• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آرتھر جیفری اور کتاب المصاحف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مصاحف صحابہ﷢ و تابعین﷭ کی حقیقت
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے زمانے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کے رسول ﷺ کے حکم سے بھی اور اپنے طور پر بھی قرآن کی کتابت کرتے تھے۔مثال کے طور پر حضرت زید بن ثابت﷜ آپﷺ کے کاتب ہونے کی حیثیت سے ایک سرکاری کاتب کا درجہ رکھتے تھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’إن زید بن ثابت قال: أرسل إلی أبوبکر رضی اﷲ عنہ قال إنک کنت تکتب الوحي لرسول اﷲ ﷺ فاتبع القرآن فتتبعت۔‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب کاتب النبي ﷺ: ۴۹۸۹)
’’ حضرت زید بن ثابت﷜ کہتے ہیں مجھے حضرت ابوبکر﷜ نے ایک پیغام بر کے ذریعے یہ کہلوا بھیجا کہ تم (اللہ کے رسول ﷺ کے( زمانے میں ان )کے لیے وحی لکھا کرتے تھے ۔ پس تم قرآن کو تلاش کرو(اور جمع کرو)۔ پس میں نے قرآن کو تلاش کیا(اور جمع کیا)۔
صحابہ ﷢کی ایک جماعت آپ ﷺ سے قرآن کو نقل کرتی تھی اور بعض اوقات یہی صحابہ احادیث بھی لکھ لیا کرتے تھے۔ پس آپ ﷺ نے ایک خاص دورانیے میں احادیث لکھنے سے منع کر دیا تاکہ قرآن کے ساتھ احادیث خلط ملط نہ ہو جائیں۔ جب صحابہ﷜ قرآن کے اسلوب و مزاج سے اچھی طرح واقف ہو گئے تو پھر آپﷺ نے احادیث لکھنے کی اجازت جاری فرما دی۔ ایک اورروایت کے الفاظ ہیں:
عن أبی سعید الخدري أن رسول اﷲ ﷺ قال: ’’لَا تَکْتُبُوا عَنِّيْ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّيْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہٗ‘‘۔ (صحیح مسلم‘ کتاب الزھد و الرقاق‘ باب التثبت في الحدیث وحکم کتابۃ العلم: ۵۳۲۶)
’’حضرت ابو سعید خدری ﷜ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: مجھ سے (قرآن کے علاوہ) نہ لکھو اور جس نے مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ لکھا ہے‘ وہ اسے مٹا دے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
آپ ﷺ کے زمانے میں کچھ صحابہ سرکاری کاتبین وحی تھے لہٰذا سرکاری طور پر جمع شدہ قرآن موجود تھا ۔ علاوہ اَزیں صحابہ ﷢ اپنے طور پر بھی قرآن جمع کرتے تھے۔ اکثر و بیشتر صحابہ ﷢ کے پاس قرآن کے مختلف اجزاء لکھی ہوئی صورت میں موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں جمع صدیقی کے وقت حضرت زید بن ثابت﷜ مختلف صحابہ ﷢ کے پاس کھجور کی شاخوں‘ چمڑوں اور پتھروں پر لکھے ہوئے قرآن کو ایک جگہ جمع کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’فتتبعت القرآن أجمعہ من العسب واللخاف وصدور الرجال۔‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن: ۴۹۸۶)
’’پس میں نے قرآن کو تلاش کیا اور اسے کھجور کی شاخوں‘ چمڑوں‘ پتھروں اور لوگوں کے سینے سے جمع کرنے لگا۔‘‘
