بالفرض ہم مان لیتے ہیں کہ اس میں القاعدہ شامل تھی اور اس نے یہ ہولناک اور افسوسناک واقعہ کے وقوع پذیر ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔ ذرا یہ تو بتائیے! اس مذکورہ حملے میں 2996 افراد ہلاک اور 6000 زخمی ہوئے۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Casualties_of_the_September_11_attacks
لیکن آپ نے جو افغانستان پر حملہ کیا اس کی وجہ سے 91000 افغان ہلاک ہوئے اور اگر بالواسطہ ہلاکتوں کو بھی شامل کیا جائے تو 360000 کا اس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Civilian_casualties_in_the_war_in_Afghanistan_(2001–present)
فواد صاحب! اپنے آقاؤں سے پوچھیے! یہ کون سا انصاف ہے کہ اگر مجرموں کا ایک ٹولہ تین ہزار افراد کو ہلاک کرے تو اس کے بدلے ان کے ملک کے چار لاکھ پچاس ہزار افراد کو جنگ کی بھٹی میں ہلاک کر دیا جائے؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ امريکی سرزمين پر نو گيارہ کے ہولناک حملے افغانستان ميں فوجی کاروائ کے ضمن ميں محرک اور فيصلہ سازی کے عمل ميں اہم ترين عنصر ثابت ہوۓ تھے۔ تاہم يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ يہ کسی فرد کی جانب سے دہشت گردی کا کوئ اکلوتا واقعہ نہيں تھا۔
نو گيارہ کے واقعات سے پہلے بھی القائدہ دہشت گردی کے بہت سے واقعات کے ليے ذمہ دار تھی اور کئ واقعات کے ليے اس کی قيادت کی جانب سے جرم تسليم بھی کر ليا گيا تھا۔ اس تنظيم کی کاروائيوں پر ايک نظر ڈالنے سے يہ واضح ہو جاتا ہے کہ گروہ کی دہشت گردانہ کاروائيوں ميں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا جو آخر کار نو گيارہ کے واقعات کی صورت ميں اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئيں۔ ان جرائم کی کچھ تفصيل
ان واقعات کے علاوہ، اسامہ بن لادن اور القائدہ کی جانب سے امريکہ کے خلاف اعلان جنگ، دنيا بھر ميں دہشت گردی کی مزيد کاروائيوں کا وعدہ اور عالمی سطح پر کئ ممالک ميں دہشت گردی کے خفيہ فعال گروہوں کی موجودگی کے حوالے سے حقيقی خدشات ايسے عناصر تھے جن سے سب پر يہ واضح ہو گيا کہ القائدہ کے عفريت سے نبرد آزما ہونے کے ليے عسکری کاروائ ہی واحد آپشن رہ گيا تھا۔
جب آپ افغانستان ميں عام شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں سوال اٹھاتے ہيں تو اس حوالے سے اس حقيقت کو بھی مدنظر رکھيں کہ يہ امريکی اور نيٹو افواج نہيں ہيں جنھيں ان تمام اموات کے ليے ذمہ دار قرار ديا جا سکتا ہے۔ اگر اس الزام ميں حقيقت ہوتی تو پھر يقينی طور پر ہميں پاکستان، افغانستان اور سعودی عرب کی حکومتوں سميت خطے میں اپنے تمام شراکت داروں اور اتحاديوں کی حمايت حاصل نا ہوتی۔
آپ جن بے گناہ شہريوں کی ہلاکت پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہيں، اس کے اصل ذمہ دار وہ دہشت گرد گروہ ہيں جنھوں نے دہشت اور بربريت پر مبنی ايک ايسی مہم کا آغاز کر رکھا ہے جس ميں کم سن بچوں کو خود کش حملہ آور بنا کر انھيں بطور ہتھيار استعمال کيا جاتا ہے اور بازاروں، سکولوں اور ہسپتالوں جيسے گنجان عوامی مقامات پر دانستہ حملے کيے جاتے ہيں۔
افغانستان ميں عام شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں ميرا بھی آپ سے ايک سوال ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ بے گناہ شہريوں پر دانستہ حملے سے امريکہ کو کوئ فائدہ جاصل ہوتا ہے؟ کيا ان ہلاکتوں سے امريکہ کو فوجی، سياسی يا انتظامی معاملات ميں اپنے مقاصد کی تکميل ميں کوئ کاميابی حاصل ہوتی ہے؟ حقيقت يہ ہے کہ ان ہلاکتوں سے امريکہ کو سياسی اور سفارتی سطح پر بہت سی مشکلات، چيلنجز اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ يہ اور ايسی ديگر وجوہات کی بنا پر امريکہ کی يہ ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے واقعات رونما نہ ہوں۔ يہ حکمت عملی بہرحال ان ہتھکنڈوں سے متضاد ہے جو اپنے سياسی ايجنڈے کی تکميل کے ليے دہشت گرد استعمال کرتے ہيں جس کا محور دانستہ زيادہ سے زيادہ بے گناہ افراد کی ہلاکت ہے۔
