• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تمام صحابہ عادل ہیں تو سوال یہ ہے کہ۔۔۔

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
اعتصام بھائی
میرے ذہن میں بھی ایک سوال آیا تھا جیسے آپ کے ذہن میں آتا ہے
کیا فرشتہ بھی اور عادل اور غیر عادل ہوتا ہے؟؟؟
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
اعتصام بھائی
میرے ذہن میں بھی ایک سوال آیا تھا جیسے آپ کے ذہن میں آتا ہے
کیا فرشتہ بھی اور عادل اور غیر عادل ہوتا ہے؟؟؟
نہیں کیونکہ ان میں فسق کی صلاحیت ئی نہیں تاکہ فاسق نہ ہونے کی وجہ سے عادل کہا جائے۔۔۔۔

ملکہ اور عدم ملکہ کی بحث تو منطق میں پڑھی ہوگی نا آپ نے۔۔۔ وہان پر ایک مثال ہے کہ ہم دیوار کو غیر شادی شدہ نہیں کہہ سکتے اس لیے کہ اس شادی کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔۔۔۔
بہرحال
آپ شاید یہی کہنے جا رہے ہیں نا کہ ان کو فرشتے نے قتل کیا تھا۔۔۔۔
تو بھی آپ بہت ہی تنگ راستے سے گذرنے کی کوشش کر رہے ہیں آپ کو شاید میرا عنوان بھول گیا کہ
اگر تماااااام صحابہ عادل ہیں تو۔۔۔۔۔۔۔
آپکو میرا جواب کہ عادل سے بھی بڑھ کے فرشتے معصوم ہیں۔۔۔

جزاک اللہ خٰرا
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
١۔ جناب بچوں والی باتیں نہ کریں ۔ جو مسلمان حد لگوانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے کیا وہ توبہ کے بغیر ہی آ جاتا ہے ؟ توبہ کوئی آج کل کی سند نہیں ہے جس کو ہاتھ میں پکڑ کر لوگوں کو دکھایا جاتا ہے کہ جناب میں توبہ کا امتحان پاس کر چکا ہوں ۔
[/ARB]
!!!!!!!!!!
٢۔ پہلے تو یہ ہی ثابت کریں کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ قتل ہوئے ہیں ؟
اور ظاہر ہے آپ نے قتل کا دعوی کیا ہے یقینا جرم بھی جانتے ہوں گے اور قاتل بھی ؟ ذرا وہ بھی باحوالہ بتادیں ۔
ميرے بھائی نا آشنائی کا ایسا اظہار!!!!!

یہ واقعہ بخاری نے اپنی صحیح میں صراحتا لکھا ہے۔۔۔
کہ سعب بن عبادہ کو صحابہ نے ہی قتل کیا پھر حضرت عمر نے اس قتل کو اللہ پاک کی طرف منسوب کیا ہے(اعوذ باللہ من ھذہ النسبۃ)
اب آپ آپ ہی معیّن کرینگے کیونکہ اگر میں نے معین کیا تو وہی صحابہ والے مسئلے کا چکر ہوجائے گا جس سے آپ اور میں بہت ڈرتے ہیں۔۔۔لاباس

