• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

1۔ جماعت: امت/مسلمانوں کے کتاب و سنت پہ​
ﷲ کے حکم کے مطابق قائم افراد:​
نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ اِنَّ اَھْلِ الْکِتَابَیْنِ افْتَرَقُوْا فِیْ دِیْنِھِمْ عَلٰی ثِنَتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً وَاِنَّ ھٰذِہِ الْاُمَّۃَ سَتَفْتَرِقُ عَلٰی ثَلَاثٍ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃً یَعْنِیْ الْاَھْوَائَ کُلُّھَا فِیْ النَّارِ اِلَّاوَاحِدَۃً وَھِیَ الْجَمَاعَۃُ وَاِنَّہٗ سَیَخْرُجُ فِی اُمَّتِی اَقْوَامٌ تَجَارٰی بِھِمْ تِلْکَ الْاَھْوَائُ کَمَا یَتَجَارَی الْکَلْبُ بِصَاحِبِہٖ لَا یَبْقِی مِنْہُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ اِلَّا دَخَلَہٗ‘‘۔
(احمد‘ مسند الشامیین‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ )
’’ دونوں اہل کتاب اپنے دین میں بہتر ملتوں (گروہوں) میں متفرق ہوئے اور یہ امت تہتر‘ اھواء پر مبنی ملتوی‘ میں متفرق ہو جائے گی سب کی سب جہنم میں جائیں گی سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہو گی اور میری امت میں بہت سے گروہ ایسے ہوں گے جن میں یہ اھواء ایسے سرائیت کر جائیں گی جیسے باولے کتے کے کاٹے میں اس کا زہر سرائیت کر جاتا ہے اس کی کوئی رگ‘ کوئی جوڑ اس کے اثر سے سلامت نہیں رہتا‘‘۔

گزشتہ صفحات میں جانا جا چکا ہے کہ ’’اھواء‘‘ کتاب و سنت کے علاوہ واجب الاتباع بنائی جانے والی ہر بات (فلسفے‘ نظرئیے‘ طریقے‘ قانون و نظام وغیرہ) کو کہتے ہیں اور اوپر بیان ہونے والی حدیث میں امت کی ’’جماعت ملت‘‘ کے امت کی ’’اھواء پر مبنی ملتوں‘‘ کے مقابل ذکر ہونے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ امت کی ’’جماعت ملت‘‘ اھواء کی بجائے لازماً کتاب و سنت پہ ﷲ کے حکم کے مطابق قائم ہو گی۔

ایک اور حدیث میں امت کی اس ’’جماعت ملت‘‘ کو مسلمانوں کی جماعت ملت کا نام دیا گیا ہے اور اھواء پر مبنی ملتوں کو ’’جہنم کے دروازوں کی دعوت دینے والے‘‘ اور ’’ یہ فرقے‘‘ کہا گیا ہے۔
(حذیفہ بن یمان سے روایت کردہ یہ حدیث آگے رضی اللہ عنہ صفحہ: 169 پر درج ہے)۔

’’جماعت‘‘ امت کے کتاب و سنت پہ ﷲ کے حکم کے مطابق قائم افراد کو بھی کہتے ہیں اس کا ایک اور واضح ثبوت نبی ﷺ کا وہ ارشاد بھی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ:

’’ وَاَمَا تَرْکُ السُّنَّۃِ فَالْخُرُوْجُ مِنَ الْجَمَاعَۃِ ‘‘۔
’’ اور جس نے سنت کو ترک کیا پس وہ جماعت سے خارج ہوا‘‘۔

نبی ﷺ کے ارشاد کا متن ہے کہ:

’’اَلصَّلَاۃُ الْمَکْتَوْبَۃُ اِلَی الصَّلَاۃِ الَّتِیْ بَعْدَھَا کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا قَالَ وَالْجُمُعَۃُ اِلَی الْجُمُعَۃِ وَالشَّھْرُ اِلَی الشَّھْرِ یَعْنِی رَمْضَانَ اِلَی رَمْضَانَ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا قَالَ ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذٰلِکَ اِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ (قَالَ فَعَرَفْتُ اَنَّ ذٰلِکَ الْاَمْرُ حَدَثَ) اِلَّا مِنَ الْاِشْرَاکِ بِاللہِ وَنَکْثِ الصَّفْقَۃِ وَتَرْکِ السُّنَّۃِ قَالَ اَمَّا نَکْثُ الصَّفْقَۃِ اِنْ تَبَایِعَ رَجُلاً ثُمَّ تَخَالِفَ اِلَیْہِ تُقَاتِلُہُ بِسَیْفِکَ وَاَمَّا تَرْکُ السُّنَّۃِ فَالْخُرُوْجُ مِنَ الْجَمَاعَۃِ ‘‘۔
(احمد‘ باقی مسند المکثرین ‘ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
’’ ایک نماز اپنے بعد کی نمازوں تک کے (گناہوں) کیلئے کفارہ ہے‘ ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک ماہِ رمضان دوسرے ماہِ رمضان تک کیلئے کفارہ ہے سوائے تین قسم کے گناہوں کے (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے جان لیا کہ امر وقوع پذیر ہو چکا ) شرک باللہ‘ بات سے پھر جانا اور ترکِ سنت۔ پھر آپ نے فرمایا بات سے پھرنے کا مطلب ہے کہ تم ایک آدمی کے ہاتھ پر بیعت کرو پھر اس کی مخالفت پر کمربستہ ہو جائو اور تلوار سے اس کے ساتھ جنگ کرو اور جس نے سنت کو ترک کیا پس وہ جماعت سے خارج ہوا‘‘۔

جماعت سے عام طور پر افراد کا گروہ ہی مراد لیا جاتا ہے یہ چیز بھی اگرچہ جماعت کے مفہوم میں داخل ہے لیکن جہاں تک ’’ﷲ کے حکم کے مطابق کتاب و سنت پر قائم افراد‘‘ کا تعلق ہے تو ایسا اگر ایک بھی مرد ہو گا تو وہ اپنی ذات میں جماعت ہو گا جسا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنی ذات میں امت تھے‘ آپ علیہ السلام کے بارے میں ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِلّٰہِ حَنِیْفًا وَلَمْ یَکْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘
’’ واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم اپنی ذات میں امت تھا‘ ﷲ کا مطیع فرمان‘ سب سے کٹ کر صرف ﷲ ہی کاہور رہنے والا وہ مشرکین میں سے نہ تھا‘‘۔
(النحل:120)۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

2۔ جماعت: افراد کی اجتماعیت:​
نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ اَسْتَوْصُوا بِاَصْحَابِی خَیْرًا ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ حَتَّی اِنَّ الرَّجُلَ لَیَبْتَدِئْ بِالشَّھَادَۃِ قَبْلَ اَنْ یُسْأَلَھَا فَمَنْ اَرَادَ مِنْکُمْ بَحْبَحَۃَ الْجَنَّۃِ فَلْیَلْزَمِ الْجَمَاعَۃَ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَھُوَ مِنَ الْاِثْنَیْنِ اَبْعَدُ لَا یَخْلُوَنَّ اَحَدُکُمْ بِامْرَاَۃٍ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ ثَالِثُھُمَا وَمَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہُ وَسَائَ تْہُ سَیِّئَتُہُ فَھُوَ مُؤْمِنٌ‘‘۔
(احمد‘ مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ‘ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ)
’’ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خیر پہ باور کرتے رہنا پھر جو ان کے بعد آئیں گے پھر جو ان کے بعد آئیں گے پھر لوگ جھوٹ عام کریں گے حتی کہ آدمی مانگے بغیر گواہی دینے لگے گا چنانچہ تم میں سے جو کوئی جنت کی عیش اور ٹھاٹھ چاہتا ہے اسے چاہئے کہ جماعت کو لازم پکڑے کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ ہوتا ہے اور جب دو ہوں تو دور ہوتا ہے (مگر) تم میں سے کوئی اکیلا مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے اور جس کو اس کی نیکی خوش کرے اور اس کی برائی پریشان کرے تو وہ مؤمن ہے‘‘۔

درج بالا حدیث میں ’’شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ ہوتا ہے اور جب دو ہوں تو نسبتاً دور ہوتا ہے‘‘ کے الفاظ کے ساتھ لزوم جماعت کا حکم افراد کے باہم مجتمع ہو کر اجتماعیت (گروہ) میں ڈھلنے کے حکم کے طور پر سامنے آتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’افراد کی اجتماعیت‘ اجتماع‘ گروہ‘‘ بھی جماعت کی ایک صورت ہے۔

