• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

دوسرا حصہ
وحدتِ اُمت


باب اوّل
وحدت
مظہر صبرو تقویٰ
ایمان کے بعد مومنین کی کامیابی کا بنیادی ذریعہ
ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآَفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَاَفَّۃً ط وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ‘‘۔
(التوبہ:36)
’’ اور مشرکین سے تم سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب تم سے مل کر لڑاتے ہیں بیشک ﷲ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے‘‘۔

آیت بالا میں ﷲ تعالیٰ تمام اہل ایمان کو مشرکین کے خلاف مل کر لڑنے یوں ان کے مقابل وحدت اختیار کرنے کا حکم دینے کے بعد متقین کے ساتھ ہونے کی بشارت سنا رہا ہے‘ اس سے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ’’ وحدت اختیار کرنا‘‘ تقویٰ میں سے ہے اور ﷲ کا ساتھ میسر آنے کا سرٹیفکیٹ ہے۔ اس کے مقابل ’’تفرق‘‘ وحدت کی ضد ہے اور یوں یہ تقویٰ کی بھی ضد ہے اور ﷲ کی ناراضگی کا بھی باعث ہے جیسا کہ ذیل آیات سے واضح ہوتا ہے۔

’’وَاِنَّ ھٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِo فَتَقَطَّعُوْآ اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ زُبُرًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ‘‘۔
(المؤمنون: 52 ‘53)
’’ یہ تمہاری امت حقیقت میں امتِ واحدہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم مجھ سے ڈرتے رہو مگر انہوں نے خود ہی اپنے امر کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے الگ الگ چھاپ لیا‘ اب جس گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی پر وہ اتر رہا ہے‘‘۔

’’ اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْئٍ اِنَّمَآ اَمْرُھُمْ اِلَی اللہِ ثُمَّ یُنَبِّئُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ‘‘۔
(الانعما:159)
’’ بیشک جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرق اختیار کیا اور گروہوں میں بٹ گئے‘ ان کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں‘ ان کا معاملہ تو ﷲ کے ذمے ہے پھر وہ ان کو بتا دے گا جو کچھ یہ کرتے رہے ہیں‘‘۔
۔۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
جس طرح وحدت کیفیتِ تقویٰ کا مظہر ہے اسی طرح وحدت کیفیتِ صبر کا بھی اظہار ہے جب کہ تنازعہ (تفرق) صبر کی ضد ہے۔ تنازعہ اہل ایمان کے کمزوری میں پڑنے اور ان کی ہوا اُکھڑ جانے پر منتج ہوتا ہے‘ اس کے مقابل صبر ﷲ کا ساتھ میسر آنے کا سرٹیفکیٹ ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاْثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o وَاَطِیْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا اِنَّ اللہ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ‘‘۔(انفال:45‘46)
’’ اے ایمان والو! جب تم دشمن گروہ کے مقابل آ جائو تو ثابت قدم رہو ور ﷲ کی کثرت سے یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو اور اطاعت کرو ﷲ کی اور اس کے رسول کی اور جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ‘ صبر سے کام لو بیشک ﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ اختلاف و افتراق اور تنازعات کی کیفیت دشمن کے مقابل اہل ایمان کی کامیابی کو معدوم کر دیتی ہے جیسا کہ غزوئہ اُحد میں ہوا کہ ٹیلے پر تعینات مجاہدین نے آپس میں اختلاف کیا اور کچھ لوگ امیر کے حکم سے الگ اپنی رائے اختیار کرنے کی بنا پر مقررہ جگہ سے ہٹ گئے تو دشمن کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا اور اہل ایمان کی فتح آزمائش میں بدل گئی جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللہُ وَعْدَہٗ اِذْتَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِہٖ حَتّٰی اِذا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمُ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَرٰکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْھُمْ لِیَبْتْلِیَکُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللہُ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘۔
(آل عمران:152)
’’ اور یقینا سچ کر دکھایا تھا‘ ﷲ نے تم سے اپنا وعدہ جب بے دریغ قتل کر رہے تھے تم ان کو ﷲ کے حکم سے حتی کہ جب ڈھیلے پڑ گئے تم اور تنازعہ کیا تم نے حکم کے بارے میں اور حکم عدولی کی تم نے بعد اس کے کہ دکھادی تمہیں ﷲ نے وہ چیز جو تمہیں محبوب تھی تم میں سے کچھ وہ تھے جو طلبگار تھے دنیا کے اور کچھ وہ تھے جو طلب گار تھے آخرت کے ‘ تب پسپا کر دیا ﷲ نے تمہیں دشمنوں کے سامنے سے تا کہ آزمائش کرے تمہاری اور حق یہ ہے کہ ﷲ نے معاف کر دیا تمہیں اور ﷲ بہت فضل والا ہے مومنوں پر‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
اہتمام وحدت ’’صبر اور تقویٰ‘‘ میں سے ہے اور یہ دونوں خصوصیات دشمن کے مقابل ﷲ کی مدد کے حصول کا یقینی ذریعہ ہیں جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے ارشادات اوپر بھی گزر چکے ہیں‘ اس حوالے سے ﷲ تعالیٰ کے مزید ارشادات ہیں کہ:۔

’’اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْھُمْ وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوا بِھَا وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا اِنَ اللہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ‘‘۔
’’ تمہیں اگر بھلائی ملے تویہ ناخوش ہوتے ہیں اور اگر برائی پہنچے تو خوش ہوتے ہیں‘ تم اگر صبر اور تقویٰ پر قائم رہو تو ان کی چالیں تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گی۔ بیشک ﷲ ان کرتوتوں کا جو یہ کرتے ہیں پوری طرح احاطہ کئے ہوئے ہے‘‘
(آل عمران: 120)

’’ اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّکُمْ رُبُّکُمْ بِثَلٰثَۃِ الٰفٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ o بَلٰی اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَاْتُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَ‘‘۔
’’ یاد کرو وہ وقت جب احد کے دن مومنین کو جنگ کیلئے مورچہ بند کرتے ہوئے‘‘۔
’’آپ مومنوں کو تسلی دے رہے تھے کہ کیا آسمان سے تین ہزار فرشتے اتار کر ﷲ تعالیٰ کا تمہاری مدد کرنا تمہیں کافی نہ ہو گا؟ کیونکہ نہیں! اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو اور اسی آن دشمن تمہارے اوپر چڑھ آئیں تو تمہاری رب پانچ ہزار صاحب نشان فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا‘‘۔
(آل عمران: 124‘ 125)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

ﷲکا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے​

اختلاف و افتراق اور تنازعات کی کیفیت دشمن کے مقابل اہل ایمان کی کامیابی کو معدوم کر دیتی ہے تو اس کے مقابل جماعت کے ساتھ ﷲ کا ہاتھ ہے‘ جیسا کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ یَدُ اللہَ مَعَ الْجَمَاعَۃِ‘‘۔
(ترمذی‘ باب الفتن‘ عبدﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ )
’’ ﷲ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے‘‘۔

