اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
یعنی آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آج امریکہ میں نسل پرستی ختم ہو چکی ہے؟ميں نے يہ بات بارہا کہی ہے کہ نا تو ہم عقل کل ہيں اور نا ہی ہماری تاريخ غلطيوں سے پاک ہے۔ تاہم ايک تعميری تجزيہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ رپورٹ کی جانے والی خبروں اور تاريخی واقعات کو ان کے درست تناظر ميں پيش کريں۔ مثال کے طور پر اگر کوئ امريکی معاشرے ميں نسل پرستی جيسے معاملے کی نشاندہی کرتا ہے اور اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ کلو کليس کلين امريکی تاريخ کا حصہ رہا ہے تو پھر ايک تعميری اور معنی خيز بحث کے ليے اس حقيت کا ادارک کرنا بھی ضروری ہے کہ اسی امريکہ ميں آج باراک اوبامہ صدر ہيں۔
http://www.nydailynews.com/news/national/king-racism-not-decline-hate-crimes-deadly-article-1.2430859
یہ پڑھیے ذرا۔ دل خوش ہوگا۔ رہ گئی بات اوباما کی صدارت کی تو اسی آرٹیکل کا یہ جملہ بھی پڑھ لیجیے:
More than 65 million people voted for President Obama in 2012, but we’re fooling ourselves if we think casual racists or white supremacists were in that number.
If they voted, they were among the 61 million who voted against him.
While it’s now legal for black folk to shop or eat anywhere in America, the true cost of melanin is as high as ever.
ہاں اگر آپ یہ کہیں کہ یہ معتبر خبر نہیں ہے، غیر مستند ہے وغیرہ تو ہمیں اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم امریکہ میں نہیں رہتے نہ وہاں کی خبریں پڑھتے ہیں۔ ہمارا کام صرف یہ دکھانا تھا کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ نسل پرستی اب بھی موجود ہے۔
معذرت چاہتا ہوں۔ ہم امریکہ سے اتنے مرعوب یا متاثر نہیں ہیں کہ اسے مکمل کنٹرول کرنے والا سمجھ لیں۔ لیکن یہ بھی ضرور ہے کہ امریکہ دوسرے ممالک کے معاملات میں دخل ضرور دیتا ہے۔يقینی طور پر اگر مختلف فورمز پر امريکی ناقدين کے الزامات کے مطابق امريکہ کے پاس کوئ ايسی جادو کی چھڑی ہوتی جس کی بدولت ہم ہزاروں ميل دور ايسے معاشروں ميں مذہبی اور فرقہ وارانہ کشيدگی کو ہوا دينے کی صلاحيت رکھتے جن کی ثقافت اور معاشرت بھی ہم سے ميل نہيں کھاتی، تو پھر ہم اسی صلاحيت اور بے پناہ طاقت کو خود اپنے ہی معاشرے ميں واقعات کے تسلسل اور نظريات پر قدغن اور پھيلاؤ کے ليے بھی استعمال کرتے۔
يہ دعوی انتہائ غير منطقی ہے کہ ايک جانب تو امريکہ کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور زوال پذير ملک کے طور پر پيش کيا جاۓ اور پھر اسی ملک کو "طاقت کے نشے ميں سرشار" ايک ايسی منہ زور عالمی طاقت کا طعنہ ديا جاۓ جو پوری دنيا ميں کسی بھی ملک کے سياسی، معاشرتی اور معاشی نظام ميں ردوبدل کرنے کے علاوہ اسے مکمل طور پر کنٹرول کرنے کی صلاحيت بھی رکھتا ہو۔
امریکہ کا 2015 کا جنگی بجٹ 598 ملین ڈالر تھا جو کہ پورے ملک کے بجٹ کا 94 فیصد تھا۔ کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ یہ بجٹ کہاں خرچ ہو رہا تھا؟ اس بجٹ میں کیا کیا شامل تھا؟ کیا تمام فوجیوں کو دن رات عیاشیاں کروائی جاتی تھیں؟
یہ اعداد و شمار یہاں سے لیے گئے ہیں؟
https://www.nationalpriorities.org/campaigns/military-spending-united-states/
آپ لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ آپ نے اپنوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ آپ کی این ایس اے نے اتحادی ملک فرانس کی کالوں کو بھی ریکارڈ کرنا شروع کر دیا جس پر آپ کے سفیر کو وہاں طلب کیا گیا:
http://www.france24.com/en/20131021-usa-spy-agency-nsa-recorded-millions-french-phone-calls
آپ کی ایجنسی نے دنیا کے 35 لیڈروں کی کالوں کو ریکارڈ کیا:
https://www.theguardian.com/world/2013/oct/24/nsa-surveillance-world-leaders-calls
کیا اب بھی آپ کہیں گے کہ امریکہ طاقت کے نشے میں مدہوش دوسروں کے معاملات میں مداخلت کرنے والا ملک نہیں ہے؟ جو اپنوں کو بھی نہیں چھوڑتا وہ غیروں کو کیا چھوڑے گا؟