• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اور مباھلہ ھوگیا

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
الیاسی بھائی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث آ گئی تو ہر مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ نقد النقد میں سود نہیں ہے۔ اور میں بھی حدیث کو مانتے ہوئے یہی کہتا ہوں۔
لیکن یہاں بات یہ سمجھنے کی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم جنس کو ہم جنس کے بدلے زیادہ لینا سود قرار دیا ہے۔
یعنی اگر کوئی شخص ایک کلو آٹا دے کر دو کلو آٹا لیتا ہے تو وہ اضافی آٹا سود کے زمرے میں آجا تا ہے۔ چائے وہ اس ہی ٹائم لے یا کچھ عرصے بعد لے۔
یہاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تخصیص فرما رہے ہیں کہ نقد میں سود نہیں ہے لیکن جب ہم جنس کے بدلے ہم جنس کو اضافی لیا جائے گا تو وہ سود ہو جائے گا۔
نبی علیہ السلام اگر کسی چیز کی تخصیص کر دیں تو اس کو ہر مسلمان کو مان لینا چاہیے۔
ٹایپسٹ بھای چنددن پھلے میرا ایمان تھا کہ نقدالنقد میں سود ھوتاہے یعنی اگر میں ایک ھاتھ سےدوکلو آٹا دو اور دوسرے ھاتھ سے ایک کلو آٹا لے لو ں تو یہ سود ھوگا
اس لیے چند دن قبل اگر میں یہ کھتا کہ نقد النقد میں سود نھی ھے تو میں جھوٹا ہوتا
اگر میں جھوٹا نھی ھو تو آپ ثابت کرو کہ میں کیوں جھوٹا نھی ھوں اس مسئلے میں
ٹايپسٹ بہای جب رسول اللہ نے ایک دفعہ کہا کہ نقدالنقد میں سود نہی تو پہر دوسرے حدیث میں اس کے خلاف کیسے کھیگا کہ نقدالنقد میں سود ہے نعوذ باللہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بولیگا؟
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
بات سمجھ سے باہر ہے جب الیا سیوں سے کہا جارہا تھا کہ مناظرہ کرلو تو یہ لوگ شور مچا رہے تھے مباہلہ کے لیے اب جب مباہلہ ہوگیا بحمداللہ تعالیٰ تو اب یہ لوگ منا ظرہ کر رہےہیں جب ان سے کہا گیا کہ میمن صاحب کے جواب میں اگر کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی تو سامنے لایئے وہ بات تب الیا سیوں نے ان تمام دلائل کا انکار کردیا اور پھر مباہلہ کے لیے شور مچایا ۔مجھے یہ معلومات فیس بک سے ملی اور مجھے یہ لگتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان پر مباہلہ کا اثر ہونے لگا ہو۔ اب کیا فائدہ میمن صاحب کے جواب میں نکتہ چینی کرنے کا میری درخواست ہے اس فورم پر اہلِ حق حضرات سے کہ بس آپ لوگ بھی اللہ کے حکم کا انتظار کریں اللہ حق کا بول بالا کرے گا ان شاء اللہ۔
جناب شاھد آفریدی صاحب السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

جناب شاھد آفریدی صاحب میں نے مباھلہ نھی کیا فیصلے کا انتظار میمن صاحب اور جناب الیاس ستار صاحب کرینگے میں نے تو مباھلہ کیا نھی ہم تو پھلے بھی بحث ومباحثہ کرتے تھے اور اب بھی کرینگے سوالات پہلی بھی ذھن میں آرھے تھے اور اب بھی آرھے ھیں
ھم نے ایک قیمتی سوال پیش کیا تھا میں اب بھی جواب کا منتظر ہوں اس کے جواب کا اب میں انتطار کررھاھوں آپ لوگ کب جواب دینگے ؟؟؟؟



