• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر نفل ادا كرتے ہوئے نماز كى اقامت ہو جائے ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اگر نفل ادا كرتے ہوئے نماز كى اقامت ہو جائے ؟

اگر ميں سنتيں ادا كر رہا ہوں اور نماز كى اقامت ہو جائے تو كيا ميں سلام پھير كر جماعت كے ساتھ مل جاؤں، يا سنتيں مكمل كروں ؟

Published Date: 2011-05-05

الحمد للہ:

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب نماز كى اقامت ہو جائے تو فرضى نماز كے علاوہ كوئى نماز نہيں ہوتى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 710 ).

يہ حديث اس كى دليل ہے كہ جب نماز كى اقامت ہو جائے تو كسى بھى شخص كے ليے نفل ادا كرنے جائز نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( جب نماز كى اقامت ہو جائے تو اسے چھوڑ كر نفل ادا نہيں كيے جا سكتے، چاہے پہلى ركعت جانے كا خدشہ ہو يا نہ ہو، ابو ہريرہ، ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم، اور عروہ، ابن سيرين، سعيد بن جبير، امام شافعى، اسحاق، اور ابو ثور رحمہم اللہ كا يہى قول ہے ) اھـ

ديكھيں: المغنى ( 1 / 272 ).

اور بعض علماء كرام نے اس حديث سے يہ استدلال كيا ہے كہ جو شخص نفل اور سنت ادا كر رہا ہو اور نماز كى اقامت ہو جائے تو وہ نفل توڑ دے.

حافظ عراقى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ قول: " كوئى نماز نہيں "

احتمال ہے كہ اس سے يہ مراد ہو كہ جب نماز كى اقامت ہو جائے تو وہ شروع نہ كرے.

اور يہ بھى احتمال ہے كہ اس سے مراد يہ ہو كہ وہ نماز ميں مشغول نہ ہو اور اگر اس نے اقامت ہونے سے قبل نماز شروع كر لى تو وہ تكبير تحريمہ كى فضيلت حاصل كرنے كے ليے نماز توڑ دے.

يا پھر اگر نمازى نماز نہيں توڑتا تو وہ خود ہى باطل ہو جائيگى، دونوں كا ہى احتمال ہے ).

شافعيہ ميں سے ابو حامد سے منقول ہے كہ: اگر نفلى نماز مكمل كرنے ميں تكبير تحريمہ كى فضيلت فوت ہونے كا خدشہ ہو تو نفلى نماز ختم كرنا افضل ہے.

عراقى رحمہ اللہ تعالى كى كلام شوكانى رحمہ اللہ تعالى نے نيل الاوطار ( 3 / 91 ) ميں نقل كى ہے.

جب مستقل فتوى كميٹى سے اس كے متعلق دريافت كيا گيا تو اس كا بھى فتوى يہى تھا:

سوال يہ تھا:

كيا ميں سنتيں ختم كر كے تكبير تحريمہ ميں امام كے ساتھ ملوں يا كہ سنتيں مكمل كروں ؟

كميٹى كا جواب تھا:

جى ہاں جب فرضى نماز كى اقامت ہو جائے تو جو نفل اور سنتيں آپ ادا كر رہے ہيں اسے توڑ ديں تا كہ امام كے ساتھ تكبير تحريمہ ميں مل سكيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب نماز كى اقامت ہو جائے تو فرضى نماز كے علاوہ كوئى نماز نہيں "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 312 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے اسے راجح قرار ديا ہے كہ جب نماز كى اقامت ہو اور وہ سنتوں يا نفل كى پہلى ركعت ميں ہو تو نماز توڑ دے، اور جب اقامت ہو جائے اور وہ دوسرى ركعت ميں ہو تو اسے ہلكى اور تخفيف كے ساتھ ادا كرلينى چاہيے وہ توڑے نہيں.

شيخ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس مسئلہ ميں ہمارى رائے يہ ہے كہ:

اگر آپ دوسرى ركعت ميں ہوں تو اسے ہلكى كر كے ادا كر ليں، اور اگر پہلى ركعت ميں ہوں تو نماز توڑ ديں، اس ميں ہمارى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:

" جس نے نماز كى ايك ركعت پا لى تو اس نے نماز پا لى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 580 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 607 ).

