• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث:ایک نئے تناظر میں

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
اہل الرائے کی طرح بننے کی اہلحدیثوں کو نصیحت
مشہور ناقد رجال اورجرح وتعدیل کے امام یحیی بن معین تواہل حدیث حضرات کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کم ازکم حدیث کے بیان کرنے میں اتنی ہی صداقت سے کام لیں جتنی کہ ابن سماعہ(امام ابویوسف کے شاگرد)رائے کے بیان کرنے میں صداقت سے کام لیتے ہیں ۔اگراہل حدیث اتنابھی اہتمام کرلیں تویہ ان کیلئے بہت بڑی بات ہوگی۔
قَالَ يَحْيَى بْن مَعِينٍ: لو كَانَ أهلُ الحديث يصدقون فِي الحديث كما يصدق محمد بْن سِمَاعة فِي الرأي لكانوا فِيهِ عَلَى نهاية.
تاریخ الاسلام 17/325
ابن معین کی اس بات سے ہی اہل حدیث حضرات کو خاموش ہوجاناچاہئے اورسوچناچاہئے کہ جتنااہل حدیث نے حدیث کی راوی کی روایت میں صدق ودیانت داری کا مظاہرہ کیاہے اتناہی احناف نے رائے کے بیان میں بھی صدق ودیانت داری کا مظاہرہ کیاہے۔وکفی ھذا شرفالفقہ الاحناف
ویسے یہ واضح رہناچاہئے کہ ابن معین جیساجرح وتعدیل کاامام بھی نہ صرف حنفی تھابلکہ بقول حافظ ذہبی غالی حنفی تھا۔اب ایسے میں اہل حدیثوں سے ایک سوال ہے کہ ابن معین اہل حدیث رہے یانہیں رہے۔اگروہ اہل حدیث ہیں توبقیہ احناف اہل حدیث کیوں نہیں اوراگربقیہ احناف اہل حدیث نہیں ہیں توپھرابن معین اہل حدیث کیوں اورکس معنی میں ہیں اورجس معنی میں ابن معین اہل حدیث ہیں باوجود حنفی ہونے کے توکیااسی معنی میں تمام موجودہ اہل حدیث بھی "اہل حدیث"ہیں۔
اولا:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قال يحيى بن معين: لو كان أهل الحديث يصدقون في الحديث كما يصدق محمد بن سماعة في الرأي لكانوا فيه على نهاية. وكان ابن سماعة هذا يصلي كل يوم مائتي ركعة [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 17/ 325]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ بات بلاسند وبے حوالہ درج کی ہے اور اس مقام پر کتاب کے محقق عمر عبد السلام التدمري رقم (1)حاشیہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:

[1] تاريخ بغداد 5/ 343. [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 17/ 325 حاشیہ رقم 1]۔

اب آئیے اصل کتاب تاریخ بغداد سے یہ قول دیکھتے ہیں:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
قال لي القاضي أبو عبد الله الصيمري ومن أصحاب أبي يوسف ومحمد جميعا أبو عبد الله محمد بن سماعه وهو من الحفاظ الثقات كتب النوادر عن أبي يوسف ومحمد جميعا وروى الكتب والأمالي وولي القضاء ببغداد لأمير المؤمنين المأمون فلم يزل ناظرا إلى أن ضعف بصره في أيام المعتصم فاستعفاه قال يحيى بن معين لو كان أصحاب الحديث يصدقون في الحديث كما يصدق محمد بن سماعه في الرأي لكانوا فيه على نهاية هذا كله عن الصيمري[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 5/ 343]۔

اصل حوالہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ خطیب بغدادی نے یہ قول قاضی صمیری سے لیا ہے ۔
اورقاضی صمیری کی پیدائش امام ابن معین رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ہوئی ہے چنانچہ:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
مات الصيمري ليلة الأحد ودفن في داره بدرب الزرادين من الغد وهو يوم الأحد الحادي والعشرين من شوال سنة ست وثلاثين وأربعمائة وكان مولده في سنة إحدى وخمسين وثلاثمائة [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 8/ 79]۔

اور امام ابن معین رحمہ ان کی پدائش سے قبل 233 ہجری ہی میں فوت ہوچکے تھے۔

معلوم ہوا کہ یہ بے سند بات ہے لہٰذا مردود ہے۔


ثانیا:
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ صَاحِبُ أَبِي حَنِيفَةَ كُوفِيٌّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَدَقَةَ قَالَ: سَمِعْتُ الْعَبَّاسَ بْنَ مُحَمَّدٍ الْبَصْرِيَّ، يَقُولُ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ، يَقُولُ: مُحَمَّدٌ جَهْمِيٌّ كَذَّابٌ[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 52 واسنادہ صحیح]۔
یعنی امام یحیی بن معین رحمہ اللہ نے کہا : محمد بن الحسن جہمی اور کذاب ہے۔
امام ابن معین رحمہ اللہ کے اس قول کے بارے میں کیا خیال ہے؟؟وہ ابوحنیفہ کے شاگرد اعظم کوکذاب و جہمی قرار دے رہے ہیں !!!


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773

اہل حدیث یااہل خبیث
تقریباتمام ہی گمراہ فرقوں کایہ طرز عمل رہاہے کہ وہ خود کواچھے ناموں سے مزین کرنے کی کوشش اورفراق میں رہتے ہیں اوران کا بڑازور کام سے زیادہ نام پر ہوتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ خوارج خود کواچھاسانام دیتے تھے اوراچھاسانعرہ لگاتے تھے۔اسی طرح معتزلہ اوردیگر تمام گمراہ فرقوں نے اپنے اچھے نام رکھنے پر زیادہ زور دیاہے لیکن جمہورامت نے ان کو ان کے اصل نام سے ہی یاد کیاہے ۔دورحاضر میں بھی کچھ لوگ خود کو اہل حدیث قراردیتے ہیں اوریہ تاثردینے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویاصرف وہی حدیث ماننے والے ہیں اوربقیہ سارے غیراہل حدیث ہیں اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہور امت نے ان کے اس نام کو قبول نہیں کیاہے اوران کو الگ الگ خطوں میں الگ الگ نام دیاگیاہے۔ کہیں لامذہبیہ،کہیں غیرمقلدتوکہیں کچھ اور۔کچھ حضرات توتجاوز کرتے ہوئے ان کو اہل خبیث بھی کہہ جاتے ہیں ۔
لیکن یہ نئی بات نہیں ہے کہ اگرکسی کے متعلق یہ مشہور ہو کہ وہ اہل حدیث ہے لیکن حقیقت میں ایسانہ ہوتواس کواہل خبیث کہاجائے۔ ابن معین سے ایک ایسے ہی شخص کے متعلق پوچھاگیاجس کے بارے میں مشہور تھاکہ وہ اہل حدیث ہے تو فرمایاوہ توجھوٹا اورخبیث ہے۔
وَسَأَلت يحيى قلت كنَانَة بن جبلة الَّذِي كَانَ يكون بخراسان من أهل الحَدِيث قَالَ ذَاك كَذَّاب خَبِيث قَالَ عُثْمَان وَهُوَ قريب مِمَّا قَالَ يحيى خَبِيث الحَدِيث
تاریخ ابن معین روایۃ الدارمی
اس سے پتہ چلتاہے کہ جولوگ خود کو الٹے سیدھے اورغلط طورپر اہل حدیث کہتے ہیں اوران میں اہل حدیث کی صفات نہ پائی جائیں یاخواہ مخواہ دوسروں کے القاب وآداب کو اپنے اوپر اوراپنی جماعت پر چسپاں کیاجائے تو ابن معین کی تقلید میں ان کو خبیث الحدیث بھی کہاجاسکتاہے۔
اس بحث کو اتنے پر ہی ختم کرتاہوں ورنہ کہیں ایسانہ ہو اہل حدیث شیوخ کو چھوڑ کر میرے پیچھے پڑجائیں اورمجھے پھر دوڑکربھاگناپڑے کیونکہ اہل حدیث حضرات نے جب شیوخ کو نہیں چھوڑااوران کو دوڑادیاتومیں کون ہوتاہوں۔
وَحَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْقَاسِمِ، نا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَدَّادُ، قَالَ: سَمِعْتُ يَمُوتَ بْنَ الْمُزْرِعِ، يَقُولُ: «إِذَا رَأَيْتَ الشَّيْخَ يَعْدُو فَاعْلَمْ أَنَّ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ خَلْفَهُ»
(جامع بیان العلم وفضلہ2/1026
یموت بن المزرع کہتے ہیں جب تم کسی شخص کو بھاگتے ہوئے دیکھوتوسمجھ جائو کہ اہل حدیث اس کے پیچھے پڑے ہیں۔
اولا:
جمشید صاحب کی عربی انتہائی قابل رحم ہے ، موصوف لکھتے ہیں۔
ابن معین کی تقلید میں ان کو خبیث الحدیث بھی کہاجاسکتاہے
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابن معین رحمہ اللہ کی نقل کردہ عبارت میں ابن معین رحمہ اللہ نے اس راوی کو خبیث الحدیث قطعا نہیں کیا ہے ، آئیے اس حوالہ پر پھر سے نظرکرتے ہیں:

