میں نے ایک مضمون
"اہل حدیث:نئے تناظر میں"لکھاتھا۔ جس پر اہل حدیث حضرات نے غیرمعمولی رد عمل کااظہار کیا۔ کفایت اللہ صاحب نے اس مضمون کے جواب کی ذمہ داری اپنے سرلی۔لیکن وہ نہ مضمون نگار کے اصل منشاء تک پہنچ سکے اورنہ ہی مضمون کی بنیادی بات ان کی گرفت میں آئی۔یہی وجہ ہے کہ ان کا جوابی مضمون ان کے سابقہ مضامین کی بازگشت بن کررہ گیاہے جس میں بات کہیں سے بھی شروع ہوامام ابوحنیفہ پر ضرور ختم ہوگی۔
ایک انسان یاکسی جماعت کانمائندہ کوئی اعتراف کرتاہے تواس کے اعتراف کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اورکوئی دوسراشخص کسی دوسری جماعت کے مخصوص شخص یامخصوص جماعت کے خلاف کچھ کہتاہے تواس کی دوسری حیثیت ہوتی ہے۔ پہلی بات ہرایک کے نزدیک قابل قبول ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی انسان اپنے بارے میں اعتراف کرے یااپنی جماعت کے بارے میں !اس کو قبول کیاجاتاہے اوردوسرے افراد وجماعتوں کے بارے میں اس کے بیان کو پرکھااورجانچاجاتاہے اوراس کے بعد قبول کیاجاتاہے۔
میں نے اپنے مضمون میں جوکچھ بھی لکھاتھاوہ اہل حدیث حضرات کے اپنے نمائندوں کے بیانات تھے۔ اس میں نہ امام ابوحنیفہ کا کوئی بیان تھا۔ نہ امام ابویوسف کااورنہ امام محمد کااورنہ کسی دیگر معتبر حنفی فقیہہ کا۔اس کے بالمقابل کفایت اللہ صاحب ہمیں
حمیدی اور
حمادبن سلمہ کے اقوالات سناتے پھررہے ہیں۔ حمیدی صاحب ہزار بار کہیں یاحمادبن سلمہ لاکھ مرتبہ کہیں۔ان کی بات کی وہ حیثیت نہیں ہوسکتی جو کسی اہل حدیث کے خود اپنے اعتراف کی حیثیت ہوتی ہے کہ
"علم حدیث تواشرف ہے لیکن اہل حدیث ارذل ہیں"اہل حدیث کی مصاحبت سے بہتر یہود ونصاری کی مصاحبت ومجالست ہے۔ (اس قول کامفہوم یہی نکلتاہے کہ وہ یہودونصاری سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں۔)یہ بات کس نے بیان کی ہے شعبہ نے۔ شعبہ اہل حدیث حضرات کے معتبر امام ہیں۔اس کے بالمقابل سفیان ثوری اگرامام ابوحنیفہ کے کسی فتوی کو یہودی فتوی قراردیتے ہیں تواس کی حیثیت ایک الزام کی ہے اورشعبہ کے قول کی حیثیت اعتراف کی ہے اوراعتراف اورالزام میں بعدالمشرقین ہے۔یہی حال دیگر اقوال کے تعلق سے ہے۔
اس بنیادی چیز کو سمجھے بغیر کفایت اللہ صاحب نے جوابی مضمون لکھاہے لہذا قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ جب یہ بنیادی بات ہی ان کی گرفت میں نہیں آئی توجوابی مضمون میں اسی انداز کا ہوگا جس کو عربی کے ایک محاورہ میں بیان کیاگیاہے۔
سألته عن أبيه؟ فقال: خالي شعيب!
دوسری چیز جو میرے مضمون میں تاناکےبعد باناکی حیثیت رکھتی تھی وہ محدثین حضرات کو وہ اقوال جوانتہائی شنیع ہیں۔ اگر امام ابوحنیفہ کے بارے میں ہیں تواس کو جرح کا نام دیاجاتاہے اوریہ باور کرانے کی تلقین کی جاتی ہے کہ محدثین کرام کا مقام بہت بلند ہے ۔انہوں نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی یہ جرح کی ہوگی وغیرہ وغیرہ اوراگران کے جرح کا اعتبار نہ کیاجائے تویہ محدثین کرام کے اقوال کے ساتھ ناانصافی وغیرہ اورپتہ نہیں کیاکیاپٹیاں پڑھائی جاتی ہیں جیساکہ مقبلی نے نشرالصحیفہ میں کیاہے۔ اسی طرح محدثین کے سخت اورتند وتیز اقوال کے بارے میں حتی کے ایسے اقوال جس کاباطل ہوناظاہروباہر ہے جیسے امام ابوحنیفہ سے کوئی صاحب نقل کرتے ہیں کہ اگرکوئی جوتے کی بطورتقرب عبادت کرے تودرست ہے(مفہوم)خطیب اس پر خاموشی سے گزرجاتے ہیں لیکن جب محدثین اپنے ہی جماعت کے حق میں تندوتیز جملے استعمال کرتے ہیں توخطیب بغدادی ہمیں سمجھانے بیٹھ جاتے ہیں کہ اعمش تندخو،بداخلاق تھے۔ جلدی طیش میں آجاتے تھے۔انہوں نے یہ باتیں اس وقت کہیں جب وہ طلاب حدیث سے تنگ آگئے اوردوسری چیزیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ دورنگی کیوں؟یہ ڈبل اسٹینڈرڈ کس لئے۔ یہ دوہرامعیار کس لئے اپنایاجارہاہے؟
حالانکہ قرآن کریم میں سخت تاکید آئی ہے کہ
لایجرمنکم شنآن قوم علی ان لاتعدلوااعدلواھواقرب للتقوی
ْکفایت اللہ صاحب نے مجھے آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ "ابوحنیفہ کے دیوانے"ان کیلئے کس طرح غیرمتعلق نصوص کو ان پر فٹ کرتے ہیں۔ محبت اورنفرت یہ دونوں واقعتاایسی شے ہیں جس میں انسان نہ صرف دیوانہ ہوجاتاہے بلکہ دیوانگی کی حدوں کوبھی عبور کرجاتاہے۔
کچھ توہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اورکچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں
ویسے انصاف کو مدنظررکھتے ہوئے ان کوابوحنیفہ کی محبت میں دیوانے ہونے والوں کے علاوہ ان کوبھی یاد رکھناچاہئے
جوامام ابوحنیفہ کے بغض اورنفرت میں دیوانے ہوگئے ا وراس دیوانگی نے ان کو عقل وشعور سے بے بہرہ کردیاہےصم بکم عمی فھم لایرجعون!
گزارش ہے کہ وہ پہلے مضمون کا مقصد سمجھیں اس کے بعدجواب دہی کی زحمت کریں ۔ورنہ وہی ہوگاکہ کفایت اللہ صاحب پھر سے محدثین کرام کے امام ابوحنیفہ کے حق میں تنقیدات کوجمع کرے مضمون کو بوجھل بنادیں گے لیکن اصل مسئلہ جہاں کا وہیں رہے گا۔ویسے بھی ابن عبدالبر کہہ چکے ہیں کہ
تمام اہل حدیث امام ابوحنیفہ اوران کے شاگردوں کے حق میں دشمنوں کی طرح برتائو کرتے ہیں(مفہوم)(الانتقاء لابن عبدالبر)لہذا دشمنوں کی بات چنداں معتبرنہیں ہواکرتی ۔ شیخ سعدی بھی یہ بات کہہ چکے ہیں
ولیکن قلم درکف دشمن است
احادیث نبویہ کو ابوحنیفہ پر چسپاں کرنا:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، - قَالَ عَبْدٌ: أَخْبَرَنَا وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا - عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ جَعْفَرٍ الْجَزَرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كَانَ الدِّينُ عِنْدَ الثُّرَيَّا، لَذَهَبَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ - أَوْ قَالَ - مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ حَتَّى يَتَنَاوَلَهُ»[صحيح مسلم 4/ 1972]۔
صحیح مسلم وغیرہ کی اس حدیث کو زبردستی ابوحنیفہ پرچسپاں کیا جاتاہے جبکہ ابوحنیفہ فارسی تھے ہی نہیں تفصیل کے لئے دیکھئے توضیح الاحکام از شیخ زبیرعلی زئی ج 2 ص 402۔
کیونکہ نصوص کو زبردستی ابوحنیفہ کے اوپرفٹ کرنا یہ سب ابوحنیفہ کے دیوانوں ہی کا کام ہے کیونکہ ابوحنیفہ کی مدح میں ائمہ کے نصوص نہ کے برابر ہیں اس لئے یہ بے چارے ادھر ادھر کے غیرمتعلق اقوال ہی سے ابوحنیفہ کی مدح سرائی کی ناکام کوشش کرتے ہیں
اس حدیث کو امام ابوحنیفہ پر چسپاں کس نے کیاہے؟
اگرانجناب کواس کاعلم ہوتاتویہ لایعنی کلام آپ کے قلم سے نہیں نکلتا۔
یہ بھی ایک عجیب وغریب حقیقت ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے جس قدربعض الناس نے نفرت روارکھی ہے اسی قدر اللہ نے ان کو ائمہ اربعہ کے مقلدین کے درمیان محبوبیت عطاء کی ہے۔ احناف کی توبات ہی چھوڑدیں۔ مالکیوں میں دیکھیں توابن عبدالبر نے ائمہ ثلاثہ میں ان کو شمار کرتے ہوئے ان کے فضائل پر کتاب لکھی ہے۔شوافع میں دیکھیں توذہبی نےمناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ کے نام سے کتاب لکھی۔،سیوطی نےتبییض الصحیفۃ فی مناقب ابی حنیفہ کے نام سے کتاب ابن حجر ہیتمی نے الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان کے نام سے کتاب لکھی۔۔حنابلہ میں دیکھیں تو ابن عبدالہادی تنویرالصحیفۃ بمناقب الامام ابی حنیفہ کے نام سے کتاب لکھی۔ پھر دوسرے حنبلی فقیہہ اورمحدث نے تنویربصائرالمقلدین فی مناقب الائمۃ المجتہدین کے نام سے کتاب لکھی جس میں امام ابوحنیفہ کا طویل ترجمہ ذکر کیا۔اس کے علاوہ بھی دیگر حنابلہ نے اپنی کتابوں میں امام ابوحنیفہ کا ذکر خیر کیاہے۔
اس حدیث کامصداق جن لوگوں نے امام ابوحنیفہ کو ٹھہرایاہے ان میں سیوطی بھی ہیں۔ مرعی بن یوسف صالحی الحنبلی بھی ہیں حضرت شاہ ولی اللہ بھی ہیں۔
حافظ سیوطی امام ابوحنیفہ کی حدیث سے بشارت کے سلسلے میں لکھتے ہیں
اقول بشرالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بالامام ابی حنیفۃ فی الحدیث الذی اخرجہ ابونعیم فی الحلیۃ (تبییض الصحیفہ)
میں کہتاہوں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے امام ابوحنیفہ کی اس حدیث کے ذریعہ بشارت دی ہے جس کو ابونعیم نے حلیہ میں نقل کیاہے۔
اورحدیث نقل کرنے کے بعد اورمختلف کتابوں سے حدیث کے مختلف الفاظ نقل کے بعد وہ مزید فرماتے ہیں۔
فھذا اصل صحیح یعتمدعلیہ فی البشارۃ والفضیلۃ نظیرالحدیثین اللذین فی الامامین ویستغنی بہ عن الخبرالموضوع۔(تبییض الصحیفہ12)
یہ بشارت کے سلسلے میں صحیح بنیاد ہے جس پر اعتماد کیاجاناچاہئے اوریہ حدیث بشارت میں انہی حدیثوں کی نظیرہے جس سے امام شافعی اورامام مالک کی فضیلت پر استدلال کیاجاتاہے اوراس صحیح حدیث کے ذریعہ موضوع حدیثوں سے بے نیازی ہوجاتی ہے۔
