محترم میرا مقصد گریز کا ہی رہا ہے اور زبان کا تعلق مذہب سے نہ ہونے سے میری مراد صرف یہ تھی کہ اسلام ہمیں کسی زبان کے استعمال سے روکتا نہیں ہے اور عربی کے علاوہ کسی اور زبان کے استعمال میں کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔ اگر میں غلط ہوں تو براہ مہربانی تصحیح فرما دیجئے گا۔
لباس میں فحاشی و عریانی کا عنصر ہو سکتا ہے مگر زبان کے استعمال میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
بے شک زبان میں فحاشی کا عنصر ویسا تو نہیں جیسا کہ لباس میں ہے ، (گالی ، فحش کلامی ، چرب زبانی، جھوٹ وغیبت کا تعلق مخصوص زبان سے نہیں) ۔ لیکن بسا اوقات احتیاط کا پہلو نہ رکھا تو لباس سے سنگین معاملہ ہوسکتا ہے ۔۔۔
مثال کے طور پر ہندی کے کچھ الفاظ اگر مستعمل ہوجائے تو لاشعوری طور پہ انکے باطل معبودوں کی تعریف کرنے لگینگے جوکہ سنگین معاملہ ۔۔۔خیر یہ بھی ایک استشنائی معاملہ (ایکسپشنل یا رئیر کیسز) ہے ،
اسلام ہمیں یقینا دوسرے کی زبان سے نہیں روکتا (جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے صحابی رضی اللہ عنہہ کو غیر عربی غالبا یہود کی زبان عبرانی سیکھنے کو کہا) لیکن اگر غور کیا جائے تو مقصد یہ تھا کہ غیر عرب کو انکو زبان میں مسئلہ سمجادیا جائے اس سے انہی کو دین سمجھنے میں
آسانی و سہولت ہوگی ۔۔۔وغیرہ ۔۔
اہم بات "دین" کو پہلے ترجیح دی جائے گی دنیا پر ، بے شک دنیا میں ہے تو دنیاوی امور بھی سیکھنا ہونگے لیکن چونکہ بات مذہب سے ہے لہٰذا اولین ترجیح دین ہوگی ۔۔۔
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اکثر ہندی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تاکہ ہندو کو سمجھنے میں آسانی ہو ، اور ایسا ہوتا ہے ۔۔
(ذاتی طور مجھے ہندی سخت ناپسند ہے ، ماسوائے ایک شخص کے منہ سے ، اور وہ ذاکر نائیک کیونکہ کام دیکھنا چاہیئے ماشاء اللہ خوب کررہے ہیں)
یہاں تک تو بات سمجھ آسکتی ہے کہ ایک مبلغ یا ڈاکٹر وغیرہ کو اس زبان پر عبور حاصل کرنا چاہیئے جس سے وہ غیر زبان والوں کی بات سمجھ اور سمجھا سکے
لیکن ہم دیکھتے ہیں سرسید نے کیا انگریزی سیکھنے کو کہا، سبھی "انگریز" بن گئے ، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا جو نہ تو دین کا کام کررہا ہے ، اور نہ ہی کوئی انسانیت کی فلاح کے کوئی کام کررہا ہے ، لیکن انگریزی سیکھنے کے لیے جان کی بازی لگا رہا ہے
چنانچہ اس سیکھنے کی چکر میں ، انگریز تو بن گئے فر فر انگریزی بولتے ہیں ، لیکن اگر پوچھا جائے کہ کم ازکم سورۃ الناس ہی صحیح پڑھ لو تو جان نکل جائے گی ۔۔۔۔۔کیا اس لیے دوسرے کی زبان سیکھنے کو کہا تھا ؟؟
ترجیحات بدل گئی ، دین نہ رہا ، صرف دنیا ہوگیا ۔۔۔۔۔سو زلیل ہوئے۔۔۔
انگریزوں نے جب نو آبادیاتی کا عمل شروع کیا تو پہلا کام ہی یہ کیا کہ مسلمانوں کے درمیان رابطہ کو ختم کیا جائے ،چنانچہ رابطہ کو ختم کرنے کے لیے انکے درمیان رائچ بین المسلمین زبان عربی کا خاتمہ کیا ،
ہوتا ہے یہ کہ جو زبان کسی خاص ثقافت کو حصہ ہوجائے ، اور وہ زبان آپ سیکھنے لگے تو فطرت انسانی کے سبب رفتہ رفتہ آپ کو انکی زبان تو کیا ثقافت کی محبت بھی دل میں گھر کرجاتی ہے، چنانچہ زبان کنجی ہوتی ہے اور داخلہ کی بنیاد بنتی ہے ، پھر رفتہ رفتہ آپ انکے رسم و رواج کو سمجھتے ہیں
شیطان آپ کے دل میں انکے لیے پہلے ہمدردری پیدا کرتا ہے ، پھر محبت اور پھر آپ ہی کے اپنے مذہب سے بغاوت کی آواز آنے لگتی ہے
ذہنی وسواس آتے ہیں کہ انکا یہ رسم و رواج کتنا اچھا ہے ، کاش ہمارے مذہب میں بھی ایسا کچھ ہوتا ۔۔۔وغیرہ وغیرہ
یقین نہ آئے تو خود سے تجربہ کرکے دیکھ لیں، وہ مسلمان جو انگریز ملک میں جا بستے ہیں یا نہیں بھی بستے لیکن زبان کی بدولت انکی پوری ثقافت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں انکے دل میں کفار کے لیے ہمیشہ نرم گوشہ ہوگا ،
انگریز چھوڑے بھارت میں جاکر بس کر دیکھے اور ہندی سیکھے ، کل کلاں کو ہندو کے بارے میں آپکے نظریہ نہ بدلے تو بتائیے گا ۔۔
اور میری ناقص رائے یہ ہے کہ سب غیر زبان کو بے مقصد سیکھنے کا نتیجہ ہے ، اسکی بجائے ہم عربی کو ترجیح دیتے سمجھ رہے ہوتے
تو شائد قرآن فہمی اور حدیث فہمی ہماری بہتر ہوتی اور اتنے فرقوں میں نہ بٹے ہوتے ۔۔۔۔
واللہ اعلم !