• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ايک اور امريکی منصوبہ

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اس کالم ميں امريکی فوج ميں پڑھاۓ جانے والے جس کورس کا حوالہ ديا گيا ہے اس ضمن ميں بغير کسی پس وپيش کے يہ واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ اس قسم کا تربيتی مواد نا صرف يہ کہ قابل اعتراض اور علمی طور پر غير ذمہ داری کے زمرے ميں آتا ہے بلکہ مذہبی آزادی اور ثقافتی رواداری کے حوالے سے امريکی اقدار کے منافی اور امريکی پاليسيوں سے بھی متصادم ہے۔

يہ باور کروانا ضروری ہے کہ سينير فوجی قيادت کی توجہ اس تربيتی مواد کی جانب ايک امريکی طالب علم نے ہی کروائ کيونکہ اسے مواد کے قابل اعتراض ہونے کے حوالے سے تحفظات تھے۔ جو انسٹرکٹر اس کورس کے ذمہ دار تھے انھيں ان کی تربيتی ذمہ داری سے ہٹا ديا گيا ہے۔ امريکی فوج اس امر پر بھی توجہ مرکوز کيے ہوۓ ہے کہ اس کورس کی منظوری کيسے اور کيونکرعمل ميں آئ اور کن وجوہات کی بنا پر اس مواد پر مبنی کورس تشکيل ديا گيا۔

اس واقعے کے منظر عام آنے کے بعد امريکی جوائنٹ چيف آف سٹاف کے چيرمين نے يہ حکم جاری کيا تھا کہ امريکی فوجی تربيت گاہوں ميں جاری تمام کورسز کا ازسر نو تفصيلی جائزہ ليا جاۓ تا کہ اس بات کو يقينی بنايا جا سکے کہ کوئ بھی قابل اعتراض مواد تربيت گاہوں کا حصہ نا بن سکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
تیسری بات آپ نے یہ تو بتا دیا کہ کاغذاتی طور پر اس کی اجازت ہے لیکن سفارتی عملی کی تعداد کے بارے میں مکمل غلط بیانیاں کر رہے ہیں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ہم اس بات کی اہميت کو تسليم کرتے ہيں کہ امريکی امداد اور متعلقہ ترقياتی منصوبوں کے مثبت اثرات عام عوام تک پہنچانے کے لیے فعل اور اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔ يہی وہ ضرورت تھی جس کے پيش نظر اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں توسيع اور عملے ميں اضافے کا فيصلہ کيا گيا۔

بدقسمتی سے پاکستان ميں ميڈيا کے کچھ عناصر نے ہزاروں امريکی مرينز کی اسلام آباد ميں موجودگی کی بے بنياد اور فرضی کہانی کو لے کر طوفان کھڑا کر ديا۔ کسی نے بھی اس بات کا ذکر نہيں کيا کہ 1200 سے زائد پاکستانی بھی وہاں پر کام کريں گے۔ پاکستانی اخبارات کی اس ضمن ميں سرخيوں کو اگر معيار بنايا جاۓ تو اس مناسبت سے تو کسی امريکی اخبار ميں بھی يہ سرخی بنائ جا سکتی ہے کہ امريکی سفارت خانے ميں 1200 پاکستانی اپنا قبضہ جمانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔

جہاں تک سفارت خانے کی توسيع اور اس کو ملٹری بيس ميں تبديل کرنے کے حوالے سے خبروں کا تعلق ہے تو اس ضمن ميں آپ کی توجہ سابق امريکی عہديدار رچرڈ ہالبروک کے اس بيان کی جانب دلواؤں گا جو انھوں نے پاکستان کے دورے کے دوران جماعت اسلامی کے رہنما لياقت بلوچ سے ملاقات کے بعد ديا تھا۔

"ميں نے ڈاکٹر بلوچ اور ان کے ساتھيوں کو دعوت دی ہے کہ وہ کسی بھی وقت امريکی سفارت خانے کا دورہ کر کے تعميراتی منصوبوں کے بليو پرنٹس اور عملے کی جانچ پڑتال کر سکتے ہيں۔ اس معاملے ميں ہميں کچھ بھی خفيہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے"۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فائلوں کا پیٹ بھرنے سے ایک غلط کام کا جوا ز نہیں بنتا کہ اور دوسری بات یہ کہ اتنے معصوم آپ بھی نہیں ہیں کہ یہ نہ جانتے ہوں کہ اس کی آڑ میں کتنے کام غیر اعلانیہ کیے جاتے ہیں
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
کچھ دوستوں نے مختلف فورمز پر اکثر يہ سوال بھی اٹھايا ہے کہ آخر امريکی سفارت خانے ميں توسيع کی ضرورت ہی کيوں پيش آئ جبکہ سفارت خانہ تو محض ويزے جاری کرنے تک ہی محدود ہوتا ہے۔