صحيح البخاري » كتاب الحدود » باب رجم الحبلى من الزنا إذا أحصنت


باب رجم الحبلى من الزنا إذا أحصنت
6442 حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثني إبراهيم بن سعد عن صالح عن ابن شهاب عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود عن ابن عباس قال كنت أقرئ رجالا من المهاجرين منهم عبد الرحمن بن عوف فبينما أنا في منزله بمنى وهو عند عمر بن الخطاب في آخر حجة حجها إذ رجع إلي عبد الرحمن فقال لو رأيت رجلا أتى أمير المؤمنين اليوم فقال يا أمير المؤمنين هل لك في فلان يقول لو قد مات عمر لقد بايعت فلانا فوالله ما كانت بيعة أبي بكر إلا فلتة فتمت فغضب عمر ثم قال [ ص: 2504 ] إني إن شاء الله لقائم العشية في الناس فمحذرهم هؤلاء الذين يريدون أن يغصبوهم أمورهم قال عبد الرحمن فقلت يا أمير المؤمنين لا تفعل فإن الموسم يجمع رعاع الناس وغوغاءهم فإنهم هم الذين يغلبون على قربك حين تقوم في الناس وأنا أخشى أن تقوم فتقول مقالة يطيرها عنك كل مطير وأن لا يعوها وأن لا يضعوها على مواضعها فأمهل حتى تقدم المدينة فإنها دار الهجرة والسنة فتخلص بأهل الفقه وأشراف الناس فتقول ما قلت متمكنا فيعي أهل العلم مقالتك ويضعونها على مواضعها فقال عمر أما والله إن شاء الله لأقومن بذلك أول مقام أقومه بالمدينة قال ابن عباس فقدمنا المدينة في عقب ذي الحجة فلما كان يوم الجمعة عجلت الرواح حين زاغت الشمس حتى أجد سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل جالسا إلى ركن المنبر فجلست حوله تمس ركبتي ركبته فلم أنشب أن خرج عمر بن الخطاب فلما رأيته مقبلا قلت لسعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل ليقولن العشية مقالة لم يقلها منذ استخلف فأنكر علي وقال ما عسيت أن يقول ما لم يقل قبله فجلس عمر على المنبر فلما سكت المؤذنون قام فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال أما بعد فإني قائل لكم مقالة قد قدر لي أن أقولها لا أدري لعلها بين يدي أجلي فمن عقلها ووعاها فليحدث بها حيث انتهت به راحلته ومن خشي أن لا يعقلها فلا أحل لأحد أن يكذب علي إن الله بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق وأنزل عليه الكتاب فكان مما أنزل الله آية الرجم فقرأناها وعقلناها ووعيناها رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجمنا بعده فأخشى إن طال بالناس زمان أن يقول قائل والله ما نجد آية الرجم في كتاب الله فيضلوا بترك فريضة أنزلها الله [ ص: 2505 ] والرجم في كتاب الله حق على من زنى إذا أحصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة أو كان الحبل أو الاعتراف ثم إنا كنا نقرأ فيما نقرأ من كتاب الله أن لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم أن ترغبوا عن آبائكم أو إن كفرا بكم أن ترغبوا عن آبائكم ألا ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا تطروني كما أطري عيسى ابن مريم وقولوا عبد الله ورسوله ثم إنه بلغني أن قائلا منكم يقول والله لو قد مات عمر بايعت فلانا فلا يغترن امرؤ أن يقول إنما كانت بيعة أبي بكر فلتة وتمت ألا وإنها قد كانت كذلك ولكن الله وقى شرها وليس منكم من تقطع الأعناق إليه مثل أبي بكر من بايع رجلا عن غير مشورة من المسلمين فلا يبايع هو ولا الذي بايعه تغرة أن يقتلا وإنه قد كان من خبرنا حين توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم أن الأنصار خالفونا واجتمعوا بأسرهم في سقيفة بني ساعدة وخالف عنا علي والزبير ومن معهما واجتمع المهاجرون إلى أبي بكر فقلت لأبي بكر يا أبا بكر انطلق بنا إلى إخواننا هؤلاء من الأنصار فانطلقنا نريدهم فلما دنونا منهم لقينا منهم رجلان صالحان فذكرا ما تمالأ عليه القوم فقالا أين تريدون يا معشر المهاجرين فقلنا نريد إخواننا هؤلاء من الأنصار فقالا لا عليكم أن لا تقربوهم اقضوا أمركم فقلت والله لنأتينهم فانطلقنا حتى أتيناهم في سقيفة بني ساعدة فإذا رجل مزمل بين ظهرانيهم فقلت من هذا فقالوا هذا سعد بن عبادة فقلت ما له قالوا يوعك [ ص: 2506 ] فلما جلسنا قليلا تشهد خطيبهم فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال أما بعد فنحن أنصار الله وكتيبة الإسلام وأنتم معشر المهاجرين رهط وقد دفت دافة من قومكم فإذا هم يريدون أن يختزلونا من أصلنا وأن يحضنونا من الأمر فلما سكت أردت أن أتكلم وكنت قد زورت مقالة أعجبتني أريد أن أقدمها بين يدي أبي بكر وكنت أداري منه بعض الحد فلما أردت أن أتكلم قال أبو بكر على رسلك فكرهت أن أغضبه فتكلم أبو بكر فكان هو أحلم مني وأوقر والله ما ترك من كلمة أعجبتني في تزويري إلا قال في بديهته مثلها أو أفضل منها حتى سكت فقال ما ذكرتم فيكم من خير فأنتم له أهل ولن يعرف هذا الأمر إلا لهذا الحي من قريش هم أوسط العرب نسبا ودارا وقد رضيت لكم أحد هذين الرجلين فبايعوا أيهما شئتم فأخذ بيدي وبيد أبي عبيدة بن الجراح وهو جالس بيننا فلم أكره مما قال غيرها كان والله أن أقدم فتضرب عنقي لا يقربني ذلك من إثم أحب إلي من أن أتأمر على قوم فيهم أبو بكر اللهم إلا أن تسول إلي نفسي عند الموت شيئا لا أجده الآن فقال قائل من الأنصار أنا جذيلها المحكك وعذيقها المرجب منا أمير ومنكم أمير يا معشر قريش فكثر اللغط وارتفعت الأصوات [ ص: 2507 ] حتى فرقت من الاختلاف فقلت ابسط يدك يا أبا بكر فبسط يده فبايعته وبايعه المهاجرون ثم بايعته الأنصار ونزونا على سعد بن عبادة فقال قائل منهم قتلتم سعد بن عبادة فقلت قتل الله سعد بن عبادة قال عمر وإنا والله ما وجدنا فيما حضرنا من أمر أقوى من مبايعة أبي بكر خشينا إن فارقنا القوم ولم تكن بيعة أن يبايعوا رجلا منهم بعدنا فإما بايعناهم على ما لا نرضى وإما نخالفهم فيكون فساد فمن بايع رجلا على غير مشورة من المسلمين فلا يتابع هو ولا الذي بايعه تغرة أن يقتلا
[url]http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=6547&idto=6547&bk_no=0&ID=3769[/URL]