امام عثمان الدارمي رحمه الله (المتوفى280)نے کہا:
وسألت يحيى قلت كنانة بن جبلة الذي كان يكون بخراسان من أهل الحديث قال ذاك كذاب خبيث قال عثمان وهو قريب مما قال يحيى خبيث الحديث [تاريخ ابن معين - رواية الدارمي: ص: 196]۔

غوکریں کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے اس راوی کو صرف کذاب خبیث کہا ہے اہل خبیث یا خبیث الحدیث نہیں کہا ہے ۔
البتہ ان کے شاگرد نے امام دارمی نے اس راوی کی خباثت کی تائید کرتے ہوئے اس کی مرویات کو بھی خبیث کہا ہے ۔
یعنی خبیث الحدیث والی جرح امام ابن معین کی نہیں بلکہ ان کے شاگرد کی ہے ، اور یہ جوکچھ ہے جرح وتعدیل کی بات ہے نہ کہ کسی کو لقب دینے کی بات ہے ۔
امام ابن معین نے اسے کذاب کہا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب اس کا لقب کذاب ہوگیا اسے جب بھی یاد کیا جائے کذاب سے یاد کیاجائے۔
اسی طرح ان کے شاگرد نے خبیث الحدیث کہہ دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں آج سے اس راوی کو خبیث الحدیث کے لقب سے یاد کیا جائے بلکہ مقصود اس کی مرویات پر جرح کرنا ہے ۔
اور اہل خبیث کی تو یہاں کوئی بات ہی نہیں جبکہ جمشید صاحب نے عنون میں اہل حدیث اور اہل خبیث لکھا ہے ، اور یہاں تک کہہ دیا کہ ایسا کہنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔


ثانیا:
یہ خبیث اور کذاب ’’كنانة بن جبلة‘‘ کوئی اور نہیں بلکہ یہ بدنصیب امام اعظم ابوحنیفہ کاشاگرد ہی ہے ۔
اوریہ رشتہ کوئی اوربلکہ خود امام اعظم کی گن گانے والے ہی بتلاتے ہیں چنانچہ ابوحنیفہ کی طرف منسوب روایات کو جمع کرنے والے أبو محمدالحارثي ( المتوفی340 ) صاحب نے کہا:

وقد روى هذا اللفظ عن أبي حنيفة إبراهيم بن طهمان، وكنانة بن جبلة، وجعفر بن عون، وسعد بن الصلت، وإسحاق ابن يوسف الأزرق، وأبو يوسف، ومحمد بن الحسن، والحسن بن زياد، وعبد الحميد الحماني، وأيوب بن هانئ، ومحمد بن مسروق، والحسن بن الفرات، وسعيد بن أبي الجهم، ويحيى بن نصر بن حاجب، والقاسم بن الحكم العرني، وبشار بن قيراط، ومحمد بن يعلى زنبور. [مسند أبي حنيفة للحارثي 1/ 430]۔

مزید کہا:
حدثنا أبو بكر محمد بن همام السبزواري، حدثنا أيوب بن الحسن، حدثنا حفص بن عبد الله، حدثنا كنانة بن جبلة والهياج بن بسطام قالا: حدثنا أبو حنيفة، عن موسى بن أبي عائشة، عن عبد الله بن شداد ابن الهاد، عن جابر بن عبد الله، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقرأ رجل خلفه، فلما قضى الصلاة، وذكر الحديث. [مسند أبي حنيفة للحارثي 1/ 421]۔

اب کیا کیا جائے ! لوگ دوسروں پر کینچڑ اچھالتے ہوئے یہ بھی بھول جاتے ہیں ہمارا اپنا ہی کوئی اس میں لت پت ہے۔

رابعا:
اہل حدیث ، اہل خبیث یا ابوحنیفہ ابو جیفہ(پلیدوبدبودارمردے کاباپ):
جمشید صاحب نے انتہائی بے باکی سے اہل حدیث اور اہل خبیث کی گردان کی ہے لیکن یہ بھول گئے اسی لہجے میں ابوحنیفہ اور ابوجیفہ کی گردان بھی کی جاسکتی ہے۔

جمشدصاحب جھوٹ موٹ لکھا کہ اہل خبیث کہنا کوئی نئی بات نہیں ہم نے اوپر ثابت کردیا ہے ان کے دئے گئے حوالہ میں اہل خبیث کی بات قطعا نہیں ہے لہذا یہ پرانی نہیں بلکہ نئی بات ہی ہے ۔
البتہ ابوحنیفہ کو ابوجیفہ کہنے والی بات نئی نہیں بلکہ بڑی قدیم ہے ثبوت ملاحظہ ہو:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أخبرنا بن رزق أخبرنا عثمان بن احمد حدثنا حنبل بن إسحاق قال سمعت الحميدي يقول لأبي حنيفة إذا كناه أبو جيفة لا يكنى عن ذاك ويظهره في المسجد الحرام في حلقته والناس حوله[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 13/ 407 واسنادہ صحیح]۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ امام حمیدی رحمہ اللہ جب ابوحنیفہ کا ذکر کرتے تو اسے ابوجیفہ (پلیدوبدبودارمردے کاباپ) کہتے اوریہ بات علی الاعلان مسجدحرام میں اپنے حلقہ درس میں کہتے اورلوگ ان کے ارد گرد موجود ہوتے۔
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى290)نے کہا:
حَدَّثَنِي أَبُو مَعْمَرٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عِيسَى، قَالَ: سَأَلْتَ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، قَالَ: «ذَاكَ أَبُو جِيفَةَ، ذَاكَ أَبُو جِيفَةَ سَدَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ الْأَرْضَ»[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 211 وسندہ صحیح]۔
اسحاق بھی عیسی کہتے ہیں کہ میں نے امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ سے ابوحنیفہ کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: وہ ابوجیفہ ((پلیداوربدبودارمردے کاباپ)) ہے وہ ابوجیفہ ((پلیدوبدبودارمردے کاباپ)) ہے اللہ نے اس کے ذریعہ زمین کو پرکردیا ہے۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
نوٹ:کتابوں میں موجود اہل حدیث یااصحاب الحدیث اوراس کے ہم معنی الفاظ سے موجودہ افراد کو خود کومرادلیناکسی علمی لطیفہ سے کم نہیں ہے۔یہ تحریر بھی اسی لطیفہ کاجواب ہے کوئی سنجیدہ تحریر نہیں ہے۔ لہذاکوئی صاحب اس کو اپنے دل پر نہ لیں۔والسلام

