• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَلدِّیْنُ النَّصِیْحۃ

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اب اس سلسلے کی ان احادیث کو پڑھیے اور سنیے جن میں رسول اللہ ﷺ نے پڑوسی کے حقوق کی اہمیت بتائی ہے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے خواہ وہ پڑوسی رشتہ دار ہو یا اجنبی مسلمان ہو یا کافر۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَلْجِیْرَانُ ثَلٰثَۃٌ جَارٌلَہٗ حَقٌّ وَاحِدٌ وَجَارٌلَہٗ حَقَّانِ وَجَارٌلَہٗ ثَلٰثَۃُ حُقُوْقٍ فَالْجَارُ الَّذِیْ لَہٗ ثَلٰثَۃُ حُقُوْقٍ اَلْجَارُ الْمُسْلِمُ ذُوْالرَّحِمِ فَلَہٗ حَقُّ الْجَوَار وَحَقُّ الْاِسْلَامِ وَحَقُّ الرَّحِمِ وَاَمَّا الَّذِیْ لَہٗ حَقَّانِ فَالْجَارُ الْمُسْلِمُ لَہٗ حَقُّ الْجَوَار وَحَقُّ الْاِسْلَامِ وَاَمَّا الَّذِیْ لَہٗ حَقٌّ وَاحِدٌ فَالْجَارُ الْمُشْرِکُ۔ (بزار)
تین قسم کے پڑوسی ہیں ایک وہ جس کے لیے ایک ہی حق ہے دوسرا وہ جس کے لیے دو حق ہیں اور تیسرا وہ جس کے لیے تین حقوق ہیں۔ جس پڑوسی کے تین حقوق ہیں وہ مسلمان رشتہ دار پڑوسی ہے ایک حق مسلمان ہونے کی حیثیت سے، دوسرا حق رشتہ داری اور صلہ رحمی ہونے کی وجہ سے اور تیسرا حق پڑوسی ہونے کی وجہ سے اور جس کے دو حق ہیں وہ مسلمان پڑوسی ہے، اسلامی حق اور پڑوس کا حق اور جس کے لیے ایک حق وہ مشرک و کافر پڑوسی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کافر و مشرک کا بھی پڑوسی ہونے کی وجہ سے حق ہے جس کی ادائیگی مکارم اخلاق میں داخل ہے۔ یہ ہمسائیگی درجہ بدرجہ چالیس گھروں تک رہتی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں فلاں محلے میں رہتا ہوں اور سب سے زیادہ قریبی پڑوسی مجھے ستاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے سیدنا ابوبکر و عمر اور علی رضی اللہ عنہم کو بھیجا کہ وہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر پکار پکار کر یہ اعلان کریں کہ چالیس گھروں تک ہمسائیگی ہے اور جس کا ہمسایہ اپنے ہمسایہ کی تکلیفوں سے خوف کھاتا ہے وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (طبرانی، ترغیب)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ پڑوسی کو ستانا اور تکلیف دینا بڑی بے انصافی اور گناہ کبیرہ ہے، لیکن جہاں تک ہوسکے مظلوم پڑوسی ظالم پڑوسی کی تکلیفوں پر صبر کرے اور اگر ناقابل برداشت ہو تو اپنے گھر کے سامان کو باہر راستے میں ڈالے تاکہ آنے جانے والے اس ظالم پڑوسی کو بُرا بھلا کہیں، ممکن ہے کہ وہ اس کی تکلیف رسانی سے باز آجائے۔ رسول اللہ ﷺنے یہی ترکیب بتائی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
چنانچہ ترغیب و ترہیب میں ہے کہ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
جَائَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْکُوْا جَارَہٗ فَقَالَ اِطْرَحْ مَتَاعَکَ عَلٰی طَرِیْقٍ فَطَرَحَہٗ فَجَعَلَ النَّاسُ یَمُرُّوْنَ عَلَیْہِ وَیَلْعَنُوْنَہٗ فَجَائَ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللہِ لَقِیْتُ مِنَ النَّاسِ قَالَ وَمَا لَقِیْتَ مِنْھُمْ قَالَ یَلْعَنُوْنَنِیْ قَالَ قَدْ لَعَنَکَ اللہُ قَبْلَ النَّاسِ فَقَالَ اِنَّنِیْ لَا اَعُوْدُ فَجَائَ الَّذِیْ شَکَاہُ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اِرْفَعْ مَتَاعَکَ فَقَدْ کُفِیْتَ۔ (طبرانی، بزار)
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺکے پاس آکر اپنے پڑوسی کی ایذا رسانی کی شکایت کی، آپ نے صبر کی تلقین فرمائی۔ اس کے متعدد بار شکایت کرنے کی وجہ سے آخری دفعہ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے گھر کے سامان کو نکال کر راستہ میں ڈال دو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ جو لوگ اس راستہ سے گزرتے، ماجرا سُن کر اس تکلیف رساں پڑوسی کو بُرا بھلا کہتے اور اس پر لعنت و پھٹکار بھی کرتے۔ اس نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں عرض کیا کہ لوگوں سے مجھے بہت تکلیف پہنچ رہی ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا تکلیف پہنچ رہی ہے۔ اس نے کہا کہ لوگ مجھے لعن طعن کررہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ لوگوں کے لعن طعن کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ تجھے لعن طعن کررہا ہے، کیوں کہ تم نے پڑوسی کو تکلیف پہنچائی ہے۔ اس نے کہا کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ شکایت کرنے والے نے رسول اللہ ﷺکے پاس حاضر ہو کر یہ سب حال بیان کیا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تم اپنا سامان اُٹھا لو کیوں کہ تمہاری کفایت کردی گئی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کی ایذارسانی پر حتی الامکان صبر کرنا چاہیے۔ جب معاملہ حد سے بڑھ جائے تو گھر کے سامان کو راستہ میں ڈال دے۔ جب لوگوں کو پڑوسی کی تکلیف رسانی کی خبر ہوگی تو وہ اس تکلیف رساں پڑوسی کو بُرا بھلا کہیں گے تو وہ اس کو تکلیف دینے اور مصیبت میں ڈالنے سے باز رہے گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو نقل فرمایا ہے:
قَاَل رَجُلٌ یَارَسُوْلَ اللہِ اِنَّ لِیْ جَارًا یُوْذِیْنِیْ فَقَالَ اِنْطَلِقْ فَاَخْرِجْ مَتَاعَکَ اِلَی الطَّرِیْقِ فَانْطَلَقَ فَاَخْرَجَ مَتَاعَہٗ فَاجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَیْہِ فَقَالُوْا مَا شَانُکَ قَالَ لِیْ جَارٌ یُوْذِیْنِیْ فَذَکَرْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اِنْطَلِقْ فَاَخْرِجْ مَتَاعَکَ اِلَی الطَّرِیْقِ فَجَعَلُوْا یَقُوْلُوْنَ اَللّٰھُمَّ الْعَنْہُ اَللّٰھُمَّ اَخْزِہٖ فَبَلَغَہٗ فَاَتَاہُ فَقَالَ اِرْجِعْ اِلٰی مَنْزِلِکَ فَوَاللہِ لَایُوْذِیْکَ۔
اس حدیث کا خلاصہ مطلب وہی ہے جو پہلی حدیث میں آچکا ہے۔

