• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

جس کی اطاعت کا آپ ﷺ حکم دیں
اس کی اطاعت حقیقت میں آپ ﷺ کی اطاعت ہے
نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللہَ وَمَنْ یُّطِع الْاَمِیْرَ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ یَّعْصِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِیْ وَاِنَّمَا الْاَمَامُ جُنَۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ وَیُتَّقٰی بِہٖ فَاِنْ اَمَرَ بِتَقْوَی اللہِ وَعَدَلَ فَاِنَّ لَہٗ بِذَالِکَ اَجْرً وَاِنْ قَالَ بِغَیْرِہٖ فَاِنَّ عَلَیْہِ مِنْہُ‘‘۔
’’ جس نے میری اطاعت کی پس اس نے ﷲ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی پس اس نے ﷲ کی نافرمانی کی‘ جس نے امیر کی اطاعت کی پس اس نے میری اطاعت کی جس نے امیر کی نافرمانی کی پس اس نے میری نافرمانی کی اور امام ڈھال ہے‘ اسی کی قیادت میں قتال کیا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ دفاع کیا جاتا ہے‘ اگر وہ ﷲ کے ڈر کے ساتھ حکم کرتا ہے اور انصاف کرتا ہے تو اس کیلئے اس کا اجر ہے اور اگر وہ اس کے علاوہ کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے‘‘۔
(بخاری‘ باب الجہاد والسیر‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ )
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

ﷲ کی محبت کے حصول کیلئے ہر کسی اور کی اتباع
چھوڑنا اور صرف نبی ﷺ کی اتباع اختیار کرنا لازم ہے
ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمُ o قُلْ اَطِیْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ‘‘۔

’’ (اے نبی ﷺ ) کہہ دیجئے کہ اگر تم حقیقت میں ﷲ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو‘ ﷲ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائوں کی مغفرت کرے گا‘ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ان سے کہو کہ ﷲ اور رسول کی اطاعت قبول کرو! پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقینا یہ ممکن نہیں کہ ﷲ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہیں‘‘۔
(آل عمران: 31‘ 32)

نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ فَاِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللہِ وَخَیْرُ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ وَ شَرُّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضِلَالَۃ‘‘۔
’’ ﷲ کی تعریف کے بعد سب سے بہترین کلام ﷲ کی کتاب ہے‘ سب سے بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے‘ سب سے بری چیزیں نئی باتیں (بدعات) ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔
(مسلم‘ کتاب الجمعہ‘ جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ )۔


’’ مَنْ اَحْدَثَ فِی اَمْرِنَا ھٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌ‘‘۔
’’ جو شخص ہمارے اس دین میں ایسی بات جاری کرے جو اس میں نہیں ہے تو وہ رد ہے‘‘۔
(مسلم‘ کتاب الاقضیہ‘ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا )۔

’’ مَنْ عَمِلَ عَمِلًا لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌ‘‘۔
’’ جو کوئی ایسا عمل کرے جس پر ہمارا کوئی حکم نہیں پس وہ ردّ ہے‘‘۔
(مسلم‘ کتاب الاقضیہ‘ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا )
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک اسے
’’سب سے زیادہ‘‘ آپ ﷺ سے محبت نہ ہو جائے
نبی ﷺ کے ارشادات ہیں:​
’’ لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ (وَفِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ الْوَارِثِ اَلرَّجُل) حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ اَھْلِہٖ وَمَالِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ‘‘۔
’’ کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا (اور عبد الوارث کی حدیث میں ہے کہ کوئی ’’شخص‘‘ مومن نہیں ہو سکتا) جب تک کہ اس کیلئے میری محبت اپنے گھر والوں‘ اپنے مال اور تمام انسانوں سے زیادہ نہ ہو جائے‘‘۔
(مسلم‘ کتاب الایمان‘ انس رضی اللہ عنہ )

’’ لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّلَدِہٖ وَوَالِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ‘‘۔
’’ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کیلئے میری محبت اپنی اولاد‘ اپنے والدین اور تمام انسانوں سے زیادہ نہ ہو جائے‘‘۔
(مسلم‘ کتاب الایمان‘ انس رضی اللہ عنہ )
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

