• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ايک اور امريکی منصوبہ

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
بغل میں چھری ، منہ میں رام رام
ایک دفعہ کسی سفر میں تھے ، کسی قبائلی علاقے کے ایک مسافر سے گپ شپ شروع ہوگئی ، بتانے لگا ، ایک دفعہ ہم افغانستان آ یا جا رہے تھے ، راستے میں امریکیوں نے ہینڈزپ کرلیا ، تفتیش کے دوران جہاں اور بہت سے سوال کیے ، ساتھ یہ بھی پوچھا کہ تم نے کتنے پاکستانی فوجی مارہے ہیں ؟
وہ قبائلی کہنے لگا ، ہم نے ایسے ہی جھوٹ بول دیا کہ اتنے مارے ہیں ، تو یہ سن کر امریکی فوجی بہت خوش ہوا ، اور انگوٹھے کا اشارہ کرکے سراہنے لگا ۔
اب انٹرنیٹ پر فعال امریکی ریچ ٹائم کی چکنی چپڑی باتوں کا اعتبار کیا جائے ، یا اپنے ہم وطنوں کی اطلاعات پر یقین کیا جائے ، جو امریکہ کے سازشی رویے کا بذات خود مشاہدہ کرچکے ہیں ؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


ميں چاہوں گا کہ آپ ان اعداد وشمار کا بغور جائزہ لیں جو ميں نے پاکستان ميں گزشتہ کئ برسوں کے دوران يو ايس ايڈ کے منصوبوں کے حوالے سے اکثر پوسٹ کيے ہيں۔

اس کے علاوہ اس وقت پاکستان امريکہ سے فوجی سازوسامان حاصل کرنے والے ممالک کی لسٹ ميں سرفہرست ہے۔ اس ميں فوجی امداد کے علاوہ لاجسٹک سپورٹ بھی شامل ہے۔ اس کی تفصيل بھی بارہا فورمز پر پيش کی جا چکی ہے۔

منطقی اعتبار سے يہ ايک واضح حقيقت ہے کہ کسی بھی بيرونی جارحيت اور دخل اندازی کے خلاف سب سے پہلی اور موثر دفاعی لائن اس ملک کی فوج ہی ہوتی ہے۔ اگر آپ کی راۓ کو درست تسليم کر ليا جاۓ تو پھر سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ امريکہ سخت معاشی حالات کے باوجود حکومت پاکستان اور فوج کے اداروں کو مستحکم کرنے کی غرض سے يہ کاوشيں اور تعاون کيوں کر رہا ہے؟

کرکٹ کے کھيل ميں عام طور پر جو کھلاڑی سب سے زيادہ رنز سکور کرتا ہے اسے مين آف دا ميچ کا ايوارڈ ديا جاتا ہے۔ اسے ناکامی، ديگر کھلاڑيوں کی خراب کارکردگي يا ميچ کے نتيجے کا ذمہ دار نہيں قرار ديا جاتا۔​


اس تناظر ميں پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحيتوں ميں اضافے کے ليے ہماری مسلسل حمايت اور کاوشوں کے ضمن ميں حقائق کو پرکھيں اور اپنی راۓ پر از سرنو غور کر يں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
یعنی امریکہ دہشت گرد ملک نہیں ہے حقیقت تو یہ ہے کہ پوری دنیا میں یہودی لابی اپنے غاصبانہ قبضے کے لیے مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے اس کے لیے آپ کے اتنے نرم الفاظ کہ اس سے اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا ۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

حقائق کو درست تناظر ميں پرکھنے کے ليے ذيل ميں پوسٹ کی گئ ايک ويڈيو ديکھيں جس ميں عين واشنگٹن ڈی سی کے درميان کانگريس کی عمارت کے سامنے سينکڑوں مسلمان کھلے عام نماز ادا کر رہے ہيں۔


اگر امريکی حکومت کو اس بات پر کوئ اعتراض نہيں ہے کہ ہماری اپنی سرحدوں کے اندر مسلمان آبادياں آزادانہ انداز ميں ترقی کريں تو پھر کس سوچ کے تحت آپ اس بات پر قائل ہيں کہ دنيا کے مختلف حصوں ميں اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ کرنے کے ليے ہم اپنے وسائل وقف کريں گے؟