اور يہ شخص جس نے اقامت ہونے سے قبل ايك ركعت ادا كر لى تو اس نے معارض جو كہ نماز كى اقامت ہے سے سالم نماز پا لى، تو اس طرح ممانعت سے قبل ايك ركعت ادا كر لينے كى بنا پر نماز پالى لھذا اسے تخفيف كر كے اسے مكمل كر لينا چاہيے...

پھر شيخ كہتے ہيں: اور اس سے دليل ميں جمع ہوجاتا ہے. اھـ

ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 238 ).

اور اگر وہ نفل يا سنت كو توڑے تو وہ بغير سلام كے توڑ دے.

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

جب نماز كے ليے اقامت ہو جائے اور كوئى شخص سنتيں يا تحيۃ المسجد ادا كر رہا ہو تو كيا وہ فرضى نماز كے ساتھ ملنے كے ليے اپنى نماز توڑ دے؟

اگر جواب اثبات ميں ہو تو كيا وہ نماز توڑتے وقت دونوں طرف سلام پھيرے يا كہ بغير سلام كے نماز توڑ دے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" علماء كرام كا صحيح قول يہى ہے كہ وہ اس نماز كو توڑ دے، اور اس كے ليے اسے نماز سے نكلنے كے ليے سلام پھيرنے كى ضرورت نہيں، نماز توڑ كر وہ امام كے ساتھ شامل ہو جائے " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 312 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

https://islamqa.info/ur/33582
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
کیا کسی صحابی کا ایسا عمل کتب احادیث میں موجود ہے کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا اور اقامت شروع ہو گئی تو اس نے نماز توڑ دی؟
کتب احادیث میں یہ روایت موجود ہے کہ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی سنتیں جماعت کے ہوتے ہوئے پڑھیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
کتب احادیث میں سے ایک حدیث پیش هے :

رﻭﻯ ﻣﺴﻠﻢ (710) ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻋﻦ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: ( ﺇﺫﺍ ﺃﻗﻴﻤﺖ ﺍﻟﺼﻼ‌ﺓ ﻓﻼ‌ ﺻﻼ‌ﺓ ﺇﻻ‌ ﺍﻟﻤﻜﺘﻮﺑﺔ )۔

جب قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود هے تو اسکے بعد کیا
حاجت باقی رہ جاتی هے؟
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﻠﻢ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻧﮯ ﺍﺑﻮ ﮨﺮﻳﺮﮦ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﻳﺖ ﻛﻴﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﻧﺒﻰ ﻛﺮﻳﻢ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﻴﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﻳﺎ:" ﺟﺐ ﻧﻤﺎﺯ ﻛﻰ ﺍﻗﺎﻣﺖ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻓﺮﺿﻰ ﻧﻤﺎﺯ ﻛﮯ ﻋﻼ‌ﻭﮦ ﻛﻮﺋﻰ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮩﻴﮟ ﮨﻮﺗﻰ "

یہ حدیث پہلے ہی مذکور هے اردو ترجمہ کی شکل میں ۔۔۔۔۔!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
يا ایہا الذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و لا تبطلوا اعمالکم۔
اس آیت میں "و لا تبطلوا اعمالکم" مطلق ہے۔ اب دو میں سے کسی ایک چیز میں تاویل کی جائے گی۔
تاویل فی الآیۃ: لا تبطلوا اعمالکم سے مراد ہے فرض اعمال کے ثواب کو باطل کرنا۔ یعنی فرض کو باطل کرنے والا کوئی کام نہ کرو۔ نفل کو توڑنا اس میں داخل نہیں ہے۔ لہذا فرض نماز کی اقامت کے وقت نفل توڑنا حدیث مبارکہ کی وجہ سے لازم ہے۔
تاویل فی الحدیث: لا صلاۃ الا المکتوبۃ کا مطلب ہے کہ جب فرض نماز شروع ہو جائے تو پھر نفل کی ابتداء نہ کی جائے بلکہ فرض میں ہی شامل ہوا جائے۔ باقی اگر نفل پہلے سے شروع کیے ہوں تو آیت کی وجہ سے ان کو پورا کرنا لازم ہو جاتا ہے اور توڑنا جائز نہیں رہتا۔ لہذا نفل پورے کر کے فرض میں شامل ہونا چاہیے۔
(پہلی تاویل قرطبیؒ نے اور دوسری جصاص اور قرطبی رحمہما اللہ نے ذکر کی ہے۔)

