شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,011
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
اکابرین اہل حدیث کا تعلق صوفیت
بہتان یا حقیقت؟
بہتان یا حقیقت؟
تصوف کی اصل عیسائیت ہے اسی لئے صوفی مذہب بڑی حد تک عیسائی رہبانیت کا ہو بہو چربہ ہے ۔عیسائی راہبوں کی طرح صوفی بھی نکاح سے دامن بچانے کی کوشش کرتا ہے۔شریعت مطہرہ کی عطاء کردہ آسانیوں کو ترک کرکے خود کوبلاوجہ مشقت میں ڈالتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے استفادہ کرکے ان کا شکر ادا کرنے کے بجائے ان نعمتوں کو ٹھکر ا کر اللہ کا ناشکرا بننا زیادہ پسند کرتا ہے۔کتاب و سنت میں مذکورمسنون اذکارکے بجائے خود ساختہ اور بدعتی ذکر و اذکار کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتاہے لیکن اللہ کے بجائے شیطان کا قرب حاصل کرلیتا ہے اور اسی کو اپنی کامیابی تصور کرتا ہے۔ تصوف میں مقام حاصل کرنے کے لئے دنیا اور دنیاوی معاملات کو ترک کرکے نکمّوں کی طرح گوشہ نشینی کولازمی قرار دیتا ہے۔اسی لئے صوفی نہ دنیاوی لحاظ سے مخلوق خداکے لئے سود مند ثابت ہوتے ہیں اور نہ دینی لحاظ سے لوگوں کو ان سے کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ نکمّے اور بے کار لوگ بجا طور پر دھرتی کا بوجھ ہیں۔
ترک نکاح سے متعلق صوفیوں کے خیالات کے بارے میں علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ اپنی تصنیف میں فرماتے ہیں: صوفیوں نے اپنی کتابوں میں ترک نکاح اور شادی کی برائیوں کے بارے میں مستقل ابواب قائم کئے ہیں اور یہ بات ذکر کی محتاج نہیں کہ صوفیوں نے یہ خیال عیسائیوں اور یہودیوں سے لیا ، جو اس طرح علیحدگی اور رہبانیت اختیار کرتے تھے۔(تصوف ،تاریخ وحقائق، صفحہ 89)
اس سلسلے میں اکابرین صوفیا کے خیالات ملاحظہ فرمائیں:
شعرانی نے ایک صوفی مطرف بن عبداللہ الشغیر جو متقدمین صوفیا میں سے ہے، کے حوالے سے نقل کیا وہ کہتے ہیں: ''جس نے عورتوں اور کھانے کو ترک کیا تو اس سے کرامت کا ظہور ضرور بہ ضرور ہوگا۔''(طبقات الشعرانی، صفحہ 34)
ابن الجوزی نے ابوحامد الغزالی سے نقل کیا کہ ''مرید کو شادی میں مصروف نہیں ہونا چاہیے، اس لئے کہ شادی میں مشغول ہو کر وہ اس راہ سے ہٹ جائے گا۔ جو اللہ کے علاوہ کسی اور چیز میں انس حاصل کرتا ہے وہ اللہ سے دور ہوجاتا ہے۔''(تلبیس ابلیس، صفحہ 286)
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو کئی کئی نکاح کے باوجود بھی اللہ سے دور نہیں ہوئے اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے صحابہ باوجودبیک وقت تین تین،چارچار اور دودو نکاح کے رب کائنات سے دوری کا شکا ر ہوئے ۔لیکن یہ صوفی معلوم نہیں کس شخصیت کے ماننے والے اور کس کے پیروکار ہیں کہ جن کو نکاح اللہ سے دور لے جاتا ہے!!! معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کاعمل اللہ اور بندے کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے یہ وحی شیطان نے صوفیوں پر کی ہے ورنہ ترک نکاح کی ایسی کوئی ترغیب یا حکم شریعت مطہرہ میں موجود نہیں۔
اکابرین صوفیاء کی اپنے ہم مذہبوں کو شادی کی سنت سے دور رکھنے کی ان تمام تر نصیحتوں اور ڈراوے کے باوجود بھی اگر کوئی صوفی نکاح میں مبتلا ہوا تو کیا ہوا؟ دیکھئے:
سراج طوسی نے ایک صوفی کا واقعہ نقل کیا جس نے ایک عورت سے نکاح کیا، تیس برس اکھٹے رہے مگر وہ عورت باکرہ ہی رہی۔(اللمع،صفحہ 264)
عطار نے عبداللہ بن خفیف جو مشہور صوفی ہے ، کے حوالے سے نقل کیا کہ اس نے چار سو عورتوں سے شادی کی مگر کسی سے بھی جماع نہیں کیا۔(تذکرۃ الاولیاء ،صفحہ 241)
شعرانی نے ایک صوفی یاقوت العرشی کے بارے میں لکھا کہ اس نے اپنے شیخ کی بیٹی سے نکاح کیا۔ وہ لڑکی اٹھارہ برس تک اس کے پاس رہی مگر اس کے والد کی شرم و حیا کی وجہ سے وہ اس کے قریب نہ گیا اور جب یاقوت العرشی کا انتقال ہوا تو وہ لڑکی باکرہ ہی تھی۔(الاخلاق المتبولیہ، جلد 3، صفحہ 179)
چونکہ برائی اور گمراہی میں ٹھہراؤ اور استقلال نہیں ہوتابلکہ یہ بڑھتی ہی رہتی ہیں اسی طرح صوفیت بھی آغاز و ابتداء میں عیسائیت سے متاثر تھی لیکن فوراً ہی اس میں دیگر مذاہب کے گمراہ افکار و نظریات نے جگہ بنالی اور یوں یہ صوفی مذہب تمام کافرانہ اور بے دین مذاہب کی خراب اور بری باتوں کا مجموعہ بن کررہ گیا۔اسی لئے علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ نے صوفی مذہب کے متعلق ایک قول یہ بھی ذکر کیا ہے: تصوف دراصل اسلام، یہودیت، عیسائیت، مجوسیت، ہندو ازم اور بدھ ازم کے مشترکہ خیالات کا نام ہے۔(تصوف، تاریخ و حقائق، صفحہ 75)
اب صوفی مذہب سے متعلق زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ ایک ایسا مسلک و مذہب ہے جس کی شیطانیت بھری تعلیمات، بدترین کفریہ اور شرکیہ عقائد اور اسکے نتیجے میں صوفیوں کی اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بدترین گستاخیوں کے بارے میں جان کر ایک گناہ گار مسلمان کی روح بھی کانپ اٹھتی ہے۔حتی کہ شیطان بھی اگر صوفیت سے زیادہ گمراہ، بدتر اور گستاخ کسی مذہب کی مثال تلاش کرکے پیش کرنا چاہے تو ناکام و نامراد ہوگا۔کیونکہ تمام مذاہب کی گمراہیوں کو اکھٹاکرکے اپنے اندر سموکر تصوف مجسم برائی بن چکا ہے۔اب اس مذہب سے وہی شخص رشتہ جوڑتا ہے جو یا تو اس مذہب کے عقائد اور اصولوں سے ناواقف ہو یا پھر بدبختی اور گمراہی اس کا مقدربن چکی ہو۔