جماعت کی اہمیت کے حوالے سے نبی ﷺ کے مزید ارشادات ہیں کہ:۔

’’ وَاَنَا اَمْرُکُمْ بِخَمْسِ اللہُ اَمَرِنِیْ بِھِنَّ بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَاِنَّہٗ مَنْ خَرَجَ مِنَ الْجَمَاعَۃِ قِیْدَ شِبْرِ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الْاِسْلَامِ مِن عُنْقِہِ اِلَّا اَنْ یَّرْجِعَ وَمَنْ دَعَا بِدَعْوَی الْجَاھِلِیَّۃِ فَھُوَ مِنْ جُثَائِ جَھَنَّمَ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللہِ وَاِنْ صَامَ وَاِنْ صَلَّی قَالَ وَاِنْ صَامَ وَاِنْ صَلَّی وَزَعَمَ اَنَّہٗ مُسْلِمٌ فَادْعُوْا لْمُسْلِمِیْنَ بِاَسْمَائِھِمْ بِمَا سَمَّاھُمُ اللہُ عَزَّوَجَلَ الْمُسْلِمِیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ عِبَادَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ‘‘۔
’’ میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا مجھے ﷲ نے حکم دیا ہے۔ جماعت کے ساتھ ہونے کا‘ حکم سننے کا‘ اطاعت کرنے کا‘ ہجرت کا اور جہاد فی سبیل ﷲ کا‘ پس جو جماعت سے بالشت پھر بھی باہر نکلا اس نے اسلام کا قلادہ گلے سے اتار دیا جب تک کہ واپس نہ آجائے اور جس نے جاہلیت کی پکار پکاری پس وہ جہنم میں گر گیا پوچھا گیا اے ﷲ کے رسول بیشک وہ روزہ رکھتا ہو نماز پڑھتا ہو‘ آپ نے فرمایا بیشک وہ روزہ رکھتا ہو اور نماز پڑھتا ہوا اور سمجھتا ہو کہ وہ مسلمان ہے پس مسلمانوں کو ان کے ناموں سے پکارو جو نام ﷲ عزوجل نے ان کے رکھے ہیں یعنی مسلمان‘ مومنین ‘ عباد ﷲ عزوجل‘‘۔
(احمد‘ مسند الشامیین‘ حارث الاشعری رضی اللہ عنہ )۔

’’ مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَفَارَقُ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَایَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ اَوْیَدْعُوْا اِلٰی عَصَبَۃٍ اَوْ یَنْصُرْ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَۃٌ وَمَنْ خَرَجَ عَلَی اُمَّتِیْ یَضْرِبُ بَرَّھَا وَفَاجِرَھَا لَایَتَحَاشِی مِنْ مُؤْمِنِھَا وَلَا یَفِی لِذِیْ عَھْدِ ھَا فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُ‘‘
(مسلم‘ باب الامارۃ‘ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )
’’ جو شخص اطاعت سے نکل جائے اور جماعت کو چھوڑ دے اور مر جائے‘ وہ جاہلیت کی موت مرا۔ جو شخص اندھا دھند (اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے جنگ کرے یا کسی عصبیت کی بنا پر غضب ناک ہو‘ یا عصبیت کی طرف دعوت دے یا عصبیت کی خاطر جنگ کرے اور قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت کا قتل ہے اور جس شخص نے میری امت پر خروج کیا اور اچھوں اور بروں سب کو قتل کیا کسی مومن کا لحاظ کیا نہ کسی کا کیا ہوا عہد پورا کیا وہ مجھ سے نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

جاہلیت کی پکار​
’’ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ قَالَ کُنَّا فِی غَزَاۃٍ (قَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً فِی جَیْشٍ) فَکَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ رَجُلاً مِنَ الْاَنْصَارِ فَقَالَ الْاَنْصَارِیُّ یَا لَلْاَنْصَارِ وَقَالَ الْمُھَاجِرِیُّ یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ فَسْمِعَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فَقَالَ مَابَالَ دَعْوَی الْجَاھِلِیَّۃِ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللہِ کَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ رَجْلاً مِنَ الْاَنْصَارِ فَقَالَ دَعُوْھَا فَاِنَّھَا مُنْتِنَۃٌ ‘‘۔
’’ جابر بن عبدﷲ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم ایک لڑائی میں تھے (کبھی سفیان نے یوں کہا ہم ایک فوج میں تھے)۔ وہاں ایسا ہوا ایک مہاجر نے ایک انصاری کو لات مار دی‘ انصاری نے پکارا دوڑ والے انصار! جواب میں مہاجر نے بھی پکارا‘ دوڑ والے مہاجرو! رسول ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا یہ کیسی جاہلیت کی پکار تھی؟ عرض کیا گیا کہ مہاجرین میں سے ایک شخص نے انصار میں سے ایک شخص کو لات مار دی ہے۔ فرمایا! دور رہو اس سے ‘ یہ بڑی بدبو دار چیز ہے‘‘
(بخاری‘ کتاب تفسیر القرآن‘ جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ )

درج بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت شرعی کے علاوہ کسی بھی اور گروہ کی پکار جاہلیت کی پکار ہے خواہ وہ اے انصار اور اے مہاجرین ہی کی پکار کیوں نہ ہو حالانکہ انصارو مہاجرین امت کے دو اہم حصے ہیں جن کے ذکر سے کتاب و سنت بھرے پڑے ہیں۔ جب دین میں ان گروہوں کی پکار پکارنے کی اجازت نہیں تو پھر اے اہل حدیثو! اے حنفیو‘ اے پاکستانیو‘ اے پنجابیو‘ اے پشتونو‘ اے افغانیو‘ اے عربیو‘ اے سعودیو اور اے اعراقیو وغیرہ کی پکار پکارنے اور ان کی بناء پر گروہوں و ملکوں میں تقسیم ہونے‘ ایک دوسرے کے ملک میں جانے کیلئے پاسپورٹ اور ویزے کی پابندی لگانے حتی کہ ایک دوسرے کے مقابل آنے کی کہاں گنجائش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان گروہ بندیوں کی پکار جاہلیت کی بدترین مثال ہے اور شرعی جماعت کے علاوہ ان گروہ بندیوں کی محبت ہی عصبیت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے قومیں اور قبیلے تو صرف پہچان اور تعارف کیلئے بنائے ہیں نہ کہ تقسیم ہولے اور باہم متحارب ہونے کیلئے۔ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’یٰآیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘۔
’’ اے انسانو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تا کہ تم پہچانے جائو بلاشبہ تم میں زیادہ عزت والا ﷲ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں زیادہ متقی ہے‘ بیشک ﷲ سب کچھ جاننے والا باخبر ہے‘‘۔
(الحجرات:13)

اگر عام انسانوں کی قومیں اور قبیلے تعارف کیلئے ہیں تقسیم ہونے کیلئے نہیں تو اہل ایمان کی قومیں اور قبیلے تو بدرجہ اتم تعارف کیلئے ہیں تقسیم ہونے کیلئے نہیں‘ اسی طرہ ان کے علاقے پہچان کیلئے ہیں تقسیم کرنے کیلئے نہیں مثلاً پاکستان‘ افغانستان‘ ایران‘ عراق وغیرہ کا نام پہچان کیلئے تو استعمال کیا جا سکتا ہے اور انتظامی طور پر انہیں خلافت اسلامیہ کے صوبے تو بنایا جا سکتا ہے لیکن الگ الگ ملکوں کی صورت میں ان کی تقسیم اور ﷲ کے ہاں سے اس تقسیم کی اجازت تلاش کرنے کی بجائے (جو انہیں وہاں سے کسی صورت نہیں مل سکتی) طاغوت (یو۔این۔او) کے ہاں سے اس کی منظوری حاصل کرنا امت کے بدترین تفرق میں مبتلا ہونے کی نشانی ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

باب دوئم

توحید ﷲ اور حبل اللہ وحدت میں​
رہنے اور افتراق سے بچنے کی بنیاد​
ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ اِنَّ ھٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃ ً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنَ o وَتَقَطَّعُوْا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ کُلٌ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ ‘‘۔
(الانبیاء: 92‘ 93)
’’ درحقیقت یہ تمہاری امت امتِ واحدہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم صرف میری ہی عبادت کرو مگر انہوں نے اپنے امر کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا‘ سب کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے‘‘۔


’’ﷲ کی توحید‘‘ پہ اقامت
تمام انسانوں کے وحدت میں رہنے کی بنیاد

آیاتِ بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک ﷲ کی بندگی کرنے (ﷲ کی توحید پہ قائم ہونے) کی بنا پر تمام انسان ایک ہی امت تھے لیکن جب انہوں نے اس امر کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا اور غیر ﷲ کی بھی بندگی اختیار کی تو اپنے اپنے الٰہ غیر ﷲ کی اقتداء میں الگ الگ گروہوں میں تقسیم ہو گئے اور ذیل کی آیت سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جب بکھرے انسانوں کی دعوت دی جائے گی تو سب سے پہلے ﷲ کی توحید ہی پہ قائم ہونے کی دعوت دی جائے گی جو ان میں قدرِ مشترک رہی ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ قُلْ یَا اَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآء بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہِ شَیْئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنًا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ‘‘۔
(آل عمران: 64)
’’ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب آئو اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے یہ کہ ہم ﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے ہی کو رب بنائیں پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مطیع و فرمانبردار ہیں‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

توحید ﷲ (ورسالت محمد ﷺ )​
پہ قائم ہونے والوں کے نام ’’مسلمان‘‘ !
جو توحید و رسالت کا انکار کرنے والوں سے الگ امت ہیں
جب اہل کتاب اور دیگر کفار صرف ﷲ کی بندگی پر قائم ہو جائیں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو رب نہیں بنائیں گے تو اس کے لازمی تقاضے طور پر محمد ﷺ کی رسالت کو بھی مان لیں گے کیونکہ آپ ﷺ کی رسالت کا انکار کرنے والے یہودونصاریٰ اور دیگر کفار اپنے مولوں ‘ پیروں اور سرداروں کی اطاعت کرنے (یوں انہیں رب بنا لینے) کی بنا پر ہی آپ ﷺ کی رسالت کا انکار کرتے رہے ہیں۔ آیتِ بالا سے جہاں تمام انسانوں کے مجتمع ہونے کی بنیاد پتہ چلتی ہے یعنی ’’ﷲ کی توحید پہ اقامت‘‘ وہیں جو لوگ ﷲ کی توحید پہ قائم ہو جائیں ان کا نام بھی معلوم ہو جاتا ہے یعنی ’’مسلمان‘‘۔

’’مسلمان‘‘ ﷲ کا انکار کرنے والے اور اس کے ساتھ شرک کرنے والے کفار و مشرکین سے الگ امت ہیں ہی وہ ان اہل کتاب سے بھی الگ امت ہیں جو ﷲ پر تو ایمان رکھتے ہیں مگر اس بنا پر کافر ہیں کہ محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان نہیں لاتے۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا الَّھُمْ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ‘‘۔
(آل عمران: 110)
’’ تم (اے مسلمانو) وہ بہترین امت ہو جسے انسانوں کیلئے نکالا گیا ہے ‘ تم معروف کے ساتھ حکم کرتے ہو اور منکر سے منع کرتے ہو اور ﷲ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر کہیں ایمان لے آتے اہل کتاب تو یہ انہی کے حق میں بہتر ہوتا۔ ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں مگر ان میں سے اکثر فاسق ہیں‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وحدت فقط ’’مسلمانوں کی باہم‘‘ مقصود ہے
نہ کہ ’’مسلمانوں اور کفار کی باہم‘‘
ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوا لِلّٰہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَنًا مُّبِیْنًا‘‘۔
(النساء: 144)
’’ اے ایمان والو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بنائو کیا تم چاہتے ہو کہ ﷲ کو اپنے خلاف صریح حجت دے دو‘‘۔

’’ یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰی اَوْلِیَآئَ م بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئَ بَعْضٍ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ اِنَّ اللہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘۔
’’ اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بنائو‘ وہ باہم ایک دوسرے ہی کے دوست ہیں‘ اور جو بھی تم میں سے ان سے دوستی کرے گا تو وہ بھی پھر انہی میں سے ہے‘ بیشک ﷲ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔
(المائدہ: 51)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
حبل ﷲ سے مضبوط وابستگی
مسلمانوں کی باہمی وحدت کی بنیاد
اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ o وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہَ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ اِذْکُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا ج وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَاحُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَ کُمْ مِنْھَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتُدُوْنَ‘‘۔
(آل عمران: 103)
’’ اے ایمان والو! ﷲ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو اور تم سب مل کر حبل ﷲ کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں مت پڑو اور یاد کرو ﷲ کا احسان جو اس نے تم پر کیا کہ تم باہم دشمن تھے پھر اس نے تم میں سے باہم الفت پیدا کر دی اور تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم ﷲ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ سے بھرے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے اور ﷲ نے تم کو اس سے بچا لیا‘ اس طرح کھول کھول کر بیان کرتا ہے ﷲ تمہارے لئے اپنی آیات تا کہ تم رہنمائی حاصل کرو‘‘۔

