• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انگریز کی فوج میں حضرت خضر علیہ السلام

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میں نے جو جواب تحریر کی اہے، اس میں سے کون سے الفاظ آپ کی عقل پر بار گراں ڈال رہے ہیں، اسے مراک کردیں ، میں ان کے معنی انگریزی، المانی اورپنجابی میں لکھ دوں گا!
یعنی اللہ کی منشاء عام ہے اور نصرت اور ڈھیل اس کے دو افراد؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
یعنی اللہ کی منشاء عام ہے اور نصرت اور ڈھیل اس کے دو افراد؟
اول :عام اور خاص ایک ہی وصف پر ہوتا ہے، یہاں وصف مختلف ہیں!!
دوم: اللہ کی منشاء کو صرف ان دو پر مشمل قرار دینا بھی درست نہیں!!
بھائی جان! آپ کون سے زبان بہتر سمجھتے ہیں؟ کیونکہ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ ریختہ میں آپ کمزور ہو، اس لئے یہ معاملہ سمجھنا مشکل ہو رہا ہے!!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اول :عام اور خاص ایک ہی وصف پر ہوتا ہے، یہاں وصف مختلف ہیں!!
دوم: اللہ کی منشاء کو صرف ان دو پر مشمل قرار دینا بھی درست نہیں!!
بھائی جان! آپ کون سے زبان بہتر سمجھتے ہیں؟ کیونکہ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ ریختہ میں آپ کمزور ہو، اس لئے یہ معاملہ سمجھنا مشکل ہو رہا ہے!!
یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ کی منشاء الگ وصف ہے اور اللہ کی نصرت الگ وصف؟

نیز میں نے عرض کیا تھا:۔
"اب دیکھیں شاملی کے میدان میں معرکہ ہوا انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان۔
اب یہاں اللہ کی منشاء کے مطابق دو چیزیں ہونی چاہئیں: نصرت اور ڈھیل
نصرت تو ایک جانب ضرور ہوگی کیوں کہ "أیام" کا "مداولہ" اللہ کی ہی جانب سے ہے۔ اسی طرح روم کا فارس پر غلبہ جو ہوا تو باوجود روم کے کافر ہونے کے اللہ پاک نے "بنصر اللہ" کہا ہے۔ شوکانی رح فرماتے ہیں:وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ أَيْ: يَوْمَ أَنْ تَغْلِبَ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ فِي بِضْعِ سِنِينَ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ لِلرُّومِلِكَوْنِهِمْ: أَهْلَ كِتَابٍ كَمَا أَنَّ الْمُسْلِمِينَ أَهْلُ كِتَابٍ
تو اب یہاں شاملی کے میدان میں آپ کے مطابق اللہ کی نصرت کس جانب تھی اور ڈھیل کس جانب تھی؟ دونوں ایک ہی جانب تھیں یا الگ الگ؟"



بھائی جان! آپ کون سے زبان بہتر سمجھتے ہیں؟ کیونکہ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ ریختہ میں آپ کمزور ہو، اس لئے یہ معاملہ سمجھنا مشکل ہو رہا ہے!!
یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے بھائی جان۔ آپ سے پہلے بھی بہت سے لوگ جب جواب نہیں دے پاتے تو اس قسم کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ اور ایک ہی بات پر ضد بھی۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ کی منشاء الگ وصف ہے اور اللہ کی نصرت الگ وصف؟
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
نیز میں نے عرض کیا تھا:۔
"اب دیکھیں شاملی کے میدان میں معرکہ ہوا انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان۔
اب یہاں اللہ کی منشاء کے مطابق دو چیزیں ہونی چاہئیں: نصرت اور ڈھیل
نصرت تو ایک جانب ضرور ہوگی کیوں کہ "أیام" کا "مداولہ" اللہ کی ہی جانب سے ہے۔
یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ غزوہ احد میں بھی ایک جانب نصرت تو ہوگی، کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت تو اللہ نے نہیں کی کہ انہیں تو نقصان پہنچا، پھر آپ کے مطابق تو اللہ کی نصرت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ تھی!!
اشماریہ بھائی! اٹکل لڑانے سے پہلے کچھ سوچ تو لیا کریں کہ اس اٹکل کا اثر کہا تک جاتا ہے!!
نصرت تو ایک جانب ضرور ہوگی کیوں کہ "أیام" کا "مداولہ" اللہ کی ہی جانب سے ہے۔ اسی طرح روم کا فارس پر غلبہ جو ہوا تو باوجود روم کے کافر ہونے کے اللہ پاک نے "بنصر اللہ" کہا ہے۔ شوکانی رح فرماتے ہیں:وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ أَيْ: يَوْمَ أَنْ تَغْلِبَ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ فِي بِضْعِ سِنِينَ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ لِلرُّومِلِكَوْنِهِمْ: أَهْلَ كِتَابٍ كَمَا أَنَّ الْمُسْلِمِينَ أَهْلُ كِتَابٍ
اول:روم فارس کے مقابلہ میں اقرب من الحق تھے، اسی لئے مسلمان ان کے حق میں فتح کے خواہشمند تھے۔
دوم: روم اللہ تعالیٰ نے روم کے لئے نصرت کا لفظ مسلمانوں کے مقابلہ میں استعمال نہیں کیا، بلکہ فارس کے۔ اور فارس کے مقابلہ میں روم حق پر تھے۔
یہی بات میں نے لکھی بھی تھی، ایک بار پھر پیش کر دیتا ہوں:
بھائی کو منشاء اور نصرت کا فرق واضح نہیں ہو رہا!!
اللہ تعالیٰ حق کی نصرت کرتا ہے، اپنی منشاء کے مطابق !!
اللہ تعالیٰ باطل کو ڈھیل دیتا ہے اپنی منشاء کے مطابق!!
فتدبر!!
تو اب یہاں شاملی کے میدان میں آپ کے مطابق اللہ کی نصرت کس جانب تھی اور ڈھیل کس جانب تھی؟ دونوں ایک ہی جانب تھیں یا الگ الگ؟"
بھائی جان! آپ کو اب تک ''منشاء کے مطابق'' سمجھ نہیں آیا!!
اسے آپ غزوہ احدکی طرح سمجھ لیں، مسلمان کفار سے مقابلہ میں فتح حاصل نہ کرسکے۔ فتدبر!!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے ان کو دل اور جو نہ دے مجھ کو زباں اور

یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ غزوہ احد میں بھی ایک جانب نصرت تو ہوگی، کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت تو اللہ نے نہیں کی کہ انہیں تو نقصان پہنچا، پھر آپ کے مطابق تو اللہ کی نصرت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ تھی!!
اشماریہ بھائی! اٹکل لڑانے سے پہلے کچھ سوچ تو لیا کریں کہ اس اٹکل کا اثر کہا تک جاتا ہے!!
میرے ذہن میں شروع سے یہ پوائنٹ ہے۔ اور میں اس پوائنٹ کی وضاحت کروں گا۔ پہلے آپ میری بات کا جواب دے دیجیے:
تو اب یہاں شاملی کے میدان میں آپ کے مطابق اللہ کی نصرت کس جانب تھی اور ڈھیل کس جانب تھی؟ دونوں ایک ہی جانب تھیں یا الگ الگ؟
اور یقینا اس کا جواب صرف ایک جملہ میں ہو سکتا ہے جس کو واضح الفاظ میں دینے سے آپ نہ جانے کیوں کترا رہے ہیں۔ جب انسان کا ایک موقف ہو تو وہ واضح بھی ہونا چاہیے۔
ایک جملہ میں آپ فرما سکتے ہیں کہ نصرت مسلمانوں کی جانب تھی۔ یا یہ کہ نصرت انگریزوں کی جانب تھی۔
میرا نہیں خیال کہ آپ کو اس کے لیے کوئی مشکل کام کرنا ہوگا۔