باب پنجم
طاغوت سے کفر کا حکم اور اُمتِ مسلمہ کی حالت

ﷲ تعالیٰ نے اپنا سہارا اور اپنی ولایت (سرپرستی ‘ مددو نصرت) کو طاغوت سے کفر کے ساتھ ﷲ پر ایمان لانے سے مشروط کیا ہے مگر ایمان کا دم بھرنے والوں کی دنیا بھر میں رسوائی ﷲ کی اس شرط پر ان کے عمل کا جائزہ لینے پر مجبور کرتی ہے۔ ذیل میں اس جائزے سے پہلے عصرِ حاضر کے طواغیت کا جائزہ لیا گیا ہے کہ جن سے کفر ایمان کا اوّلین تقاضا ٹھہرتا ہے۔

عصرِ حاضر کے بڑے بڑے طواغیت

قرآن سے طاغوت کے حوالے سے ملنے والی نشانیوں کے مطابق عصر حاضر کے بڑے بڑے طواغیت درج ذیل سامنے آتے ہیں۔

1۔ انسانوں کیلئے‘ ﷲ کے نازل کردہ قوانین کی بجائے اپنی اھواء سے قانون سازی کرنے والے ادارے مثلاً اقوام متحدہ (UNO) جمہوری ممالک کی قانون ساز اسمبلیاں (پارلیمنٹ) آمروں کے زیر تسلط ممالک میں خود آمر اور ان کی مجالس قانون ساز وغیرہ۔

2۔ ﷲکے نازل کردہ قوانین کی بجائے اقوامِ متحدہ ‘ جمہوری ممالک کی قانون ساز اسمبلیوں‘ آمروں اور ان کی مجالس قانون ساز کے وضع کردہ چارٹر‘ آئین و قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والی عدالتیں مثلاً عالمی عدالتِ انصاف اور مختلف ممالک کی عدالتیں۔

3۔ ﷲ کے نازل کردہ قوانین کی بجائے اقوامِ متحدہ کے قوانین اور دیگر قانون ساز اداروں کے اور اپنی مرضی کے قوانین کے مطابق حکم دینے والے حکمران۔

4۔ ﷲکے نازل کردہ قوانین کو چھوڑ کر اپنی اھواء سے فتویٰ سازی کرنے والے عالم‘ مفتی اور پیر وغیرہ اور ﷲ کے نازل کردہ قوانین کی بجاے اھواء سے جاری کردہ فتوئوں کے مطابق فیصلہ کرنے والے عالم‘ مفتی اور پیر وغیرہ۔

5۔ اپنے آپ کو اور دیگر غیرﷲ (فرشتوں، جنوں، نبیوں، صحابیوں، ولیوں، پیروں، ملنگوں، درویشوں وغیرہ) کو ﷲ کیلئے مخصوص صفات (مثلاً علمِ غیب، دعائیں، سُن سکنے اور غیب سے مدد کر سکنے) کا حامل قرار دینے والے مذہبی پیشوا اور صرف ﷲ سے حاجتیں مانگنے اور صرف اس کے آگے جھکنے کی دعوت دینے کی بجائے غیرﷲ سے حاجتیں مانگتے، ان کے نام کی نذریں، نیازیں دینے، ان کی قبروں پر جھکنے اور انہیں ﷲ کے ہاں وسیلہ قرار دے کر پکارنے کی دعوت دینے والے مذہبی پیشوا وغیرہ۔

6۔ صرف ﷲ پر توکل کی دعوت دینے کی بجائے لوگوں کو جادو، ٹونوں، تعویذ، گنڈوں، ستاروں، ہاتھوں کی لکیروں اور شگون پر لگانے والے جادوگر، کاہن، پامسٹ اور پیر وغیرہ۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
طاغوت کی اطاعت کے حوالے سے امت کی حالت

