• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہلحدیث کے اصول فقہ

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اپنے آپ کو مالکیہ، شافعیہ یا حنابلہ وغیرہ سے منسوب کرنے میں نہ تو کوئی قباحت ہے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کی کوئی تقلید یا تعصب لازم آتی ہے۔
جو شخص شریعت کے مسائل کا علم نہیں رکھتا اور نہ ہی دلائل کو سمجھنے کی استطاعت رکھتا ہے اس پر واجب ہے کہ وہ ماہر شریعت عالم یا مفتی سے مسئلہ پوچھے اور اس پر عمل کرے۔ گویا اس پر واجب ہے کہ وہ عالم یا مفتی کی تقلید کرے جب تک کہ وہ خود دلائل کو سمجھنے کی استطاعت حاصل نہ کرلے لیکن اس پر یہ واجب نہیں کہ وہ ایک مخصوص مذھب کے مفتی ہی سے اپنے سارے مسائل پوچھے وہ اس معاملے اہل سنت کے صحیح العقیدہ علماء میں سے کسی سے بھی مسئلہ پوچھ سکتا ہے۔ اس درجہ کے شخص کو عامی یا جاہل کہتے ہیں۔
محترم! آپ کا یہ فرمانا کہ عامی کا عالم یا مفتی کی تقلید کرنا واجب ہے اس سے سو فی صد متفق ہوں کہ عامی کو اس کے بغیر چارہ کار نہیں۔
آپ کا یہ فرمانا بھی بجا کہ کسی بھی صحیح العقیدہ اہلِ سنت عالم یا مفتی سے بلا تخصیص پوچھ لے جائز ہے۔
محترم! برصغیر میں اہلِ سنت میں سے صرف اور صرف حنفی مسلک کے عالم اور مفتی تھے۔ لہٰذا لوگ انہی سے مسائل پوچھتے تھے۔ میرا پہلاسوال یہ ہے کہ؛
کیا بر صغیر کےعلماء احناف اہلِ سنت تھے ؟
میرا دوسرا سوال؛
کیا اس مفتی یا عالم کے بتائے ہوئے مسئلہ پر اس عامی کو اعتراض یا اختلاف کا حق حاصل ہوتا ہے؟ اگر اعتراض کرے تو اس کا کیا حکم ہے

جو شخص شریعت کے مسائل کا کسی حد تک علم رکھتا ہے اور ان کے دلائل کو بھی کسی حد تک ذاتی طور پر سمجھنے کی استطاعت رکھتا ہے تو ایسے شخص پر ان مسائل میں جن کے دلائل وہ خود سمجھ سکتا ہے تقلید جائز نہیں بلکہ اس پر براہ راست حق کی اتباع واجب ہے لیکن جن مسائل میں وہ خود اجتھاد کرنے سے قاصر ہے ان میں وہ علماء ہی کی طرف رجوع کرے گا اور ان میں کسی کی بھی تقلید کرے گا۔ اس درجہ کو متوسط درجہ کہتے ہیں اور اس پر فائز شخص عام طور پر طالب علم ہوتا ہے۔
محترم! میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ؛
کسی مسئلہ میں اجتہاد کی صلاحیت حاصل ہونے کی نشانی یا شرائط کیا ہیں؟ کیا اس مسئلہ میں وہ فتویٰ دے سکتا ہے یا عامی اس کی تقلید کر سکتا ہے؟

جو شخص شرعی مسائل میں اجتہاد کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اور براہ راست نصوص سے مسائل کو اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس پر تقلید حرام ہے اس لئیے کہ وہ مجتہد ہے اور اسے دلائل کی معرفت حاصل ہے لحاظہ اب تقلید کرنے کا جواز باقی نہیں رہتا۔ اس درجہ کو درجہ اجتہاد کہتے ہیں اور اس پر فائز شخص کو مجتہد۔ اجتہاد کے کل چھ مراتب ہیں اور مختلف شرائط ہیں۔
محترم! میرا چوتھا سوال یہ ہے کہ؛
اس کی کیا دلیل ہے کہ مجتہد پر تقلید ”حرام“ ہے؟

آج اہل حدیث سلفیہ اور ہمارے ہاں کے احناف میں ایک بہت بڑا اختلاف تقلید شخصی پر ہے نہ کہ تقلید عامی پر اور احناف کے علاوہ بہت سے متاخرین مالکیہ اور شوافع میں بھی تصوف اور تقلید شخصی کی بیماری نے جنم لیا
محترم! آپ نے لکھا کہ عامی کا عالم اور مفتی سے پوچھنا واجب ہے۔ میرا پانچواں سوال یہ ہے کہ؛
اگر کوئی عامی کسی ایک ہی عالم یا مفتی سے ہمیشہ پوچھتا رہے تو کیا یہ جائز ہے یا ناجائز اور گناہ؟