ميرے ليے يہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ کچھ لوگ پاکستان ميں امريکی امداد کی درست ترسيل کے ضمن ميں کی جانے والی اضافی کاوشوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہيں۔ کيا يہ درست نہيں ہے کہ فورمز پر اکثر دوستوں نے ماضی ميں مجھ سے اس بات پر بحث کی ہے کہ مختلف ترقياتی منصوبوں کے ضمن ميں پاکستان کو دی جانے والی امداد بے وقعت اور نقصان دہ ہے کيونکہ مناسب انتظامی ڈھانچے اور نگرانی کی عدم موجودگی ميں امداد کا بڑا حصہ کرپشن اور اقربا پروری کی نذر ہو جاتا ہے؟ ميرے خيال میں اس ضمن ميں اعتراض تنقید براۓ تنقيد کے ضمن ميں آتا ہے۔

ميں واضح کر دوں کہ سفارت خانے کا مقصد محض ويزوں کے اجراء يا مختلف منصوبوں کے ضمن ميں امريکی امدادی رقوم کی تقسيم اور نگرانی تک ہی محدود نہيں ہے۔ سفارت خانہ دراصل ايک مستقل سفارتی مشن ہوتا ہے جس کا مقصد دونوں ممالک کے مابين باہمی مفادات کے حصول کے ليے تعلقات استوار کرنا ہوتا ہے۔

امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے تعلق کی بنا پر مجھے يہ موقع ملتا ہے کہ ميں اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کی روزمرہ کی سرگرميوں اور تعمير و ترقی سے متعلق مختلف ترقیاتی منصوبوں سے آگاہ رہتا ہوں۔

اسی طرح کے اقدامات اور منصوبے اس روزمرہ کی سفارتی کوششوں کا حصہ ہيں جن کا مقصد وسيع بنيادوں پر باہم اشتراک عمل سے معيشت، ثقافت، سيکورٹی اور سياسی دائرے ميں باہم اہميت کے معاملات ميں دونوں ممالک کے مابين تعلقات کی خليج کو کم کرنا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
کیونکہ امریکہ کی یہ تاریخ رہی ہے کہ پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپتا رہا ہے
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ اور پاکستان کے تعلقات اور تاريخی تناظر پر يکطرفہ راۓ اور يہ تاثر دينے کی بجاۓ کہ امريکہ شروع دن سے پاکستان کے خلاف سازشوں ميں مصروف ہے، بانی پاکستان قائد اعظم کی فروری 26 1948 کو کی گئ تقرير کے يہ الفاظ بھی مدنظر رکھيں

"اگرچہ پاکستان ايک نئ رياست ہے ليکن امريکی اور پاکستانی عوام کے مابين تجارت اور کاروبار کے حوالے سے تعلقات سو سال سے بھی زيادہ پرانے ہيں۔ يہ تعلقات دو عالمی جنگوں کے دوران پہلے سے زيادہ مضبوط اور براہراست استوار ہو گۓ اور خاص طور پر حاليہ دور ميں دوسری جنگ عظيم کے دوران جب دونوں طرف کے عوام نے شانہ بشانہ جمہوريت کے دفاع اور اپنے حق خوداراديت کے حصول کے ليے تاريخی کاوشيں کر کے کاميابياں حاصل کيں۔ آپ کے ملک ميں جمہوريت کی عملی شکل اور مسلسل تربيت، نسل در نسل مشعل راہ ثابت ہوئ ہے اور اسی بدولت ہماری جيسی قوموں کے ليے توانا جذبے کا سبب بنی ہے جو آزادی اور غير ملکی طاقتوں کے غلبے سے نجات کے ليے کاوشيں کر رہی ہيں"۔

