• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَلدِّیْنُ النَّصِیْحۃ

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اور ایک حدیث میں آپ نے فرمایا:

اِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ یُحِبُّ ثَلَاثَۃً فَقُلْتُ فَمَنْ ھٰؤُلَائِ الثَّلَاثَۃُ الَّذِیْنَ یُحِبُّھُمُ اللہُ عَزَّوَجَلَّ قَالَ رَجُلٌ غَزَا فِی سَبِیْلِ اللہِ صَابِرًا مُّحْتَسِبًا فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ وَاَنْتُمْ تَجِدُوْنَہٗ عِنْدَکُمْ فِیْ کِتَابِ اللہِ عَزَّوَجَلَّ ثُمَّ تَلَا اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ قُلْتُ وَمَنْ قَالَ رَجُلٌ کَانَ لَہٗ جَارُ سُوْئٍ یُوْذِیْہِ فَیَصْبِرُ عَلٰی اٰذَاہُ حَتّٰی یَقِیَہُ اللہُ اِیَّاہُ بِحَیَاۃٍ اَوْ مَوْتٍ۔ الحدیث (احمد، طبرانی)

اللہ تعالیٰ تین آدمیوں کو دوست رکھتا ہے، میں نے عرض کیا وہ تین آدمی اللہ کے دوست کون ہیں؟ جن سے اللہ تعالیٰ دوستی رکھتا ہے۔ آپ نے فرمایا ایک مجاہد فی سبیل اللہ صبر کرنے والا اور ثواب کی نیت سے جہاد کرنے والا ہے یہاں تک کہ وہ شہید ہوجائے، تم قرآن مجید میں اس آیت کو پاتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ان مجاہدین سے محبت کرتا ہے جو صف بندی کرکے اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

اور دوسرا وہ شخص ہے کہ اس کا بُرا پڑوسی اس کو ستاتا ہو اور وہ اس کی تکلیف پر صبر کرتا ہو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف سے بچالے یا اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو موت دے دے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک پڑوسی جو اپنے پڑوسی کو نہیں ستاتا ہے وہ اللہ کا پیارا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

خَیْرُالْاَصْحَابِ عِنْدَ اللہِ خَیْرُھُمْ لِصَاحِبِہٖ وَخَیْرُ الْجِیْرَانِ عِنْدَاللہِ خَیْرُھُمْ لِجَارِہٖ۔ (ترمذی)


اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں سے وہ سب سے بہتر ساتھی ہے جو اپنے ساتھی کے حق میں بہتر ثابت ہو اور پڑوسیوں میں سے وہ اچھا پڑوسی ہے جو اپنے پڑوسی کے حق میں اچھا ہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پڑوسیوں میں محبت کی ترقی اور تعلقات کی استواری کا بہترین ذریعہ باہم ہدیوں اور تحفوں کا تبادلہ ہے۔ رسول اکرم ﷺخود اپنی بیویوں کو اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ اس بنا پر ایک دفعہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ یارسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں ان میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ تو آپ نے فرمایا: جس کے گھر کا دروازہ تمہارے گھر کے زیادہ قریب ہو۔ اس ہدیہ اور تحفہ کے لیے کسی بیش قیمت چیز ہی کی ضرورت نہیں بلکہ کھانے پینے کی معمولی چیزیں اس کے لیے کافی ہیں، کچھ نہ ہوسکے تو گوشت کا شوربہ ہی کافی ہے خواہ وہ زیادہ پانی بڑھا کر ہی کیوں نہ ہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺنے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو یہ نصیحت فرمائی تھی:

اِذَا طَبَخْتَ مَرَقَۃً فَاَکْثِرْ مَائَ ھَا وَتَعَاھَدْ جِیْرَانَکَ۔ (بخاری)

جب تم کوئی شوربہ دار چیز پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ملالو اور اس سے اپنے پڑوسی کی خبرگیری کرو۔

یعنی اس کے یہاں بھی بھیج دیا کرو۔ اس طرح کرنے سے آپس میں میل و محبت زیادہ ہوگی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس قسم کے ہدیے اور تحفے بھیجنے کا موقع عورتوں کو پیش آیا کرتا ہے اس لیے رسول اللہ ﷺنے خصوصیت کے ساتھ عورتوں کو مخاطب کرکے فرمایا:

وَلَا تَحْقِرَنَّ جَارَۃٌ لِجَارَتِھَا وَلَوْ فِرْسَنُ شَاْۃٍ۔ (بخاری و مسلم)

کوئی پڑوسن اپنے پڑوسن کے لیے کسی چیز کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ دینے کے لیے بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہ نصیحت و وصیت دونوں پڑوسنوں کے لیے ہے۔ یعنی نہ تو بھیجنے والی پڑوسن اپنے معمولی تحفے و ہدیے کو حقیر سمجھ کر اپنی پڑوسن کو تحفہ نہ بھیجے اور دوسری پڑوسن اس معمولی ہدیہ کو دیکھ کر منہ نہ پھیرے بلکہ شکریہ کے ساتھ قبول کرلے۔

اسی طرح سے جب کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن سے روزمرہ کی برتنے والی چیز مانگے تو بلا کسی حیلے بہانے کے اگر موجود ہو تو دے دے جیسے آگ، پانی، نمک، ڈلی، ڈولی، چمچہ، چھلنی، ہانڈی، طشتری، رکابی، کٹورا وغیرہ ایسی چیزوں کی بعض مرتبہ ضرورت پیش آجایا کرتی ہے اور نہ دینے کی صورت میں دوسرے کو بڑی تکلیف پہنچتی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
قرآن مجید میں ایسی چیزوں کو ’’مَاعُوْنَ‘‘ کہا گیا ہے جس کی ممانعت سے روکا گیا ہے اور نہ دینے والوں کی بڑی مذمت بیان کی گئی ہے:

اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ۝۱ۭ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ۝۲ۙ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۝۳ۭ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۝۴ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ۝۵ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَ۝۶ۙ وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۝۷ۧ (ماعون: ۱تا۷)

کیا آپ نے اس کو دیکھا ہے جو قیامت کے دن کو جھٹلاتا ہے یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھلانے کی رغبت نہیں دیتا۔ ان نمازیوں کے لیے افسوس ہے جو اپنی نمازوں میں سُستی کرتے ہیں اور دکھانے کے لیے ادا کرتے ہیں اور برتنے کی چیزوں کو روک لیتے ہیں۔

برتنے کی چیزوں سے مراد آگ، پانی، ڈور، رسی، کدال، پھاوڑا۔ اس قسم کی چیزیں ہیں جو مانگنے پر موجود ہوتے ہوئے نہ دے وہ منافق ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔ انسانی معاشرہ اس کا متقاضی ہے کہ اس قسم کی چیزیں فراخ دلی کے ساتھ دی جائیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اگر پڑوسی کو دیوار میں میخ اور کھونٹی گاڑنے کی ضرورت پیش آجائے اور گاڑنے سے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے گا تو گاڑنے سے نہیں روکنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

لَا یَمْنَعُ جَارٌ جَارَہٗ اَنْ یَّغرِزَ خَشَبَتَہٗ فِیْ جِدَارِہٖ۔ (بخاری و مسلم)


یعنی کوئی پڑوسی اپنے ہمسایہ پڑوسی کو دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے منع نہ کرے۔

جس کا مکان، مکان سے ملا ہوا ہو، اور دیوار، دیوار سے ملی ہوئی ہو تو ایسی ضرورت پیش آجایا کرتی ہے اور اس قسم کی ہمدردیوں کا زیادہ مستحق ہے کیوں کہ سب سے زیادہ قریب ہے ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نے کہا:

یَارَسُوْلَ اللہِ اِنَّ لِیْ جَارَیْنِ فَاِلٰی اَیّھِمَا اُھْدِیْ قَالَ الٰی اَقْرَبِھِمَا مِنْکِ بَابًا۔ (بخاری)


یا رسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کے یہاں ہدیہ اور تحفہ بھیجوں؟ آپ نے فرمایا کہ جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے قریب ہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قریب والے پڑوسی کا زیاد حق ہے اگر آسودہ پڑوسی آسودہ ہوکر کھائے پیئے اور غریب و محتاج پڑوسی کی خبر گیری نہ کرے تو وہ کامل مومن نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یَشْبَعُ وَجَارُہٗ جَائِعٌ۔ (شعب الایمان)

یعنی وہ مومن نہیں ہے جو خود آسودہ ہو اور اس کے بغل کا پڑوسی بھوکا ہو۔
 
Top