یہ واضح رہے کہ صحابہ ﷢ کے پاس مکمل مصاحف لکھی ہوئی صورت میں نہ تھے بلکہ ان کے پاس قرآن کے متفرق اجزاء تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جمع صدیقی کے وقت حضرت زید بن ثابت ﷜ کو بعض آیات کسی صحابی﷜کے پاس لکھی ہوئی نہ ملتی تھیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت زید بن ثابت ﷜ فرماتے ہیں:
’’فقدت آیۃ من الأحزاب حین نسخنا المصحف قد کنت أسمع رسول اﷲ ﷺ یقرأ بھا، فالتمسناھا فوجدناھا مع خزیمۃ بن ثابت الأنصاري۔‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن: ۲۸۰۷)
’’ جب ہم نے مصحف کو لکھ لیا تو سورۃ احزاب کی ایک آیت ہم نے کم پائی جسے میں نے اللہ کے رسول ﷺسے پڑھتے ہوئے سنا تھا۔ پس ہم نے اس آیت(کی لکھی ہوئی صورت) کو تلاش کیاتو ہم نے اسے خزیمہ بن ثابت انصاری﷜ کے پاس پایا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
حضرت ابو بکر صدیق﷜ کے زمانے میں حضرت زید بن ثابت﷜ کو سرکاری طور پر ایک ایسے مصحف کی تیاری کاحکم دیا گیاجس میں قرآن کی جمیع آیات وسور کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہو۔ اس مصحف کی تیاری کا تذکرہ بہت سی روایات میں ملتا ہے۔ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’أن زید بن ثابت رضی اﷲ قال: أرسل إلي أبوبکر مقتل أھل الیمامۃ فإذا عمر بن الخطاب عندہ، قال أبوبکر إن عمر أتاني فقال: إن القتل قد استحر یوم الیمامۃ بقراء القرآن و إني أخشی أن یستحر القتل بالقراء بالمواطن فیذھب کثیر من القرآن و إني أری أن تأمر بجمع القرآن۔ قلت لعمر: کیف تفعل شیئا لم یفعلہ رسول اﷲ ﷺ؟ قال عمر: ھذا، و اﷲ! خیر۔ فلم یزل عمر یراجعني حتی شرح اﷲ صدري لذلک، ورأیت في ذلک الذي رأی عمر۔ قال زید: قال أبوبکر: إنک رجل شاب عاقل، لا نتھمک وقد کنت تکتب الوحي لرسول اﷲ ﷺ۔ فتَتَبَّعْ القرآن فاجْمَعْہ۔ فواﷲ! لو کلفوني نقل جبل من الجبال ما کان أثقل علي مما أمرني بہ من جمع القرآن۔ قلت: کیف تفعلون شیئا لم یفعلہ رسول اﷲ ﷺ؟ قال: ھو واﷲ! خیر، فلم یزل أبوبکر یراجعني حتی شرح اﷲ صدري للذي شرح لہ صدر أبي بکر ÷ وعمر ÷ فتتبعت القرآن أجمعہ من العسب واللحاف وصدور الرجال۔‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن: ۴۹۸۶)
’’حضرت زید بن ثابت﷜ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق﷜ نے انہیں اہل یمامہ کی جنگ کے وقت بلوا بھیجاتو انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابو بکر﷜کے پاس حضرت عمر﷜موجود ہیں۔ حضرت ابو بکر﷜ نے کہا: عمر﷜ میرے پاس آئے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یمامہ کی جنگ میں قراء کی کثیر تعداد شہید ہوئی ہے اور مجھے یہ اندیشہ ہے کہ بعض دوسرے مقامات پر بھی قراء کی ایک بڑی تعداد شہید ہوجائے اور ہم سے قرآن کا اکثر حصہ ضائع ہو جائے۔ اس لیے میرا خیال یہ ہے کہ آپ(یعنی ابو بکر﷜ ایک جگہ) جمع قرآن کا حکم جاری فرمائیں۔ میں (یعنی ابوبکر﷜) نے عمر﷜ سے کہا: تم وہ کام کیسے کرو گے جو اللہ کے رسولﷺنے نہیں کیا۔حضرت عمر﷜ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! اس کام میں خیر ہی خیر ہے۔