محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
1۔ جماعت: امت/مسلمانوں کے کتاب و سنت پہ
ﷲ کے حکم کے مطابق قائم افراد:
نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:’’ اِنَّ اَھْلِ الْکِتَابَیْنِ افْتَرَقُوْا فِیْ دِیْنِھِمْ عَلٰی ثِنَتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً وَاِنَّ ھٰذِہِ الْاُمَّۃَ سَتَفْتَرِقُ عَلٰی ثَلَاثٍ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃً یَعْنِیْ الْاَھْوَائَ کُلُّھَا فِیْ النَّارِ اِلَّاوَاحِدَۃً وَھِیَ الْجَمَاعَۃُ وَاِنَّہٗ سَیَخْرُجُ فِی اُمَّتِی اَقْوَامٌ تَجَارٰی بِھِمْ تِلْکَ الْاَھْوَائُ کَمَا یَتَجَارَی الْکَلْبُ بِصَاحِبِہٖ لَا یَبْقِی مِنْہُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ اِلَّا دَخَلَہٗ‘‘۔
(احمد‘ مسند الشامیین‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ )
’’ دونوں اہل کتاب اپنے دین میں بہتر ملتوں (گروہوں) میں متفرق ہوئے اور یہ امت تہتر‘ اھواء پر مبنی ملتوی‘ میں متفرق ہو جائے گی سب کی سب جہنم میں جائیں گی سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہو گی اور میری امت میں بہت سے گروہ ایسے ہوں گے جن میں یہ اھواء ایسے سرائیت کر جائیں گی جیسے باولے کتے کے کاٹے میں اس کا زہر سرائیت کر جاتا ہے اس کی کوئی رگ‘ کوئی جوڑ اس کے اثر سے سلامت نہیں رہتا‘‘۔
گزشتہ صفحات میں جانا جا چکا ہے کہ ’’اھواء‘‘ کتاب و سنت کے علاوہ واجب الاتباع بنائی جانے والی ہر بات (فلسفے‘ نظرئیے‘ طریقے‘ قانون و نظام وغیرہ) کو کہتے ہیں اور اوپر بیان ہونے والی حدیث میں امت کی ’’جماعت ملت‘‘ کے امت کی ’’اھواء پر مبنی ملتوں‘‘ کے مقابل ذکر ہونے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ امت کی ’’جماعت ملت‘‘ اھواء کی بجائے لازماً کتاب و سنت پہ ﷲ کے حکم کے مطابق قائم ہو گی۔
ایک اور حدیث میں امت کی اس ’’جماعت ملت‘‘ کو مسلمانوں کی جماعت ملت کا نام دیا گیا ہے اور اھواء پر مبنی ملتوں کو ’’جہنم کے دروازوں کی دعوت دینے والے‘‘ اور ’’ یہ فرقے‘‘ کہا گیا ہے۔
(حذیفہ بن یمان سے روایت کردہ یہ حدیث آگے رضی اللہ عنہ صفحہ: 169 پر درج ہے)۔
’’جماعت‘‘ امت کے کتاب و سنت پہ ﷲ کے حکم کے مطابق قائم افراد کو بھی کہتے ہیں اس کا ایک اور واضح ثبوت نبی ﷺ کا وہ ارشاد بھی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ وَاَمَا تَرْکُ السُّنَّۃِ فَالْخُرُوْجُ مِنَ الْجَمَاعَۃِ ‘‘۔
’’ اور جس نے سنت کو ترک کیا پس وہ جماعت سے خارج ہوا‘‘۔
نبی ﷺ کے ارشاد کا متن ہے کہ:
’’اَلصَّلَاۃُ الْمَکْتَوْبَۃُ اِلَی الصَّلَاۃِ الَّتِیْ بَعْدَھَا کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا قَالَ وَالْجُمُعَۃُ اِلَی الْجُمُعَۃِ وَالشَّھْرُ اِلَی الشَّھْرِ یَعْنِی رَمْضَانَ اِلَی رَمْضَانَ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا قَالَ ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذٰلِکَ اِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ (قَالَ فَعَرَفْتُ اَنَّ ذٰلِکَ الْاَمْرُ حَدَثَ) اِلَّا مِنَ الْاِشْرَاکِ بِاللہِ وَنَکْثِ الصَّفْقَۃِ وَتَرْکِ السُّنَّۃِ قَالَ اَمَّا نَکْثُ الصَّفْقَۃِ اِنْ تَبَایِعَ رَجُلاً ثُمَّ تَخَالِفَ اِلَیْہِ تُقَاتِلُہُ بِسَیْفِکَ وَاَمَّا تَرْکُ السُّنَّۃِ فَالْخُرُوْجُ مِنَ الْجَمَاعَۃِ ‘‘۔
(احمد‘ باقی مسند المکثرین ‘ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
’’ ایک نماز اپنے بعد کی نمازوں تک کے (گناہوں) کیلئے کفارہ ہے‘ ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک ماہِ رمضان دوسرے ماہِ رمضان تک کیلئے کفارہ ہے سوائے تین قسم کے گناہوں کے (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے جان لیا کہ امر وقوع پذیر ہو چکا ) شرک باللہ‘ بات سے پھر جانا اور ترکِ سنت۔ پھر آپ نے فرمایا بات سے پھرنے کا مطلب ہے کہ تم ایک آدمی کے ہاتھ پر بیعت کرو پھر اس کی مخالفت پر کمربستہ ہو جائو اور تلوار سے اس کے ساتھ جنگ کرو اور جس نے سنت کو ترک کیا پس وہ جماعت سے خارج ہوا‘‘۔
جماعت سے عام طور پر افراد کا گروہ ہی مراد لیا جاتا ہے یہ چیز بھی اگرچہ جماعت کے مفہوم میں داخل ہے لیکن جہاں تک ’’ﷲ کے حکم کے مطابق کتاب و سنت پر قائم افراد‘‘ کا تعلق ہے تو ایسا اگر ایک بھی مرد ہو گا تو وہ اپنی ذات میں جماعت ہو گا جسا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنی ذات میں امت تھے‘ آپ علیہ السلام کے بارے میں ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
’’اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِلّٰہِ حَنِیْفًا وَلَمْ یَکْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘
’’ واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم اپنی ذات میں امت تھا‘ ﷲ کا مطیع فرمان‘ سب سے کٹ کر صرف ﷲ ہی کاہور رہنے والا وہ مشرکین میں سے نہ تھا‘‘۔
(النحل:120)۔
۔