قوم کے معمار کے يہ الفاظ ان دانشوروں اور قائدين کی مشترکہ سوچ اور خيالات کو واضح کر رہے ہيں جو دونوں ممالک کے مابين ايسے تعلقات استوار کرنے کے خواہاں تھے جو اعتماد، شفافيت اور امريکہ اور پاکستان کے عوام کے باہمی مفادات کو فروغ دينے ميں معاون ثابت ہوں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
سیانے کہتے ہیں؛
امریکا کی اگاڑی سے بھی بچو اور پچھاڑی سے بھی
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
اگر مفروضے کے طور پر اس بات کو درست تسليم کر ليا جاۓ تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ اگر امريکی حکومت اتنی طاقت ور اور بااثر ہے کہ دنيا کے کسی بھی ملک کے سياسی، معاشی اور معاشرتی نظام کو تبديل کر سکتی ہے تو تصور کريں کہ امريکی حکومت، امريکی صدر اور امريکی ايجنسيوں کی طاقت اور اثر رسوخ امريکہ کے اندر کتنا زيادہ ہو گا۔ ظاہر ہے کہ طاقت اور اختيارات کا آغاز تو آپ کے اپنے گھر سے ہوتا ہے۔ اس مفروضے کے پيش نظر تو امريکی حکومتی اہلکاروں اور امريکی صدر کے اختيارات اور پاليسيوں کو امريکہ کے اندر چيلنج کرنا ناممکن ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جو انٹيلی جينس ايجنسياں دنيا کے کسی بھی ملک کی تقدير بدل سکتی ہيں ان کی موجودگی ميں امريکہ کے اندر کسی بھی قسم کے جرم کا ارتکاب قريب ناممکن ہوگا۔ ہم سب جانتے ہيں کہ حقيقت يہ نہيں ہے۔ آپ امريکہ کی تاريخ اٹھا کے ديکھ ليں،آپ کو ايسے انگنت کيس مليں گے جس ميں امريکی صدر سميت انتہائ اہم اہلکاروں کو نہ صرف يہ کہ احتساب کے عمل سے گزرنا پڑا بلکہ عدالت کے سامنے پيش ہو کر اپنے اقدامات کی وضاحت بھی پيش کرنا پڑی۔

حقيقت يہ ہے کہ امريکی حکومت اپنے ہر عمل کے ليے جواب دہ ہے۔ امريکہ کا آئين اس بات کو يقينی بناتا ہے کہ طاقت اور اختيارات محض چند ہاتھوں تک محدود نہ رہيں۔ ہر واقعے کو محض "بيرونی ہاتھ" اور "امريکی سازش" قرار دے کر اپنی قومی ذمہ داريوں کو نظرانداز کرنا ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے ليکن اس کا حقيقت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کيا آپ ايمانداری سے يہ سمجھتے ہيں کہ امريکہ اور پاکستان کی حکومتوں کے درميان کسی بھی قسم کے سفارتی يا عملی تعلقات موجود ہوتے اگر ہم واقعی دانستہ بغير کسی منطق اور وجہ کہ پاکستانی بچوں اور شہريوں کو نشانہ بنا کر ان کے قتل عام ميں ملوث ہوتے؟

دونوں ممالک کی سول اور فوجی قيادت کيونکر وسائل کے اشتراک، فوجی سازوسامان کی ترسيل اور اس کے ساتھ ساتھ اينٹيلی جينس، تربيت اور حکمت عملی کے تبادلے کے عمل ميں شراکت دار کی حيثيت سے شامل ہو سکتی ہے اگر ايک فريق مبینہ طور پر انتہائ ناقابل فہم انداز ميں معصوم شہريوں کو نشانہ بنا رہا ہے؟

ميں واضح کر دوں کہ امريکی حکومت بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کے درپے ہرگز نہيں ہے۔ میں نے يہ بات بارہا کہی ہے کہ دانستہ عام شہريوں کی ہلاکت سے امريکہ کو فوجی، سياسی اور اسٹريجک سطح پر نا تو کوئ فائدہ حاصل ہوتا ہے اور نا ہی يہ طرزعمل ہماری قدروں سے ميل کھاتا ہے۔

آپ يہ چاہتے ہيں کہ میں اس بحث کے ايک پہلو پر توجہ مرکوز رکھوں اور باقی جہتوں کو نظرانداز کر دوں۔ ليکن کسی بھی موضوع پر تعميری اور سہل حاصل گفتگو کے لیے يہ ضروری ہوتا ہے کہ آپ دونوں جانب کے فريقین کے نقطہ نظر اور حقائق کو سامنے رکھيں تا کہ مسلۓ کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ آپ کو اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ بے گناہ انسانی جانوں کے ضياع پر اپنے غم و غصے کا اظہار کريں۔ ليکن اس ضمن میں حتمی راۓ قائم کرنے سے پہلے آپ کو يہ بات بھی مدنظر رکھنی ہو گی کہ عالمی برادری بشمول امريکی اور پاکستانی حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے نتيجے میں کتنے بے گناہ انسانوں کو بچانا ممکن ہو سکا۔