تقلید سے متعلق ہمارے ہاں کے احناف کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فقہ حنفی ہی کو حق سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
محترم! میرا چھٹا سوال؛
آپ فقہ حنفی سے لوگوں کو کیوں نکالنا چاہتے ہیں (جب کہ اوپر آپ یہ وضاحت کر آئے ہیں کہ عامی کسی بھی عالم مفتی سے مسئلہ پوچھ لے جائز بلکہ واجب ہے)؟
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
میرا خیال ہے کہ اس فہرست میں "معالم أصول الفقه عند أهل السنة والجماعة " / محمد بن حسين بن حسن الجیزانی کی کتاب کو بھی شامل کر لیجیے تو بہت سی کتب سے مستغنی ہوا جا سکتا ہے ۔ ( منقول )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
’ اہل حدیث کے اصول فقہ ‘ کے موضوع پر اب تک بہت ساری کتابیں لکھی جاچکی ہیں ، لیکن اہل حدیث کا منہج ہی یہ ہے کہ اصول ، فقہ یا فتاوی کی کوئی بھی کتاب حرف آخر نہیں ۔
اس وضاحت کو مد نظر رکھتے ہوئے ، درج ذیل کتب کو مسلک اہل حدیث کے اصول فقہ کے طور پر ذکر کیا جاسکتا ہے ، کیونکہ یہ کسی بھی مذہب کی پابندی کے بغیر عمومی فقہ کے اصول کے طور پر تصنیف کی گئی ہیں :
1۔الرسالۃ للشافعی
2۔الإحکام فی اصول الأحکام لابن حزم
3۔الموافقات للشاطبی
4۔ارشاد الفحول از شوکانی
5۔بغیۃ الفحول از گوندلوی
6۔اصول فقہ پر ایک نظر از عاصم الحداد
7۔من اصول الفقہ لاھل الحدیث از شیخ زکریا الباکستانی
8۔تسہیل الوصول إلى فہم علم الأصول ( آسان اصول فقہ اور تعلیم الاصول کے نام سے اس کا دو مرتبہ ترجمہ ہوچکا ہے )
9۔الوجیز للزیدان
10۔شرح الأصول من علم الأصول لابن عثیمین ( اس کا بھی اردو ترجمہ ہوچکا ہے )
11۔"معالم أصول الفقه عند أهل السنة والجماعة " / محمد بن حسين بن حسن الجیزانی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
السير الحثيث إلى فقه أهل الحديث از ڈاکٹر لقمان السلفی ( السعی الحثیث )
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 10، 2018
پیغامات
62
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
43
اصل میں بات یہ ہے کہ آج اھلحدیثوں میں امام شوکانی رح کی وجہ سے کچھ ظاہریت پائی جاتی ہے اصول فقہ شیخ عبدالمنان نور پوری رح کی نظر میں اس موضوع پر ایم فل کا مقالہ ہے اس کو پڑھ لیجئے۔اھلحدیث کا منھج اصل میں محدثین والا منھج ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
السير الحثيث إلى فقه أهل الحديث از ڈاکٹر لقمان السلفی ( السعی الحثیث )
آج سعودی عرب کے دار الخلافہ ریاض میں والد گرامی حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کے مدینہ یونیورسٹی کے دیرانہ دوست اور علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کے کلاس فیلو محترم المقام ڈاکٹر لقمان سلفی حفظہ اللہ سے ان کی رھائش پر والد گرامی کے ھمراہ تفصیلی ملاقات ھوئی ۔۔۔ محترم موصوف شیخ عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ کے ساتھ عرصہ دراز ساتھ کام کرنے والے شاگرد اور ان کے سیکرٹری رھے، ھندوستان کی عظیم علمی دانش گاہ جامعہ ابن تیمیہ کے رئیس محترم اور ما شاء اللہ 50 کے قریب کتب کے مصنف ھیں ۔۔۔ والد گرامی اور ڈاکٹر صاحب حفظہما اللہ دونوں بزرگوں کی عمریں ماشاء اللہ 80 سال کے قریب ھیں اور دونوں خیر سے چاق وچوبند ھیں ۔۔۔ دونوں مشائخ کرام کے مابین اھل حدیث کی قدیم فکری تاریخ پر مفصل گفتگو ھوئی ۔۔۔ مدینہ منورہ یونیورسٹی میں علامہ شہید، حافظ ثناء اللہ محدث مدنی، مولانا عبد السلام کیلانی مرحوم واس زمانہ کے دیگر معاصرین دوستوں کے قدیم احوال وتعلقات کو گفتگو میں تازہ کیا گیا ۔۔۔ جس بحث سے اس اھم موقع پر سب سے زیادہ مجھے علمی فائدہ اور لطف آیا وہ تھا کہ کیا اھل حدیث کے احناف کے بالمقابل اپنے مخصوص اصول الفقہ بھی ھیں؟ بالفاظ دیگر کیا اھل حدیث مکتب فکر احناف کے بالمقابل وجود میں آنا والا صرف ایک گروہ ھے یا تقلیدی رویوں کے بالمقابل "فروغ اجتہاد" کے کسی مستقل نظریہ کے علمبردار بھی ھیں؟ اس ضمن میں امام شافعی کی الرسالہ، امام شاطبی کی الموافقات، آل ابن تیمیہ کی المسودہ اور امام شوکانی رحمہم اللہ کی علم استدلال پر مشتمل اھم کتب کے اسلوب کا اور حنفی اصول فقہ کی کتب: حسامی، نور الانوار، مسلم الثبوت اور اصول شاشی وغیرہ سے ان مذکورہ آئمہ کرام کے طرز بیان کے فرق پر دونوں کبار مشائخ کے مفصل علمی اور مفید حاصل مطالعہ سے سب حاضرین مجلس بہت مستفید ھوئے ۔۔۔ بارک اللہ فیہما۔
ڈاکٹر حمزہ مدنی صاحب​
 
Top