٣۔ باقی کسی سے کس وقت اللہ پاک راضی ہے اور کس وقت ناراض ؟ اس کا تعین تو اللہ اور اس کا رسول ہی کر سکتے ہیں ۔
یہ آپ نے بجا کہا ہے مگر مگر جب گواہی دینے کے لیے کسی عادل کی ضرورت ہو اور یہان پر عدالت صحابہ کا مسئلہ ہو یا ان سے روایت لینے کا مسئلہ تو لازم لازم لازم ہے کہ گناھ کے بعد توبہ کا بھی پتہ ہو
ورنہ
آپ کو کیا پتہ عبد اللہ بن ابی نے بھی توبہ کرلی ہو ؟!
آپ کو کیا پتہ دوسرے منافقوں نےبھی توبہ کرلی ہو؟
یہ آپ کو خصوصا بتا رہا ہوں کہ اسلام ہمیشہ ظاہر کو دیکھتا ہے نا باطن کو۔۔۔۔۔



٤۔ اور توبہ والی جو بات آپ نے پوچھی ہے وہ بھی میں بتلانے سے قاصر ہوں کیونکہ اللہ کے ہاں توبہ کی قبولیت کے لیے اعلان کرنا ضروری نہیں ہے ۔

اور سابقہ مشارکت میں ایک اقتباس دینا چاہتا تھا کسی وجہ سے رہ گیا اب ملاحظہ کریں اور ذرا غور سے پڑھیں :
ومما ينبغى أن يعلم أن الذين قارفوا إثماً ثم حدوا - كان ذلك كفارة لهم - وتابوا وحسنت توبتهم ، وهم فى نفس الوقت قلة نادرة جداً ؛ لا ينبغى أن يغلب شأنهم وحالهم على حال الألوف المؤلفة من الصحابة الذين ثبتوا على الجادة والصراط المستقيم ، وجانبوا المآثم ، والمعاصى ما كبر منها وما صغر، وما ظهر منها وما بطن ، والتاريخ الصادق أكبر شاهد على هذا "
شاید پھر آپ نے یہ دو جملے دیکھے ہی نہیں یا پھر ان جانی کردی۔۔۔۔
وتابوا وحسنت توبتهم توبہ کی ہو اور وہ توبہ اچھی یعنی اپنے شرطوں کے ساتھ ہو
من الصحابة الذين ثبتوا على الجادة والصراط المستقيم صراط مستقیم پر ہایدار رہے ہوں

یہی دو جملے ہماری مدعی(کہ تمام صحابہ عادل نہیں بلکہ یہ والے صحابہ لائق احترام ہیں) ہے جسکا اقرا نادانست آپ بھی کرتے ہیں
اور حقیقت بھی یہی ہے۔۔۔۔اور آپ کی اس عربی عبارت میں من الصحابہ کا ذکر ہے یعنی صحابہ میں سے کچھ ایسے جو صراط مستقیم پر ہوں۔۔۔

آپ جتنا بھی آگے چلیں گے اتنا ہی شیعہ نظریہ کے قریب ہوتے جائیں گے۔۔۔


اب بتائیں کہ کیا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ و رفع اللہ درجتہ فی الجنۃ مستحق ہونے(یعنی کسی جرم پر) قتل (شہید) کیے گئے یا مظلوم مارے گئے(بایّ ذنب قتلت)؟
انا للہ و انا الیہ راجعون

ابھی آپ ہی دیکھ لیں کہ ان کا کیا گناہ تھا؟
اور توبہ بھی کی یا نہیں؟
حد جاری ہوئی یا مظلوم مارے گئے؟
کیا کوئی حاکم تھا جس نے قتل کا حکم دیا ؟
ہم اسلام پر آئی ہوئی کس کس مصیبت پر روئیں
بس نا چھیڑو ہم کو۔۔۔۔

 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
پورا واقعہ بیان کیجئے۔۔۔اگر طبعیت پر گرانی نہ گزرے تو۔۔۔
آدھی بات میں شبہات زیادہ پیداہوتے ہیں۔۔۔
اور علمی مباحثوں میں جو ضابطےہیں ان لو ملحوظ رکھیں۔۔۔
شکریہ!۔
چھوٹے بھائی مسلمان ہوں گران تو گذرے گا نا۔۔۔۔