اگر کوئی مخلص اور لوگوں کی اصلاح کا درد رکھنے والا شخص کسی کے عقیدہ اور عمل کی غلطی کو واضح کرے تاکہ وہ شخص یا گروہ اس غلطی چھوڑ کر راہ راست پر آجائے تو غلطی پر قائم گمراہ لوگ بجائے اپنی اصلاح کے الٹا اسی مخلص شخص پر چڑھ دوڑتے ہیں اور الٹے سیدھے اعتراض کرنے لگتے ہیں ۔ وہ یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ اس شخص کی بات مان لینے میں فائدہ کس کا ہے اورنہ ماننے کی صورت میں نقصان کس کا؟ انکی ہر ممکن کوشش ہوتی کہ لوگوں کی اصلاح کے خواہش مند اس شخص کی ذات میں اور اسکی جماعت میں بھی ویسی ہی یا اس سے ملتی جلتی غلطیاں اور خرابیاں تلاش کرکے اسے بھی اپنی طرح ثابت کردیا جائے تاکہ ان پر اعتراض کرنے والا شخص خود ہی خاموش ہوجائے اور انہیں اپنی غلطیاں سدھارنی نہ پڑیں کیونکہ شیطان نے ان غلطیوں کو دین بنا کر انکے دل میں راسخ کردیا ہوتا ہے اس لئے ان لوگوں کے نزدیک یہی غلطیاں اصل دین ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان سے پیچھے ہٹنے کو یہ لوگ کسی صورت تیار نہیں ہوتے۔
اسی لئے جب اہل حدیثوں نے عوام الناس کی خیر خواہی اور انہیں گمراہی سے بچانے کے لئے صوفیوں کے شیطانی عقائد اور ابلیسی معاملات پر اعتراض کیاتو بعض شیطان کے چیلوں نے پاکباز اور دین حق کے علمبردار اہل حدیثوں کو بزعم خود صوفی ثابت کرنے پر کمر کس لی۔انہیں تو چاہیے تھا کہ اہل حدیث حضرات کے صوفیت پر وارد شدہ اعتراضات کے تسلی بخش جواب دیتے لیکن چونکہ ان کے پاس صوفی مذہب کو ثابت کرنے کے لئے کوئی معقول دلیل نہیں اس لئے انہوں نے بہتر سمجھا کہ اہل حدیثوں کو بھی صوفیت کی گندی چھینٹوں سے ناپاک کردیں۔ صوفیت کی نجاست اور گندگی میں لت پت ہونے کی وجہ سے اہل حدیث کے عقائد اور اعمال کی پاکیزگی انکی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے اسی لئے یہ اہل حدیث کو بھی صوفی ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ حمام میں سارے ننگے ہوجائیں اور کوئی کسی پر انگلی نہ اٹھا سکے۔
جہاں تک باطل پرستوں کا اکابرین اہل حدیث پر صوفی ہونے کا الزام ہے تو بات صرف اتنی سی ہے کہ بعض اہل حدیث اکابرین نے اپنی تصنیفات میں ان اصطلاحات کا استعمال کیا ہے جو صوفیت میں رائج اور مستعمل ہیں۔ بس اسی ایک بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باطل پرست حضرات نے اہل حدیثوں کے متعلق صوفی ہونے کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا ہے۔ باوجود اسکے کہ اہل حدیث نے تصوف کی ان اصطلاحات کے وہ معنی نہیں لئے جو صوفی حضرات لیتے ہیں۔
صوفی حضرات اپنے مذہب کے لئے بعض ایسی اصطلاحات بھی استعمال کرتے ہیں جو شریعت اور صوفیت میں مشترک ہیں ۔جس کی وجہ سے بعض لوگ صوفیوں کے بارے میں اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ شاید یہ لوگ شریعت کے پابند نیک لوگ ہیں جبکہ ان مشترک اصطلاحات سے صوفیوں کی منشاء اور مراد شریعت کی مراد سے بالکل مختلف، برعکس اور برخلاف ہوتی ہے۔اس حقیقت پرروشنی ڈالتے ہوئے خواجہ شاہ محمد عبدالصمد رقمطراز ہیں: شعرائے متصوفین کا جس قدر کلام ہے وہ بھی ایسے استعاروں، تشبیہوں اور اصطلاحوں سے لبریز ہے کہ عوام کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ بلکہ بعض اوقات نافہمی کی وجہ سے پڑھنے والا کچھ کا کچھ سمجھ کر گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ ارباب دل ایک حد تک مجبو ر بھی ہیں کیونکہ جن کیفیات و احساسات کو وہ بیان کرنا چاہتے ہیں ان کے ادا کرنے سے زبان قاصر ہے۔پس وہ استعارہ و تشبیہ اور مخصوص اصطلاحات کے ساتھ اپنا مدعا ظاہر کرتے ہیں۔(اصطلاحات صوفیاء، صفحہ 5)
پس اس تصریح سے معلوم ہوا کہ تصوف کی اصطلاحات مخصوص اور خاص ہیں۔اگر کوئی اصطلاح شرعی اصطلاح سے ملتی جلتی ہے بھی تو اس موافقت سے کسی کو دھوکہ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ۔مثال کے طور پر تصوف کی ایک مشہور اصطلاح ''زہد'' ہے جس سے مسلمان کچھ مطلب لیتے ہیں اور صوفی کچھ اور۔ چناچہ خواجہ شاہ محمد عبدالصمدصوفیوں کے ہاں ''زہد'' کے مندرجہ ذیل معنی لکھتے ہیں: زہد: جسمانی عیش و آرام ترک کرنا۔دل کو ماسوائے اللہ سے خالی کرنا۔(اصطلاحات صوفیاء، صفحہ 88)
شریعت میں مطلقاً جسمانی آرام ترک کرنا ناپسندیدہ فعل ہے کیونکہ انسان پراس کے جسم کا بھی حق ہے کہ اسے آرام دیا جائے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود کو مشقت اور ہلاکت میں ڈالنے سے منع فرمایا ہے لیکن صوفی اللہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے خود کو کڑی مشقت میں ڈالتے ہیں اور اس کو ''زہد '' قرار دیتے ہیں۔
مولانا محمد زکریا دیوبندی اپنے سلسلے چشتیہ کے ایک بزرگ خواجہ عبدالواحدبن زید ابو الفضل کے ''زہد'' کا قصہ لکھتے ہیں: تین روز بعد افطار فرماتے اور پھر بھی تین چار لقموں سے زیادہ تناول نہیں فرماتے۔(تاریخ مشائخ چشت، صفحہ 122)
انہی بزرگ کے بارے میں مزید لکھتے ہیں: شیخ عبدالواحد یہ خواب دیکھ کر جاگ گئے اور اس کے بعد قسم کھالی کہ رات کو کبھی نہ سوؤں گا۔ چناچہ پھر یہ حال ہوا کہ صبح کی نماز چالیس سال تک عشاء کی وضو سے پڑھی۔(تاریخ مشائخ چشت، صفحہ 125)
خواجہ فضیل بن عیاض کے بارے میں مولانا زکریا دیوبندی تحریر کرتے ہیں: خواجہ فضیل بھی صائم الدہر تھے ۔پانچ پانچ دن کے مسلسل روزے رکھتے تھے اور پانچ سو رکعت نوافل روزانہ ادا کرتے تھے۔ (تاریخ مشائخ چشت، صفحہ 131)
