انہوں نے تحقیق پر کم زور دیا اور مواد اکٹھا کرنے پر زیادہ زور دیا۔ انہوں نے کشف المحجوب کی ایک شرح اٹھائی اور شارح کے الفاظ کو سیّد علی ہجویریؒ کے ساتھ منسوب کر کے اُس بنا پر انہیں برا بھلا کہا۔ عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے شارح کے نام کا ذکر بھی نہیں کیا اور حوالے میں صرف شرحِ کشف المحجوب ہی لکھ دیا۔
ایک طرف تو آپ نے مجھ پر جلد بازی کا الزام لگایا ہے حالانکہ اتنا مضمون لکھنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ جبکہ خود آپ کی حالت یہ ہے کہ آپ نے میرے مختصر سے مضمون کو بھی پورا نہیں پڑھا یا پھر جلدبازی میں سرسری سا ہی دیکھا ہے اور اس پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔ اگر آپ نے تھوڑی سی توجہ سے میرا مضمون پڑھا ہوتا تو یقینا آپ یہ فضول اعتراض نہ کرتے۔ آپ نے اعتراض فرمایا ہے کہ میں شارح کا نام تک ذکر نہیں کیا اور شارح کی عبارتیں اصل مصنف کی طرف منسوب کردی ہیں۔ میں اپنے اسی مضمون سے ایک عبارت پیش کررہاہوں جہاں میں نے شارح کا نام بھی لکھا ہے اور شارح کی عبارت شارح کی طرف اور علی ہجویری کی عبارت خود انہیں کی طرف منسوب کی ہے۔ دیکھئے:
واجد بخش سیال شارح کشف المحجوب لکھتے ہیں:اس لئے بعض اولیاء کرام کمال صدق و خلوص کی بنا پر عمداً ایسے کام کرتے ہیں جن سے خلق میں بدنام ہوجائیں۔اگرچہ بظاہر ان کے یہ کام خلاف شرع نظر آتے ہیں در حقیقت وہ خلاف شرع نہیں ہوتے ۔(شرح کشف المحجوب، صفحہ 274)
صوفیوں کے نزدیک انسان جس قدر بدنام ہوتا ہے اسی قدر اللہ سے قریب ہوتا ہے۔
علی بن عثمان الہجویری رقم طراز ہیں:جاننا چاہیے کہ طریق ملامت کو پہلے پہل شیخ ابوحمدون قصار علیہ رحمہ نے رائج کیا اور اس بارے میں آپ کے اقوال لطیف ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ الملامتہ ترک السلامتہ (ملامت کا اختیار کرنا سلامتی کا ترک کرناہے) اور جو شخص جان بوجھ کر سلامتی ترک کرتا ہے وہ آفات کو دعوت دیتا ہے اور اسے آرام و راحت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور طلب جاہ و مال اور خلق خدا سے نا امید ہونا پڑتا ہے اور دنیا سے بیزار ہونا پڑتا ہے اور جس قدر آدمی دنیا سے بیزار ہوتا ہے حق تعالیٰ سے اسی قدر اس کا تعلق مضبوط ہوتا ہے۔(شرح کشف المحجوب،صفحہ 277)