• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

اُمت میں تفرقے کی بنا

٭ دین میں تفرق اختیار کرنا۔
٭ صراطِ مستقیم سے ہٹنا اور دیگر راستوں پر چلنا۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیئٍ‘‘
’’ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرق اختیار کیا اور گروہوں میں بٹ گئے ان کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں‘‘۔
(الانعام: 159)

’’ وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السَّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘۔
’’ اور یہ کہ یہی ہے میری راہ جو سیدھی ہے سو اسی پر چلو اور مت چلو (دوسرے) راستوں پر کہ تمہیں اس کی راہ سے ہٹا کر متفرق کر دیں گے‘ یہ وہ باتیں ہیں جن کی تم کو ﷲ نے ہدایت کی ہے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو‘‘۔
(الانعام:153)

درج بالا پہلی آیت سے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جب لوگ دین میں تفرق اختیار کرتے ہیں تو اپنے اپنے تفرق کی اقتداء میں متفرق ہو جاتے ہیں اور دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک لوگ ﷲ کی مقرر کردہ سیدھی راہ ’’ صراطِ مستقیم‘‘ پر چلتے رہتے ہیں ایک رہتے ہیں لیکن جب وہ صراطِ مستقیم سے ہٹ کر دوسرے راستوں کو اختیار کرتے ہیں۔ تو الگ الگ راستوں پہ ہو جانے کی بنا پر متفرق ہو جاتے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ کی وحی سے دیکھا جانا چاہئے کہ وہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ کیا ہے جس پر لوگ چلتے رہیں تو ایک رہتے ہیں‘ جسے سورۃ فاتحہ میں انعام یافتہ لوگوں کا راستہ کہا گیا ہے اور جس کی دعا ہم ہر نماز میں یوں کرتے ہیں کہ:۔

’’ اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ o اِھْدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتُ عَلَیْھِمْ‘‘۔
(الفاتحہ: 4‘ 7)
’’ ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ‘ دکھا ہمیں صراطِ مستقیم (راستہ سیدھا) ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

’’صراطِ مستقیم‘‘ کسی اور کی اطاعت نہ کرنا اور​
صرف ﷲ اور رسول ﷺ (کتاب وسنت) کی اطاعت کرنا​
ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’ اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ o وَّاَنِ اعْبُدُوْنِی ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ‘‘۔
(یٰس:60‘61)
’’ اے اولادِ آدم! کیا میں نے تمہیں ہدایت نہیں کی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا بلاشبہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ صرف میری عبادت کرنا یہی صراطِ مستقیم ہے‘‘۔

’’ وَّلَھَدَیْنَھُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا o وَمَنْ یُّطِعَ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشَّھُدَاَئَ وَالصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُوْلٰئِکَ رَفِیْقًا‘‘۔
(النساء: 68‘ 69)
’’ اور ضرور ہدایت دیتے ہم ان کو صراطِ مستقیم کی اور جس نے اطاعت کی ﷲ کی اور رسول کی سو یہی ہیں جو ان لوگوں کے ساتھ ہیں جن پر ﷲ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور بہت اچھے ہیں یہ لوگ بطورِ رفیق‘‘۔

اوپر پہلی آیت میں شیطان کی بندگی نہ کرنے اور صرف ﷲ کی بندگی کرنے کو صراطِ مستقیم قرار دیا گیا۔ آیت میں تیسری بات (طریق رسول ﷺ کو اختیار کرنا) اگرچہ ذکر نہیں کی گئی مگر دوسری آیت کی بنا پر مذکورہ بالا باتوں (شیطان کی بندگی نہ کرنے‘ صرف ﷲ کی بندگی کرنے) کو رسول ﷲ ﷺ کے طریقے کے مطابق اختیار کرنا صراطِ مستقیم میں خود بخود شامل ہو جاتا ہے۔

