• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آرتھر جیفری اور کتاب المصاحف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ان حالات میں حضرت عثمان﷜ نے یہ کوشش کی وہ سرکاری طور پر ایک ایسا مصحف تیار کروائیں جس میں عرضہ اخیرہ کے مطابق جمیع احرف قرآنیہ کو نقل کر دیں تاکہ عوام الناس اللہ کے رسولﷺسے منقول صحیح قراء ات سے واقف ہو سکیں اور جہالت میں ایک دوسرے کی قراء ت کا رد نہ کریں۔ علاوہ ازیں اس مصحف کی تیاری سے یہ بھی مقصود تھاکہ جن منسوخ قراء ات یا تفسیری نکات کی تلاوت تاحال جاری ہے‘ ان کو ختم کیا جائے اور تمام مسلمانوں کو سرکاری مصحف کے مطابق قراء ت کا پابند بنایا جائے۔ اسکے لیے حضرت عثمان﷜ نے چار صحابہ یعنی حضرت زید بن ثابت‘ عبد اللہ بن زبیر‘ سعید بن العاص اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام﷢ کا انتخاب کیا۔ اس سرکاری مصحف کی تیاری کے بعد حضرت عثمان﷜ نے اس کی کئی ایک کاپیاں تیار کروائیں اور مختلف شہروں میں بھیج دیں۔ علاوہ ازیں ایک کام یہ بھی کیا گیا کہ صحابہ﷢ کے پاس موجود ان کے ذاتی مصاحف کو جمع کر کے جلا دیا گیا۔ایک روایت کے الفاظ ہیں:
وقال عثمان للرھط القرشیین الثلاثۃ: ’’إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش، فإنما نزل بلسانھم۔‘‘ ففعلوا ذلک۔ حتی نسخوا الصحف في المصاحف رد عثمان الصحف إلی حفصۃ، و أرسل إلی کل أفق بمصحف مما نسخوا، وأمر بما سواہ من القرآن في کل صحیفۃ أو مصحف أن یحرق‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن: ۳۵۰۶)
’’حضرت عثمان﷜نے تین قریشی صحابہ﷢ سے کہا: جب تمہارا اور زید بن ثابت﷜ کا کسی لفظ کو لکھنے (کے رسم) میں اختلاف ہو جائے تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو کیونکہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ پس ان چاروں صحابہ﷢ نے یہ کام کیا اورتمام ’صحف‘ کو ’مصاحف‘ میں نقل کر دیا۔ پھر حضرت عثمان﷜ نے (حضرت ابو بکر﷜ کے زمانے میں تیار شدہ) صحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو لوٹا دیے۔ حضرت عثمان﷜ نے ایک ایک مصحف مختلف اسلامی شہروں میں بھیج دیا اور اس کے علاوہ قرآن کے ہر صحیفے یا مصحف کے بارے یہ حکم جاری کیا کہ اسے جلا دیا جائے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
یہ بات واضح رہے کہ جمع عثمانی پر سب صحابہ کا اجماع و اتفاق تھا۔ اختلاف صرف اس مسئلے میں تھا کہ بعض صحابہ﷢ کے پاس اپنے مصاحف میں کچھ اضافی احرف ایسے تھے جو جمع عثمانی میں موجود نہ تھے ۔ پس وہ صحابہ﷢ جمع عثمانی کے ساتھ اپنے ان احرف کی تلاوت کو بھی جاری رکھنا چاہتے تھے جبکہ حضرت عثمان﷜ ان احرف کے مطابق تلاوت کی اجازت دینے کے قائل نہ تھے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت کے حوالے سے ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ حضرت عثمان﷜نے ایک مصحف نہیں بلکہ کئی مصاحف تیار کروائے تھے اور انہیں مختلف شہروں کی طرف بھیج دیاتھا۔ ان مصاحف کی تعداد میں علماء کے ہاں اختلاف ہے۔ بعض نے چار‘ بعض نے پانچ اور بعض نے چھ اور بعض نے سات بھی نقل کی ہے۔ (کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ: ۲۳۸۔۲۳۹)
