• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
نبی ﷺ کے دین کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ قُلْ یُآیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ o وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ج وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرَکِیْنَ‘‘۔
’’ کہو کہ اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین کے بارے میں شک ہے تو (سُن لو کہ) میں ان کی بندگی نہیں کرتا جن کی تم ﷲ کے علاوہ بندگی کرتے ہو بلکہ میں تو صرف اس ﷲ کی بندگی کرتا ہوں جو تمہیں فوت کرتا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان والوں میں سے ہو جائوں اور یہ کہ میں ہر طرف سے کٹ کر یکسو ہو کر اپنا رُخ اس دین کی سمت جمادوں اور مشرکین میں سے نہ ہو جائوں‘‘۔
(یونس: 104‘ 105)

آیات بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین جس پہ نبی ﷺ قائم تھے وہ تو ہے ہی ’’ﷲ پر ایمان کے ساتھ غیرﷲ کی بندگی سے اجتناب کرنے اور صرف ﷲ کی بندگی پہ قائم ہونے کا نام‘‘ پھر یہ آیات مکہ میں اس وقت نازل ہوئیں تھیں جب وہاں طاغوت کا غلبہ تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اس دین پہ اس وقت ہی سے قائم ہو گئے تھے جب وہاں طاغوت کا غلبہ تھا اور پھر قائم بھی اس شان سے ہوئے تھے کہ نہ طواغیت کی طرف ذرہ بھر جھکے تھے نہ ان کی ذرہ بھر اطاعت اختیار کی تھی اور نہ کوئی مداہنت اختیار کی تھی کیونکہ ﷲ نے آپ ﷺ کو ایسے ہی ثابت قدم رہنے کا حکم دیا تھا جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے مکہ میں نازل ہونے والے ارشادات ہیں کہ:۔

’’ فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتُ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا ط اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ o وَلَا تَرْکَنُؤْا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ لا وَمَالَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ اَوْلِیَآئَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ‘‘۔
’’ سو ثابت قدم رہو تم جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جو تائب ہو کر تمہارے ساتھ ہیں اور سرکشی نہ کرنا‘ بیشک وہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے‘ اور مت جھکنا ان لوگوں کی طرف جو ظالم ہیں ورنہ تم بھی جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے اور تمہارے لئے ﷲ کے سوا کوئی سرپرست نہ ہو گا اور نہ تمہیں مدد ہی ملے گی‘‘۔
(ھود: 112‘ 113)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
’’ فَلَا تُطِعِ الْمَکَذِّبِیْنَ o وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ‘‘۔
’’ پس نہ اطاعت کرنا تم جھٹلانے والوں کی‘ یہ تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم ڈھیلے پڑ جائو (مداہنت اختیار کرو) تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں‘‘۔
(القلم: 8‘ 9)

جمہوریت اور طاغوتی آئین و قوانین کی پاسداری کو شرک جاننے مگر اس کے ذریعے اقامتِ دین کرنے پر مصر رہنے والوں میں سے بعض حالتِ اضطرار کا بہانہ کرتے ہیں جبکہ حالتِ اضطرار میں حرام کردہ چیزیں بقدر ضرورت کھانے کی اجازت ہے ‘ شرک کی نہیں۔ بعض لوگ حالتِ اکرہ کا بہانہ کرتے ہیں جبکہ حالت اکرہ میں بھی ’’کفر‘‘ سرزد ہونے پر معافی کی تصریح ملتی ہے شرک پہ نہیں (دیکھئے صفحہ: 51) شرک کے حوالے سے تو نبی ﷺ کا ارشاد پہلے بھی گزر چکا ہے کہ:۔

’’ لَا تُشْرِکْ بِاللہِ شَیْئًا وَّاِنْ قُتِلْتُ وَحُرِّقت‘‘۔
’’ تم شرک نہ کرنا خواہ تم قتل کر دئیے جائو یا زندہ جلا دئیے جاؤ‘‘۔
(طبرانی‘ معاذ رضی اللہ عنہ)

مذکورہ بالا لوگوں میں سے بعض حالتِ خوف کا بہانہ کرتے ہیں اور پارلیمانی شرک کی گنجائش نکالتے ہیں یہاں تک کہ غلبہ حاصل ہو جائے جبکہ اس کے برعکس ﷲ تعالیٰ حالت خوف میں شرک نہ کرنے اور ایمان و عمل صالح پہ قائم رہنے کے نتیجے میں غلبہ و اقتدار کا وعدہ فرما رہا ہے۔ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِن بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِی لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ‘‘۔
’’ وعدہ فرمایا ہے ﷲ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے تم میں سے اور عمل کرتے رہے صالح کہ ضرور عطا فرمائے گا انہیں زمین میں خلافت جس طرح عطا فرمائی تھی ان لوگوں کو جو ان سے پہلے تھے اور ضرور قائم کر دے گا‘ مضبوط بنیادوں پر ان کیلئے اس دین کو جسے پسند کر لیا ہے ﷲ نے اور ضرور بدل دے گا ان کی حالتِ خوف کو امت سے بس وہ میری عبادت کرتے رہیں اور نہ شریک بنائیں میرے ساتھ کسی کو تو جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔
(النور: 55)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں رائج آئین و قوانین تو اسلام کے مطابق ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں ہے تو بتایا جائے کہ ان میں سے آخر کون سے قوانین خلاف اسلام ہیں؟

ان سے پہلی عرض یہ ہے کہ اگر آئین و قوانین اسلام کے مطابق تھے (جو ابھی تک تبدیل نہیں ہوئے ہیں) تو پھر قراردادِ مقاصد پیش کرنے کی ضرورت کیوں درپیش آئی تھی؟ دوسری گزارش یہ کہ ہر کوئی قانون اسلامی نہیں کہلا سکتا بیشک ظاہر اسلامی قانون کے جیسا نظر آتا ہو کیونکہ اھواء سے اخذ کردہ بعض قوانین بھی ظاہرًا اسلام کے قوانین کے جیسے ہو سکتے ہیں لیکن وہ اسلامی نہیں کہلا سکتے۔ کسی قانون کے اسلامی ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ کتاب و سنت سے اخذ کردہ ہو اور اس بنا پر ساتھ دلیل (آیت یا حدیث) کا بھی حامل ہو۔

ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِّ ‘‘
’’ تم ﷲ کے نازل کردہ کے مطابق ان کے مابین حاکمیت (حکم‘ قانون و فیصلے جاری) کرو اور ان کی اھواء کی پیروی مت کرو اس حق سے منہ موڑ کے جو تمہارے پاس آ چکا ہے‘‘۔
(مائدہ: 48)


’’ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوٰہ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللہ اِنَّ اللہَ لَا یَھِدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘۔
’’ اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو ﷲ کی طرف سے بھیجی ہوئی ہدایت کے بغیر بس اپنی اہواء کی اتباع کرے‘ حقیقت یہ ہے کہ ﷲ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔
(القصص: 50)

’’ وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ھُوْدًا اَوْنَصٰرٰی تِلْکَ اَمَانِیُّھُمْ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ‘‘۔
’’ اور کہتے ہیں کہ ہر گز نہیں داخل ہو گا جنت میں مگر وہ جو ہو گا یہودی یا نصرانی۔ یہ باتیںان کی تمنائیں ہیں‘ ان سے کہو کہ پیش کرو اپنی دلیل‘ اگر تم سچے ہو‘‘۔
(البقرہ: 111)

آیاتِ بالا میں سے پہلی دو آیات احکامات‘ قوانین اور فیصلوں کو کتاب و سنت سے اخذ کرنے کا پابند کرتی ہیں اور تیسری آیت ’’پیش کی گئی ہر بات کے ساتھ‘‘ کتاب و سنت سے دلیل پیش کرنے کا پابند کرتی ہے اور کتاب و سنت میں اس سلسلے کی بہت سی آیات اور احادیث موجود ہیں جو مذکورہ چیزوں کا سختی سے پابند کرتی ہیں۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
3۔ طاغوتی عدالتوں میں فیصلوں کیلئے رجوع:
ایمان کا دعویٰ رکھنے والا میں سے اکثر اپنے معاملات و مقدمات فیصلوں کیلئے ایسی عدالتوں میں لے کر جاتے ہیں جو طاغوت کے وضع کردہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں جبکہ ﷲ تعالیٰ انہیں فیصلوں کیلئے ﷲ اور اس کے رسول ﷺ (کتاب و سنت) کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتا ہے اور طاغوت کے پاس جانے سے منع کرتا ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:۔

’’ یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً o اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْآ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ ط وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلاً م بَعِیْدًا o وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اُنْزَلَ اللہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنْفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا‘‘۔
’’ اے ایمان والو! اطاعت کرو ﷲ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور صاحبانِ امر کی جو تم (اہل ایمان) میں سے ہوں۔ اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اسے لوٹا دو فیصلے کیلئے ﷲ اور اس کے رسول کی طرف اگر تم ﷲ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے ہو‘ یہی چیز اچھی ہے اور انجام کے اعتبار سے بہترین بھی۔ تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو تم پر نازل ہوا ہے اور اس پر جو تم سے پہلے نازل ہوا ہے مگر فیصلہ کروانے کیلئے طاغوت کے پاس جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں اس سے کفر کا حکم دیا گیا ہے۔ شیطان انہیں راہِ راست سے بھٹکا کر دور کی گمراہی میں لے جانا چاہتا ہے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس کی طرف جو ﷲ نے نازل کیا ہے اور آؤ رسول کی طرف تو تم ان منافقین کو دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے اپنے آپ کو سختی سے روکتے ہیں‘‘۔
(النساء:59‘61)

آیت بالا میں فیصلوں کیلئے طاغوت کے پاس جانے والوں کے بارے میں ﷲ نے کہا ہے کہ شیطان انہیں’’ ضَلٰلاً م بَعِیْدًا‘‘ یعنی دور کی گمراہی میں لے جانا چاہتا ہے اور قرآن میں یہ الفاظ کفر و شرک کیلئے استعمال ہوئے ہیں جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:۔

’’ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً م بَعِیْدًا‘‘۔
’’ اور جس نے ﷲ کے ساتھ شرک کیا پس وہ دور کی گمراہی میں پڑ گیا‘‘۔
(النساء: 116)

’’ وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘۔
’’ اور اگر تم نے اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے ‘ ان کی اھواء کی پیروی کی تو یقینا تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا‘‘۔
(البقرہ:145)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
5۔ طواغیت کی اطاعت میں پارٹی بازی:

طواغیت کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ لوگوں کو پارٹیوں میں تقسیم کر کے رکھتے ہیں جیسا کہ فرعون کے بارے میں ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا‘‘۔
’’ حقیقت یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا‘‘۔
(القصص:4)

طواغیت آج بھی لوگوں کو پارٹیوں میں تقسیم کرنے کی روش پر قائم ہیں‘ وہ لوگوں کو پارتی بنانے اور انہیں اپنے پاس رجسٹرڈ کروانے کی دعوت دیتے ہیں۔ کلمہ پڑھنے والے بھی طواغیت کی اس دعوت پر صادر کرتے ہیں‘ وہ امت میں پارٹیاں بناتے ہیں‘ انہیں طاغوت کے پاس رجسٹرڈ کرواتے ہیں اور طاغوت کے پروگرام کے مطابق کام کرتے ہیں یوں ایک طرف تو وہ طاغوت کی اطاعت کی بنا پر شرک میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اور دوسری طرف پارٹی بازی کی بنا پر امت کی وحدت کو پار ا پارا کر دیتے ہیں جبکہ ﷲ تعالیٰ ان سے ارشاد فرما چکا ہے کہ:۔

’’ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ ‘‘۔
’’ اور نہ ہو جاؤ مشرکین میں سے ‘ ان میں سے جنہوں نے اپنے دین میں تفرق اختیار کیا اور گروہوں میں بٹ گئے‘ اب جس گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی پر وہ اتر رہا ہے‘‘۔
(الروم: 31‘ 32)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
6۔ کفار سے دوستی اور اتحاد:
ﷲ تعالیٰ نے کفار کو حزب الشیطان اور اہل ایمان کو حزب ﷲ قرار دیا ہے اور اہل ایمان کو کفار کے ساتھ متحد ہونے سے منع کیا ہے لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ کلمہ پڑھنے والے کفار کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ بن چکے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر اپنے ہی بھائیوں کے خلاف صف آراء ہو چکے ہیں جبکہ ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’ یٰایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَنًا مُّبِیْنًا‘‘۔
’’ اے ایمان والو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بنائو کیا تم چاہتے ہو کہ ﷲ کو اپنے خلاف صریح حجت دے دو‘‘۔
(النساء: 144)

’’ یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰی اَوْلِیَآئَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ اِنَّ اللہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَۃٌ فَعَسَی اللہُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْاَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ نٰدِمِیْنَ‘‘۔
’’ اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بنائو‘ وہ باہم ایک دوسرے ہی کے دوست ہیں اور جو بھی تم میں سے ان سے دوستی کرے گا تو وہ بھی پھر انہی میں سے ہے بیشک ﷲ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘ تم دکھتے ہو ان کو جن کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے کہ وہ دوڑ کر گھستے ہیں ان ہی (یہود و نصاریٰ) میں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ آئیں۔ قریب ہے کہ ﷲ تعالیٰ تمہیں اپنی طرف سے فتح سے ہمکنار کر دے یا کوئی اور صورت (غلبہ کی پیدا کر دے) اور وہ اس پر جو انہوں نے چھپا رکھا تھا اپنے دلون میں پشیمان ہو جائیں‘‘۔
(المائدہ: 51‘ 52)

’’ اِسْتَحْوَذَ عَلَیْھِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰھُمْ ذِکْرَ اللہِ اُوْلٰئِکَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘۔
’’ ان پر شیطان مسلط ہو چکا ہے اور اس نے ان سے ﷲ کے ذکر (کتاب و سنت و ﷲ کی یاد) کو بھلا دیا ہے یہی لوگ شیطان کی پارٹی ہیں ‘ جان رکھو یقینا کہ شیطان کی پارٹی خسارے میں رہنے والی ہے‘‘۔
(المجادلہ:19)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
’’ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَھُمْ رٰکِعُوْنَ o وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ‘‘۔
’’ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا دوست تو بس ﷲ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں جو قائم کرتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکوٰۃ اور جھکنے والے ہیں (ﷲ کے حضور) اور جو بھی دوست بن جائے گا ﷲ اور اس کے رسول کا اور ان کا جو ایمان لائے ہیں تو بیشک ﷲ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے‘‘۔
(المائدہ: 55‘ 56)

’’ لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْا اَبَآئَ ھُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ھُمْ اَوْاِخْوَانَھُمْ اَوْعَشِیْرَتَھُمْ اُوْلٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ اُوْلٰئِکَ حِزْبُ اللہِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘۔
’’ نہ پائو گے تم ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ﷲ پر اور روزِ آخرت پر کہ وہ محبت رکھتے ہوں ان سے جنہوں نے مخالف کی ﷲ کی اور اس کے رسول کی اگرچہ ہوں وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا اہل خاندان۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ثبت کر دیا ہے ﷲ نے ان کے دلوں میں ایمان اور قوت بخشی ہے ان کو ایک روح عطا فرما کر اپنی طرف سے اور داخل کر ے گا وہ انہیں ایسی جنتوں میں کہ بہہ رہی ہیں ان کے نیچے نہریں ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں‘ راضی ہوا ﷲ ان سے اور وہ راضی ہوئے ﷲ سے۔ یہی ہیں ﷲ کی جماعت۔ جان رکھو بلاشبہ ﷲ کی جماعت ہی فلاح پانے والی ہے‘‘۔
(المجادلہ:22)
۔
’’ وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ قُلْ اِنَّ ھُدَی اللہِ ھُوَ الْھُدٰی وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ اَھْوَآء ھُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآ ئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ‘‘۔
’’ اور ہرگز راضی نہ ہوں گے تم سے یہودی اور نہ عیسائی جب تک کہ تم ان کے طریقے کی پیروی نہ کرنے لگو۔ تم کہہ دو بیشک ﷲ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے اور اگر کہیں پیروی کر لی تم نے ان کی اھواء کی اس کے بعد بھی کہ آ چکا ہے تمہارے پاس علم (کتاب و سنت) تو نہیں ہو گا کوئی تم کو ﷲ سے (بچانے والا) دوست اور نہ کوئی مددگار‘‘۔
(البقرہ:120)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