اوپر دوسری آیت میں ’’ﷲ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والوں‘‘ کو ان لوگوں کے ساتھ قرار دیا گیا ہے جن پر ﷲ نے انعام فرمایا اور سورۃ فاتحہ سے یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ انعام یافتہ وہی ہیں جو صراطِ مستقیم پر ہیں۔ آیت میں انعام یافتہ لوگوں کے ساتھیوں کا خاص عمل ’’ﷲ اور رسول ﷺ (کتاب و سنت) کی اطاعت ہی بتایا گیا ہے‘ یوں یہی صراطِ مستقیم قرار پاتا ہے‘‘۔

اوپر دوسری آیت میں تیسری بات (غیرﷲ کی اطاعت سے اجتناب) اگرچہ ذکر نہیں کی گئی مگر پہلی آیت کی بنا پر ﷲ اور رسول ﷺ کی اطاعت تب ہی صراطِ مستقیم کے درجے کو پہنچتی ہے جب وہ ہر کسی اور کی اطاعت سے پاک ہو۔

درج بالا تفصیل کے مطابق ’’کسی اور کی اطاعت نہ کرنا اور صرف ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنا ہی صراطِ مستقیم قرار پاتا ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

سبیل المؤمنین ‘ دین قیّم​
’’صراطِ مستقیم‘‘ ہی کے دیگر نام ہیں
کتاب و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’سبیل المؤمنین ‘‘ اور ’’دین قیّم‘‘ وغیرہ انعام یافتہ لوگوں کے اسی راستے صراطِ مستقیم (کسی اور کی اطاعت نہ کرنا اور صرف ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنا) ہی کے دیگر نام ہیں۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَأئَ تْ مَصِیْرًا‘‘۔(النساء:115)
’’ اور جس نے رسول کی مخالفت کی اس کے بعد بھی کہ اس کے سامنے ہدایت واضح ہو چکی تھی اور وہ مؤمنین کے راستے کے خلاف چلا تو ہم اسے اسی (راستے) پر چلنے دیں گے جدھر وہ خود مُڑ گیا اور اسے جہنم میں ڈالیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے‘‘۔

آیتِ بالا میں رسول ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کے مقابل مؤمنین کے راستے (سبیل المؤمنین) کا ذکر ہوا ہے تو رسول ﷺ کی مخالفت کے مقابل مؤمنین کا راستہ ’’صرف ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت‘‘ ہی ہے کیونکہ اسی کا ﷲ مؤمنین کو حکم دیتا ہے اس بناء پر ’’صرف ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت‘‘ ہی سبیل المؤمنین قرار پاتی ہے جیسا کہ ذیل کی آیات سے واضح ہوتا ہے۔

اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ اِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللہِ وَشَآقُوا الرَّسُوْلَ مِنْ بَعَدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ الھُدٰی لَنْ یَّضُرُّوا اللہَ شَیْئًا وَسَیُحْبِطُ اَعْمَالَھُمْ o یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا اَعْمَالَکُمْ‘‘ (محمد: 32‘ 33)
’’ یقینا جن لوگوں نے کفر کیا اور ﷲ کی راہ سے روکا اور رسول کی مخالفت کی اس کے بعد بھی کہ ان کے سامنے ہدایت واضح ہو چکی تھی وہ ﷲ کو ذرہ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور ﷲ ان کے اعمال کو غارت کر دے گا‘ اے لوگو جو ایمان لاے ہواطاعت کرو ﷲ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو‘‘۔

صراطِ مستقیم کے ’’دین قیم‘‘ ہونے کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ قُلْ اِنَّنِیْ ھَدٰنِیْ رَبِّیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ دِیْنًا قِیَمًا مِلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘۔
(الانعام:161)
’’ کہہ دیجئے کہ یقینا ﷲ نے مجھے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دی ‘ دین قیم‘ طریق ابراہیم جو ہر ایک سے کٹ کر صرف ﷲ کا ہو گیا تھا اور مشرکین میں سے نہ تھا‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

سبیل المؤمنین​
مؤمنین کیلئے مقرر کردہ راستہ نہ کہ مؤمنین کا اپنا راستہ
مومنین کیلئے مقرر کردہ ’’اسوہ‘‘ نہ کہ مؤمنین کا اپنا ’’اسوہ‘‘
مؤمنین کیلئے مقرر کردہ نقشِ قدم نہ کہ مؤمنین کے اپنے نقشِ قدم

