• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ايک اور امريکی منصوبہ

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

پہلی بات تو ميں يہ واضح کر دوں کہ نو گيارہ کے بعد مسلمانوں کو بحثيت مجموعی امريکہ ميں نا تو ٹارگٹ کيا گيا تھا اور نا ہی انھيں اجتماعی سطح پر نسلی امتياز اور تفريق کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ کچھ افراد کو نفرت کی بنياد پر نشانہ بنايا گيا اور اس ضمن ميں تشدد کے اکا دکا واقعات بھی رونما ہوۓ تھے۔

ليکن ميرا آپ سے سوال ہے – اسلام کے تشخص کو خراب کرنے اور اس کے بارے ميں غلط تاثر کے ليے آپ کسے مورد الزام قرار ديں گے؟

آپ نہيں سمجھتے کہ اس برہمی اور غصے کا رخ ان گروہوں اور افراد کی جانب ہونا چاہيے جنھوں نے دانستہ جانتے بوجھتے اسلام کا نعرہ بلند کر کے پوری مہذب دنيا کے خلاف جنگ شروع کرنے کی کوشش کی اور دنيا بھر ميں بغير کسی تفريق کے ہزاروں بے گناہ شہريوں کو موت کی گھاٹ اتار ديا؟

کسی بھی معصوم فرد کے مذہبی اور سياسی افکار اور وابستگی سے قطع نظر نفرت پر مبنی جرم کو منصفانہ قرار نہيں ديا جا سکتا ہے۔ امريکی آئين اور ملک ميں رائج قوانين اس بات کو يقينی بناتے ہيں کہ تمام شہريوں کو نفرت پر مبنی جرائم سے مکمل تحفظ فراہم کيا جاۓ اور محرک سے قطع نظر مجرموں کے ساتھ کسی قسم کی بھی نرمی نا برتی جاۓ۔

اپنی بات کو ثابت کرنے کے ليے کچھ اعداد وشمار پيش ہيں۔​
نو گيارہ کے واقعے کے بعد امريکی محکمہ انصاف نے مسلم، عرب، مشرق وسطی اور ايشيا سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف تشدد کے واقعات کے ضمن ميں قريب 800 واقعات کی تحقيقات کروائ۔ سال 2011 تک ان ميں 48 ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت ہوئ اور 41 افراد کو سزائيں بھی دی جا چکی ہيں۔ 911 کے واقعے کے بعد جسٹس ڈيپارٹمنٹ نے تعصب پر مبنی واقعات ميں اسٹيٹ اور مقامی انتظاميہ کی مدد سے 160 مقدمات درج کيے ہيں۔

آپ اس بارے ميں تفصيلات اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

https://www.justice.gov/sites/default/files/crt/legacy/2012/04/16/post911summit_report_2012-04.pdf

باوجود اس کے کہ گيارہ ستمبر کے واقعے ميں نيويارک اور واشنگٹن پر جن 19 دہشت گردوں نے حملے کيے تھے انھوں نے اپنے جرم کو قابل قبول بنانے کے ليے اسلام کا سہارا ليا تھا، امريکی کميونٹی اور حکومت کا ردعمل مجموعی طور پر مسلم اقليتوں کے خلاف نا تو سنگين اور شديد تھا اور نا ہی کسی منظم طريقے سے مسلمانوں کو نشانہ بنايا گيا۔

اس ميں کوئ شک نہیں کہ مذہب کو يقینی طور پر دہشت گردی کے ضمن ميں غلط طريقے سے استعمال کيا گيا ہے۔ ليکن ميں اس راۓ سے متفق نہیں ہوں کہ اسلام کو دہشت گردی سے تعبير کرنے کے لیے ذمہ داری امريکی حکومت اور شہريوں پر عائد ہوتی ہے۔ دہشت گردی کو اسلام سے منسلک کرنے کا الزام امريکہ پر عائد کرنا حقائق کے منافی ہے۔ يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ يہ القائدہ اور طالبان ہیں جنھوں نے ہميشہ يہ دعوی کيا ہے کہ وہ اسلامی تعليمات پر عمل پيرا ہيں۔

القائدہ نے اپنی مکروہ سوچ کی تشہير کے ليے جس مواد کا استعمال کيا ہے اس پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی يہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے تمام ايجنڈے کا محور و مرکز ہر کسی کے خلاف تشدد کا استعمال ہے جو ان سے اختلاف کرے اور اس ضمن ميں جذبات بھڑکانے اور اپنے جرائم کی توجيہہ کے ليے وہ ہميشہ مذہب کو ہتھيار کے طور پر استعمال کرتے ہيں۔

بہتر يہ ہے کہ آپ ان دہشت گردوں کی جانب سے مذہب کے غلط استعمال پر سوال اٹھائيں جو ان غلط فہميوں اور بدگمانيوں کا سبب بنتے ہيں جن کا ذکر آپ نے اپنی راۓ ميں کيا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