(اصل میں بات کچھ یوں ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ آپ بعد میں فرمائیں کہ میں نے تو فلاں بات کی ہی نہیں۔ یا میں آپ کی کسی بات پر غلط سمجھ بیٹھوں۔ اس لیے مہربانی فرما کر اپنا جو موقف ہے میرے سوال کے سلسلے میں اسے واضح الفاظ میں تحریر فرمائیے۔)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اول:روم فارس کے مقابلہ میں اقرب من الحق تھے، اسی لئے مسلمان ان کے حق میں فتح کے خواہشمند تھے۔
دوم: روم اللہ تعالیٰ نے روم کے لئے نصرت کا لفظ مسلمانوں کے مقابلہ میں استعمال نہیں کیا، بلکہ فارس کے۔ اور فارس کے مقابلہ میں روم حق پر تھے۔
روم فارس کے مقابلے میں اقرب الی الحق تو تھے لیکن آپ بخوبی جانتے ہوں گے دائرہ اسلام سے باہر تھے۔ اور دائرہ اسلام سے باہر جو بھی ہو وہ جتنا بھی اقرب الی الحق ہو جائے رہتا وہ باطل ہی ہے۔ انہوں نے فتح حاصل کر کے کیا دین اسلام پھیلایا تھا؟ ان میں اور مجوس میں اتنا سا فرق تھا کہ مجوس کے دو خدا تھے اہرمن اور یزداں اور ان کے تین تھے خداوند، یسوع مسیح اور جبریل یا مریم۔ مجوس بھی مشرک تھے اور یہ بھی۔ مجوس آگ اور سورج کے سامنے جھکتے تھے تو یہ صلیب سے لو لگاتے تھے۔ مجوس بھی ظلم و ستم روا رکھتے تھے اور یہ بھی۔ مجوس بھی مسلمانوں کے مخالف تھے اور یہ بھی۔ وہ بھی اہل اسلام سے لڑے اور یہ بھی۔
بس صرف اتنا تھا کہ ان کے پاس ایک آسمانی کتاب تھی لیکن وہ بھی تحریف شدہ۔ اب اس سب کے بعد بھی اگر آپ ان کو اقرب الی الحق کسی معنی میں کہتے ہیں تب بھی یہ باطل ہی رہیں گے۔
تو معلوم یہ ہوا کہ اللہ پاک باطل کی بھی نصرت کرتا ہے۔ آپ نے کہا کہ یہ نصرت کا لفظ مسلمانوں کے مقابلہ میں نہیں تھا فارس کے مقابلے میں تھا۔ تو یہ تسلیم! لیکن یہ کہاں سے ثابت ہو رہا ہے کہ یہی قانون خداوندی ہے کہ نصرت اگر باطل کی ہوگی تو باطل کے مقابلے میں ہوگی؟؟ اللہ پاک نے مطلقا نصرت کا لفظ استعمال کیا ہے۔
پھر مزید آگے بڑھیے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے ینصر من یشاء۔ یہ "من" اپنے عموم کے ساتھ سب کو شامل ہے یا حق کے ساتھ خاص ہے؟ اگر تخصیص ہے تو بھلا کہاں سے؟
اللہ پاک فرماتے ہیں: وہ "جس کی چاہے" مدد کرتا ہے۔
میں اگر یہ جملہ کہوں: میں جس کو چاہے پیسے دے دیتا ہوں تو یہ کیا مسلمانوں کے ساتھ یا کراچی والوں کے ساتھ بغیر کسی دلیل کے خاص ہوگا؟
فأنی لك هذا؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرے ذہن میں شروع سے یہ پوائنٹ ہے۔ اور میں اس پوائنٹ کی وضاحت کروں گا۔ پہلے آپ میری بات کا جواب دے دیجیے:
آپ کے ذہن میں جو بات ہے اسے دم تحریر میں لے آئیں، ہم آپ کی بات کا جواب دیئے جاتے ہیں اور آپ ان جواب پر پھر سوال کرتے چلے جاتے ہو، اس طرح تو آپ کی بات آپ کے ذہن میں ہی قید رہے گی!!
تو اب یہاں شاملی کے میدان میں آپ کے مطابق اللہ کی نصرت کس جانب تھی اور ڈھیل کس جانب تھی؟ دونوں ایک ہی جانب تھیں یا الگ الگ؟
بھائی جان! اس کا جواب آپ کو کئی بار دیا گیا کہ اللہ کی نصرت اورہو یا ڈھیل اللہ کی منشاء کی مطابق ہے، اللہ حق کی نصرت بھی اپنی مشاء کے مطابق کرتا ہے اور کبھی اپنی منشاء کے مطابق اسے آزمائش میں بھی ڈالتا ہے۔ اور اللہ باطل کو ڈھیل بھی اپنی منشاء کے مطابق کرتا ہے اور کبھی اس کی پکڑ بھی اپنی منشاء کے مطابق کرتا ہے۔
شاملی کا معاملہ بھی میدان احد کی طرح کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مسلمانوں کے مقابلے میں ڈھیل دی اور مسلمانوں کی آزمائش کی!!
اور یقینا اس کا جواب صرف ایک جملہ میں ہو سکتا ہے جس کو واضح الفاظ میں دینے سے آپ نہ جانے کیوں کترا رہے ہیں۔ جب انسان کا ایک موقف ہو تو وہ واضح بھی ہونا چاہیے۔
جواب تو آپ کو ایک ہی جملہ میں دے دیا تھا پہلے بھی لیکن جب آپ اسے نہ سمجھ پائیں تو کسی کا کیا قصور!
ایک جملہ میں آپ فرما سکتے ہیں کہ نصرت مسلمانوں کی جانب تھی۔ یا یہ کہ نصرت انگریزوں کی جانب تھی۔
میرا نہیں خیال کہ آپ کو اس کے لیے کوئی مشکل کام کرنا ہوگا۔
بھائی جان! اس کا جواب آپ کو کئی بار دیا گیا کہ اللہ کی نصرت اورہو یا ڈھیل اللہ کی منشاء کی مطابق ہے، اللہ حق کی نصرت بھی اپنی مشاء کے مطابق کرتا ہے اور کبھی اپنی منشاء کے مطابق اسے آزمائش میں بھی ڈالتا ہے۔ اور اللہ باطل کو ڈھیل بھی اپنی منشاء کے مطابق کرتا ہے اور کبھی اس کی پکڑ بھی اپنی منشاء کے مطابق کرتا ہے۔
شاملی کا معاملہ بھی میدان احد کی طرح کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مسلمانوں کے مقابلے میں ڈھیل دی اور مسلمانوں کی آزمائش کی!!
(اصل میں بات کچھ یوں ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ آپ بعد میں فرمائیں کہ میں نے تو فلاں بات کی ہی نہیں۔ یا میں آپ کی کسی بات پر غلط سمجھ بیٹھوں۔ اس لیے مہربانی فرما کر اپنا جو موقف ہے میرے سوال کے سلسلے میں اسے واضح الفاظ میں تحریر فرمائیے۔)
بلکل جناب آپ کو اس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے، اچھی کوشش ہے، کیونکہ اکثر آپ کی تحریر میں ایسی غلطی پائی جاتی، جیسا کہ تقلید کی بحث ميں ابھی پچھلی تحریر میں گذری! آپ اس معاملہ میں تحسین کے مستحق ہیں کہ کم سے کم کوشش تو کر رہے ہیں کہ کسی کے سر وہ بات منسوب نہ کی جائے جو اس نے نہیں کہی!!
روم فارس کے مقابلے میں اقرب الی الحق تو تھے لیکن آپ بخوبی جانتے ہوں گے دائرہ اسلام سے باہر تھے۔ اور دائرہ اسلام سے باہر جو بھی ہو وہ جتنا بھی اقرب الی الحق ہو جائے رہتا وہ باطل ہی ہے۔ انہوں نے فتح حاصل کر کے کیا دین اسلام پھیلایا تھا؟ ان میں اور مجوس میں اتنا سا فرق تھا کہ مجوس کے دو خدا تھے اہرمن اور یزداں اور ان کے تین تھے خداوند، یسوع مسیح اور جبریل یا مریم۔ مجوس بھی مشرک تھے اور یہ بھی۔ مجوس آگ اور سورج کے سامنے جھکتے تھے تو یہ صلیب سے لو لگاتے تھے۔ مجوس بھی ظلم و ستم روا رکھتے تھے اور یہ بھی۔ مجوس بھی مسلمانوں کے مخالف تھے اور یہ بھی۔ وہ بھی اہل اسلام سے لڑے اور یہ بھی۔
بس صرف اتنا تھا کہ ان کے پاس ایک آسمانی کتاب تھی لیکن وہ بھی تحریف شدہ۔ اب اس سب کے بعد بھی اگر آپ ان کو اقرب الی الحق کسی معنی میں کہتے ہیں تب بھی یہ باطل ہی رہیں گے۔
بھائی جان! ایک یہودی کے مکان پر کوئی عیسائی قبضہ کر لے، تو دعوی ملکیت میں یہودی حق پر ہوگا یا عیسائی! یا رافضی کے گھر پر قادیانی قبضہ کرلے، یا ایک بریلوی کے گھر پر کوئی دیوبندی قبضہ کر لے تو کون حق پر ہوگا!
اب آپ ان امور میں ان حضرات کی نصرت کریں تو کیا یہ کہا جائے گا کہ آپ نے باطل کی نصرت کی!! بھائی جان کچھ تو عقل سے کام لیں!!
یہاں کون کہے کا یہودی کو حق پر کہنا صحیح نہیں ، یہ تو کافر ہے، اور باطل ہے!! بیشک اس کا دین باطل ہے ، مگر اس معاملہ میں وہ حق پر ہوگا، اور اس معاملہ میں آپ بھی اس کی نصرت کریں تو آپ بھی حق بجانب ہونگے، باطل کی مدد و نصرت کرنے والے نہیں۔ فتدبر!!
تو معلوم یہ ہوا کہ اللہ پاک باطل کی بھی نصرت کرتا ہے۔ آپ نے کہا کہ یہ نصرت کا لفظ مسلمانوں کے مقابلہ میں نہیں تھا فارس کے مقابلے میں تھا۔ تو یہ تسلیم! لیکن یہ کہاں سے ثابت ہو رہا ہے کہ یہی قانون خداوندی ہے کہ نصرت اگر باطل کی ہوگی تو باطل کے مقابلے میں ہوگی؟؟ اللہ پاک نے مطلقا نصرت کا لفظ استعمال کیا ہے۔
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ!
مجھے ڈر ہے کہ کہیں اگلی تحریر میں آپ یہ بھی رقم نہ کر دیں کہ گمراہی پھیلانے میں اللہ تعالیٰ شیطان کی نصرت کرتا ہے،
بھائی جان! آپ کو یہ اب تک سمجھ نہیں آئی کہ اللہ تعالیٰ باطل کی نصرت نہیں کرتا! بلکہ ڈھیل دیتا ہے اپنی مشاء کے مطابق۔
پھر مزید آگے بڑھیے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے ینصر من یشاء۔ یہ "من" اپنے عموم کے ساتھ سب کو شامل ہے یا حق کے ساتھ خاص ہے؟ اگر تخصیص ہے تو بھلا کہاں سے؟
اللہ پاک فرماتے ہیں: وہ "جس کی چاہے" مدد کرتا ہے۔
میں اگر یہ جملہ کہوں: میں جس کو چاہے پیسے دے دیتا ہوں تو یہ کیا مسلمانوں کے ساتھ یا کراچی والوں کے ساتھ بغیر کسی دلیل کے خاص ہوگا؟
فأنی لك هذا؟؟؟
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ ﴿سورة الأنبياء ١٨﴾
بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں پھر وہ باطل کا سر توڑ دیتا ہے پھر وہ مٹنے والا ہوتا ہے او رتم پر افسوس ہے ان باتوں سے جو تم بناتے ہو۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

