساتھ ساتھ بعد میں ایمان لانے والوں کے لیے بھی وہی رضائے الٰہی اور جنت کی بشارت موجود ہے۔
نیز صحابہ کرام کے بارے میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ )
’’تم میں سے وہ لوگ(باقی صحابہ کے)برابر نہیں جنہوں نے فتح سے قبل مال خرچ کیا اور قتال کیا،بلکہ یہ لوگ ان لوگوں سے بڑے اجر والے ہیں،جنہوں نے فتح کے بعد مال خرچ کیا اور قتال کیا،لیکن اللہ تعالیٰ نے سب کے ساتھ اچھا وعدہ کیاہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔‘‘ (الحديد 57 : 10)
اس آیت کی تفسیر میں امامِ تفسیر،علامہ محمد بن جریر بن یزید،طبری رحمہ اللہ (310-224ھ)فرماتے ہیں :
وقوله : {وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى}، يقول تعالى ذكره : وكل هولاء الذين انفقوا من قبل الفتح وقاتلوا،والذين انفقوا من بعد وقاتلوا، وعدالله الجنة بانفاقهم فى سبيله، وقتالهم اعداءه ۔
’’فرمانِ باری تعالیٰ ’اور اللہ نے سب کے ساتھ اچھائی کا وعدہ فرمایا ہے‘میں اللہ فرماتا ہے : یہ سب صحابہ جنہوں نے فتح سے قبل مال خرچ کیا اور دشمنوں سے قتال کیا اور جنہوں نے فتح کے بعد مال خرچ کیا اور قتال کیا،اللہ تعالیٰ نے سب کو ان کے مال خرچ کرنے اور دشمنوں سے قتال کرنے کی وجہ سے جنت کا وعدہ دیا ہے۔‘‘
(جامع البیان في تأویل القرآن : 177/23)
یعنی فتح سے پہلے والے صحابہ ہوں یا بعد والے،سب سے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔کیا اللہ تعالیٰ کی رضا کے بغیر جنت میں دخول ممکن ہے؟
اس آیت میں تحریف معنوی کرتے ہوئے مرزا نے کہا ہے :
’’وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو وہ(آیت میں ’تم‘ کا لفظ ہے،جو علی مرزا نے اپنی جہالت سے ’وہ‘ میں بدل دیا ہے)اعمال کر رہے ہیں۔ یعنی اوپن لائسنس نہیں دے دیا کہ اعمال کی بنیاد پہ فیصلہ ہونا ہے۔یہ نہیں کہ خالی کلمہ پڑھ لیا ہے تو اب جنت جو ہے وہ گارنٹیڈ ہوگئی ہے،حضور کو دیکھ لیا ہے تو اب گارنٹیڈ ہوگئی ہے،اس طریقے سے نہیں ہوگا،اللهتعالیٰتمہارے اعمالسے باخبر ہے،دیکھےگا۔‘‘
(مسئلہ 96، وقت 37:21تا 37:43)
حالانکہ آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہے کہ اس آیت میں تو فتح سے پہلے اور بعد والے تمام صحابہ کرام کے لیے جنت کی واضح بشارت دے دی گئی ہے،پھر یہ کہنا کہ بعد والوں کو جنت کا اوپن لائسنس نہیں ملا اور جنت ان کے لیے پکی نہیں ہوئی،واضح معنوی تحریف ہے۔
رہی اعمال سے خبردار ہونے کی بات،تو وہ بطور ِحوصلہ افزائی فرمائی گئی ہے نہ کہ بطورِ تنبیہ۔یعنی اس لیے نہیں کہی گئی کہ تمہارے اعمال کو دیکھا جائے گا اور فیصلہ کیا جائے گا کہ فتح کے بعد والے صحابہ نے جنت میں جانا ہے یا نہیں،بلکہ اس لیے کہ بعد والوں کا مال خرچ کرنا اور قتال کرنا اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے،لہٰذا وہ ضرور اس کے بدلے میں جنت کا انعام دے گا۔
انہی الفاظ کے بارے میں امامِ تفسیر،علامہ حمد بن جریر بن یزید،طبری رحمہ اللہ (310-224ھ)فرماتے ہیں :
وقوله : {وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ } يقول تعالى ذكره : والله بما تعملون من النفقة في سبيل الله، وقتال اعدائه، وغير ذلك من اعمالكم التي تعملون خبير، لا يخفى عليه منها شيى، وهو مجازيكم على جميع ذلك يوم القيامة۔