قرآن سے سبیل المؤمنین (مؤمنین کے راستے) سے وہ راستہ سامنے آتا ہے جو ﷲ نے مؤمنین کیلئے مقرر کیا ہے اور جس پہ مؤمنین کو چلنا ہے یعنی ’’صرف ﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا‘‘ جسے ﷲ نے صراطِ مستقیم کہا ہے اور جس پر چلنے والے‘ اس پر چلنے کی بنا پر‘ انعام یافتہ ہوتے ہیں۔ اس راستے کی اہم چیزی نبی ﷺ کا اسوہ ہے جسے مؤمنین نے اپنانا ہے‘ دوسرے لفظوں میں اس راستے کی ایک اہم چیز نبی ﷺ کے نقش پا ہیں جن پر پائوں رکھتے ہوئے مؤمنین نے آگے بڑھنا ہے۔

یہ بات عیاں ہے کہ مؤمنین کیلئے ﷲ کے مقرر کردہ راستے (صراطِ مستقیم) پر چلتے ہوئے کسی خطا کی بنا پر مؤمنین کا پائوں کبھی رستے سے باہر بھی پڑ سکتا ہے ﷲ کے مقرر کردہ اسوے کو اختیار کرنے میں خطا کی بنا پر مؤمنین سے کچھ کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے اور ﷲ کے مقرر کردہ نقش پاپر قدم رکھتے ہوئے خطا کی بنا پر مؤمنین کے قدم ذرہ ادھر ادھر بھی ہو سکتے ہیں لیکن بعض لوگ سبیل المؤمنین سے یہی راستہ مراد لیتے ہیں جو مؤمنین کی طرف سے صراط مستقیم پر چلتے ہوئے خود ان کے اپنے نقش پا سے متعین ہوتا ہے اور مذکورہ مراد لینے والوں میں سے بعض اس سبیل المؤمنین سے علمائِ کرام کے اجتہادات وغیرہ مراد لیتے ہیں اور بعض امت کا اجماع مراد لیتے ہیں جبکہ کتاب و سنت سے اجماعِ امت کا نہ کوئی اصول ہی ملتا ہے اور نہ ہی اس کی اتباع ہی کا کوئی حکم سامنے آتا ہے پھر خود اس بات (کہ سبیل المؤمنین سے اجماعِ امت مراد ہے) ہی پہ امت کا اجماع ہونے کا کوئی دعویٰ کر سکتا ہے مستزاد اس کے کہ کوئی اجماع امت کو ثابت بھی کر سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ سبیل المؤمنین سے بعض لوگوں کی متعین کردہ مذکورہ بالا مراد اختیار کی جائے تو اس سے ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی بجائے مؤمنین واجب الاتباع ٹھہرتے ہیں جبکہ مؤمنین کا معاملہ بہرحال یہی ہے کہ ’’وہ بھی خود راہ نہیںپا سکتے‘ جب تک کہ ان کی راہنمائی نہ کی جائے‘‘ اور ﷲ نے ایسے لوگوں کی اتباع سے منع کیا ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَّنْ یَّھْدِیْ اِلَی الْحَقِّ قُلِ اللہُ یَھْدِیْ لِلْحَقِّ اَفَمَنْ یَّھْدِیْ اِلَی الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا یَھْدِّیْ اِلَّا اَنْ یُّھْدٰی فَمَا لَکُمْ قف کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ o وَمَا یَتَّبِعْ اَکْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنَّا اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ م بِمَا یَفْعَلُوْنَ ‘‘۔
(یونس: 35‘ 36)
’’ کہو! کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہو؟ کہو وہ صرف ﷲ ہے جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے پھر بھلا بتائو جو حق کی طرف راہنمائی ہے وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود دراہ نہیں پاتا الا یہ کہ اس کی راہنمائی کی جائے۔ آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسے الٹے فیصلے کرتے ہو‘ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ محض ظن کے پیچھے چلے جا رہے ہیں حالانکہ ظن حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا جو کچھ یہ کرتے ہیں ﷲ اس کو خوب جانتا ہے‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

