کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
یہود ونصاری سے قریب کون؟؟
اہل حدیث کی ہم نشینی سے یہود ونصاری مجالست زیادہ پسند ہے
قَالَ شُعْبَةُ لِأَصْحَابِ الْحَدِيثِ: «قُومُوا عَنِّي، مُجَالَسَةُ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مُجَالَسَتِكُمْ، إِنَّكُمْ لَتَصُدُّونَ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ»
2/217جامع بیان العلم وفضلہ
ہوسکتاہے کہ اس بات سے کوئی اہل حدیث صاحب مجھ پر بدفہمی کی تہمت تراشنے لگیں اورکہنے لگیں کہ مضمون نگار کواتنابھی نہیں معلوم کہ امام شعبہ نے یہ اس وقت کہاجب راویان حدیث اورطلاب حدیث ان کو تنگ کردیتے تھے۔لہذا اس طرح کی بات تنگ آنے کی وجہ سے کہی گئی ہیں یہ مطلق اورعمومی قول نہیں ہے اس کوعمومی قول پر ڈھالنابدفہمی اورناسمجھی ہے۔شعبہ نے اہل حدیث سے کہا"نکل جائو یہاں سے،یہود اورنصاری کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرناتمہارے ساتھ بیٹھنے سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔ تم لوگ اللہ کے ذکر اورنماز تک میں رکاوٹ بنتے ہو۔
لیکن بے چارے ناقد کو میرے فہم کا ماتم کرنے سے قبل اپنے ان اکابرین کے فہم کا ماتم کرناپڑے گا جنہوں نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں محدثین کے کچھ ایسے ہی سخٹ جملوں کو حقیت اورعموم پر محمول کرلیاہے۔کیاہمارے ناقد صاحب اس کیلئے تیار ہیں؟اگرتیار ہیں تو وہ ایک مرتبہ اپنے ان اکابرین پر جنہوں نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں محدثین کے سخت اقوال کو حقیقت اورعموم پر محمول کیاہے،تبرابھیج دیں اورتبرابھیجنے کی سند دکھادیں اس کےبعد راقم کو ناقد صاحب کے بدفہمی کے الزام سرلینے میں کوئی حرج نہ ہوگا۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أنا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ، أنا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ، أنا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَبَّارُ، نا أَبُو الْأَزْهَرِ الْخُرَاسَانِيُّ، نا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْأَحْمَرِ، قَالَ: قَالَ شُعْبَةُ لِأَصْحَابِ الْحَدِيثِ: «قُومُوا عَنِّي، مُجَالَسَةُ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مُجَالَسَتِكُمْ، إِنَّكُمْ لَتَصُدُّونَ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ»[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي 1/ 217 ]۔
اولا:
یہ روایت مردود ہے سند میں موجود ’’أبو الأزهر الخراساني‘‘ نامعلوم شخص ہے اس طبقہ میں اس کنیت کے ساتھ ’’خراسانی‘‘ کے لاحقہ سے کوئی بھی راوی معروف نہیں ہے ، ایک راوی ابوالازھر کی کنیت اور الخراسانی کی نسبت سے یعنی ’’ابوالازہر الخراسانی‘‘ سے ضرور مشہور ہے مگر وہ اس طبقہ کا نہیں نیز وہ سخت ضعیف راوی ہے ۔
نیزاس طبقہ میں بھی ’’ابوالازھر‘‘ کی کنیت والے ایک ثقہ راوی موجود ہیں اوروہ زیدبن الحباب کے شاگرد بھی ہیں مگروہ ’’خراسانی‘‘ نہیں بلکہ ’’نیسابوری‘‘ کی نسبت سے معروف ہیں، اور گرچہ نیسابور صوبہ خراسان ہی کا شہر ہے اور اس اعتبار سے یہ راوی بھی صوبہ خراسان کے ہوئے مگرکسی راوی کا کسی صوبہ کا ہونا ایک بات ہے اور اس صوبہ کی نسبت سے معروف ہونا الگ بات ہے ، اور اس طبقہ والے ابوالازھر ثقہ راوی صوبہ خراسان کی نسبت سے نہیں بلکہ اس کے شہر نیسابور کی نسبت سے معروف ہیں، اور زیرنظر سند میں موجود ابوالازھر کی نسبت ’’خراسانی‘‘ بتلائی جارہی ہے نہ کہ ’’نیسابوری‘‘ ، لہٰذا یہ کوئی اور راوی ہے جس کے حالات نا معلوم ہیں۔