7۔ غیرﷲ کو ’’ ﷲ کیلئے مخصوص صفات‘‘ کا حامل جاننا‘ انہیں​
ﷲ کے ہاں وسیلہ قرار دے کر پکارنا اور ان کی قبروں پر جھکنا:​
ایمان کا دعویٰ کرنے والوں میں سے بہت سے لوگ ان مذہبی پیشوائوں کی اتباع کرتے ہیں جو اپنے آپ کو اور دیگر غیرﷲ کو ﷲ کیلئے مخصوص صفات (مثلاً علمِ غیب‘ دعائیں سُن سکنے اور غیب سے مدد کر سکنے) کا حامل قرار دیتے ہیں اور یہ لوگ ان کی بات تسلیم کر لیتے ہیں۔ لوگ ان مذہبی پیشوائوں کی اتباع میں صرف ﷲ سے حاجتیں مانگنے اور صرف اس کے آگے جھکنے کی بجائے فرشتوں‘ جنوں‘ نبیوں‘ صحابیوں‘ ولیوں‘ پیروں‘ ملنگوں ‘ درویشوں سے بھی حاجتیں مانگتے ہیں‘ ان کے نام کی نذریں اور نیازیں دیتے ہیں‘ ان کی قبروں پر جھکتے اور انہیں ﷲ کے حضور سفارشی اور اس کی قربت کا وسیلہ قرار دے کر پکاریت ہیں جبکہ ﷲ کے ہاں ان باتوں کی حقیقت ان کے اس عمل سے بالکل مختلف ہے۔

ﷲ کے سوا کوئی اور عالم الغیب ‘ نفع و نقصان پر اور دعائیں سن سکنے اور غیب سے انہیں پورا کر سکنے پر قادر ہو سکتا تو نبی ﷺ سے بڑھ کے اور کون ہو سکتا تھا لیکن آپ ﷺ کے حوالے سے بھی ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ قُلْ لَّا اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَاشَائَ اللہُ وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَ سْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْئُ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَبَشِیْرٌ لِّقُوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ‘‘۔
’’ کہہ دو کہ میں اپنی ذات کیلئے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا‘ سوائے اس کے کہ ﷲ چاہے اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں خود اپنے لئے بہت سے فائدے حاصل کر لیتا اور خود مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا‘ میں تو صرف خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں‘ ان لوگوں کو میری بات مانیں‘‘۔
(الاعراف: 188)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
جو لوگ مخلوق میں سے بعض (نبیوں‘ ولیوں‘ فرشتوں‘ بتوں وغیرہ) کو خود ہی ﷲ کے ہاں تقرب کا ذریعہ‘ سفارشی/ شافعی اور وسیلہ قرار دے لیتے ہیں اور ان کی عبادت (ﷲ سے مدد دلوانے کیلئے انہیں پکارنا) شروع کر دیتے ہیں ان کیلئے ﷲ تعالیٰ کے یہ ارشادات کافی ہیں کہ:

’’ اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآء مَا نَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللہِ زُلْفٰی اِنَّ اللہَ یَحْکُمُ بَیْنَھُمْ فِیْ مَاھُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ اِنَّ اللہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ کٰذِبٌ کُفَّارٌ‘‘۔
’’ خبردار! ﷲ کیلئے (قابلِ قبول) صرف دینِ خالص ہے اور وہ لوگ جنہوں نے ﷲ کے علاوہ دوسرے ولی بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم تو ان کی عبادت نہیں کرتے مگر صرف اس غرض سے کہ ہمیں ﷲ سے کسی درجہ قریب کر دیں۔ بیشک ﷲ فیصلہ کرے گا ان کے درمیان ان سب باتوں کا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں‘ بلاشبہ ﷲ نہیں راہ دکھاتا ایسے شخص کو جو جھوٹا اور منکر حق ہو‘‘۔
(الزمر: 3)

’’ وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤُلَآء شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللہِ قُلْ اَتُنَبِّئُوْنَ اللہَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ‘‘۔
’’ اور یہ ﷲ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع دے سکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ (جن کو ہم پوجتے ہیں) ﷲ کے حضور ہماری سفارش/ شفاعت کرنے والے ہیں‘ کہہ دو کیا تم ﷲ کو ایسی بات کی خبر دیتے ہو جو نہیں جانتا وہ آسمانوں اور زمینوں میں۔ مبرا ہے اس کی ذات اور بلند و بالا ہے وہ اس شرک سے جو جو یہ لوگ کرتے ہیں‘‘۔
(یونس:18)

’’وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِّیِّنَ عَلٰی بَعْضٍ وَّاٰتَیْنَا دَاؤْدَ زَبُوْرًاo قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُوْنِہٖ فَلَا یَمْلِکُوْنَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنْکُمْ وَلَا تَحْوِیْلاًo اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَمَحْذُوْرًا‘‘
’’ اور یقینا فضیلت دی ہے ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر اور عطا کی تھی ہم نے داؤد کو زبور۔ ان سے کہو پکارو تم ان کو جنہیں سمجھتے ہو تم (حاجت روا) ﷲ کے سوا‘ سو نہیں اختیار رکھتے وہ تکلیف دور کرنے کا تم سے اور نہ حالت بدلنے کا۔ یہ جن کو پکارتے ہیں وہ لوگ خود تلاش کرتے ہیں اپنے رب تک پہنچنے کا وسیلہ کہ کون ان میں سے (اس کا) مقرب ہو جاتا ہے اور امیدوار رہتے ہیں اس کی رحمت کے اور ڈراتے ہیں اس کے عذاب سے۔ بیشک تیرے رب کا عذاب ہی ہے ڈرانے کے لائق‘‘۔
(بنی اسرائیل: 55‘ 57)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
سفارش و شفاعت کے کلی اختیارات خود ﷲ کے پاس ہیں‘ وہ جس کو چاہے اسے اپنے ہاں سفارش کرنے کا اختیار دے اور اسے جس کی چاہے سفارش کی اجازت دے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’ قُلْ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا ط لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ‘‘۔
’’ کہہ دیجئے کہ شفاعت کا اختیار سارا کا سارا ﷲ کے پاس ہے‘ اسی کے پاس ہے بادشاہی آسمانوں کی اور زمین کی اور پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جائو گے‘‘۔
(الزمر: 44)

’’ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط‘‘۔
’’ کون ہے جو شفاعت کر سکے اس کے حضور سوائے اس کے کہ جس کو اس کی طرف سے اجازت ہو‘‘۔
(البقرہ:255)

’’ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا یَشْفَعُوْنَ ط اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ‘‘۔
’’ وہ جانتا ہے ہر وہ بات جو ان کے سامنے ہے اور وہ بھی جو ان کے پیچھے ہے اور نہیں شفاعت کرتے وہ (جن کو شفاعت کی اجازت دی گئی ہے) کسی کی سوائے اس کے جس کیلئے (شفاعت کرنا) ﷲ پسند کرے اور وہ اس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں‘‘۔
(الانبیاء:28)
۔
 
Top