پس حضرت عمر﷜ مجھے اس کام کے لیے مشورہ دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے ا س کے لیے میرے سینے کوکھول دیااور اس مسئلے میں میری رائے بھی وہی ہو گئی جو حضرت عمر﷜ کی ہے۔حضرت زید﷜ نے کہا:حضرت ابوبکر﷜ نے یہ کہا کہ تم ایک نوجوان اور سمجھدار آدمی ہو اور ہم تم میں کوئی عیب بھی نہیں دیکھتے اور تم اللہ کے رسولﷺ کے کاتب بھی تھے۔ پس تم قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو۔ (حضرت زید﷜ فرماتے ہیں)اللہ کی قسم! اگر وہ حضرات مجھے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تویہ کام مجھ پر جمع قرآن کی نسبت آسان تھا۔ میں (زید﷜) نے کہا: آپ حضرات وہ کام کیسے کریں گے جو اللہ کے رسولﷺ نے نہیں کیا۔ حضرت ابو بکر﷜ نے کہا:اللہ کی قسم! یہ کام خیر ہی خیر ہے۔ پس حضرت ابو بکر﷜ مجھے اس کام پر مجبور کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرا سینہ بھی ویسے ہی کھول دیا جیسا کہ حضرت ابو بکر و عمررضی اللہ عنہما کا کھولا تھا۔پس میں قرآن کو تلاش اور اسے کھجور کی شاخوں‘ چمڑوں‘ پتھروں اور لوگوں کے سینے سے جمع کرنے لگا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ایک اور روایت کے مطابق حضرت زید بن ثابت﷜ کے ساتھ حضرت عمر﷜ بھی اس کام میں شریک تھے اور یہ حضرات جمع صدیقی کے دوران اس وقت تک کسی صحابی﷜ سے کوئی آیت مبارکہ قبول نہ کرتے تھے جب تک کہ وہ صحابی اس بات پر دو گواہ نہ پیش کر دے کہ اس نے وہ آیت مبارکہ اللہ کے رسولﷺکے سامنے لکھی اور پڑھی تھی۔ روایت کے الفاظ ہیں:
عن ھشام بن عروۃ عن أبیہ قال: لما استحر القتل بالقراء یومئذ فرق أبوبکر علی القرآن أن یضیع فقال لعمر بن الخطاب و لزید بن ثابت: ’’اقعدوا علی باب المسجد فمن جاء کما بشاھدین علی شیء من کتاب اﷲ فاکتباہ۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب جمع أبی بکر الصدیق ﷜ في المصحف)
’’ ہشام بن عروۃ﷫اپنے والد عروۃ بن زبیر﷫ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: جب قراء کی بڑے پیمانے پر شہادت ہوئی تو حضرت ابوبکر﷜ اس بات سے گھبرا گئے کہ قرآن ضائع نہ ہو جائے۔ پس انہوں نے حضرت عمر﷜ اور زید﷜ سے کہا:مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھ جاؤ اور جو تمہارے پاس کسی چیز(یعنی لکھی ہو ئی ہو اورپڑھی ہوئی) پر دو گواہ لے کر آئے کہ وہ کتاب اللہ میں سے ہے تو اسے لکھ لو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اس روایت کی شرح ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔حضرت ابو صدیق﷜ کے زمانے میں تمام قرآن لکھی ہوئی شکل میں جمع کر لیا گیا لیکن یہ مرتب نہیں تھا بلکہ ایک مصحف کی بجائے مختلف صحیفوں کی صورت میں تھا۔ مثال کے طور پر اس کو آسانی کے لیے یوں سمجھ لیں کہ جیسے قرآن کی ۱۱۴ سورتیں ہیں‘ اب یہ تمام سورتیں تو موجود ہوں لیکن متفرق طور پر ‘ یا اس کی مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ جیسے قرآن کے تیس پارے ہیں ۔ اب یہ تیس اجزاء متفرق طور پر ہوں تو ان کو ’صحف‘ کہیں گے اور اگر ان کو ایک جلد میں جمع کر دیں تو اس کو ’مصحف‘ کہیں گے۔ حضرت ابو بکر﷜ کے زمانے میں ’صحف‘ تھے نہ کہ ’مصحف‘ ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