کتاب المصاحف کی کئی ایک روایات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ حضرت عثمان﷜ نے مختلف شہروں کے لیے جو مختلف سرکاری مصاحف تیار کروائے تھے ان میں اختلاف تھا کیونکہ ان مصاحف میں متعلقہ شہروں کی قراء ات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان مصاحف کی تیاری کی گئی تھی۔جو نسخہ حضرت عثمان﷜ کے پاس تھا اسے ’مصحف امام ‘ کا نام دیا گیا۔اس موضوع سے متعلق روایات کے مطالعہ کے لیے کتاب المصاحف کے عنوانات ’باب ما کتب عثمان من المصاحف‘ اور ’الإمام الذي کتب منہ عثمان المصاحف‘ وھو مصحفہ‘ اور ’اختلاف مصاحف الأمصار التي نسخت من الإمام‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
علمائے فن کا اس پر اتفاق ہے کہ صرف اسی قراء ت کو بطور قرآن ثابت سمجھا جائے جس میں درج ذیل تین شرائط پائی جاتی ہوں:
(١) وہ صحیح سند سے ثابت ہو اور قراء کے ہاں معروف ہو۔
(٢) مصاحف عثمانیہ میں کسی مصحف کے رسم کے مطابق ہو۔
(٣) قواعد لغویہ عربیہ کے موافق ہو۔
ہمارے نزدیک کسی قراء ات کی قرآنیت کیلئے رسم عثمانی کی موافقت ایک اساسی شرط ہے۔ جس کی بنیاد مصاحف عثمانیہ پر صحابہ کرام کا اجماع ہے ، لہٰذا علمائے امت نے ہر دور میں اس کی پابندی کو لازم قرار دیا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لئے اسی شمارے میں موجود مضمون ’قراء ات شاذہ اور ثبوت قرآن کا ضابطہ‘ از محمد اسلم صدیق اور مکتوب بنام شیخ الحدیث مولانا عبد المنان نورپوری ‘ مفید رہے گات۔واللہ اعلم بالصواب
ہم یہاں یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ایسی قراء ات کی تعداد بہت ہی کم ہے جو جمع عثمانی میں نہیں تھیں لیکن صحیح سند کے ساتھ مروی ہیں۔ آرتھر جیفری نے اپنی کتاب 'Materials' میں کتاب المصاحف کی بنیاد پر قراء ات کے جو بے شمار اختلافات نقل کیے ہیں ‘ ان میں سے اکثر و بیشتر روایات منقطع اور ضعیف ہیں۔ اور منقطع اور ضعیف روایت کی بنیاد پر کسی مصحف یا قراء ت کی نسبت کسی صحابی﷜ کی طرف کرنا ہمارے نزدیک کوئی علمی رویہ اور اسلوب نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
یہ بات بھی واضح رہے کہ صحابہ﷢ کی قراء ات اور مصاحف کے اختلافات کی صحیح روایات بھی موجود ہیں ہیں لہٰذا اگر کسی صحیح روایت سے کسی معروف قاری صحابی کے مجرد اختلاف قراء ت یا اختلاف مصحف کا علم حاصل ہوتا ہے تو اس روایت کو نقل کرنے میں میں ہم کوئی حرج محسوس نہیں کرتے لیکن بطور قرآن تلاوت نہیں کی جا سکتی۔
