• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آرتھر جیفری اور کتاب المصاحف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مصحف اُبی بن کعب﷜ (متوفی ۱۶ھ یا۲۲ھ یا ۳۰ھ)
مصحف ابی بن کعب﷜ کے وجود کے بارے میں بھی روایات و آثار ملتے ہیں۔ لیکن روایات سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ ان کا یہ مصحف حضرت عثمان﷜نے ضبط کر لیا تھا ۔ جمع عثمانی سے قبل حضرت ابی بن کعب﷜ کا مصحف کیسا تھا یا کن سورتوں پر مشتمل تھا یا اس کا رسم الخط کیا تھا‘ اس بارے ہمیں کوئی مستند روایات نہیں ملتی۔ جوروایات ان کے مصحف کے احوال کے بارے مروی ہیں وہ باہم متضاد ہیں لہٰذا انتقاد اعلی کے اصول اور مضطرب المتن ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول اور ضعیف ہیں۔
ابن ندیم﷫ نے اپنی کتاب ’الفہرست‘ میں حضرت ابی بن کعب﷜ کے مصحف میں موجود سورتوں کی ترتیب مصحف عثمانی کے برعکس بیان کی ہے۔ اس روایت کے مطابق فضل بن شاذان(متوفی ۲۶۰ھ) کسی مبہم ثقہ صاحب سے مصحف ابی﷜ کی سورتوں کی ترتیب نقل کرتے ہیں۔ اس ترتیب کے مطابق ان کے مصحف میں مصحف عثمانی کے بالمقابل ۱۰ سورتیں یعنی سورۃ العنکبوت‘ سورۃ لقمان‘ سورۃ الدخان‘ سورۃ الذاریات‘سورۃ التحریم‘سورۃ مزمل‘ سورۃ مدثر‘ سورۃ البلد اور سورۃ العصر غائب ہیں۔ علاوہ ازیں دو سو رتوں سورۃ الخلع اور سورۃ الجید کا اضافہ بھی ہے۔ اس روایت میں کل ۱۰۶ سورتوں کا بیان ہے حالانکہ روایت کے آخر میں لکھا ہے کہ یہ کل ۱۱۶ سورتیں ہوئیں یعنی مصحف ابن مسعود﷜ والی روایت کی مانند یہ روایت بھی اپنی تکذیب خود ہی کر رہی ہے۔ (الفہرست‘ باب ترتیب القرآن في مصحف أبي بن کعب : ص ۴۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
امام سیوطی﷫ نے ’الإتقان‘میں مصحف ابی بن کعب﷜ کی سورتوں کی جو ترتیب بیان کی ہے وہ ابن ندیم﷫ کی ترتیب سے مختلف ہے۔امام سیوطی﷫نے یہ روایت ابن اشتہ﷫(متوفی۴۹۱ھ) سے نقل کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ’کتاب المصاحف‘ میں بیان کی ہے۔ابن اشتہ﷫ کی یہ کتاب اس وقت مفقود ہے لہٰذا اس خبر کی بنیادہمارے پاس ’الاتقان‘ہی ہے۔ابن اشتہ﷫نے یہ روایت محمد بن یعقوب‘ انہوں نے ابوداؤد﷫ سے اور انہوں نے ابوجعفر الکوفی﷫ سے نقل کی ہے۔ ابو جعفر الکوفی﷫ کی وفات ۲۴۸ھ میں ہوئی۔ابن اشتہ﷫ کی بیان کردہ اس فہرست میں مصحف عثمانی کے بالمقابل ۱۰۶ سورتوں کا بیان ہے اور ۸ سورتیں یعنی سورۃ الفرقان‘ سورۃ فاطر‘ سورۃ زخرف‘ سورۃ قمر‘ سورۃ مجادلہ‘ سورۃ انسان‘ سورۃ بروج وغیرہ غائب ہیں علاوہ ازیں دو سورتوں سورۃ الخلع اور سورۃ الحفد کا اضافہ بھی ہے۔(الإتقان‘ باب النوع الثامن عشر من جمعہ و ترتیبہ: ص ۲۲۳) یہ دونوں روایات مضطرب ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہیں۔
علاوہ اَزیں کتاب المصاحف ہی کی ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عثمان﷜ نے ابی بن کعب﷜ کا مصحف اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ حضرت ابی بن کعب﷜ کے بیٹے کے پاس بھی یہ مصحف موجود نہ تھاچہ جائیکہ کوئی سینکڑوں سال بعد اپنے پاس مصحف ابی﷜ کے ہونے کا دعویٰ کرے۔ ابن ابی داؤدش﷫ کی روایت کے الفاظ ہیں:
’’حدثنا عبد اﷲ قال حدثنا أبو الربیع قال أخبرنا ابن وھب أخبرني عمرو قال: قال بکیر حدثني بسر بن سعید عن محمد بن أبي أن أناسا من أھل العراق قدموا إلیہ فقالوا: إنما تحملنا إلیک من العراق‘ فأخرج لنا مصحف أبي قال محمد: قد قبضہ عثمان۔ قالوا: سبحان اﷲ! أخرجہ لنا۔ قال: قد قبضہ عثمان۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب جمع عثمان المصاحف)
ابن ابی داؤد﷫نے مصحف ابی بن کعب﷜ کے تحت چار روایات کا تذکرہ ہے۔ جن میں چار مقامات قرآنیہ میں حضرت ابی بن کعب﷜ کے اختلاف قراء ت کا ذکر ہے۔دوسری اور تیسری روایت میں ان کے ذاتی مصحف کا بھی بیان ہے۔ اس مصحف کو حضرت عثمان﷜ نے بعد میں ضبط کر لیا تھا۔پہلی روایت کے مطابق حضرت ابی بن کعب﷜ نے سورہ نساء میں ’فما استمتعتم بہ منھن إلی أجل مسمی‘ پڑھا ہے۔ دوسری روایت کے مطابق سورۃبقرۃ میں ان کے مصحف میں ’للذین یقسمون من نسائھم‘ کے الفاظ درج تھے۔تیسری روایت کے مطابق سورۃ بقرۃ ہی میں ان کے مصحف میں ’فلا جناح علیہ أن یطوف بھما‘ لکھا ہوا تھا۔ چوتھی روایت کے مطابق وہ سورہ بقرۃ میں ’فصیام ثلاثۃ أیام متتابعات‘ پڑھتے تھے۔ پہلی تین روایات کی سند ’منقطع‘ ہے۔ آخری روایت کی سند ’صحیح ‘ہے لیکن حضرت عثمان﷜ نے سرکاری مصحف جاری کرنے کے بعدیہ مصحف اپنے قبضے میں لے لیا تھا لہٰذا قرآن کی تلاوت میں یہ روایت دلیل نہیں بنتی۔ ہمارے خیال میں یہ در اصل تفسیری نکتہ تھا جو بطورقراء ت نقل ہو گیا۔
علاوہ ازیں روایت حفص عن عاصم کی صحیح و متواترسند حضرت علی بن ابی طالب﷜ تک بھی جاتی ہے۔ لہٰذا اس متواتر سند کی موجودگی میں ان کی ایسی قراء ات کی کیسے تصدیق کی جاسکتی ہے جو ’ضعیف ‘اور اخبار آحاد کی قبیل سے ہیں۔یہ سند ماہنامہ رشدجون۲۰۰۹ء ‘ ص ۱۹۵ پرملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مصحف علی بن اَبی طالب﷜(متوفی ۴۰ھ)
کتاب المصاحف میں ابن ابی داؤد﷫ نے ’جمع علی بن ابی طالب ﷜‘ کے نام سے ایک عنوان باندھا ہے اور اس کے تحت ایک روایت نقل کی ہے۔ اس روایت کے مطابق اللہ کی رسولﷺکی وفات کے بعد حضرت علی﷜ نے یہ قسم کھا لی تھی کہ اس وقت تک اپنی چادر نہ اوڑھیں گے جب تک قرآن جمع نہ کر لیں۔ قرآن جمع کرنے سے ان کی مراد کیا تھی؟ اس بارے میں جمہور اہل سنت علما ء کا کہنا ہے کہ اس سے ان کی مراد قرآن کو یاد کرنا تھا۔ روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’حدثنا عبد اﷲ قال حدثنا محمد بن إسماعیل الأحمسي قال حدثنا ابن فضیل عن أشعث عن محمد بن سیرین قال: لما توفي النبي ﷺ أقسم علی أن لا یرتدي برداء إلا لجمعۃ حتی یجمع القرآن في مصحف ففعل، فأرسل إلیہ أبوبکر بعد أیام أکرھت أمارتي یا أبا الحسن؟ قال: لا واﷲ! إلا أني أقسمت أن لا أرتدي برداء إلا لجمعۃ، فبایعہ ثم رجع۔ (قال أبوبکر: لم یذکر المصحف أحد إلا أشعث وھو لین الحدیث و إنما رووا حتی أجمع القرآن یعني: أتم حفظہ فإنہ یقال للذي یحفظ القرآن قد جمع القرآن)۔‘‘(کتاب المصاحف‘ باب جمع علي بن أبي طالب)
