• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بیت کون ؟ رافضی اعتراض اور سنی جواب

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
قرآن عظیم اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کی ہدایت کے لیے ایک جامع واکمل کتاب ہے جس کی رسول ﷺاللہ نے اعمال واقوال کے ذریعے تشریح فرمائی ۔
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/quran-aur-uloom-ul-quran/23-tafseer-e-quran/3667-quran-e-mjeed-ki-lughvi-tashree.html
حدیث صحیح میں آیا ہے کہ جب آیت تطہیر
" إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا "
جب نازل ہوئی تو اس آیت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل سے جو اس کی تفسیر فرمائی اس میں ام المومینن حضرت ام سلمیٰ کو ان کی درخواست کے باوجود شامل نہیں کیا اور پھراس آیت تطہیر کی عملی تفسیر امی عائشہ کے یہاں بھی دھرائی اور تب بھی اس تفسیر میں امی عائشہ کو شامل نہیں کیا اب ایک ایسا عمل جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت تطہیر کے نازل ہونے کے فورا بعد کیا اور پھر اس عمل کو ایک بار پھر دھرا کر بھی بتادیا ایسے آپ دلیل ہی نہیں مان رہے ہیں آپ ایسے صرف میرا ذوق گمان فرمارہیں ہیں تعجب ہے
صرف اس بات پر غور کرلیا جائے کہ سورہ الاحزاب کی آیت 33 کا آخری حصہ جب نازل ہوا تب آپ نے صرف اس آخری حصہ کی ہی عملی تفسیر فرمائی ہے ناکہ پوری آیت 33 کی یہ بھی صحیح حدیث میں صراحت سے بیان ہوا ہے
مفید اور نتیجہ خیز بحث و مباحثہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ فریقین ایسی بات کو موضوع بحث نہیں بناتے جو طرفین کے ہاں متفق علیہ ہو ۔ بلکہ ہر کوئی محل نزاع کو سمجھ کر اس کی تعین و تحریر کے بعد اپنے موقف کو بادلیل ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے ۔
میں سمجھتا ہماری اس گفتگو کم ازکم یہ بات ناپید ہے ۔ آپ ان باتوں پر زور دے رہے ہیں اور دلائل دے رہے ہیں جومیرے نزدیک بھی مسلم ہیں جبکہ جس چیز کی دلیل کی ضرورت ہے اس پر آ نہیں رہے ۔ مثلا آپ نے کہا :
قرآن عظیم اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کی ہدایت کے لیے ایک جامع واکمل کتاب ہے جس کی رسول ﷺاللہ نے اعمال واقوال کے ذریعے تشریح فرمائی ۔
ہم نے کب انکار کیا ہے کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے شارح و مفسر اول ہیں ۔
اور :
صرف اس بات پر غور کرلیا جائے کہ سورہ الاحزاب کی آیت 33 کا آخری حصہ جب نازل ہوا تب آپ نے صرف اس آخری حصہ کی ہی عملی تفسیر فرمائی ہے ناکہ پوری آیت 33 کی یہ بھی صحیح حدیث میں صراحت سے بیان ہوا ہے
جناب ہم نےکب اس تفسیر کا انکار کیا ہے ؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ جن جن کو آپ نے اپنی چادر کے نیچے کیا وہ اہل بیت میں سےہیں ۔ کس نے اس بات کا انکار کیا ہے ؟
آپ کو دلیل اس بات کی دینی چاہیے کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ امہات المؤمنین اہل بیت میں سےنہیں ہیں میں نےپہلے بھی گزارش کی تھی کہ :
آ پ تسلیم کرتےہیں نا کہ (إنما یرید اللہ ۔۔۔ تطہیرا ) سے پہلے بھی اور بعد میں بھی امہات المؤمنین کو خطاب ہے ۔ آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ آیت کے اس خاص حصے (إنما یرید اللہ ۔۔۔ تطہیرا ) میں امہات المؤمنین اس خطاب سے خارج ہوگئ ہیں ؟ کوئی دلیل دیں صرف اپنا ذوق ہم پر لاگو نہ کریں ۔
جس واقعے کو آپ اس آیت کی عملی تفسیر قرار دے رہے ہیں اس میں ان چار کے علاوہ بقیہ کی نفی کہاں ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمۃ رضی اللہ عنہا سے کہا تھا کہ تم اہل بیت میں سےنہیں ہو لہذا تم اس چادر کے اندر نہیں آسکتی ؟
جس کا جواب آپ نے اپنے تئیں یوں فرمایا ہے کہ :