جو لوگ توحید و رسالت کی شہادت نہیں دیتے ان کا طاغوت کی اطاعت (بندگی) کا معاملہ تو بالکل واضح ہے لیکن جو لوگ زبان سے اس کی شہادت دیتے ہیں ان میں سے بھی اکثر کی حالت درج ذیل ہے۔

1۔ طواغیت کے نظام ہائے زندگی کی اتباع:

وہ ﷲ کے نازل کردہ نظام زندگی ’’اسلام‘‘ (کہ جس میں معیشت معاشرت اور سیاست سمیت زندگی کے ہر معاملے کے حوالے سے قانون و نظام ملتا ہے) کو چھوڑ کر طواغیت کے وضع کردہ نظام ہائے زندگی مثلاً سوشلزم، کمیونزم، سیکولرزم، کیپیٹلزم، جمہوریت اور آمریت کو اختیار کئے ہوئے ہیں جبکہ ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:۔

’’ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘۔
’’ جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین (نظامِ زندگی) اختیار کرنا چاہے گا وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا‘‘۔
(آل عمران: 85)

’’ اَمْ لَھُمْ شُرَکٰؤُا شَرَعُوْا لَھُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَالَمْ یَاْذَنْ م بِہِ اللہُ ط وَلَوْ لاَ کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ ط وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘۔
’’ کیا انہوں نے اپنے لئے (ﷲ کے) کچھ ایسے شریک مقرر کر لئے ہیں جنہوں نے ان کیلئے دین (نظامِ زندگی) کی نوعیت رکھنے والا کوئی ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا ﷲ نے اِذن نہیں دیا؟ اگر فیصلے کی بات طے نہ ہو گئی ہوتی تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا۔ یقینا ان ظالموں کیلئے دردناک عذاب ہے‘‘۔
(الشوری: 21)

درج بالا آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ﷲ تعالیٰ کے نظام و قوانین زندگی کی بجائے غیر ﷲ کا نظام و قانونِ زندگی اختیار کرنا اس غیرﷲ کو ﷲ کا شرک بنانا ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
2۔ طواغیت کے آئین و قوانین کی پاسداری:


کلماتِ شہادت پڑھنے والوں میں سے اکثر حکمران اور دیگر سیاست دان طواغیت کے وضع کردہ چارٹرز (مثلاً اقوام متحدہ کے چارٹر) ان کے وضع کردہ ملکی آئین، دساتیر اور قوانین (مثلاً پاکستان میں آئیں 73، پی سی او اور و فاقی وصوبائی قوانین کی فہرستوں) کی پاسداری کے حلف اٹھاتے ہیں اور اپنی زندگی انہی کے مطابق گزارتے ہیں یوں ﷲ کے ساتھ کئے گئے شرک و بغاوت کی پاسداری کا حلف اٹھا لیتے ہیں جبکہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’اَنْ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰی اَدْبَارِھِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْھُدَی الشَّیْطٰنُ سَوَّلَ لَھُمْ وَاَمْلٰی لَھُمْ o ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ کَرِھُوْا مَانَزَّلَ اللہُ سَنُطِیْعُکُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِ وَاللہُ یَعْلَمُ اِسْرَارَھُمْ o فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلٰئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْ o ذٰلِکَ بِاَنَّھُمُ اتَّبَعُوْا مَآ اسْخَطَ اللہَ وَکَرِھُوْا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَھُمْ‘‘۔
’’بیشک وہ لوگ جو الٹے پھر گئے بعد اس کے کہ ان کے سامنے ہدایت واضح ہو چکی تھی‘ شیطان نے آسان بنا دیا ہے‘ ان کیلئے یہ کام اور دراز کر رکھا ہے‘ ان کیلئے جھوٹی توقعات کا سلسلہ‘ یہ اس لئے ہوا کہ انہوں نے کہا تھا ان لوگوں سے جو ناپسند کرتے تھے اس کو جو نازل کیا ہے ﷲ نے کہ ہم ضرور مانیں گے تمہاری باتیں بعض معاملات میں اور ﷲ خوب جانتا ہے ان کی خفیہ باتیں‘ پھر کیا حال ہو گا اس وقت جب روحین قبض کریں گے انکی فرشتے مارتے ہوئے ان کے چہروں پر اور ان کی پیٹھوں پر۔ یہ اس لئے ہو گا کہ انہوں نے پیروی کی ہے اس طریقے کی جو ﷲ کو ناراض کرنے والا ہے اور ناپسند کیا ہے‘ انہوں نے ﷲ کی رضا کا راستہ‘ سو ضائع کر دیا ﷲ نے ان کے سب اعمال کو‘‘۔
(محمد: 25‘ 28)

جو بھی ملک اقوام متحدہ کا رکن بنتا ہے اس کیلئے اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کرنا (اس کی پاسداری کا وعدہ کرنا) لازم ہوتا ہے ورنہ وہ اس کا رکن نہیں بن سکتا اور جو ملک اس کا رکن بننے کیلئے درخواست دیتا ہے ظاہر ہے وہ دستخط کی شرط قبول کرتے ہوئے درخواست دیتا ہے‘ موجودہ وقت میں امریکہ کے خلاف جنگ کی قیادت کرنے والے طالبان اقوام متحدہ میں افغانستان کی رکنیت کی درخواست دے چکے تھے‘ پھر اسامہ بن لادن طالبان کے امیر ملا عمر کو شرعی حکمران قرار دیتا رہا تھا پھر طالبان کی سرپرستی کرنے والے پاکستان میں موجود ان کے ساتھی اور پاکستان کے مذہبی سیاسی راہنما جمہوریت اختیار کرتے رہے ہیں اور پاکستان کے آئین و قوانین کی پاسداری کے حلف اٹھاتے رہے ہیں اس بنا پر افغانستان میں امریکہ کے ہاتھوں ان کی شکست قطعی طور پر اسلام کی شکست نہیں بلکہ ان کیلئے ہدایت واضح ہو جانے کے باوجود طاغوت کے آئین و قوانین اور نظام زندگی (جمہوریت) کی اطاعت کے شرک کی سزا ہی ہو سکتی ہے کیونکہ مومنین کے لئے تو ﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ:۔

’’وَلَنْ یَّجْعَلَ للہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً‘‘۔
’’ اور ہر گز نہیں رکھا ہے ﷲ نے کافروں کیلئے مومنوں پہ غالب آنے کا کوئی راستہ‘‘۔
(النساء: 141)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
جو عام لوگ توحید پر قائم ہو کر لڑے ہیں تو شرعی قیادت کی بجائے اندھی تقلید میں مذکورہ بالاشرک کرنے والوں کی قیادت میں لڑنا ان کی بنیادی خطا ہے جو ان کی ناکامی کا باعث نظر آتی ہے جبکہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَّمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَایَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ اَوْیَدْعُوْ اِلٰی عَصَبَۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ ‘‘۔

’’ جو شخص (امام شرعی کی) اطاعت سے نکل جائے اور جماعت کو چھوڑ دے اور مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا۔ جو شخص اندھا دھند (اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے جنگ کرے یا کسی عصبیت کی بنا پر غضب ناک ہو‘ یا عصبیت کی طرف دعوت دے یا عصبیت کی نصرت کرے اور قتل ہو جائے اس کا قتل جاہلیت کا قتل ہے‘‘۔
(مسلم‘ باب الامارہ‘ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )
( کتاب کے دوسرے حصے میں امام شرعی اور اس کی ضرورت و اہمیت کی وضاحت موجود ہے