آپ کے ذہن میں جو بات ہے اسے دم تحریر میں لے آئیں، ہم آپ کی بات کا جواب دیئے جاتے ہیں اور آپ ان جواب پر پھر سوال کرتے چلے جاتے ہو، اس طرح تو آپ کی بات آپ کے ذہن میں ہی قید رہے گی!!
اچھا جی۔ وہ کہتے ہیں نا حکم حاکم مرگ مفاجات۔ تو میں بھی ابھی ہی عرض کیے دیتا ہوں۔

احد کے معرکے میں بھلا شکست ہوئی کہاں تھی؟
جنگ احد میں تین جنگیں تھیں۔ پہلی جنگ جسمانی تھی۔ اس کی تفصیل آگے۔
دوسری جنگ قولی تھی۔ جس میں ابو سفیان نے جو نعرے بلند کیے مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کے حکم سے ان کے جواب دیے۔ حتی کہ جب ذکر آیا مثلہ کا تو ابو سفیان ہار گیا اور کہا کہ میں نے اس کا حکم بھی نہیں دیا اور اس سے روکا بھی نہیں۔ مسلمان جیت گئے کیوں کہ انہوں نے یہ برائی نہیں کی تھی اور انہوں نے اسی کا ذکر کیا۔
تیسری جنگ اعصابی تھی جس میں مسلمان حسبنا اللہ و نعم الوکیل کا نعرہ لگاتے حمراء الاسد تک آگئے اور مشرکین بھاگ نکلے اور نہ آسکے۔
اب رہ گئی پہلی جسمانی جنگ تو اس میں تین مراح تھے۔
پہلا مرحلہ مبارزت کا تو وہ مسلمانوں نے جیتا۔
دوسرا مرحلہ عام لڑائی کا تو اس میں بھی مسلمان جیتے۔
تیسرا مرحلہ دشمن کے مڑ کر لوٹ آنے کا تو اس میں مسلمان صرف تتر بتر ہوئے اور وہ بھی عارضی طور پر۔ پھر دوبارہ جمع ہو گئے۔ مشرکین اس میں نہ تو کوئی قیدی بنا سکے اور نہ مسلمان وہاں سے بھاگے۔ بلکہ ایک بار پھر جم کر ایسے کھڑے ہوئے کہ حمراء الاسد تک آ پہنچے۔
تو اب ذرا بتائیے کہ اس غزوے میں شکست کہاں ہے؟ کیا صرف ذرا سا تتر بتر ہو جانا شکست کہلاتا ہے؟ شہادتیں اور اموات تو جنگ کا لازمی حصہ ہوتی ہیں۔ انہیں تو شکست میں شمار کیا ہی نہیں جا سکتا۔

لیکن اگر اس کو بھی شکست کہا جائے تو میں عرض کرتا ہوں کہ اللہ پاک نے خود اس کی نسبت اپنی جانب کی ہے تلک الایام نداولہا میں۔ یعنی یہ اللہ کی طرف سے تھا۔
نصرت کیا ہے؟ نصرت ظاہر ہے نہ فرشتے بھیجنے کا نام ہے اور نہ دشمن کو شکست دلانے کا۔ اللہ پاک کا حکم کن ہی تمام کام کر دیتا ہے۔ یہ تو قرآن میں ہے کہ جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا حکم کن ہوتا ہے تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
نصرت کا مطلب ہے "مدد"۔ جس فریق کے حق میں "کن" ہوگا اس کی مدد ہو جائے گی اور وہ جیت جائے گا۔ اگر آپ نصرت کو اس "کن" سے ہٹ کر کچھ اور سمجھتے ہیں تو پھر ثابت کیجیے۔
ہاں ہم جب اس "کن" کی نسبت فریق باطل کی طرف کرتے ہیں تو اسے اپنے الفاظ میں ڈھیل کا نام دیتے ہیں اور وہ اس لیے کہ اللہ پاک باطل کی نصرت ہمیشہ نہیں کرتا۔ ایک وقت وہ آتا ہے جب قذف بالحق علی الباطل ہوتا ہے اور حق کی نصرت ہو جاتی ہے۔
تو یہاں اس معرکے میں اللہ نے مسلمانوں کی نصرت کی یہاں تک کہ جب جبل الرماۃ پر کچھ افراد نے اپنے کمانڈر سے منازعہ کیا تو اللہ کا حکم کن ہوا مشرکین کی جانب اور وہ وہاں کامیاب ہو کر آگے بڑھ آئے اور مسلمان تتر بتر ہو گئے۔ پھر حکم کن ہوا مسلمانوں کی جانب اور وہ پھر سنبھل گئے۔
اسی کی نسبت باری تعالی نے اپنی جانب فرمائی: و تلک الایام نداولہا۔ اس آیت کا شان نزول غزوہ احد ہی ہے۔
اب آئیے شاملی کے میدان کی جانب۔ یہاں اللہ پاک کا حکم انگریزوں کی جانب تھا تو وہ غالب آگئے اور اسی طرح سارے ہندوستان میں۔ حکم "کن" ہوا تو ان کی مدد ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نصرت ہو گئی۔۔۔۔۔ اور وہ چھا گئے۔ اب آپ اس نصرت کو نام دیں ڈھیل کا یا کسی بھی چیز کا۔ تھی تو وہ ایک ہی چیز نا۔ مشیت ربانی۔ چاہے نام دس ہزار دے دیں۔