اسی اعتبار سے یہ دو مسلک ہیں۔ امام شافعیؒ کا مسلک پہلی تاویل کے مطابق ہے اور امام مالک اور ابو حنیفہ رحمہما اللہ کا مسلک دوسری تاویل کے مطابق ہے۔ و الکل مصیب ان شاء اللہ۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
جب قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود هے تو اسکے بعد کیا
حاجت باقی رہ جاتی هے؟
کتب احادیث میں یہ روایت موجود ہے کہ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی سنتیں جماعت کے ہوتے ہوئے پڑھیں۔
کیا صحابہ کرام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو زیادہ بہتر سمجھتے تھے یا کہ آج کے دور والے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کتب احادیث میں یہ روایت موجود ہے کہ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی سنتیں جماعت کے ہوتے ہوئے پڑھیں۔
رویت بمع سند پیش کیجئے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر آپ صحیح روایت پیش کریں گے تو روایت سے انکار نہ ہوگا!
آپ روایت پیش کیجئے!
(نوٹ: جس اسکول کے آپ شاگرد ہیں ہم اس کے پرنسپل رہ چکے ہیں)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس آیت میں "و لا تبطلوا اعمالکم" مطلق ہے۔ اب دو میں سے کسی ایک چیز میں تاویل کی جائے گی۔
جی! تاویل کی نوعیت کیا ہے، کہ آیا اس تاویل کی بنیاد کیا ہے اور آیا اس سے کسی حکم کا انکار تو لازم نہیں آتا!
اس بنا پر تاویل مقبول یا مردود قرار پائے گی!
تاویل فی الآیۃ: لا تبطلوا اعمالکم سے مراد ہے فرض اعمال کے ثواب کو باطل کرنا۔ یعنی فرض کو باطل کرنے والا کوئی کام نہ کرو۔ نفل کو توڑنا اس میں داخل نہیں ہے۔ لہذا فرض نماز کی اقامت کے وقت نفل توڑنا حدیث مبارکہ کی وجہ سے لازم ہے۔
جی ! یہ تاویل یعنی تفسیر یعنی کہ اس آیت کے معنی و حکم کا یہ تعین اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی بنیاد پر ہے، کہ یہ تخصیص اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؛

قَالَ أَبُو عُمَرَ قَدْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ الَّتِي أُقِيمَتْ رَوَاهُ أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَالْحُجَّةُ عِنْدَ التَّنَازُعِ السُّنَّةُ فَمَنْ أَدْلَى بِهَا فَقَدْ أَفْلَحَ وَمَنِ اسْتَعْمَلَهَا فقد نجا وما توفيقي إلا بالله.
اختلاف کے وقت دلیل سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہوتی ہے۔ جو شخص سنت کی تعمیل کرے وہ کامیاب اور جو اس پر عمل کرے وہ نجات مند ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 74 جلد 22 التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية – المغرب

حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَالَ: ح وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ ابْنُ بُحَيْنَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَثَ بِهِ النَّاسُ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصُّبْحَ أَرْبَعًا، الصُّبْحَ أَرْبَعًا» تَابَعَهُ غُنْدَرٌ، وَمُعَاذٌ، عَنْ شُعْبَةَ فِي مَالِكٍ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ سَعْدٍ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَقَالَ حَمَّادٌ: أَخْبَرَنَا سَعْدٌ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ مَالِكٍ.