محمد حسین میمن صاحب کےجواب کو صحیح سمجھنے والوں کو ایک چیلنج

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ انہوں نے دو صاع گھٹیا کجھور بیچ کر ایک صاع عمدہ کجھور خرید لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتایا کہ یہ تو عین سود ہے۔
اس حدیث پر محمد حسین میمن نے اپنی تطبیق والی کتاب میں ایک حیرت انگیز تبصرہ لکھا ہے۔
اور وہ یہ کہ انہوں نے صفحہ ۲۷ پر لکھا ہے۔ ’’یہ حدیث بھی الحمداللہ قرآن مجید کے بعین مطابق ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے یہ آیات
ذکر کی ہیں۔
أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ(١٨١-١٨٣) سورۃ الشعراء
ناپ پورا بھرا کرو کم دینے والوں میں شمولیت نہ کرو۔
[/COLOR]اس کے آگے صفحہ ۲۸ پر لکھتا ہے۔
یاد رکھا جائے حضرت بلال رضی اللہ عنہ والی حدیث واضح ناپ تول کا فقدان تھا۔ پھر انہوں نے دوسری آیت ذکر کی ہے۔وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (سورة ہود آیت نمبر ۸۵) اے میری قوم!ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کرو۔ لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد اورخرابی نہ مچاؤ۔
آگے لکھتا ہے اس سودے میں ناپ تول کی کمی واضح ہے۔ اسی علت سے بچنے کے لیے رسول اللہ نے فرمایا تھا اپنے کجھوریں آپ بیچ ڈالتے پھر اسکے پیسوں سے اچھی کجھور خریدتے تاکہ ناپ اور تول میں کمی واقع نہ ہو پھر انہوں نے ایک آیت ذکر کی ہے۔

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ ترجمہ : بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا
لیتے ہیں اور جب انہیں نا پ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔ (سورۃ المطففین آیت ١-٣)

پھر آگے لکھتے ہیں کہ ’’حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے بیع میں ناپ تول میں واضح طور پر کمی کر دی گئی دو صاع کی جگہ ایک صاع‘‘

محمد حسین میمن صاحب نےقرآن سے جن آیات کا حوالہ دیا ہے۔ اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث ان آیات کے مطابق ہے۔ افسوس۔ آیتوں میں جو ذکر
ہے کہ دو کلو بیچا لیکن پونے دو کلو تولا۔ یا دو کلو کے پیسے لیئے اور پونے دو کلو تول کر دیا۔ یعنی ایک پاؤ کی چوری کی۔ لیکن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث میں دونوں فریقین نے
وزن میں کوئی چوری نہيں کی۔ یعنی بلال رضی اللہ عنہ نے دو صاع بول کر دو صاع دیا اور دوسرے فریق نے ایک صاع بول کر ایک صاع دیا۔ یعنی ددنوں فریقین میں سے کسی نے بھی چوری نہیں کی۔ لٰہذا قرآن کی ان آیات کی روشنی میں جس میں وزن کا گھپلا ہے۔ ان حدیثوں کو صحیح ثابت کرنا جس میں وزن کا کوئی دھوکا نہیں ہے۔ یہ عقل کی روشنی
بے وقوفانہ مثال ہے۔

محمد حسین صاحب، سلمان یعنی جاء الحق صاحب، انس نضرصاحب، ابو جابرعبداللہ دامانوی اور ان کے جملہ حامیان کو میرا چیلنج ہےکہ اہل حدیث کے ان بڑے مراکز (۱۔غرباء اہل حدیث ، ۲۔جمعیت اہل حدیث ساجد میر،۳۔ جماعت اہل حدیث، ۴۔جماعت المجاہدین جامعہ ابوبکر والے، ۵۔ جماعة الدعوة، ۶۔ الہدی انٹرنیشنل) میں سے

کسی سے بھی یہ لکھا کرلائے کہ یہ جو مثال آپ نے دیا ہے ۔یہ کورٹ میں صحیح ثابت ہو سکتا ہے۔تو آپ کو پچاس ہزار نقد انعام ملے گا۔

خوشخبری

آپ کو نہ وکیل کی ضرورت ہے۔نہ ہی کورٹ جانے کی ضرروت ہے۔ آپ صرف ان مراکز سے یہ لکھا کر لے آئیں۔کہ آپ کا موقف کورٹ میں صحیح ثابت ہو سکتا ہے۔

ایک چھوٹا سا سوال

آپ کی شائع کردہ دلیل کا یہ حال ہے آپ کے پروپہگنڈوں کا کیا حال ہوگا؟؟؟؟
 
شمولیت
مارچ 05، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
16
جناب محمد حسین میمن اور ان کے حامیوں سے میرا ایک سوال​

جناب میمن صاحب آپ نے تحریر کیا تھا کہ میں آپ کے دل کے اندر جو بھی سوال ہے اس کا جواب دوں گا۔اب میرے اس سوال کا جواب دیں۔

آپ نے اپنے کتاب "صحیح مسلم میں بظاہر دو متعارض احادیث میں تطبیق" کے ٹائٹل پر امام مسلم رحمة اللہ علیہ کا ایک قول نقل کیا ہے۔ " میں صحیح مسلم میں ہر وہ احادیث نہيں لکھتا جو
میرے نزدیک صحیح ہے مسلم میں صرف وہ احادیث جمع کی ہیں، جس پر اجماع ہو چکا ہے۔ "