ذیل میں ہم مختلف صحابہ﷢ و تابعین﷭ کی طرف منسوب مصاحف و قراء ات کا تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مصحف عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما (متوفی۳۲ھ)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض صحیح روایات و آثار میں مصحف عبد اللہ بن مسعود﷜ کا تذکرہ ملتا ہے۔ لیکن کیا یہ ایک مکمل مصحف تھا یا قرآن کی چند سورتوں پر مشتمل تھا؟ اس کے بارے میں کوئی صراحت نہیں ملتی۔ بعض روایات سے یہ اشارہ ملتاہے کہ یہ ایک نامکمل مصحف تھا۔ ’کتاب المصاحف‘ کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
حدثنا عبد اﷲ قال: حدثنا عم قال: حدثنا ابن رجاء قال: أخبرنا اسرائیل عن أبي إسحاق عن خمیر بن مالک عن عبد اﷲ قال: ’’لما أمر بالمصاحف ساء ذلک عبد اﷲ بن مسعود۔‘‘ قال: ’’من استطاع منکم أن یغل مصحفاً فلیغلل فإنہ من غل شیئا جاء بما غل یوم القیامۃ۔‘‘ ثم قال عبد اﷲ: ’’لقد قرأت القرآن من في رسول اﷲ ﷺ سبعین سورۃ وزید بن ثابت صبي أفأترک ما أخذت من في رسول اﷲ ﷺ‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب کراھیۃ عبد اﷲ بن مسعود ذلک)
اس روایت سے تین باتوں کا علم حاصل ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ جمع عثمان﷜ پر راضی نہ تھے ۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے اپنا مصحف چھپا لیا تھا اور لوگوں کو اپنے مصاحف چھپانے کا حکم بھی جاری کیا تھا۔ تیسری بات ان کا یہ اقرار ہے کہ انہوں نے ستر سورتیں اللہ کے رسولﷺسے براہ راست حاصل کی ہیں۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ کے بیان کے مطابق اس روایت کی سند میں خمیر بن مالک راوی کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل موجود نہیں ہے لیکن اس روایت میں بیان شدہ پہلی اور تیسری بات کی تصدیق کئی ایک دوسری روایات اور آثار سے بھی ہوتی ہے جو کتاب المصاحف اور بعض تفاسیر میں موجود ہیں۔لہذا من جملہ روایت کے شواہد موجود ہیں اور ’حسن‘ درجے کی روایت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما ہی کے بارے میں یہ بھی مروی ہے کہ وہ بعد میں جمع عثمان پر راضی ہو گئے تھے ۔ ابن ابی داؤد﷫ نے ’کتاب المصاحف‘ میں ’باب رضا عبد اﷲ بن مسعود بجمع عثمان المصاحف‘ کے عنوان سے ایک باب بھی باندھا ہے اور اس کے تحت ایک روایت بھی نقل کی ہے۔ اس روایت کے مطابق جمع عثمان کے وقت بعض لوگ حضرت ابن مسعود﷜ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے:
’’إنا لم نأتک زائرین‘ و لکنا جئنا حین راعنا ھذا الخبر‘ فقال: إن القرآن أنزل علی نبیکم من سبعۃ أبواب علی سبعۃ أحرف أو حروف‘ و إن الکتاب قبلکم کان ینزل أو نزل من باب واحد علی حرف واحد معناھما واحد۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب رضا عبداﷲ بن مسعود بجمع عثمان المصاحف)