وقال عثمان للرھط القرشیین الثلاثۃ: ’’إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانھم ففعلوا حتی نسخوا الصحف في المصاحف رد عثمان الصحف إلی حفصۃ۔‘‘ (صحیح بخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن: ۳۵۰۶)
’’حضرت عثمان﷜ نے تین قریشی صحابہ﷢سے کہا: جب تمہارا اور زید بن ثابت﷜ کا کسی لفظ کو لکھنے (کے رسم) میں اختلاف ہو جائے تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو کیونکہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ پس ان چاروں صحابہ﷢ نے یہ کام کیا اورتمام ’صحف‘ کو ’مصاحف‘ میں نقل کر دیا۔ پھر حضرت عثمان﷜ نے (حضرت ابو بکر﷜ کے زمانے میں تیار شدہ) صحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو لوٹا دیے( کیونکہ حضرت ابو بکر﷜ سے وہ حضرت عمر﷜ کے پاس آئے تھے اور حضرت عمر﷜ سے پھر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو ملے تھے)۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
حضرت ابو بکر﷜ کے زمانے میں صحابہ﷢ کے جزوی و انفرادی صحیفے ان کے پاس موجود رہے۔حضرت عمر﷜ کے زمانے میں جب سلطنت وسیع ہوئی تو مختلف صحابہ﷢ مختلف شہروں کی طرف ہجرت کر گئے ۔ بعض صحابہ کو حضرت عمر﷜ نے خود بھی بھیجا تھاجیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ کو کوفہ کی طرف بھیجا گیا۔ ان کبار صحابہ﷢ نے اپنے اپنے شہروں میں اپنے صحائف کے مطابق قرآن کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر صحابی﷜ نے جو حرف اللہ کے رسولﷺ سے نقل کیا تھااس کے مطابق اپنے شاگردوں کو قرآن کی تعلیم دی۔اس طرح مختلف اسلامی شہروں میں مختلف قرآنی قرا ء ات کا ظہور ہواجس سے مختلف بلاد و امصار کے قرآن کی قرا ء ات کے حوالے سے ایک تنازع پیدا ہو گیا۔ ہر شہر کے لوگ اپنے شہر کی قر اء ت کو صحیح اور دوسری کو غلط کہنے لگے حالانکہ ان میں سے اکثر قرا ء ات احرف سبعہ کے ذیل میں اللہ کے رسولﷺسے ثابت تھیں۔ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’عن أبي الشعثاء قال: کنت جالسا عند حذیفۃ وأبي موسی وعبد اﷲ بن مسعود فقال حذیفۃ: أھل البصرۃ یقرؤون قرائۃ أبي موسی‘ وأھل الکوفۃ یقرؤون قرائۃ عبد اﷲ‘ أما واﷲ! أن لو قد أتیت أمیر المؤمنین لقد أمرتہ بغرق ھذہ المصاحف۔ فقال عبداﷲ: إذا تغرق في غیر مائ۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب کراھیۃ عبد اﷲ بن مسعود ﷜ ذلک)
’’ابو شعثاء﷫ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں حضرت حذیفہ‘ حضرت ابو موسی اشعری اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود﷢ کے پاس بیٹھا تھا کہ حضرت حذیفہ﷜ نے کہا: اہل بصرہ ابو موسی اشعری﷜ کی اور اہل کوفہ عبد ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی قراء ت پڑھتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! اگر میں امیر المؤمنین کے پاس آؤں توانہیں ان جمیع (اختلافی)مصاحف کے غرق کرنے کا حکم دے دوں۔ اس پر ابن مسعود﷜نے کہا: تب تو تم بھی بنا پانی کے غرق ہو جاؤ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اس روایت کی سند ایک مدلس راوی کے عنعنہ کی وجہ سے’ ضعیف‘ ہے لیکن اس روایت کے متن کی تائید بعض صحیح روایات سے بھی ہوتی ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق قراء ات کے یہ اختلافات محاذ جنگ اور سرحدی علاقوں میں بھی بہت نمایاں ہو گئے تھے۔ روایت کے الفاظ ہیں:
’’أن حذیفۃ بن الیمان قدم علی عثمان و کان یغازي أھل الشام في فتح أرمینیۃ وأذربیجان مع أھل العراق فأفزع حذیفۃ اختلافھم في القرائۃ فقال حذیفۃ لعثمان: یا أمیر المؤمنین! أدرک ھذہ الأمۃ قبل أن یختلفوا في الکتاب اختلاف الیھود والنصاری۔‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن: ۴۹۸۸)
’’حضرت حذیفہ بن یمان﷜ حضرت عثمان﷜ کے پاس آئے اور وہ اہل عراق و اہل شام کے ساتھ مل کر آرمینیہ اور آذر بائیجان کی فتح کے لیے جنگ کر رہے تھے۔ اس موقعے پر صحابہ﷢ کی قراء ات کے اختلافات سے حضرت حذیفہ﷜ گھبرا گئے اور انہوں نے حضرت عثمان﷜ سے کہا: اے امیر المؤمنین!اس امت کو پکڑیں اس سے پہلے کہ یہ بھی یہود و نصاری کی طرح اللہ کی کتاب میں اختلاف کرنے لگے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
یہ بھی واضح رہے کہ متفر ق احرف کی قراء ت کے علاوہ اس عرصے میں یعنی جمع عثمانی سے پہلے کچھ ایسی قراء ات بھی رائج و عام تھیں جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکی تھیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن سمرۃ رضی اﷲ عنہ قال: ’’عرض القرآن علی رسول اﷲ ﷺ عرضات فیقولون: إن قرائتنا ھذہ العرضۃ الأخیرۃ۔‘‘
ھذا حدیث صحیح علی شرط البخاري بعضہ، وبعضہ علی شرط مسلم ولم یخرجاہ۔
تعلیق الذھبی فی التلخیص: صحیح۔ (المستدرک علی الصحیحین‘ کتاب التفسیر: ۲؍۲۵۰)

’’حضرت سمرۃ﷜سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:قرآن مجید اللہ کے رسولﷺ پر کئی مرتبہ پیش کیا گیا اور صحابہ﷜ کا کہنا یہ تھا کہ ہماری یہ قراء ت(یعنی جمع عثمانی والی) عرضہ اخیرہ کے مطابق ہے۔(امام حاکم﷫ نے کہا ہے کہ) اس روایت کابعض حصہ بخاری کی شرط پر اور بعض مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ امام ذہبی﷫ نے بھی اپنی ’تعلیق‘ میں اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اس بارے میں بھی صحابہ﷢ میں اختلاف تھا کہ کون سی قراء ت عرضہ اخیرہ کے مطابق ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن مجاہد عن ابن عباس قال، قال: ’’أي القرائتین کانت أخیرا قرائۃ عبداﷲ أو قرائۃ زید؟‘‘ قال، قلنا: ’’قرائۃ زید۔‘‘ قال: ’’لا إلا أن رسول اﷲ ﷺ کان یعرض القرآن علی جبریل کل عام مرۃ فلما کان في العام الذي قبض فیہ عرضہ علیہ مرتین و کانت آخر القرائۃ قرائۃ عبداﷲ۔‘‘ تعلیق شعیب الأرنؤوط: صحیح۔ ( مسند أحمد‘ باب مسند عبد اﷲ بن العباس ﷜: ۱؍۲۷۵‘ مؤسسۃ قرطبۃ‘ القاھرۃ، ۲۴۹۴)