ذرا تصور کريں کہ وہ تمام دہشت گرد جو پاکستان کے اندر گرفتار يا ہلاک کيے جا چکے ہيں، اگر ان کے خلاف کوئ کاروائ نہ کی جاتی اور وہ آج بھی بلا روک ٹوک پاکستان کے اندر کم سن بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکميل کے ليے خود کش حملہ آور بنانے میں مصروف ہوتے اور پاکستان کے اہم شہروں ميں بغیر کسی روک ٹوک کے دہشت گردی کرنے کے لیے آزاد ہوتے تو اس کے نتيجے ميں کتنے اور معصوم پاکستانی شہری لقمہ اجل بنتے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ ان دہشت گردوں کو بلا روک ٹوک اپنی کاروائياں جاری رکھنے کی اجازت دينا دانشمندانہ فيصلہ گردانا جا سکتا ہے؟

باوجود اس کے کہ امريکہ اور پاکستان کے مابين بعض معاملات پر بحث اور باہم اہميت سے متعلق طريقہ کار کے حوالے سے نقطہ نظر ميں اختلاف موجود ہے ليکن اس کے باوجود ہم مشترکہ مقاصد کے حصول اور پاکستان سميت خطے کی مجموعی سيکورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے کے ليے مل کر کام کرنے کے ليے پرعزم ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ اور پاکستان کے تعلقات اور تاريخی تناظر پر يکطرفہ راۓ اور يہ تاثر دينے کی بجاۓ کہ امريکہ شروع دن سے پاکستان کے خلاف سازشوں ميں مصروف ہے، بانی پاکستان قائد اعظم کی فروری 26 1948 کو کی گئ تقرير کے يہ الفاظ بھی مدنظر رکھيں

"اگرچہ پاکستان ايک نئ رياست ہے ليکن امريکی اور پاکستانی عوام کے مابين تجارت اور کاروبار کے حوالے سے تعلقات سو سال سے بھی زيادہ پرانے ہيں۔ يہ تعلقات دو عالمی جنگوں کے دوران پہلے سے زيادہ مضبوط اور براہراست استوار ہو گۓ اور خاص طور پر حاليہ دور ميں دوسری جنگ عظيم کے دوران جب دونوں طرف کے عوام نے شانہ بشانہ جمہوريت کے دفاع اور اپنے حق خوداراديت کے حصول کے ليے تاريخی کاوشيں کر کے کاميابياں حاصل کيں۔ آپ کے ملک ميں جمہوريت کی عملی شکل اور مسلسل تربيت، نسل در نسل مشعل راہ ثابت ہوئ ہے اور اسی بدولت ہماری جيسی قوموں کے ليے توانا جذبے کا سبب بنی ہے جو آزادی اور غير ملکی طاقتوں کے غلبے سے نجات کے ليے کاوشيں کر رہی ہيں"۔

قوم کے معمار کے يہ الفاظ ان دانشوروں اور قائدين کی مشترکہ سوچ اور خيالات کو واضح کر رہے ہيں جو دونوں ممالک کے مابين ايسے تعلقات استوار کرنے کے خواہاں تھے جو اعتماد، شفافيت اور امريکہ اور پاکستان کے عوام کے باہمی مفادات کو فروغ دينے ميں معاون ثابت ہوں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

جی بالکل پاکستانی قیادت نے ہمیشہ ایسے بیانات نیک نیتی کے ساتھ ہی دیے لیکن امریکہ نے ہمیشہ اس نیک نیتی کو غلط استعمال کیا
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
امریکہ کا 2015 کا جنگی بجٹ 598 ملین ڈالر تھا جو کہ پورے ملک کے بجٹ کا 94 فیصد تھا۔ کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ یہ بجٹ کہاں خرچ ہو رہا تھا؟ اس بجٹ میں کیا کیا شامل تھا؟ کیا تمام فوجیوں کو دن رات عیاشیاں کروائی جاتی تھیں؟
یہ اعداد و شمار یہاں سے لیے گئے ہیں؟
https://www.nationalpriorities.org/campaigns/military-spending-united-states/

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو آپ کو اپنے اعداد وشمار درست کرنے کی ضرورت ہے۔ سال 2015 ميں عسکری اخراجات امريکی وفاق کے صوابديدی خرچ کا 54 فيصد تھے نا کہ 94 فيصد۔

يہ رہا اس کا لنک

https://www.nationalpriorities.org/campaigns/military-spending-united-states/

صوابديدی خرچ وفاقی بجٹ کا صرف 30 فيصد ہوتا ہے (64 فيصد لازمی، 6 فيصد وفاقی قرض پر سود جہاں لازمی خرچ کا بڑا حصہ سوشل سيکورٹی اور ميڈی کير سے متعلق ہے) چنانچہ 54 فيصد صوابديدی خرچ دراصل کل وفاقی خرچ کا محض 15 فيصد بنتا ہے۔