امام عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
سَأَلت ابي عَن الرجل يُرِيد ان يسْأَل عَن الشَّيْء من امْر دينه مِمَّا يبتلى بِهِ من الايمان فِي الطَّلَاق وَغَيره وَفِي مصر من اصحاب الرَّأْي وَمن اصحاب الحَدِيث لَا يحفظون وَلَا يعْرفُونَ الحَدِيث الضَّعِيف وَلَا الاسناد الْقوي فَلِمَنْ يسْأَل لاصحاب الرَّأْي اَوْ لهَؤُلَاء اعني اصحاب الحَدِيث على مَا قد كَانَ من قلَّة معرفتهم قَالَ يسْأَل اصحاب الحَدِيث لَا يسْأَل اصحاب الرَّأْي ضَعِيف الحَدِيث خير من رَأْي ابي حنيفَة [مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله ص: 438 وسندہ صحیح عبداللہ ، ابن الامام احمد رحمہ اللہ یروی عن ابیہ]
امام احمد کے بیٹے عبداللہ بن احمد کہتے ہیں‌ میں نے والد محترم امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھاکہ کہ ایک آدمی دین کے سلسلے میں درپیش مسائل پوچھنا چاہتا ہے مثلا طلاق کی قسم وغیرہ کا مسئلہ اور شہرمیں اہل الرائے بھی ہیں اورایسے اہل الحدیث بھی ہیں جنہیں احادیث‌ صحیح‌ سے یاد نہیں‌ ہے انہیں ضعیف حدیث کا بھی علم نہیں ہے اورنہ ہی صحیح سند کا ۔
دریں صورت سائل کس سے سوال کرے اہل الرائے سے؟ یا کم علم اہل حدیث سے ؟
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: ایسی صورت میں سائل اہل حدیث ہی سے مسئلہ پوچھے اہل الرائے سے ہرگز نہ پوچھے، کیونکہ ضعیف حدیث‌ ابوحنیفہ کی رائے سے تو بہتر ہی ہے۔

ہم صرف اسی ایک قول پر اکتفاء کرتے ہیں قارئین اس میں غور کریں اوربتلائیں کہ کیا یہاں بھی اصحاب الحدیث خاص محدثین کے بارے میں مستعمل ہے ؟؟
اس کے علاوہ اور بھی مختلف اقوال ہیں جن سے صراحتا ثابت ہوتا ہے کہ اہل الحدیث اور اصحاب الحدیث ایک جماعت کے لئے بھی مستعمل ہوتا تھا لیکن حالیہ دنوں میں ہم مصروف ہیں اس لئے ہم اس جوب کو یہیں پر ختم کرتے ہیں اور ضرورت محسوس کی گئی تو جمشید صاحب کے جواب الجواب میں یہ صراحتیں بھی پیش کردیں گے ۔


اب آخر میں ایک وضاحت کرکے ہم اپنی بات ختم کردیتے ہیں۔


مغالطہ:
جمشید صاحب نے جگہ جگہ لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنے کے لئے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح ابوحنیفہ کی مذمت کی گئی اسی طرح اہل حدیث کی بھی مذمت کی گئی ، اس لئے دہرا معیار کیوں؟

عرض ہے کہ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم رفع الیدین کی احادیث پیش کرتے ہیں اور لوگوں سے اس پر عمل کا تقاضہ کرتے ہیں ، توبعض الناس لوگوں کو بڑے پیار اوربڑے اہتمام سے یہ سمجھاتے ہیں کہ دیکھوں اسلام میں بہت ساری باتیں پہلے تھیں بعد میں منسوخ ہوگئیں اور مثال دیتے ہیں کہ دیکھو رفع الیدین تو حدیث سے ثابت ہے لیکن بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا قران سے ثابت ہے ، تو کیا آج بھی اہل حدیث بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں گے۔

عرض ہے کہ الحمدللہ ہم اس اصول سے واقف ہیں کہ حدیث بلکہ قرآنی آیت بھی منسوخ ہوتی ہے ، ہمیں یہ بات سکھانے اور بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم یہ بات جانتے بھی ہیں اورمانتے بھی ہیں ، لیکن اصل مسئلہ یہ کہ کیا صرف کسی کے دعوی کرنے سے کوئی حدیث منسوخ ہوجائے گی یا اس کے لئے دلیل بھی چاہئے ؟ رفع الیدین کے مسئلہ میں ہم منسوخ کی بات نہیں مانتے اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ ہم سرے سے نسخ ہی کے منکر ہیں یا ہمیں منسوخ کے مسائل کا علم نہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ منسوخ ہونے کی دلیل موجود نہیں ہے ۔
اب بعض الناس بجائے منسوخ کی دلیل دینے کے لوگوں میں نسخ کی مثالیں دیتے پھرتے ہیں اورناسخ منسوخ کا اصول سمجھاتے ہیں حالانکہ اس کا کوئی منکر ہے ہی نہیں۔

کچھ اسی طرح کی چالاکی جمشید صاحب نے بھی حالیہ تحریر میں کی ہے موصوف کچھ مثالیں (جو غیرثابت یا غیرمتعلق ہیں) ہیں اسے پیش کرکے لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ کسی عام کی تخصیص بھی ہوتی ہے ، کسی مطلق کی تقیید بھی ہوتی ، بعض باتیں مخصوص حالات سے متعلق ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
عرض ہے کہ ہمیں ان اصولوں سے انکار نہیں ہے لیکن ان کی تطبیق کے لئے دلائل درکار ہیں ، ہم محض کسی کی عقیدت و چاہت تخصیص یا تقیید کی دلیل نہیں بن سکتی۔



(ختم شد)​
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
جزاکم اللہ خیرا کفایت اللہ صاحب اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائیں اور اسی طرح باطل کا رد کرنے کی مزید توفیق دے ۔۔آمین !!!
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جزاکم اللہ خیرا کفایت اللہ صاحب اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائیں اور اسی طرح باطل کا رد کرنے کی مزید توفیق دے ۔۔آمین !!!
آمین
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جمشید صاحب نے جن روایات کی بنیاد پر اہل حدیث پر تہمتوں کی عمارت قائم کی تھی الحمداللہ! کفایت اللہ بھائی نے اس کا تارپود بکھیر کر رکھ دیا ہے جمشید صاحب کی زیادہ تر روایات تو ضعیف یا موضوع ہیں یا پھر ثابت ہی نہیں اور ایک آدھ جو روایت ثابت ہے اس پر بھی صاحب جرح کا رجوع کفایت اللہ بھائی نے پیش کردیا ہے۔ اصولا تو جمشید صاحب اب منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے لیکن انہوں نے کمال ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بجائے اسکے کہ کفایت اللہ بھائی کے وارد شدہ اعتراضات کا جواب دیتے اور بتاتے کہ نہیں ہماری پیش کردہ روایات صحیح الاسناد ہیں اور جو کفایت اللہ صاحب نے محدث صاحب کا رجوع پیش کیا ہے وہ بھی درست نہیں یا پھر ان محدث کا آخری قول اہل حدیث کی مذمت پر ہے۔ اس اصولی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اور شرم و حیا کو ہمیشہ کی طرح طاق نسیاں کرکے جمشید صاحب نے چپ سادھنے کے بجائے جواب میں یہ کہا ہے کہ کفایت اللہ صاحب ہماری مراد ہی نہیں سمجھے اور خلط مبحث سے کام لے رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب آپکی پیش کردہ روایات ہی درست نہیں تو پھر اسکی نبیاد پر کوئی الزام قائم کرنا اور دوسروں سے بات نہ سمجھنے کا شکوہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ جمشید صاحب پہلے اپنی روایات کا دفاع کریں اس کے بعد ہی آپ کسی شکایت کی پوزیشن میں ہونگے۔ جس مضمون کی بنیاد پر آپ اتنے اچھل رہے ہیں اسکا سارا مواد ہی جعلی اور دو نمبر ہے۔ پہلے ایک نمبر مواد لاؤ پھر اہل حدیث پر زبان درازی اور سب و شتم کا شوق پورا کرو۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میں نے ایک مضمون "اہل حدیث:نئے تناظر میں"لکھاتھا۔ جس پر اہل حدیث حضرات نے غیرمعمولی رد عمل کااظہار کیا۔ کفایت اللہ صاحب نے اس مضمون کے جواب کی ذمہ داری اپنے سرلی۔لیکن وہ نہ مضمون نگار کے اصل منشاء تک پہنچ سکے اورنہ ہی مضمون کی بنیادی بات ان کی گرفت میں آئی۔یہی وجہ ہے کہ ان کا جوابی مضمون ان کے سابقہ مضامین کی بازگشت بن کررہ گیاہے جس میں بات کہیں سے بھی شروع ہوامام ابوحنیفہ پر ضرور ختم ہوگی۔

ایک انسان یاکسی جماعت کانمائندہ کوئی اعتراف کرتاہے تواس کے اعتراف کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اورکوئی دوسراشخص کسی دوسری جماعت کے مخصوص شخص یامخصوص جماعت کے خلاف کچھ کہتاہے تواس کی دوسری حیثیت ہوتی ہے۔ پہلی بات ہرایک کے نزدیک قابل قبول ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی انسان اپنے بارے میں اعتراف کرے یااپنی جماعت کے بارے میں !اس کو قبول کیاجاتاہے اوردوسرے افراد وجماعتوں کے بارے میں اس کے بیان کو پرکھااورجانچاجاتاہے اوراس کے بعد قبول کیاجاتاہے۔

میں نے اپنے مضمون میں جوکچھ بھی لکھاتھاوہ اہل حدیث حضرات کے اپنے نمائندوں کے بیانات تھے۔ اس میں نہ امام ابوحنیفہ کا کوئی بیان تھا۔ نہ امام ابویوسف کااورنہ امام محمد کااورنہ کسی دیگر معتبر حنفی فقیہہ کا۔اس کے بالمقابل کفایت اللہ صاحب ہمیں حمیدی اورحمادبن سلمہ کے اقوالات سناتے پھررہے ہیں۔ حمیدی صاحب ہزار بار کہیں یاحمادبن سلمہ لاکھ مرتبہ کہیں۔ان کی بات کی وہ حیثیت نہیں ہوسکتی جو کسی اہل حدیث کے خود اپنے اعتراف کی حیثیت ہوتی ہے کہ "علم حدیث تواشرف ہے لیکن اہل حدیث ارذل ہیں"اہل حدیث کی مصاحبت سے بہتر یہود ونصاری کی مصاحبت ومجالست ہے۔ (اس قول کامفہوم یہی نکلتاہے کہ وہ یہودونصاری سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں۔)یہ بات کس نے بیان کی ہے شعبہ نے۔ شعبہ اہل حدیث حضرات کے معتبر امام ہیں۔اس کے بالمقابل سفیان ثوری اگرامام ابوحنیفہ کے کسی فتوی کو یہودی فتوی قراردیتے ہیں تواس کی حیثیت ایک الزام کی ہے اورشعبہ کے قول کی حیثیت اعتراف کی ہے اوراعتراف اورالزام میں بعدالمشرقین ہے۔یہی حال دیگر اقوال کے تعلق سے ہے۔

اس بنیادی چیز کو سمجھے بغیر کفایت اللہ صاحب نے جوابی مضمون لکھاہے لہذا قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ جب یہ بنیادی بات ہی ان کی گرفت میں نہیں آئی توجوابی مضمون میں اسی انداز کا ہوگا جس کو عربی کے ایک محاورہ میں بیان کیاگیاہے۔ سألته عن أبيه؟ فقال: خالي شعيب!

دوسری چیز جو میرے مضمون میں تاناکےبعد باناکی حیثیت رکھتی تھی وہ محدثین حضرات کو وہ اقوال جوانتہائی شنیع ہیں۔ اگر امام ابوحنیفہ کے بارے میں ہیں تواس کو جرح کا نام دیاجاتاہے اوریہ باور کرانے کی تلقین کی جاتی ہے کہ محدثین کرام کا مقام بہت بلند ہے ۔انہوں نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی یہ جرح کی ہوگی وغیرہ وغیرہ اوراگران کے جرح کا اعتبار نہ کیاجائے تویہ محدثین کرام کے اقوال کے ساتھ ناانصافی وغیرہ اورپتہ نہیں کیاکیاپٹیاں پڑھائی جاتی ہیں جیساکہ مقبلی نے نشرالصحیفہ میں کیاہے۔ اسی طرح محدثین کے سخت اورتند وتیز اقوال کے بارے میں حتی کے ایسے اقوال جس کاباطل ہوناظاہروباہر ہے جیسے امام ابوحنیفہ سے کوئی صاحب نقل کرتے ہیں کہ اگرکوئی جوتے کی بطورتقرب عبادت کرے تودرست ہے(مفہوم)خطیب اس پر خاموشی سے گزرجاتے ہیں لیکن جب محدثین اپنے ہی جماعت کے حق میں تندوتیز جملے استعمال کرتے ہیں توخطیب بغدادی ہمیں سمجھانے بیٹھ جاتے ہیں کہ اعمش تندخو،بداخلاق تھے۔ جلدی طیش میں آجاتے تھے۔انہوں نے یہ باتیں اس وقت کہیں جب وہ طلاب حدیث سے تنگ آگئے اوردوسری چیزیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ دورنگی کیوں؟یہ ڈبل اسٹینڈرڈ کس لئے۔ یہ دوہرامعیار کس لئے اپنایاجارہاہے؟

حالانکہ قرآن کریم میں سخت تاکید آئی ہے کہ لایجرمنکم شنآن قوم علی ان لاتعدلوااعدلواھواقرب للتقوی

ْکفایت اللہ صاحب نے مجھے آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ "ابوحنیفہ کے دیوانے"ان کیلئے کس طرح غیرمتعلق نصوص کو ان پر فٹ کرتے ہیں۔ محبت اورنفرت یہ دونوں واقعتاایسی شے ہیں جس میں انسان نہ صرف دیوانہ ہوجاتاہے بلکہ دیوانگی کی حدوں کوبھی عبور کرجاتاہے۔

کچھ توہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اورکچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں

ویسے انصاف کو مدنظررکھتے ہوئے ان کوابوحنیفہ کی محبت میں دیوانے ہونے والوں کے علاوہ ان کوبھی یاد رکھناچاہئے جوامام ابوحنیفہ کے بغض اورنفرت میں دیوانے ہوگئے ا وراس دیوانگی نے ان کو عقل وشعور سے بے بہرہ کردیاہےصم بکم عمی فھم لایرجعون!

گزارش ہے کہ وہ پہلے مضمون کا مقصد سمجھیں اس کے بعدجواب دہی کی زحمت کریں ۔ورنہ وہی ہوگاکہ کفایت اللہ صاحب پھر سے محدثین کرام کے امام ابوحنیفہ کے حق میں تنقیدات کوجمع کرے مضمون کو بوجھل بنادیں گے لیکن اصل مسئلہ جہاں کا وہیں رہے گا۔ویسے بھی ابن عبدالبر کہہ چکے ہیں کہ تمام اہل حدیث امام ابوحنیفہ اوران کے شاگردوں کے حق میں دشمنوں کی طرح برتائو کرتے ہیں(مفہوم)(الانتقاء لابن عبدالبر)لہذا دشمنوں کی بات چنداں معتبرنہیں ہواکرتی ۔ شیخ سعدی بھی یہ بات کہہ چکے ہیں ولیکن قلم درکف دشمن است

احادیث نبویہ کو ابوحنیفہ پر چسپاں کرنا:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، - قَالَ عَبْدٌ: أَخْبَرَنَا وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا - عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ جَعْفَرٍ الْجَزَرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كَانَ الدِّينُ عِنْدَ الثُّرَيَّا، لَذَهَبَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ - أَوْ قَالَ - مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ حَتَّى يَتَنَاوَلَهُ»[صحيح مسلم 4/ 1972]۔
صحیح مسلم وغیرہ کی اس حدیث کو زبردستی ابوحنیفہ پرچسپاں کیا جاتاہے جبکہ ابوحنیفہ فارسی تھے ہی نہیں تفصیل کے لئے دیکھئے توضیح الاحکام از شیخ زبیرعلی زئی ج 2 ص 402۔
کیونکہ نصوص کو زبردستی ابوحنیفہ کے اوپرفٹ کرنا یہ سب ابوحنیفہ کے دیوانوں ہی کا کام ہے کیونکہ ابوحنیفہ کی مدح میں ائمہ کے نصوص نہ کے برابر ہیں اس لئے یہ بے چارے ادھر ادھر کے غیرمتعلق اقوال ہی سے ابوحنیفہ کی مدح سرائی کی ناکام کوشش کرتے ہیں
اس حدیث کو امام ابوحنیفہ پر چسپاں کس نے کیاہے؟
اگرانجناب کواس کاعلم ہوتاتویہ لایعنی کلام آپ کے قلم سے نہیں نکلتا۔
یہ بھی ایک عجیب وغریب حقیقت ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے جس قدربعض الناس نے نفرت روارکھی ہے اسی قدر اللہ نے ان کو ائمہ اربعہ کے مقلدین کے درمیان محبوبیت عطاء کی ہے۔ احناف کی توبات ہی چھوڑدیں۔ مالکیوں میں دیکھیں توابن عبدالبر نے ائمہ ثلاثہ میں ان کو شمار کرتے ہوئے ان کے فضائل پر کتاب لکھی ہے۔شوافع میں دیکھیں توذہبی نےمناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ کے نام سے کتاب لکھی۔،سیوطی نےتبییض الصحیفۃ فی مناقب ابی حنیفہ کے نام سے کتاب ابن حجر ہیتمی نے الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان کے نام سے کتاب لکھی۔۔حنابلہ میں دیکھیں تو ابن عبدالہادی تنویرالصحیفۃ بمناقب الامام ابی حنیفہ کے نام سے کتاب لکھی۔ پھر دوسرے حنبلی فقیہہ اورمحدث نے تنویربصائرالمقلدین فی مناقب الائمۃ المجتہدین کے نام سے کتاب لکھی جس میں امام ابوحنیفہ کا طویل ترجمہ ذکر کیا۔اس کے علاوہ بھی دیگر حنابلہ نے اپنی کتابوں میں امام ابوحنیفہ کا ذکر خیر کیاہے۔


اس حدیث کامصداق جن لوگوں نے امام ابوحنیفہ کو ٹھہرایاہے ان میں سیوطی بھی ہیں۔ مرعی بن یوسف صالحی الحنبلی بھی ہیں حضرت شاہ ولی اللہ بھی ہیں۔
حافظ سیوطی امام ابوحنیفہ کی حدیث سے بشارت کے سلسلے میں لکھتے ہیں
اقول بشرالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بالامام ابی حنیفۃ فی الحدیث الذی اخرجہ ابونعیم فی الحلیۃ (تبییض الصحیفہ)
میں کہتاہوں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے امام ابوحنیفہ کی اس حدیث کے ذریعہ بشارت دی ہے جس کو ابونعیم نے حلیہ میں نقل کیاہے۔
اورحدیث نقل کرنے کے بعد اورمختلف کتابوں سے حدیث کے مختلف الفاظ نقل کے بعد وہ مزید فرماتے ہیں۔

فھذا اصل صحیح یعتمدعلیہ فی البشارۃ والفضیلۃ نظیرالحدیثین اللذین فی الامامین ویستغنی بہ عن الخبرالموضوع۔(تبییض الصحیفہ12)
یہ بشارت کے سلسلے میں صحیح بنیاد ہے جس پر اعتماد کیاجاناچاہئے اوریہ حدیث بشارت میں انہی حدیثوں کی نظیرہے جس سے امام شافعی اورامام مالک کی فضیلت پر استدلال کیاجاتاہے اوراس صحیح حدیث کے ذریعہ موضوع حدیثوں سے بے نیازی ہوجاتی ہے۔

تنویر بصائرالمقلدین کے مولف جوحنبلی ہیں وہ لکھتے ہیں۔
وکان ذلک مصداق الحدیث الذی رواہ الشیخان وغیرھامن حدیث ابی ہریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لوکان الایمان عندالثریا ولفظ ابی نعیم لوکان العلم معلقابالثریازادالطبرانی من حدیث قیس لاتنالہ العرب لنالہ رجال ولفظ مسلم لتناولہ رجل من ابناء فارس،فھذا اصل صحیح یعتمدعلیہ فیہ البشارۃ والفضیلۃ نظیر الحدیثین اللذین من الامامی مالک والشافعی ۔(تنویربصائرالمقلدین ص16)
اورامام ابوحنیفہ اس روایت کے مصداق تھے جس کو شیخین نے ابوہریرہ سے نقل کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگرایمان ثریاکے پاس ہو اورابونعیم کی روایت میں اگرعلم ثریامیں معلق ہواورطبرانی کی روایت میں یہ زیادہ ہے کہ اس کو عرب کے لوگ نہیں بلکہ دوسرے کچھ لوگ اورمسلم کی روایت کے الفاظ ہیں فارس کے لوگ حاصل کرلیں گے تویہ حدیث امام ابوحنیفہ کی فضیلت میں بنیادی اورصحیح ہے جس پر اعتماد کیاجاسکتاہے اوریہ حدیث فضیلت اوربشارت میں امام مالک اورشافعی کی شان میں وارد حدیثوں کی نظیر ہے۔

اسی طرح خیرات الحسان کے مولف مشہور شافعی فقیہہ علامہ ابن حجرہیتمی لکھتے ہیں۔
ان الامام اباحنیفۃ ھوالمراد من ھذاالحدیث ظاہر لاشک فیہ(الخیرات الحسان ص13)
اس حدیث سے (یعنی لوکان الایمان وفی روایۃ العلم)امام ابوحنیفہ ہی مراد ہیں یہ بات اتنی ظاہر ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اس حدیث کونقل کرکے فرماتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ دریں حکم داخل است(کلمات طیبات ص168)
امام ابوحنیفہ اس حدیث کے حکم میں داخل ہیں۔

اورمسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ ہی دوسری کتاب میں فرماتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ ،ماورائ النہر ،خراسان اوراہل فارس کےائمہ سب اس میں داخل ہیں(ازالۃ الخفاء 1/271)

اورتواور جادو وہ جوسرچڑھ کر بولے ۔ غیرمقلدین کے مجدد زماں نواب صدیق حسن خان نے بھی اس کا اعتراف کیاہے کہ امام ابوحنیفہ اس حدیث کے عموم میں داخل ہیں۔
صواب آنست کہ ہم امام ابوحنیفہ دراں داخل است وہم جملہ محدثین فرس باشارۃ النص(اتحاف النبلاء ص424)
درست یہ ہے کہ اس حدیث کے عموم میں امام ابوحنیفہ داخل ہیں اوراشارۃ النص سے فارس کے ائمہ حدیث بھی داخل ہیں۔

علامہ محمد معین سندھی باوجود اس کے فقہ حنفی کے قائل نہیں بلکہ کسی حد تک برگشتہ اورمنحرف اورشیعت کی جانب مائل تھے دوسرے لفظوں میں اپنے دو رکے نواب وحید الزماں تھے ۔وہ لکھتے ہیں۔
اس حدیث میں امام ابوحنیفہ کی بڑی فضیلت اورمنقبت ہے۔(دراسات اللبیب289)
اب یہ کفایت اللہ صاحب کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ امام ابوحنیفہ کو اس فضیلت کا مستحق قراردینے والے صرف دیوانے ہیں یافرزانےبھی ہیں۔ میرانہیں خیال ہے کہ کفایت اللہ کے نزدیک یہ سب حضرات دیوانے ہوں گے بلکہ وہ انہیں فرزانے ہی سمجھتے ہوں گے۔اوروں کو توجانے دیجئے لیکن نواب صدیق حسن خان صاحب کے بارے میں وہ کیاکہیں گے۔انہوں نے تونہایت غضب کیاکہ امام ابوحنیفہ اس حدیث کے عموم میں شامل کرکے اس کا مصداق بناڈالا۔اب کفایت اللہ صاحب کی وہ گرج کہ
صحیح مسلم وغیرہ کی اس حدیث کو زبردستی ابوحنیفہ پرچسپاں کیا جاتاہے
اس کی حقیقت قارئین اچھی طرح معلوم کرچکے ہیں کہ یہ جملہ لاعلمی اورجہالت کی وجہ سے تھا۔
جہاں تک ایران اورکابل کی بات ہے تو کبھی جغرافیہ پربھی غورکرناچاہئے۔کسی زمانہ میں فارس بہت بڑاتھا۔ آج کی طرح کا محدود نہیں تھا اورتمام علاقے بشمول کابل اورافغانستان کے دوسرے علاقے فارس میں ہی شمار کئے جاتے تھے۔جیساکہ کوئی کہہ سکتاہے کہ دوسوسال پہلے پاکستان کو ہندوستان کے نام سے ہی یاد کیاجاتاتھا۔ملکوں کے جغرافیے بدلتے رہتے ہیں۔ اس سے اصل حیثیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔
مثلاایک حدیث ہے نہیں معلوم کہ اس کی استنادی حیثیت کیاہے۔ مجھ کو ہندوستان سے ٹھنڈی ہوا آتی محسوس ہوتی ہے۔اس کو اقبال نے نظم کا جامہ پہناتے ہوئے کہاتھا۔
میرعرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے۔
تواب اگرکوئی کہنے لگے کہ اس فضیلت میں صرف ہندوستان شامل ہے پاکستان شامل نہیں ہے تویہ بات غلط ہوگی کیونکہ جس وقت یہ بات کہی گئی اس وقت کا ہندوستان مراد ہوگانہ کہ آج کا۔ اسی طرح حدیث شریف میں جو فارس اورابناء فارس کہاگیاہے تواس وقت کا فارس مراد ہوگا۔ جس وقت یہ بات کہی گئی ہے نہ کہ بعد کے ادوار کے اعتبار سے۔


بشارت کی حدیث اورایک کام کی بات
عمومابشارت کے اس طرح کی احادیث کے سلسلہ میں انتہائی محدود نقطہ نظراپنایاجاتاہے اورکہاجاتاہے کہ اس میں صرف وہی شخص مراد ہے۔مثلاامام مالک کی فضیلت کے سلسلے میں یہ حدیث ذکرکی جاتی ہے کہ" لوگ دوردراز سے حصول علم کیلئے آئیں گے لیکن مدینہ کے عالم سے زیادہ بڑاعالم نہیں پائیں گے"۔ یاامام شافعی کے فضیلت کے سلسلے میں بیان کیاجاتاہے کہ" قریش کو برابھلامت کہو کیونکہ قریش کا ایک عالم زمین کو علم سے بھردے گا"۔یہ دونوں حدیثیں ابن عبدالبر نے الانتقاء میں ذکرکی ہیں۔ اول الذکر کے بارے میں ابن عبدالبر کہتے ہیں رواتہ کلھم ائمۃ ثقات ۔

اس طرح کی حدیثوں کے بارے میں عمومی نقطہ نظراپناناچاہئے مثلا امام مالک کی فضیلت کے سلسلے میں جو حدیث ذکر کیجاتی ہے اس کے عموم میں حضرت عبداللہ بن عمر اورفقہاء سبعہ بھی شامل ہوسکتے ہیں۔بالخصوص حضرت عبداللہ بن عمر،سعید بن المسیب اورامام مالک وغیرہ۔

اسی طرح امام شافعی کے حق میں جو حدیث ہے اس میں حضرت عبداللہ بن عباس اوردیگر فقہائے مکہ جن کا سلسلہ قریش سے ہو شامل ہوسکتے ہیں۔

اسی طرح امام ابوحنیفہ کے حق میں ذکرکردہ حدیث میں حضرت سلمان فارسی،حضرت امام ابوحنیفہ اوردیگرفارس وعجم سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوسکتے ہیں۔کیونکہ نام توکسی کا لیانہیں گیاہے صفت ذکر کی گئی ہے تویہ صفت اب جتنوں پر صادق آتی ہے وہ سب اس کے مصداق ہوں گے۔

اب اس حدیث کے اولین مصداق حضرت سلمان فارسی ہوں گے۔ پھر امام اعظم امام ابوحنیفہ ہوں گے اس کے بعد دیگر حضرات محدثین ہوں گے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
موضوع احادیث کو ابوحنیفہ پر چسپاں کرنا:
پاکستان میں کوئی گھمن صاحب ہیں موصؤف نے اپنی ایک تقریر میں ابوحنیفہ کی موہوم فضیلت ثابت کرنے کے لئے ایک موضوع ومن گھڑت روایت کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ أنا مدينة العلم، وعلي بابها (یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا درازہ ) ۔
اور علم کے دروزے یعنی علی رضی اللہ عنہ کوفہ میں مقیم تھے اور اور امام ابوحنیفہ بھی کوفہ میں تھے اس لئے امام ابوحنیفہ ہی امام اعظم ہوئے کیونکہ علم کے دراوزے پر یہی تھے [ماحصل از تقریر گھمن مذکور]۔
حالانکہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے بہت سارے ائمہ حدیث نے اس روایت کو موضوع و من گھڑت بتلایا ہے تفصیل کے لئے دیکھیں[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 6/ 518 رقم 2955]۔


موضوع احادیث اوراہل حدیث
کفایت اللہ صاحب کی یہ عادت بڑی پرانی کہ وہ غیرمتعلق باتیں چھیڑ کر موضوع کو طویل کردیتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ وہ حدیث موضوع ہے۔ لیکن خود اپنی جماعت کا حال بھول گئے کہ وہ کس طرح موضوع حدیثوں سے خود کی فضیلت ثابت کرنے کے اثبات کے درپے رہتے ہیں۔

۔ اپریل1943میں مولوی ابوالقاسم بنارسی صاحب کی صدارت میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں خطبہ صدارت انہی صدر صاحب نے دیاتھا۔ ان صدر صاحب نے اس میں جہاں خود کو قدیم ثابت کرنے کیلئے کتابوں میں موجود اہل حدیث کے الفاظ سے استدلال کیا۔وہیں اہل حدیث کی فضائل ومناقب کے بیان میں موضوع حدیثوں کے ذکر تک سے گریز نہیں کیا۔ ان صاحب نے جوموضوع حدیث ذکر کی ہے اس کو سنئے۔

"قیامت میں اہل حدیث سیاہی دانوں سمیت آئیں گے۔اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا ۔تم اہل حدیث ہو،جنت میں جائو"
اصل عربی الفاظ یہ ہیں
إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ جَاءَ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ بِأَيْدِيهِمُ الْمَحَابِرُ، فَيَأْمُرُ اللَّهُ جِبْرِيلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ، فَيَسْأَلَهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ، فَيَقُولُ مَنْ أَنْتُمْ، فَيَقُولُونَ نَحْنُ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ادْخُلُوا الْجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ مِنْكُمْ، طَالَمَا كُنْتُمْ تُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ فِي دَارِ الدُّنْيَا "
یہ حدیث موضوع اورجعلی ہے۔ اس کے موضوع اورجعلی ہونے پر علماء کی یہ شہادتیں دیکھیں۔
خطیب بغدادی تاریخ بغداد میں یہ حدیث ذکرکرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
هَذَا حَدِيثٌ مَوْضُوعٌ، وَالْحَمْلُ فِيهِ عَلَى الرَّقِّيِّ (تاریخ بغداد4/648)
یہ حدیث موضوع ہے اوراس کے وضع کی ذمہ داری رقی پر ہے۔
تاریخ دمشق ابن عساکر میں بھی مذکورہ حدیث کو نقل کرنے کے بعد خطیب کے کلام کو تائیدانقل کیاگیاہے۔
ابن جوزی نے بھی اس حدیث کو موضوع کہاہے۔
قَالَ الْخَطِيبُ هَذَا حَدِيث مَوْضُوع وَالْحمل فِيهِ على الرقي وَالله أعلم.(الموضوعات لابن الجوزی1/260)
حافظ ابن حجر نے بھی اس حدیث کو موضوع شمار کیاہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
قلت: وضع علي الطبراني حديثا باطلا في حشر العلماء بالمحابر انتهى روى عنه أبو العلاء الواسطي وقال كان حافظا وعبد العزيز وعلي الأزجي وأبو الحسين بن جميع وآخرون والحديث الذي أشار إليه المصنف قال الخطيب حدثنا الصوري ثنا بن جميع ثنا محمد بن يوسف الرقي ثنا الطبراني ثنا الدوري حدثنا عبد الرزاق عن معمر عن الزهري عن أنس رضى الله عنه رفعه إذا كان يوم القيامة جاء أصحاب الحديث بايديهم المحابر(لسان المیزان5/436)
اس حدیث کو علامہ صاحب تنزیہہ الشریعہ نے بھی موضوع قراردیاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
[حَدِيثٌ] " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ جَاءَ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ بِأَيْدِيهِمُ الْمَحَابِرُ، فَيَأْمُرُ اللَّهُ جِبْرِيلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ، فَيَسْأَلَهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ، فَيَقُولُ مَنْ أَنْتُمْ، فَيَقُولُونَ نَحْنُ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ادْخُلُوا الْجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ مِنْكُمْ، طَالَمَا كُنْتُمْ تُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ فِي دَارِ الدُّنْيَا " (خطّ) من حَدِيثِ أَنَسٍ مِنْ طَرِيقِ مُحَمَّدِ بن يَعْقُوب الرقي وَقَالَ الْحمل فِيهِ على الرقي، وَقَالَ الذَّهَبِيّ فِي الْمِيزَان وضع هَذَا الحَدِيث على الطَّبَرَانِيّ، قَالَ السُّيُوطِيّ الشَّافِعِي: وَأخرجه الديلمي والنميري فِي الْإِعْلَام من طَرِيق آخر فِيهِ مُحَمَّد بن أَحْمد ابْن مَالك الإسْكَنْدراني وَهُوَ مَجْهُول (قلت) اقْتصر شيخ شُيُوخنَا الْعَلامَة السخاوي الشَّافِعِي فِي كِتَابه القَوْل البديع على تَضْعِيف الحَدِيث من الطَّرِيقَيْنِ، قَالَ فِي الأول أخرجه الطَّبَرَانِيّ وَمن طَرِيقه ابْن بشكوال، وَنقل عَن طَاهِر بن أَحْمد النَّيْسَابُورِي أَنه قَالَ: مَا أعلم حدث بِهِ غير الطَّبَرَانِيّ وَالله تَعَالَى أعلم.
تنزیہہ الشریعہ 1/257
اس کے علاوہ ذہبی اورصاحب الکشف الحثیث اورعلامہ شوکانی وغیرہ نے بھی اس حدیث کو موضوع قراردیاہے ۔
اس کے باوجود ابوالقاسم بنارسی صاحب اہل حدیث کے فضائل ومناقب کے باب میں اس کو دھڑلے سے ذکر کرگئے۔
کیاہم کفایت اللہ صاحب سے انہی الفاظ اورانداز کی توقع ابوالقاسم بنارسی کے بھی حق میں رکھ سکتے ہیں جوکہ انہوں نے الیاس گھمن کے حق میں روارکھاہے؟
حتی بعض مسکین تو احادیث تک کو بھی ابوحنیفہ پر چسپاں کردیتے ہیں اورجوش عقیدت میں اتنابھی ہوش نہیں رہتا کہ پیش کردہ حدیث صحیح بھی ہے یا موضوع ومن گھڑت
اس کا جواب یقینانفی میں ہی ہوگا۔ کیونکہ اب وہ ضرور ابوالقاسم بنارسی کیلئے کوئی تاویل لے کر آجائیں گے اورکہیں اس کی وجہ یہ تھی وہ تھی ۔چلئے ہم خود ہی ابوالقاسم بنارسی کے حق میں یہ الفاظ دوہرادیتے ہیں


حتی بعض مسکین تو احادیث تک کو اہل حدیث پر چسپاں کردیتے ہیں اورجوش عقیدت میں اتنابھی ہوش نہیں رہتا کہ پیش کردہ حدیث صحیح بھی ہے یا موضوع ومن گھڑت۔



دوسری بات اگرکوئی حدیث امام ابوحنیفہ کے حق میں وضع ہوئی ہے تواسی طرح اہل حدیث کے بھی فضائل ومناقب میں لوگوں نے جعلی احادیث گھڑی ہیں توجوبات اس تعلق سے کہی جائے گی وہی بات اس تعلق سے بھی کہی جائے گی کفایت اللہ آئندہ بولیں توسوچ سمجھ کربولیں یہ نہ ہو کہ خود کاکہاہوااپنے ہی اوپر صادق آجائے اوردوسرے لفظوں میں خود کا تھوکاہوااپنے چہرہ پر آکر گرے۔لہذا کفایت اللہ صاحب نے جوکچھ کہاہے


جو لوگ اللہ پر جھوٹ بولنے سے بھی نہیں شرماتے وہ بھلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے سے کیوں پیچھے رہیں گے چنانچہ مجنونان ابوحنیفہ نے ابوحنیفہ کی فضیلت میں بہت ساری احادیث گھڑکر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا ، چندملاحظہ ہوں:
اس کو تھوڑی تبدیلی اورترمیم کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں
جولوگ اللہ پر جھوٹ بولنے سے بھی نہیں شرماتے وہ بھلانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے سے کیوں پیچھے رہیں گے چنانچہ مجنونان اہل حدیث نے اہل حدیث کی فضیلت میں بہت ساری احادیث گھڑ کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا۔جیساکہ ایک مثال آپ ماقبل میں ملاحظہ کرچکے ہیں۔
جہاں تک تورات کی بات ہے تو اس کی محققین احناف نے خود ہی تردید کردی ہے۔ جیساکہ مولانا عبدالحی لکھنی نے ہدایہ کے مقدمہ میں اس کی صراحت کی ہے۔اس کے علاوہ تورات تغیر وتبدیلی سے محفوظ نہیں ۔

قرآن کریم کے تعلق سے امام ابوحنیفہ کے اشارہ کی جوبات آپ نے فرمائی ہے اس کے بالمقابل ویساہی کسی فورم پر راقم الحروف نے خود دیکھاہے کہ اہل حدیث کو قدامت کو ثابت کرنے کیلئے قرآن سے استدلال کیاجاتاہے کہ قرآن میں موجود ہے فبای حدیث بعدہ یومنون اس کے بعد جس طرح مقدمات قائم کرکے نتائج نکالے جاتے ہیں اس سے آنجناب یقینالاعلم نہیں ہوں گے۔ اس لطیفہ کے بارے میں کیاخیال ہے کہ قرآن کریم سے اہل حدیث کی قدامت ثابت کی جاتی ہے؟
ویسے اگرنگاہ کشادہ کریں تو آنجناب کو معلوم ہوگاکہ ان کے کہنے کا اصل مقصد یہ تھاکہ
قرآن کریم کی آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چارذمہ داری بتائیں تلاوت آیات،تزکیہ تعلیم کتاب، تعلیم حکمت۔
تعلیم کتاب اورحکمت کو دوسرے لفظوں میں قرآن وحدیث کی تعلیم بھی کہہ سکتے ہیں قرآن وحدیث کی تعلیم کیاہے اس بارے میں ایک پہلو کی نشاندہی فقہ کرتی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ایک بڑے اورعالی مقام فقیہہ تھے (خواہ اہل حدیث اس پر کتناہی جلیں اورکڑھیں)دنیا میں زیادہ ترمسلمانوں نے ان کی فقہ پر اعتماد کیااوراسی پر اپنی نماز روزہ حج وزکوۃ اورمختصرالفاظ میں دینی احکامات پر عمل کیا۔ اس طرح دیکھاجائے تو تعلیم کتاب وحکمت میں ایک نمایاں مقام اورحصہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کاہے۔ اس لحاظ سے ہوسکتاہے کہ مولانا نےان کو شامل کرلیاہو۔ اپنے الفاظ کی مصنف کتاب خود بہترتوجیہہ کرسکتے ہیں ۔لیکن اس کی وجہ میرے خیال میں یہ بھی ہوسکتی ہے۔
میں نے لکھاتھا:
ان کاحال اس باب میں بعینہ اس بھوکے کے ایساہے جس نےدواوردو کتنے کا جواب چارروٹیوں کی صورت میں دیاتھا۔یاپھر اس شخص کا جس کو ریگستان میں شدت پیاس میں ریت بھی پانی دکھائی دینے لگتاہے۔
اس پر کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں

عرض ہے کہ ہمارے اس حال کی جمشید صاحب نے کوئی دلیل ہی نہیں دی لیکن ہم دلائل کے ساتھ بتلائیں گے یہ حال بلکہ اس سے بھی بدتر حال جمشید صاحب اور ان کی برادری کا ہے چنانچہ یہ لوگ غیرمتعلق اقوال ہی نہیں بلکہ ایسے اقوال کو بھی ابوحنیفہ کی مدح پرچسپاں کردیتے ہیں جن میں درحقیقت ابوحنیفہ کی مدح کے بجائے مذمت ہی ہوتی ہے یعنی رات کو دن اور سیاہ کو سفید بنانے کی ناکام کوشش ، چند نمونے ملاحظہ ہوں:
اگرکفایت اللہ صاحب ان کتابچوں، پمفلٹ اورمقالات ومضامین کی جانب رجوع کرتے جہاں "قدامت اہل حدیث"بیان کیاجاتاہے اورنعرہ لگایاجاتاہے تمام صحابہ اہل حدیث تھے۔ہندوستان کو فتح کیلئے آنے والے تمام مجاہدین اہل حدیث تھے ۔تمام تابعین اہل حدیث تھے اورپتہ نہیں کیا۔ امام ترمذی نے کسی مقام پر اوراہل حدیث نے یہ کہاہے لکھتے ہیں توفوراارشاد ہوتاہے دیکھویہ لکھاہواہے اہل حدیث مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ میں بھی ہمارافرقہ موجود تھا(لیکن درمیانی صدیوں میں کہیں گم ہوگیا)اگرمیں ان اقتباسات کو نقل کرناشروع کردوں توبلامبالغہ یہ مضمون مضمون کی حد سے گزرکر مقالہ کی شکل اختیار کرلے گا۔
 
Top