ذرا دیکھ لیں میری بخاری کہ پیش کردہ روایت آپ خود بھی روئیں گے۔۔۔ گریہ کریں گے۔۔۔
میں مختصر اس لکھتا ہوں کہ شاید واقعات کا آپ کو پتہ ہے۔۔۔
شکریہ بھائی جانی
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
انبیاء کا امام حسین پر گریہ کرن
امام صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں : انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور ملائکہ کا امام حسین علیہ السّلام پر گریہ کرنا طولانی ہو چکا ہے[43] ۔ ذیل میں ہم امام حسین علیہ السّلام پر انبیاء علیہم السّلام کے گریہ کے چند نمونے پیش کر رہے ہیں :
١۔حضرت آدم کا گریہ کرنا:
اس آیت مجیدہ ( فتلقٰی آدم من ربّہ کلمات ...) [44] کی تفسیر میں بیان ہوا ہے کہ جب خدا وند متعال نے حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ قبول کرنا چاہی تو جبرائیل علیہ السّلام کو ان کے پاس بھیجا تاکہ انہیں یہ دعا تعلیم دیں :
(( یا حمید بحقّ محمّدۖ ،یا أٔعلی بحقّ علیّ ، یا فاطر بحقّ فاطمة ، یا محسن بحقّ الحسن ،یا قدیم الاحسان بحقّ الحسین ومنک الاحسان )).
جیسے ہی جناب جبرائیل علیہ السّلام نام حسین پر پہنچے تویہ نام سن کر حضرت آدم علیہ السّلام کے دل پر غم طاری ہوا اورآنکھوں سے اشک جاری ہوئے،جناب جبرائیل علیہ السّلام سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے جواب میں فرمایا:
((یا آدم ! ولدک ھذا یصاب بمصیبة تصغر عندھا المصائب ))
اے آدم ! آپ کے اس فرزند پر ایسی مصیبت آئے گی کہ ساری مصیبتیں اس کے سامنے حقیر نظر آئیں گی
آدم علیہ السّلام نے فرمایا: وہ کونسی مصیبت ہو گی ؟ عرض کیا :
((یقتل عطشانا غریباوحیدا فریدا لیس لہ ناصرا ولامعین ،ولو تراہ یا آدم یحول العطش بینہ وبین السّماء کالدّخان ، فلم یجبہ أحد الاّ بالسّیوف ،وشرب الحتوف ،فیذبح ذبح الشاة من قفاہ ، وینھب رحلہ وتشھر رأوسھم فی البلدان ، ومعھم النسوان ، کذلک سبق فی علم المنّان ،فبکٰی آدم وجبرائیل بکاء الثکلٰی )) [45]
اسے پیاسا قتل کیا جائے گاجبکہ وہ وطن سے دور ، تنھا اوربے یار ومدد گار ہوگا ۔اگرآپ اسے دیکھتے تو پیاس کی شدّت کی وجہ سے آسمان اس کی آنکھوں میں دھواں دکھائی دے گا ، ( وہ مدد کے لئے پکارے گا ) تو تلواروں اور شربت موت سے اس کا جواب دیا جائے گا ، اسے ذبح کرکے سر تن سے جدا کردیا جائے گا جیسے گوسفند کو ذبح کیا جاتا ہے ، ان کے خیموں کو لوٹ لیا جائے گا اور ان کے سروں کو مختلف شہر وں میں پھرایا جائے گا جبکہ ان کی عورتیں ان کے ہمراہ ہوں گی ، اس طرح کا پہلے ہی سے علم خدائے منّان میں گذر چکا ہے ،پس آدم و جبرائیل نے اس عورت کی مانند گریہ کیا جس کا جوان بیٹا مر گیا ہو ۔
ایک اور روایت میں بیان ہواہے کہ جب حضرت آدم و حوّا کو ایک دوسرے سے دور زمین پراُتارا گیا تو حضرت آدم علیہ السّلام جناب حوّا سلام اللہ علیہا کی تلاش میں نکلے اور چلتے چلتے سر زمین کربلا پہنچے ، وہاں پر دل پہ غم طاری ہوا اور جب قتل گاہ امام حسین علیہ السّلام پر پہنچے تو پاؤں میں لغزش آئی اور گر پڑے جس سے پاؤں سے خون جاری ہونے لگا ،اس وقت آسمان کی طرف سر بلند کیا اور عرض کیا :
((الٰھی ھل حدث منّی ذنب آخر فعاقبتنی بہ ؟ فانّی طفت جمیع الأرض ،وماأصابنی سوء مثل ما أصابنی فی ھذہ الأرض .
فأوحی اللہ تعالٰی الیہ : یا آدم ما حدث منک ذنب ،ولکن یقتل فی ھذہ الأرض ولدک الحسین ظلما ،فسال دمک موافقة لدمہ .
فقال آدم : یا ربّ أیکون الحسین نبیّا ؟ قال : لا ، ولکنّہ سبط النّبیّ محمّد ، وقال: من القاتل لہ؟ قال: قاتلہ یزید لعین أھل السّمٰوات والأرض .فقال آدم:أیّ شیء أصنع یا جبرائیل ؟فقال: العنہ یا آدم ! فلعنہ أربع مرّات ومشیٰ خطوات الی جبل عرفات فوجد حوّا ھناک )) [46]

اے پروردگار! کیا میں کسی نئے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھا جس کی تو نے مجھے سزا دی ؟میں نے پورے روئے زمین کی سیر کی لیکن کہیں پہ اس طرح کی کوئی مصیبت پیش نہ آئی جو اس سر زمین پرپیش آئی ہے ۔
خدا وند متعال نے حضرت آدم پر وحی نازل کی : اے آدم ! تو نے کوئی گناہ نہیں کیا ،لیکن اس سر زمین پر تمہارے فرزندحسین کو ظلم وجفا کے ساتھ قتل کیا جائے گا،لہذا آپ کا خون ان کے خون کی حمایت میں جاری ہوا ہے۔
حضرت آدم نے عرض کیا : اے پالنے والے ! کیا حسین نبی ہوں گے ؟فرمایا: نہیں ،لیکن محمّد ۔۔ۖ۔ کے نواسے ہوں گے ۔
حضرت آدم نے عرض کیا : اسے کون قتل کرے گا ؟فرمایا یزید جو زمین وآسمان میں ملعون ہوگا ۔آدم نے جبرائیل سے کہا : میں کیا کر سکتا ہوں ؟ اس(جبرائیل ) نے عرض کیا : اے آدم ! اس پر لعنت بھیجو ،پس انہوں( آدم علیہ السّلام) نے اس پر چار مرتبہ لعنت بھیجی ۔اور چند قدم چلنے کے بعد کوہ عرفات میں حضرت حوّا سے جا ملے ۔
٢۔ حضرت نوح کا گریہ کرنا:
جب حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی گرداب میں آئی توانہوں نے خداوند متعال سے اس کا سبب پوچھا، جواب ملا : یہ سرزمین کربلا ہے اور جبرائیل علیہ السّلام نے امام حسین علیہ السّلام کی شہادت اور ان کے اہل وعیال کے اسیربنائے جانے کی خبر دی تو کشتی میں گریہ وماتم برپا ہوگیا اور آنحضرت نے بھی گریہ کیا[47] .
٣۔حضرت ابراہیم کا گریہ کرنا:
جب حضرت اسماعیل علیہ السّلام کوذبح کرنے سے بچالیا گیا تو جناب جبرائیل علیہ السّلام نے واقعہ کربلا بیان کیا اور اس پر گریہ کرنے کا اجر وثواب بتایاتو جناب ابراہیم علیہ السّلام نے کربلا میں ہونے والے مصائب پر گریہ کیا[48] ۔
اسی طرح جب خداوند متعال نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے سامنے زمین وآسمان کو رکھا تو انہوں نے زیر عرش پانچ نور دیکھے ،جیسے ہی پانچویں نور یعنی امام حسین علیہ السّلام پر نظر پڑی تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو پڑے[49]۔
٤۔ حضرت موسٰی کاگریہ کرنا :
جب حضرت موسٰی علیہ السّلام کوہ طور پر گئے تو وحی خدا ہوئی اے موسٰی ! تم جس جس کی بخشش طلب کرو گے ہم بخش دین گے سوا قاتل حسین کے ۔حضرت موسٰی نے عرض کیا : پالنے والے وہ بزرگ ہستی کون ہے؟امام حسین علیہ ا لسّلام کا تعارف کروایا گیا ،یہاں تک کہ بتایا گیا کہ ان کا بدن بے گور و کفن زمین پر پڑا رہے گا ،ان کا مال واسباب لوٹ لیا جائے گا ،ان کے اصحاب کو قتل کردیا جائے گا، ان کے اہل وعیال کو قیدی بنا کر شہر بہ شہر پھرایا جائیگا ،ان کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا جائے گا اور ان کے بچے پیاس کی وجہ سے جان دے بیٹھیں گے ،وہ مدد کے لئے پکاریں گے لیکن کوئی مدد کرنے والا نہ ہوگا ۔
حضرت موسٰی نے یہ سن کر گریہ کیا ۔خداوند متعال نے فرمایا: اے موسٰی ! جان لے جو شخص اس پر گریہ کرے یا گریہ کرنے والی صورت بنائے تو اس پر جہنّم کی آگ حرام ہے[50] ۔
روایات میں نقل ہواہے کہ حضرت موسٰی علیہ السّلام نے اپنے پروردگار کے ساتھ مناجات کرتے ہوئے عرض کیا :
((یا ربّ لم فضّلت أمّة محمّد علی سایرالأمم ؟قال اللہ تعالٰی : فضّلتھم لعشر خصال .قال: وماتلک الخصال الّتی یعملونھا حتٰی أمر بنی اسرائیل یعملونھا ؟قال اللہ تعالٰی:الصلاة والزکاة والصوم والحجّ والجھاد والجمعة والجماعة والقرآن والعلم والعاشوراء ،قال موسٰی: یاربّ وما العاشورائ؟قال: البکاء والتباکی علی سبط محمّدصلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم والمرثیة والعزاء علی مصیبة ولد المصطفٰی )) [51].
اے پروردگار! تو نے کس لئے اُمّت محمّد ۖ کو تمام امّتوں پر فضیلت دی ؟خداوندمتعال نے فرمایا:میں نے انہیں دس خصلتوں کی بناپر فضیلت دی ہے ۔حضرت موسٰی نے عرض کیا : وہ کونسی خصلتیںہیں تاکہ میں بنی اسرائیل کوان کے بجالانے کا حکم دوں ؟فرمایا: وہ نماز ، روزہ ، زکات،حجّ ، جھاد ، نماز جماعت و جمعہ ،قرآن ،علم اور عاشورہ ہے ۔حضرت موسٰی نے عرض کیا : یہ عاشورہ کیا ہے ؟آواز آئی :وہ محمّد ۖ کے نواسے پر گریہ کرنا اور گریے والی صورت بناناہے ،فرزند مصطفٰی ۖ کی مصیبت پر مرثیہ پڑھنا اور عزاداری کرنا ہے ۔
٥۔ حضرت خضر کا گریہ کرنا:
جب حضرت موسٰی اور حضرت خضر نے مجمع البحرین میں ملاقات کی تو آل محمد علیہم السّلام او ران پر ڈھائے جانے والے مصائب کے بارے میں گفتگو کی تو ان کے گریہ کی آواز بلند ہوئی [52]۔اور جیسے ہی کربلا کا تذکرہ ہو اتو گریہ اور بلند ہوا[53]۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: امیرالمؤمنین علیہ السّلام صفین سے واپسی پر جب کربلاسے گذرے تو کربلا کی خاک کی ایک مٹھی بھر کر مجھے دی اور فرمایا: جب اس سے تازہ خون جاری ہو تو سمجھ جاناکہ میرے فرزند حسین شہید کردیئے گئے ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں :میرے ذہن میں یہ بات ہمیشہ باقی رہی ،یہاں تک کہ ایک دن نیندسے اٹھا تو دیکھا اس خاک سے تازہ خون جاری ہے جس سے سمجھ گیا کہ امام حسین علیہ السلام شہید کر دیئے گئے ۔میں گریہ وزاری میں مشغول تھا کہ گھر کے ایک گوشے سے آواز آئی:
اصبروا یا آل الرّسول
قتل فرخ البتول
نزل الرّوح الأمین
ببکاء و عویل