اس وقت ہمارے پاس حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ کا مصحف کہیں موجود نہیں ہے لہٰذا بغیر کسی سند کے یہ کہنا کہ ان کے مصحف میں فلاں آیت یوں تھی یا ایسے لکھی ہوئی تھی ایک غیر مستند دلیل ہے۔ ہاں بعض اسناد سے ان سے چند ایک ایسی قراء ات ضرور مروی ہیں جو رسم عثمانی کے خلاف ہیں۔روایت حفص عن عاصم﷫ در حقیقت حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ ہی سے ثابت ہے اور اس کی اسناد قراء کے ہاں معروف و متواتر ہیں۔ پس تواتر سے یہ بات ثابت ہے کہ ابن مسعود﷜ کی قراء ت وہی تھی جسے آج امت روایت ِ حفص کے نام سے پڑھ رہی ہے۔ لہٰذا ابن مسعود﷜ سے سینہ بسینہ مروی اس متواتر روایت کے بالمقابل ان سے مروی ان قراء ات کی حقیقت کیا رہ جاتی ہے جن میں اکثر کی اسناد منقطع ہیں اور وہ اخبار آحاد کی قبیل سے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ابن ابی داؤد﷫ نے اپنی کتاب میں مصحف عبد اللہ بن مسعود﷜ کے تحت ۲۰ روایات کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان روایات میں ابن مسعود﷜ کی مختلف قراء ات کا تذکرہ ہے۔ کسی ایک روایت میں بھی یہ موجود نہیں ہے کہ مصحف ابن مسعود﷜ میں یوں لکھا تھا۔ اکثر روایات میں پڑھنے کے الفاظ ہیں اور بعض روایات میں تو صیغہ’عن‘ کے ذریعے ابن مسعود﷜ سے کچھ الفاظ نقل کر دیے گئے ہیں جن سے کچھ معلوم نہیں ہوتاکہ یہ ان کی قرا ء ت تھی یا تفسیریا راوی نے ان ہی سے یہ الفاظ سنے ہیں یا کسی اور سے نقل کیے ہیں۔ جن روایات میں ’قرأ ‘یا ’یقرأ ‘کے الفا ظ ہیں ان میں بھی یہ وضاحت موجود نہیں ہے کہ ان الفاظ کو بطور تلاوت پڑھا ہے یا اپنے شاگردوں کو منسوخ الفاظ کی تعلیم دینا مقصود تھاجیسا کہ فی زمانہ شیوخ اپنے شاگردوں کو قراء ات شاذۃ سے آگاہی کے لیے ان کی تعلیم دیتے ہیں۔
کتاب المصاحف میں مصحف عبد اللہ بن مسعود﷜ کے ذیل میں سب سے زیادہ قراء ات کے اختلافات بیان کیے گئے ہیں۔ اس عنوان کے تحت کل ۲۰ روایات بیان ہوئی ہیں۔ پہلی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜نے سورہ نساء میں ’’إن اﷲ لا یظلم مثقال نملۃ‘‘ پڑھا ہے۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ کے مطابق اس کی سند میں ایک راوی عطاء البزار ’مجہول ‘ہے۔دوسری توجیح یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ نے ’ذرۃ‘ کی تفسیر ’نملۃ‘ سے کی ہے۔ تیسری توجیح کے مطابق یہ ان مترادفات کے قبیل سے ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
دوسری روایت کے مطابق ابن مسعود﷜نے سورۃ آل عمران میں ’’وارکعي واسجدي في الساجدین‘‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند میں یحییٰ بن کثیر اور جویبر ’ضعیف‘ راوی ہیں لہٰذا روایت قابل قبول نہیں ہے۔ تیسری روایت کے مطابق ابن مسعود﷜نے سورۃ بقرہ میں ’في مواسم الحج‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند ’منقطع‘ہے کیونکہ اس کے راوی عطاء﷫کی حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ سے ملاقات ثابت نہیں ہے لہذا روایت قابل قبول نہیں ۔ چوتھی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ کی قراء ت میں ’بل یداہ بسطان‘ تھا۔ اس روایت کی سند بھی ’منقطع‘ ہے۔ حکم بن عتیبۃ﷫کی حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔پانچویں روایت کے مطابق ابن مسعود﷜ نے سورہ بقرہ میں ’’وتزودوا وخیر الزاد التقوی‘‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند بھی’منقطع ‘ہے کیونکہ سفیان﷜ کی حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ چھٹی روایت کے مطابق سورۃ بقرۃ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ کی قراء ت میں ’’من بقلھا و قثائھا وثومھا وعدسھا وبصلھا‘‘ تھا۔اس روایت کی سند بھی ’منقطع‘ ہے کیونکہ ہارون﷫ کی ابن مسعود﷜ سے ملاقات ثابت نہیں۔ ساتویں روایت کے مطابق ابن مسعود﷜ نے سورہ بقرہ میں ’’فی مواسم الحج فابتغوا حینئذ‘‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند بھی’منقطع‘ ہے کیونکہ عطاء﷫ کی ابن مسعود﷜ سے ملاقات ثابت نہیں۔ آٹھویں روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس﷜ فرماتے ہیں: سورہ بقرہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ کی قراء ت ’’من بقلھا وقثائھا و فومھا و عدسھا و بصلھا‘‘ تھی ۔ اس روایت کی سند بھی ’منقطع ‘ہے ۔ ابراہیم تیمی﷫ نے حضرت عبد اللہ بن عباس﷜ سے کچھ نہیں سنا۔ نویں روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ سورۃ عصر کو ’’والعصر إن الإنسان لفي خسر وإنہ فیہ إلی آخر الدھر إلا الذین آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالصبر‘‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند بھی ’منقطع ‘ہے۔ میمون بن مھران کی ابن مسعود﷜سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ دسویں روایت کے مطابق ابن مسعود﷜ سورۃ بقرۃ میں ’’أولئک لھم نصیب ما اکتسبوا‘‘ پڑھتے تھے۔ اس روایت کی سند بھی ’منقطع‘ ہے۔ سفیان﷫ اصحاب عبد اللہ سے یہ روایت نقل کرتے ہیں اور کوئی نام صراحت سے بیان نہیں کرتے او ر اصحاب عبد اللہ کی بھی عبد اللہ بن مسعود﷜ کی طرف اس قراء ت کی نسبت موجود نہیں ہے۔ گیارہویں روایت کے مطابق منصور السلمی﷫ سورۃ بقرۃ میں ’ولکل جعلنا قبلۃ یرضونھا‘ پڑھتے تھے۔ اس روایت میں ابن مسعود﷜ کا تذکرہ موجود نہیں ہے لہٰذا سند’ منقطع‘ ہے۔ بارہویں روایت کے مطابق ابراہیم نخعی﷫ نے کہا ہے کہ’انہوں‘ نے سورۃ بقرۃ میں ’’وأقیموا الحج و العمرۃ للبیت‘‘ پڑھا۔ روایت کی سند’ منقطع‘ ہے کیونکہ ابراہیم نخعی﷫ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس نے ایسے پڑھا ہے۔ تیرہویں روایت کے مطابق ابن مسعود﷜ کی قراء ت میں ’’وأقیموا الحج والعمرۃ للبیت‘‘ تھا۔اس روایت کی سند میں ’ثویر‘ نامی راوی ’ضعیف‘ ہے لہٰذا سند کمزور ہے۔ چودہویں روایت کے مطابق ابن مسعود﷜ نے سورۃ بقرۃ میں ’’وحیث ما کنتم فولوا وجوھکم قبلہ‘‘ پڑھا ہے۔ روایت کی سند ’منقطع‘ ہے کیونکہ ابو رزین﷫ نے اس کی صراحت نہیں کی کہ انہوں نے یہ قراء ت ابن مسعود﷜ سے سنی ہے۔ پندرہویں روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ کی قراء ت میں ’’ولا تخافت بصوتک ولا تعال بہ‘‘ تھا۔ اس روایت کی سند بھی ’منقطع‘ ہے کیونکہ ابو رزین نے ابن مسعود﷜ سے سماعت کی صراحت نہیں کی۔ سولہویں روایت میں بھی سابقہ قراء ت ہی بیان ہوئی ہے۔ اس روایت کی سند بھی ’منقطع‘ ہے۔ابو عبیدہ بن معن﷫ اور ابومحمد بن طلحہ﷫ کی طرف سے ابن مسعود﷜ سے یہ قرء ات سننے کا تذکرہ نہیں ہے۔ سترہویں روایت کے مطابق سورۃ ھود میں ابن مسعود﷜ نے ’’کذلک أخد ربک إذا أخذ القری‘‘ بغیر واو پڑھا ہے۔ روایت کی سند ’منقطع ‘ہے۔ سفیان﷫ نے ابن مسعود﷜ سے قراء ت سننے کی صراحت نہیں کی۔ انیسویں روایت کے مطابق’ ان ‘کی قراء ت سورۃ بقرۃ میں ’’فزلزلوا یقول حقیقۃ الرسول و الذین آمنوا‘‘ تھی۔ روایت کی سند ’منقطع ‘ہے کیونکہ ادریس کوفی نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ کن کی قراء ت تھی۔بیسیویں روایت کے مطابق قرآن کی ۴۸ سورتوں میں اعمش نے اپنے اور ابن مسعود﷜ کے اختلافات قراء ات نقل کیے ہیں ۔ طوالت کے خوف سے ہم ان اختلافات کو نقل نہیں کر رہے۔ اس روایت کی سند ’منقطع ‘ہے کیونکہ اعمش نے ابن مسعود﷜ سے سماعت کی صراحت نہیں کی۔اکیسویں روایت کے مطابق سورۃ مائدۃ میں ابن مسعود﷜ کی قراء ت میں ’’إنما ولیکم اﷲ و رسولہ والذین آمنوا والذین یقیمون الصلوۃ‘‘ تھی۔ اس روایت کی سندبھی ’منقطع‘ ہے ۔جریر بن عبد الحمید کی ابن مسعود﷜ سے ملاقات ثابت نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
آرتھر جیفری نے اپنی کتاب 'Materials' میں ’الفہرست لابن ندیم‘ اور ’ الاتقان للسیوطی‘ سے حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ کے مصحف میں موجود سورتوں کی ایک نامکمل فہرست بھی پیش کی ہے۔ان دونوں فہرستوں میں سورتوں کی ترتیب مصحف عثمانی کی ترتیب سے مختلف ہے لیکن ان دونوں فہرستوں کی اپنی ترتیب میں بھی اختلاف ہے ۔ لہٰذا ابن مسعود﷜ کے مصحف میں سورتوں کی ترتیب والی روایت مضطرب ہوئی اور ناقابل قبول ہے۔ ابن ندیم﷫ (متوفی ۴۳۸ھ) کی پیش کردہ فہرست کے مطابق ابن مسعود﷫ کے مصحف میں مصحف عثمانی کے بالمقابل ۹ سورتیں غائب ہیں۔ ابن ندیم﷫ نے فضل بن شاذان (متوفی ۲۶۰ھ) کے حوالے سے مصحف ابن مسعود﷜ کی درج ذیل فہرست پیش کی ہے۔
قال الفضل بن شاذان: وجدت في مصحف عبد اﷲ بن مسعود تألیف سور القرآن علی ھذا الترتیب البقرۃ، النسائ، آل عمران، المص، الأنعام، المائدۃ، یونس، برائۃ، النحل، ھود، یوسف، بني إسرائیل، الأنبیائ، المؤمنون، الشعرائ، الصافات، الأحزاب، القصص، النور، الأنفال، مریم، العنکبوت، الروم، یس، الفرقان، الحج، الرعد، سبأ، الملیکۃ، إبراہیم، ص، الذي کفروا، القمر، الزمر، الحوامیم المسبحات، حم المؤمن، حم الزخرف، السجدۃ، الأحقاف الجاثیۃ، الدخان، إنا فتحنا، الحدید، سبح، الحشر، تنزیل السجدۃ، ق، الطلاق، الحجرات، تبارک