فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
جو راۓ دہندگان اس بات پر بضد ہيں کہ پاکستانی حکومتوں ميں فيصلہ ساز عناصر اور عسکری قيادت محض امريکی حکومت کے اشاروں پر انحصار کرتی ہے، وہ اس حقيقت کو نظرانداز کر رہے ہيں کہ نيٹو کی آمدورفت سے متعلقہ راستوں پر سات ماہ سے زيادہ عرصے تک بندشيں لگائ گئ تھيں اور امريکی حکومت کی اعلی ترين قيادت کی جانب سے تواتر کے ساتھ ملاقاتوں سميت انتھک سفارتی کاوشوں کے باوجود ہم اپنی مبينہ "کٹھ پتليوں" کو منانے ميں ناکام رہے تھے جس کی پاداش ميں ہميں کئ ملين ڈالرز کا نقصان بھی ہوا تھا اور پڑوسی افغانستان ميں ہماری کاوشوں کو بھی زک پہنچی تھی۔
اور جو بدستور اس ناقابل فہم سوچ کی تشہير کرتے رہتے ہيں کہ پاکستان ميں قيادت بغير کسی پس وپيش کے ہماری ہر بات مان ليتی ہے انھيں چاہیے کہ واقعات کے اس تسلسل کا بغور جائزہ ليں جو کيری لوگر بل کے وقت پيش آۓ تھے جب کئ ہفتوں تک دونوں ممالک کے مابين سفارتی تعلقات جمود کا شکار رہے تھے تاوقتيکہ پاکستان ميں تمام فريقين کے خدشات اور تحفظات دور نہيں کر ديے گۓ۔
جہاں تک ان بے بنياد الزامات کا تعلق ہے کہ کسی بھی شخصيت سے قطع نظر پاکستان کی عسکری قيادت ہماری ہدايات پر عمل کرتی ہے تو اس ضمن ميں آپ کو سال 2007 ميں ہونے سوات معاہدے کا حوالہ دينا چاہوں گا جب ہماری واضح کردہ پاليسی اور عوامی سطح پر پيش کردہ تحفظات کے باوجود پاکستان کی سول اور عسکری قيادت نے جانی مانی دہشت گرد تنظيموں کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کا فيصلہ کيا تھا۔
چاہے وہ وزيرستان ميں فوجی آپريشن کے وقت کا تعين يا اس کے دائرہ کار کا معاملہ ہو، حقانی نيٹ ورکس کے حوالے سے ہمارے تحفظات ہوں، حافظ سعيد کا ايشو ہو يا دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے، کسی بھی غير جانب دار سوچ کے حامل شخص کے ليے يہ واضح ہونا چاہيے کہ دونوں ممالک کے مابين مضبوط اور ديرپا اسٹريجک تعلقات کے باوجود ہمارے تعلقات کی نوعيت کو "آقا اور غلام" سے ہرگز تعبير نہيں کيا جا سکتا ہے۔
بلکہ حقائق تو اس سے کوسوں دور ہيں۔
ايسے بہت سے مواقعے آۓ ہيں جب دونوں شراکت داروں ميں کسی مخصوص ايشو کے حوالے سے يا تو عدم اتفاق پايا گيا ہے يا مختلف نقطہ نظر پيش کيا گيا ہے۔ ايک باہم سفارتی تعلق ميں دونوں مساوی شراکت دار کسی ايسے حل کی کوشش کرتے ہيں جو تمام فريقين کے ليے فائدہ مند ہے۔ يہ عمل نا تو نقصان دہ ہے اور نا ہی ايسا کہ جس کی کوئ نظير نہيں ملتی۔
کئ مواقعوں پر باہم گفت وشنيد اور دونوں حکومتوں کے اہلکاروں کے مابين تعميری بات چيت کے ادوار کے نتيجے ميں ايسے معاملات طے پاۓ ہيں جو دونوں ممالک کے ليے پائيدار اسٹريجک مفادات کا سبب بنے ہيں۔
ليکن ان سفارتی کاوشوں، ملاقاتوں اور بات چيت کے عمل کو کسی بھی فريق کے ليے کبھی بھی "ڈکٹيشن" يا "ہتھيار ڈالنے" سے تعبير نہيں کيا جا سکتا ہے۔
ہم نے ہميشہ واضح طور پر اس بات پر زور ديا ہے کہ پاکستان اور امريکہ اسٹريجک اتحادی ہيں جو ايک مشترکہ دشمن کے خلاف نبردآزما ہيں۔ پاکستان کی سول اور عسکری قيادت کے ساتھ ہمارے تعلقات کا مقصد بات چيت کے ذريعے دونوں ممالک کے درميان عدم اعتماد کو کم کرنے اور فاصلے دور کرنے کے ليے سفارتی ذرائع کا حصول ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu