• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اکابرین اہل حدیث کا تعلق صوفیت بہتان یا حقیقت؟

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
باقی ان شاء اللہ آپ کے مباحثہ کو دیکهنے اور اس پر تبصرہ کے بعد۔
صرف معلومات کیلئے هی دیکهیں ۔ تصوف صرف برصغیر میں هی نهیں عرب اور افریقہ میں بهی اور اعلانیہ سعودی عرب میں بهی هے ۔
والسلام
 
شمولیت
نومبر 27، 2015
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
43
ما شاء اللہ! اچھی بحث کا آغاز ہوا۔ خیر، ادھر میں دو تین باتوں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
۱۔ سیّد علی ہجویری محدثین میں شمار نہیں ہوتے۔ اس لیے اگر اُن سے کوئی ضعیف یا موضوع حدیث آئی ہے تو کوئی بڑی بات نہیں۔ اس کی تحقیق کر کے وضاحت کی جا سکتی ہے۔ جیسے وضائفِ اسلامی پر حافظ زبیر علی زئی صاحب نے تحقیق کی اور بتایا کہ کون سی احادیث ضعیف ہیں اور کون کی صحیح اور حسن۔
۲۔ میں چونکہ بہت کم علم رکھتا ہوں، اس لیے کچھ کہہ نہیں سکتا۔ لیکن مجھے اتنا علم ہے کہ جو چیز شریعتِ مطہرہ میں نہیں وہ جائز نہیں۔ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ ائمۂ تصوف کی مدح تمام لوگوں نے کی۔ مثلاً شیخ سیّد عبد القادر جیلانی کو ہر فرقہ صحیح العقیدہ کہتا ہے۔ اسی طرح سیّد علی ہجویری کے بارے میں بھی میں نے پڑھے لکھے اہلِ حدیث لوگوں کے منہ سے تعریف ہی سنی ہے۔ اگر آپ دیوبندیوں کو دیکھ لیں تو وہ بھی سیّد علی ہجویریؒ کو ایک صحیح العقیدہ صوفی ہی مانتے ہیں۔
۳۔ میں نے سب سے پہلا تبصرہ تصوف پر یا تصوف کے اہلِ حدیث کے ساتھ تعلق پر نہیں کیا تھا بلکہ اس چیز پر کیا تھا کہ شاہد نذیر صاحب نے دو بہت کھلی غلطیاں کیں۔
الف: انہوں نے سیّد علی ہجویریؒ کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ کیا اسلام یہی درس دیتا ہے؟
ب: انہوں نے تحقیق پر کم زور دیا اور مواد اکٹھا کرنے پر زیادہ زور دیا۔ انہوں نے کشف المحجوب کی ایک شرح اٹھائی اور شارح کے الفاظ کو سیّد علی ہجویریؒ کے ساتھ منسوب کر کے اُس بنا پر انہیں برا بھلا کہا۔ عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے شارح کے نام کا ذکر بھی نہیں کیا اور حوالے میں صرف شرحِ کشف المحجوب ہی لکھ دیا۔ اسی طرح انہوں نے تذکرۂ غوثیہ کا حوالہ دیا۔ یہ کتاب کسی بھی فرقے کے قریب معتبر نہیں ہے۔ حتیٰ کے بریلویوں کے امام، احمد رضا خاں صاحب کہتے ہیں کہ یہ کتاب جلا دینے کے قابل ہے۔ پھر انہوں نے دو نئی اصطلاحات استعمال کیں۔ حنفی تصوف اور اہلِ حدیث تصوف۔ گویا انہوں نے کہا کہ اہلِ حدیث بھی تصوف کے قائل ہیں اگرچہ اُس کی نوعیت کچھ اور ہے۔ پھر انہوں نے حنفیوں کے علاوہ باقی تینوں مسالک کو تصوف سے ہی باہر نکال دیا۔

رہی بات اُس حدیث کی جو آپ نے کشف المحجوب سے دکھائی ہے، میں اسے ابھی جا کے دیکھتا ہوں۔ لیکن جہاں تک مجھے علم ہے تو صاحبِ کشف المحجوب کا کہنا ہے کہ زمانۂ رسالت میں تصوف اپنی اصطلاح کے ساتھ موجود نہ تھا مگر اپنے معانی کے ساتھ موجود تھا اور آج تصوف اپنے معانی کے ساتھ موجود نہیں بلکہ صرف نام کے ساتھ رہ گیا ہے۔ پھر میں نے کشف المحجوب سے وہ حوالہ بھی دے دیا کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی خلافِ شرع کام کا نام تصوف نہیں۔ اسی طرح فقر پر بھی آپ بات کرتے ہیں۔ آج کل لوگ سائیں مست ملنگ بن جاتے ہیں اور مختلف رنگوں کی ٹاکیوں والے کپڑے پہن کر اپنے آپ کو صوفیانہ اصطلاح میں فقیر کہتے ہیں۔ صاحبِ کشف المحجوب کہتے ہیں کہ فقر غربت کا نام نہیں ہے۔ ایک امیر بھی فقیر ہو سکتا ہے۔ فقر تو اس چیز کا نام ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے اُس پر راضی رہے۔ یہ الفاظ میرے ہیں کیونکہ فی الحال کشف المحجوب میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ لیکن کشف المحجوب کے ابتدا میں ہی آپ کو فقر کے متعلق یہ بات مل جائے گی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
تصوف کے ثبوت اور عدم ثبوت پر فورم پر دو تین جگہ پہلے بحث ہوچکی ہے ، قرآن و حدیث سے کوئی ایک دلیل بھی اس کے ثبوت کے لیے ابھی تک سامنے نہیں آئی ( اس رائے سے اتفاق ضروری نہیں )، گزارش ہے کہ احباب ان مکالمات کا مطالعہ کرلیں ، اور انہیں بحثوں کو آگے بڑھائیں ، تاکہ وقت بچ سکے ـ
تصوف کیا ہے ؟
علماء اہلحدیث اور تصوف
حقیقت مذہب صوفیاء اور اہلحدیث
تصوف اور اس کی حقیقت
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ شاہد نذیر صاحب نے فضول میں ہی اتنی محنت کر دی۔ ایک ایک لفظ تو نہیں پڑھا لیکن جو پڑھا اُس سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ جناب نے یا تو اصل کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا اور اِدھر اُدھر سے حوالہ جات اکٹھے کر کے لگا دیئے یا پھر شاید انہوں نے جلدی میں سوچنے کے لیے کوئی وقت ہی نہیں چھوڑا۔ محقق کے اوصاف میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ وہ جانب دار نہ ہو، ضدی نہ ہو، پہلے سے ایک ذہن بنا کر اُس پر مواد اکٹھا نہ کرے وغیرہ وغیرہ۔ میں
محترم راقم الحروف نے اصل کتابوں سے حوالے دینے کی پوری کوشش کی ہے اور آپ کسی حوالے کو غلط ثابت نہیں کرسکے یہ حوالوں کے درست ہونے کا ثبوت ہے۔ میں نے نہایت سوچ سمجھ کر اور اچھا خاصہ وقت صرف کرکے مضمون سپرد قلم کیا ہے اس لئے جلد بازی کا الزام فضول ہے۔ جہاں تک ایک خاص ذہن بنا کر مضمون لکھنے کا تعلق ہے تو آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ تمام لکھنے والے جب کسی موضوع کو ہاتھ لگاتے ہیں تو ان کا اس موضوع پر ایک خاص ذہن بنا ہوا ہوتا ہے اس لئے ہر لکھنے والا اپنی تحریر سے ایک خاص نقطہ نظر پیش کررہا ہوتا ہے چناچہ ایک خاص نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کے لئے پہلے سے میرا ذہن بنا ہوا ہونا کوئی قابل طعن بات نہیں ہے۔ اصل اور قابل غور بات یہ ہے کہ جو خاص نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے وہ دلائل کے میدان میں کتنا وزن رکھتا ہے۔ اور آپ اصل بات کو چھوڑ کر غیر اصل بات کے پیچھے پڑ گئے۔

میں شاہد نذیر صاحب کے جتنا پڑھا لکھا تو نہیں لیکن، الحمد للہ، تھوڑی بہت عقل استعمال کر لیتا ہوں۔ جناب اپنی مخالفت میں چند حقائق کو دیکھنا ہی بھول گئے۔ انہوں نے کئی جگہوں پر شرح کشف المحجوب کا حوالہ دے کر عبارت کو سیّد علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ ان عبارات میں وحدت الوجود کا بھی ذکر ہے اور شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ذکر ہے۔ اور پھر ایک جگہ پر تو ایسے الفاظ لکھ دیئے سیّدِ ہجویر کے متعلق کہ مجھے یہاں نقل کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے منافق کی چوتھی نشانی یہ بتائی تھی کہ جب وہ لڑائی کرے تو گالیاں دے۔
حقائق:
1۔ فلسفہ یا عقیدہ وحدت الوجود شیخ سیّد عبد القادر جیلانی کے زمانے کے بعد کی بات ہے۔ ابن عربی کا شیخ عبد القادر جیلانی کے ساتھ بلا واسطہ کوئی تعلق نہیں تھا۔
2۔ شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا زمانہ سیّدِ ہجویر رحمہ اللہ کے زمانہ کے بعد کا تھا۔
3۔ کشف المحجوب سیّدِ ہجویر کی تصنیف ہے۔
ان حقائق کو مدِّ نظر رکھتے ہوئی کون عقل مند ہے جو یہ کہے گا کہ شیخ سیّد عبد القادر جیلانی اور وحدت الوجود کا ذکر سیّدِ ہجویر نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں کیا ہے؟
ان حقائق کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کشف المحجوب کی شرح کے مطالعہ کے وقت ہر عقل مند انسان یہ جان سکتا ہے کہ ان دونوں چیزوں کا ذکر شارح کی طرف سے ہے، مصنف کی طرف سے نہیں۔
اور اگر، بالفرض، یہ حقائق شاہد نذیر صاحب کے علم میں نہیں تھے اور شرح میں اصل عبارت اور تشریح کی وضاحت نہیں تھی تو پھر یہ اُن کا فرض بنتا تھا کہ اصل کتاب تک رسائی حاصل کریں اور دونوں کا موازنہ کر کے پتا لگائیں کہ یہ الفاظ مصنف کے ہیں یا شارح کے اور اُسی اعتبار سے اُس کی نسبت کریں۔
محترم آپ تھوڑی بہت نہیں اپنی پوری عقل استعمال کریں ہم آپ کی آسانی کے لئے شرح کشف المحبوب کے کچھ اسکین پیش کررہے ہیں آپ انہیں دیکھ کر بتادیں کہ اصل غلطی کس کی ہے۔ آپ کی؟ کتاب کے ناشر کی؟ مترجم کی یا پھر خود علی ہجویری کی؟ اسکین یہاں دیکھئے: http://forum.mohaddis.com/threads/حقیقت-مذہب-صوفیاء-اور-اہل-حدیث.20960/page-2
آپ کی آسانی کے لئے ہم بتادیں کہ کشف المحبوب کے محقق، شارح اور مترجم جناب واجد بخش سیال صاحب ہیں جنہوں نے اصل عبارتوں اور شرح میں اہتمام کے ساتھ فرق کو واضح کیا ہے۔ اصل عبارت کو علیحدہ رکھا ہے اور اس عبارت کی تشریح کو شرح کی ہیڈنگ لگا کر علیحدہ لکھا ہے اس لئے کتاب میں اصل اور تشریحی عبارتیں واضح ہیں۔ میں نے بھی اصل عبارت کو علی ہجویری کی جانب منسوب کیا ہے اور شرح کو واجد بخش سیال کی جانب۔ اگر آپ کو عبارتوں کا انتساب غلط لگ رہا ہے تو یا تو یہ خود آپ کی غلطی ہے یا پھر واجد بخش سیال کی۔ راقم الحروف کی اس میں کوئی غلطی نہیں آپ اپنی تصحیح فرمالیں۔شکریہ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
انہوں نے تحقیق پر کم زور دیا اور مواد اکٹھا کرنے پر زیادہ زور دیا۔ انہوں نے کشف المحجوب کی ایک شرح اٹھائی اور شارح کے الفاظ کو سیّد علی ہجویریؒ کے ساتھ منسوب کر کے اُس بنا پر انہیں برا بھلا کہا۔ عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے شارح کے نام کا ذکر بھی نہیں کیا اور حوالے میں صرف شرحِ کشف المحجوب ہی لکھ دیا۔
ایک طرف تو آپ نے مجھ پر جلد بازی کا الزام لگایا ہے حالانکہ اتنا مضمون لکھنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ جبکہ خود آپ کی حالت یہ ہے کہ آپ نے میرے مختصر سے مضمون کو بھی پورا نہیں پڑھا یا پھر جلدبازی میں سرسری سا ہی دیکھا ہے اور اس پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔ اگر آپ نے تھوڑی سی توجہ سے میرا مضمون پڑھا ہوتا تو یقینا آپ یہ فضول اعتراض نہ کرتے۔ آپ نے اعتراض فرمایا ہے کہ میں شارح کا نام تک ذکر نہیں کیا اور شارح کی عبارتیں اصل مصنف کی طرف منسوب کردی ہیں۔ میں اپنے اسی مضمون سے ایک عبارت پیش کررہاہوں جہاں میں نے شارح کا نام بھی لکھا ہے اور شارح کی عبارت شارح کی طرف اور علی ہجویری کی عبارت خود انہیں کی طرف منسوب کی ہے۔ دیکھئے:

واجد بخش سیال شارح کشف المحجوب لکھتے ہیں:اس لئے بعض اولیاء کرام کمال صدق و خلوص کی بنا پر عمداً ایسے کام کرتے ہیں جن سے خلق میں بدنام ہوجائیں۔اگرچہ بظاہر ان کے یہ کام خلاف شرع نظر آتے ہیں در حقیقت وہ خلاف شرع نہیں ہوتے ۔(شرح کشف المحجوب، صفحہ 274)

صوفیوں کے نزدیک انسان جس قدر بدنام ہوتا ہے اسی قدر اللہ سے قریب ہوتا ہے۔ علی بن عثمان الہجویری رقم طراز ہیں:جاننا چاہیے کہ طریق ملامت کو پہلے پہل شیخ ابوحمدون قصار علیہ رحمہ نے رائج کیا اور اس بارے میں آپ کے اقوال لطیف ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ الملامتہ ترک السلامتہ (ملامت کا اختیار کرنا سلامتی کا ترک کرناہے) اور جو شخص جان بوجھ کر سلامتی ترک کرتا ہے وہ آفات کو دعوت دیتا ہے اور اسے آرام و راحت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور طلب جاہ و مال اور خلق خدا سے نا امید ہونا پڑتا ہے اور دنیا سے بیزار ہونا پڑتا ہے اور جس قدر آدمی دنیا سے بیزار ہوتا ہے حق تعالیٰ سے اسی قدر اس کا تعلق مضبوط ہوتا ہے۔(شرح کشف المحجوب،صفحہ 277)
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ایک اور اہم چیز کا ذکر کرنا تو میں بھول ہی گیا تھا۔ شاید شاہد نذیر صاحب نے اپنی دشمنی میں صرف مواد ہی اکٹھا کرنے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کر رکھی تھی، قطع نظر اس سے کہ وہ کتاب معتبر بھی ہے یا محض ردّی کا حصہ ہے۔ جناب نے تذکرہ غوثیہ، جو غوث علی شاہ پر ہے، کا ذکر کیا۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جو کسی بھی مکتبۂ فکر میں معتبر تو کیا، ردّی سے بڑھ کر کچھ نہیں مانی جاتی۔ اہل حدیث کا مؤقف تو وہ خود بیان کر رہے تھے اور یوں وہ اس کتاب کی غلطی کو واضح کر کے اسے رد کر چکے۔ دوسرا فرقہ ہے بریلوی۔ تیسرا فرقہ یعنی دیوبندی ان دونوں کے درمیان ہیں۔ یہی تین بڑے فرقے ہیں جو اپنے آپ کو اہل السنۃ میں شمار کرتے ہیں۔ اب ذرا بریلوی حضرات کا مؤقف بھی سن لیں کہ وہ اِس کتاب کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ بریلویوں کے امام، احمد رضا خاں صاحب اس کتاب کو جلا دینے کا فتویٰ دیتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے مضمون کی بنیاد تذکرہ غوثیہ پر نہیں ہے اس کتاب کی محض ایک مختصر عبارت بطور حوالہ میں نے پیش کی ہے اور اگر اسے مضمون سے خارج بھی کردیا جائے تو اصل مضمون کی صحت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لہٰذا جسے آپ بہت بڑا اعتراض کہہ رہے ہیں وہ بہت معمولی اعتراض ہے۔ آپ کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ تذکرہ غوثیہ کے غیر معتبر ہونے کا ڈھنڈورا بھی محض دھوکہ بازی ہے وگرنہ ہمارے بھائی طالب نور نے باقاعدہ بریلوی علماء کے حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ آج بھی تذکرہ غوثیہ ان کے ہاں معتبر کتاب ہے۔