لیکن بغیر تحقیق کے فوری طور پر الزام مسلمانوں پر لگا دینا کیا انصاف تھا اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکی حکومت کو پہلے سے معلوم تھا کہ جیسے ہی یہ حادثہ ہو ہم فورا مسلمانوں پر الزام لگا دیں گے اور اب تو یہ بات کھل گئی ہے کہ نائن الیون کے پیچھے کون سی لابی تھی اگر کوئی نہیں جانتا تو امریکی حکومت کے تنخواہ خواہ ملازم
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ميرے نے نہ صرف اس فورم پر بلکہ اردو کے بے شمار فورمز پر 911 کے حوالے سے کئ بار بڑی تفصيلی گفتگو کی ہےميں نے ايک بار پہلے بھی يہ لکھا تھا کہ اگر ميں 911 کے حوالے سے تمام سازشی کہانيوں کا جواب دينے کی کوشش کروں گا تو اس کے ليے تو مجھے کئ کتابيں لکھنا پڑيں گی۔
لازمی بات ہے ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے بے شمار کتابیں ہی لکھنا پڑیں گی لیکن پھر بھی یہ جھوٹ نہیں چھپے گا
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
لیکن بغیر تحقیق کے فوری طور پر الزام مسلمانوں پر لگا دینا کیا انصاف تھا

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​


اگر آپ کی تاويل کو درست تسليم کر ليا جاۓ تو پھر تو پاک فوج اور حکومت پاکستان کو ٹی ٹی پی کے ان دہشت گردوں کے خلاف کوئ کاروائ نہيں کرنی چاہيے جو بے گناہ پاکستانی شہريوں کا قتل عام کر رہے ہيں کيونکہ مارنے والے خود کو مسلمان کہتے ہيں اور ان کے خلاف کاروائ اسلام کے خلاف سازش تصور کی جاۓ گی۔​
آپ کو اپنی معلومات کی تصحيح کی ضرورت ہے۔ امريکی حکومت نے کبھی بھی 911 کے حملوں کے ليے مسلمانوں کو مورد الزام نہيں قرار ديا۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ امريکی صدر سميت اہم ترين عہديداروں نے متعدد بار ہمارا موقف واضح کيا ہے کہ دہشت گردوں کی مجرمانہ کاروائيوں کا اسلام يا کسی بھی اور مذہب سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ ہم نے بار بار اس حقيقت کو اجاگر کيا ہے کہ القائدہ نے دنيا بھر ميں ہزاروں کی تعداد ميں مسلمانوں کو ہلاک کيا ہے۔ آپ کی ياد دہانی کے لیے واضح کر دوں کہ صدر بش نے گيارہ ستمبر 2001 کے واقعات کے چند دن بعد واشنگٹن ڈی سی ميں ايک اسلامک سينٹر کا دورہ کيا تھا اور عوامی سطح پر يہ مطالبہ کيا تھا کہ امريکہ ميں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کيا جاۓ۔

گيارہ ستمبر کے واقعے کے صرف چھ روز بعد صدر بش نے واشنگٹن کی ايک مسجد ميں سترہ ستمبر کو يہ بيان ديا تھا

"دہشت گردی کا چہرہ دين اسلام کی نمايندگی نہيں کرتا۔ يہ اسلام ہرگز نہيں ہے۔ اسلام تو امن ہے۔ يہ دہشت گرد امن کے نمايندے نہيں ہيں۔ يہ تو جنگ اور برائ کی نمايندگی کرتے ہيں"

https://georgewbush-whitehouse.archives.gov/news/releases/2001/09/20010917-11.html

يہ درست ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ واقعات پيش آۓ تھے ليکن وہ انفرادی نوعيت کے تھے، اس کے پيچھے کوئ باقاعدہ منظم تحريک نہيں تھی۔

اس ميں کوئ شک نہیں ہے کہ گزشتہ کئ برسوں کے دوران امريکہ ميں نجی نشرياتی اداروں اور جرائد میں 911 کے واقعات کے حوالے سے صحافيانہ حقوق اور آزاد راۓ کا استعمال کرتے ہوۓ مخصوص تشريح کی گئ ہے۔ ليکن يہ خيالات امريکی حکومت کی پاليسيوں کی نمايندگی نہيں کرتے۔

يقينی طور پر کوئ بھی يہ دعوی نہيں کر سکتا کہ پاکستان ميں ميڈيا کے نجی ادارے اور اخبارات ہميشہ اپنے خيالات کا اظہار حکومت کی سرکاری پاليسی کے عين مطابق کرتے ہيں۔ اسی جمہوری اصول کا اطلاق امريکہ ميں بھی ہوتا ہے۔

ميں اس تجزيے سے اتفاق کرتا ہوں کہ مذہب کو دہشت گردی کے ضمن ميں غلط طريقے سے استعمال کيا گيا ہے۔ ليکن ميں اس راۓ سے متفق نہیں ہوں کہ اس ضمن ميں ذمہ داری امريکی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ يہ دعوی کرنا کہ ہم نے دہشت گردی کا تعلق اسلام سے جوڑا ہے حقائق کے منافی ہے۔ يہ نہیں بھولنا چاہيے کہ يہ القائدہ ہی ہے جن کی طرف سے يہ دعوی کيا گيا ہے کہ وہ اسلامی تعليمات پر عمل پيرا ہيں۔ شائد آپ کی تنقید کا محور ان کی جانب سے اسلام کی غلط تشريح ہونا چاہیے۔

القائدہ کے مخصوص تشہيری مواد پر ايک سرسری نظر ڈالنے سے ہی آپ پر يہ واضح ہو جاۓ گا کہ ان کے ايجنڈے کا محور کلی طور پر ہر اس شخص کے خلاف ہے جو ان پر تنقید کی جرات کرے اور اس ضمن ميں انھوں نے مذہب کو محض جذبات کو شہ دينے اور اپنے قبيح جرائم کی توجيہہ کے ليے استعمال کيا ہے۔