اس روایت کی سند میں اشعث راوی ’ضعیف‘ ہے ۔ علاوہ ازیں اس کی سند ’معضل‘ بھی ہے یعنی اس میں ابن سیرین﷫ کے بعد دوراوی غائب ہیں۔ امام بن حجر﷫ نے بھی ’فتح الباری‘ میں اس جمع سے مراد حفظ ہی لیا ہے ۔ امام ابن حجر﷫ کا کہنا یہ بھی ہے کہ جن روایات میں’بین اللوحین‘ جمع کرنے کا تذکرہ ہے وہ راوی کا وہم ہے۔ ابن حجر﷫ نے بھی ابن سیرین﷫ کی روایت کو’ ضعیف ‘کہا ہے۔ (فتح الباري: ۹؍۱۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
بفرض محال حضرت علی﷜نے اپنا کوئی مصحف ترتیب دیا بھی تھا تو جمع عثمانی پر ان کی رضا سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے یہ مصحف حضرت عثمان﷜ کے حوالے کر دیا تھا۔ابن ابی داؤد﷫ کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
حدثنا عبد اﷲ قال حدثنا سھل بن صالح قال حدثنا أبو داؤد و یعقوب قالا: أخبرنا شعبۃ عن علقمۃ بن مرثد عن سوید بن غفلۃ قال: قال علي في المصاحف: ’’لو لم یصنعہ عثمان لصنعتہ۔‘‘ قال أبو داؤد: عن رجل عن سوید﷢۔ (کتاب المصاحف ‘ باب اتفاق الناس مع عثمان علی جمع المصاحف)
اس روایت میں ایک راوی’مبہم‘ ہے لہٰذا سند ضعیف ہے لیکن اس کی تائید بعض دوسری روایات سے بھی ہوتی ہے۔ اگر تو حضرت علی﷜ کا واقعتا کوئی علیحدہ سے مصحف تھا تو آج اہل تشیع کے پاس وہ مصحف موجود ہوتا لیکن وہ بھی اہل سنت کی طرح مصحف عثمانی ہی کی تلاوت کرتے ہیں اور اسی کو مصحف سمجھتے ہیں۔
یہ بات بہرحال کثرت طرق سے مروی ہے کہ حضرت علی﷜ نے جمع عثمانی ہی کو ترتیب نزولی کے اعتبار سے جمع کیا تھا لیکن ان کی یہ جمع اس وقت کہاں ہے؟ اس کے بارے کچھ علم نہیں ہے۔ امام سیوطی﷫ نے ’الاتقان‘ میں اس جمع کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (الإتقان‘ باب النوع الثامن عشرمن جمعہ و ترتیبہ)
ابن ابی داؤد﷫ نے مصحف علی بن ابی طالب﷜ کے عنوان کے ذیل میں صرف ایک ہی روایت نقل کی گئی ہے جس کے مطابق حضرت علیt نے سورۃ بقرہ میں ’’آمن الرسول بما أنزل إلیہ و آمن المؤمنون‘‘ پڑھا ہے۔اس روایت کی سند میں بعض راوی ’ضعیف‘ ہیں۔ لہٰذا یہ روایت ناقابل قبول ہے۔ اس روایت کو امام سیوطیؒ نے ’الدر المنثور‘ میں مصنف کی سند سے یوں نقل کیا ہے: ’’آمن الرسول بما أنزل إلیہ من ربہ وآمن المؤمنون‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب المصاحف کے ناسخین سے ’من ربہ‘ کے الفاظ لکھنے میں رہ گئے تھے۔ اس روایت میں حضرت علی﷜ کے کسی ذاتی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے۔
روایت حفص عن عاصم کی صحیح و متواترسند حضرت علی بن ابی طالب﷜ تک بھی جاتی ہے۔ لہٰذا اس متواتر سند کی موجودگی میں ان کی ایسی قراء ات کی کیسے تصدیق کی جاسکتی ہے جو ’ضعیف ‘اور اخبار آحاد کی قبیل سے ہیں۔یہ سند ماہنامہ رشدجون۲۰۰۹ء ‘ ص ۱۹۵ پرملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مصحف عبد اللہ بن عباس﷜(متوفی۶۸ھ)
آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق مؤرخ ’زنجانی ‘نے’ابو الفتح شہرستانی‘ کی تفسیر کے مقدمے سے حضرت عبد اللہ بن عباس﷜ کے مصحف میں موجود سورتوں کی ترتیب نقل کی ہے جو مصحف عثمانی کی ترتیب کے خلاف ہے۔ شہرستانی ؒکے بیان کے مطابق ابن عباس﷜ کے مصحف کی سورتوں کی ترتیب مصحف عثمانی کے بالمقابل درج ذیل تھی:
" 96, 68, 93, 73, 74, 1, 111, 81, 87, 92, 89, 94, 55, 103, 108, 102, 107, 105, 109, 112, 53, 80, 97, 91, 85, 95, 106, 101, 75, 104, 77, 50, 90, 86, 54, 38, 7, 72, 36, 25, 35, 19, 20, 26, 27, 28, 17, 10, 11, 12, 15, 6, 37, 31, 34, 39, 40, 41, 42, 43, 44, 45, 46, 51, 88, 18, 16, 71, 14, 21, 23, 13, 52, 67, 69, 70, 78, 79, 82, 84, 30, 29, 83, 2, 8, 3, 59, 33, 24, 60, 48, 4, 99, 22, 57, 47, 76, 65, 98, 62, 32, 63, 58, 49, 66, 64, 61, 5, 9, 110, 56, 100, 113, 114." (Materials:Codex of Ibne Abbas)
ابو الفتح شہرستانی (متوفی ۵۴۸ھ) ایک شیعہ مفسر اور عالم دین ہیں۔ ان کی تفسیر کا نام ’مفاتیح الأسرار ومصابیح الأبرار‘ ہے۔ ہمارے علم کی حد تک یہ تفسیر تاحال غیر مطبوع ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس تفسیر کے مقدمے میں ابن عباس﷜ کی طرف اس مصحف کی نسبت کی سند دیکھنی چاہیے ۔ آرتھر جیفری نے اس روایت کی کوئی سند بیان نہیں کی اور نہ ہی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ بغیر سند کے کوئی روایت کسی مفسر کے محض بیان کر دینے سے کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟جبکہ معاملہ بھی قرآن کا ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اگر یہ ثابت ہو بھی جائے کہ ابن عباس﷜ کا کوئی مصحف اس ترتیب پر مبنی تھا تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بعض سلف صالحین کے بارے میں یہ مروی ہے کہ انہوں نے جمع عثمانی کو ترتیب نزولی کے مطابق جمع کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس ترتیب کو دیکھ کر پہلی نظر میں ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ صاحب مصحف ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کو جمع کرنا چاہتا ہے۔ آج بھی اگر کوئی شخص ذاتی طور پر ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کو جمع کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جبکہ وہ مصحف عثمانی کی ترتیب کے مطابق ہی مصحف کی تلاوت ا ور نشر و اشاعت کا قائل ہو۔
قرآن کی سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے یا اجتہادی۔ اس مسئلے میں سلف صالحین کا اختلاف ہے۔ جمہور کی رائے کے مطابق سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے اور اس کے دلائل بھی قوی ہیں۔آگے چل کر ہم اس مسئلے پر تفصیل سے بحث کریں گے۔