چشتی سلسلے کے ایک اور بزرگ ابراہیم بن ادھم کے بارے میں زکریا صاحب کا کہنا ہے: چار،پانچ روز کا روزہ ان کا بھی معمول تھا ۔گھاس وغیرہ سے افطار کرتے تھے۔(تاریخ مشائخ چشت، صفحہ 137)
زہد کے نام پر یہ غیر شرعی اعمال و افعال ہیں جن کا ارتکاب صوفی حضرات کرتے ہیں ۔ صوفیوں کے برعکس اہل حدیث شریعت کی اتباع کو ہی ''زہد'' سے تعبیر کرتے ہیں۔پھر بھی یہ رٹ لگانا کہ اہل حدیث کے اکابرین بھی صوفی تھے دیانت اور امانت کا خون کرنے کے مترادف ہے۔ہم پوچھتے ہیں کہ مخالفین کتنے ایسے اکابرین اہل حدیث کے نام گنوا سکتے ہیں جو مسلسل چار اور پانچ دن کے روزے رکھتے تھے اور انسانوں کی غذا چھوڑ کر جانوروں کی غذا گھاس سے افطار کرتے تھے اور کس اہل حدیث کارات میں معمول پانچ سو رکعات روزانہ ادا کرنے کا تھااور کس اہل حدیث نے چالیس سال تک مسلسل عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی؟؟؟
زہد کے دوسرے معنی کہ دل کو ماسوائے اللہ سے خالی کرنابھی صوفیوں کا خود ساختہ اور بدعی نظریہ ہے ۔اہل حدیث زہد کے کسی ایسے معنی پر یقین نہیں رکھتے ۔
مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ صوفیوں اور مسلمانوں کے نزدیک زہد سے مراد لئے جانے والے مطالب کے بارے میں لکھتے ہیں: زہد سے یہ حضرات ترک دنیا مراد لیتے ہیں یعنی دنیا سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کرکے جنگلوں، ویرانوں، صحراؤں، دریا کے کناروں پر جاکر سال ہا سال چلّے کاٹتے پھرنا، جس کا مقصد خرق عادت امور کا حصول اور وقوع پذیر ہونا ہے جبکہ اسلامی زہد یہ ہے کہ یہ دنیا کی محبت دل میں جاگزیں نہ ہو۔حصول دنیا یا کسب حلال کو تو اسلام نے صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن قرار دیا ہے۔ یہ حضرات اس معاملہ میں احکام نبوی کی صریح خلاف ورزی کرتے ہیں۔(شریعت و طریقت، صفحہ 453)
اسی طرح مسلمانوں اور صوفیوں میں ایک مشترک لفظ توحید کا بھی جس سے دونوں فریقین کی مراد ایک دوسرے کے خلاف ہے۔خواجہ شاہ محمد عبدالصمد صوفی مذہب میں توحید کے یہ معنی لکھتے ہیں: توحید: اس کے تین مراتب ہیں۔(۱)توحید عامی یعنی توحید شرعی (۲)توحید خاص (۳)توحید اخص الخاص۔ (اصطلاحات صوفیاء، صفحہ 44)
توحید خاص اور توحید خص الخاص کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان دونوں کو توحید ذوقی کہتے ہیں ۔(اصطلاحات صوفیاء، صفحہ 44)
پھر توحید ذوقی کی تشریح میں رقم طراز ہیں: اولیاء اللہ کے فیضان صحبت اور ان کی تعلیم و تلقین سے بہرہ ور ہوتا ہے اور عشق حقیقی میں قدم رکھتا ہے۔اس وقت اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کے معنی اس پر کھلتے ہیں اور انسان توحید شرعی سے آگے بڑھ کر توحید ذوقی یعنی وحدت الوجود کے مزلے لیتا ہے جس کا بیان کسی عبارت کسی لفظ سے ممکن نہیں۔ (اصطلاحات صوفیاء، صفحہ45,44)
اس وضاحت کے بعد یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ صوفیوں کی توحید مسلمانوں کی توحید سے بالکل علیحدہ چیز ہے ۔اہل حدیث توحید سے مراد وحدت الوجود نہیں لیتے بلکہ وحدت الوجود کو بدترین کفر اور شرک سمجھتے ہیں۔لیکن یہ خالص کفر اور شرک صوفی مذہب میں ایسی توحید ہے کہ اسکے سامنے شرعی توحیدبھی انہیں شرک نظر آتی ہے۔ شاہ گل حسن، سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی سے نقل کرتے ہیں: ایک روز ارشاد ہوا کہ میاں سچ پوچھو تو توحید بھی شرک ہے۔(تذکرہ غوثیہ، صفحہ 231)
اب صوفیاء کی مشہور اور مستند کتاب ''التعرف''سے مزید کچھ اسلامی اصطلاحات پیش خدمت ہیں جنھیں صوفی بھی استعمال کرتے ہیں لیکن ان سے صوفیوں کی مراد ہی شریعت سے الگ اور جداگانہ ہے۔ملاحظہ ہو:
1۔ شکر: ایک بڑے صوفی کا قول ہے: ''انعام کنندہ کو نگاہ میں رکھتے ہوے شکر کو بھول جانا شکر ہے۔''(تعرف، صفحہ 145)
2۔ تقویٰ: سہل تستری فرماتے ہیں: ''اللہ کی طرف مائل ہونے کی مقدار کے مطابق احوال کا مشاہدہ کرنا تقویٰ ہے۔'' (تعرف، صفحہ 151)
3۔ توکّل : ایک بڑے صوفی کے نزدیک اسکا مفہوم یہ ہے: ''توکل کی حقیقت ترک توکّل ہے اور یہ اس طرح ہے کہ اللہ ان کے لئے ایساہو جیسا اس وقت تھا۔جب وہ موجود نہ تھے۔'' (تعرف، صفحہ 156)
4۔ اخلاص: ابو یعقوب سوسی فرماتے ہیں: ''خالص عمل وہ ہے جس کا فرشتے تک کو پتہ نہ ہو کہ لکھ سکے اور نہ شیطان کو خبر کو کہ اسے خراب کرسکے اور نہ نفس کو پتہ ہو کہ اس پر فخر کرسکے۔'' (تعرف، صفحہ 153)
5۔ ذکر: جنید فرماتے ہیں: ''جس نے اللہ کے مشاہدہ کے بغیر اللہ کہا وہ مفتری ہے۔ ایک اور کہتا ہے: '' دل کا کام مشاہدہ کرنا ہے اور زبان کا کام اس کا مشاہدہ کو بیان کرنا ہے۔ لہٰذا جس نے مشاہدہ کے بغیر بیان کیا وہ جھوٹا ہے۔'' (تعرف، صفحہ 162)
ہمیں یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ مذکورہ بالا اصطلاحات سے صوفی جو مفہوم اخذکرتے ہیں اور شریعت کے نزدیک انکا جو مفہوم ہے اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
اب مسئلہ بالکل بے غبار ہے کہ اہل حدیثوں کو کچھ صوفیانہ اصطلاحات کے استعمال کی بنیاد پر صوفی قرار دینا کسی طور جائز نہیں۔کیونکہ بعض اصطلاحات توصوفیت اور اسلام میں یکساں ہیں لیکن اس کے معنی دونوں کے نزدیک الگ الگ ہیں لہٰذا صوفی جماعت اور اہل حدیث جماعت میں کوئی فرق روا نہ رکھنا اور دونوں کو صوفی کے مشترک لفظ سے پکارنا اہل حدیثوں پر ظلم عظیم نہیں تو کیا ہے؟
اس کے علاوہ مخالفین کا اکابرین اہل حدیث کو صوفی کہنے کا پروپیگنڈہ اس لئے بھی باطل،کمزور اور کھوکھلا ہے کہ محض صوفیت کی اصطلاحات استعمال کرلینے سے کوئی صوفی نہیں بن جاتا ۔جس طرح اگر کوئی شخص مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے لیکن اسکے عقائد مسلمانوں والے نہ ہوں تو محض دعویٰ سے وہ شخص مسلمان نہیں ہوجاتا اور نہ ہی کسی کے نزدیک اسکادعویٰ مسلمانی قابل تسلیم ہوتا ہے۔بعینہ اسی طرح اگر بعض اہل حدیث اکابرین نے صوفی مذہب کی کچھ اصطلاحات کو استعمال کیا ہے یا کسی اہل حدیث کے بارے میں صوفی ہونے کا ذکر کیا ہے تو اس سے ان اہل حدیثوں کا صوفی ہونا لازم نہیں آتا جب تک وہ مکمل طور پر صوفی مذہب کے بنیادی اور ضروری عقائد کے حامل اور اقراری نہ ہوں۔آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ مخالفین کا یہ دعویٰ کہ اہل حدیث اکابرین صوفی تھے کس حدتک درست اور واقع کے عین مطابق ہے اور صوفی حضرات کیا عقائد رکھتے ہیں اور اہل حدیث ان عقائد سے کس حدتک متفق یا مخالف ہیں۔
01۔ صوفی مذہب کا ایک بنیادی عقیدہ وحدت الوجودکا عقیدہ ہے۔وحدت الوجود کا مطلب ہے کہ خالق اور مخلوق میں کوئی فرق نہ کرنا بلکہ دونوں کو ایک ہی قرار دیتے ہوئے خالق کو مخلوق اور مخلوق کو خالق سمجھنا۔جیسے حاجی امداد اللہ صاحب کی ملفوظات معروف بہ ''شمائم امدادیہ'' میں درج ہے: بندہ اپنے وجود ظاہری سے پہلے خود ہی باطنی طور پر خدا تھا۔اب بندہ ہی خدائے ظاہر ہے۔ (شمائم امدادیہ، صفحہ 38)
یہ انتہائی درجہ کا کفر ہے اور اسی سبب علمائے حق نے وحدت الوجود کے حاملین صوفیوں کو یہود و نصاریٰ سے بدتر کافر قرار دیا ہے۔
پروفیسر طالب الرحمن شاہ حفظہ اللہ عقیدہ وحدت الوجودکے بانی و علمبردار صوفی ابن عربی اور اسکے پیروکاروں کے بارے میں رقم طراز ہیں: حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتب میں خصوصی طور پر ابن عربی کا علمی محاسبہ کرتے ہوئے اسے اور اسکے متعبین کو یہود و نصاریٰ سے بڑھ کر کافر قرار دیا ہے۔(عقائد علماء دیوبند، تحقیق و تعلیق پروفیسر طالب الرحمن شاہ ،حاشیہ صفحہ 68)
اسی طرح فضیلتہ الشیخ حمود بن عبداللہ التویجری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابن عربی عقیدہ وحدۃ الوجود کے قائلین کا امام ہے اور اس مذہب کے ماننے والے زمین پر بسنے والے کافروں میں سب سے بڑھ کر ہیں۔(القول البلیغ فی التحذیر من جماعتہ التبلیغ، صفحہ 133)
ہمارا اہل حدیثوں کو زور و زبردستی سے صوفی ثابت کرنے والے احباب سے سوال ہے کہ کیا کوئی ایک بھی اکابر اہل حدیث وحدت الوجود کا کفریہ عقیدہ رکھتا تھا؟ اگر ہاں! تو صاف اور صریح ثبوت پیش کیجئے اور اگر نہیں تو صوفی مذہب کے بنیادی عقیدے کے منکرین اور مخالفین کو زبردستی صوفی قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟
02۔ صوفیاء جانوروں حتی کہ کتوں اور خنزیروں کے بارے میں بھی رب ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ان صوفیوں کا قول ہے: وما الکلب والخنزیر الاالھنا۔کتے اور خنزیر ہمارے الہ اور معبود ہیں۔(الکشف عن حقیقتہ الصوفیاء،صفحہ 162، بحوالہ دیوبندی اور تبلیغی جماعت کا تباہ کن عقیدہ صوفیت،صفحہ 67)
صوفیوں کا شیخ اکبر ابن عربی ایک بچھڑے کو خدا کہتا ہے اورخدا ہونے کی حیثیت سے اسکی عبادت کو درست قرار دیتا ہے،لکھتا ہے: حضرت ہارون علیہ السلام سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت سے منع کیا ۔حالانکہ بچھڑا بھی خدا تھا۔(فصوص الحکم)
ملاحظہ فرمائیں کہ یہ عبارت عقیدے کی کس قدر گمراہیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
صوفی ایک نبی سے زیادہ معبوداور الہٰ کی معرفت اور پہچان رکھتا ہے۔
نبی غلطی اور خطاء کرتا ہے صوفی سے غلطی نہیں ہوتی۔
صوفی اس حیثیت میں ہوتا ہے کہ انبیاء کی غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
نبی یہ نہیں جانتا کہ جانور بھی خدا ہیں لیکن صوفی جانتا ہے اس لئے انبیاء کو خطا ء کار اور انکے مخالفین کو صحیح قرار دیتا ہے۔
نعوذ باللہ من ذالک۔ اللہ کی لعنت ہو انسانی سطح سے گرے ہوئے ان ابلیسی صوفی عقائد پر۔
ابو النصر سراج توسی کی کتاب اللمع فی التصوف صوفیوں کی انتہائی معتبر اور مستند کتاب ہے۔ اس کتاب میں ایک واقعہ درج ہے کہ: ابو حمزہ صوفی کو حارث محاسبی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ حارث کی بکری نے میں میں کیا تو ابو حمزہ صوفی ہچکیاں لینے لگا اور اس بکری سے مخاطب ہوکر کہا: ''لبیک یا سیدی'' میرے آقا میں حاضر ہوں۔ ا س پر حارث محاسبی نے ٹوکا، تو ابوحمزہ نے جواب دیا: معلوم ہوتا ہے تم ابھی تصوف کے میدان میں مبتدی ہو۔(اللمع فی التصوف، صفحہ 495)
دیکھئے صوفیاء کے نزدیک جو مسلمان جانوروں کو اپنا رب نہیں مانتا وہ نوآموز، جاہل اور لاعلم ہے۔اسی بات سے اندازہ کرلیں کہ انبیاء ان کے نزدیک کس قسم کے لوگوں کی صف میں کھڑے ہیں۔
کتوں میں بھی صوفیوں کو رب نظر آتا ہے اس لئے یہ کتے کی بھوکنے کو خدا کی پکار سمجھ کر جواب دیتے ہیں چناچہ مذکورہ بالا کتاب میں درج ہے کہ : ابوالحسن نوری نے ایک کتے کو بھونکتے دیکھا تو کہنے لگا۔''لبیک و سعد یک'' یعنی میں حاضر ہوں اور تجھ سے سعادت چاہتا ہوں۔ (اللمع فی التصوف، صفحہ 492)
صوفی ہاتھی کو بھی خدا سمجھتے ہیں چناچہ شمائم امدایہ صفحہ 90پر درج ہے: کسی گرو کا چیلا توحید وجودی میں مستغرق تھا راستے میں ایک فیل(ہاتھی) مست ملا اس پر فیل بان پکارتا آتا تھاکہ ہاتھی مست ہے میرے قابو میں نہیں اس چیلے کو لوگوں نے منع کیا مگر وہ نہ مانا اور کہا کہ وہی تو ہے اور میں بھی وہی ہوں خدا کو خدا سے کیا ڈر؟ (بحوالہ دیوبندی اور تبلیغی جماعت کا تباہ کن عقیدہ صوفیت، صفحہ 157)
کوّا بھی صوفیوں کے خداؤں میں سے ایک خدا ہے۔ابوعبداللہ رملی کہتے ہیں کہ ابوحمزہ نے طرسوس کی جامع مسجد میں وعظ کہا، لوگوں نے دل سے سنا۔ایک روز و ہ وعظ بیان کررہے تھے کہ یکایک مسجد کی چھت پر کوّ ا بولا ۔ابوحمزہ نے زور سے ایک نعرہ مارا اور کہا لبیک لبیک۔ (تلبیس ابلیس،صفحہ 288)
کوّے کی آواز پر ابوحمزہ صوفی کی لبیک لبیک کی صدائیں اس لئے تھیں کہ اس صوفی کے نزدیک کوّے میں اللہ حلول کئے ہوئے تھا۔اور اسی عقیدے کی بناء پر لوگوں نے اس صوفی کو مرتد اور زندیق کا لقب دیا۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس بات پر لوگوں نے ان کو زندیقیت کی طرف منسوب کیا۔مسجد کے دروازے پر ان کا گھوڑا یوں پکار کر نیلام ہوا کہ یہ زندیق کا گھوڑا ہے۔ابوبکر فرغانی نے کہا کہ ابوحمزہ جب کوئی آواز سنتے تھے تو لبیک لبیک کہتے تھے لوگوں نے ان کو حلولی ٹھہرایا۔(تلبیس ابلیس،صفحہ 289,288)
بس یہی وہ نظریات و عقائد ہیں جن کی بنا پر ان شیطان نما صوفیوں کو علمائے حق نے دنیا بھر کے کافروں سے بدتر اور غلیظ کافر قرار دیا ہے اور یہ لوگ یقیناًان فتوؤں کے صحیح حقدار ہیں۔ کیا کسی اہل حدیث کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ وہ بھی صوفیوں کی طرح جانوروں کو اپناالہ اور معبود مانتا تھا اور کتوں کے بھونکنے، کوّے کی کائیں کائیں اور بکری کی میں میں کو رب کی پکار سمجھ کر جواب دیتا تھا؟؟؟ یقیناًنہیں۔تو پھر اہل حدیثوں کو صوفی کہنا جاہلوں اور حاسدوں کا چاند پر تھوکنا ہے جو واپس انہی کے منہ پر آتا ہے۔
03۔ صوفیوں کی شیطانیت صرف یہیں تک محدود نہیں رہی کہ انہوں نے بے عقل جانوروں کو اپنا رب مان لیا بلکہ اس سے بھی آگے پیش قدمی کرتے ہوئے انہوں نے مسلمانیت کو شرما دیا اور ابلیس مردود کے بارے میں دعویٰ کیا کہ وہ صوفیوں کا رب ہے۔مجھے یقین کامل ہے کہ اسلام کے نام لیواؤں میں کوئی بھی بے عقلی،بدبختی اور بے حیائی کی اس انتہاء کو نہیں پہنچا ہوگا بے شرمی کی جس بلند ترین سطح کو صوفیوں نے چھوا ہے۔
دیوبندیہ اور بریلویہ دونوں فرقوں کے تسلیم شدہ صوفی بزرگ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی بڑے شیطان یعنی ابلیس کو بھی اللہ ہی کا روپ کہتے اور سمجھتے تھے۔ان کے نزدیک آدم ہدایت دینے والا رب اور ابلیس گمراہ کرنے والا رب ہے۔مولانا عطاء اللہ ڈیروی حفظہ اللہ رقم طراز ہیں: حاجی امداد اللہ نے صاف طور پر بیان کیا ہے...کہ ابلیس بھی اللہ کا مظہر ہے یعنی مظہر مضل ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں ہیں ایک ہادی اور دوسری مضل۔یعنی ہدایت دینے والاجیسا کہ قرآن میں ہے ''یضل بہ کثیرا او یھدی بہ کثیرا'' اس لئے ابلیس اللہ کی صفت مضل کا مظہر ہے اور آدم اس کی صفت ہادی کا مظہر ہے۔اس لئے نہ آدم اللہ کا غیر ہے اور نہ ابلیس اس کا غیر ہے۔(دیوبندی اور تبلیغی جماعت کا تباہ کن عقیدہ صوفیت، صفحہ 14)
تصوف کے حامی اور علمبردار شعرانی اپنے پیر محمد الخضری کے بارے میں کہتا ہے: مجھے ابوالفضل سرسی نے بتایا کہ پیر ومرشد خضری صاحب ایک مرتبہ جمعہ کے دن ان کے پاس تشریف لائے تو لوگوں نے ان سے خطبہ ارشاد فرمانے کی درخواست کی انہوں نے درخواست قبول کرلی۔ منبر پر چڑھے اور حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد کہا''میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ ابلیس کے علاوہ تمہارا کوئی اور معبود نہیں۔(بحوالہ تصوف کتاب و سنت کی روشنی میں،صفحہ 69)
صوفیاء کے ان گھناؤنے اور قبیح عقائد کے بعد بھی حیرت ہے کہ کس منہ سے یہ مکذبانہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسلام کی نشر واشاعت میں صوفیوں کی عظیم خدمات شامل ہیں اور خصوصاً برصغیر پاک وہند میں اسلام انہیں کے ذریعے پھیلا۔سچ تو یہ ہے کہ صوفیاء کفر اور شرک کی گندگی تو پھیلاسکتے ہیں لیکن اسلام ہرگز نہیں۔
یہاں ہم پھر اپنا یہ سوال اور اعتراض مخالفین کے سامنے رکھتے ہیں کہ اگرتمہارے دعویٰ کے مطابق اکابرین اہل حدیث صوفی تھے تو کسی ایک اہل حدیث اکابر کا نام لو جو رذیل صوفیوں کی طرح ابلیس کو اپنا رب او ر معبود مانتا تھا؟؟؟
04۔ دیوبندی صوفی اللہ رب العالمین کے متعلق زانی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔(نعوذباللہ من ذالک)
تذکرۃ الرشید میں درج صوفیوں کی گستاخی کا آخری حدوں کو چھوتا ہوا یہ بدترین اور عبرتناک واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
ایک روز حضرت مولانا خلیل احمد صاحب زید مجدہ نے دریافت کیا کہ حضرت یہ حافظ لطافت علی عرف حافظ مینڈھو شیخ پوری کیسے شخص تھے؟حضرت نے فرمایا ''پکا کافر تھا'' اور اس کے بعد مسکرا کر ارشاد فرمایا کہ ''ضامن علی جلال آبادی تو توحید ہی میں غرق تھے''