جبکہ صحیح مسلم کی ان تین احادیث کو امام نووي رحمة اللہ علیہ نے دوسری احادیث سے منسوخ قرار دے رہے ہیں۔

منسوخ شدہ احادیث​
(1) ’’صحیح مسلم حدیث نمبر 4090 جلد4 صفحہ 218‘ ‘ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رواکیا کہ رسول اللہ نے فرمایا۔’’ربا نہیں ہے نقد میں‘‘
(2) ’’صحیح مسلم حدیث نمبر 4089 جلد4 صفحہ 217/218‘ ‘ : ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے مجھ سے اُسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’ سُود اُدھار میںہے۔‘‘
(3) ’’صحیح مسلم حدیث نمبر 4091 جلد4 صفحہ 217/218‘ ‘ : عطاء بن ابی باح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ مجھ سےحدیث بیان کی اُسامہ بن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’ سُود اُدھاُر میں ہے۔"

امام نووی رحمة اللہ کا فرمان​

"بعض علماء نے کہا ہے کہ اسامہ کی یہ روایت منسوخ ہے دوسری حدیثوں سے اور اجماع کیا ہے اہل اسلام نے کہ وہ متروک العمل ہے۔۔۔۔۔۔"
( صحیح مسلم شرح نووی ، کتاب المساقات و المزارعت صفحہ 219ناشر، نعمانی کتب خانہ، لاہور)

میری گذارش

امام نووی رحمة اللہ علیہ حضرت اُسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی تین احادیث کو منسوخ بیان کر رہے ہیں ۔ یقیناًاُنہوں نے ان روایات میں تضاد محسوس کیا ہوگا دوسری احادیث سے اسی لیے
انہوں نے ان تین حادیث کو منسوخ قرار دیا ۔
میری گذارش یہ ہے کہ کس بُنیاد پر حضرت اُسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی احادیث کو منسوخ کیا گیا اور جن احادیث پر اجماع ہو گیا ہے، کیا
وہ احادیث منسوخ ہو سکتی ہیں؟؟؟

کیا امام نوووی رحة اللہ کے قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اب صحيح مسلم پر امة کا اجماع نہیں ہے؟؟

قرآن شریف میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ رسول کی اطاعت کرو۔ جس حدیث پر اجماع ہو چکا تھا۔ ان احادیث کی اطاعت لازم تھی۔
اس کے باوجود امام نووی رحمة اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی تین صحیح اور اجماع والی احادیث کو منسوخ کیوں کیا؟؟؟

مزید یہ بھی بتائیں کہ کس وجہ سے یہ احادیث منسوخ ہوئیں؟؟

آپ نے جو بات اپنی کتاب کے ٹائٹل پر لکھی کہ وہ تو یہاں پر غلط ثابت ہورہی ہے تو باقی آپ کی کتاب کا کیا حال ہوگا؟؟؟

محمد حسین میمن صاحب اور ان کے حامی میرے مختصر سوال کا ٹو دا پوائنٹ جواب دیں ۔

عابد قائم خانی
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
لگتا ہے امام نووی نے اجماع توڑدیا؟؟؟
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟​

ایک جگہ امام مسلم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلم میں صرف وہ احادیث جمع کی ہیں، جس پر اجماع ہو چکا ہے
اور اسی مسلم شریف کے حاشیے پر امام نووی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلم شریف کے اسامہ رضی اللہ عنہ والی تین حدیث کے متروک العمل ہونے پراجماع ہوچکا ے۔

ان دونوں اجماع میں سے کون سا اجماع صحیح؟؟

امام مسلم رحمة اللہ علیہ کے اجماع کو صحیح مانا جائے یا امام نووی رحمة اللہ علیہ کے اجماع کو صحیح مانا جائے؟؟ کیونکہ دوستوں، ان دونوں اجماع میں تضاد نظر آرہا ہے۔

