• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ايک اور امريکی منصوبہ

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
کیا یہ امریکی منصوبے اسی خوائش کے مطابق ہی ہیں یا ان منصوبوں کا مقصد ہی مدر ٹریسا کے پیسے خرچ کرنے کی طرح ہے جسکو وہ اپنے دین کی تبلیغ کے لئے استعمال کرتی تھیں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی امداد کے حوالے سے ايک بات واضح کر دوں کہ کتنی امدادی رقم کس شعبے ميں دی جانی ہے اس کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ مذکورہ حکومت کی جانب سے کتنی امدادی رقم کی درخواست کی گئ ہے۔

آپ کے خيال ميں جب پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت، متعدد حکومتی ادارے اور عوامی بہبود پر مامور مختلف نجی تنظيميں سيلاب، زلزلے اور ديگر قدرتی آفات سے نبردآزما ہونے کے ليے امريکی حکومت سے مدد کی درخواست کرتی ہيں تو اس کے جواب ميں ہمارا کيا ردعمل ہونا چاہيے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
3۔اگر فواد صاحب کے مطابق اوپر ایک سچے مسلمان کی تعریف درست ہے تو پھر بتائے کہ کیا امریکہ یا اسکا کوئی اور آقا اس سچے مسلمان کی اس خؤاہش کو افغانستان اور عراق اور شام اور پاکستان میں پوری کرنے دے گا یا نہیں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اگر اس دعوے ميں سچائ ہوتی تو پھر تو امريکی حکومت کے اسلامی دنيا ميں کسی کے بھی ساتھ سفارتی تعلقات نہيں ہونے چاہيے تھے۔ امريکی حکومت دنيا بھر کے ممالک ميں اسلام کے سياسی تشخص کے خاتمے کے مشن پر نہيں ہے۔ اس ضمن میں آپ کو سعودی عرب کی مثال دوں گا جہاں قانونی سازی کے عمل ميں وسيع بنيادوں پر اسلامی قوانين کا اطلاق کيا جاتا ہے۔ يہ درست ہے کہ امريکہ بہت سے قوانين اور روايات سے متفق نہيں ليکن اس کے باوجود سعودی عرب کے عوام اور ان کی حکومت سے امريکہ کے ديرينيہ تعلقات ہيں جو کئ دہائيوں پر محيط ہيں۔

اس وقت دنيا ميں قريب 50 سے زائد اسلامک ممالک ہيں اور ان ميں سے زيادہ تر ممالک سے امريکہ کے باہم احترام کے اصولوں کی بنياد پر دوستانہ تعلقات ہيں۔

يہ سوچ امريکی معاشرے کے بارے ميں سطحی اور محدود سمجھ کی آئينہ دار ہے اور ان اصول اور ضوابط سے آپ کی ناآگہی بھی ظاہر ہوتی ہے جن کی بنياد پر امريکی حکومت اپنی پاليسی مرتب کرتی ہے اور اہم فيصلے کرتی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
دیکھو @فواد صاحب میں نے امریکہ کے روابط کے بارے نہیں پوچھا کہ کن کن ممالک سے اس کے روابط ہیں بلکہ میں نے یہ پوچھا ہے کہ کن کن ممالک میں امریکہ دخل اندازی کرتا ہے
اب میں دوسری طرح کان کو پکڑتا ہوں آپ میرے مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب دیں تاکہ ترتیب وار امریکہ کی پوزیشن کو سمجھا جا سکے

1-آپ مجھے یہ بتائیں کہ افغانستان میں امریکہ کو فوجیں بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ یعنی اسکے لئے آپ کیا دلیل رکھتے ہیں
2-پاکستان کو اس افغانستان کی جنگ کا لازمی حصہ بنانے کی کیا ضرورت تھی اور کیا تک تھی یعنی اسکی دلیل کیا تھی کہ پاکستان کو یہ کہا گیا کہ یا تو اس نائن الیون والی جنگ میں ہمارے ساتھی بنو یا پھر پتھر کے دور میں جانے کے لئے تیار ہو جاؤ کیا اس طرح کسی کو زبردستی اپنی جنگ میں شامل ہونے کا کہا جا سکتا ہے؟