ایک بار ارشاد فرمایا کہ ضامن علی جلا ل آبادی کی سہانپور میں بہت سی رنڈیاں مرید تھیں ایک بار یہ سہانپور میں کسی رنڈی کے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے سب مریدنیاں اپنے میاں صاحب کی زیارت کیلئے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی میاں صاحب بولے کہ فلانی کیوں نہیں آئی رنڈیوں نے جواب دیا میاں صاحب ہم نے اس سے بہتیرا کہا کہ چل میاں صاحب کی زیارت کو اس نے کہا میں بہت گناہ گارہوں اور بہت روسیاہ ہوں میاں صاحب کو کیا منہ دکھاؤں میں زیارت کے قابل نہیں میاں صاحب نے کہا نہیں جی تم اسے ہمارے پاس ضرور لانا چناچہ رنڈیاں اسے لیکر آئیں جب و ہ سامنے آئی تو میاں صاحب نے پوچھا بی تم کیوں نہیں آئی تھیں؟ اس نے کہا حضرت روسیاہی کی وجہ سے زیارت کو آتی ہوئی شرماتی ہوں۔ میاں صاحب بولے بی تم شرماتی کیوں ہو کرنے والا کون اور کرانے والا کون وہ تو وہی ہے رنڈی یہ سنکر آگ ہوگئی اور خفا ہو کر کہا لاحول ولا قوۃ اگرچہ میں روسیاہ و گنہگار ہوں مگر ایسے پیر کے منہ پر پیشاب بھی نہیں کرتی۔میاں صاحب شرمندہ ہو کر سرنگوں رہ گئے اور وہ اٹھ کر چلدی۔(تذکرۃ الرشید،جلد 2،صفحہ 242)
غور فرمائیں کہ ایک گناہ گار رنڈی کو تواپنے نور ایمان و اسلام کی بدولت یہ احساس ہوگیا کہ ایسا عقیدہ رکھنے والادیوبندی صوفی اس قابل بھی نہیں کہ اس منہ پر پیشاب بھی کیا جائے۔لیکن رنڈیوں اور طوائفوں سے بھی کہیں بدتر اس دیوبندی صوفی کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ورنہ وہ طوائف کے کلام پر شرم سے سر جھکانے کے بجائے اس نجس صوفی مذہب ہی سے تائیب ہوجاتا جس کی وجہ سے اس کی عزت دوٹکے کی رہ گئی اور وہ بھی اس عورت کے ہاتھوں جس کی معاشر ے میں اپنی کوئی عزت نہیں۔
جس صوفی سے ضامن علی جلال آبادی کے متعلق سوال کیا گیا کہ یہ کیسا آدمی تھا اس کو بھی بخوبی احساس تھا کہ اللہ رب العالمین کی ذات عالی شان کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص کیسا آدمی ہوسکتا ہے اسی لئے ان صوفی صاحب کے منہ سے ضامن جلال آبادی کے متعلق یہ سچ نکل ہی آیا کہ''پکا کافر تھا'' (تذکرۃ الرشید،جلد 2،صفحہ 242)
حیرت ہے ان مواحدین پر جو ایسے شیطانی عقیدوں کے حاملین صوفیوں کو بھی پکا اور سچا مسلمان سمجھتے ہیں!!!جب کہ صوفی خود ہی اپنا کافر ہونا تسلیم کررہے ہیں لیکن بعض الناس نے مدعی سست ،گواہ چست کے مصداق ان کافروں کو مسلمانی کا سرٹیفیکٹ دینے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ علمائے کرام کا ان گمراہ صوفیوں کے بارے میں صحیح حکم بیان نہ کرنا ایک طرف عوام الناس کی گمراہی اوردین میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا سبب ہے تو دوسری جانب انکے انسانی سطح سے گرے ہوئے شیطانی عقائد کی تصدیق و تائید کرنے کے مترادف بھی ہے کیونکہ خاموشی نیم رضامندی کی علامت ہوتی ہے۔
دوٹوک اور سچی بات یہ ہے کہ ضامن جلال آبادی جس نے یہ کفر اپنے ناپاک منہ سے نکالااوراللہ رب العالمین کو زناکرنے اور زنا کروانے والا کہا، کافر ہے۔اس ضامن جلال کو توحید میں غرق سمجھنے والا صوفی رشید احمد گنگوہی بھی کافر ہے۔ اس ایمان شکن واقعے کو تذکرۃ الرشید میں بلا رد و تنقید درج کرنے والے مولانا محمد عاشق الہٰی میرٹھی کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں اور وہ تمام دیوبندی جو،ان صوفی کافروں کے متعلق اہل حق اور مسلمان ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی انہی کی طرح کافر ہیں۔کیونکہ اگر دیوبندیوں کا یہ عقیدہ نہیں جو اس گستاخانہ واقعے میں مذکور ہے تو دیوبندیوں کو اس واقعے کے بنیادی کردارضامن جلال آبادی سے،اس واقعے کو بیان کرنے والے صوفی سے اور ایسے شخص کو توحید میں مبتلا سمجھنے والے دیوبندی اکابر سے اعلانیہ براء ت کا اظہار کرنا چاہیے اور ان تمام لوگوں کے کفر میں شک نہیں کرنا چاہیے ورنہ ان کا بھی وہی حکم ہوگا جو ان کے دیوبندی اکابرین کا ہے۔
سید طیب الرحمن زیدی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: بعض حضرات تقیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے یہ عقائد نہیں ہیں علمائے اسلام انہیں یہ کہتے ہیں کہ اگر تمہارے یہ عقائد نہیں ہیں تو ان عقائد رکھنے والے فلاں فلاں شخص کی تکفیر کرو۔ وہ اس تکفیر کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے ۔ اسی طرح بعض چالاک دیوبندی اپنے اکابر کے مشرکانہ عقائد کے بارے میں تقیہ کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے یہ عقائد نہیں ہیں اور ہم صرف قرآن و حدیث ہی مانتے ہیں۔ انہیں علمائے اہل سنت (اہل حدیث) کہتے ہیں کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہوتو اپنے ان اکابرین سے برا ت کا اعلان کروجن کی کتابوں میں یہ عقائد مذکورہ درج ہیں اور ان کے شرک و بدعت کا اعلانیہ اعتراف کرو۔ مگر ایسا اعتراف اور اعلان برات وہ کبھی نہیں کرتے بلکہ پکے اکابر پرست ہیں لہٰذا جب تک وہ اپنے ان اکابر سے صریح برات نہ کریں ان کا وہی حکم ہے جو ان کے اکابر کا ہے۔(نماز میں امام کون؟ صفحہ 131)
کیا کوئی ایک بھی اکابر اہل حدیث،دیوبندی صوفیوں کی طرح اللہ رب العالمین کی شدید ترین گستاخی کرتے ہوئے اللہ کے زانی ہونے کا عقیدہ رکھتا تھا؟ اگر ہاں تو ثبوت درکارہے اور اگر نہیں تو پھر اہل حدیثوں کو صوفی ہونے کی ننگی اور گندی گالی کیوں دی جاتی ہے اور گستاخ صوفیوں کی صف میں انہیں ناحق کیوں شامل کیا جاتا ہے؟؟؟
05۔ صوفی حضرات پہلے خلاف شریعت ایک نظریہ اور عقیدہ قائم کرتے ہیں پھر اسے سند جواز عطاء کرنے اور عوام و خواص میں قبولیت دلانے کی خاطر قرآن وحدیث سے محرفانہ استدلال کرتے ہیں اور بعض اوقات جلیل القدر اور قابل احترام ہستیوں کو اس عقیدہ و نظریہ کا قائل و حامی قرار دیتے ہیں ۔اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ انکی اس حرکت سے ان نفوس قدسیہ کی جانب شرک اور کفر منسوب ہورہاہے اور انکی توہین ہورہی ہے۔
ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ وحدت الوجود کے عقیدے کے حاملین کو علمائے حق نے بدترین کافر قرار دیا ہے۔ لیکن اس کفریہ و شرکیہ عقیدہ کی حمایت و تائید میں صوفیوں نے انبیاء کرام کو بھی اس عقیدے کا حامل قرار دیا ہے چناچہ سید علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش لاہوری رقم طراز ہیں: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب سورج اور چاند کو اپنا رب کہا وہ اس لئے کہا کہ نبی ہونے کی حیثیت سے آپ وحدت الوجود کے قائل تھے لہٰذا ہر چیز میں ان کو خدا نظر آیا۔(شرح کشف المحجوب، صفحہ 884)
اہل حدیث انبیاء علیھم السلام کی شان میں اس خوفناک گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتے کیونکہ اہل حدیث صوفی مذہب کے اس لازمی اور بنیادی عقیدے وحدت الوجود کے قائل ہی نہیں ہیں بلکہ دن رات اس خبیث نظریے کی مخالفت کرتے ہیں۔انبیاء علیھم السلام کو وحدت الوجود کا قائل بتانا دراصل ان بزرگان اور افضل ترین نفوس کو کافر اور مشرک قرار دینا ہے۔(نعوذباللہ من ذالک)
انبیاء جیسی پاکباز ہستیوں پر ایسی شرمناک تہمت لگانا کہ جس سے ایک مسلمان کا سر شرم سے جھک جائے گمراہ صوفیوں ہی کا کام ہے ۔اہل حدیث ایسے شیطانی نظریات و عقائد سے بے زار اور بری ہیں۔ پھر بھی جب کوئی شخص اکابرین اہل حدیث کو صوفی کہتا ہے تو بہت حیرت ہوتی ہے۔
06۔ دیوبندی صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ کچھ اعمال و اذکار ایسے ہیں کہ جن کی ادائیگی سے انسان بھی اللہ بن سکتا ہے۔
دیوبندیوں کے اکابرامداد اللہ مہاجر مکی لکھتے ہیں: ''اور اس کے بعد ہو ہو کے ذکر میں اس قدر منہمک ہو جانا چاہیے کہ خود مذکور یعنی (اللہ) ہو جائے اور فنا در فنا کے یہی معنی ہیں اس حالت کے حاصل ہوجانے پر وہ سراپا نور ہوجائے گا۔'' (کلیات امدادیہ،صفحہ 18)
صوفیوں کی طرح یہی عمل فرعون کا تھا کہ انسان اور اللہ کا بندہ ہوکر خود اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا تھا۔معلوم ہوا کہ صوفیوں اور اللہ کے دشمن فرعون کا ایک ہی عقیدہ تھا ۔ بلکہ انسان ہوتے ہوئے رب ہونے کادعوےٰ کرنے والوں کے بارے میں اگر یوں کہا جائے کہ اس عقیدہ میں فرعون صوفیوں کا جد امجد تھا تو بے جانہ ہوگا۔ فرعون اور صوفیوں کے عقیدہ کی اس یکسانیت کی بنا پرفرعون کو کافر تسلیم کرنا صوفیوں کو کافر قرار دینے کے مترادف ہے چناچہ اسی خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے اور اہل تصوف کو کفر کے فتوے کی زد سے بچانے کے لئے صوفیوں کے ''شیخ اکبر'' ابن عربی نے اپنے جد امجد فرعون کے بارے میں دعویٰ کیاکہ: فرعون کامل الایمان تھا ۔(فصوص الحکم،اردو،صفحہ 400)
فرعون کے ایمان کے بارے میں گواہی دینا صوفیوں کی مجبوری ہے وگرنہ خود انکا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا۔ لیکن قرآن و حدیث کی نصوص کے مطابق فرعون کافر، اللہ کا دشمن اور اللہ کے غیض و غضب اور اسکے عذاب کا مستحق تھا۔اب قابل غور بات یہ ہے کہ فرعون تو صوفی عقیدہ کا حامل ہوکر اللہ کے غضب کا حقدار ہو اور دیوبندی اور بریلوی فرعونی عقیدہ پر ہوتے ہوئے بھی اللہ کی رحمت کے مستحق ہوں بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟! یقیناًجو انجام صوفی فرعون کا ہوا وہی انجام صوفی دیوبندیوں اور صوفی بریلویوں کا بھی ہوگا۔
اکابرین اہل حدیث کے متعلق صوفی ہونے کا پروپیگنڈہ کرنے والے بتائیں کہ جو عقیدہ صوفی فرعون، صوفی دیوبندی اور صوفی بریلوی کا ہے کیا وہی عقیدہ اہل حدیث بھی رکھتے ہیں کہ مخلوق کچھ خود ساختہ اعمال کے ذریعے خالق بن سکتی ہے؟ اگر ہاں! تو ''ہاتھ کنگن کو آرسی کیا '' فوراً حوالے پیش کیجئے اور اگر نہیں تو ان جھوٹوں اور کذابوں پر اللہ کی لعنت جو اہل حدیث کے متعلق صوفی ہونے کے دعویدا ر ہیں۔
07۔ صوفی دیوبند یوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ انسانی شکل میں آسکتا ہے۔ملاحظہ ہو ،شمائم امدادیہ میں ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے: راوی نے عرض کیا کہ آپ کی خادمہ پیرانی صاحبہ نقل کرتی ہے کہ ایک میرے بھتیجے حج کو آئے تھے آگبوٹ تباہی میں آگیا۔حالت مایوسی میں انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک طرف حاجی صاحب اور دوسری طرف حافظ جیو صاحب آگبوٹ کو شانہ دیتے ہوئے تباہی سے نکال رہے ہیں۔صبح کو معلوم ہوا کہ آگبوٹ دو دن کا راستہ طے کرکے صحیح سالم کنارے پر لگ گیا۔فرمایا کہ مجھ کو کیا معلوم ؟ فاعل حقیقی خداوند کریم ہے ، کیا عجب کہ صحیح ہو۔دوسروں کے لباس میں آکر خود مشکل آسان کردیتا ہے اور نام ہمارا تمہارا ہوتا ہے۔ (شمائم امدادیہ، صفحہ 100)
صوفی دیوبندیوں کی طرح کیا کسی اہل حدیث کا بھی یہ کفریہ عقیدہ ہے کہ اللہ انسانی شکل میں آکر مدد کرتا ہے؟ اگر ہاں تو ہم تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں کہ اکابرین اہل حدیث صوفی تھے اور اگر اہل باطل کے پاس اسکا کوئی ثبوت نہیں تواس دروغ گوئی پر انہیں چلو بھر پانی میں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔
08۔ ایک آدمی نے دیوبندیو ں کے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ صاحب کی خدمت میں ان کے ایک مضمون کے بارے میں سوال کیا: اس مضمون سے معلوم ہوا کہ عابد اور معبود میں فرق کرنا شرک ہے۔
