یعنی شاکر بھائی کسی بھی سنجیدہ موضوع پر فورم پر بات اگر کی جائے تو اس طرح بغیر دلائل کے آپ موضوع کر ختم کر دیں گے تو کیا یہ مثبت اسلوب ہو گا
کیا باقاعدہ دلائل کی صورت میں اس مسئلہ کو واضح نہیں کیا جا سکتا
شاید اسی وجہ سے فورم پر کوئی بھی موضوع اپنے منطقی اور تجزیاتی اور حتمی اختتام نہیں لیتا بلکہ ادھورا ہی نظر آتا ہے کم از کم میرے ناقص اور ادھورے مطالعاتی دورہ کے مطابق شاید ہی کوئی موضوع کسی حتمیت تک پہنچا ہو
اگر یہ غلط ہے تو پھر اسے بھی واضح کریں تاکہ ہم یہاں ہی نہیں ہر فورم پر اس سے بچیں اور اس کا سب سے بہترین طریقہ تو یہی ہے کہ مردوں کے لیے الگ اور خواتین کے لیے الگ فورم ہو تاکہ یہ شبہات پیدا ہی نہ ہوں
اور اگر اس میں کوئی حرج نہیں تو صرف کسی ایک رکن کی رائے پر آپ کسی بھی مفید سلسلے کو بند نہ کریں
صرف یہ کہہ دینا کہ انتظامیہ کا موقف جاننے کے لیے کافی ہے ، یہ غیر مناسب اسلوب ہے
خدارا اب میری پوسٹ کو کسی منفی انداز میں مت لیجیے گا نہ تو میں غصہ میں ہوں اور نہ ہی ناراض
لیکن ایک ایسے اعتراض پر جو فی نفسہ خود واضح نہیں ہے اس پر اتنی جلدی کسی قدم کا اٹھانا اور وہ بھی بغیر دلیل کے
لیکن اس کے باوجود اگر انتظامیہ کا یہی موقف ہو گا تو اللہ آپ سب کو جزائے خیر دے آمین اور توفیق مزید سے نوازے آمین
محترم شیخ صاحب !
اس دھاگے میں کچھ اراکین کی طرف سے دو متضاد آراء سامنے آرہی ہیں :
1۔ اس دھاگے کو فورا بند کیا جائے کیونکہ اس سے کچھ اراکین کی حوصلہ شکنی وغیرہ ہوتی ہے ۔
2۔ اس دھاگے کو کھلا رکھنا چاہیے تاکہ مسئلہ پر مزید کھل کر گفتگو ہو جائے اور کوئی بہتر فیصلہ کیا جاسکے ۔
شاکر بھائی نے پہلی بات کو محسوس کیا اور اس مکالمے کو یہیں روکنے کی طرف اشارہ کیا ، لیکن ساتھ ساتھ ’’ مرد و زن کے فورم پر اختلاط ‘‘ والا معاملے کو علمی انداز سے حل کرنے کے لیے ایک نیا دھاگہ کھولنے کی تجویز بھی پیش کی ہے ۔ تاکہ معاملہ کی حیثیت ’’ ذاتی ‘‘ کی بجائے ’’ علمی ‘‘ ہو جائے ۔
میں نے استاد محترم انس نضر صاحب سے فون پر بات کی تھی اور اس وقت تک جو باتیں سامنے آئیں ان کے گوش گزار کردیں ، جس میں انہوں نے یہی مشورہ دیا تھا کہ ذاتی قسم کی معلومات جن کا کوئی علمی یا دعوتی فائدہ نہیں ، ان کا تبادلہ نہیں ہونا چاہیے ۔
لیکن لگ رہا ہے کہ اس معاملے پر مزید غور وفکر کرنا پڑے گا ، کیونکہ ’’ فتنے کا خدشہ ہونا ‘‘ الگ چیز ہے جبکہ ’’ فتنہ ہونا ‘‘ الگ چیز ہے ۔
اور کچھ معاملات ایسے ہیں جہاں صرف ’’ فتنے کے خدشے ‘‘ کی بنیاد پر فیصلہ کرنا بعض دفعہ بھلائی سے محروم کردیتا ہے ۔
مثلا ’’ انٹرنیٹ ‘‘ اور اس سے بھی پہلے ’’ کمپیوٹر ‘‘ بہت سارے فتنوں کا سبب بن سکتا ہے ، لیکن بہت سارے لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں ، البتہ جو چیزیں واقعتا فتنہ یا برائی ہیں ان سے پرہیز کرتے ہیں ۔
اب ہم کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے دلدادہ لوگ کبھی بھی اس منطق سے ان کا استعمال ترک نہیں کریں گے کہ یہ ’’ فتنوں کا باعث ‘‘ بن سکتا ہے ۔
اور پھر جس نہج پر ہم کچھ انٹرویوز کو فتنے کا باعث سمجھ رہے ہیں اس طرح تو ہم ’’ صنف مخالف ‘‘ کی فورمز پر رکنیت پر بھی اعتراض کرسکتے ہیں کہ فتنے کا خدشہ ہے ۔
لہذا میرے خیال میں ہمیں بنیاد ’’ خدشات ‘‘ کی بجائے ’’ حقائق ‘‘ یا ’’ واقعات ‘‘ پر رکھنی چاہیے ۔
سب مردو خواتین ، بہن بھائیوں کو اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے آزادی ہونی چاہیے ، ہاں جو غلط سرگرمی میں ملوث ہو اس کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے ۔