باوجود اس کے کہ 11 ستمبر کے واقعے ميں ملوث 19 دہشت گردوں نے غلط طور پر اپنے جرائم کی توجيہہ کے لیے اسلام کا سہارا ليا تھا۔ امريکی کميونٹی کا ردعمل مسلم اقليتوں کے خلاف اتنا سنگين اور شديد نہيں تھا اور نا ہی ان کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف کسی منظم تحريک کا آغاز کيا گيا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
صرف مقبول ہی نہیں بلکہ سچ ہی یہی ہے نائن الیون کا واقعہ صہیونی لابی کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش تھا ، اس کے بعد ہر وہ مسلمان بالخصوص جو داڑھی والا تھا اس کا تو جینا حرام کر دیا گیا اور عمومی طور پر ہر مسلمان دہشت گرد باور کروایا گیا
اور یہ واقعات سنے سنائے نہیں بلکہ میرے قریبی رشتہ دار اور کچھ دوستوں کے ساتھ پیش آئے

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جس کسی کو بھی امريکی معاشرے ميں رہنے اور يہاں کے طرز زندگی کو سمجھنے کا تجربہ ہے وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ امريکی معاشرہ کسی مخصوص مذہب، کميونٹی يا نسل سے محبت يا نفرت کی ترغيب کی بنياد پر قائم نہيں کيا گيا۔ امريکی آئين کی بنيادی اساس اور اصول يہ غير متزلزل يقين ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کے ليے برداشت کے جذبے کو فروغ ديا جانا چاہيے اور مذہبی وابستگی سے قطع نظر ہر شخص کو مساوی حقوق حاصل ہيں۔

آپ نے يہ حقيقت بھی نظرانداز کر دی ہے کہ 911 کے واقعات کے بعد مسلمانوں پر کوئ پابندياں نہيں عائد کی گئ ہيں۔ اس واقعے کے بعد بھی امريکہ ميں سينکڑوں کی تعداد ميں مساجد کی تعمير بھی گئ ہے اور دنيا بھر سے ہزاروں کی تعداد ميں مسلمان طالب علموں نے امريکی تعليمی اداروں ميں داخلے بھی ليے ہيں۔

اس واقعے کے بعد بھی امريکی معاشرہ اور حکومت مسلمان کميونٹی کو وہ تمام حقوق اور تحفظات فراہم کر رہی ہے جو اس واقعے سے پہلے مسلمانوں کو حاصل تھے اور يہ تمام حقوق وہی ہيں جو امريکی ميں ديگر مذاہب کے افراد کو حاصل ہیں۔

اگر 911 کے واقعات کے بعد امريکی حکومت کا مقصد امريکہ ميں مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی تفريق کرنا، انھيں محدود کرنا يا ان کے خلاف کوئ مہم جوئ کرنا ہوتا – جيسا کہ کچھ تبصرہ نگاروں نے دعوی کيا ہے تو پھر آپ اس بات کی کيا توجيہہ پيش کريں گے کہ گزشتہ ايک دہائ کے دوران امريکہ بھر ميں مسجدوں کی تعمير کے عمل ميں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

يہ حقيقت ان اعداد وشمار کی روشنی ميں عياں ہے جو ايک ايسے سروے ميں پيش کيے گۓ ہيں جو کونسل آن امريکن اسلامک ريليشنز، اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امريکہ اور ہارٹفورڈ انسٹيٹيوٹ فار ريليجن ريسرچ کے تعاون سے مرتب کيا گيا ہے۔

اس سروے کے مطابق امريکہ ميں کل 2106 مساجد ہيں جو سال 2000 کے اعداد وشمار کے مقابلے ميں 74 فيصد زيادہ ہيں جب مساجد کی کل تعداد 1209 تھی۔ اس کے علاوہ اس سروے ميں يہ بھی واضح کيا گيا کہ پہلے کے مقابلے ميں امريکہ ميں بسنے والے مسلمان اب زيادہ امريکی معاشرے اور طرز زندگی ميں اپنی جگہ بنا رہے ہيں۔

اس سروے کے ايک مصنف اور يونيورسٹی آف کينٹکی ميں اسلامک اسٹڈيز کے پروفيسر احسان باغبی کا کہنا ہے کہ امريکہ ميں مسلمان کميونٹی نا صرف يہ کہ بڑھ رہی ہے بلکہ يہ پہلے سے زيادہ متحرک اور فعال ہونے کے ساتھ ساتھ امريکی طرز معاشرت ميں بآسانی زم بھی ہو رہی ہے۔

سال 2010 ميں مساجد کی جو گنتی کی گئ اس کے مطابق

States with the Greatest Number of Mosques
1

New York:

257
2

California:

246
3

Texas:

166
4

Florida:

118
5

Illinois:

109
5

New Jersey:

109
7

Pennsylvania:

99
8

Michigan:

77
9

Georgia:

69
10

Virginia:

62



سال 2000 ميں کيے جانے والے سروے ميں مساجد کے سرکردہ قائدين کی اکثريت کا يہ خيال تھا کہ امريکی معاشرہ اسلام کے خلاف متعصب اور جارحانہ سوچ رکھتا ہے ليکن اب صرف ايک چوتھائ ليڈر ايسا سمجھتے ہيں۔