بھائی جان! اس کا جواب آپ کو کئی بار دیا گیا کہ اللہ کی نصرت اورہو یا ڈھیل اللہ کی منشاء کی مطابق ہے، اللہ حق کی نصرت بھی اپنی مشاء کے مطابق کرتا ہے اور کبھی امنی منشاء کے مطابق اسے آزمائش میں بھی ڈالتا ہے۔ اور اللہ باطل کو ڈھیل بھی اپنی منشاء کے مطابق کرتا ہے اور کبھی اس کی پکڑ بھی اپنی منشاء کے مطابق کرتا ہے۔
شاملی کا معاملہ بھی میدان احد کی طرح کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مسلمانوں کے مقابلے میں ڈھیل دی اور مسلمانوں کی آزمائش کی!!
جواب تو آپ کو ایک ہی جملہ میں دے دیا تھا پہلے بھی لیکن جب آپ اسے نہ سمجھ پائیں تو کسی کا کیا قصور!
بھائی جان! اس کا جواب آپ کو کئی بار دیا گیا کہ اللہ کی نصرت اورہو یا ڈھیل اللہ کی منشاء کی مطابق ہے، اللہ حق کی نصرت بھی اپنی مشاء کے مطابق کرتا ہے اور کبھی اپنی منشاء کے مطابق اسے آزمائش میں بھی ڈالتا ہے۔ اور اللہ باطل کو ڈھیل بھی اپنی منشاء کے مطابق کرتا ہے اور کبھی اس کی پکڑ بھی اپنی منشاء کے مطابق کرتا ہے۔
شاملی کا معاملہ بھی میدان احد کی طرح کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مسلمانوں کے مقابلے میں ڈھیل دی اور مسلمانوں کی آزمائش کی!!
میرا خیال ہے کہ ان کا جواب تو ہو گیا۔ معرکہ احد کی وضاحت بھی ہو گئی۔

بھائی جان! ایک یہودی کے مکان پر کوئی عیسائی قبضہ کر لے، تو دعوی ملکیت میں یہودی حق پر ہوگا یا عیسائی! یا رافضی کے گھر پر قادیانی قبضہ کرلے، یا ایک بریلوی کے گھر پر کوئی دیوبندی قبضہ کر لے تو کون حق پر ہوگا!
اب آپ ان امور میں ان حضرات کی نصرت کریں تو کیا یہ کہا جائے گا کہ آپ نے باطل کی نصرت کی!! بھائی جان کچھ تو عقل سے کام لیں!!
یہاں کون کہے کا یہودی کو حق پر کہنا صحیح نہیں ، یہ تو کافر ہے، اور باطل ہے!! بیشک اس کا دین باطل ہے ، مگر اس معاملہ میں وہ حق پر ہوگا، اور اس معاملہ میں آپ بھی اس کی نصرت کریں تو آپ بھی حق بجانت ہونگے، باطل کی مدد و نصرت کرنے والے نہیں۔ فتدبر!!
اچھا اچھا۔ تو آپ اس والے حق اور باطل کی بات کر رہے ہیں۔
تو عرض یہ ہے کہ اس طرح تو پہلے ہندوستان میں ہندو اور سکھ موجود تھے۔ پھر مسلمان آئے اور انہوں نے قبضہ کر لیا۔ انگریزوں کا اور ہندؤوں کا آپس میں گٹھ جوڑ تھا۔ تو آپ کے قبضہ والے اصول پر یہاں حق پر کون ہوا؟؟؟ صرف اسی اصول پر جواب دیجیے گا۔ اضافہ نہیں کیجیے گا۔

لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ!
مجھے ڈر ہے کہ کہیں اگلی تحریر میں آپ یہ بھی رقم نہ کر دیں کہ گمراہی پھیلانے میں اللہ تعالیٰ شیطان کی نصرت کرتا ہے،
بھائی جان! آپ کو یہ اب تک سمجھ نہیں آئی کہ اللہ تعالیٰ باطل کی نصرت نہیں کرتا! بلکہ ڈھیل دیتا ہے اپنی مشاء کے مطابق۔
کما مر

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ ﴿سورة الأنبياء ١٨﴾
بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں پھر وہ باطل کا سر توڑ دیتا ہے پھر وہ مٹنے والا ہوتا ہے او رتم پر افسوس ہے ان باتوں سے جو تم بناتے ہو۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
تو اس کے ذریعے آپ "من" کی تخصیص کر رہے ہیں آپ اہل حق کے ساتھ۔
لیکن اس میں ابدیت کی قید کہاں ہے؟ اس میں تو مجھے بھی اشکال نہیں کہ باطل کی کبھی بھی ہمیشہ نصرت نہیں ہوتی۔ عارضی ہوتی ہے۔ یہ دمغ باطل والا مرحلہ آخر ضرور آتا ہے۔
اس آیت میں یہ کہاں ہے کہ اللہ ہمیشہ قذف بالحق علی الباطل ہی کرتا ہے۔ کسی بھی مصلحت سے باطل کی عارضی نصرت بھی نہیں کرتا؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اچھا جی۔ وہ کہتے ہیں نا حکم حاکم مرگ مفاجات۔ تو میں بھی ابھی ہی عرض کیے دیتا ہوں۔