کسی بھی تناظے، جنگ يا فوجی کاروائ کے دوران عام شہريوں کی ہلاکت يقينی طور پر قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔ اور تاريخ کی کسی بھی جنگ کی طرح افغانستان ميں بھی ايسی فوجی کاروائياں يقينی طور پر ہوئ ہيں جن ميں بے گناہ شہری ہلاک ہوۓ ہيں۔ ليکن ايسے واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ جب آپ ایسے کسی واقعے کا ذکر کرتے ہيں اور اس ضمن ميں خبر کا حوالہ ديتے ہيں تو اس وقت يہ بات بھی ياد رکھنی چاہيے کہ ايسے واقعات بھی رونما ہوۓ ہيں جس کے نتيجے ميں نيٹو افواج کی کاروائ کے نتيجے ميں خود امريکی اور اتحادی فوجی بھی ہلاک ہوۓ ہيں۔ ان تمام واقعات کی باقاعدہ فوجی تفتيش ہوتی ہے اور اس کے نتيجے ميں حاصل شدہ معلومات کی روشنی ميں ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ مستقبل ميں اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔ ليکن کيا آپ دہشت گردوں سے اس رويے اور حکمت عملی کی توقع کر سکتے ہيں جن کی اکثر "فوجی کاروائياں" دانستہ بےگناہ افراد کے قتل پر مرکوز ہوتی ہيں؟
افغانستان ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں کچھ اعداد وشمار پيش ہيں۔
اقوام متحدہ کے ادارے يو-اين-اے-ايم-اے کے مطابق افغانستان ميں 62 فيصد بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے ذمہ دہشت گرد عناصر ہيں۔ اس کے علاوہ سترہ فيصد ہلاکتيں حکومت سے منسلک مختلف اداروں کی کاروائيوں کا نتيجہ ہيں جن ميں چودہ فيصد افغان نيشنل سيکورٹی فورسز، دو فيصد انٹرنيشنل ملٹری فورسز اور ايک فيصد حکومت کے ايماء پر کام کرنے والے مختلف اسلحہ بردار گروہوں کی کاروائيوں کا نتيجہ ہيں۔ سترہ فيصد اموات حکومت مخالف گروہوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابين جھڑپوں کا نتيجہ ہيں۔ اس کے علاوہ چھ فيصد اموات جنگ کے دوران غير استعمال شدہ تباہ کن مواد کے پھٹنے کے نتيجے ميں ہوئيں۔
اس ضمن ميں تفصيلی معلومات آپ اس رپورٹ ميں پڑھ سکتے ہيں۔
http://unama.unmissions.org/sites/default/files/poc_annual_report_2015_final_14_feb_2016.pdf
اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ امريکی سرزمين پر نو گيارہ کے ہولناک حملے افغانستان ميں فوجی کاروائ کے ضمن ميں محرک اور فيصلہ سازی کے عمل ميں اہم ترين عنصر ثابت ہوۓ تھے۔ تاہم يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ يہ کسی فرد کی جانب سے دہشت گردی کا کوئ اکلوتا واقعہ نہيں تھا۔
نو گيارہ کے واقعات سے پہلے بھی القائدہ دہشت گردی کے بہت سے واقعات کے ليے ذمہ دار تھی اور کئ واقعات کے ليے اس کی قيادت کی جانب سے جرم تسليم بھی کر ليا گيا تھا۔ اس تنظيم کی کاروائيوں پر ايک نظر ڈالنے سے يہ واضح ہو جاتا ہے کہ گروہ کی دہشت گردانہ کاروائيوں ميں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا جو آخر کار نو گيارہ کے واقعات کی صورت ميں اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئيں۔ ان جرائم کی کچھ تفصيل
ان واقعات کے علاوہ، اسامہ بن لادن اور القائدہ کی جانب سے امريکہ کے خلاف اعلان جنگ، دنيا بھر ميں دہشت گردی کی مزيد کاروائيوں کا وعدہ اور عالمی سطح پر کئ ممالک ميں دہشت گردی کے خفيہ فعال گروہوں کی موجودگی کے حوالے سے حقيقی خدشات ايسے عناصر تھے جن سے سب پر يہ واضح ہو گيا کہ القائدہ کے عفريت سے نبرد آزما ہونے کے ليے عسکری کاروائ ہی واحد آپشن رہ گيا تھا۔