باغبی نے ايک انٹرويو ميں کہا کہ "911 کے واقعات کے بعد مساجد عمومی طور پر کميونٹی کی توجہ کا مرکز بن گئيں۔ اور اس تجربے – بلکہ مقامی سطح پر ہمسايوں اور گرجاگروں سميت ديگر مذاہب کے مختلف گروہوں کے ساتھ ميل جول کے اس مثـبت تجربے نے ہمدردی اور رواداری کی ايک فضا قائم کر دی۔

ہارٹ فورڈ انسٹيٹيوٹ کے ڈيوڈ روزن کے مطابق اسلام شايد اس وقت امريکہ ميں سب سے زيادہ تيزی سے پھيلنے والا مذہب ہے۔

کچھ راۓ دہندگان کے ليے يہ سہل ہے کہ وہ جانب داری پر مبنی غلط تاثر کی بنياد پر کہانياں تخليق کريں اور اپنی يکطرفہ سوچ کا اظہار کريں۔ ليکن حقيقت يہ ہے کہ اعداد وشمار کی روشنی ميں يہ واضح ہے کہ امريکہ ميں مسلمان اور مذہب اسلام کسی بھی لحاظ سے زير عتاب نہيں ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
@فواد صاحب اک ذرا نظر کرم ادھر بھی
17056 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ نا تو کوئ انہونی بات ہے اور نا ہی کوئ غير معمولی امر کہ امريکی حکومت کے مختلف شعبوں ميں کام کرنے والے افراد اپنے تجربات اور واقعات کے حوالے سے اپنی مخصوص تشريحات کی بنياد پر تجاويز پيش کريں اور اپنی آزاد راۓ کا اظہار کريں۔

علاوہ ازيں امريکہ سميت دنيا بھر ميں حکومتی ڈھانچے کے اندر فيصلہ سازی سے متعلق طريقہ کار زمينی حقائق اور بہتر معلومات پر مبنی فيصلوں کے نتيجے ميں ہميشہ تبديلی کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر پاکستان ميں گزشتہ ايک دہائ کے دوران ايسے مواقع بھی آۓ جب حکومت پاکستان اور پاک فوج نے مسلح گروہوں کے ساتھ امن معاہدے کيے، جيسا کہ ہم نے سوات ميں ديکھا ليکن پھر ان گروہوں کی جانب سے دہشت اور تشدد جاری رکھنے پر ان کے خلاف فوجی آپريشنز بھی کيے گۓ۔ تضادات پر مبنی يہ پاليسی فيصلے اور متنوع حکمت عمليوں کا يہ مطلب نہيں ہے کہ کچھ پوشيدہ ہاتھ واقعات کے تسلسل کے ضمن ميں سازش کر رہے ہيں۔ درحقيقت يہ عالمی دہشت گردی کی نوعيت اور اس سے منسلک تبديل ہوتے ہوۓ زمينی حقائق اور بڑھتے ہو ۓ چيلنجز کو واضح کرتے ہيں۔

تاريخی تناظر ميں کوئ بھی ايسا پاليسی فيصلہ جس ميں فوجی قوت کا استعمال کيا جاۓ وہ اپنی وسعت اور نتائج سے قطع نظر ہميشہ ايسی علمی، تاريخی اور سياسی بحث کا موجب بنتا ہے جو دہائيوں تک جاری رہتی ہے۔ واقعات کے تسلسل کے ضمن ميں ہميشہ متضاد آراء، تجزيے اور مخصوص تشريح سامنے آتی ہے جس کی بنياد پر مختلف افراد اور تاريخ دان اپنے مخصوص فيصلے صادر کرتے ہيں اور نتائج اخذ کرتے ہيں۔ امريکہ جيسے جمہوری، متنوع اور آزاد معاشرے ميں يہ نا تو کوئ انہونی بات ہے اور نا ہی غير متوقع کہ امريکی حکومت سے سبکدوش ہونے کے بعد کوئ فرد عوامی سطح پر اپنی سوچ اور نظريات کا اظہار کرے۔

تاہم يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ ايک دہائ سے جاری عالمی دہشت گردی جيسا گھمبير اور پيچيدہ معاملہ جو بدستور جاری ہے، اس کا محض ايک ريٹائرڈ امريکی عہديدار کے ذاتی خيالات کی بنياد پر حتمی راۓ زنی يا فيصلہ سازی کے ذريعے نا تو درست احاطہ کيا جا سکتا ہے اور نا ہی حل پيش کيا جا سکتا ہے۔

دہشت گردی کے عفريت کے ضمن ميں عالمی کاوشيں اور اس کے بعد کے اثرات کے حوالے سے ان کے جو بھی خيالات ہوں، يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ جو خاتون راۓ زنی کر رہی ہيں انھوں نے دس برس تک اپنے فرائض منصبی پورے کيے اور يہ امر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اس بات کی معترف ہيں کہ دنيا بھر ميں داعش، القائدہ اور اس سے منسلک مختلف گروہوں سے لاحق خطرے کے خلاف کھڑے ہونا وقت کی اہم ضروت ہے۔

جنگ کے منفی اثرات سے کوئ بھی پہلو تہی نہيں کر سکتا۔ ايسی صورت حال کی روک تھام کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہيے۔ ليکن دہشت گردی تو دور جس کے نتيجے ميں بے شمار بے گناہوں کی موت واقع ہوتی ہے، کسی بھی جرم کو بغیر سزا کے درگزر نہيں کيا جا سکتا۔ ايسا کرنا کسی بھی ايسے انسانی معاشرے يا ملک کے بنيادی انسانی اسلوب کی نفی ہے جو اپنے شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ کرنے کا خواہاں ہے