احد کے معرکے میں بھلا شکست ہوئی کہاں تھی؟
جنگ احد میں تین جنگیں تھیں۔ پہلی جنگ جسمانی تھی۔ اس کی تفصیل آگے۔
دوسری جنگ قولی تھی۔ جس میں ابو سفیان نے جو نعرے بلند کیے مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کے حکم سے ان کے جواب دیے۔ حتی کہ جب ذکر آیا مثلہ کا تو ابو سفیان ہار گیا اور کہا کہ میں نے اس کا حکم بھی نہیں دیا اور اس سے روکا بھی نہیں۔ مسلمان جیت گئے کیوں کہ انہوں نے یہ برائی نہیں کی تھی اور انہوں نے اسی کا ذکر کیا۔
تیسری جنگ اعصابی تھی جس میں مسلمان حسبنا اللہ و نعم الوکیل کا نعرہ لگاتے حمراء الاسد تک آگئے اور مشرکین بھاگ نکلے اور نہ آسکے۔
اب رہ گئی پہلی جسمانی جنگ تو اس میں تین مراح تھے۔
پہلا مرحلہ مبارزت کا تو وہ مسلمانوں نے جیتا۔
دوسرا مرحلہ عام لڑائی کا تو اس میں بھی مسلمان جیتے۔
تیسرا مرحلہ دشمن کے مڑ کر لوٹ آنے کا تو اس میں مسلمان صرف تتر بتر ہوئے اور وہ بھی عارضی طور پر۔ پھر دوبارہ جمع ہو گئے۔ مشرکین اس میں نہ تو کوئی قیدی بنا سکے اور نہ مسلمان وہاں سے بھاگے۔ بلکہ ایک بار پھر جم کر ایسے کھڑے ہوئے کہ حمراء الاسد تک آ پہنچے۔
تو اب ذرا بتائیے کہ اس غزوے میں شکست کہاں ہے؟ کیا صرف ذرا سا تتر بتر ہو جانا شکست کہلاتا ہے؟ شہادتیں اور اموات تو جنگ کا لازمی حصہ ہوتی ہیں۔ انہیں تو شکست میں شمار کیا ہی نہیں جا سکتا۔

لیکن اگر اس کو بھی شکست کہا جائے تو میں عرض کرتا ہوں کہ اللہ پاک نے خود اس کی نسبت اپنی جانب کی ہے تلک الایام نداولہا میں۔ یعنی یہ اللہ کی طرف سے تھا۔
اچھا تو یہ بات آپ اپنے ذہن میں رکھے بیٹھے تھے، مگر آپ کو ہماری تحریر میں جنگ احد کے متعلق مسلمانوں کی شکست کے نہ الفاظ نظر آئے ہوں گے نہ مفہوم!! ہم نے تو فقط یہ کہا تھا کہ مسلمانوں کا نقصان ہوا!!
نصرت کیا ہے؟ نصرت ظاہر ہے نہ فرشتے بھیجنے کا نام ہے اور نہ دشمن کو شکست دلانے کا۔ اللہ پاک کا حکم کن ہی تمام کام کر دیتا ہے۔ یہ تو قرآن میں ہے کہ جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا حکم کن ہوتا ہے تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
نصرت کا مطلب ہے "مدد"۔ جس فریق کے حق میں "کن" ہوگا اس کی مدد ہو جائے گی اور وہ جیت جائے گا۔ اگر آپ نصرت کو اس "کن" سے ہٹ کر کچھ اور سمجھتے ہیں تو پھر ثابت کیجیے۔
بہت اعلی جناب! اپنی اٹکل لگا کر نصرت کا معنی اخذ کرنا اور دوسرے سے کہنا کہ آپ بھی مانتے ہو تو ٹھیک نہیں تو آپ اپنا مطلب ثابت کیجئے! بہت خوب جناب!
بھائی جان!، اللہ تعالیٰ اپنی ہر منشاء ''کن'' کر دیتا ہے۔ اس ''کن ''سے تو نہ نصرت خارج ہے، یہ تخلیق کائنات نہ قیامت نہ کسی پر عذاب۔ اب اس ''كن'' میں تو عذاب بھی شامل ہے؟ کیا آپ عذاب کو بھی نصرت کہو گے!! اور باطل کو غارت کرنا بھی ''كن میں داخل تو بھر اسے بھی باطل کی نصرت کہا جائے!!
بھائی جان کچھ عقل و خرد کی باتیں کرو، یہ اٹکل پچو نہ لڑاو!!
ہاں ہم جب اس "کن" کی نسبت فریق باطل کی طرف کرتے ہیں تو اسے اپنے الفاظ میں ڈھیل کا نام دیتے ہیں اور وہ اس لیے کہ اللہ پاک باطل کی نصرت ہمیشہ نہیں کرتا۔ ایک وقت وہ آتا ہے جب قذف بالحق علی الباطل ہوتا ہے اور حق کی نصرت ہو جاتی ہے۔
یہ بھی عجیب کہی!
یعنی کہ حق کی نصرت اور باطل کو ڈھیل میں کوئی فرق نہیں!! واہ جناب کیا کلام ہے!! بھائی جان جب اللہ باطل کی پکڑ کرتا ہے تو حق کی ضرور نصرت ہوتی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ باطل کی نصرت ہوتی ہے یا نہیں۔ آپ مدعی ہین کہ باطل کی نصرت ہوتی ہے!!
تو یہاں اس معرکے میں اللہ نے مسلمانوں کی نصرت کی یہاں تک کہ جب جبل الرماۃ پر کچھ افراد نے اپنے کمانڈر سے منازعہ کیا تو اللہ کا حکم کن ہوا مشرکین کی جانب اور وہ وہاں کامیاب ہو کر آگے بڑھ آئے اور مسلمان تتر بتر ہو گئے۔ پھر حکم کن ہوا مسلمانوں کی جانب اور وہ پھر سنبھل گئے۔
اسی کی نسبت باری تعالی نے اپنی جانب فرمائی: و تلک الایام نداولہا۔ اس آیت کا شان نزول غزوہ احد ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی اپنی منشاء کے مطابق نصرت حق کا ہم نے کب انکار کیا؟ ہم یہی تو سمجھا رہے ہیں کہ اللہ اپنی منشاء کے مطابق حق کی نصرت کرتا ہے۔
اب آئیے شاملی کے میدان کی جانب۔ یہاں اللہ پاک کا حکم انگریزوں کی جانب تھا تو وہ غالب آگئے اور اسی طرح سارے ہندوستان میں۔ حکم "کن" ہوا تو ان کی مدد ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نصرت ہو گئی۔۔۔۔۔ اور وہ چھا گئے۔
ماشاء اللہ! یہ ''کن'' سے آپ نے باطل کی نصرت کیسے اخذ کی!! کہ اللہ تعالیٰ باطل کا ناصر ہے؟
اب آپ اس نصرت کو نام دیں ڈھیل کا یا کسی بھی چیز کا۔ تھی تو وہ ایک ہی چیز نا۔ مشیت ربانی۔ چاہے نام دس ہزار دے دیں۔
بھائی جان! ڈھیل تو صحیح ، اور مشیت ربانی بھی صحیح لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ اسے آپ نصرت کیسے قرار دے رہے ہی؟ کیا اللہ کی مشيت کو نصرت کہتے ہیں؟ کہ آپ نے مشیت ربانی کو نصرت کا نام دے دیا؟ ہاں مشیت ربانی میں نصرت بھی شامل ہے، لیکن اللہ حق کی نصرت کرتا ہے، اللہ باطل کا ناصر و مددگار نہیں!!
اچھا اچھا۔ تو آپ اس والے حق اور باطل کی بات کر رہے ہیں۔
آپ کا جواب کیا ہوا، نرا اٹکل پچو ہوا!!
اچھا اچھا۔ تو آپ اس والے حق اور باطل کی بات کر رہے ہیں۔
تو عرض یہ ہے کہ اس طرح تو پہلے ہندوستان میں ہندو اور سکھ موجود تھے۔ پھر مسلمان آئے اور انہوں نے قبضہ کر لیا۔ انگریزوں کا اور ہندؤوں کا آپس میں گٹھ جوڑ تھا۔ تو آپ کے قبضہ والے اصول پر یہاں حق پر کون ہوا؟؟؟ صرف اسی اصول پر جواب دیجیے گا۔ اضافہ نہیں کیجیے گا۔
جناب! اضافہ نہ کرنے کی قید کیسے لگا رہے ہو؟ یہ تو جو بات ہوگی اسی کے مطابق ہی اصول کا اطلاق کیا جائے گا!
آپ کو غالباً مملکت اور ملکیت کا فرق نہیں معلوم، اسی لئے یہ بے سروپا بات کر دی ہے؟
ویسے ایک بات کہوں اگر ناراض نہ ہوں تو!
آپ نے کراچی والوں کی ناک کٹوادی! ہم تو بڑے فخر سے کہتے تھے کہ کراچی اہل زبان کا شہر ہے۔ آپ ریختہ میں بہت کی کمزور واقع ہوئے ہیں!!
خیر کچھ اشعارعرض کرتا ہوں، امید ہے کہ سمجھ آجائے!!
طارق چو بر کناررهٔ اندلس سفینہ سوخت
گفتند کار تو بہ نگاه خرد خطاست
دوریم از سواد وطن باز چون رسیم
ترک سبب ز روی شریعت کجا رواست
خندید و دست خویش بشمشیر برد و گفت
هر ملک ملک ماست کہ ملک خدای ماست