ميں اس راۓ سے متفق ہوں کہ مذہب کو دہشت گردی کے ضمن ميں غلط طريقے سے استعمال کيا گيا ہے۔ ليکن ميں اس راۓ سے متفق نہیں ہوں امريکہ نے اسلام کو دہشت گردی سے تعبير کيا ہے۔ آپ شايد يہ بھول رہے ہيں کہ يہ القائدہ، آئ ايس آئ ايس اور ديگر عالمی دہشت گرد تنظيموں ہی ہيں جنھوں نے ہميشہ يہ غلط دعوی کيا ہے کہ وہ اسلامی تعليمات پر عمل پيرا ہيں۔

ايک سے زائد مواقعوں پر صدر اوبامہ نے خود يہ واضح کيا ہے کہ القائدہ، آئ ايس آئ ايس اور ان سے منسلک دہشت گرد تنظيموں نے مذہب کے نام پر جو دہشت گردی پھيلائ ہے، اس کا اسلام سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
دہشت گرد تنظیمیں اس میں دہشت فردی کی تعریف آپ نے یقینا وہ لی ہو گی جو آپ کے آقا امریکہ نے کی ہو گی
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے دہشت گردی کی جو تعريف کی ہے اس کے مطابق "دانستہ، طے شدہ اور سياسی مقاصد کے حصول کے لیے مختلف گروہوں اور ايجنٹس کی جانب سے ايسے افراد کو ٹارگٹ کرنا جو مدمقابل نہ ہوں، تا کہ اپنے اثر ورسوخ ميں اضافہ کيا جا سکے"

آپ ديکھ سکتے ہيں کہ ميں نے دانستہ مذہبی اور سياسی وابستگی، ثقافتی تاريخ يا قبا‏ئلی روايات جيسے معاملات کا تذکرہ دہشت گردی کے حوالے سے امريکی تشريح اور نقطہ نظر کے تناظر میں نہيں کيا۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ امريکی حکومت کا موقف ہے کہ دہشت گردی تمام انسانيت کے خلاف ايک کھلا جرم ہے۔ امريکی نقطہ نظر سے قطع نظر، دنيا کا کوئ بھی غير جانب دار اور آزاد ادارہ، تنظيم يا ملک القائدہ، داعش، ٹی ٹی پی اور ديگر دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے کی جانے والی مکروہ کاروائيوں کو کسی مقدس مقصد کے حصول کے لیے سياسی جدوجہد قرار نہيں دے سکتا۔

اس ايشو کے حوالے سے ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جدوجہد کا کسی بھی فرد کی شہريت اور مذہب سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ امريکی حکومت اور پاکستان سميت ہمارے تمام تر اتحاديوں کی توجہ اور تمام تر کوششوں کا مرکز ان افراد کی گرفتاری اور دہشت گردی کے ان اڈوں کا قلع قمع کرنا ہے جہاں اس سوچ کی ترويج وتشہير کی جاتی ہے کہ دانستہ بے گناہ افراد کی ہلاکت جائز ہے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ امريکہ کو مطلوب القائدہ کے اہم ترين ليڈر ايک امريکی شہری ايڈم پرلمين تھے جو "عزام دا امريکن" کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ يہ ايک طے شدہ حقيقت ہے کہ وہ افغانستان ميں القائدہ تنظيم کے ساتھ کام کرتے رہے ہيں۔ امريکی حکومت ان کی امريکی شہريت سے قطع نظر ان کی گرفتاری اور ان کو قانون کے کٹہرے ميں لانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھايا۔

اس ايشو کے حوالے سے امريکی حکومت کی پاليسی بالکل واضح ہے۔ ہر وہ شخص جس کے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعلقات ہيں، انھيں انصاف کے کٹہرے ميں لايا جانا چاہيے۔ جب کسی کے اوپر جرم ثابت ہو جاۓ تو پھر اس کی شہريت، مذہبی وابستگی اور سياسی نظريات کا اس کے جرائم اور اس کی سزا سے کوئ تعلق نہيں رہ جاتا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
عرض ہے کہ اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے مولوی فضل اللہ امریکی پے رول پر دہشت گردانہ کاروائیاں کر تے تھے اور انہیں تحفظ امریکہ نے ہی دیا ہوا ہے

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

خطے ميں ہمارے اہم ترين اتحادی ہمارے اپنے فوجی اور علاقائ شراکت دار ہيں، نا کہ دہشت گرد گروہ اور ان کے قائدين جو ہمارے وسائل پر روزانہ حملے کرتے ہيں۔ اگر آپ کو اس ضمن ميں ذرا سا بھی شک ہے کہ امريکی حکومت ان دہشت گرد گروہوں کے قائدين کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائ کے ضمن ميں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر سکتی ہے تو پھر ان تنظيموں کے سابقہ قائدين کی لسٹ پر ايک نظر ڈاليں اور پھر يہ فيصلہ کريں کہ ان کو غير فعال کرنے میں کس نے وسائل، اينٹيلی جنس، تکنيکی معاونت اور سازوسامان فراہم کيا تھا۔

بيت اللہ محسود کی مثال ديکھ ليں۔ ٹی ٹی پی کا دہشت گرد ليڈر جو سينکڑوں معصوم پاکستانی شہريوں کی ہلاکت کا ذمہ دارتھا آج نا تو زندہ ہے اور نا ہی فعال۔ اسی طرح القائدہ کے تنظيمی ڈھانچے کا جائزہ ليں اور اس کا موازنہ 911 کے واقعات سے پہلے کی صورت حال سے کريں۔ اسامہ بن لادن سميت القائدہ اور طالبان کے دو تہائ سے زيادہ قائدين يا تو مارے جا چکے ہيں يا زير حراست ہيں اور يہ سب کچھ ان عالمی کوششوں کے سبب مکن ہو سکا ہے جن ميں امريکہ نے مرکزی کردار ادا کيا ہے۔

يقينی طور پر صورت حال يہ نا ہوتی اگر آپ کے الزام کے مطابق ہم ان دہشت گرد افراد کو اپنے اثاثے سمجھتے۔

اگر اس دليل کو درست تسليم کر ليا جاۓ تو پھر سوال يہ اٹھتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے قائدين اور اس تنظیم سے وابستہ وفادار جنگجو کيونکر ايک ايسے "کٹھ پتلی نچانے والے" مالک کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگائيں گے جو نا صرف يہ کہ خود انھيں ٹارگٹ کر رہا ہے بلکہ وہ حکومت پاکستان کو بھی ہر قسم کے وسائل، لاجسٹک امداد اور جنگی سازو سامان مہيا کر رہا ہے تا کہ ان کے محفوظ ٹھکانوں کو تباہ و برباد کيا جا سکے؟

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ ٹی ٹی پی يہ جانتے ہوۓ ہمارے ساتھ تعاون کرے گی اور ہمارے اشاروں پر کام کرے گی کہ ہم نے نا صرف يہ کہ اس تنظيم کے قائدین کی گرفتاری پر انعام مقرر کر رکھا ہے بلکہ ہم خطے ميں اپنے اسٹريجک اتحاديوں کے ساتھ مل کر اس امر کو يقینی بنا رہے ہيں کہ اس تنظيم کو اس حد تک غير فعال کر ديا جاۓ کہ وہ کسی قسم کی دہشت گرد کاروائ کرنے کی صلاحيت سے عاری ہو جاۓ؟

کوئ بھی تعميری ذہن يہ ناقابل ترديد حقيقت ديکھ سکتا ہے۔ ان تنظيموں کا واضح کردہ مقصد اور اس ضمن ميں بے شمار شواہد موجود ہيں۔ غلط تاثرات پر مبنی مبہم سازشی کہانياں ان کے خونی نظريے کو جلا بخشنے کا سبب بنتی ہيں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
وگرنہ جن کے خلاف امریکہ پاکستان سے فوجی کاروائیوں کے لیے دباو ڈالتا ہے وہی عناصر افغان حکومت کی سرپرستی میں عیش کر رہے ہیں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سال 2014 کی يہ خـبر پڑھيں

http://www.wsj.com/articles/u-s-hands-over-militant-wanted-by-pakistan-snatched-from-afghanistan-1417969217

