محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
۔
نبی ﷺ کے دین کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
’’ قُلْ یُآیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ o وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ج وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرَکِیْنَ‘‘۔
’’ کہو کہ اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین کے بارے میں شک ہے تو (سُن لو کہ) میں ان کی بندگی نہیں کرتا جن کی تم ﷲ کے علاوہ بندگی کرتے ہو بلکہ میں تو صرف اس ﷲ کی بندگی کرتا ہوں جو تمہیں فوت کرتا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان والوں میں سے ہو جائوں اور یہ کہ میں ہر طرف سے کٹ کر یکسو ہو کر اپنا رُخ اس دین کی سمت جمادوں اور مشرکین میں سے نہ ہو جائوں‘‘۔
(یونس: 104‘ 105)
آیات بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین جس پہ نبی ﷺ قائم تھے وہ تو ہے ہی ’’ﷲ پر ایمان کے ساتھ غیرﷲ کی بندگی سے اجتناب کرنے اور صرف ﷲ کی بندگی پہ قائم ہونے کا نام‘‘ پھر یہ آیات مکہ میں اس وقت نازل ہوئیں تھیں جب وہاں طاغوت کا غلبہ تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اس دین پہ اس وقت ہی سے قائم ہو گئے تھے جب وہاں طاغوت کا غلبہ تھا اور پھر قائم بھی اس شان سے ہوئے تھے کہ نہ طواغیت کی طرف ذرہ بھر جھکے تھے نہ ان کی ذرہ بھر اطاعت اختیار کی تھی اور نہ کوئی مداہنت اختیار کی تھی کیونکہ ﷲ نے آپ ﷺ کو ایسے ہی ثابت قدم رہنے کا حکم دیا تھا جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے مکہ میں نازل ہونے والے ارشادات ہیں کہ:۔
’’ فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتُ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا ط اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ o وَلَا تَرْکَنُؤْا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ لا وَمَالَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ اَوْلِیَآئَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ‘‘۔
’’ سو ثابت قدم رہو تم جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جو تائب ہو کر تمہارے ساتھ ہیں اور سرکشی نہ کرنا‘ بیشک وہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے‘ اور مت جھکنا ان لوگوں کی طرف جو ظالم ہیں ورنہ تم بھی جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے اور تمہارے لئے ﷲ کے سوا کوئی سرپرست نہ ہو گا اور نہ تمہیں مدد ہی ملے گی‘‘۔
(ھود: 112‘ 113)
۔
نبی ﷺ کے دین کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
’’ قُلْ یُآیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ o وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ج وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرَکِیْنَ‘‘۔
’’ کہو کہ اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین کے بارے میں شک ہے تو (سُن لو کہ) میں ان کی بندگی نہیں کرتا جن کی تم ﷲ کے علاوہ بندگی کرتے ہو بلکہ میں تو صرف اس ﷲ کی بندگی کرتا ہوں جو تمہیں فوت کرتا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان والوں میں سے ہو جائوں اور یہ کہ میں ہر طرف سے کٹ کر یکسو ہو کر اپنا رُخ اس دین کی سمت جمادوں اور مشرکین میں سے نہ ہو جائوں‘‘۔
(یونس: 104‘ 105)
آیات بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین جس پہ نبی ﷺ قائم تھے وہ تو ہے ہی ’’ﷲ پر ایمان کے ساتھ غیرﷲ کی بندگی سے اجتناب کرنے اور صرف ﷲ کی بندگی پہ قائم ہونے کا نام‘‘ پھر یہ آیات مکہ میں اس وقت نازل ہوئیں تھیں جب وہاں طاغوت کا غلبہ تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اس دین پہ اس وقت ہی سے قائم ہو گئے تھے جب وہاں طاغوت کا غلبہ تھا اور پھر قائم بھی اس شان سے ہوئے تھے کہ نہ طواغیت کی طرف ذرہ بھر جھکے تھے نہ ان کی ذرہ بھر اطاعت اختیار کی تھی اور نہ کوئی مداہنت اختیار کی تھی کیونکہ ﷲ نے آپ ﷺ کو ایسے ہی ثابت قدم رہنے کا حکم دیا تھا جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے مکہ میں نازل ہونے والے ارشادات ہیں کہ:۔
’’ فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتُ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا ط اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ o وَلَا تَرْکَنُؤْا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ لا وَمَالَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ اَوْلِیَآئَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ‘‘۔
’’ سو ثابت قدم رہو تم جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جو تائب ہو کر تمہارے ساتھ ہیں اور سرکشی نہ کرنا‘ بیشک وہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے‘ اور مت جھکنا ان لوگوں کی طرف جو ظالم ہیں ورنہ تم بھی جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے اور تمہارے لئے ﷲ کے سوا کوئی سرپرست نہ ہو گا اور نہ تمہیں مدد ہی ملے گی‘‘۔
(ھود: 112‘ 113)
۔