اے آل رسول ۖ! صبر کرو ،فرزند بتول شہید کردیا گیا ۔جبرائیل امین گریہ وزاری کرتا ہوا نازل ہوا۔
میں نے گریہ کیا ،وہ دس محرم کا دن تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ آواز باقی جگہوں پر بھی سنی گئی اور وہ ندادینے والے حضرت خضر علیہ السّلام تھے[54] ۔
٦۔ حضرت زکریا کا گریہ کرنا:
حضرت زکریا علیہ السّلام جب بھی رسول خدا ۖ ، حضرت علی ، حضرت زہرائ اور امام حسن کا نام لیتے تو ان کا غم برطرف ہوجاتا لیکن جیسے ہی نام حسین لیتے تو ان پر گریہ طاری ہ وجاتا۔جناب جبرائیل علیہ السّلام نے آنحضرت کے سامنے امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کا ماجر ابیان کیا تو انہوں نے گریہ کیا[55] ۔
٧۔ حضرت عیسٰی کا گریہ کرنا :
جب حضرت عیسٰی علیہ السّلام اور ان کے حواری کربلا سے گذرے تو انہوں نے گریہ کیا [56]۔
٨۔ پیغمبر ۖ کا گریہ کرنا:
جب جبرایئل علیہ السّلام نے امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کی خبر دی توآپ نے گریہ کیا [57]۔اور اسی طرح جب سید الشہداء کی تربت ان کے سامنے ظاہر کی گئی تو اس وقت بھی گریہ کیا[58] ۔
یہ سب کیا ہے ؟ کیا جبرئیل علیہ السلام کی طرف منسوب یہ روایت صحیح ہے؟
اور کیا جبرئیل علیہ السلام کو وحی لانے میں بھی دھوکا ہوا کیا یہ صحیح ہے ہمارے علاقہ کے روافض یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وحی حضرت علیؓ پر لانی تھی مگر جبرئیل سے دھوکا ہوگیا؟ نعوذباللہ من ذالک۔ اپنی معلومات کے لئے یہ سوال کیا ہے
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
یہ سب کیا ہے ؟ کیا جبرئیل علیہ السلام کی طرف منسوب یہ روایت صحیح ہے؟
اور کیا جبرئیل علیہ السلام کو وحی لانے میں بھی دھوکا ہوا کیا یہ صحیح ہے ہمارے علاقہ کے روافض یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وحی حضرت علیؓ پر لانی تھی مگر جبرئیل سے دھوکا ہوگیا؟ نعوذباللہ من ذالک۔ اپنی معلومات کے لئے یہ سوال کیا ہے
اس فوروم پر فقط علمی باتیں ہوتی ہیں بھائی۔۔۔ سب شیعہ کہتے ہیں جبرائیل امین علیہ السلام