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ يہ امريکی حکام ہی تھے جنھوں نے انتہائ مطلوب دہشت گردوں کو پاکستانی حکومت کے حوالے کيا۔ ہم نے افغانستان ميں زير حراست تين پاکستانيوں کو پاکستان منتقل کيا ہے اور يہ عمل دونوں ممالک کے درميان مشاورت اور مناسب يقین دہانيوں کے بعد ہی کيا گيا تھا۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ انتقال کے اس عمل ميں افغان حکومت شامل نہيں تھی۔ افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان نے بھی سرکاری طور پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ محسود افغان حکومت کی تحويل ميں نہيں تھا۔

حاليہ برسوں ميں امريکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد اور اس تعاون اور معاونت کی وسعت پر ايک سرسری نگاہ ڈال ليں۔ چاہے ايسے دہشت گردوں کی بازيابی کا معاملہ ہو جو بے شمار پاکستانی شہريوں کے قتل ميں مطلوب ہيں، دہشت گرد گروہوں تک فنڈز کی فراہمی کو روکنے کے ليے جاری کاوشيں ہوں يا ٹی ٹی پی جيسی تنظيموں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کے ليے پاکستان کی سول اور فوجی قيادت کو تعاون فراہم کرنے کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال کرنے کے ليے وسائل اور سازوسامان کی فراہمی جيسے معاملات ہی کيوں نا ہو، دنيا کے کسی اور ملک نے پاکستان کو اتنے وسائل فراہم نہيں کيے ہيں جتنے کے امريکہ نے کيے ہيں۔

دہشت گردی کے محفوظ ٹھکانوں کے قلع قمع کے ليے صرف امريکہ ہی وہ اتحادی نہيں ہے جس پر پاک فوج انحصار کر رہی ہے۔ برطانيہ اور سعودی عرب سميت کئ ممالک نے اپنے وسائل اور تعاون فراہم کيا ہے۔ ميں يہ بھی اضافہ کرنا چاہوں گا کہ پاک فوج کے ليے ہمارے تعاون اور سپورٹ کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ ہم پاک فوج کی دہشت گردی کے خلاف جاری جدوجہد ميں ان کے طريقہ کار کو کنٹرول کر رہے ہيں يا اس پر اثرانداز ہو رہے ہيں۔ بلکہ حقيقت تو يہ ہے کہ جہاں تک پاکستان کے اندر فوجی کاروائيوں کے ضمن ميں اہم اسٹريجک فيصلوں کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ہميں کوئ اختيار يا اثررسوخ ميسر نہيں ہے۔

ايک انتہائ مطلوب دہشت گرد کو اپنے قابل اعتماد اور طويل المدت اسٹريجک اتحادی کے حوالے کرنا نا صرف يہ کہ اپنے مشترکہ دشمن کے تعاقب کے ليے ہمارے مصمم ارادے کو ظاہر کرتا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درميان بڑھتے ہوۓ تعاون اور مضبوط تعلقات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
عراق میں داعش نامی یہودی امریکی ڈرامہ جس کا ڈراپ سین ہو چکا ہے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کس منطق اور کن حقائق کی بنياد پر آپ خطے ميں آئ ايس آئ ايس کے بڑھتے ہوۓ عفريت کے ليے ہميں قصوروار قرار دے رہے ہيں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی طياروں کی جانب سے آئ ايس آئ ايس کے محفوظ ٹھکانوں پر مسلسل بمباری اور ہماری مدد اور تعاون سے ہمارے ہی اتحاديوں کی جانب سے اس تنظيم کے سرکردہ قائدين کے خلاف فوجی کاروائياں ايسے عوامل ہيں جو تنظيم سے وابستہ جنگجوؤں کو ہمارے ايماء پر کام کرنے کے ليے قائل کر ليں گے؟

اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں رہنا چاہيے۔

امريکی حکومت نا صرف يہ کہ آئ ايس آئ ايس کے جنگجوؤں اور ان کے سرکردہ قائدين کے خلاف کاروائ کے ليے تمام تر وسائل بروۓ کار لا رہی ہے بلکہ خطے ميں سعودی عرب کی حکومت سميت اپنے تمام تر اسٹريجک شراکت داروں کو بھی اس ضمن ميں ہم ہر ممکن مدد فراہم کر رہے ہيں۔

حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ اگست سے لے کر اب تک امریکی حکومت نے آئ ايس آئ ايس کے خلاف فوجی حملوں پر 2.7 ارب ڈالر سے زيادہ خرچ کيا ہے جو کہ فی دن 9 ملین ڈالر بنتے ہیں۔ اور 2015ء ميں يہ خرچہ روزانہ 14ملین ڈالرتک پہنچ چکا ہے۔ اور اس میں انسانی بنيادوں پر دی جانے والی امداد شامل نہیں ہے ۔ شام ميں بحران شروع ہونے کے بعد
اس تنازعہ سے متاثرين کی مدد کے لئے امريکہ نے 3 بلین ڈالرز سے زیادہ رقم فراہم کی ہے جو کہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے ميں سب سے زیادہ ہے۔

http://www.usaid.gov/crisis/syria

سوال يہ ہے کہ اگر آئ ایس آئ ایس کو واقعی امريکی حمايت حاصل ہے تو پھر امريکی حکومت نے اسے ایک دہشت گرد تنظیم کیوں قرار ديا ہے؟

علاوہ ازيں امریکہ خطے میں آئ ایس آئ ایس کے جنگجوؤں کے خلاف فوجی حملے کيوں کر رہا ہے؟ ايک اندازے کے مطابق اب تک 20000 سے زيادہ آئ ایس آئ ایس کے جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔ اور پھر ہم فوجی حملوں پر اربوں ڈالر بغیر کسی وجہ کے ضائع کررہے ہیں؟

کيا کسی بھی ذی شعور شخص کو ان دلائل ميں دانش کا کوئ بھی پہلو دکھائ دے سکتا ہے؟​

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
دنیا میں ہر جگہ دہشت گرد گروپ امریکی سرپرستی میں ہی عالم اسلام کے خلاف سر گرم عمل ہے جیسا کہ یمن میں حوثی باغی

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جو راۓ دہندگان يمن کے معاملے پر امريکی حکومت کے موقف کو ہدف تنقید بنا رہے ہيں اور سعودی حکومت کے ليے ہماری حمايت کو کسی بھی طور جاری واقعات کے ليے "محرک" يا فيصلہ کن عنصر قرار دے رہے ہيں، انھيں اپنی سوچ پر نظرثانی کرنا چاہیے کيونکہ اس تمام معاملے ميں ہمارا کردار محدود ہے جس ميں ہمارے فوجيوں کی براہراست مداخلت بھی شامل نہيں ہے۔

اور وہ مبصرين جو اس غير پختہ سوچ کی تشہير کر رہے ہيں کہ يمن ميں افراتفری اور بے چينی کی فضا کسی بھی طور ہمارے مفاد ميں ہے، انھيں چاہيے کہ ان اعداد وشمار کا جائزہ ليں جو گزشتہ چند برسوں کے دوران يمن ميں امن اور استحکام کے حصول کے ضمن ميں ہماری جانب سے وسائل کی فراہمی اور امداد کو اجاگر کرتے ہيں۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ سال 2013 ميں امريکی حکومت کی جانب سے يمن کو 256 ملين ڈالرز کی امداد فراہم کی گئ، اور اس سے قبل سال 2012 ميں يمن کے ليے 356 ملين ڈالرز کی امداد مختص کی گئ تھی۔ سال 2011 ميں يمن ميں جاری ارتقائ عمل کے آغاز سے امريکہ کی جانب سے يمن کو فراہم کی جانے والی کل امداد 600 ملين ڈالرز ہے۔

يقينی طور پر ہم يہ وسائل اور تعاون يمن کو فراہم نہيں کرتے اگر ہم پر لگاۓ جانے والے الزامات کے مطابق خطے اور ملک ميں تشدد سے ہمارے مفادات کا تحفظ ہو رہا ہوتا۔