بعض لوگ کہتے ہیں کہ خود نبی ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اُحد اور حنین میں شکست سے دوچار ہو چکے ہیں اس لئے دشمن کے مقابل شکست کسی کے حق پہ نہ ہونے کی پہچان نہیں بن سکتی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود احد و حنین کے واقعات ہمارے سامنے یہ سوال واضح کرتے ہیں کہ اُحد میں امیر کے حکم کی نافرمانی اور مالِ غنیمت کی محبت اور حنین میں کثرتِ تعداد کے غرے جیسی خطائیں اگر صحابہ کو آزمائش میں مبتلا کر سکتی ہیں تو سوچا جانا چاہئے کہ جو لوگ ہدایت واضح ہونے کے بعد شرک میں مبتلا ہو جائیں ان کا معاملہ کتنا سنگین ہو گا۔ ذیل میں درج پہلی دو آیات میں دیکھئے اُحد و حنین میں خطاء (علاوہِ شرک) میں پڑنے والے صحابہ کا معاملہ اور پھر آخری آیت میں دیکھئے شرک میں پڑنے والے کا معاملہ!
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّہُ وَعْدَہٗ اِذْتَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِہٖ حَتّٰی اِذَا قَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَرٰکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْھُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللہُ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘۔
’’ اور یقینا سچ کر دکھایا تھا ﷲ نے تم سے اپنا وعدہ جب بے دریغ قتل کر رہے تھے تم ان کو ﷲ کے حکم سے حتی کہ جب ڈھیلے پڑ گئے تم اور تنازعہ کیا تم نے حکم کے بارے میں اور حکم عدولی کی تم نے بعد اس کے کہ دکھادی تمہیں ﷲ نے وہ چیز جو تمہیں محبوب تھی‘ تم میں سے کچھ وہ تھے جو طلبگار تھے دنیا کے اور کچھ وہ تھے جو طلب گار تھے آخرت کے‘ تب پسپا کر دیا ﷲ نے تمہیں دشمنوں کے سامنے سے تا کہ آزمائش کرے تمہاری اور حق یہ ہے کہ ﷲ نے معاف کر دیا تمہیں اور ﷲ بہت فضل والا ہے مومنوں پر‘‘۔
(آل عمران: 152)

’’ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ وَّیَوْمَ حُنَیْنِ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَّضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ o ثُمَّ اَنْزَلَ اللّّہُ سَکِیْنَتَہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وَعَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَمْ تَرَوْھَا وَعَذَّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَذٰلِکَ جَزَآئُ الْکٰفِرِیْنَ‘‘۔
’’یقینا مدد کر چُکا ہے تمہاری ﷲ بہت سے مواقع پر اور حنین کے دن جب غرہ تھا تم کو اپنی کثرتِ تعداد کا تو نہ کام آئی تمہارے کوئی چیز اور تنگ ہو گئی تم پر زمین اپنی وسعت کے باوجود پھر بھاگ نکلے تم پیٹھ پھیر کر۔ پھر ﷲ نے سکینت نازل کی اپنے رسول پر اور مومنین پر اور ایسے لشکر نازل کئے جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے اور سزا دی کافروں کو اور کافروں کی یہی سزا ہے‘‘۔
(التوبہ: 25‘ 26)

’’لَا تَجْعَلْ مَعَ اللہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلاً‘‘۔
’’ اور مت بنانا ﷲ کے ساتھ کوئی الٰہ دوسرا ورنہ بیٹھا رہ جائے گا تو ملامت زدہ اور بے یارو مددگار ہو کر‘‘۔
(بنی اسرائیل: 22)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
بعض لوگ پاکستان کے آئین (آئین 73ء اور پی سی او) کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان میں قراردادِ مقاصد (آرٹیکل ۲۔اے) کی صورت میں ﷲ کے حاکم مطلق ہونے کی بات شامل کرنے اور تمام موجودہ قوانین کو کتاب و سنت کے مطابق ڈھالنے کی بات (آرٹیکل 227(۱) شامل کرنے سے یہ آئین اسلامی ہو گئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کہ وہ تمام قوانین ختم نہیں کر دئیے جاتے جو طواغیت کی اھواء سے وضع کردہ ہیں اور جن کو کتاب و سنت کے مطابق ڈھالنے کا وعدہ کیا گیا ہے‘ اس وقت تک یہ آئین ﷲ کے ساتھ شرک (ﷲ کو حاکم ماننے کے مگر طاغوتی قوانین کو شامل رکھنے) کی بدترین مثال بنے رہیں گے جبکہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّٰہ مُخْلِصًا لَّہُ الدَّیْنَ o اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ‘‘۔
’’ بیشک ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے پس ﷲ کی بندگی کرو دین کو اس کیلئے خالص رکھتے ہوئے‘ خبردار ﷲ کیلئے (قابل قبول) صرف دین خالص ہے‘‘۔
(الزمر: 2‘ 3)