پیارے محمد حسین بھائئ اور انکے حامیوں سے گذارش ہے مہربانی کرکے میری غلط فہمی کو دور کردیں اور اس کھلے تضاد کو بھی ظاہری تضاد ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ایک جگہ امام مسلم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلم میں صرف وہ احادیث جمع کی ہیں، جس پر اجماع ہو چکا ہے
اور اسی مسلم شریف کے حاشیے پر امام نووی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلم شریف کے اسامہ رضی اللہ عنہ والی تین حدیث کے متروک العمل ہونے پراجماع ہوچکا ے۔
بعض اوقات اس قدر بچگانہ باتیں شروع ہو جاتی ہیں کہ جواب دینے کو دل ہی نہیں کرتا ۔ بھئی اجماع کس پر ہوا ہے، اجماع روایات کی صحت پر ہوا کہ جو روایات صحیح مسلم میں ہیں ان کی صحت پر اجماع ہے اور ایک صحیح روایت منسوخ ہو سکتی ہے جیسا کہ قرآن کی آیت منسوخ ہوتی ہے۔ قرآن پر اجماع کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کچھ منسوخ نہیں ہے؟
صحت روایت ایک مسئلہ ہے اور عمل بالروایۃ ایک الگ مسئلہ ہے۔ ایک صحیح روایت غیر معمول بہ ہو سکتی ہے جیسا کہ منسوخ اور مرجوح اور متوقف فیہ روایات کی مثالیں ہیں۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے، اس بارے راقم کا یہ آرٹیکل ملاحظہ فرمائیں، آپ کے سارے اشکالات ان شاء اللہ دور ہو جائیں گے۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/%D8%A7%D8%B5%D9%88%D9%84-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-47/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%B5%D8%AD%DB%8C%D8%AD%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D8%AD%D8%AA-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9-%DB%81%DB%92%D8%9F-776/
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
متروک العمل ھونے کا وجہ کیا ہے؟؟
جناب ابوالحسن صاحب اگر قرآن شریف کا کوئی آیت منسوخ ھوجاتا ہے تو وہ باالکل صحیح ھوتا ھے کیونکہ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے لیکن اس کے منسوخ کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالی کو ھوتا ہے
اگر حدیث شریف کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود منسوخ کرتے ہیں تو وہ منسوخ والا حدیث بھی بالکل صحیح ھوتا ھے ِ۔ لیکن حدیث منسوخ کرنے کا حق بھی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ھوتا ھے
اگر رسول اللہ کے موجودگی کے دوران اگر کوئی مسلمان ان کی فرمان کو منسوخ کرتا تو وہ کافر ھوتا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کی بعد صرف ان حدیثوں پر نظر ثانی ھوتی ہے جن میں مشکلات نظر آتی ہے
امام مسلم نے ان تین حدیثوں کو منسوخ نھی کیاتھا لیکن بعد میں متروک العمل جو ان احادیث کو کھاگیا اور اس پر اجماع ھوا وہ اس وجہ سے کہ ان تین احادیث میں سودی لین دین کیلیےشرط رکھا گیا کہ ادھار ھو اور نقدالنقد نا ھو جبکہ دوسرے احادیث میں نقد النقد سودے کو بھی سودی لین دین قرار دیا گیا ہے
استاد محترم جناب الیاس ستار صاحب کے نزدیک اس تضاد کیوجہ سے ان تین احادیث کو متروک العمل کھا گیاہے
اگر آپ کی نزدیک متروک العمل ھونے کا کوئی اور وجہ ھےتو جن کو آپ بچے سمجھتے ہیں ان کی رھنمائی فرماے
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
استاد محترم جناب الیاس ستار صاحب کے نزدیک اس تضاد کیوجہ سے ان تین احادیث کو متروک العمل کھا گیاہے
صحیح احادیث میں تضاد کا دعوی کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآن میں تضاد کا دعوی کرنا ہے۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ اس لیے تشریف نہیں لائے کہ اپنے ایک قول سے دوسرے قول کی نفل کریں۔ جب آپ نے ایک دفعہ مان لیا کہ یہ دو روایات صحیح ہے تو پھر ان میں تضاد کا دعوی کرنا درست نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ ایک روایت کا صحیح اور ایک کو ضعیف مانتے ہوں تو پھر تضاد ثابت نہیں ہوتا کیونکہ تضاد کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کا درجہ ایک ہو جیسا کہ علم منطق میں نقیض کی آٹھ شرائط بیان ہوئی ہیں۔

کس حدیث کے غیر معمول بہ ہونے کی تین وجوہات ہم نے اوپر بیان کر دی ہیں، ایک دفعہ ہی بیان کافی تھا لیکن آپ کے مطالبہ پر دوبارہ پیش کر رہا ہوں۔
١۔ کسی روایت کا منسوخ ہونا
٢۔ کسی روایت کا مرجوح ہونا
٣۔ کسی روایت کا متوقف فیہ ہونا
اس کے علاوہ کسی صحیح روایت کے غیر معمول بہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
 
Top