تو اس کے ذریعے آپ "من" کی تخصیص کر رہے ہیں آپ اہل حق کے ساتھ۔
لیکن اس میں ابدیت کی قید کہاں ہے؟ اس میں تو مجھے بھی اشکال نہیں کہ باطل کی کبھی بھی ہمیشہ نصرت نہیں ہوتی۔ عارضی ہوتی ہے۔ یہ دمغ باطل والا مرحلہ آخر ضرور آتا ہے۔
اس آیت میں یہ کہاں ہے کہ اللہ ہمیشہ قذف بالحق علی الباطل ہی کرتا ہے۔ کسی بھی مصلحت سے باطل کی عارضی نصرت بھی نہیں کرتا؟
نصرت تو اللہ حق کی بھی ہمیشہ نہیں کرتا، کبھی اسے بھی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے!! اور نہ ہمشیہ باطل کی پکڑ کرتا ہے، کبھی اسے ڈھیل بھی دیتا ہے۔ جیسی اللہ کی منشاء ہو! اب انبیاء علیہ السلام کو قتل بھی کیا گیا! اللہ نے باطل کو ڈھیل دی! اور حق سے آزمائش!!
یہ عارضی مستقل کی کیا بات رہی؟؟
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اچھا تو یہ بات آپ اپنے ذہن میں رکھے بیٹھے تھے، مگر آپ کو ہماری تحریر میں جنگ احد کے متعلق مسلمانوں کی شکست کے نہ الفاظ نظر آئے ہوں گے نہ مفہوم!! ہم نے تو فقط یہ کہا تھا کہ مسلمانوں کا نقصان ہوا!!
جزاک اللہ آپ نے وضاحت فرما دی۔
اور شاملی کے میدان میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ یہ بات قبول ہے؟

بہت اعلی جناب! اپنی اٹکل لگا کر نصرت کا معنی اخذ کرنا اور دوسرے سے کہنا کہ آپ بھی مانتے ہو تو ٹھیک نہیں تو آپ اپنا مطلب ثابت کیجئے! بہت خوب جناب!
بھائی جان!، اللہ تعالیٰ اپنی ہر منشاء ''کن'' کر دیتا ہے۔ اس ''کن ''سے تو نہ نصرت خارج ہے، یہ تخلیق کائنات نہ قیامت نہ کسی پر عذاب۔ اب اس ''كن'' میں تو عذاب بھی شامل ہے؟ کیا آپ عذاب کو بھی نصرت کہو گے!! اور باطل کو غارت کرنا بھی ''كن میں داخل تو بھر اسے بھی باطل کی نصرت کہا جائے!!
بھائی جان کچھ عقل و خرد کی باتیں کرو، یہ اٹکل پچو نہ لڑاو!!
میں نے کہا نصرت کا مطلب ہے "مدد"۔ کیا یہ مطلب میں نے اٹکل سے نکالا ہے؟ لغت سے دکھاؤں؟؟

البتہ آپ اہل زبان ہیں۔ آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ مدد کا اطلاق کہاں کہاں ہوتا ہے۔ جب دو فریق (چاہے ذوی العقول چاہے غیر ذوی العقول) باہم مقابل ہوں تو ایک کا کام بنا دینا "مدد" کہلاتا ہے۔ ہے یا نہیں؟؟
تخلیق کائنات، قیامت، عذاب وغیرہ پر مدد کا اطلاق نہیں ہوتا تو نصرت کا بھی نہیں ہوتا۔

میں نے تو میرے محترم یہ بتایا ہے کہ یہ نصرت کیسے ہوتی ہے۔ جب دونوں فریقوں کی جانب ایک ہی بات ایک ہی طریقے سے ہوتی ہے اور اس کے لیے الفاظ بھی ایک ہی استعمال ہو سکتے ہیں تو استعمال کیوں نہیں ہوتے؟؟؟ یقینا استعمال ہوں گے البتہ ڈھیل اور اس قسم کے الفاظ کا استعمال مقتضی حال تفاؤل کے مطابق کیا جاتا ہے۔