الذی بیدہ الملک، التغابن، المنافقون، الجمعۃ، الحواریون، قل أوحي، إنا أرسلنا نوحا، المجادلۃ، الممتحنۃ، یا أیھا النبي، لم تحرم، الرحمن، النجم، الذاریات، الطور، اقتربت الساعۃ، الحاقۃ، إذا وقعت، ن، والقلم، النازعات، سأل سائل، المدثر، المزمل، المطففین، عبس، ھل أتی علی الإنسان، القیامۃ، المرسلات، عم یتسائلون، إذا الشمس کورت، إذا السماء انفطرت، ھل أتاک حدیث الغاشیۃ، سبح اسم ربک الأعلی، واللیل إذایغشی، الفجر، البروج، انشقت، اقرأ باسم ربک، لا أقسم بھذا البلد، والضحی، ألم نشرح لک، والسماء والطارق، والعادیات، أرأیت، القارعۃ، لم یکن الذین کفروا من أھل الکتاب، الشمس وضحاھا، والتین، ویل لکل ھمزۃ، الفیل، لإیلاف قریش، التکاثر، إنا أنزلناہ، والعصر إن الإنسان لفی خسر، إذا جاء نصر اﷲ، إنا أعطیناک الکوثر، قل یا أیھا الکفرون لا أعبد ما تعبدون، تبت یدا أبی لھب وتب ما أغنی عنہ ما لہ و ماکسب، قل ھو اﷲ أحد اﷲ الصمد، فذلک مائۃ وعشر سور۔ وفي روایۃ أخری: الطور قبل الذاریات۔ قال أبوشاذان قال ابن سیرین: وکان عبد اﷲ بن مسعود لا یکتب المعوذتین في مصحفہ و لا فاتحۃ الکتاب۔ وروی الفضل بإسنادہ عن الأعمش، قال فی قولہ: قرائۃ عبداﷲ حم سق۔‘‘ (الفہرست لابن ندیم‘ باب ترتیب القرآن في مصحف عبداﷲ بن مسعود : ۳۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
فضل بن شاذان﷫ ایک شیعہ امامیہ فقیہ اور متکلم ہیں جن کی وفات ۲۶۰ھ میں ہوئی۔ ان کی اس روایت پر آرتھر جیفری کے انتقاد اعلیٰ کے اصولوں کی تطبیق کی جائے تو یہ روایت’ ضعیف ‘ثابت ہوتی ہے۔ اس روایت کا متن ہی اس کی کمزوری کی علامت ہے۔ اس روایت کے آخر میں یہ بیان ہے کہ یہ کل ۱۱۰ سورتیں ہیں حالانکہ یہ کل ملا کر ۱۰۵ سورتیں ہوئیں اور اس فہرست میں ۹ سورتیں یعنی سورۃ فاتحہ‘سورۃ الحجر‘سورۃ الکھف‘ سورۃ طہ‘ سورۃ نمل‘ سورۃ شوری‘ سورۃ زلزال‘سورۃ الفلق‘ سورۃ الناس غائب ہیں۔خود اس روایت کا متن اس کی تصدیق سے انکاری ہے۔
علاوہ ازیں فضل بن شاذان﷫کی سن وفات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے تیسری صدی ہجری میں ابن مسعود﷜ کا کوئی مصحف دیکھا۔ اب اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ تیسری صدی ہجری میں وہ جو مصحف دیکھ رہے ہیں وہ واقعتاً ابن مسعود﷜ کا ہے بھی کہ نہیں؟
ابن ندیم﷫ (متوفی۴۳۸ھ) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے زمانے یعنی چوتھی ‘ پانچویں صدی ہجری میں کئی ایک ایسے مصاحف دیکھے ہیں جن کے بارے میں لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ابن مسعود﷜ کا مصحف ہے لیکن ان میں سے دو مصحف بھی آپس میں نہیں ملتے۔ ابن ندیم﷫ کا کہنا یہ بھی ہے کہ میں نے دو سوسال پرانایعنی تیسری صدی ہجری کا ایک مصحف دیکھا ہے جس کی نسبت ابن مسعود﷜ کی طرف کی جاتی ہے اور اس میں سورۃ فاتحہ بھی موجود ہے۔ ابن ندیم﷫ کی عبارت یہ ہے:
’’قال محمد بن إسحاق رأیت عدۃ مصاحف ذکر نساخھا أنھا مصحف بن مسعود لیس فیھا مصحفین متفقین و أکثرھا في رق کثیر النسخ وقد رأیت مصحفا قد کتب منذ مائتي سنۃ فیہ فاتحہ الکتاب۔‘‘ (أیضاً)
اما م سیوطی﷫ (متوفی ۹۱۱ھ) نے ’الاتقان‘ میں مصحف عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما میں سورتوں کی ترتیب کی جو فہرست بیان کی ہے وہ درج ذیل ہے:
قال ابن أشتۃ أیضاً: وأخبرنا أبو الحسن بن نافع أن أبا جعفر محمد بن عمرو بن موسی حدثھم قال: حدثنا محمد بن إسماعیل بن سالم حدثنا علي بن مھران الطائی حدثنا جریر ابن عبد الحمید قال: ’’تألیف مصحف عبد اﷲ بن مسعود: الطوال البقرۃ والنساء وآل عمران والأعراف والأنعام والمائدۃ و یونس۔ والمئین: برائۃ والنحل وھود ویوسف والکھف وبني إسرائیل و الأنبیاء وطہ والمؤمنون والشعراء والصافات۔ والمثاني: الأحزاب والحج والقصص وطس والنمل والنور والأنفال ومریم والعنکبوت والروم ویٰس والفرقان والحجر والرعد والسبأ والملائکۃ وإبراہیم وص والذین کفروا ولقمان والزمر والحوامیم حم المؤمن والزخرف والسجدۃ وحمعسق والأحقاف والجاثیۃ والدخان وإنا فتحنا لک والحشر وتنزیل السجدۃ و الطلاق ون والقلم والحجرات وتبارک والتغابن وإذا جائک المنافقون والجمعۃ والصف وقل أوحی وإنا أرسلنا والمجادلۃ والممتحنۃ ویا أیھا النبي لم تحرم والمفصل: الرحمن والنجم والطور والذاریات واقتربت الساعۃ والواقعۃ والنازعات وسأل سائل والمدثر والمزمل والمطففین وعبس وھل أتی والمرسلات والقیامۃ وعم یتسائلون وإذا الشمس کورت وإذا السماء انفطرت والغاشیۃ وسبح واللیل والفجر والبروج وإذا السماء انشقت واقرأ باسم ربک والبلد والضحی والطارق والعادیات وأرأیت والقارعۃ ولم یکن والشمس وضحاھا والتین وویل لکل ھمزۃ وألم تر کیف ولإیلاف قریش وألھاکم وإنا أنزلناہ وإذا زلزلت والعصر وإذا جاء نصر اﷲ والکوثر وقل یاأیھا الکفرون وتبت وقل ھو اﷲ أحد وألم نشرح ولیس فیہ الحمد ولا المعوذتان۔‘‘ (الإتقان في علوم القرآن‘ النوع الثامن عشر في جمعہ و ترتیبہ: ص۲۲۴)
اس روایت کے مطابق مصحف ابن مسعود﷜ میں سورۃفاتحہ نہ تھی جبکہ ابن ندیم﷫ نے جو مصحف دیکھا اس میں سورۃ فاتحہ بھی موجود تھی۔ اس بحث کا خلاصہ کلام وہی ہے جو ابن ندیم﷫ نے نکالا ہے کہ ابن مسعود﷜ کے مصحف کے بارے میں مروی روایات میں سے کوئی دو روایات یا ان کی طرف منسوب مصاحف میں سے کوئی دو مصحف بھی آپس میں متفق نہیں ہیں۔پس ابن مسعود﷜ کی طرف ان مصاحف یا روایات کی نسبت میں اضطراب ہے اور مضطرب روایت محدثین کے ہاں ’ضعیف ‘ہی کی ایک قسم ہے۔ پس ہم یہی ماننے پر مجبور ہیں کہ مصحف عبد اللہ بن مسعود﷜ میں وہی قراء ات موجود تھیں جو ان سے سینہ بسینہ صحیح و متواتر سند کے ساتھ آج تک قراء نقل کرتے چلے آ رہے ہیں اور روایت حفص بھی انہی میں سے ایک ہے۔ ان میں سے چند ایک اسناد ماہنامہ رشدجون۲۰۰۹ء ‘ ص ۱۹۵ پرملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
 
Top