اور آپ نے اس کو روافض فورم پر پوسٹ کرنا تھا۔۔۔آئندہ اس بات کا خیال رکھنا۔۔۔

انتظامیہ سے گذارش ہے کہ عاب بھائی کی اس لمبی پوسٹ کو کہیں اور منتقل کردیں۔۔۔
جزاک اللہ خیرا
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
اردو میں ساتھ پیش کیا کیجئےبھائی بار بار یادھانی کروانا اچھا نہیں لگتا
ہم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ پر کود پڑے پھر کسی کہنے والے نے کہا :کہ تم نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو قتک کردیا تو میں نے کہا(حضرت عمر نے) اللہ نے اس کو قتل کیا ہے۔۔۔
ونزونا على سعد بن عبادة فقال قائل منهم قتلتم سعد بن عبادة فقلت قتل الله سعد بن عبادة
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
اعتصاب بھائی
فرشتہ ہی بہک جائے انسان تو کیا ۔جب فرشتے ہی عادل نہ ہوں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت تو ایسا لگ رہا ہے کہ پوری فورم پر آپنے کنٹرول کیا ہوا ہے
ایک تھریڈ سلجھتا نہیں تین چار تیار ۔سچ پوچھیں تو ہمیں تو ایسا لگ رہاہے کہ کوئی آیت اللہ آپ کو سوال بنا بنا کر دے رہے ہیں
 
Top