کتاب المصاحف میں مصحف عبد اللہ بن عباس﷜ کے تحت ۳۳ روایات نقل ہوئی ہیں۔ پہلی پانچ روایات کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس﷜ نے سورۃ بقرۃ میں ’فلا جناح علی ألا یطوف بھما‘ پڑھا ہے اور چھٹی روایت کے مطابق ’ألا یطوف فیھما‘ پڑھا ہے۔ ان روایات کے بعض طرق’ صحیح‘ ہیں۔لیکن یہ روایات اخبار آحاد ہیں اور رسم عثمانی کے خلاف ہیں لہٰذا ناقابل قبول ہیں۔رسم عثمانی میں’لا‘ موجود نہیں ہے لہٰذا بطور قرآن نہیں پڑھنا چاہیے البتہ اس بات کا احتمال ہے کہ یہ قر اء ت ان احرف میں سے ہو جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اگلی چار روایات کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس﷜ نے سورہ بقرۃ میں ’لیس علیکم جناح أن تبتغوا فضلا من ربکم في مواسم الحج‘ پڑھا ہے۔ ان روایات کے بعض طرق ’صحیح‘ ہیں۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ یہ ابن عباس﷜ کی تفسیر ہے نہ کہ قراء ت۔ امام ابن حجر﷫ نے فتح الباری میں یہی نقل کیا ہے۔ کتاب المصاحف کی بعض روایات سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ ابن عباس﷜ کا مقصود شان نزول کی طرف اشارہ کرنا تھا نہ کہ قراء ت کو بیان کرنا جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
قال ابن عباس: ’’نزلت ’’ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ ‘‘ في مواسم الحج۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب مصحف عبد اﷲ بن عباس )
گیارہویں روایت کے مطابق ابن عباس﷜نے سورۃ آل عمران میں ’إنما ذلکم الشیطان یخوفکم أولیائہ‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند ’ضعیف جدا‘ ہے۔ ایک راوی طلحہ الخضرمی’ متروک ‘ہے۔بارہویں روایت کے مطابق ابن عباس﷜ نے سورۃ بقرۃ میں ’أولئک لھم نصیب مما اکتسبوا‘ پڑھا ہے۔ اس کی سند ’صحیح‘ ہے لیکن یہ رسم عثمانی کے خلاف ہے لہٰذا ناقابل قبول ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
گیارہویں روایت کے مطابق ان سے سورۃ بقرۃ میں ’وأقیموا لحج و العمرۃ للبیت‘ منقول ہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ بطور تفسیر منقول ہے یا بطور تعلیم یابطور تلاوت۔ روایت کے الفاظ ہیں:
عن سعید بن جبر عن ابن عباس ’’وأقیموا الحج والعمرۃ للبیت۔‘‘ (أیضاً)
ڈاکٹر محب الدین واعظ کے بیان کے مطابق اس روایت کی سند کا ایک راوی حسین بن معدان ’مجہول‘ ہے۔
بارہویں روایت کے مطابق ان سے سورۃ شوری میں ’و شاورھم في بعض الأمر ‘ منقول ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں:
’’عن عمرو بن دینار عن ابن عباس ’’وشاورھم في بعض الأمر۔‘‘ (أیضاً)
اس روایت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس آیت کو بطور تلاوت نقل کیا یا پڑھا ہے۔ یہ ان کی تفسیر بھی ہو سکتی ہے اور اپنے شاگردوں کومنسوخ تلاوت کی آگاہی بھی۔ تیرہویں روایت بھی اسی معنی و مفہوم کی ہے۔ ان روایات کی سند’صحیح ‘ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہیں۔ مذکورہ بالا روایت کے الفاظ سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ ابن عباس﷜ کی تفسیر ہے جسے بعض حضرات نے غلطی سے بطو ر قراء ت نقل کر دیاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
چودہویں روایت کے مطابق ابن عباس﷜ نے سورۃ حج میں ’و ما أرسلنا من قبلک من رسول ولا نبي محدث‘ پڑھا۔ اس روایت کی سند’ صحیح‘ ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔روایت کے الفاظ ہیں:
عن عمرو قال: قرأ ابن عباس: ’’و ما أرسلنا من قبلک من رسول و لا نبي محدث۔‘‘ (أیضاً)
بظاہر یہ ابن عباس﷜ کی تفسیر معلوم ہوتی ہے جو غلطی سے بطور قراء ت نقل ہو گئی کیونکہ نسخہ شربیتی میں ’قرأ‘ کی بجائے’ قال‘ کے الفاظ منقول ہیں۔پندرہویں روایت کے مطابق ابن عباس﷜ نے سورۃ یس میں ’ یا حسرۃ العباد‘ پڑھا ہے۔ اس کی سند’ صحیح‘ ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔ ان مترادفات کے قبیل سے معلوم ہوتی ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے ہیں۔سولہویں روایت کے مطابق ابن عباسt سے سورۃ اعراف میں ’کأنک حفي بھا‘ منقول ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں:
عن عمرو عن ابن عباس: ’’کأنک حفي بھا۔‘‘(أیضاً)
اس روایت میں ابن عباس﷜ کے بطور قراء ت پڑھنے کی صراحت نہیں ہے لہٰذا اسے ان کی تفسیرپر محمول کیا جا سکتا ہے یا یہ ان مترادفات کے قبیل میں سے ہے جو منسوخ ہو چکے ہیں۔ روایت کی سند’صحیح‘ ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کہ وجہ سے بطور قراء ت غیر مقبول ہے۔ یہ بھی امکان ہے کہ ان احرف میں سے ہو جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
سترہویں روایت کے مطابق ابن عباس﷜ سورۃ بقرۃ میں’ و إن عزموا السراح‘ پڑھا کرتے تھے۔ یہ ان مترادفات کے قبیل سے معلوم ہوتی ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے ہیں۔ اس روایت کی سند ’صحیح‘ ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے بطور قراء ت غیر مقبول ہے۔اٹھارہویں روایت کے مطابق ابن عباس﷜ سورۃ آل عمران میں ’و ما یعلم تأویلہ إلا اﷲ ویقول الراسخون آمنا بہ‘ پڑھا کرتے تھے۔ اس روایت کی سند’حسن‘ درجے کی ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔ ابن عباس﷜ کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔
انیسویں اور اکیسویں روایت کے مطابق ابن عباس﷜ نے سورۃبقرۃمیں ’فإن آمنوا بالذی آمنتم بہ‘ پڑھنے کا حکم دیا۔ بیسیویں روایت میں ہے کہ انہوں نے اس آیت کو اسی طرح پڑھا۔ اکیسویں روایت کے الفاظ ہیں :
حدثنا عبد اﷲ نا نصر بن علی قال أخبرني أبي نا شعبۃ قال: قال لي الأعمش: ’’ما عندک في قولہ: ’’ فَإِنْ ئَامَنُوْا بِمِثْلِ مَآ ئَامَنْتُمْ بِہٖ ‘‘؟‘‘ فقلت لہ: حدثني أبوحمزۃ قال: قال ابن عباس: ’’لا تقل: فإن آمنوا بمثل ما آمنتم بہ، فإنہ لیس ﷲ مثل، ولکن قل: فإن آمنو بالذي آمنتم بہ فقد اھتدوا۔‘‘ (أیضاً)
اس روایت کی سند’ صحیح‘ ہے لیکن مصاحف عثمانیہ کے خلاف ہونے کہ وجہ سے غیر مقبول ہے۔ ابن ابی داؤد﷫ ‘ ابن عباس﷜ کی اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ھذا الحرف مکتوب في الإمام وفي مصاحف الأمصار کلھا ’’ بِمِثْلِ مَآ ئَامَنْتُمْ بِہٖ ‘‘ و ھي کلمۃ عربیۃ جائزۃ في لغۃ العرب کلھا، و لا یجوز أن یجتمع أھل الأمصار کلھا وأصحاب النبي ﷺ معھم علی الخطأ، و خاصۃ في کتاب اﷲ عزوجل و في سنن الصلاۃ۔‘‘ (أیضاً)
 
Top