اُمت میں تفرق پر منتج ہونے والی دین میں​
تفرق کی چند صورتیں

کتاب و سنت سے دین میں تفرق کی سامنے آنے والی صورتوں میں سے چند درج ذیل ہیں:۔

1۔ شرک کرنا:

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَاتَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ‘‘۔
’’ دین قائم کرو اور اس میں تفرق مت کرو‘ مشرکین پر یہ بات بہت گراں گزرتی ہے جس کی طرف آپ انہیں دعوت دے رہے ہیں‘‘۔
(الشوری:13)

مشرکین پر ’’ﷲ کی توحید پر قائم ہونے‘‘ ہی کی بات گراں گزرتی ہے اس بنا پر ’’دین قائم کرو‘‘ کے حکم میں سب سے پہلے ’’ہر کسی اور کی اطاعت چھوڑتے ہوئے صرف ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے‘‘ کی بات سامنے آتی ہے اور ’’اس (دین) میں تفرق مت کرو‘‘ کے حکم میں سب سے پہلے ’’ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں کسی اور کی اطاعت (شرک) شامل نہ کرنے‘‘ کی بات سامنے آتی ہے یوں تفرق فی الدین میں سب سے پہلے ’’شرک کرنا‘‘ سامنے آتا ہے اور یہ ایسا تفرق ہے کہ اس میں مبتلا ہونے والا اس کی بنا پر جہاں دیگر افرادِ امت سے الگ نظر آتا ہے وہیں اگر فوراً توبہ نہ کرے تو ﷲ کے دین اور امتِ مسلمہ ہی سے باہر نکل جاتا ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

2۔ کتاب و سنت کی بعض باتیں ماننا اور بعض کا انکار کرنا:


جب ہر کسی اور کی اطاعت چھوڑ کے صرف ﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت اختیار کی جائے تو اس کا تقاضا ہے کہ ﷲ کی اطاعت (ﷲ کے دین) میں پورا پورا داخل ہو جائے‘ اس کے برعکس کتاب ﷲ کی بعض باتوں کو ماننا اور بعض کا انکار کرنا دین میں واضح تفرق اختیار کرنا ہے جیسا کہ اہل کتاب کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’ وَقُلْ اِنِّیْ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُ o کَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ o الَّذِیْنَ جَعَلُوْا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ o فَوَرَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ o عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘۔
(الحجر: 89‘ 92)
’’ اور کہو کہ بیشک میں صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں جیسی (تنبیہ) ہم نے ان تفرقہ پردازوں کی طرف بھیجی تھی جنہوں نے (اپنے) قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا تھا‘ پس قسم ہے تمہارے رب کی ہم ضرور باز پرس کریں گے ان سب سے ان کے کاموں کی جو وہ کرتے رہے ہیں‘‘۔

’’ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضٍ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ‘‘۔
(البقرہ: 85)
’’ کیا تم کتاب کے بعض حصوں کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو تو جو ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا میں ذلیل اور رسوا کیا جائے اور آخرت میں سخت ترین عذاب کی طرف پھیر دئیے جائیں اور ﷲ ان باتوں سے غافل نہیں ہے جو تم کرتے ہو‘‘۔

دین کا یہ تفرق آج کی امتِ مسلمہ میں بھی موجود ہے جس کی بنا پر اپنے اپنے اختیار کردہ تفرق کی بنا پر افرادِ امت الگ الگ گروہوں میں نظر آتے ہیں مثلاً آج کل بعض لوگ صرف تبلیغ کے معاملے کو لئے بیٹھے ہیں اور خلافت جیسے بنیادی مسئلے اور جہاد وغیرہ کو چھوڑے بیٹھے ہیں اور اپنے آپ کو تبلیغی جماعت کہلانا پسند کرتے ہیں۔