موجودہ صورت حال ميں بھی جبکہ ہم سعودی حکومت کی جانب سے فوجی مداخلت کے اقدام کو سپورٹ کر رہے ہيں، ہم اس بات پر يقين رکھتے ہيں کہ يمن کی صورت حال کے حتمی تصفحيے کے ليے صرف فوجی کاروائ ہی واحد حل نہيں ہے۔ اور ہم جی سی سی کے قائدين کے ساتھ مل کر مسلۓ کے ديرپا حل کے ليے سياسی مذاکرات کے عمل کو سپورٹ کرتے رہيں گے۔ تاہم ہم سعودی خدشات کو بھی سمجھ رہے ہيں، خاص طور پر اس صورت حال ميں جبکہ حوتيوں کی جانب سے سياسی مذاکرات کے عمل ميں تعميری کردار ادا نہيں کيا گيا۔ اس تناظر ميں ہم سعودی حکومت کی جانب سے اٹھاۓ جانے والے اقدامات کی حمايت بھی کر رہے ہيں اور ان اقدامات کی ضرورت کا ادراک بھی رکھتے ہيں۔

حتمی تجزيے ميں يہ ناقابل ترديد حقيقت نظرانداز نہيں کی جانی چاہيے کہ فوجی مہم جوئ کی ذمہ داری حوتيوں کے سر ہے۔ جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو ہم ان اقدامات کا ساتھ دے رہے ہيں جو سعودی عرب، جی سی سی اور ديگر فريقين نے صدری ہادی کی درخواست اور يمن کی قانونی حکومت کے حق ميں اٹھاۓ ہيں۔

تاہم اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں رہنا چاہيے۔ يہ اتحاد سعودی حکومت کی قيادت اور ان کی رہنمائ ميں تشکيل ديا گيا ہے۔ ہم زمين پر جاری فوجی کاروائ کی نا تو سربرائ کر رہے ہيں، نا اس کو کنٹرول کر رہے ہيں اور نا ہی اس ضمن ميں احکامات جاری کر رہے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ دنیا میں جہاں جہاں مزعومہ دہشت گردی ہو رہی ہے وہاں امریکی جارحیت سے پہلے کون سی دہشت گردی ہو رہی تھی افغانستان ، عراق، صومالیہ، پاکستان وغیرہ

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کا نقطہ نظر اس سوچ اور يقين پر مبنی ہے کہ دہشت گردی کی وبا اور پاکستانی معاشرے پر اس کے اثرات افغانستان ميں امريکہ اور نيٹو افواج کی کاروائ کے نتیجے ميں رونما ہو رہے ہيں۔ آپ اس بات پر بضد ہيں کہ پاکستان ميں سال 2001 سے پہلے مکمل امن تھا۔

يہ يقينی طور پر ايک جانا مانا نقطہ نظر ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز پر خاص طور پر کچھ سابقہ فوجی افسران اور بيروکريٹ بھی اسی راۓ کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

ليکن واقعات کا تسلسل اور دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کو نظرانداز کرنے سے متعلق مجرمانہ غفلت جس کے نتيجے میں 911 کا واقعہ پيش آيا سرکاری اور تاريخی دستاويزات کی صورت ميں ريکارڈ پر موجود ہيں۔

امريکی حکومت کو افغانستان ميں طالبان کی حکومت، پاکستان کی جانب سے ان کی حمايت اور دہشت گردوں کو محفوظ مقامات فراہم کرنے کے ضمن ميں ان کی پاليسی سے متعلق شدید خدشات تھے۔

طالبان حکومت کے ضمن ميں امريکی حکومت کے تحفظات کا محور ان کے مذہبی اور سياسی عقائد نہیں بلکہ ان کی جانب سے دہشت گردی کی براہراست حمايت اور بنيادی انسانی حقوق کی فراہمی کے ضمن ميں ان کی واضح ناکامی تھی۔

اگر آپ جانب دارانہ سوچ کو ايک طرف رکھ کر حقائق اور اعداد وشمار پر ايک نظر ڈاليں تو آپ پر يہ واضح ہو جاۓ گا کہ اس کھوکھلے نظريے ميں کوئ صداقت نہيں ہے کہ افغانستان ميں امريکی فوجی کاروائ سے قبل پاکستان ميں دہشت گردی کا سرے سے کوئ وجود ہی نہيں تھا۔