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے، کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک شخص پر ہوا ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن بشر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بہز بن اسد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعد بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ میں نے حفص بن عاصم سے سنا، کہا کہ میں نے قبیلہ ازد کے ایک صاحب سے جن کا نام مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ تھا، سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے نمازی پر پڑی جو تکبیر کے بعد دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگ اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟ اس حدیث کی متابعت غندر اور معاذ نے شعبہ سے کی ہے جو مالک سے روایت کرتے ہیں۔ ابن اسحاق نے سعد سے، انھوں نے حفص سے، وہ عبداللہ بن بحینہ سے اور حماد نے کہا کہ ہمیں سعد نے حفص کے واسطہ سے خبر دی اور وہ مالک کے واسطہ سے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بابٌ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلَّا المَكْتُوبَةَ)
صحیح بخاری: کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں (باب: جب نماز کی تکبیر ہونے لگے)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ يُصَلِّي وَقَدْ أُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ فَكَلَّمَهُ بِشَيْءٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَلَمَّا انْصَرَفْنَا أَحَطْنَا نَقُولُ مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ لِي يُوشِكُ أَنْ يُصَلِّيَ أَحَدُكُمْ الصُّبْحَ أَرْبَعًا قَالَ الْقَعْنَبِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَالِكٍ ابْنُ بُحَيْنَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَبُو الْحُسَيْنِ مُسْلِمٌ وَقَوْلُهُ عَنْ أَبِيهِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ خَطَأٌ.

عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے ہمیں حدیث بیان کی ،کہا ہمیں ابراہیم بن سعد نے اپنے والد سے حدیث سنائی۔انھوں نے حفص بن عاصم سے اور ا نھوں نے عبداللہ بن مالک ابن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہاتھا جب صبح کی نماز کے لئے اقامت کہی جاچکی تھی آپ نے کسی چیز کے بارے میں اس سے گفتگو فرمائی ہم نہ جان سکے کہ وہ کیا تھی جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے اسے گھیرلیا ہم پوچھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا؟اس نے بتایا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:" لگتا ہے کہ تم میں سے کوئی صبح کی چار رکعات پڑھنے لگے گا۔" قعنبی نے کہا:عبداللہ بن مالک ابن بحینہ نے رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد سے روایت کی۔ ابو الحسین مسلم ؒ (مولف کتاب) نے کہا:قعنبی کا اس حدیث میں " عَنْ أَبِيهِ"(والد سے روایت کی) کہنا درست نہیں۔(عبداللہ کے والد صحابی مالک صحابی تو ہیں لیکن ان سے کوئی حدیث مروی نہیں)-
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: مؤذن کے اقامت شروع کر لینے کے بعد نفل کا آغاز کرنا ناپسندیدہ)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ قَالَ أُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُصَلِّي وَالْمُؤَذِّنُ يُقِيمُ فَقَالَ أَتُصَلِّي الصُّبْحَ أَرْبَعًا.

ابو عوانہ نے سعد بن ابراہیم سے،انہوں نے حفص بن عاصم سے،اورانہوں نے حضرت (عبداللہ) ابن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:صبح کی نماز کی اقامت(شروع) ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا جبکہ موذن اقامت کہہ رہا ہے تو آپ نے فرمایا:" کیا تم صبح کی چار رکعتیں پڑھو گے؟"
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: مؤذن کے اقامت شروع کر لینے کے بعد نفل کا آغاز کرنا ناپسندیدہ)

قَالَ أَبُو عُمَرَ قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَلَاتَانِ مَعًا وَقَوْلُهُ لِهَذَا الرَّجُلِ أَيَّتُهُمَا صَلَاتُكَ وَقَوْلُهُ فِي حَدِيثِ ابْنِ بُحَيْنَةَ أَتُصَلِّيهِمَا أَرْبَعًا كُلُّ ذَلِكَ إِنْكَارٌ مِنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ الْفِعْلِ فَلَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ أَنْ يُصَلِّيَ فِي الْمَسْجِدِ ركعتي الفجر ولا شيئا من النَّوَافِلِ إِذَا كَانَتِ الْمَكْتُوبَةُ قَدْ قَامَتْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا دو نمازیں اکھٹی پڑھنا چاہتے ہو، اور اس آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ان دونوں میں سے تیری ( فجر کی فرض ) نماز کون سی ہے ؟ نیز سیدنا بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ کیا فجر کی نماز چار رکعتیں پڑھنا چاہتے ہو ؟ یہ سب باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کام پر انکار ہے۔ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ فرض نماز کی اقامت کے بعد مسجد میں فجر کی دو رکعتیں یا کوئی اور نفلی نماز ادا کرے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 68 – 69 جلد 22 التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية – المغرب

وقوله ـ صلى الله عليه وسلم: (( أتصلي الصبح أربعًا ؟ )): إنكار على الرجل الذي فعل ذلك، وهذا الإنكار حجة على من ذهب إلى جواز صلاة ركعتي الفجر في المسجد والإمام يصلي