یہ بھی عجیب کہی!
یعنی کہ حق کی نصرت اور باطل کو ڈھیل میں کوئی فرق نہیں!! واہ جناب کیا کلام ہے!! بھائی جان جب اللہ باطل کی پکڑ کرتا ہے تو حق کی ضرور نصرت ہوتی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ باطل کی نصرت ہوتی ہے یا نہیں۔ آپ مدعی ہین کہ باطل کی نصرت ہوتی ہے!!
اور دلیل میں نے دی ہے "ینصر من یشاء" سے۔ رد آپ اس کا کر نہیں پائے۔ تخصیص کے لیے جو دلیل دی اس سے تخصیص ثابت نہیں ہو پائی۔ پھر بھی کہتے ہیں "واہ جناب کیا کلام ہے"۔ او میرے پیارے بھائی! دلیل لاؤ دلیل۔ یا پھر میری دلیل کا رد۔ بات کو گھماؤ پھراؤ نہیں۔

ماشاء اللہ! یہ ''کن'' سے آپ نے باطل کی نصرت کیسے اخذ کی!! کہ اللہ تعالیٰ باطل کا ناصر ہے؟
عومیت من سے اخذ کی ہے۔ یہاں تو یہ بتایا ہے کہ "کن" سے ہوتی ہے۔
میری ریختہ کمزور ہو یا نہیں میں اس دور کے اہل حدیث کی فہم سے ضرور نالاں ہوں۔

بھائی جان! ڈھیل تو صحیح ، اور مشیت ربانی بھی صحیح لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ اسے آپ نصرت کیسے قرار دے رہے ہی؟ کیا اللہ کی مشيت کو نصرت کہتے ہیں؟ کہ آپ نے مشیت ربانی کو نصرت کا نام دے دیا؟ ہاں مشیت ربانی میں نصرت بھی شامل ہے، لیکن اللہ حق کی نصرت کرتا ہے، اللہ باطل کا ناصر و مددگار نہیں!!
ہائیلائٹڈ پر دلیل کیا ہے آپ کے پاس؟؟؟

جناب! اضافہ نہ کرنے کی قید کیسے لگا رہے ہو؟ یہ تو جو بات ہوگی اسی کے مطابق ہی اصول کا اطلاق کیا جائے گا!
آپ کو غالباً مملکت اور ملکیت کا فرق نہیں معلوم، اسی لئے یہ بے سروپا بات کر دی ہے؟
ویسے ایک بات کہوں اگر ناراض نہ ہوں تو!
آپ نے کراچی والوں کی ناک کٹوادی! ہم تو بڑے فخر سے کہتے تھے کہ کراچی اہل زبان کا شہر ہے۔ آپ ریختہ میں بہت کی کمزور واقع ہوئے ہیں!!
خیر کچھ اشعارعرض کرتا ہوں، امید ہے کہ سمجھ آجائے!!
طارق چو بر کناررهٔ اندلس سفینہ سوخت
گفتند کار تو بہ نگاه خرد خطاست
دوریم از سواد وطن باز چون رسیم
ترک سبب ز روی شریعت کجا رواست
خندید و دست خویش بشمشیر برد و گفت
هر ملک ملک ماست کہ ملک خدای ماست
میں نے تو اٹکل پچو جواب دیا تھا یا نہیں لیکن یہ آپ نے کیا جواب دیا ہے؟؟؟
ایک شعر؟ ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست؟؟؟ بس صرف یہ؟
میں نے پوچھا تھا:
اچھا اچھا۔ تو آپ اس والے حق اور باطل کی بات کر رہے ہیں۔
تو عرض یہ ہے کہ اس طرح تو پہلے ہندوستان میں ہندو اور سکھ موجود تھے۔ پھر مسلمان آئے اور انہوں نے قبضہ کر لیا۔ انگریزوں کا اور ہندؤوں کا آپس میں گٹھ جوڑ تھا۔ تو آپ کے قبضہ والے اصول پر یہاں حق پر کون ہوا؟؟؟ صرف اسی اصول پر جواب دیجیے گا۔ اضافہ نہیں کیجیے گا۔
اگر آپ اس میں ملک خدا ہونے کو ثابت کریں گے یا ملکیت و مملکیت کا فرق بیان کرنا شروع کریں گے تو ہم بھی عرض کناں ہوں گے کہ جناب عالی جب ملک ملک خدا تھا تو فارس و روم دونوں ہی باطل ٹھہرے، جگہ تو اہل اسلام کی تھی۔ اور اگر ملکیت و مملکت میں فرق ہوتا ہے تو فارس نے جب روم پر قبضہ کیا تھا تو ان کی یہ مملکت نہیں بنی تھی؟ آخر کیوں؟؟ اس پر دلیل؟؟؟

نصرت تو اللہ حق کی بھی ہمیشہ نہیں کرتا، کبھی اسے بھی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے!! اور نہ ہمشیہ باطل کی پکڑ کرتا ہے، کبھی اسے ڈھیل بھی دیتا ہے۔ جیسی اللہ کی منشاء ہو! اب انبیاء علیہ السلام کو قتل بھی کیا گیا! اللہ نے باطل کو ڈھیل دی! اور حق سے آزمائش!!
یہ عارضی مستقل کی کیا بات رہی؟؟
نا۔۔نا۔۔نا۔ جناب نے تخصیص کے لیے دلیل دی تھی غالبا اور اس کا جواب بندہ نے عرض کیا ہے کہ بندہ نے یہ کہا ہے کہ اللہ حق کی بھی نصرت کرتا ہے اور باطل کی بھی جیسا کہ من کے عموم سے ثابت ہے اور جیسا کہ روم کی مدد سے ثابت ہے اور جیسا کہ احد میں مداولہ ایام کی اللہ کی جانب نسبت سے ثابت ہے۔ اگر آپ من کے عموم سے نکالنا چاہیں گے باطل کو تو اس آیت میں آپ کو ابدیت کی قید لگانی ہوگی۔ ورنہ یہ آیت تو صرف یہ بتا رہی ہے کہ اللہ حق کی مدد کرتا ہے۔ باطل کی نصرت و عدم نصرت کا ذکر ہی نہیں ہے۔

ویسے ذرا یہ بتائیں کہ ہائیلائٹڈ جملہ سے آپ کا کیا یہ مفہوم ہے کہ جب اللہ حق کی آزمائش کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت اس کی نصرت نہیں کرتا؟؟؟
 
Top