تنویر بصائرالمقلدین کے مولف جوحنبلی ہیں وہ لکھتے ہیں۔
وکان ذلک مصداق الحدیث الذی رواہ الشیخان وغیرھامن حدیث ابی ہریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لوکان الایمان عندالثریا ولفظ ابی نعیم لوکان العلم معلقابالثریازادالطبرانی من حدیث قیس لاتنالہ العرب لنالہ رجال ولفظ مسلم لتناولہ رجل من ابناء فارس،فھذا اصل صحیح یعتمدعلیہ فیہ البشارۃ والفضیلۃ نظیر الحدیثین اللذین من الامامی مالک والشافعی ۔(تنویربصائرالمقلدین ص16)
اورامام ابوحنیفہ اس روایت کے مصداق تھے جس کو شیخین نے ابوہریرہ سے نقل کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگرایمان ثریاکے پاس ہو اورابونعیم کی روایت میں اگرعلم ثریامیں معلق ہواورطبرانی کی روایت میں یہ زیادہ ہے کہ اس کو عرب کے لوگ نہیں بلکہ دوسرے کچھ لوگ اورمسلم کی روایت کے الفاظ ہیں فارس کے لوگ حاصل کرلیں گے تویہ حدیث امام ابوحنیفہ کی فضیلت میں بنیادی اورصحیح ہے جس پر اعتماد کیاجاسکتاہے اوریہ حدیث فضیلت اوربشارت میں امام مالک اورشافعی کی شان میں وارد حدیثوں کی نظیر ہے۔
اسی طرح خیرات الحسان کے مولف مشہور شافعی فقیہہ علامہ ابن حجرہیتمی لکھتے ہیں۔
ان الامام اباحنیفۃ ھوالمراد من ھذاالحدیث ظاہر لاشک فیہ(الخیرات الحسان ص13)
اس حدیث سے (یعنی لوکان الایمان وفی روایۃ العلم)امام ابوحنیفہ ہی مراد ہیں یہ بات اتنی ظاہر ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اس حدیث کونقل کرکے فرماتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ دریں حکم داخل است(کلمات طیبات ص168)
امام ابوحنیفہ اس حدیث کے حکم میں داخل ہیں۔
اورمسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ ہی دوسری کتاب میں فرماتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ ،ماورائ النہر ،خراسان اوراہل فارس کےائمہ سب اس میں داخل ہیں(ازالۃ الخفاء 1/271)
اورتواور جادو وہ جوسرچڑھ کر بولے ۔ غیرمقلدین کے مجدد زماں نواب صدیق حسن خان نے بھی اس کا اعتراف کیاہے کہ امام ابوحنیفہ اس حدیث کے عموم میں داخل ہیں۔
صواب آنست کہ ہم امام ابوحنیفہ دراں داخل است وہم جملہ محدثین فرس باشارۃ النص(اتحاف النبلاء ص424)
درست یہ ہے کہ اس حدیث کے عموم میں امام ابوحنیفہ داخل ہیں اوراشارۃ النص سے فارس کے ائمہ حدیث بھی داخل ہیں۔
علامہ محمد معین سندھی باوجود اس کے فقہ حنفی کے قائل نہیں بلکہ کسی حد تک برگشتہ اورمنحرف اورشیعت کی جانب مائل تھے دوسرے لفظوں میں اپنے دو رکے نواب وحید الزماں تھے ۔وہ لکھتے ہیں۔
اس حدیث میں امام ابوحنیفہ کی بڑی فضیلت اورمنقبت ہے۔(دراسات اللبیب289)
اب یہ کفایت اللہ صاحب کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ امام ابوحنیفہ کو اس فضیلت کا مستحق قراردینے والے صرف
دیوانے ہیں یافرزانےبھی ہیں۔ میرانہیں خیال ہے کہ کفایت اللہ کے نزدیک یہ سب حضرات دیوانے ہوں گے بلکہ وہ انہیں فرزانے ہی سمجھتے ہوں گے۔اوروں کو توجانے دیجئے لیکن نواب صدیق حسن خان صاحب کے بارے میں وہ کیاکہیں گے۔انہوں نے تونہایت غضب کیاکہ امام ابوحنیفہ اس حدیث کے عموم میں شامل کرکے اس کا مصداق بناڈالا۔اب کفایت اللہ صاحب کی وہ گرج کہ
صحیح مسلم وغیرہ کی اس حدیث کو زبردستی ابوحنیفہ پرچسپاں کیا جاتاہے
اس کی حقیقت قارئین اچھی طرح معلوم کرچکے ہیں کہ یہ جملہ لاعلمی اورجہالت کی وجہ سے تھا۔
جہاں تک ایران اورکابل کی بات ہے تو کبھی جغرافیہ پربھی غورکرناچاہئے۔کسی زمانہ میں فارس بہت بڑاتھا۔ آج کی طرح کا محدود نہیں تھا اورتمام علاقے بشمول کابل اورافغانستان کے دوسرے علاقے فارس میں ہی شمار کئے جاتے تھے۔جیساکہ کوئی کہہ سکتاہے کہ دوسوسال پہلے پاکستان کو ہندوستان کے نام سے ہی یاد کیاجاتاتھا۔ملکوں کے جغرافیے بدلتے رہتے ہیں۔ اس سے اصل حیثیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔
مثلاایک حدیث ہے نہیں معلوم کہ اس کی استنادی حیثیت کیاہے۔ مجھ کو ہندوستان سے ٹھنڈی ہوا آتی محسوس ہوتی ہے۔اس کو اقبال نے نظم کا جامہ پہناتے ہوئے کہاتھا۔
میرعرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے۔
تواب اگرکوئی کہنے لگے کہ اس فضیلت میں صرف ہندوستان شامل ہے پاکستان شامل نہیں ہے تویہ بات غلط ہوگی کیونکہ جس وقت یہ بات کہی گئی اس وقت کا ہندوستان مراد ہوگانہ کہ آج کا۔ اسی طرح حدیث شریف میں جو فارس اورابناء فارس کہاگیاہے تواس وقت کا فارس مراد ہوگا۔ جس وقت یہ بات کہی گئی ہے نہ کہ بعد کے ادوار کے اعتبار سے۔
بشارت کی حدیث اورایک کام کی بات
عمومابشارت کے اس طرح کی احادیث کے سلسلہ میں انتہائی محدود نقطہ نظراپنایاجاتاہے اورکہاجاتاہے کہ اس میں صرف وہی شخص مراد ہے۔مثلاامام مالک کی فضیلت کے سلسلے میں یہ حدیث ذکرکی جاتی ہے کہ" لوگ دوردراز سے حصول علم کیلئے آئیں گے لیکن مدینہ کے عالم سے زیادہ بڑاعالم نہیں پائیں گے"۔ یاامام شافعی کے فضیلت کے سلسلے میں بیان کیاجاتاہے کہ" قریش کو برابھلامت کہو کیونکہ قریش کا ایک عالم زمین کو علم سے بھردے گا"۔یہ دونوں حدیثیں ابن عبدالبر نے الانتقاء میں ذکرکی ہیں۔ اول الذکر کے بارے میں ابن عبدالبر کہتے ہیں رواتہ کلھم ائمۃ ثقات ۔
اس طرح کی حدیثوں کے بارے میں عمومی نقطہ نظراپناناچاہئے مثلا امام مالک کی فضیلت کے سلسلے میں جو حدیث ذکر کیجاتی ہے اس کے عموم میں حضرت عبداللہ بن عمر اورفقہاء سبعہ بھی شامل ہوسکتے ہیں۔بالخصوص حضرت عبداللہ بن عمر،سعید بن المسیب اورامام مالک وغیرہ۔
اسی طرح امام شافعی کے حق میں جو حدیث ہے اس میں حضرت عبداللہ بن عباس اوردیگر فقہائے مکہ جن کا سلسلہ قریش سے ہو شامل ہوسکتے ہیں۔
اسی طرح امام ابوحنیفہ کے حق میں ذکرکردہ حدیث میں حضرت سلمان فارسی،حضرت امام ابوحنیفہ اوردیگرفارس وعجم سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوسکتے ہیں۔کیونکہ نام توکسی کا لیانہیں گیاہے صفت ذکر کی گئی ہے تویہ صفت اب جتنوں پر صادق آتی ہے وہ سب اس کے مصداق ہوں گے۔
اب اس حدیث کے اولین مصداق حضرت سلمان فارسی ہوں گے۔ پھر
امام اعظم امام ابوحنیفہ ہوں گے اس کے بعد دیگر حضرات محدثین ہوں گے۔