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ کیا تم صبح کی (فرض) نماز چار رکعت ادا کر رہے ہو ؟ یہ اس کام کرنے والے پر انکار ہے اور اس انکار میں اس شخص کا رد ہے جو امام کے نماز پڑھاتے ہوئے فجر کی دو رکعتوں کی ادائیگی کو جائز قرار دیتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 350 – 351 جلد 02 المفهم لما أشكل من كتاب تلخيص مسلم - أبو العباس أحمد بن عمر بن إبراهيم القرطبي (المتوفى: 656هـ) – دار ابن كثير، بيروت ودار الكلم الطيب، بيروت


قوله ﷺ أَتُصَلِّي الصُّبْحَ أَرْبَعًا هُوَ اسْتِفْهَامُ إِنْكَارٍ وَمَعْنَاهُ أَنَّهُ لَا يُشْرَعُ بَعْدَ الْإِقَامَةِ لِلصُّبْحِ إِلَّا الْفَرِيضَةُ فَإِذَا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ نَافِلَةً بَعْدَ الْإِقَامَةِ ثُمَّ صَلَّى مَعَهُمُ الْفَرِيضَةَ صَارَ فِي مَعْنَى مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ أَرْبَعًا لِأَنَّهُ صَلَّى بَعْدَ الْإِقَامَةِ أَرْبَعًا

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : کیا تم صبح کی ( فرض ) نماز چار رکعت ادا کرتے ہو ؟ یہ استفہام انکاری ہے۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ صبح کی نماز کی اقامت کے بعد صرف فرضی نماز ہی ادا کی جا سکتی ہے۔ جب آدمی اقامت کے بعد دو رکعتیں نفل ادا کرے گا پھر نمازیوں کے ساتھ فرض پڑھے گا تو گویا صبح کی چار رکعت ادا کر رہا ہے کیونکہ اس نے اقامت کے بعد چار رکعتیں ادا کی ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 312 جلد 05 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) - مؤسسة قرطبة

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 495 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) - بيت الأفكار الدولية، بيروت

أَن رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - رأى رجلا وَقد أُقِيمَت الصَّلَاة يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فَلَمَّا انْصَرف رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - لاث بِهِ النَّاس فَقَالَ لَهُ رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - آلصبح أَرْبعا آلصبح أَرْبعا) مطابقته للتَّرْجَمَة فِي قَوْله " آلصبح أَرْبعا " حَيْثُ أنكر - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - على الرجل الَّذِي كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بعد أَن أُقِيمَت صَلَاة الصُّبْح فَقَالَ " آلصبح أَرْبعا " أَي الصُّبْح تصلى أَرْبعا لِأَنَّهُ إِذا صلى رَكْعَتَيْنِ بعد أَن أُقِيمَت الصَّلَاة ثمَّ يُصَلِّي مَعَ الإِمَام رَكْعَتَيْنِ صَلَاة الصُّبْح فَيكون فِي معنى من صلى الصُّبْح أَرْبعا فَدلَّ هَذَا على أَن لَا صَلَاة بعد الْإِقَامَة إِلَّا الصَّلَاة الْمَكْتُوبَة.

فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : کیا صبح کی نماز چار رکعت پڑھ رہے ہو ؟ اس قول کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر انکار کیا جو صبح کی نماز کھڑی ہونے کے بعد دو رکعتیں ادا کر رہا تھا۔ یعنی نماز کھڑی ہونے کے بعد جب وہ دو رکعتیں سنت ادا کر کے امام کے ساتھ صبح کی دو رکعت نماز پڑھے گا تو گویا اس نے صبح کی چار رکعتیں ادا کی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت ہو جانے کے بعد کوئی نماز سوائے فرضی نماز کے نہیں ہوتی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 266 - 267 جلد 05 - عمدة القاري شرح صحيح البخاري - بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ) - دار الكتب العلمية – بيروت