علاوہ ازيں جب آپ امريکہ کے عسکری بجٹ کو اجاگر کرتے ہيں تو پھر آپ اس بات کو بھی مدنظر رکھيں کہ دفاعی بجٹ کا ايک بڑا حصہ ہمارے بہت سے شراکت داروں اور اتحاديوں کی دفاعی ضروريات کو پورا کرنے کے ليے بھی خرچ ہوتا ہے جو ہماری جانب سے دی جانے والی امداد، سازوسامان، تربيت اور لاجسٹک اسپورٹ پر انحصار کرتے ہيں۔

اس تناظر ميں سال 2014 ميں بيرونی فوجی اعانت وصول کرنے والے سرفہرست ممالک کی لسٹ پيش ہے۔

اسرائيل – 1۔3 بلين ڈالرز
مصر – 3۔1 بلين ڈالرز
عراق – 300 ملين ڈالرز
جارڈن – 300 ملين ڈالرز
پاکستان – 280 ملين ڈالرز

آپ ديکھ سکتے ہيں کہ اس لسٹ ميں 5 ميں سے 4 اسلامی ممالک ہيں۔

صرف يہی نہيں بلکہ اگر ہم خطے کی سطح پر بھی امريکی امداد کی تقسيم کا تجزيہ کريں تو آپ پر واضح ہو گا کہ گزشتہ برس امريکہ کی کل فوجی امداد کا 86 فيصد ان دو خطوں پر خرچ کيا گيا

مشرق وسطی – 64 فيصد
افريقہ – 23 فيصد

يہ نقطہ بھی قابل توجہ ہے کہ سال 2014 ميں امريکہ نے بيرونی امداد کی مد ميں جو 35 بلين ڈالرز خرچ کيے تھے اس ميں صرف 17 فيصد یعنی کہ 9۔5 بلين ڈالرز عسکری امداد کی مد ميں تھے۔

يہ تاويل کہ امريکہ عالمی سطح پر اور خاص طور پر اسلامی ممالک ميں جنگيں برپا کرنے کا خواہش مند ہے، اس ليے بھی غلط ثابت ہو جاتی ہے کيونکہ اگر اقتصادی امداد اور مالی اعانت کی مد ميں امريکہ کی جانب سے خرچ کی جانے والی رقم کا جائزہ ليں تو آپ پر واضح ہو جاۓ گا کہ امريکہ دنيا بھر کے عام شہريوں کے حالات زندگی کو بہتر کرنے اور جمہوری اداروں کے استحکام کے ليے انتہائ کليدی کردار ادا کر رہا ہے۔

درج ذيل ميں نقشوں کے ذريعے ان ممالک کی نشاندہی کی گئ ہے جنھوں نے سال 2014 ميں امريکہ سے معاشی امداد حاصل کی ہے۔

http://howmuch.net/articles/countries-scaled-to-the-economic-aid-they-receive-from-us

ايک مرتبہ پھر مشرق وسطی اور اسلامی ممالک اس لسٹ ميں سرفہرست ہيں۔ ان ممالک کو دی جانے والی امريکی امداد کی تفصيل پيش ہے

اسرائيل – 1۔3 بلين ڈالرز
مصر – 5۔1 بلين ڈالرز
افغانستان – 1۔1 بلين ڈالرز
جارڈن – 1 بلين ڈالرز
پاکستان – 933 ملين ڈالرز

جنوبی اور وسط ايشياء ميں دی جانے والی امداد کا بڑا حصہ جن دو ممالک کو ديا گيا وہ پاکستان اور افغانستان ہيں۔ مجموعی طور پر خطے کے ليے مختص کی جانے والی 1۔15 بلين ڈالرز کی امريکی امداد ميں سے قريب 14 بلين ڈالرز انھی دو ممالک کو ديے گۓ جس کے سبب 2012 ميں پوری دنيا ميں جن ممالک کو امريکی امداد فراہم کی گئ ان ميں يہی دو ممالک سرفہرست ہيں۔

سال 2008 سے سال 2012 کے درميان جن ممالک کو سب سے زيادہ امريکی امدادا فراہم کی گئ، ان کی تفصيل پيش ہے۔

http://abcnews.go.com/Politics/OTUS/fullpage/top-10-us-foreign-aid-recipients-17534761

يقينی طور پر امريکی حکومت اپنے خطير وسائل خرچ نا کر رہی ہوتی اگر ہمارا مقصد محض ان ممالک ميں جنگيں برپا کرنا ہوتا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 
Top