نیز اس طبقہ والے ثقہ ومعروف ابوالازھر یہ کثیر الروایہ وشہرت یافتہ ہیں اسی طرح احمدبن مسلم الابار بھی کثیر الروایہ وشہرت یافتہ ہیں مگر زیر نظر روایت کی سند کے علاوہ کسی بھی دوسری روایت کی سند میں استاذو شاگرد کا یہ رشتہ نظر نہیں آتا اورائمہ فن نے تو سرے سے ان دونوں کے مابین استاذ وشاگردی کے رشتہ کا ذکر ہی نہیں کیا ہے ، اس سے بھی اس بات کی طرف اشارہ ملتاہے کہ زیرنظر سند میں ’’ابوالازھر الخراسانی ‘‘ کوئی اور راوی ہے۔
واضح رہے کہ اس سند کے دیگر رواۃ وہ ہیں جنہوں نے ابوحنیفہ کی بابت محدثین کے کئی اقوال جرح کے راوی ہیں اور اسی بناپر عصرحاضر کے کذاب ودجال کوثری نے ان پر بے تکی جرح کی ہے جس کا دندان شکن جواب علامہ معلمی رحمہ اللہ نے تنکیل میں دے دیا۔
نوٹ:
جمشید صاحب نے امام شعبہ سے منقول مذکورہ قول کے ماخذ کے لئے ’’ 2/217جامع بیان العلم وفضلہ ‘‘ کاحوالہ دیا ہے مگر اس کتاب میں ہمیں یہ قول نہیں مل سکا ، ظن غالب ہے کہ سبقت قلم سے جمشید صاحب نے الجامع لاخلاق الراوی کے بجائے جامع بیان العلم کا حوالہ دے دیا ، جیساکہ ان کے درج کردہ صفحہ سے اشارہ ملتاہے کیونکہ جامع بیان العلم کے اس صفحہ پر تو ایسی کوئی بات نہیں لیکن الجامع لاخلاق کے اسی صفحہ پر یہ قول موجود ہے ، اس لئے یہ جمشیدصاحب کی انگلیوں کی سبقت ہے اگرایسا نہیں ہے تو ہمیں جامع بیان العلم سے یہ قول با سند پیش کیا جائے۔
ثانیا:
یہود ونصاری والے الفاظ کے ساتھ مذکورہ بات امام شعبہ رحمہ اللہ سے ثابت نہیں لیکن آپ کا درج ذیل قول ثابت ہے :
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ رِزْقٍ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الدَّقَّاقُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُكْرَمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: ح وَأَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَالِبٍ الْفَقِيهُ، قَالَ: قُرِئَ عَلَى إِسْحَاقَ النِّعَالِيِّ، وَأَنَا أَسْمَعُ، حَدَّثَكُمْ أَبُو خَلِيفَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْوَلِيدِ يَقُولُ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ يَقُولُ: «إِنَّ هَذَا الْحَدِيثَ يَصُدُّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ، فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ» قَالَ أَبُو خَلِيفَةَ: يُرِيدُ شُعْبَةُ، رَحِمَهُ اللَّهُ، أَنَّ أَهْلَهُ يُضَيِّعُونَ الْعَمَلَ بِمَا يَسْمَعُونَ مِنْهُ وَيَتَشَاغَلُونَ بِالْمُكَاثَرَةِ بِهِ، أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ. وَالْحَدِيثُ لَا يُصَدُّ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ، بَلْ يَهْدِي إِلَى أَمْرِ اللَّهِ، [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 114 واسنادہ صحیح]۔
اس قول میں امام شعبہ رحمہ اللہ نے یہود ونصاری کی مثال نہیں دی ہے اسی طرح طلاب حدیث نہیں بلکہ نفس حدیث ہی پر بات کی ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے اس کی وضاحت بھی اسی روایت کے ساتھ موجود ہے نیزاس کی وضاحت امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے بہترین انداز میں پیش کی ہے چنانچہ:یعنی امام شعبہ نے کہا کہ یہ حدیث تمہیں اللہ کے ذکر اورنماز سے روکتی ہے تو کیا تم اس سے باز نہ رہو گے ، ابوخلیفہ کہتے ہیں کہ امام شعبہ رحمہ اللہ کی مراد وہ طلاب حدیث ہیں جو بہت ساری احادیث سن کر بھی اس پرعمل نہیں کرپاتے کیونکہ کثرت روایت وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں ، ورنہ حدیث حدیث اللہ کے ذکر سے نہیں روکتی بلکہ اللہ کے حکم کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ عَلِيٍّ اللِّحْيَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ عِيسَى الْقَاضِي، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَانِئٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، وَسُئِلَ، عَنْ قَوْلِ، شُعْبَةَ: إِنَّ هَذَا الْحَدِيثَ يَصُدُّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ، وَعَنِ الصَّلَاةِ، فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ؟، فَقَالَ: «لَعَلَّ شُعْبَةَ كَانَ يَصُومُ، فَإِذَا طَلَبَ الْحَدِيثَ وَسَعَى فِيهِ يَضْعُفُ، فَلَا يَصُومُ، أَوْ يُرِيدُ شَيْئًا مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ، فَلَا يَقْدِرُ أَنْ يَفْعَلَهُ لِلطَّلَبِ. فَهَذَا مَعْنَاهُ»[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 114 واسنادہ صحیح]۔
خود خطیب بغدادی فرماتے ہیں:یعنی امام احمدرحمہ اللہ سے امام شعبہ کے مذکورہ قول کے بارے میں پوچھا گیا تو امام احمدرحمہ اللہ نے فرمایا: شاید امام شعبہ روزہ رکھنے والے تھے اورجب طلب حدیث میں مصروف ہوتے اوراس میں محنت کرتے توکمزرو پڑجاتے اور روزہ نہیں رکھ پاتے یا کچھ اور نیکیاں کرنا چاہتے لیکن طلب حدیث میں مصروفیت کی وجہ سے نہیں کرپاتے ، یہی مراد ہے امام شعبہ کے قول سے۔
قُلْتُ: وَلَيْسَ يَجُوزُ لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ: كَانَ شُعْبَةُ يُثَبِّطُ عَنْ طَلَبِ الْحَدِيثِ، وَكَيْفَ يَكُونُ كَذَلِكَ وَقَدْ بَلَغَ مِنْ قَدْرِهِ أَنْ سُمِّيَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْحَدِيثِ؟ كُلُّ ذَلِكَ لِأَجْلِ طَلَبِهِ لَهُ وَاشْتِغَالِهِ بِهِ. وَلَمْ يَزَلْ طُولَ عُمُرِهِ يَطْلُبُهُ حَتَّى مَاتَ عَلَى غَايَةِ الْحِرْصِ فِي جَمْعِهِ. لَا يَشْتَغِلُ بِشَيْءٍ سِوَاهُ، وَيَكْتُبُ عَمَّنْ دُونَهُ فِي السِّنِّ وَالْإِسْنَادِ، وَكَانَ مِنْ أَشَدِّ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ عِنَايَةً بِمَا سَمِعَ، وَأَحْسَنِهِمْ إِتْقَانًا لِمَا حَفِظَ[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 115]
ثالثا:
امام شعبہ رحمہ سے منقول مردود روایت میں امام شعبہ نے اپنے بعض شاگردوں کی مجالست سے بہتر یہود ونصاری کی مجالست کو قرار دیا ہے مگر امام ابراہیم نخعی نے تو مرجئہ کی مجالست نہیں بلکہ اس جماعت ہی کو تمام اہل کتاب سے زیادہ مبغوض قراردیاہے ، چنانچہ :
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أخبرنا محمد بن الصلت قال: حدثنا منصور بن أبي الأسود عن الأعمش قال: ذكر عند إبراهيم المرجئة فقال: والله إنهم أبغض إلي من أهل الكتاب.[الطبقات لابن سعد: 6/ 282 واسنادہ حسن الی الاعمش]۔
جولوگ امام اعمش کے عنعنہ کو مضر نہیں مانتے انہیں اس روایت پر ایمان لانا چاہئے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مرجئیہ کون لوگ ہیں۔یعنی امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے سامنے مرجئہ کاذکر ہوا تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ! یہ لوگ میری نظر میں اہل کتاب سے بھی زیادہ مبغوض ہیں ۔
یہ تو ایک عمومی بات ہوئی لیکن بطور خاص رائے وقیاس کے امام اعظم کو کیا کہا گیا ہے وہ بھی دیکھتے چلیں:
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى290)نے کہا:
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى النَّسَائِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يُحَدِّثُ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ حَرْبٍ، قَالَ: قَالَ لِي سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: " اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ فَاسْأَلْهُ عَنْ عِدَّةِ أُمِّ الْوَلَدِ إِذَا مَاتَ عَنْهَا سَيِّدُهَا، فَأَتَيْتُهُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: لَيْسَ عَلَيْهَا عِدَّةٌ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى سُفْيَانَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ هَذِهِ فُتْيَا يَهُودِيٍّ "[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 194 واسنادہ صحیح]۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:شعیب بن حرب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے امام سفیان الثوری رحمہ اللہ نے کہا: ابوحنیفہ کے پاس جاؤ اوراس سے اس ام الولد کی عدت کے بارے میں سوال کرو جس کا آقا فوت ہوگیا ہو ۔ شعیب بن حرب کہتے ہیں کہ پھر میں ابوحنیفہ کے پاس آیا اورسوال کیا تو ابوحنیفہ نے جواب دیا : اس پر کوئی عدت نہیں ۔ شعیب بن حرب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ پھر میں امام سفیان الثوری رحمہ اللہ کے پاس لوٹا اوران کو یہ بتایا تو انہوں نے کہا: یہ یہودی کا فتوی ہے۔
أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطي حدثنا عبد الله بن محمد بن عثمان المزني بواسط حدثنا طريف بن عبد الله قال سمعت بن أبي شيبة وذكر أبا حنيفة فقال أراه كان يهوديا[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 13/ 413]
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن جو لوگ جرح وتعدیل کے اقوال میں صحت وضعف پر بحث نہیں کرتے انہیں اس قول پر ایمان لانا چاہئے۔طریف بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ امام ابوبکربن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے کہا: میراخیال ہے کہ ابوحنیفہ یہودی تھا۔
نیزقاضی ابوالعلاء کی مروایات کے انتقاء میں ان کے شاگرد امام خطیب ماہر تھے اور طریف بن عبیداللہ فقط ضعیف ہیں ، کذاب یا متہم بالکذب نہیں اور وہ براہ راست اپنے استاذ سے نقل کرتے ہیں اوروہ بھی ابوحنیفہ سے متعلق تبصرہ اس لئے یہ بات بھولنے والی نہیں ہے ، اس اعتبار سے یہ روایت کسی حدتک معتبر ہوجاتی ہے ۔
علاوہ ازیں امام ابوبکربن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب مصنف میں بھی ابوحنیفہ کی خوب حقیقت واضح کی ہے اس سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ امام موصوف سے اس طرح کی جرح مستبعد نہیں۔
مزید غور کرنے کے بات یہ ہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کے ایک خلاف حدیث فتوی پر ابوحنیفہ کو یہودی کہہ دیا تو امام ابوبکربن ابی شیبہ نے تو ابوحنیفہ کے بہت سارے ایسے فتاوے اپنی کتاب مصنف میں نقل کئے جو حدیث کے خلاف تھے ، اس لئے ان سے بھی اس طرح کا تبصرہ صادر ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