’’فرمانِ الٰہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو تم کرتے ہو،اسے خوب جاننے والا ہے۔اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ تم انفاق فی سبیل اللہ اور دشمنوں سے لڑائی وغیرہ کی صورت میں جو اعمالِ صالحہ کرتے ہو،اُن سے خوب واقف ہے،ان میں سے کوئی نیک عمل اس سے مخفی نہیں،لہٰذا وہ ان تمام اعمال کی جزا روز ِقیامت تمہیں عطا فرمائے گا۔‘‘
(جامع البیان في تأویل القرآن : 177/23)
اب امامِ تفسیر علامہ طبری رحمہ اللہ کی تفسیر صحیح مانی جائے یا اس جاہل کی تفسیر پر اعتماد کیا جائے جو تعملون(تم عمل کرتے ہو) اور یعملون (وہ عمل کرتے ہیں)کافرق بھی نہیں جانتا؟
یاد رہے کہ صحابہ کرام کے درجات میں تفاوت سے کسی کو انکار نہیں۔فتح سے پہلے اور بعد والے صحابہ کرام کے درجات میں فرق ضرور ہے،لیکن یہ ایسے ہی ہے جیسے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں سیدنا علی،سیدنا حذیفہ بن یمان اور سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنھم سمیت دیگر صحابہ کے درجہ میں فرق ہے۔اس فرق سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ کچھ صحابہ کرام سے اللہ تعالیٰ راضی اور کچھ سے راضی نہیں تھا یا کچھ صحابہ کرام کافروں پر سخت اور کچھ سخت نہیں تھے۔
5 ۔۔۔ مرزا کو کیسے پتا چلا کہ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے صحابہ کرام نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا؟ سبحانك هذا بهتان عظيم
ایسی بات وہی کر سکتا ہے کہ بخاری و مسلم کی درجِ ذیل حدیث سے یا تو بالکل جاہل ہو یا اس کو صریحاً جھٹلاتا ہو۔
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية، فصبحنا الحرقات من جهينة، فادركت رجلا، فقال : لا اله الا الله، فطعنته، فوقع في نفسي من ذلك، فذكرته للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ’اقال : لا اله الا الله وقتلته؟‘، قال : قلت : يا رسول الله، انما قالها خوفا من السلاح، قال : افلا شققت عن قلبه حتى تعلم اقالها ام لا؟ فما زال يكررها علي، حتى تمنيت اني اسلمت يومئذ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک جنگ میں بھیجا۔ہم صبح کے وقت حرقات جهينه(جگہ کا نام) میں تھے،میں نے وہاں ایک آدمی کو دیکھا(اور اسے قتل کرنا چاہا)تو اس نے لا اله الا الله کہہ دیا،لیکن میں نے اسے تیر مارا (اور قتل کر دیا)،اس بارے میں میرا دل شبہ میں پڑ گیا،میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تو آپ نے فرمایا : کیا اس کے لا اله الا الله پڑھنے کے بعد بھی تم نے اسے قتل کر دیا؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! اس نے تو اسلحہ کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس کا دِل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ اس نے کلمہ ڈر سے پڑھا تھا یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (غصے سے)مجھے یہ بات بار بار فرماتے رہے، حتی کہ میں نے یہ خواہش کی کہ کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا(اور یہ جرم مجھ سے سرزَد نہ ہوا ہوتا)۔‘‘
(صحیح البخاري : 4269، 6872، صحیح مسلم : 158، واللفظ له)
ایک صحابی نے کسی کلمہ پڑھنے والے ایسے شخص کے بارے میں جو صحابی بھی نہ تھا،یہ کہہ دیا کہ اس نے تو موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا اور اس صحابی کو یہ علم بھی نہیں تھا کہ ایسا کہنا جائز نہیں۔پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سخت ناراض ہوئے،تو کسی چودھویں صدی کے کسی شخص کا ایسے لوگوں کے بارے میں یہ بات کہنا کیسے قرآن و سنت کی مخالفت اور واضح گستاخی نہیں ہو گا،جو اہل سنت کے ہاں بالاتفاق صحابی ٔ رسول ہوں اور جنہیں رضائے الٰہی اور جنت کی ضمانت بھی مل چکی ہو ؟