ہم درپيش چيلنجز اور متوقع قربانيوں سے پوری طرح واقف ہيں۔ ليکن دہشت گردی کی قوتوں کے سامنے ہتھيار ڈالنے کا آپشن ہمارے پاس نہيں ہے۔ اس کے علاوہ ايسا کرنا دنيا بھر ميں ان لواحقين کے لیے انصاف کی دھجياں کرنے کے مترادف ہو گا جن کے چاہنے والے دہشت گردی کے اس عالمی عفريت کا شکار ہوۓ ہيں

ہزاروں کی تعداد ميں اپنے فوجی ايک دور دراز ملک ميں بھيجنے اور اس کی معاشی قیمت ادا کرنے ليے ہمارا بنيادی مقصد اور اصل محرک شروع دن سے يہی رہا ہے کہ انسانی جانوں کی حفاظت کو يقينی بنايا جا سکے۔ صرف امريکی زندگياں ہی نہيں بلکہ افغانی اور پاکستانی جانيں بھی جو ہمارے مشترکہ دشمنوں کے ہاتھوں روزانہ کی بنياد پر نقصان اٹھا رہے ہیں

ايک علمی اور دانشوارانہ بحث کے تناظر ميں افراد کے خيالات اور آراء سے قطع نظر، يہ نہيں ہو سکتا کہ معاملات دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ ديے جائيں جو عوامی سطح پر جبر کی بنياد پر اپنی سوچ مسلط کرنے کے ليے بلا جھجک بے گناہ شہريوں کا خون بہاتے رہيں۔ يہ نا تو قابل قبول آپشن ہے اور نا ہی حل۔​

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ نا تو کوئ انہونی بات ہے اور نا ہی کوئ غير معمولی امر کہ امريکی حکومت کے مختلف شعبوں ميں کام کرنے والے افراد اپنے تجربات اور واقعات کے حوالے سے اپنی مخصوص تشريحات کی بنياد پر تجاويز پيش کريں اور اپنی آزاد راۓ کا اظہار کريں۔

علاوہ ازيں امريکہ سميت دنيا بھر ميں حکومتی ڈھانچے کے اندر فيصلہ سازی سے متعلق طريقہ کار زمينی حقائق اور بہتر معلومات پر مبنی فيصلوں کے نتيجے ميں ہميشہ تبديلی کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر پاکستان ميں گزشتہ ايک دہائ کے دوران ايسے مواقع بھی آۓ جب حکومت پاکستان اور پاک فوج نے مسلح گروہوں کے ساتھ امن معاہدے کيے، جيسا کہ ہم نے سوات ميں ديکھا ليکن پھر ان گروہوں کی جانب سے دہشت اور تشدد جاری رکھنے پر ان کے خلاف فوجی آپريشنز بھی کيے گۓ۔ تضادات پر مبنی يہ پاليسی فيصلے اور متنوع حکمت عمليوں کا يہ مطلب نہيں ہے کہ کچھ پوشيدہ ہاتھ واقعات کے تسلسل کے ضمن ميں سازش کر رہے ہيں۔ درحقيقت يہ عالمی دہشت گردی کی نوعيت اور اس سے منسلک تبديل ہوتے ہوۓ زمينی حقائق اور بڑھتے ہو ۓ چيلنجز کو واضح کرتے ہيں۔

تاريخی تناظر ميں کوئ بھی ايسا پاليسی فيصلہ جس ميں فوجی قوت کا استعمال کيا جاۓ وہ اپنی وسعت اور نتائج سے قطع نظر ہميشہ ايسی علمی، تاريخی اور سياسی بحث کا موجب بنتا ہے جو دہائيوں تک جاری رہتی ہے۔ واقعات کے تسلسل کے ضمن ميں ہميشہ متضاد آراء، تجزيے اور مخصوص تشريح سامنے آتی ہے جس کی بنياد پر مختلف افراد اور تاريخ دان اپنے مخصوص فيصلے صادر کرتے ہيں اور نتائج اخذ کرتے ہيں۔ امريکہ جيسے جمہوری، متنوع اور آزاد معاشرے ميں يہ نا تو کوئ انہونی بات ہے اور نا ہی غير متوقع کہ امريکی حکومت سے سبکدوش ہونے کے بعد کوئ فرد عوامی سطح پر اپنی سوچ اور نظريات کا اظہار کرے۔

تاہم يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ ايک دہائ سے جاری عالمی دہشت گردی جيسا گھمبير اور پيچيدہ معاملہ جو بدستور جاری ہے، اس کا محض ايک ريٹائرڈ امريکی عہديدار کے ذاتی خيالات کی بنياد پر حتمی راۓ زنی يا فيصلہ سازی کے ذريعے نا تو درست احاطہ کيا جا سکتا ہے اور نا ہی حل پيش کيا جا سکتا ہے۔

دہشت گردی کے عفريت کے ضمن ميں عالمی کاوشيں اور اس کے بعد کے اثرات کے حوالے سے ان کے جو بھی خيالات ہوں، يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ جو خاتون راۓ زنی کر رہی ہيں انھوں نے دس برس تک اپنے فرائض منصبی پورے کيے اور يہ امر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اس بات کی معترف ہيں کہ دنيا بھر ميں داعش، القائدہ اور اس سے منسلک مختلف گروہوں سے لاحق خطرے کے خلاف کھڑے ہونا وقت کی اہم ضروت ہے۔