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

3۔ جماعت: مسلمانوں کے ’’جماعت افراد‘‘ کی اجتماعیت:​
نبی ﷺ جماعت سے وابستگی کا حکم بھی فرماتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جہنم کے دروازوں کی دعوت دینے والے فرقوں سے الگ رہنے کا حکم بھی فرماتے ہیں (دیکھئے حدیثِ حذیفہ رضی اللہ عنہ صفحہ: 169) اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مجتمع انہی لوگوں کے ساتھ ہوا جا سکتا ہے جو خود بھی ’’جماعت‘‘ ہوں یعنی کتاب و سنت پہ چلنے والے ہوں یوں جماعت (بمعنی اجتماعیت) بھی انہی لوگوں کی اجتماعیت کو کہا جا سکے گا جو خود بھی جماعت (بمعنی کتاب و سنت پہ قائم افراد) ہون‘ انہی کی جماعت (اجتماعیت) ﷲ کو مطلوب ہے اور یہی شرعی جماعت کہلا سکتی ہے۔ اس کے برعکس بدعات پر چلنے والوں کی اجتماعیتوں کو اھواء پر مبنی ملتیں اور جہنم کے دروازوں کی دعوت دینے والے فرقے ہی کہا جائے گا۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

4۔ جماعت: مسلمانوں کا شرعی امیر و امام:​
نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ مَنْ رَاٰی مِنْ اَمِیْرِہٖ شَیْئًا فَکَرِھَہٗ فَلْیَصْبِرْ فَاِنَّہٗ لَیْسَ اَحَدٌ یُفَارِقُ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَیَمُوْتُ اِلَّامَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً‘‘۔
’’ جو کوئی اپنے امیر میں ایسی بات دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو اسے چاہئے کہ صبر کرے کیونکہ جو کوئی جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہوا اور مر گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی‘‘۔
(بخاری‘ کتاب الاحکام‘ عبدﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ)

حدیثِ بالا سے دو باتیں سامنے آتی ہیں:۔

(الف): ایک یہ کہ مسلمانوں کا امیر بھی جماعت کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔

(ب): دوسری یہ کہ مسلمانوں کا امیر اگر جماعت کی صورت ہے تو پھر یہ ایسا امیر ہی ہو سکتا ہے جو کتاب و سنت میں بتائی گئی شرعی دلیلوں کی بنا پر وجود میں آیا ہو ورنہ جیسے کتاب و سنت سے ہٹے ہوئے لوگ جماعت نہیں ہو سکتے‘ اسی طرح کتاب و سنت میں بیان کردہ شرائط کو دیکھے بغیر محض اندھی تقلید میں اختیار کیا گیا امیر بھی ’’جماعت‘‘ کی صورت نہیں ہو سکتا کیونکہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَایَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ اَوْیَدْعُوْ اِلٰی عَصَبَۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ وَمَنْ خَرَجَ عَلَی اُمَّتِیْ یَضْرِبُ بَرَّھَا وَفَاجِرَھَا لَایَتَحَاشٰی مِنْ مُؤْمِنِھَا وَلَا یَفِی لِذِیْ عَھْدِ ھَا فَلَیْسَ مِنِّیْ وَلَسْتُ مِنْہُ‘‘۔
(مسلم‘ باب الامارہ‘ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )
’’ جو شخص اطاعت سے نکل جائے اور جماعت کو چھوڑ دے اور مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا‘ جو شخص اندھا دھند (اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے جنگ کرے یا کسی عصبیت کی بنا پر غضب ناک ہو یا عصبیت کی طرف دعوت دے یا عصبیت کی خاطر جنگ کرے اور مارا جائے وہ جاہلیت کی موت مرا اور جس شخص نے میری امت پر خروج کیا اور اچھوں اور بروں سب کو قتل کیا کسی مومن کا لحاظ کیا نہ کسی کا کیا ہوا عہد پورا کیا وہ مجھ میں سے نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
نبی کی زندگی ’’نبی‘‘ اور نبی کے بعد ’’خلیفہ‘‘
امت کا شرعی امیر و امام ہوتا ہے
نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ کَانَتْ بَنُوْا اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبْیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیِّ وَاِنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَائَ فَیَکْثُرُوْنَ قَالُوْ فَمَا تَأمُرُنَا قَالَ فُوْا بِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ فَاْلْاَوَّلِ اَعْطُوْھُمْ حَقَّھُمْ فَاِنَّ اللہَ سَائِلُھُمْ عَنْ مَّا استرعاھم‘‘۔
(بخاری‘ باب احادیث الانبیاء‘ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )
’’ تھے بنی اسرائیل ‘ ان کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے جب بھی کوئی نبی فوت ہو جاتا تو اس کے بعد نبی ہی آتا تھا‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت سے ہوں گے‘ لوگوں نے عرض کیا پھر آپ ہم کو کیا حکم فرماتے ہیں‘ آپ ﷺ نے فرمایا: وفاداری کرو پہلی بیعت (کے حامل) کے ساتھ اور پھر پہلی بیعت کے ساتھ ہم انہیں ان کا حق دو‘ ان سے ان کی رعیت کے بارے میں ﷲ پوچھے گا‘‘۔