ذيل ميں ديا ہوا گراف دہشت گردی سے متعلق ان واقعات کو ظاہر کر رہا ہے جو سال 1984 سے 2007 کے درميانی حصے ميں رونما ہوۓ۔

آپ خود ديکھ سکتے ہيں کہ دہشت گردی کا عفريت قريب دو عشروں سے پاکستانی معاشرے کو ديمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ يہ کہنا بالکل غلط ہے کہ يہ وبا 911 کے واقعے کے بعد اچانک ہی پاکستانی معاشرے ميں نمودار ہو گئ تھی۔ اعداد و شمار اس دعوے کی نفی کرتے ہيں۔

http://s9.postimg.org/o3b2emuof/Screen_Shot_2013_07_31_at_3_12_32_PM.png



اس کے بعد خود کش حملوں کے حوالے سے اعداد وشمار کا جائزہ ليتے ہيں۔ فورمز پر راۓ دہندگان نے اکثر مجھ سے اس بات پر جرح کی ہے کہ سال 2001 سے قبل پاکستان ميں سرے سے کوئ خودکش حملہ نہيں ہوا تھا۔
آپ واضح طور پر ديکھ سکتے ہيں کہ سال 1995 سے خودکش حملوں کے واقعات ريکارڈ پر موجود ہيں۔

http://s15.postimg.org/gkjiipifv/Screen_Shot_2013_07_31_at_3_12_02_PM.png



اس گراف ميں سال 2007 کے قريب جو غير معمولی اضافہ دکھائ دے رہا ہے اس کے وجہ وہ خودکش حملے ہيں جو لال مسجد پر حکومت پاکستان کی کاروائ کے بعد ردعمل کے طور پر سامنے آۓ تھے۔ سال 2007 ميں جون کے مہينے تک 8 خودکش حملے ہوۓ تھے اس کے بعد اگلے چھ ماہ ميں 48 حملے کيے گۓ۔

ايک مرتبہ پھر اعداد وشمار اور گراف سے يہ واضح ہے کہ خطے ميں امريکی افواج کے آنے سے کئ برس پہلے بھی دہشت گرد تنظيميں اپنے مذموم مقاصد کی تکميل کے ليے کم سن بچوں کو خود کش حملہ آوروں کے طور پر استعمال کر رہی تھيں۔

موازنے کے ليے يہ اعداد وشمار پيش ہين جو افغانستان ميں فوجی کاروائ سے پہلے اور اس کے بعد دہشت گردی کی کاروائيوں کے حوالے سے حقائق واضح کر رہے ہيں۔

http://s15.postimg.org/faqahee1n/Screen_Shot_2013_07_31_at_3_11_36_PM.png



اور آخر ميں يہ تصوير افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل پاکستان ميں ہونے والے دہشت گرد حملوں اور ان کے حدود واربعہ کو واضح کر رہی ہے۔


http://s10.postimg.org/6e14qc8k9/Screen_Shot_2013_07_31_at_3_13_24_PM.png



اس ميں کوئ شک نہيں کہ گزشتہ ايک دہائ کے دوران آزاد ميڈيا، سوشل ويب سائٹس اور مواصلات سے متعلق ہونے والی عمومی ترقی کے سبب اب ان موت کے سوداگروں کی ظالمانہ کاروائيوں کے حوالے سے عوامی سطح پر پہلے کے مقابلے ميں زيادہ آگہی اور معلومات ميسر ہيں۔

ليکن اس حوالے سے کوئ مغالطہ نہيں ہونا چاہیے۔ يہ دہشت گرد تنظيميں محض کسی ردعمل يا انتقام کے جذبے سے سرشار ہو کر اچانک منظرعام پر نہيں آ گئ ہيں۔ 911 کے واقعات سے بہت پہلے ہی عوامی سطح پر خوف، دہشت اور بربريت کے ذريعے اپنے سياسی اثرورسوخ ميں اضافے کے ليے اپنے واضح کردہ ايجنڈے پر کاربند ہيں۔