بعض لوگ صرف جہاد کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور اس بنا پر اپنے آپ کو مجاہدین کی تحریک‘ حزب‘ لشکر اور جیش وغیر ہی کہلانا پسند کرتے ہیں۔ ان کا صرف جہاد سے غرض رکھنا اور اپنی پارٹیوں کو صرف جہاد کے حوالے سے متعارف کرانا ان کے تفرق فی الدین میں مبتلا ہونے کی نشانی ہے نتیجۃً وہ امت میں جہادی فرقوں کے طور پر الگ نظر آتے ہیں پھر ان کے ارادتاً بھی الگ الگ پارٹیوں میں تقسیم ہونا امت کی وحدت کو پارہ پارہ کئے ہوئے ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

3۔ دین میں مبالغہ اختیار کرنا:


دین میں مبالغہ (غلو) اختیار کرنا یعنی ’’اﷲنے کوئی بات جیسی بتائی ہے اسے ویسے کی ویسی رکھنے کی بجائے بڑھا چڑھا کر اختیار کرنا‘‘ دین میں اختیار کیا جانے والا ایک اور بڑا تفرق ہے جس میں اہل کتاب مبتلا ہوئے تھے جیسا کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ یٰآھْلَ الْکِتٰبَ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیََمَ رَسُوْلُ اللہِ وَکَلِمَتُہٗ اَلْقٰھَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ فَاٰمِنُوْا بِاللّّہِ وَرُسُلِہِ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَۃٌ اِنْتَھُوْا خَیْرًا لَّکُمْ اِنَّمَا اللہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَہٗ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَکَفٰی بِاللہِ وَکِیْلاً ‘‘۔
(النساء:171)
’’ اے اہل کتاب! اپنے دین کے معاملہ میں مبالغہ مت اختیار کرو اور ﷲ کی شان میں حق بات کے سوا اور کچھ مت کہو‘ حقیقت یہ ہے کہ مسیح عیسیٰ ابن مریم صرف ﷲ کا رسول اور اس کا کلمہ تھا جو مریم کی طرف القاء کیا گیا تھا اور روح تھی اس (اللہ) کی طرف سے پس ایمان لائو ﷲ پر اور اس کے رسولون پر اور مت کہو کہ (الٰہ) تین ہیں‘ باز آ جائو بہتر ہو گا تمہارے لئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ﷲ تو الٰہ یکتا ہے‘ مبّرا ہے وہ اس سے کہ اس کی اولاد ہو‘ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور کافی ہے ﷲ کارسازی کیلئے‘‘۔

اہل کتاب نے عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے مبالغہ اختیار کیا اور انہیں ﷲ کا بیٹا تک کہہ دیا اسی طرہ آج کے کلمہ پڑھنے والوں نے نبی ﷺ کے حوالے مبالغہ کیا۔ ان میں سے بعض نے آپ کو زندہ قرار دیا‘ بعض نے آپ کو ہر جگہ حاضر ناظر کہنا شروع کیا‘ بعض آپ کو عالم الغیب بتانے لگے اور بعض نے آپ کی دعائیں سننے اور ان کا جواب دینے والا قرار دے کر پکارنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وہ اپنے اپنے غلو کی اقتداء میں الگ الگ گروہون میں بٹے نظر آتے ہیں۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

4۔ ﷲ کی بندگی نبی ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کی بجائے نئے طریقوں (بدعات) سے کرنا:


ﷲ تعالیٰ کی بندگی نبی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرنا دین کا اہم اصول ہے اور اس کی پابندی نہ کرنا اور بندگی کے خود ساختہ طریقے اختیار کرنا دین میں اختیار کیا جانے والا ایک اور بڑا تفرق ہے جس میں اہل کتاب بھی مبتلا ہوئے تھے مثلاً نصرانیوں کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ وَجَعَلْنَا فِی قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَافَۃً وَّرَحْمَۃً وَرَھْبَانِیَّۃً بَابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ اِلَّا ابْتِغَائَ رِضْوَانَ اللہِ فَمَا رَعُوھَا حَقَّ رَعَایَتِھَا‘‘۔
’’ اور جن لوگوں نے اس (عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام) کی پیروی اختیار کی ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور رحمت ڈال دی اور رہی رہبانیت تو اسے انہوں نے ﷲ کی رضا کیلئے خود ہی گھڑ لیا تھا ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا‘‘۔
(الحدید:27)