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 182 جلد 05 - عمدة القاري شرح صحيح البخاري - بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ) - دار الفكر – بيروت
تاویل فی الحدیث: لا صلاۃ الا المکتوبۃ کا مطلب ہے کہ جب فرض نماز شروع ہو جائے تو پھر نفل کی ابتداء نہ کی جائے بلکہ فرض میں ہی شامل ہوا جائے۔ باقی اگر نفل پہلے سے شروع کیے ہوں تو آیت کی وجہ سے ان کو پورا کرنا لازم ہو جاتا ہے اور توڑنا جائز نہیں رہتا۔ لہذا نفل پورے کر کے فرض میں شامل ہونا چاہیے۔
اس تاویل کی بنیاد و دلیل کیا ہے؟ وہ دلیل مطلوب ہے!
(جبکہ اللہ ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نفی اوپر بیان کی جا چکی ہے!)
(پہلی تاویل قرطبیؒ نے اور دوسری جصاص اور قرطبی رحمہما اللہ نے ذکر کی ہے۔)
قرطبی رحمہ اللہ کا حوالہ اگر پیش کردیں تو نوازش ہو گی!
اسی اعتبار سے یہ دو مسلک ہیں۔ امام شافعیؒ کا مسلک پہلی تاویل کے مطابق ہے اور امام مالک اور ابو حنیفہ رحمہما اللہ کا مسلک دوسری تاویل کے مطابق ہے۔ و الکل مصیب ان شاء اللہ۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک اس دوسری تاویل کے مطابق بھی نہیں، فقہ حنفیہ میں فجر کی فرض نماز شروع ہوجانے کے بعد بھی فجر کی سنتیں پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے:

سوال # 41937
فجر کی سنت موٴکدہ پڑھنے کے سلسلے میں صحیح رائے کیا ہے؟کیا ہم فرض نماز کے بعد دو رکعت سنت موٴکدہ پڑھ سکتے ہیں؟میرا ایک دوست سعودی عرب میں رہتاہے ، اس نے کہا کہ اگرتمہارے پاس وقت کم ہو اورایسا لگے کہ جماعت چھوٹ جائے گی تو تم کو مسجد میں فرض نماز میں شامل ہوجانا چاہئے ، اس کے ثبوت میں اس نے دو سے زیادہ احادیث پیش کئے ہیں۔ میں تذبذب کا شکار ہوگیا ہوں ۔ براہ کرم، اس بارے میں میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب # 41937

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1446-1446/M=1/1435-U

فجر کی فرض سے پہلے دو رکعت سنت تمام سنتوں میں سب سے زیادہ موٴکد ہے، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے، ایک حدیث میں ہے: ”رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا“ ترجمہ: فجر کی دو رکعت سنت دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ (اخرجہ احمد فی المسند ومسلم فی صحیحہ والترمذی فی جامعہ) اور ایک روایت میں ہے کہ ”فجر کی دو سنت پڑھا کرو اگرچہ تمھیں گھوڑے روند ڈالیں“ (مسند احمد: ۴/۴۰۵، ابوداوٴد، برقم: ۱۲۵۸) اس لیے اگر فجر کی جماعت شروع ہوجانے کے بعد کوئی شخص مسجد میں حاضر ہوا اور توقع یہ ہے کہ وہ سنت پڑھ کر امام کو ردوسری رکعت کے قیام یا قعدہ میں پالے گا تو اسے سنت فجر ترک نہ کرنا چاہیے بلکہ اس کو چاہیے کہ سنت ادا کرکے پھر جماعت میں شریک ہوجائے، لیکن یہ سنت کسی دیوار یا ستون کی آڑ میں صفوں سے باہر ہوکر ادا کرنی چاہیے، صفوں کے بیچ میں یا صف سے بالکل لگ کر ادا نہ کرے اور اگر ایسے وقت میں پہنچا کہ جماعت کی نماز آخری مرحلے میں تھی اور اتنا وقت نہیں کہ سنت پڑھ کر امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ اگر سنت پڑھنے میں لگا تو جماعت بالکلیہ فوت ہوجائے گی، ایسی صورت میں اس کو چاہیے کہ سنت کو چھوڑکر جماعت میں شامل ہوجائے، پھر اگر سنت فجر بعد میں پڑھنا چاہے تو فجر کے بعد طلوعِ شمس سے پہلے نہ پڑھے کیونکہ اس وقت نفل نماز مکروہ ہے، بلکہ طلوعِ شمس کے بعد مکروہ وقت ختم ہوجانے کے بعد پڑھ لے۔

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند
حوالہ
 
Last edited:
Top