جب نازل ہوئی تو اس آیت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل سے جو اس کی تفسیر فرمائی اس میں ام المومینن حضرت ام سلمیٰ کو ان کی درخواست کے باوجود شامل نہیں کیا اور پھراس آیت تطہیر کی عملی تفسیر امی عائشہ کے یہاں بھی دھرائی اور تب بھی اس تفسیر میں امی عائشہ کو شامل نہیں کیا اب ایک ایسا عمل جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت تطہیر کے نازل ہونے کے فورا بعد کیا اور پھر اس عمل کو ایک بار پھر دھرا کر بھی بتادیا ایسے آپ دلیل ہی نہیں مان رہے ہیں آپ ایسے صرف میرا ذوق گمان فرمارہیں ہیں تعجب ہے
آپ سارا زور اس بات پر دے رہے ہیں کہ حضرت ام سلمۃ اور عائشہ رضی اللہ عنہما کو چادر کے اندر شامل نہیں کیا ۔

آپ یہ دلیل دیں کہ جو چادر کے اندر نہیں شامل ہوئے ان کے اہل بیت ہونے کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی فرمائی ہے ۔

حضور نے یہ جو قولی و فعلی تفسیر فرمائی میں اس کو مانتا ہوں اور ویسے بھی میں کون ہوتا ہوں کہ میں حضور کی تفسیر کا انکار کرسکوں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس تفسیر سے ثابت کیا ہور ہا ہے ؟ صرف یہی کہ چادر کے نیچے آنے والے اہل بیت میں سےہیں ۔ اس میں یہ تو کہیں نہیں کہ جو چادر کے اندر نہیں تھے یا جن کو حضور نے چادر کے اندر شامل نہیں کیا وہ اہل بیت میں سے نہیں ہیں ۔


یہ تفسیر آپ کے موقف کی دلیل دو صورتوں میں ہوسکتی ہے کہ اس میں دو میں سے ایک بات ہو :

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ یہ ہی میرے اہل بیت ہیں ۔
2۔ یا آپ نے فرمایا ہوکہ اس کے علاوہ اور کوئی میرے اہل بیت میں سے نہیں ہے ۔