(ان کا مضمون مجھے تلاش کے باوجود نہیں ملا ان سے پوچھ کر شئیر کردیا جائے گا۔ان شاء اللہ)۔ میں یہاں شاہ رخ صاحب سے یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ وحیدالزماں کی کتابوں سے اہل حدیث ہمیشہ سے براءت کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں لیکن اس کے باوجود بے شرمی کی انتہاء ہے کہ بریلوی اور دیوبندی علماء آج تک وحید الزماں کی کتابوں کے حوالے اہل حدیث کے خلاف پیش کر رہے ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
دوٹوک اور سچی بات یہ ہے کہ ضامن جلال آبادی جس نے یہ کفر اپنے ناپاک منہ سے نکالااوراللہ رب العالمین کو زناکرنے اور زنا کروانے والا کہا، کافر ہے۔اس ضامن جلال کو توحید میں غرق سمجھنے والا صوفی رشید احمد گنگوہی بھی کافر ہے۔ اس ایمان شکن واقعے کو تذکرۃ الرشید میں بلا رد و تنقید درج کرنے والے مولانا محمد عاشق الہٰی میرٹھی کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں اور وہ تمام دیوبندی جو،ان صوفی کافروں کے متعلق اہل حق اور مسلمان ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی انہی کی طرح کافر ہیں۔کیونکہ اگر دیوبندیوں کا یہ عقیدہ نہیں جو اس گستاخانہ واقعے میں مذکور ہے تو دیوبندیوں کو اس واقعے کے بنیادی کردارضامن جلال آبادی سے،اس واقعے کو بیان کرنے والے صوفی سے اور ایسے شخص کو توحید میں مبتلا سمجھنے والے دیوبندی اکابر سے اعلانیہ براء ت کا اظہار کرنا چاہیے اور ان تمام لوگوں کے کفر میں شک نہیں کرنا چاہیے ورنہ ان کا بھی وہی حکم ہوگا جو ان کے دیوبندی اکابرین کا ہے۔
میراشاہد نذیر صاحب سے سوال یہ ہےکہ اگرکوئی کوئی مولاناعبدالرشید گنگوہی کو"اہل حدیث کہے تواس کہنے والے کو کیاکہیں گے،کافریامومن؟مختصرجواب عنایت فرمائیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
میراشاہد نذیر صاحب سے سوال یہ ہےکہ اگرکوئی کوئی مولاناعبدالرشید گنگوہی کو"اہل حدیث کہے تواس کہنے والے کو کیاکہیں گے،کافریامومن؟مختصرجواب عنایت فرمائیں۔
دیکھا جائے گا کہ کہنے والا کون ہے اگر تو وہ رشید احمد گنگوہی کی طرح بدعقیدہ اور وحدت الوجودی ہے تو یقینا اس کا حکم بھی رشید احمد گنگوہی والا ہے اور اگر کہنے والا صحیح العقیدہ ہے تو اسے اس کی غلطی کہا جائے گا۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
دیکھا جائے گا کہ کہنے والا کون ہے اگر تو وہ رشید احمد گنگوہی کی طرح بدعقیدہ اور وحدت الوجودی ہے تو یقینا اس کا حکم بھی رشید احمد گنگوہی والا ہے اور اگر کہنے والا صحیح العقیدہ ہے تو اسے اس کی غلطی کہا جائے گا۔
کمال ہے صحیح العقیدہ لوگوں کو بدعقیدہ لوگوں کی تعریف سے اوربھی دوررہناچاہئے،حدیث میں آتاہے کہ فاسق کی مدح سے عرش الہی کانپ اٹھتاہے توآپ کے بقول رشید احمد گنگوہی جیسے کافر کو اہل حدیث جیساعظیم المرتبت خطاب دیناکتنے بڑے گناہ کا موجب ہوگا وہ محتاج بیان نہیں ہے،پھر جب آپ نے محض واقعہ بیان کرنے،کتاب میں بیان درج کرنے پرتکفیری مشین گن چلائی ہے تو اب جاکر اتنی احتیاط کیوں کہ صحیح العقیدہ اورفاسدالعقیدہ کی تفریق ہونے لگی،یہ تو وہی بات ہوئی کہ اونٹ نگل جاتے ہو اورمکھی کا مسئلہ پوچھتے ہو،یاحق کی پاسداری چھوڑ کر محض مسلکی اورگروہی تعصب کا مظاہرہ ہے کہ اگراپناکوئی کرے تو سوخون معاف اور دوسراکرے توقابل گردن زنی۔
 
Top