فورمز پر موجود مقبول عام تاثر کے برعکس يہ عالمی برادری بشمول امريکی اور پاکستانی افواج تھيں جو ردعمل پر مجبور ہوئيں نا کہ يہ دہشت گردی تنظيميں – اور اس ردعمل کا فيصلہ اس وقت کيا گيا جب عالمی دہشت گردی کا يہ عفريت ہماری سرحدوں کے اندر پہنچ گيا۔

آپ ان حقائق کا جائزہ ليں اور پھر يہ فيصلہ کريں کہ کيا امريکی حکومت اور امريکی افسران کو پاکستان ميں موجودہ تشدد کا ذمہ دار قرار ديا جا سکتا ہے ، يہ جانتے ہوۓ کہ مختلف امريکی افسران کی جانب سے پاکستان ميں حکومتوں کو آنے والے برسوں ميں دہشت گردی کے ممکنہ خطروں کے ضمن میں مسلسل خبردار کيا جا رہا تھا؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
کیا امریکہ نے کبھی کسی غیر مسلم حکومت پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اس طرح چڑھائی کی اس کی واضح مثال کمشیر میں ہندو دہشت گردی نہیں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کشمير اور فلسطين سميت ديگر علاقائ اور عالمی تنازعات اور دہشت گردی کی موجودہ لہر ميں اہم ترين فرق يہ ہے کہ تمام عالمی برادری بشمول پاکستان کے اس حقيقت کا ادارک بھی رکھتی ہے اور اس کو تسليم بھی کرتی ہے کہ دہشت گردی ايک عالمی عفريت ہے جس کا خاتمہ تمام فريقین کے ليے اہم ہے۔ اس کے مقابلے ميں ديگر تنازعات میں فریقين کے مابين اختلافی موقف اور نقطہ نظر کا ٹکراؤ ہے۔

آپ کی راۓ سے يہ تاثر ابھرتا ہے کہ چونکہ کشمير اور دنيا کے ديگر علاقوں ميں بے گناہوں کا خون بہہ رہا ہے اس لیے پاکستان اور افغانستان ميں بھی عورتوں اور بچوں کا قتل قابل فہم ہے يا اس کی توجيہہ پيش کی جا سکتی ہے۔ سياسی اختلافات کی بنياد پر دوسروں کے خلاف کھلم کھلا دہشت گردی کا لائسنس نہیں ديا جا سکتا

اس وقت اقوام متحدہ ميں قريب 1800 کے لگ بھگ قرارداديں موجود ہیں جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک ميں جاری تنازعات سے ہے۔ يہ غير منطقی سوچ ہے کہ ان تمام ممالک ميں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے ليے فوجیں بيجھی جانی چاہيے۔ يہ طريقہ کار تو اقوام متحدہ کے قيام کے بنيادی فلسفے کی ہی نفی کر ديتا ہے جس کے مطابق دنيا کے مختلف ممالک کے درميان تنازعات کے حل کے ليے سفارتی کوششوں کو زيادہ موثر بنانے پر زور ديا گيا ہے۔

امريکہ کشمير اور فلسطين کے تنازعات کو اہم اور حل طلب ايشو کے حوالے سے تسليم کرتا ہے اور يقينی طور پر يہ خواہش رکھتا ہے کہ ان مسائل کواس طريقے حل کيا جانا چاہیے جو تمام فريقین کے ليے قابل قبول ہو۔

تاہم امريکی حکومت کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ تن تنہا خودمختار ممالک کو ان کی مرضی کے برخلاف ان مسائل کے حل اور اس ضمن میں شرائط پر مجبورکرے۔ ايسا اقدام نقصان دہ ثابت ہو گا۔

اس ضمن ميں کوششوں کا آغاز براہراست فريقين کی جانب سے ہی کيا جانا چائيے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
@فواد صاحب ایک پروگرام کچھ عرصہ پہلے ایف سکسٹین طیاروں کے حوالے سے بھی چل رہا تھا۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے، ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں۔ ان کے فراہم نہ کرنے پر بھی آپ کوئی روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے؟
یہ رہے ہی جا رہا ہے۔
 
Top