پہلے انکے جواب دے دیں پھر آگے بات چلاتے ہیں
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
پاکستان کو یہ کہا گیا کہ یا تو اس نائن الیون والی جنگ میں ہمارے ساتھی بنو یا پھر پتھر کے دور میں جانے کے لئے تیار ہو جاؤ کیا اس طرح کسی کو زبردستی اپنی جنگ میں شامل ہونے کا کہا جا سکتا ہے؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​


سابق امريکی عہديدار رچرڈ آرميٹج سے منسوب ايک بيان کو بنياد بنا کر اکثر يہ دعوی کيا جاتا ہے کہ امريکہ نے پاکستان کو پتھروں کے زمانے ميں پہنچا دينے کی دھمکی دی تھی۔

اس بات کا حقيقت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

رچرڈ آرميٹج نے اس بات کی سختی سے ترديد کر دی تھی اور واضح کيا تھا کہ ان کی جانب سے ايسی کوئ دھمکی نہيں دی گئ تھی۔ سابق امريکی صدر بش نے بھی واشگاف الفاظ ميں واضح کیا تھا کہ پاکستان کو کسی بھی حوالے سے دھمکی نہيں دی گئ تھی۔

يہ رہا اس حقيقت کا ثبوت

http://www.nbcnews.com/id/14943975/ns/world_news-south_and_central_asia/t/armitage-denies-threatening-pakistan-after/#.Vx-XCPnR9Mw


غلط تاثر اور الفاظ کے مقابلے ميں اعمال حقيقت کو واضح کرتے ہيں۔ گزشتہ ايک دہائ کے دوران امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی عسکری اور سول امداد اور اس ضمن ميں اعداد وشمار کا جائزہ ليں اور پھر اس بات کا فيصلہ خود کريں کہ کيا اس دعوی ميں کوئ سچائ ہو سکتی ہے کہ امريکی حکومت کسی بھی سطح پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سوچ رکھتی ہے۔

سال 2005 ميں زلزلے کے تباہ کاری کے بعد امريکہ کی جانب سے دی جانے والی امداد ہو يا سال 2010 ميں تاريخی سيلاب کے بعد امريکہ کی جانب سے مدد اور تعاون ہو، امريکہ ہميشہ ان ممالک کی فہرست ميں سب سے آگے رہا ہے جنھوں نے مصيبت کی گھڑی ميں پاکستان کے لوگوں کی مدد کی ہے۔

اسی طرح جب عسکری امداد اور دہشت گردی کے عفريت سے نبردآزما ہونے کے ليے پاکستان کی مدد کا سوال آتا ہے تو امريکی حکومت نے گزشتہ ايک دہائ کے دوران کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے ميں پاکستان کو سب سے زيادہ وسائل، لاجسٹک سپورٹ، سازوسامان اور تربيت فراہم کی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
آپ مجھے یہ بتائیں کہ افغانستان میں امریکہ کو فوجیں بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ یعنی اسکے لئے آپ کیا دلیل رکھتے ہیں
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ 911 کا واقعہ القائدہ کی جانب سے کيا جانے والا واحد حملہ نہيں تھا۔ القائدہ نے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کر رکھا تھا۔ دنيا بھر میں ايسے بے شمار واقعات ہوۓ جن میں سفارت خانوں سميت امريکی املاک کو براہراست نشانہ بنايا گيا جس کے نتيجے میں سينکڑوں ہلاکتيں ہوئيں۔ 911 کے واقعات کے بعد بھی قريب دو ماہ کے عرصے ميں کوئ کاروائ نہيں کی گئ تھی۔ اس تمام وقت میں طالبان کو متعدد بار تنبيہہ کی گئ کہ وہ اسامہ بن لادن کو حکام کے حوالے کر ديں۔ تمام تر مذاکرات کی ناکامی کے بعد طاقت کا استعمال ہی واحد آپشن رہ گيا تھا۔

اگر 911 کے واقعات کے بعد بھی امريکہ ردعمل نہ کرتا تو آج القائدہ دنيا کے سامنے پہلے سے کہيں زيادہ بڑی قوت کے ساتھ موجود ہوتی۔ يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکی فوجی کاروائ کے بعد القائدہ کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوا۔