حدیث بالا سے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ دورِ انبیاء میں نبی ہی امت کا امیر شرعی ہوتا تھا جو امت کی سیاست کا ذمہ دار ہوتا تھا اور نبی ﷺ کے بعد خلفاء امت کے ’’شرعی امیر‘‘ ہوں گے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

تفرقہ پڑ جائے تو وحدت میں ڈھلنے کی واحد صورت فیصلے​
کیلئے کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا اور ان کے فیصلے پر جھُک جانا​
ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً‘‘۔
(النساء:59)
’’ اے ایمان والو اطاعت کرو ﷲ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور صاحبانِ امر کی جو تم (اہل ایمان) میں سے ہوں۔ اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اسے لوٹا دو فیصلے کیلئے ﷲ اور اس کے رسول کی طرف اگر تم ﷲ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے ہو‘ یہی چیز اچھی ہے اور انجام کے اعتبار سے بہترین بھی‘‘۔

’’ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِن رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللہِ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْآ اَنْفُسَھُمْ جَائُ وْکَ فَاسْتَغْفِرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَلَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا o فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یَّحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِی اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘۔
(النساء:65)
’’ ہم نے ہر رسول کو صرف اس لئے بھیجا کہ ﷲ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تیرے پاس آ جاتے اور ﷲ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کیلئے استغفار کرتے تو یقینا یہ لوگ ﷲ کو معاف کرنے والا پاتے۔ سو قسم ہے تیرے رب کی ! یہ مومن ہو ہی نہیں سکتے جب تک یہ آپس کے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو کچھ فیصلہ آپ کر دیں اسے دل میں ذرّہ سی بھی تنگی محسوس کئے بغیر سربہ سر تسلیم نہ کرلیں‘‘۔

’’ وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًا‘‘
’’ کسی مومن مرد اور کسی عورت کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ جب ﷲ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر اسے اپنے معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار رہے اور جو ﷲ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔
(الاحزاب:36)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

باب سوئم:​
مسلمانوں کی جماعت کے وحدت میں ڈھلنے کی عملی صورت
جماعت کی اہمیت کے حوالے سے نبی ﷺ کے ارشادات پیچھے بھی گزر چکے ہیں‘ آپ کے ایک ارشاد کے مطابق ’’جماعت کے ساتھ ﷲ کا ہاتھ ہے‘‘ کتاب و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’حبل ﷲ سے وابستگی‘‘ اگر مسلمانوں کے وحدت میں ڈھلنے کی بنیاد ہے تو ’’جماعت‘‘ اس وابستگی کا لازمی تقاضا اور ان کی وحدت کی وہ عملی صورت ہے جو ﷲ تعالیٰ کو مطلوب ہے‘ کتاب و سنت سے دیکھا جانا چاہئے کہ وہاں اس جماعت سے کیا مراد ہے؟
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

1۔ جماعت: امت/ مسلمانوں کے کتاب و سنت پہ​
ﷲ کے حکم کے مطابق قائم افراد:​

نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ اِنَّ اَھْلِ الْکِتَابَیْنِ افْتَرَقُوْا فِیْ دِیْنِھِمْ عَلٰی ثِنَتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً وَاِنَّ ھٰذِہِ الْاُمَّۃَ سَتَفْتَرِقُ عَلٰی ثَلَاثٍ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃً یَعْنِیْ الْاَھْوَائَ کُلُّھَا فِیْ النَّارِ اِلَّاوَاحِدَۃً وَھِیَ الْجَمَاعَۃُ وَاِنَّہٗ سَیَخْرُجُ فِی اُمَّتِی اَقْوَامٌ تَجَارٰی بِھِمْ تِلْکَ الْاَھْوَائُ کَمَا یَتَجَارَی الْکَلْبُ بِصَاحِبِہٖ لَا یَبْقِی مِنْہُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ اِلَّا دَخَلَہٗ‘‘۔
(احمد‘ مسند الشامیین‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ )

’’ دونوں اہل کتاب اپنے دین میں بہتر ملتوں (گروہوں) میں متفرق ہوئے اور یہ امت تہتر‘ اھواء پر مبنی ملتوی‘ میں متفرق ہو جائے گی سب کی سب جہنم میں جائیں گی سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہو گی اور میری امت میں بہت سے گروہ ایسے ہوں گے جن میں یہ اھواء ایسے سرائیت کر جائیں گی جیسے باولے کتے کے کاٹے میں اس کا زہر سرائیت کر جاتا ہے اس کی کوئی رگ‘ کوئی جوڑ اس کے اثر سے سلامت نہیں رہتا‘‘۔

گزشتہ صفحات میں جانا جا چکا ہے کہ ’’اھواء‘‘ کتاب و سنت کے علاوہ واجب الاتباع بنائی جانے والی ہر بات (فلسفے‘ نظرئیے‘ طریقے‘ قانون و نظام وغیرہ) کو کہتے ہیں اور اوپر بیان ہونے والی حدیث میں امت کی ’’جماعت ملت‘‘ کے امت کی ’’اھواء پر مبنی ملتوں‘‘ کے مقابل ذکر ہونے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ امت کی ’’جماعت ملت‘‘ اھواء کی بجائے لازماً کتاب و سنت پہ ﷲ کے حکم کے مطابق قائم ہو گی۔

ایک اور حدیث میں امت کی اس ’’جماعت ملت‘‘ کو مسلمانوں کی جماعت ملت کا نام دیا گیا ہے اور اھواء پر مبنی ملتوں کو ’’جہنم کے دروازوں کی دعوت دینے والے‘‘ اور ’’ یہ فرقے‘‘ کہا گیا ہے۔
(حذیفہ بن یمان سے روایت کردہ یہ حدیث آگے رضی اللہ عنہ صفحہ: 169 پر درج ہے)۔

’’جماعت‘‘ امت کے کتاب و سنت پہ ﷲ کے حکم کے مطابق قائم افراد کو بھی کہتے ہیں اس کا ایک اور واضح ثبوت نبی ﷺ کا وہ ارشاد بھی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ:

’’ وَاَمَا تَرْکُ السُّنَّۃِ فَالْخُرُوْجُ مِنَ الْجَمَاعَۃِ ‘‘۔
’’ اور جس نے سنت کو ترک کیا پس وہ جماعت سے خارج ہوا‘‘۔

نبی ﷺ کے ارشاد کا متن ہے کہ:

’’اَلصَّلَاۃُ الْمَکْتَوْبَۃُ اِلَی الصَّلَاۃِ الَّتِیْ بَعْدَھَا کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا قَالَ وَالْجُمُعَۃُ اِلَی الْجُمُعَۃِ وَالشَّھْرُ اِلَی الشَّھْرِ یَعْنِی رَمْضَانَ اِلَی رَمْضَانَ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا قَالَ ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذٰلِکَ اِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ (قَالَ فَعَرَفْتُ اَنَّ ذٰلِکَ الْاَمْرُ حَدَثَ) اِلَّا مِنَ الْاِشْرَاکِ بِاللہِ وَنَکْثِ الصَّفْقَۃِ وَتَرْکِ السُّنَّۃِ قَالَ اَمَّا نَکْثُ الصَّفْقَۃِ اِنْ تَبَایِعَ رَجُلاً ثُمَّ تَخَالِفَ اِلَیْہِ تُقَاتِلُہُ بِسَیْفِکَ وَاَمَّا تَرْکُ السُّنَّۃِ فَالْخُرُوْجُ مِنَ الْجَمَاعَۃِ ‘‘۔
(احمد‘ باقی مسند المکثرین ‘ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
’’ ایک نماز اپنے بعد کی نمازوں تک کے (گناہوں) کیلئے کفارہ ہے‘ ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک ماہِ رمضان دوسرے ماہِ رمضان تک کیلئے کفارہ ہے سوائے تین قسم کے گناہوں کے (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے جان لیا کہ امر وقوع پذیر ہو چکا ) شرک باللہ‘ بات سے پھر جانا اور ترکِ سنت۔ پھر آپ نے فرمایا بات سے پھرنے کا مطلب ہے کہ تم ایک آدمی کے ہاتھ پر بیعت کرو پھر اس کی مخالفت پر کمربستہ ہو جائو اور تلوار سے اس کے ساتھ جنگ کرو اور جس نے سنت کو ترک کیا پس وہ جماعت سے خارج ہوا‘‘۔