یہ بات آپ جیسے صاحب علم کو زیب نہیں دیتی اس کا معنی یہ ہوا کہ آپ نے صحیح مسلم کو نہیں پڑھا ہے ورنہ اس طرح کا ارشاد نہیں فرماتے
بھائی میں نے صحیح مسلم کو پڑھا ہے کہ نہیں پڑھا ۔ اس کا اس بحث سے کیا تعلق ہے ؟ آپ اپنے موقف کی تائید میں جس کو بھی دلیل کہا جاسکتا ہے پیش کریں میں آپ کو اپنی مقروءات و مسموعات کا پابند نہیں کرتا ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آ پ تسلیم کرتےہیں نا کہ (إنما یرید اللہ ۔۔۔ تطہیرا ) سے پہلے بھی اور بعد میں بھی امہات المؤمنین کو خطاب ہے ۔ آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ آیت کے اس خاص حصے (إنما یرید اللہ ۔۔۔ تطہیرا ) میں امہات المؤمنین اس خطاب سے خارج ہوگئ ہیں ؟ کوئی دلیل دیں صرف اپنا ذوق ہم پر لاگو نہ کریں ۔
جس واقعے کو آپ اس آیت کی عملی تفسیر قرار دے رہے ہیں اس میں ان چار کے علاوہ بقیہ کی نفی کہاں ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمۃ رضی اللہ عنہا سے کہا تھا کہ تم اہل بیت میں سےنہیں ہو لہذا تم اس چادر کے اندر نہیں آسکتی ؟
صرف یہی ایک بات ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ جس کا جواب نہیں دیا گیا
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آیت تطہیر نازل ہوئی تو آپ نے خود سمت چادر میں پنج تن پاک کولیا اور اس آیت تطہیر کی عملی تفسیر بیان فرمائی اس کا ایک معنی یہ بھی بنتا ہے کہ یہ تفسیر سورہ احزاب کی پوری آیت 33 کی تفسیر نہیں بلکہ صرف آیت تطہیر ہی کی تفسیر ہے اور اللہ تعالیٰ نے صرف آیت تطہیر میں ہی اہل بیت فرمایا ہے اس سے پہلے صرف امہات المومینن سے خطاب ہے کہ اے نبی کی عورتوں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر میں پنج تن پاک جمع ہوگئے تو حضرت ام المومینن حضرت ام سلمیٰ نے درخواست کی کہ میں بھی اس چادر میں آجاؤں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی جگہ رہو تم خیر پر ہو یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تم پہلے ہی اہل بیت میں ہو بلکہ فرمایا کہ خیر پر ہو اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم تمام مومنین کی ماں ہو
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ یہ ہی میرے اہل بیت ہیں ۔
اس کو اگر عربی بیان کیا جائے تو کیا الفاظ ہونگے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
صرف یہی ایک بات ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ جس کا جواب نہیں دیا گیا
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آیت تطہیر نازل ہوئی تو آپ نے خود سمت چادر میں پنج تن پاک کولیا اور اس آیت تطہیر کی عملی تفسیر بیان فرمائی اس کا ایک معنی یہ بھی بنتا ہے کہ یہ تفسیر سورہ احزاب کی پوری آیت 33 کی تفسیر نہیں بلکہ صرف آیت تطہیر ہی کی تفسیر ہے اور اللہ تعالیٰ نے صرف آیت تطہیر میں ہی اہل بیت فرمایا ہے اس سے پہلے صرف امہات المومینن سے خطاب ہے کہ اے نبی کی عورتوں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر میں پنج تن پاک جمع ہوگئے تو حضرت ام المومینن حضرت ام سلمیٰ نے درخواست کی کہ میں بھی اس چادر میں آجاؤں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی جگہ رہو تم خیر پر ہو یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تم پہلے ہی اہل بیت میں ہو بلکہ فرمایا کہ خیر پر ہو اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم تمام مومنین کی ماں ہو
یہ تفسیر آپ کے موقف کی دلیل دو صورتوں میں ہوسکتی ہے کہ اس میں دو میں سے ایک بات ہو :
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ یہ ہی میرے اہل بیت ہیں ۔
2۔ یا آپ نے فرمایا ہوکہ اس کے علاوہ اور کوئی میرے اہل بیت میں سے نہیں ہے ۔
میرے خیال سے اگر آئندہ آپ مزید کچھ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو ان دو میں سے کوئی ایک بات ثابت کیجیے گا ۔ ورنہ ایک ہی بات کو بار بار دھرانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔

یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تم پہلے ہی اہل بیت میں ہو (1) بلکہ فرمایا کہ خیر پر ہو (1) اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم تمام مومنین کی ماں ہو
1۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تو نہیں فرمایا کہ تم اہل بیت میں سےنہیں ہو ۔
2۔ جو خیر پر ہو وہ اہل بیت میں سے نہیں ہوسکتا ؟ آپ کے نزدیک جو اہل بیت ہیں وہ خیر پر نہیں تھے ؟ (نعوذ باللہ من ذلک )
اہل بیت سے ہونا اور خیر پر ہونا یہ دونوں چیزیں اکٹھی کیوں نہیں ہوسکتیں ؟
3۔ اس کا یہ معنی کیوں نہیں ہوسکتا کہ تم تو پہلے ہی بنص قرآن اس خیر ( اہل بیت میں سے ہونا ) کو حاصل کرچکی ہو ؟
جو تمام مؤمنوں کی ماں ہو وہ اہل بیت میں سے کیوں نہیں ہوسکتی ؟
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ یہ ہی میرے اہل بیت ہیں ۔
اس کو اگر عربی بیان کیا جائے تو کیا الفاظ ہونگے
کلام کے اندر حصر پیدا کرنے کے لیے مختلف الفاظ اور اسالیب ہیں آپ کوئی سا بھی ثابت کردیجیے ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہ ایک دلیل کی فرمائش آپ کی طرف تھی وہ حاضر ہے
حضرت زید بن ارقم سے کسی نے اہل بیت کے متعلق جب معلوم کیا تو آپ نے یہ ارشاد فرمایا
وفيه : فقلنا : من أهلِ بيتِه ؟ نساؤُه ؟ قال : لا . وايمُ اللهِ ! إنَّ المرأةَ تكون مع الرجلِ العصرَ من الدَّهرِ . ثم يُطلِّقُها فترجع إلى أبيها وقومِها . أهلُ بيتِه أصلُه ، وعصبتُه الذين حُرِموا الصدقةَ بعده " .
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2408
یعنی جب حضرت زید بن ارقم سے پوچھا گیا کہ کیا بیویاں بھی اہل بیت میں ہیں تو آپ نے فرمایا کہ نہیں اہل بیت وہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مولی ( غلام ) مھران بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بلاشبہ ہم آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پرصدقہ حلال نہیں اورقوم کے مولی انہیں میں سے ہوتے ہیں ۔ مسند احمد حديث نمبر ( 15152 ) ۔
http://islamqa.info/ur/ref/10055

یعنی یہ بیان ہوا کہ اہل بیت کے جو غلام اور لونڈیاں ہیں وہ بھی اہل بیت میں سے ہیں اور جس طرح آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صدقہ حرام ہے اس طرح ان آل محمد مے غلاموں اور لونڈیوں کے لئے بھی صدقہ حرام ہے لیکن جب ہم صحیح مسلم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ام المینن حضرت میمونہ کی لونڈی نے صدقہ کو قبول کیا اور اس صدقہ کو قبول کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی نہی ارشاد نہیں فرمائی
تُصُدِّقَ على مولاةٍ لميمونةَ بشاةٍ ، فماتت، فمرَّ بها رسولُ اللهِ-صلى الله عليه وسلم- فقال :هلَّا أخذْتُم إهابَها ، فدبغتموه ، فانتفعتم به ؟ فقالوا : إنها مِيِّتَةٌ . فقال : إنما حُرِّمَ أكلُها.
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 363
خلاصة حكم المحدث: صحيح

''سیدہ میمونہ کی ایک لونڈی کو بکری صدقے میں دی گئی تھی۔ وہ مر گئی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ نے فرمایا :تم نے اِس کی کھال کیوں نہیں اتاری کہ دباغت کے بعد اُس سے فائدہ اٹھاتے؟ لوگوں نے عرض کیا :یہ تو مردار ہے۔ آپ نے فرمایا:اِس مردار کا صرف کھانا ہی حرام ہے۔''

اس سے پتہ چلتا ہے کہ ام مومینن حضرت میمونہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شامل نہیں اگر آل محمد میں شامل ہوتی تو ان کی لونڈی پر بھی صدقہ لینا حرام ہوتا جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غلام مہران سے ارشاد فرمایا کہ ہم آل محمد کے لئے صدقہ حرام ہے اور قوم کے مولی انہیں میں سے ہوتے ہیں اس لئے آل محمد کے غلاموں اور لونڈیوں کے لئے بھی صدقہ حرام ہے

یہاں شاید آپ یہ اشکال پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ صحیح مسلم کی حدیث میں میمونہ کا ذکر ہے وہ کوئی اور میمونہ ہے ام امومینن میمونہ نہیں اس لئے میں آپ کی خدمت میں آپ ہی کے محدیث العصر کی بیان کی گئی ایک صحیح حدیث پیش کئے دیتا ہوں جس میں صراحت سے بیان ہوا ہے کہ یہ ام امومینن حضرت میمونہ ہی ہیں


تُصُدِّقَ علَى مولاةٍ لميمونةَ أمِّ المؤمنينَ بِشاةٍ فماتَت فمرَّ بها رسولُ اللهِ فقالَ : هلَّا أخذتُم إهابَها جِلدَها فدَبغتُموه فانتفعتُم بهِ ؟ فقالوا : إنَّها مَيتةٌ فقال إنَّما حَرُمَ أكلُها
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: الألباني - المصدر: غاية المرام - الصفحة أو الرقم: 25
خلاصة حكم المحدث: صحيح
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
صرف یہی ایک بات ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ جس کا جواب نہیں دیا گیا
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آیت تطہیر نازل ہوئی تو آپ نے خود سمت چادر میں پنج تن پاک کولیا اور اس آیت تطہیر کی عملی تفسیر بیان فرمائی اس کا ایک معنی یہ بھی بنتا ہے کہ یہ تفسیر سورہ احزاب کی پوری آیت 33 کی تفسیر نہیں بلکہ صرف آیت تطہیر ہی کی تفسیر ہے اور اللہ تعالیٰ نے صرف آیت تطہیر میں ہی اہل بیت فرمایا ہے اس سے پہلے صرف امہات المومینن سے خطاب ہے کہ اے نبی کی عورتوں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر میں پنج تن پاک جمع ہوگئے تو حضرت ام المومینن حضرت ام سلمیٰ نے درخواست کی کہ میں بھی اس چادر میں آجاؤں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی جگہ رہو تم خیر پر ہو یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تم پہلے ہی اہل بیت میں ہو بلکہ فرمایا کہ خیر پر ہو اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم تمام مومنین کی ماں ہو
دو باتیں نوٹ کیجئے:
پہلی تو یہ کہ آیت تطہیر صراحت کے ساتھ ازواج کو اہل بیت میں شامل کر رہی ہے، اس سے آپ کو بھی انکار نہیں۔ ہاں ، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کی بنا پر اس کا انکار فرماتے ہیں، نا کہ آیت کی بنا پر۔
دوسری بات یہ کہ جب قرآن نے بصراحت بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ نے گندگی کو اہلبیت سے دور کر دیا ہے۔ تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل بیت کو چادر میں جمع کر کے پھر وہی دعا اللہ سے مانگنے کا کیا معنیٰ؟ یعنی اللہ تو کہہ رہا ہے کہ میں نے اہل بیت سے گندگی دور کر دی۔ اور اس کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سے اللہ تعالیٰ سے سوال کر رہے ہیں کہ یا اللہ ان سے گندگی دور کر دے؟ چہ معنی دارد۔ لہٰذا یہاں یہ اہم بات ثابت ہوتی ہے کہ:

اس آیت میں چونکہ ازواج النبی پہلے ہی سے شامل تھیں، اور جن کے بارے تطہیر کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نازل فرما چکے تھے، لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کے علاوہ اہل بیت کوچادر میں شامل کر کے اللہ سے دعا کی کہ جیسے تو نے ازواج کو طہارت بخشی ہے، میرے ان اہل بیت کی بھی تطہیر فرما دیجئے۔

پھر یہ بھی نوٹ کیجئے کہ حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے نامحرم تھیں۔ ایک ہی چادر میں ان کو جمع کرنا محال تھا۔لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ کہا کہ تم خیر پر ہو، سے مراد وہی ہے جس کی جانب خضر حیات صاحب نے بھی اشارہ کیا کہ تم تو پہلے ہی آیت تطہیر کی رو سے اس مقام کو حاصل کر چکی ہو۔

بہرام صاحب، ایک سوال کا صریح جواب دیجئے۔ اگر اس آیت کی اس تفسیر کی رو سے فقط یہی پانچ لوگ اہل بیت میں شامل ہیں، تو آپ اپنے دیگر ائمہ معصومین کو کیسے اہل بیت میں شامل کریں گے؟ چادر والی روایت میں حصر ہے ہی نہیں، آپ کے اصول پر حصر ہے ، تو بھی فقط اہل سنت کی مخالفت کے لئے، ورنہ اس حصر کے عملاً قائل آپ بھی نہیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
شیعہ كہتے ہیں کہ آیت کریمہ:
إِنَّما يُريدُ اللَّـهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ أَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطهيرًا
میں ازواج مطہرات شامل نہیں۔

ان سے سوال ہے کہ اس سے پیچھے اور آگے کا خطاب کس سے ہے؟؟؟
وَقَرنَ فى بُيوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ ۖ وَأَقِمنَ الصَّلوٰةَ وَءاتينَ الزَّكوٰةَ وَأَطِعنَ اللَّـهَ وَرَسولَهُ ۚ إِنَّما يُريدُ اللَّـهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ أَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطهيرًا ﴿٣٣﴾ وَاذكُرنَ ما يُتلىٰ فى بُيوتِكُنَّ مِن ءايـٰتِ اللَّـهِ وَالحِكمَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كانَ لَطيفًا خَبيرًا ﴿٣٤﴾
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
شیعہ حضرات سے سوال ہے کہ سورۂ ہود کی آیت کریمہ:
﴿ قالوا أَتَعجَبينَ مِن أَمرِ اللَّـهِ ۖ رَحمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكـٰتُهُ عَلَيكُم أَهلَ البَيتِ ۚ إِنَّهُ حَميدٌ مَجيدٌ ٧٣ ﴾
میں سیدہ سارہ، جبکہ سورۃ القصص کی آیت کریمہ:
فَلَمّا قَضىٰ موسَى الأَجَلَ وَسارَ بِأَهلِهِ ءانَسَ مِن جانِبِ الطّورِ نارًا قالَ لِأَهلِهِ امكُثوا إِنّى ءانَستُ نارًا لَعَلّى ءاتيكُم مِنها بِخَبَرٍ أَو جَذوَةٍ مِنَ النّارِ لَعَلَّكُم تَصطَلونَ ﴿٢٩﴾
میں سیدنا موسیٰ﷤ کی بیوی شامل ہیں یا نہیں؟؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
شیعہ كہتے ہیں کہ آیت کریمہ:
إِنَّما يُريدُ اللَّـهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ أَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطهيرًا
میں ازواج مطہرات شامل نہیں۔

ان سے سوال ہے کہ اس سے پیچھے اور آگے کا خطاب کس سے ہے؟؟؟
وَقَرنَ فى بُيوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ ۖ وَأَقِمنَ الصَّلوٰةَ وَءاتينَ الزَّكوٰةَ وَأَطِعنَ اللَّـهَ وَرَسولَهُ ۚ إِنَّما يُريدُ اللَّـهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ أَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطهيرًا ﴿٣٣﴾ وَاذكُرنَ ما يُتلىٰ فى بُيوتِكُنَّ مِن ءايـٰتِ اللَّـهِ وَالحِكمَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كانَ لَطيفًا خَبيرًا ﴿٣٤﴾
یاد رہے کہ اس آگے یا پیچھے والی آیت میں اہل بیت کے الفاظ کے ساتھ خطاب نہیں اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اہل بیت جس آیت میں کہا گیا صرف اس کی ہی تفسیر فرمائی ہے نہ آگے والی آیات کی تفسیر فرمائی نہ اس سے پیچھے والی آیت کی تفسیر فرمائی یہ بات ذہین میں رکھے اور یہ ایک بار نہیں بلکہ اہل سنت کی صحیح حدیث کے مطابق ایسا دو بار ہوا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
قرآن عظیم اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کی ہدایت کے لیے ایک جامع واکمل کتاب ہے جس کی رسول ﷺاللہ نے اعمال واقوال کے ذریعے تشریح فرمائی ۔
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/quran-aur-uloom-ul-quran/23-tafseer-e-quran/3667-quran-e-mjeed-ki-lughvi-tashree.html
حدیث صحیح میں آیا ہے کہ جب آیت تطہیر
" إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا "
جب نازل ہوئی تو اس آیت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل سے جو اس کی تفسیر فرمائی اس میں ام المومینن حضرت ام سلمیٰ کو ان کی درخواست کے باوجود شامل نہیں کیا اور پھراس آیت تطہیر کی عملی تفسیر امی عائشہ کے یہاں بھی دھرائی اور تب بھی اس تفسیر میں امی عائشہ کو شامل نہیں کیا اب ایک ایسا عمل جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت تطہیر کے نازل ہونے کے فورا بعد کیا اور پھر اس عمل کو ایک بار پھر دھرا کر بھی بتادیا ایسے آپ دلیل ہی نہیں مان رہے ہیں آپ ایسے صرف میرا ذوق گمان فرمارہیں ہیں تعجب ہے
صرف اس بات پر غور کرلیا جائے کہ سورہ الاحزاب کی آیت 33 کا آخری حصہ جب نازل ہوا تب آپ نے صرف اس آخری حصہ کی ہی عملی تفسیر فرمائی ہے ناکہ پوری آیت 33 کی یہ بھی صحیح حدیث میں صراحت سے بیان ہوا ہے

وأنا تارك فيكم ثقلين أولهما كتاب الله فيه الهدى والنور فخذوا بكتاب الله واستمسكوا به فحث على كتاب الله ورغب فيه ثم قال وأهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي فقال له حصين ومن أهل بيته ؟ يا زيد أليس نساؤه من أهل بيته ؟ قال نساؤه من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده قال وهم ؟ قال هم آل علي وآل عقيل وآل جعفر وآل عباس قال كل هؤلاء حرم الصدقة ؟ قال نعم [صحيح مسلم-ن 4/ 1873]۔
 
Top