جنگ کے منفی اثرات سے کوئ بھی پہلو تہی نہيں کر سکتا۔ ايسی صورت حال کی روک تھام کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہيے۔ ليکن دہشت گردی تو دور جس کے نتيجے ميں بے شمار بے گناہوں کی موت واقع ہوتی ہے، کسی بھی جرم کو بغیر سزا کے درگزر نہيں کيا جا سکتا۔ ايسا کرنا کسی بھی ايسے انسانی معاشرے يا ملک کے بنيادی انسانی اسلوب کی نفی ہے جو اپنے شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ کرنے کا خواہاں ہے

ہم درپيش چيلنجز اور متوقع قربانيوں سے پوری طرح واقف ہيں۔ ليکن دہشت گردی کی قوتوں کے سامنے ہتھيار ڈالنے کا آپشن ہمارے پاس نہيں ہے۔ اس کے علاوہ ايسا کرنا دنيا بھر ميں ان لواحقين کے لیے انصاف کی دھجياں کرنے کے مترادف ہو گا جن کے چاہنے والے دہشت گردی کے اس عالمی عفريت کا شکار ہوۓ ہيں

ہزاروں کی تعداد ميں اپنے فوجی ايک دور دراز ملک ميں بھيجنے اور اس کی معاشی قیمت ادا کرنے ليے ہمارا بنيادی مقصد اور اصل محرک شروع دن سے يہی رہا ہے کہ انسانی جانوں کی حفاظت کو يقينی بنايا جا سکے۔ صرف امريکی زندگياں ہی نہيں بلکہ افغانی اور پاکستانی جانيں بھی جو ہمارے مشترکہ دشمنوں کے ہاتھوں روزانہ کی بنياد پر نقصان اٹھا رہے ہیں

ايک علمی اور دانشوارانہ بحث کے تناظر ميں افراد کے خيالات اور آراء سے قطع نظر، يہ نہيں ہو سکتا کہ معاملات دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ ديے جائيں جو عوامی سطح پر جبر کی بنياد پر اپنی سوچ مسلط کرنے کے ليے بلا جھجک بے گناہ شہريوں کا خون بہاتے رہيں۔ يہ نا تو قابل قبول آپشن ہے اور نا ہی حل۔​

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
شکریہ آپ نے کوئی لنک نہیں دیا ورنہ میں لنک دیکھتے ہی بند کر دیتا تھا
اور دوسری بات بین المذاہب مکالمہ جات کی اجازت ہمیں ہمارے دین نے دی ہے لیکن برابری کی سطح پر لیکن بدقسمتی سے امریکہ کے ساتھ کبھی بھی تعلقات برابری کی سطح پر قائم نہیں ہوئے
تیسری بات ہمارا دین ہمیں کہیں بھی نہیں منع کرتا کہ ہمارے خارجہ تعلقات صرف اسلامی ممالک کے ساتھ ہی ہوں بلکہ غیر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی اجازت ہے لیکن اس کے حدود و اربعہ کا تعین بھی خود قرآن نے ہی کر دیا جیسا کہ سورۃ توبہ میں ہے : پھر جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو (توبہ7)
لیکن عملا اس وقت ہماری حکومت اس خارجہ پالیسی کو اپنانے کی طاقت نہیں رکھتی یا اختیار نہیں کرنا چاہتی یہ اللہ بہتر جانتا ہے
اور عملا آپ کی حکومت پاکستان کے ساتھ کر کیا رہی ہے اس کی منظر کشی بھی قرآن نے کی اور خوب کی لگتا ہے جیسا کہ یہ آیات امریکی حکومت کے پاکستانی حکومت کے ساتھ تعلقات کی مناسبت سے ہی نازل کی گئی ہے سنیے : جبکہ ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر وہ تم پر غلبہ پالیں تو وہ تمہارے ساتھ رشتہ داری کا لحاظ کریں گے اور نہ ہی کسی عہد کا اور یہ صرف اپنے مونہوں سے تمہیں خوش کرتے ہیں اور ان کے دل انکار کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ (توبہ8)
کہنے کو بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن فی الحال اسی پر اکتفا کریں اگر یہی سمجھ میں آ جائے تو ورنہ !!!!!!!!!!!!!!!!!
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
بدقسمتی سے امریکہ کے ساتھ کبھی بھی تعلقات برابری کی سطح پر قائم نہیں ہوئے
عملا اس وقت ہماری حکومت اس خارجہ پالیسی کو اپنانے کی طاقت نہیں رکھتی یا اختیار نہیں کرنا چاہتی
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جو راۓ دہندگان اس بات پر بضد ہيں کہ پاکستانی حکومتوں ميں فيصلہ ساز عناصر اور عسکری قيادت محض امريکی حکومت کے اشاروں پر انحصار کرتی ہے، وہ اس حقيقت کو نظرانداز کر رہے ہيں کہ نيٹو کی آمدورفت سے متعلقہ راستوں پر سات ماہ سے زيادہ عرصے تک بندشيں لگائ گئ تھيں اور امريکی حکومت کی اعلی ترين قيادت کی جانب سے تواتر کے ساتھ ملاقاتوں سميت انتھک سفارتی کاوشوں کے باوجود ہم اپنی مبينہ "کٹھ پتليوں" کو منانے ميں ناکام رہے تھے جس کی پاداش ميں ہميں کئ ملين ڈالرز کا نقصان بھی ہوا تھا اور پڑوسی افغانستان ميں ہماری کاوشوں کو بھی زک پہنچی تھی۔