اور بُرے پڑوس سے بچنے کے لے رسول اللہ ﷺیہ دعا پڑھا کرتے تھے:

اَللّٰھُمَّ اِنَّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ یَوْمِ السُّوْئِ وَمِنْ لَیْلَۃِ السُّوْئِ وَمِنْ سَاعَۃِ السُّوْئِ وَمِنْ صَاحِبِ السُّوْئِ وَمِنْ جَارِ السُّوْئِ فِیْ دَارِ الْمُقَامَۃِ۔ (نسائی، ابن ماجہ)


اے اللہ! تیری پناہ چاہتا ہوں بُرے دن، بُری رات، بُری گھڑی سے اور بُرے ساتھی اور بُرے ہمسایہ سے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نیک پڑوسی باعث خیر و رحمت و برکت ہے

اور اس کی نیکی کی وجہ سے پاس پڑوس کے سو گھرانوں سے مصیبتوں کو اللہ تعالیٰ دُور فرما دیتا ہے۔ نیک پڑوسی کی بہت فضیلت ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

اِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ لَیْدَفَعُ بِالْمُسْلِمِ الصَّالِحِ عَنْ مِائَۃِ اَھْلِ بَیْتٍ مِنْ جِیْرَانِہِ الْبَلَآئَ ثُمَّ قَرَأَوَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ۔ (طبرانی)


اللہ تعالیٰ نیک مسلمان کی برکت سے سو پڑوسی کے گھرانے سے مصیبت کو دُور کردیتا ہے پھر اس کی تائید میں آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ بعض کے ذریعہ بعض مصیبتوں کو دُور فرما دیتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نیک پڑوسی باعث سعادت اور موجب برکت ہے اور بُرا پڑوسی باعث نحوست ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اَرْبَعٌ مِّن السَّعَادَۃِ اَلْمَرْئَ ۃُ الصَّالِحَۃُ وَالْمَسْکَنُ الْوَاسِعُ وَالْجَارُ الصَّالِحُ وَالْمَرْکَبُ الْہَنِیءُ وَاَرْبَعٌ مِّن الشَّقَآئِ اَلْجَارُ السُّوْئُ وَالْمَرْئَ ۃُ السُّوْئُ وَالْمَرْکَبُ السُّوْئُ وَالْمَسْکَنُ السُّوْئُ (ابن حبان)

چار چیزیں نیک بختی کے سبب ہیں (۱) نیک بیوی (۲) کشادہ مکان (۳) نیک پڑوسی (۴) اچھی اور فرماں بردار سواری جو اپنے سوار کو تکلیف نہ پہنچائے اور چار چیزیں باعث شقاوت اور موجب نحوست ہیں (۱) بُرا پڑوسی (۲) بُری بیوی (۳) بُری سواری (۴) تنگ مکان۔
 
Top