يہ ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ آج اسامہ بن لادن سميت القائدہ کی دو تہائ سے زيادہ قيادت ہلاک يا گرفتار ہو چکی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ القائدہ اپنی اہميت کھو رہی ہے اور موجودہ حالات ميں اس تنظيم کا اصل مقصد اپنے وجود کے بچاؤ کی جدوجہد کرنا ہے۔ اس صورت حال کا تقابل 911 کے واقعات کے چند دن بعد کی کيفيت سے کريں جب القائدہ کی قيادت اپنی "عظيم کاميابی" پر بگل بجا رہی تھی اور اسی پيمانے پر قتل و غارت گاری کے مذيد منصوبے دنيا بھر ميں کرنے کے ليے اپنے پر تول رہی تھی۔ آج اگر ان کے اثر اور قوت میں کمی آئ ہے اور وہ گمنامی کی جانب گامزن ہيں تو اس کی وجہ يہ ہے کہ پوری دنيا نے امريکہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر ان کی سوچ کو مسترد کيا اور اس پر ردعمل کا فيصلہ کيا۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ نے اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کيا جو کہ تہذيب يافتہ اقوام کے لیے مشترکہ خطرے کے طور پر سامنے آئ۔ آپ کے خيال ميں 911 کے واقعات کے بعد کيا ہونا چاہيے تھا۔ قاتلوں کے سامنے گھٹنے ٹيکنا کوئ قابل عمل يا مثبت اقدام نہيں قرار پاتا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امریکی تبادلہ پروگراموں کے پاکستانی شرکاء کی انجمن کے تعاون سے اسکاؤٹس کیمپ کا انعقاد​

اسلام آباد ( ۲۲ ِاگست، ۲۰۱۶ء)__ امریکی تبادلہ پروگراموں میں شرکت کرنے والے پاکستانیوں کی انجمن پاکستان۔یو ایس ایلومنائی نیٹ ورک نے پاکستان بوائے اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کے ساتھ ملکر شکر پڑیاں پارک، اسلام آباد میں ایسوسی ایشن کے ہیڈکوارٹرز میں پاکستانی بوائے اسکاؤٹس کے لئے ۱۹ سے ۲۱ ِاگست تک ایک تین روزہ لیڈرشپ کیمپ کا انعقاد کیا۔

امریکی سفارتخانہ کے قونصلر برائے امور عامہ اور ایگل اسکاؤٹ روب رینز نے افتتاحی تقریب میں پاکستانی اسکاؤٹس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قائدانہ صلاحیتیں، ٹیم ورک ، بیرونی سرگرمیوں کےبنیادی طورطریقے، ابتدائی طبی امداد اور شہری ذمہ داریوں کے حوالے سے مہارتیں برسوں تک آپ اور دوسروں کی زندگیوں میں اہم تبدیلیاں لائیں گی۔

راب رینز نے پاکستانی نوجوانوں کی قائدانہ صلاحیتوں کو نکھارنے کے اقدامات پر بوائے اسکاؤٹس کی چیف کمشنر اور بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر راحیلہ حمید خان درانی کاشکریہ ادا کیا۔ بوائے اسکاؤٹس کی چیف کمشنرامریکی حکومت کے اولین پیشہ ورانہ تبادلہ پروگرام انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) میں شرکت کرچکی ہیں۔

لیڈرشپ کیمپ میں اسکاؤٹس نے ابتدائی طبی امداد، کھیلوں، دریافتوں اور زندگی کی بقاء کے طریقوں سمیت متعدد مہارتوں سے متعلق سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ پاکستان بوائے اسکاٹس ایسوسی ایشن کے نیشنل سیکریٹری زاہد محبوب اور امریکی تبادلہ پروگراموں کے سابق شرکاء سمیت مختلف قائدین نے اسکاؤٹس کی رہنمائی کی۔

امریکہ اور پاکستان میں اسکاؤٹنگ کی مضبوط روایت ایک قدرِ مشترک ہے ۔ دونوں ملکوں میں مشترکہ طو رپر تیس لاکھ سے زائد اسکاؤٹس ہیں جو ایک ہی طرح کی مہارتیں اور اقدار سیکھ رہے ہیں۔

پاکستان۔ یو ایس ایلومنائی نیٹ ورک ایسے طلبا وطالبات اور پیشہ ورماہرین کی انجمن ہے جنہوں نے امریکی حکومت کے مالی تعاون سے چلنے والے تبادلہ پروگراموں میں شرکت کی۔ پورے پاکستان میں ایسے ۲۰ ہزار سے زائد شرکاء کے ساتھ پاکستان۔ یو ایس ایلومنائی نیٹ ورک دنیا کے بڑے ایلومنائی نیٹ ورکس میں سے ایک ہے۔ پاکستان۔ یو ایس ایلومنائی نیٹ ورک باقاعدگی کے ساتھ پاکستان بھر میں سرگرمیوں کا انعقاد کرتا ہے، جن میں سماجی خدمات کے منصوبے، قائدانہ تربیت کی فراہمی، گول میز مباحثے اور علاقے کے لوگوں کی بہبود کی سرگرمیاں شامل ہیں۔ پاکستان۔ یو ایس ایلومنائی نیٹ ورک کے بارے میں مزید جاننے کے لئے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجئے۔

http://www.facebook.com/pakalumni
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
دیکھو @فواد صاحب میں نے امریکہ کے روابط کے بارے نہیں پوچھا کہ کن کن ممالک سے اس کے روابط ہیں بلکہ میں نے یہ پوچھا ہے کہ کن کن ممالک میں امریکہ دخل اندازی کرتا ہے
اب میں دوسری طرح کان کو پکڑتا ہوں آپ میرے مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب دیں تاکہ ترتیب وار امریکہ کی پوزیشن کو سمجھا جا سکے

1-آپ مجھے یہ بتائیں کہ افغانستان میں امریکہ کو فوجیں بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ یعنی اسکے لئے آپ کیا دلیل رکھتے ہیں
2-پاکستان کو اس افغانستان کی جنگ کا لازمی حصہ بنانے کی کیا ضرورت تھی اور کیا تک تھی یعنی اسکی دلیل کیا تھی کہ پاکستان کو یہ کہا گیا کہ یا تو اس نائن الیون والی جنگ میں ہمارے ساتھی بنو یا پھر پتھر کے دور میں جانے کے لئے تیار ہو جاؤ کیا اس طرح کسی کو زبردستی اپنی جنگ میں شامل ہونے کا کہا جا سکتا ہے؟

پہلے انکے جواب دے دیں پھر آگے بات چلاتے ہیں
میں نے دو سوال کیے تھے جواب صرف دوسرے کا لکھا گیا ہے اس جواب کے کھوکھلے پن کو دیکھتے ہیں جیسا کہ اللہ کہتا ہے کہ انکی چالیں مکڑی کیے جالے کی طرح ہوتی ہیں اور مکڑی کے جالے سے کمزور تو کچھ نہیں ہوتا
دوسرا سوال یہ تھا کہ پاکستان کو اس امریکی جنگ کا حصہ کیوں بنایا گیا اور حصہ نہ بننے پہ انکو دھمکی کیوں دی گئی
جواب فواد صاحب نے یہ لکھا تھا کہ
سابق امريکی عہديدار رچرڈ آرميٹج سے منسوب ايک بيان کو بنياد بنا کر اکثر يہ دعوی کيا جاتا ہے کہ امريکہ نے پاکستان کو پتھروں کے زمانے ميں پہنچا دينے کی دھمکی دی تھی۔
اس بات کا حقيقت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔
رچرڈ آرميٹج نے اس بات کی سختی سے ترديد کر دی تھی اور واضح کيا تھا کہ ان کی جانب سے ايسی کوئ دھمکی نہيں دی گئ تھی۔ سابق امريکی صدر بش نے بھی واشگاف الفاظ ميں واضح کیا تھا کہ پاکستان کو کسی بھی حوالے سے دھمکی نہيں دی گئ تھی۔
يہ رہا اس حقيقت کا ثبوت
http://www.nbcnews.com/id/14943975/ns/world_news-south_and_central_asia/t/armitage-denies-threatening-pakistan-after/#.Vx-XCPnR9Mw

بھئی ہمیں ان ثبوت کی ضرورت بالکل نہیں اسکو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں
ایک چینی کے برتن بیچنے والا دکاندار گاہکوں سے کہ رہا تھا کہ یہ ایسی چینی کے برتن ہیں کہ انکو زمین پہ دے ماریں تو بھی نہیں ٹوٹتے تو یک گاہک کہنے لگ کہ کیا ذرا زمین پہ مار کر میں دیکھ لوں تو وہ امریکہ کی طرح ٹھگ دکاندار کہنے لگا کہ نہیں نہیں زمین پہ نہیں مارنا بس یہ یاد رکھ لو کہ یہ زمین پہ مارنے سے نہیں ٹوٹتا تو گاہک کہنے لگا کہ بھئی ہاتھ کنگن کو آرسی کیا جب دعوی کیا تو دکھا تو دو
یہی حالت اس امریکہ کی ہے کہ کہتا ہے کہ ہم پاکستان کو کوئی دھمکی نہیں دیتے تو میں اس گاہک سے پوچھتا ہوں کہ اگر اآج پاکستان امریکہ کا ساتھ بند کر دے افغانستان کا بارڈر کھول دے اور مجاہدین کو معاف کر دے تو ذرا حلف اٹھا کر کہیں کہ کیا امریکہ پاکستان کو چھوڑے گا آپ ذرا کسی بڑے امریکی کا یہ بیان دکھلوا دیں کہ جی پاکستان کو مکمل آزادی حاصل ہے چاہے تو وہ مجاہدین اور القائدہ والوں کو کھلا چھوڑ دے چاہے تو افغان سرحد کو کھلا چھوڑ دے اور پاکستان میں تمام امریکیوں کو نکال دے انکے اڈے ختم کر دے کشمیر میں مجاہدین کی مکمل مدد کرے ہم امریکہ والے انکو کوئی دھمکی نہیں دیں گے اور نہ کوئی ہمارا ردعمل ہو گا

اگر فواد صاحب اس ٹھگ دکاندار کی طرح نہیں ہیں تو میرا یہ چیلنج قبول کر لیں تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ 911 کا واقعہ القائدہ کی جانب سے کيا جانے والا واحد حملہ نہيں تھا۔ القائدہ نے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کر رکھا تھا۔ دنيا بھر میں ايسے بے شمار واقعات ہوۓ جن میں سفارت خانوں سميت امريکی املاک کو براہراست نشانہ بنايا گيا جس کے نتيجے میں سينکڑوں ہلاکتيں ہوئيں۔ 911 کے واقعات کے بعد بھی قريب دو ماہ کے عرصے ميں کوئ کاروائ نہيں کی گئ تھی۔ اس تمام وقت میں طالبان کو متعدد بار تنبيہہ کی گئ کہ وہ اسامہ بن لادن کو حکام کے حوالے کر ديں۔ تمام تر مذاکرات کی ناکامی کے بعد طاقت کا استعمال ہی واحد آپشن رہ گيا تھا۔
اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ نے اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کيا جو کہ تہذيب يافتہ اقوام کے لیے مشترکہ خطرے کے طور پر سامنے آئ۔ آپ کے خيال ميں 911 کے واقعات کے بعد کيا ہونا چاہيے تھا۔ قاتلوں کے سامنے گھٹنے ٹيکنا کوئ قابل عمل يا مثبت اقدام نہيں قرار پاتا۔
دوسرے سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان پہ حملہ کیوں کیا
دلائل مندرجہ ذیل لکھے ہیں
1۔القائدہ نے خالی نئن الیون کا پہلا حملہ نہیں کیا تھا بلکہ اس سے پہلے بھی امریکہ پہ حملے کر چکی تھی
2۔اسامہ کے بارے طالبان کو دو ماہ تک انتباہ کیا گیا کہ فلاں کو ہمارے حوالے کر دو انہوں نے نہیں کیا تو پھر افغانستان پہ حملہ کیا گیا یعنی فواد صاحب کے مطابق بھی افغانستان کا کوئی قصور نہیں تھا سوائے اس کے کہ افغانستان نے امریکہ کے دشمن یعنی اسامہ کو پناہ دی ہوئی تھی
3۔قاتلوں کے سامنے گٹھنے ٹیکنا تہذیب یافتہ کوئی مثبت عمل نہیں ہے ایسا کرنا تہژیب یافتہ قوموں کے لئے خطرے کا باعث تھا

@فواد صاحب مجھے تو اوپر یہی دلائل نظر آئے ہیں جو اوپر میرے پہلے سوال کے جواب میں اآپ نے دیئے ہیں
کیا آپ ان دلائل سے اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان پہ حملہ کرنے کے لئے امریکہ کا پس یہی دلائل ٹھوس دلائل ہیں اور انکی بنیاد پہ وہ افغانستان پہ حملہ کر سکتا تھا

آپ کو یہ چیلنج ہے کہ پہلے ان دلائل یا مزید دلائل کو نمبر وار واضح کریں پھر میں اللہ کی توفیق سے ایک ایک دلائل کی دھجیاں بکھیروں گا کہ یہ مکڑی کے جالوں کی طرح دلائل کے گھر ٹوٹتے چلے جائیں گے ان شاءاللہ
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
میں نے دو سوال کیے تھے جواب صرف دوسرے کا لکھا گیا ہے اس جواب کے کھوکھلے پن کو دیکھتے ہیں جیسا کہ اللہ کہتا ہے کہ انکی چالیں مکڑی کیے جالے کی طرح ہوتی ہیں اور مکڑی کے جالے سے کمزور تو کچھ نہیں ہوتا
دوسرا سوال یہ تھا کہ پاکستان کو اس امریکی جنگ کا حصہ کیوں بنایا گیا اور حصہ نہ بننے پہ انکو دھمکی کیوں دی گئی
جواب فواد صاحب نے یہ لکھا تھا کہ

بھئی ہمیں ان ثبوت کی ضرورت بالکل نہیں اسکو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں
ایک چینی کے برتن بیچنے والا دکاندار گاہکوں سے کہ رہا تھا کہ یہ ایسی چینی کے برتن ہیں کہ انکو زمین پہ دے ماریں تو بھی نہیں ٹوٹتے تو یک گاہک کہنے لگ کہ کیا ذرا زمین پہ مار کر میں دیکھ لوں تو وہ امریکہ کی طرح ٹھگ دکاندار کہنے لگا کہ نہیں نہیں زمین پہ نہیں مارنا بس یہ یاد رکھ لو کہ یہ زمین پہ مارنے سے نہیں ٹوٹتا تو گاہک کہنے لگا کہ بھئی ہاتھ کنگن کو آرسی کیا جب دعوی کیا تو دکھا تو دو
یہی حالت اس امریکہ کی ہے کہ کہتا ہے کہ ہم پاکستان کو کوئی دھمکی نہیں دیتے تو میں اس گاہک سے پوچھتا ہوں کہ اگر اآج پاکستان امریکہ کا ساتھ بند کر دے افغانستان کا بارڈر کھول دے اور مجاہدین کو معاف کر دے تو ذرا حلف اٹھا کر کہیں کہ کیا امریکہ پاکستان کو چھوڑے گا آپ ذرا کسی بڑے امریکی کا یہ بیان دکھلوا دیں کہ جی پاکستان کو مکمل آزادی حاصل ہے چاہے تو وہ مجاہدین اور القائدہ والوں کو کھلا چھوڑ دے چاہے تو افغان سرحد کو کھلا چھوڑ دے اور پاکستان میں تمام امریکیوں کو نکال دے انکے اڈے ختم کر دے کشمیر میں مجاہدین کی مکمل مدد کرے ہم امریکہ والے انکو کوئی دھمکی نہیں دیں گے اور نہ کوئی ہمارا ردعمل ہو گا

اگر فواد صاحب اس ٹھگ دکاندار کی طرح نہیں ہیں تو میرا یہ چیلنج قبول کر لیں تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت نے ہميشہ اس حقيقت کو مانا ہے کہ خطے ميں اس وقت تک پائيدار امن نہيں ہو سکتا جب تک کہ پاکستان بھی اس دور رس حل کا لازم وملزوم حصہ نا ہو جو تمام فريقين کی سلامتی اور سيکورٹی کو يقینی بناۓ۔ ميں آپ کو ياد دلا دوں کہ "ايف پاک" کی اصطلاح اسی سوچ کے ساتھ پيش کی گئ تھی کہ پاکستان کو بھی اس اسٹريجک لائحہ عمل کا حصہ بنايا جاۓ جو دہشت گردی کے خلاف جاری کاوشوں کے ضمن میں مثبت نتائج پيدا کر سکے۔

کسی بھی قوم يا ملک کو "غلام" تصور کرنا اور وہ بھی آج کے دور ميں نا صرف يہ کہ ناقابل عمل ہے بلکہ اقوام کے درميان سفارتی روابط کی کمزور تشريح ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ممالک کے مابين تعلقات مستقل نہيں رہتے بلکہ تغير کے عمل سے گزرتے رہتے ہيں اور تبديل ہوتے ہوۓ سياسی منظرنامے اورارضی سياسيات کے حقائق کے سبب مسلسل نشيب وفراز کا شکار رہتے ہيں۔ تاہم اگر دو طويل المدت اسٹريجک اتحاديوں کے مابين سفارتی تعلقات کی نوعيت يکساں نہيں رہتی تو اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ ان ممالک کے تعلقات کو "آقا غلام" جيسی نامناسب اصطلاحات کے تناظر ميں پرکھا جاۓ۔

گزشتہ دس برسوں کے دوران واقعات کے تسلسل کا سرسری جائزہ بشمول اہم ترين موقعوں کے، پاک امريکہ مضبوط تعلقات کو واضح کرتا ہے باوجود اس کے کہ اس دوران کئ مشکل گھڑياں بھی آئيں اور ايسے معاملات بھی تھے جو شديد اختلافات اور مختلف نقطہ نظر کی وجہ بنے۔

جو راۓ دہندگان اس بات پر بضد ہيں کہ امريکہ "پاکستانيوں" کو غلام تصور کرتا ہے اور پاکستان ميں مبينہ قيادت امريکی حکومت کے اشاروں پر انحصار کرتی ہے، انھيں چاہیے کہ واقعات کے اس تسلسل کا بغور جائزہ ليں جو کيری لوگر بل کے وقت پيش آۓ تھے جب کئ ہفتوں تک دونوں ممالک کے مابين سفارتی تعلقات جمود کا شکار رہے تھے تاوقتيکہ پاکستان ميں تمام فريقين کے خدشات اور تحفظات دور نہيں کر ديے گۓ۔

اور پھر يہ کون بھول سکتا ہے کہ نيٹو کی آمدورفت سے متعلقہ راستوں پر سات ماہ سے زيادہ عرصے تک بندشيں لگائ گئ تھيں اور امريکی حکومت کی اعلی ترين قيادت کی جانب سے تواتر کے ساتھ ملاقاتوں سميت انتھک سفارتی کاوشوں کے باوجود ہم اپنی مبينہ "کٹھ پتليوں" کو منانے ميں ناکام رہے تھے جس کی پاداش ميں ہميں کئ ملين ڈالرز کا نقصان بھی ہوا تھا اور پڑوسی افغانستان ميں ہماری کاوشوں کو بھی زک پہنچی تھی۔

چاہے وہ وزيرستان ميں فوجی آپريشن کے وقت کا تعين يا اس کے دائرہ کار کا معاملہ ہو، حقانی نيٹ ورکس کے حوالے سے ہمارے تحفظات ہوں، حافظ سعيد کا ايشو ہو يا دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے، کسی بھی غير جانب دار سوچ کے حامل شخص کے ليے يہ واضح ہونا چاہيے کہ دونوں ممالک کے مابين مضبوط اور ديرپا اسٹريجک تعلقات کے باوجود ہمارے تعلقات کی نوعيت کو "آقا اور غلام" سے ہرگز تعبير نہيں کيا جا سکتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
د
کیا آپ ان دلائل سے اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان پہ حملہ کرنے کے لئے امریکہ کا پس یہی دلائل ٹھوس دلائل ہیں اور انکی بنیاد پہ وہ افغانستان پہ حملہ کر سکتا تھا

[/H2]
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميرا آپ سے سوال ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد امريکہ کو کيا کرنا چاہيے تھا؟ کيا اسامہ بن لادن کو مذاکرات کی ميز پر بلوا کر ان کے مطالبات سنے جاتے اور ان پر بحث کے ليے کميٹياں تشکيل دی جاتيں۔ اگر تھوڑی دير کے ليے يہ غير منطقی بات مان بھی لی جاۓ تو اس کا نتيجہ کيا نکلتا؟

کيا اسامہ بن لادن کو افغانستان ميں کھلی چھٹی دے کر القائدہ کو مزيد فعال کرنے کے مواقع دينا "عالمی امن" کے ليے درست فيصلہ ہوتا؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 
Top