اقامتِ دین کا علم بلند کرنے والے بعض لوگ پاکستان کے آئین میں قراردادِ مقاصد کے شامل ہونے سے پہلے تک (آئین و قوانین کے طاغوتی ہونے کی بنا پر) گورنمنٹ آف پاکستان کی ملازمت کرنا‘ اس کی عدالتوں میں اپنے مقدمات لے جانا اور وکالت کرنا ناجائز سمجھتے تھے جو کہ ان کا ایک زبردست مؤقف تھا لیکن جونہی آئین میں قراردادِ مقاصد شامل ہو گئی انہوں نے مذکورہ سب کاموں کو جائز قرار دے دیا اور اب وہ دھڑلے سے یہ سب کام کرتے ہیں حتی کہ طاغوتی نظامِ سیاست ’’جمہورت‘‘ اختیار کرتے ہوئے اسلام کے نام پر چند سیٹیں پارلیمنٹ کی بھی حاصل کر لیتے ہیں پھر پارلیمنٹ میں جا کر ان آئین و قوانین کی پاسداری کا حلف تک اٹھا لیتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کیا قراردادِ مقاصد کے شامل ہونے کے ساتھ وہ طاغوتی قوانین ختم ہو گئے تھے جن کی وجہ سے پہلے مذکورہ بالا کام ناجائز قرار دئیے گئے تھے؟ اور کیا زبان سے یا کسی قرار داد کے ذریعے سے ﷲ کو حاکم مطلق ’’محض منوا لینے سے‘‘ اور طاغوتی قوانین کو ختم کر دینے کا ’’محض وعدہ آئین میں شامل کروا لینے سے‘‘ ان طاغوتی قوانین کی اطاعت جائز ہو جاتی ہے؟
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایسا ’’اقامتِ دین‘‘ کیلئے کرتے ہیں اور جمہوریت ‘ طاغوتی قوانین کے حلف اور ان کی پاسداری اگرچہ شرک ہی نظر آتے ہیں لیکن اس کے ذریعے سے ہیم پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں ﷲ کا کلمہ بلند کرتے ہیں پھر اس کے ذریعے ہم ایک دن پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرلیں گے اور دین قائم کر دیں گے۔

ان سے سوال ہے کہ طواغیت کی اطاعت کرتے ہوئے اور ان کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اقتدار میں آ کر دین قائم کرنے کا ایسا طریقہ آخری نبی ﷺ نے کیوں اختیار نہ کیا؟ کفار تو اپنی تھوڑی سی بات مان لینے کی شرط پر آپ کے پاس خود اقتدار دینے آئے تھے مگر آپ ﷺ نے ایسے اقتدار کی طرف نظر تک نہ کی مگر ادھر اقامتِ دین والوں کی حالت یہ ہے کہ اقتدر کی خاطر طاغوت کی اطاعت میں تو کوئی کسر نہیں رہنے دی ہے مگر رسوائی کے سوا پھر بھی ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا ہے۔

ان سے گزارش ہے کہ ذیل کی آیات کو غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ نبی ﷺ کا دین جس کی اقامت کا حکم ہے وہ حقیقت میں ہے کیا؟ اور پھر بتائیں کہ جب مکہ میں طاغوت غالب تھا تو کیا نبی ﷺ نے اس دین پر عمل موقوف کر دیا تھا؟ کیا اس حالت میں آپ کفار کی طرف ذرہ سے بھی جھکے تھے؟ اور کیا آپ ﷺ نے ان کے مقابل کوئی مداہنت اختیار کی تھی؟ جبکہ آپ اتنا ستائے جا رہے تھے کہ اتنا کبھی کوئی نہیں ستایا گیا تھا۔
۔
 
Top