جماعت سے عام طور پر افراد کا گروہ ہی مراد لیا جاتا ہے یہ چیز بھی اگرچہ جماعت کے مفہوم میں داخل ہے لیکن جہاں تک ’’ﷲ کے حکم کے مطابق کتاب و سنت پر قائم افراد‘‘ کا تعلق ہے تو ایسا اگر ایک بھی مرد ہو گا تو وہ اپنی ذات میں جماعت ہو گا جسا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنی ذات میں امت تھے‘ آپ علیہ السلام کے بارے میں ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِلّٰہِ حَنِیْفًا وَلَمْ یَکْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘
’’ واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم اپنی ذات میں امت تھا‘ ﷲ کا مطیع فرمان‘ سب سے کٹ کر صرف ﷲ ہی کا ہور رہنے والا ور وہ مشرکین میں سے نہ تھا‘‘۔
(النحل:120)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
2۔ جماعت: افراد کی اجتماعیت:

نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ اَسْتَوْصُوا بِاَصْحَابِی خَیْرًا ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ حَتَّی اِنَّ الرَّجُلَ لَیَبْتَدِئْ بِالشَّھَادَۃِ قَبْلَ اَنْ یُسْأَلَھَا فَمَنْ اَرَادَ مِنْکُمْ بَحْبَحَۃَ الْجَنَّۃِ فَلْیَلْزَمِ الْجَمَاعَۃَ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَھُوَ مِنَ الْاِثْنَیْنِ اَبْعَدُ لَا یَخْلُوَنَّ اَحَدُکُمْ بِامْرَاَۃٍ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ ثَالِثُھُمَا وَمَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہُ وَسَائَ تْہُ سَیِّئَتُہُ فَھُوَ مُؤْمِنٌ‘‘۔
(احمد‘ مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ‘ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ)
’’ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خیر پہ باور کرتے رہنا پھر جو ان کے بعد آئیں گے پھر جو ان کے بعد آئیں گے پھر لوگ جھوٹ عام کریں گے حتی کہ آدمی مانگے بغیر گواہی دینے لگے گا چنانچہ تم میں سے جو کوئی جنت کی عیش اور ٹھاٹھ چاہتا ہے اسے چاہئے کہ جماعت کو لازم پکڑے کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ ہوتا ہے اور جب دو ہوں تو دور ہوتا ہے (مگر) تم میں سے کوئی اکیلا مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے اور جس کو اس کی نیکی خوش کرے اور اس کی برائی پریشان کرے تو وہ مؤمن ہے‘‘۔

درج بالا حدیث میں ’’شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ ہوتا ہے اور جب دو ہوں تو نسبتاً دور ہوتا ہے‘‘ کے الفاظ کے ساتھ لزوم جماعت کا حکم افراد کے باہم مجتمع ہو کر اجتماعیت (گروہ) میں ڈھلنے کے حکم کے طور پر سامنے آتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’افراد کی اجتماعیت‘ اجتماع‘ گروہ‘‘ بھی جماعت کی ایک صورت ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
3۔ جماعت: مسلمانوں کے ’’جماعت افراد‘‘ کی اجتماعیت:
نبی ﷺ جماعت سے وابستگی کا حکم بھی فرماتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جہنم کے دروازوں کی دعوت دینے والے فرقوں سے الگ رہنے کا حکم بھی فرماتے ہیں (دیکھئے حدیثِ حذیفہ رضی اللہ عنہ صفحہ: 169) اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مجتمع انہی لوگوں کے ساتھ ہوا جا سکتا ہے جو خود بھی ’’جماعت‘‘ ہوں یعنی کتاب و سنت پہ چلنے والے ہوں یوں جماعت (بمعنی اجتماعیت) بھی انہی لوگوں کی اجتماعیت کو کہا جا سکے گا جو خود بھی جماعت (بمعنی کتاب و سنت پہ قائم افراد) ہون‘ انہی کی جماعت (اجتماعیت) ﷲ کو مطلوب ہے اور یہی شرعی جماعت کہلا سکتی ہے۔ اس کے برعکس بدعات پر چلنے والوں کی اجتماعیتوں کو اھواء پر مبنی ملتیں اور جہنم کے دروازوں کی دعوت دینے والے فرقے ہی کہا جائے گا۔
۔
 
Top