اور جو بدستور اس ناقابل فہم سوچ کی تشہير کرتے رہتے ہيں کہ پاکستان ميں قيادت بغير کسی پس وپيش کے ہماری ہر بات مان ليتی ہے انھيں چاہیے کہ واقعات کے اس تسلسل کا بغور جائزہ ليں جو کيری لوگر بل کے وقت پيش آۓ تھے جب کئ ہفتوں تک دونوں ممالک کے مابين سفارتی تعلقات جمود کا شکار رہے تھے تاوقتيکہ پاکستان ميں تمام فريقين کے خدشات اور تحفظات دور نہيں کر ديے گۓ۔

جہاں تک ان بے بنياد الزامات کا تعلق ہے کہ کسی بھی شخصيت سے قطع نظر پاکستان کی عسکری قيادت ہماری ہدايات پر عمل کرتی ہے تو اس ضمن ميں آپ کو سال 2007 ميں ہونے سوات معاہدے کا حوالہ دينا چاہوں گا جب ہماری واضح کردہ پاليسی اور عوامی سطح پر پيش کردہ تحفظات کے باوجود پاکستان کی سول اور عسکری قيادت نے جانی مانی دہشت گرد تنظيموں کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کا فيصلہ کيا تھا۔

چاہے وہ وزيرستان ميں فوجی آپريشن کے وقت کا تعين يا اس کے دائرہ کار کا معاملہ ہو، حقانی نيٹ ورکس کے حوالے سے ہمارے تحفظات ہوں، حافظ سعيد کا ايشو ہو يا دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے، کسی بھی غير جانب دار سوچ کے حامل شخص کے ليے يہ واضح ہونا چاہيے کہ دونوں ممالک کے مابين مضبوط اور ديرپا اسٹريجک تعلقات کے باوجود ہمارے تعلقات کی نوعيت کو "آقا اور غلام" سے ہرگز تعبير نہيں کيا جا سکتا ہے۔

بلکہ حقائق تو اس سے کوسوں دور ہيں۔

ايسے بہت سے مواقعے آۓ ہيں جب دونوں شراکت داروں ميں کسی مخصوص ايشو کے حوالے سے يا تو عدم اتفاق پايا گيا ہے يا مختلف نقطہ نظر پيش کيا گيا ہے۔ ايک باہم سفارتی تعلق ميں دونوں مساوی شراکت دار کسی ايسے حل کی کوشش کرتے ہيں جو تمام فريقين کے ليے فائدہ مند ہے۔ يہ عمل نا تو نقصان دہ ہے اور نا ہی ايسا کہ جس کی کوئ نظير نہيں ملتی۔

کئ مواقعوں پر باہم گفت وشنيد اور دونوں حکومتوں کے اہلکاروں کے مابين تعميری بات چيت کے ادوار کے نتيجے ميں ايسے معاملات طے پاۓ ہيں جو دونوں ممالک کے ليے پائيدار اسٹريجک مفادات کا سبب بنے ہيں۔

ليکن ان سفارتی کاوشوں، ملاقاتوں اور بات چيت کے عمل کو کسی بھی فريق کے ليے کبھی بھی "ڈکٹيشن" يا "ہتھيار ڈالنے" سے تعبير نہيں کيا جا سکتا ہے۔

ہم نے ہميشہ واضح طور پر اس بات پر زور ديا ہے کہ پاکستان اور امريکہ اسٹريجک اتحادی ہيں جو ايک مشترکہ دشمن کے خلاف نبردآزما ہيں۔ پاکستان کی سول اور عسکری قيادت کے ساتھ ہمارے تعلقات کا مقصد بات چيت کے ذريعے دونوں ممالک کے درميان عدم اعتماد کو کم کرنے اور فاصلے دور کرنے کے ليے سفارتی ذرائع کا حصول ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu


 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
http://ummat.net/2016/06/29/news.php?p=news-01.gif

@فواد صاحب یہ کیا ہے ؟ لیکن مجھے علم ہے میرے سابقہ لنکس کی طرح اس کا جواب بحی نہیں ملے گا

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کی توسيع کے حوالے سے بے بنياد افواہيں اور کہانياں برسوں سے پاکستانی ميڈيا کے بعض حلقوں ميں گردش کر رہی ہيں۔ ہماری جانب سے ان رپورٹس کو نظرانداز نہيں کيا گيا اور کئ مواقعوں پر ان الزامات کے جواب بھی ديے گۓ ہيں۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت کاروں اور ايمبسی کے ملازمين کو دی جانی والی مبينہ "غير قانونی اور غير معمولی" مراعات اور سہوليات کے حوالے سے جو بے شمار الزامات اور کہانياں بيان کی جا رہی ہيں ان کا حقائق سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ کچھ معاملات ميں حکومت پاکستان کی جانب سے دی جانے والی سفارتی سہوليات کو بھی بالکل غلط انداز ميں پيش کيا جا رہا ہے۔