ﷲ تعالیٰ اہل ایمان کو پہلے تو صرف مسلم (توحید پہ قائم) ہو کر مرنے کا حکم دیتا ہے پھر ان سب کے سب کو ’’ حبل اللہ‘‘ سے مضبوطی سے وابستہ ہونے کا حکم دیتا ہے اور تفرقے میں پڑھنے سے منع کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید پہ اقامت کے بعد ’’حبل اللہ‘‘ مسلمانوں کے مابین کوئی ایسی چیز ہے جس سے وابستگی ان کی باہمی وحدت کا باعث ہے جو ان کی باہمی وحدت میں ’’جوڑ‘‘ کا کام دیتی ہے اور اپنی باہمی وحدت کیلئے جسے جوڑ کے طور پر اختیار کرنا ان پر لازم ہے ‘ ﷲ کی وحی سے دیکھا جانا چاہئے کہ وہاں اس حبل ﷲ سے کیا مراد ہے۔
۔۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

حبل ﷲ یعنی کتاب اللہ​
نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ وَاِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُم الثَّقَلَیْنِ اَحَدُھُمَا کِتَابُ اللہِ عَزَّوَجَلَّ ھُوَ حَبْلُ اللہِ مَنِ اتَّبَعَہٗ کَانَ عَلَی الْھُدَی وَمَنْ تَرَکَہٗ کَانَ عَلَی ضَلَالَۃٍ ‘‘۔
(مسلم‘ باب الفضائل الصحابہ رضی اللہ عنہ ‘ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ )
’’ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ایک تو ﷲ کی کتاب ہے جو حبل ﷲ ہے جو اس کی پیروی کرے گا ہدایت پر ہو گا اور جو اس کو چھوڑے گا گمراہ ہو جائے گا‘‘۔


کتاب ﷲ سے وابستگی کا لازمی تقاضا
سنتِ رسول ﷲ ﷺ سے وابستگی
حدیثِ بالا میں حبل ﷲ ’’کتاب اللہ‘‘ کو قرار دیا گیا ہے اور کتاب ﷲ ہی کے مطالعہ سے معلوم ہو چکا ہے کہ کتاب ﷲ کی وضاحت اور اس پر عمل کیلئے سنتِ رسول ﷲ ﷺ کو اختیار کرنا لازم ہے اور سنت کو ردّ کرنے والا کتاب ﷲ کو اختیار کرنے کے باوجود کافر رہتا ہے یوں حبل ﷲ سے وابستہ ہونے کے حکم سے کتاب ﷲ کے ساتھ ساتھ سنت رسول ﷲ ﷺ وابستہ ہونا خود بخود مراد پاجاتا ہے۔

کتاب و سنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے مسلمانوں کے ’’حبل اللہ‘‘ (کتاب وسنت) سے وابستہ رہنے میں ان کے وحدت میں ڈھلے رہنے اور تفرقے سے بچنے کا طریقہ بھی پنہاں ہے اور اگر وہ تفرقے میں پڑ جائیں تو ان کے دوبارہ متفق و مجتمع ہونے اور وحدت میں ڈھلنے کی بنیاد بھی یہی ہے۔ اس کی تفصیل جاننے سے پہلے کتاب و سنت سے دیکھا جانا چاہئے کہ مسلمانوں/ امت میں تفرقے کی بنا کیا ہے؟
۔
 
Top