ہم مرزا سے کہتے ہیں:کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ روز ِقیامت اللہ تعالیٰ نے تمام اعمال کا حساب لینا ہے؟جب یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا تم نے سیدنا ابوسفیان اور سیدنا معاویہ وغیرہم رضی اللہ عنھم کادِل چیر کے دیکھا تھا کہ انہوں نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا یا اللہ کو راضی کرنے کے لیے تو کیا جواب دو گے؟
6 ۔۔۔ اگر ایمان لانے سے پہلے اسلام کی مخالفت یا کلمہ پڑھنے میں تاخیر اسلام لانے کے بعد کوئی جرم شمار ہوتی ہے تو یہی بات اگر کوئی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا موازنہ کرتے ہوئے کہہ دے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو شروع شروع میں مسلمان ہو گئے تھے،جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک عرصے تک ’’اسلام اور مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرے گھونپتے رہے،پھر خلافت کے حق دار عمر رضی اللہ عنہ پہلے کیسے بن گئے‘‘ توتمہارا جواب کیا ہوگا ؟
ویسے بھی اسلام قبول کرتے وقت ہی اللہ تعالیٰ پہلے والے سارے جرائم کو نہ صرف معاف فرما دیتا ہے،بلکہ ان جرائم کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَـيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا) الفرقان 25 : 70
’’ہاں جن لوگوں نے توبہ کی،ایمان لائے اور نیک عمل کیے،تو یہ ایسے لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا خوب مہربان ہے۔‘‘
لہٰذا اسلام سے پہلے کیے گئے جرائم اور اسلام میں تاخیر کو صحابہ کرام کی شان و فضیلت کے خلاف پیش کرنا رافضیوں کا کام ہے، مسلمانوں کا ہرگز نہیں۔
7 ۔۔۔ اگر یہ آیات چودہ سو اصحاب ِشجرہ کے لیے خاص ہیں تو کیا جو صحابہ مکہ مکرمہ میں کفار کے ہاتھوں شہادت پا گئے تھے یا جو مدینہ میں آ کر بدر واحد میں شہید ہو گئے تھے یا جو صلح حدیبیہ سے پہلے طبعی طور پر فوت ہو گئے،وہ بھی ان آیات کے عموم میں داخل نہیں ہوں گے؟ کیا ان کے حوالے سے بھی یہی کہا جائے گا کہ وہ چونکہ چودہ سو اصحاب ِشجرہ میں شاملنہیں تھے اور یہ آیات اصحاب ِشجرہ کے بارے ہی میں نازل ہوئی تھیں،لہٰذا نہ ان کے لیے رضائے الٰہی کی ضمانت ہے نہ وہ (اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّار) اور (رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ)تھے؟
اگر اس فضیلت میں پہلے والے ان صحابہ کرام کو شامل کر لیا جائے جو صلح حدیبیہ میں موجود نہیں تھے اور اس سے ادنیٰ خیانت بھی لازم نہ آئے ،لیکن اگر اس فضیلت میں بعد والے صحابہ کرام کو شامل کر لیا جائے تو یہ سب سے بڑی خیانت بن جائے؟ واہ کیا انصاف ہے!!!
قارئین کرام! اللہ شاہد ہے کہ یہ تحریر محض اصلاح کے لیے ہے،تعصب کی پٹی اپنی آنکھوں سے ہٹا کر اسے پڑھیے اور انصاف سے فیصلہ کیجیے کہ کیا اب بھی مرزا محمد علی جہلمی کے نظریات کو قرآن و سنت کے خلاف قرار نہ دیا جائے؟
کیا اب بھی اسے صحابہ کرام کا گستاخ نہ کہا جائے؟
کیا اب بھی اسے اہل سنت والجماعت کے عقیدے سے منحرف نہ مانا جائے؟
کیا اب بھی کچھ صحابہ کرام کو رضائے الٰہی سے محروم سمجھا جائے؟
اور کیا اب بھی کافروں کے لیے سخت اور مؤمنوں کے لیے نرم ہونے کا وصف سب صحابہ کرام کے لیے بیان نہ کیا جائے؟
تحریر : حافظ ابو یحیی نورپوری