’’ حضرت مجاہد﷫‘ ابن عباس﷜ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے سوال کیا: دونوں قراء ات میں کون سی قراء ت آخری ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ کی یا حضرت زید بن ثابت﷜کی۔ہم نے جواب دیا: حضرت زید بن ثابت﷜ کی قراء ت۔ حضرت عبد اللہ بن عباس﷜ نے کہا: نہیں! حضرت جبرئیل﷤ قرآن مجید اللہ کے رسولﷺپر ہر سال ایک مرتبہ پیش کرتے تھے اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال دو مرتبہ پیش کیا اور عبد اللہ بن مسعود﷜ کی قراء ت آخری قراء ت ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
بعض صحیح روایات کے مطابق حضرت زید بن ثابت﷜ کی قراء ت عرضہ اخیرہ کے مطابق تھی۔ ابن حجر﷫ نے ان روایات کو بیان کرنے کے بعد ان میں یوں موافقت پیدا کی ہے کہ یہ دونوں اقوال ہی اپنی جگہ درست ہیں۔ دونوں صحابہ یعنی حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما کی قراء ت عرضہ اخیرہ کے مطابق تھی۔ (فتح الباري: ۹؍ ۴۴)
غالب گمان یہی ہے کہ یہ منسوخ قرا ء ات عموماً ان مترادفات کے قبیل سے تھیں جن کی اجازت آپﷺکے زمانے میں تیسیر و عدم حرج کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے دی گئی تھی۔اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ میں کچھ ’حروف‘ عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے ہیں اور کچھ باقی ہیں جن کی تلاوت ہم آج تک کرتے چلے آ رہے ہیں۔
جمع عثمانی سے پہلے اسی طرح ایک اور مشکل (جو کسی حد تک بعد میں بھی رہی)یہ بھی درپیش تھی کہ بعض صحابہ﷢ نے آپﷺکی تفسیرکو اپنے مصاحف میں لکھ کر قرآن کے ساتھ خلط ملط کر دیا تھا۔ یعنی اللہ کے رسولﷺنے جس خدشے کے پیش نظر قرآن کے علاوہ کچھ لکھنے سے منع کیا تھا ‘ اس کا عملی مظہر کچھ اس طرح سامنے آنے لگاتھا کہ بعض صحابہ﷢ تفسیری نکات کو بھی بطور قرآن نقل کر رہے تھے جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت ام سلمہ‘ حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہن نے اپنے کاتب کو یہ ہدایت کی وہ قرآن لکھتے وقت سورۃ بقرۃ میں ’وصلاۃ العصر‘ کے الفاط بھی لکھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن أبی یونس مولی عائشۃ أم المؤمنین أنہ قال: أمرتني عائشۃ رضي اﷲ عنھا أن أکتب لھا مصحفا ثم قالت: ’’إذا بلغت ھذہ الآیۃ: ’’ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی ‘‘ فآذنی فلما بلغتھا آذنتھا فأملت علی: (حافظوا علی الصلوات و الصلاۃ الوسطی و صلاۃ العصر وقوموا للہ قانتین۔) ثم قالت: ’’سمعتھا من رسول اﷲ ﷺ‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب مصحف عائشۃ زوج النبي ﷺ)
’’یونس مولیٰ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں۔ پھر یہ کہا کہ جب میں اس آیت یعنی ’حٰفظوا علی الصلَوٰت و الصلوٰۃ الوسطی‘ پر پہنچوں ‘ تو انہیں مطلع کروں۔ پس جب میں(یعنی کاتب) اس آیت مبارکہ پر پہنچا تو انہیں خبر دی۔ پس انہوں نے مجھے یہ آیت اس طرح املا کروائی: حافظوا علی الصلوات و الصلاۃ الوسطی وصلاۃ العصر وقوموا ﷲ قانتین‘ اور پھر فرمایا: میں نے اللہ کے رسولﷺسے ایسے ہی سنا ہے۔‘‘
 
Top