ميں
اس ضمن میں آپ کو اپريل 14، 1961 کو ويانا ميں سفارتی تعلقات کے ضمن ميں متفقہ قرارداد اور اس کے آرٹيکل 21 کا حوالہ دوں گا۔
http://www.unog.ch/80256EDD006B8954/(httpAssets)/7F83006DA90AAE7FC1256F260034B806/$file/Vienna%20Convention%20(1961)%20-%20E.pdf


اس آرٹيکل کی رو سے يہ واضح ہے کہ ممبر ممالک پر يہ لازم ہے کہ وہ سفارتی مشنز کو مناسب سہوليات فراہم کرنے کے لیے غير ممالک کی حکومتوں کو ہر ممکن مدد فراہم کريں گے۔ ميزبان ملک "يا تو اپنی حدود کے اندر مہمان ملک کو سفارتی مشن کی ضرورت کے مطابق زمين کے حصول ميں معاونت کرے يا پھر کسی دوسری صورت ميں رہائش کے حصول ميں مدد فراہم کرے"۔

ميں يہ بھی نشاندہی کر دوں کہ پاکستان کا نام ان ممالک ميں شامل ہے جن کی جانب سے اقوام متحدہ کے سيکرٹری جرنل کو ويانا ميں سفارتی تعلقات کے حوالے سے اجلاس کے انعقاد کے لیے کہا گيا تھا۔

اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں توسيع، کراۓ کے مکانوں کا حصول، اور اس ضمن میں حکومت پاکستان کی جانب سے دی جانے والی اجازت اور سہوليات ان متفقہ اور رائج قوانين اور قواعد وضوابط کے عين مطابق ہے جو کئ دہائيوں سے موجود ہیں۔ پاکستانی سفارت کار بھی امريکہ اور ديگر بيرون ممالک ميں انھی سفارتی قوانين کے مطابق سہوليات حاصل کرتے ہیں۔

اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کے حجم اور اس ضمن ميں خرچ کی جانے والی "خطير" رقم کے حوالے سے کافی کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے۔ ليکن يہ بات اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے کہ اس معاملے ميں امريکی ٹيکس دہندگان کی جو رقم خرچ کی جا رہی ہے اس کی باقاعدہ منظوری کانگريس کی جانب سے دی گئ ہے۔ يہ کوئ خفيہ منصوبہ نہيں ہے جسے کسی جری صحافی نے اپنی پيشہ وارانہ صلاحيتوں کو بروۓ کار لاتے ہوۓ ڈھونڈھ نکالا ہے۔

يہ سارا منصوبہ اور اس سے متعلق معلومات امريکی حکومت اور ميزبان حکومت کی باہمی رضامندی سے سرکاری طور پر منظور شدہ اور دستاويزی شکل ميں ريکارڈ کا حصہ ہے۔

ابتدا ميں اس منصوبے کے لیے 800 ملين ڈالرز کی درخواست کی گئ تھی۔ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے بجٹ دستاويزات کے مطابق اس منصوبے ميں 111 ملين ڈالرز 330 ارکان پر مشتمل دفتر کے قيام، 197 ملين ڈالرز 156 مستقل اور 80 عارضی رہائش گاہوں اور 405 ملين ڈالرز براہ راست سفارت خانے کی عمارت کے ليے مختص کيے گۓ ہيں۔

يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ امريکی سفارت خانے کی تعمير پر جو رقم خرچ ہو گی وہ بھی براہراست مقامی مزدوروں، ٹھيکيداروں اور مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا سبب بنے گی۔

اس کے علاوہ امريکہ ميں موجود پاکستانی سفارت کار بھی ديگر غير ملکی سفارت کاروں کی طرح نيويارک اور واشنگٹن ميں عمارات کرا‎ۓ پر ليتے رہتے ہيں۔

ويسے آپ کی معلومات ميں اضافے کے ليے نشاندہی کر دوں کہ واشنگٹن ميں پاکستانی سفارت خانہ بھی سال 2012 ميں تعمير وتزئين کے مرحلے سے گزر چکا ہے۔

http://www.panoramio.com/photo/95983822

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu


 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
http://ummat.net/2016/06/29/news.php?p=news-01.gif

@فواد صاحب یہ کیا ہے ؟ لیکن مجھے علم ہے میرے سابقہ لنکس کی طرح اس کا جواب بحی نہیں ملے گا

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ دعوی يا تاثر کہ پوری قوم اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں توسيع کے منصوبے کے خلاف ہے خاصی حيران کن ہے کيونکہ اسلام آباد ميں سٹی ڈيوليمپنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے سفارت خانے کی تعمير نو اور وسعت کے منصوبے کی باقاعدہ تحريری طور پر منظوری دی تھی۔

اس سرکاری دستاويز کا لنک پيش ہے۔




يہ معاملہ بند دروازوں کے پيچھے طے نہيں کر ليا گيا تھا۔ ميڈيا کو اس منصوبے کے بارے ميں مطلع کيا گيا تھا اور سی ڈی اے حکام کی جانب سے سفارت خانے کو جاری کيے جانے والے اين او سی کی خبر مقامی ميڈيا ميں اجاگر بھی کی گئ تھی۔

اس کی ايک مثال



اس معاملے پر آپ پاکستان کے سابق وزير خارجہ شاہ محمود قريشی کا بيان بھی پڑھيں جو اس وقت ايک منتخب جمہوری حکومت کی نمايندگی کر رہے تھے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
Top