حاجی صاحب نے جواب دیا: کوئی شک نہیں ہے کہ فقیر نے یہ سب ضیا القلوب میں لکھا ہے۔(شمائم امدادیہ،صفحہ 34)
کیا رب کائنات کی اس سے بڑھ کر بھی کوئی توہین اور گستاخی ممکن ہے جویہ صوفی اللہ کی شان گھٹانے کے لئے دن رات کررہے ہیں؟
کیا اہل حدیثوں کا بھی یہی عقیدہ ہے جو ان صوفی دیوبندیوں کا ہے کہ عابد اور معبو د میں فرق کرنا شرک ہے؟ تو حید کو شرک اور شرک کو توحید بنا دینے والے یہ صوفی دیوبندی اگر کافر نہیں تو پھر کافر کون ہے؟ ان کافرصوفی دیوبندیوں سے مومن اہل حدیثوں کی بھلا کیا نسبت؟؟؟
09۔ دیوبندیوں اور بریلویوں کے ہاں ابن عربی کا مقام بہت بلند ہے حتیٰ کہ اسے شیخ اکبر جیسے باعزت لقب سے ملقب کیا گیا ہے۔ اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں: گروہ صوفیہ میں حضرت شیخ محی الدین ابن عربی المعروف بہ شیخ اکبر رحمتہ اللہ علیہ کی ذات ایسی ہے۔۔۔الخ(حیات اشرف، صفحہ 193)
قاری محمد طیب گروہ دیوبندیہ کے نزدیک ابن عربی کی قدر و منزلت بتاتے ہوئے رقم طراز ہیں: چناچہ ان کی نگاہ میں جو عظمت محدث کبیر حافظ ابن تیمیہ کی ہے وہی شیخ محی الدین ابن عربی کی بھی ہے۔(علماء دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج، صفحہ 135)
اس صوفی ابن عربی نے کسی سے مخاطب ہوکر کہا: پس تو بندہ ہے اور تو رب ہے۔(فصوص الحکم، صفحہ 77)
ایک اور جگہ کہا: بس تو بندہ ہے اور تو رب ہے۔کس کا بندہ! اس کا بندہ جس میں تو فنا ہوگیا۔(فصوص الحکم، صفحہ 157)
کیا کبھی کسی اہل حدیث نے بھی کسی شخص کو کہا ہے کہ تو بندہ ہے اور تو رب ہے؟؟؟ اگر نہیں تو ان صوفیوں کے شیطانی ٹولے سے بھلا اہل حدیث کا کیا تعلق؟؟؟
صوفیوں کایہی امام ابن عربی اپنی بدنام زمانہ تصنیف فتوحات مکیہ میں رقم طراز ہے: رب حق ہے اور بندہ حق ہے، کاش مجھے شعور ہوتا کہ کون مکلف ہے؟ اگر میں کہوں : بندہ ہے، تو وہ مردہ ہے اور اگر کہوں: رب، تو وہ کس طرح مکلف ہوسکتا ہے۔ (الفتوحات المکیہ، جلد 1، صفحہ 15)
اللہ نے جنوں اور انسانوں کو مکلف بنایا ہے لیکن اس شیطان ابن عربی اور اس کے چیلوں کا عقیدہ ہے کہ انسان مکلف نہیں کیونکہ وہ بھی رب کی طرح حق ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک
کیا کسی اہل حدیث اکابر کے بارے میں کوئی بہتان طراز یہ ثابت کرسکتا ہے کہ ان کا بھی یہی عقیدہ تھا جو صوفیوں کے امام ابن عربی کا ہے؟ ہر گز نہیں! تو پھر یہ باطل پرست اہل حدیث اکابرین کو صوفی کی گالی دے کر کیوں اپنا نامہ اعمال سیاہ کر رہے ہیں؟؟؟
10۔ بایزید بسطامی مشہور ومعروف صوفی ہے۔دیوبندیوں کے ہاں ان کا وہی مقام ہے جو دوسرے جلیل القدر ائمہ کا ہے۔ قاری محمد طیب دیوبندی تحریر کرتے ہیں: جو عظمت و جلالت امام ابوحنیفہ،شافعی،مالک ،احمد بن حنبل جیسے ائمہ شریعت کی ہے وہی عظمت و جلالت حضرت جنید و شبلی اور بایزید بسطامی اور معروف کرخی جیسے ائمہ طریقت کی بھی ہے۔(علماء دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج، صفحہ 135)
دیوبندیوں کا یہ امام طریقت بایزید بسطامی لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتے ہوئے لکھتا ہے: میں حق سے نکل کر حق میں داخل ہوا ، اے وہ ذات کہ میں بھی تیرا ہی حصہ ہوں ، میں ہی اللہ ہوں، میری ہی عبادت کرو، میں پاک ہوں اور میری شان بلند ہے۔ (فی التصوف الاسلامی و تاریخہ ، صفحہ 75)
یہ وحدت الوجود کا خبیث اور گندہ عقیدہ ہے کہ انسان مخلوق ہوکر رب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے پھر لوگوں کو اپنی عبادت کی طرف بلاتا ہے۔ کیا اس کافر اور مرتد صوفی بایزید بسطامی کی طرح کو ئی اہل حدیث اکابر بھی لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم دیتا تھا؟؟؟ اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو پھر صوفیت کی غلاظت اکابرین اہل حدیث پرکیوں ملی جارہی ہے؟؟؟
11۔ بعض اوقات صوفی خود اپنی بھی عبادت کرتا ہے کیونکہ اسکے گندے عقیدے کے مطابق وہ باہر سے مخلوق اور اندر سے خدا ہوتا ہے۔حلاج منصور زندیق کا یہ قول ملاحظہ کریں جسے اشرف علی تھانوی نے بھی نقل کیا ہے۔ جب حلاج منصورسے سوال ہوا کہ تم اپنے آپ کو خدا کہتے ہو تو نماز کس کی پڑھتے ہو تو اس نے جواب میں کہا: میری دو حیثیتیں ہیں ایک ظاہر کی اور ایک باطن کی۔ میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے۔(بحوالہ دیوبندی اور تبلیغی جماعت کا تباہ کن عقیدہ صوفیت، صفحہ 13)
حاجی امداد اللہ نے لکھا ہے: اور ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہوجاتا ہے۔(کلیات امدادیہ، صفحہ 35,36)
ایسی ہفوات اور بکواس کی توقع صر ف صوفی حضرات سے ہی کی جاسکتی ہے کیونکہ انہوں نے ایسے غیر فطری عقائد اختیار کئے ہیں جنھوں نے انہیں پستی کی انتہاؤں میں پھینک دیا ہے اور یہ جانور سے بھی بدتر ہیں کبھی یہ لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتے ہیں اور کبھی خود اپنی ہی عبادت کرنے لگتے ہیں ۔ظاہر ہے ایسے بے ہودہ نظریات اور کفریہ سوچ سے اہل حدیث کھلی براء ت کا اظہار و اعلان کرتے ہیں لہٰذا اہل حدیث کو صوفی کہنے سے پہلے ایسا کہنے والے کوصوفیوں کے ایسے ہی عقائد و نظریات جنھیں سطور بالا میں پیش کیا گیا ہے اور آئندہ سطور میں بھی پیش کیا جائے گا ،کا ٹھوس ثبوت اہل حدیثوں کی تحریروں اور تقریروں سے فراہم کرنا ہوگا۔ورنہ اہل حدیثوں کو صوفی کہنے والا اپنے دعویٰ میں کاذب شمار ہوگا۔