ﷲ تعالیٰ نے اپنی بندگی کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے یعنی نبی کا اختیار کردہ طریقہ۔ اہل ایمان جب تک نبی کے طریقے کے مطابق ﷲ کی بندگی پہ قائم رہتے ہیں ایک رہتے ہیں لیکن جونہی وہ بندگی کے خودساختہ طریقے اختیار کرتے ہیں تو اپنے اپنے اختیار کردہ طریقوں کی اقتداء میں الگ الگ نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

5۔ ﷲ کے مقرر کردہ نظمِ اجتماعی (جماعت شرعی وامام شرعی)
کی بجائے غیر شرعی نظم ہائے اجتماعی سے وابستہ ہونا:


نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَایَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ اَوْیَدْعُوْ اِلٰی عَصَبَۃٍ اَوْیَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّـۃٌ‘‘۔
(مسلم‘ باب الامارہ‘ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
’’جو شخص اطاعت سے نکل جائے اور جماعت کو چھوڑ دے اور مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا‘ جو شخص اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے تلے جنگ کرے یا کسی عصبیت کی بنا پر غضب ناک ہو یا عصبیت کی طرف دعوت دے یا عصبیت کی خاطر جنگ کرے اور قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت کا قتل ہے‘‘۔

جماعت شرعی اور امام شرعی کو چھوڑ کر امت میں غیر شرعی اماموں کی اقتداء اور عصبیت کی بنا پر پارٹیاں بنانا امت کو متفرق کر دینا ہے اور ظاہراً یہ صرف امت کا تفرق نظر آتا ہے لیکن حقیقتاً یہ بھی دین میں تفرق ہے کیونکہ ایسا کرنے سے دین ہی میں منع کیا گیا ہے۔ آج امت میں ایسی پارٹیوں کی انتہاء نہیں جو اندھی تقلید میں ایسے لوگوں کو امام بنا کے بنائی گئی ہیں جن کے امام ہونے کیلئے کوئی شرعی دلیل نہیں اور پھر زبان‘ رنگ ‘ نسل ‘ قوم‘ قبیلے اور علاقے کی عصبیت کی بنا پر بننے والی پارٹیوں کا بھی کوئی شمار نہیں۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

’’سنگینی تفرق‘‘ علم آ جانے کے باوجود محض​
آپس کی ضد کی بنا پر تفرق اختیار کرنا​
اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ وَمَا تَفَرَّقُوْا اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا م بَیْنَھُمْ وَلَوْ لاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیْنَھُمْ‘‘۔
(الشوری:14)
’’ اور نہیں تفرقے میں پڑے لوگ مگر بعد اس کے کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا اور فقط آپس کی ضد کے باعث‘ اگر ایک وقتِ مقرر تک کیلئے تیرے رب کی بات طے نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے مابین فیصلہ چکا دیا جاتا‘‘۔

’’ وَلَا تَکُوْنُوْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ اُوْلٰئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ‘‘۔
(آل عمران:105)
’’ اور نہ ہو جانا تم ان لوگوں کی طرح جنہوں نے تفرق اختیار کیا اور اختلاف میں مبتلا ہوگئے اس کے بعد بھی کہ آ چکے تھے ان کے پاس واضح احکام اور یہی لوگ ہیں جن کیلئے ہے عذابِ عظیم‘‘۔


دین میں تفرق! دین کی اقامت کی ضد
اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ‘‘۔
(الشوری:13)
’’ دین قائم کرو اور اس میں تفرق مت کرو‘‘۔

آیتِ بالا میں ’’اس (دین) میں تفرق مت کرو‘‘ کا حکم ’’دین قائم کرو‘‘ کے حکم کے مقابل آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں تفریق دین کی اقامت کی ضد ہے۔ اگر دین میں تفرق ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دین قائم نہیں ہے اور دین قائم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس میں تفرق ختم کیا جائے۔
۔
 
Top