جب آپ افغانستان ميں عام شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں سوال اٹھاتے ہيں تو اس حوالے سے اس حقيقت کو بھی مدنظر رکھيں کہ يہ امريکی اور نيٹو افواج نہيں ہيں جنھيں ان تمام اموات کے ليے ذمہ دار قرار ديا جا سکتا ہے۔ اگر اس الزام ميں حقيقت ہوتی تو پھر يقينی طور پر ہميں پاکستان، افغانستان اور سعودی عرب کی حکومتوں سميت خطے میں اپنے تمام شراکت داروں اور اتحاديوں کی حمايت حاصل نا ہوتی۔
آپ جن بے گناہ شہريوں کی ہلاکت پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہيں، اس کے اصل ذمہ دار وہ دہشت گرد گروہ ہيں جنھوں نے دہشت اور بربريت پر مبنی ايک ايسی مہم کا آغاز کر رکھا ہے جس ميں کم سن بچوں کو خود کش حملہ آور بنا کر انھيں بطور ہتھيار استعمال کيا جاتا ہے اور بازاروں، سکولوں اور ہسپتالوں جيسے گنجان عوامی مقامات پر دانستہ حملے کيے جاتے ہيں۔
افغانستان ميں عام شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں ميرا بھی آپ سے ايک سوال ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ بے گناہ شہريوں پر دانستہ حملے سے امريکہ کو کوئ فائدہ جاصل ہوتا ہے؟ کيا ان ہلاکتوں سے امريکہ کو فوجی، سياسی يا انتظامی معاملات ميں اپنے مقاصد کی تکميل ميں کوئ کاميابی حاصل ہوتی ہے؟ حقيقت يہ ہے کہ ان ہلاکتوں سے امريکہ کو سياسی اور سفارتی سطح پر بہت سی مشکلات، چيلنجز اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ يہ اور ايسی ديگر وجوہات کی بنا پر امريکہ کی يہ ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے واقعات رونما نہ ہوں۔ يہ حکمت عملی بہرحال ان ہتھکنڈوں سے متضاد ہے جو اپنے سياسی ايجنڈے کی تکميل کے ليے دہشت گرد استعمال کرتے ہيں جس کا محور دانستہ زيادہ سے زيادہ بے گناہ افراد کی ہلاکت ہے۔
کسی بھی تناظے، جنگ يا فوجی کاروائ کے دوران عام شہريوں کی ہلاکت يقينی طور پر قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔ اور تاريخ کی کسی بھی جنگ کی طرح افغانستان ميں بھی ايسی فوجی کاروائياں يقينی طور پر ہوئ ہيں جن ميں بے گناہ شہری ہلاک ہوۓ ہيں۔ ليکن ايسے واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ جب آپ ایسے کسی واقعے کا ذکر کرتے ہيں اور اس ضمن ميں خبر کا حوالہ ديتے ہيں تو اس وقت يہ بات بھی ياد رکھنی چاہيے کہ ايسے واقعات بھی رونما ہوۓ ہيں جس کے نتيجے ميں نيٹو افواج کی کاروائ کے نتيجے ميں خود امريکی اور اتحادی فوجی بھی ہلاک ہوۓ ہيں۔ ان تمام واقعات کی باقاعدہ فوجی تفتيش ہوتی ہے اور اس کے نتيجے ميں حاصل شدہ معلومات کی روشنی ميں ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ مستقبل ميں اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔ ليکن کيا آپ دہشت گردوں سے اس رويے اور حکمت عملی کی توقع کر سکتے ہيں جن کی اکثر "فوجی کاروائياں" دانستہ بےگناہ افراد کے قتل پر مرکوز ہوتی ہيں؟
افغانستان ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں کچھ اعداد وشمار پيش ہيں۔
اقوام متحدہ کے ادارے يو-اين-اے-ايم-اے کے مطابق افغانستان ميں 62 فيصد بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے ذمہ دہشت گرد عناصر ہيں۔ اس کے علاوہ سترہ فيصد ہلاکتيں حکومت سے منسلک مختلف اداروں کی کاروائيوں کا نتيجہ ہيں جن ميں چودہ فيصد افغان نيشنل سيکورٹی فورسز، دو فيصد انٹرنيشنل ملٹری فورسز اور ايک فيصد حکومت کے ايماء پر کام کرنے والے مختلف اسلحہ بردار گروہوں کی کاروائيوں کا نتيجہ ہيں۔ سترہ فيصد اموات حکومت مخالف گروہوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابين جھڑپوں کا نتيجہ ہيں۔ اس کے علاوہ چھ فيصد اموات جنگ کے دوران غير استعمال شدہ تباہ کن مواد کے پھٹنے کے نتيجے ميں ہوئيں۔
اس ضمن ميں تفصيلی معلومات آپ اس رپورٹ ميں پڑھ سکتے ہيں۔
http://unama.unmissions.org/sites/default/files/poc_annual_report_2015_final_14_feb_2016.pdf
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu