واضح رہے کہ حمادبن سلمہ سے طلاب حدیث کے بارے میں سخت تبصرہ منقول ہے اور اس میں پوری جماعت کی شمولیت ناممکن ہے جبکہ خود امام حماد بن سلمہ بھی اہل حدیث ہی ہیں ، لیکن ابوحنیفہ کی ایک جماعت یا مسلک کا نام نہیں بلکہ ایک فرد واحد کا نام ہے لہٰذا اسے شیطان کہا گیا تو یہاں عموم وخصوص کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔
یہ بھی واضح رہے کہ حماد بن سلمہ باعتراف کفایت اللہ سخت غصے والے تھے اورغصے میں ویسے بھی عقل زائل ہوجاتی ہے اور حدیث پاک میں ہے کہ غصہ شیطان کے اثر سے ہوتاہے لہذا حماد بن سلمہ بھول گئے کہ ان کی بات کی زد کہاں کہاں پڑرہی ہے اورخود بھی اس زد میں آرہے ہیں ۔ویسے بھی یہ امام ابوحنیفہ کو برابھلاکہنے کا ہی اثر معلوم ہوتاہے کہ اللہ نے ان ہی کی زبان سے خود کو اوردوسروں کو ارذل کہلوادیا۔
جہاں تک عموم خصوص کی بات ہے تویہ کہناکہ فرد میں عموم خصوص نہیں ہوتا،عموم خصوص کامعنی اورمفہوم غلط سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ فرد میں عموم خصوص یہ ہوتاہے کہ ایک بات ایک فرد کے ہی تعلق سے کہی گئی ہے لیکن وہ مطلق نہیں مقید ہے ۔یاپھر کسی غصہ اورغضب کی وجہ سے ہے ۔ نفس قول مراد نہیں ہے ۔مثلاآپ حضرات ہی دہائی دیتے رہتے ہیں کہ امام مالک نے محمد بن اسحاق کو دجال من الدجاجلۃ جو کہاتھاتویہ غصے اورغضب میں کہاتھا۔ ان کی یہ مراد نہیں تھی کہ وہ واقعتاایسے ہیں یعنی یہ صرف غصے کی حالت کا قول ہے۔ مطلق اورعموم اس میں نہیں ہے۔ ۔ اورپھر ان وضاحتوں کی ضرورت ہی کیاہے آپ بقول محدث العصر اپنے ذہبی العصر کے فرمان کے مطابق سند کے صحیح ہونے کے بعد مزید 9 امور کااثبات کریں۔ اس کے بات ہی کسی محدث کی کوئی بات قابل قبول ہوسکتی ہے۔ ویسے یہ واضح رہے کہ ایک لاکھ مسئلہ پوچھنے آنے والے شخص کے تعلق سے جو تاویل انہوں نے کی ہے ۔تمام 9امور کےا ثبات کے بعد ہمیں بھی ایسی تاویل کا حق حاصل ہوگا۔
ثالثا:
اس قول میں روئے سخن طلاب حدیث کی طرف ہے امام خطیب بغدادی جو اس قول کے راوی ہیں اور طلاب حدیث کے آداب پر لکھی گئی کتب میں یہ روایت لاتے ہیں اور روایت درج کرنے بعد بھی فورا طلاب حدیث کو نصیحت بھی کرتے ہیں ملاحظہ ہو:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِمِ الْأَزْهَرِيُّ، أنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ يَحْيَى، أنا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَصْبَهَانِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ وَكِيعٌ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، يَقُولُ: «لَا تَرَى صِنَاعَةً أَشْرَفَ، وَلَا قَوْمًا أَسْخَفَ مِنَ الْحَدِيثِ وَأَصْحَابِهِ» وَالْوَاجِبُ أَنْ يَكُونَ طَلِبَةُ الْحَدِيثِ أَكْمَلَ النَّاسِ أَدَبًا، وَأَشَدَّ الْخَلْقِ تَوَاضُعًا، وَأَعْظَمَهُمْ نَزَاهَةً وَتَدَيُّنًا، وَأَقَلَّهُمْ طَيْشًا وَغَضَبًا، لِدَوَامِ قَرْعِ أَسْمَاعِهِمْ بِالْأَخْبَارِ الْمُشْتَمِلَةِ عَلَى مَحَاسِنِ أَخْلَاقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَآدَابِهِ , وَسِيرَةِ السَّلَفِ الْأَخْيَارِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ وَأَصْحَابِهِ، وَطَرَائِقِ الْمُحَدِّثِينَ، وَمَآثِرِ الْمَاضِينَ، فَيَأْخُذُوا بِأَجْمَلِهَا وَأَحْسَنِهَا، وَيَصْدِفُوا عَنْ أَرْذَلِهَا وَأَدْوَنِهَا[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي 1/ 78]
یعنی امام حمادبن سلمہ یا عمروبن الحارث نے طلاب حدیث کو ڈانٹ ڈپٹ کیا ہے اور ہمارےمہربان جمشید صاحب اسے پوری جماعت اہل حدیث پر منطبق کرتے ہیں جمشید صاحب نے یہ ادا منکرین حدیث سے سیکھی ہے چنانچہ ایک منکر حدیث نے ابھی اس طرح کے اقوال غلط جگہ چسپاں کرنے کی جسارت کی تو فنتہ کوثریت کا قلع قمع کرنے والے علامہ معلمی رحمہ اللہ نے یہ جواب دیا:
لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ خطیب کی بات کا اعتبار ہی کیا۔خطیب نے اپنی سمجھ سے یہ سمجھاہے کہ انہوں نے طلبہ حدیث کو یہ کہاتھا۔ اگرخطیب کے پاس یہ نص موجود ہے کہ انہوں نے طلبہ حدیث کو ہی کہاتھاتوآپ دکھادیں۔ امام ابوحنیفہ کی تقلید سے توآپ حضرات کو عارمحسو س ہوتی ہے لیکن خطیب کی تقلید کرتے ہوئے فخر محسوس ہوتاہے۔ خطیب نے یہ بات نہ براہ راست حماد بن سلمہ سے سنی ہے اورنہ ہی خطیب حماد بن سلمہ کے معاصر ہیں بلکہ خطیب اورحماد بن سلمہ میں 6واسطے ہیں۔ اتنے دور کی آدمی کا کیااعتبار ہوسکتاہے ۔
لیکن یہ بھی خطیب کا دوغلاپن ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کی جرح کے سلسلے میں بعید سے بعید اقوال نقل کردیتے ہیں اورکسی وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھتے اورجب اپنی دکھتی رگ سامنے آتی ہے تو وضاحتوں پر مجبورہوتے ہیں کہ اعمش بداخلاق تھے ۔حماد بن سلمہ غصے والے تھے ۔ انہوں نے طلبہ کو ڈانٹ ڈپٹ کر یہ بات کہی تھی ۔
لیکن جیساکہ سابق میں ذکر کیاگیاہے کہ خطیب کی وضاحت صرف ان کی اپنی سمجھ اورفہم ہے جس کی کفایت اللہ اوردوسرے تقلید کرسکتے ہیں لیکن ہمیں خطیب جیسوں کی تقلید کاکوئی شوق نہیں ہے۔
الغرض یہ کہ مذکورہ قول میں روئے سخن طلبائے حدیث کی طرف ہے اور ان کی تادیب کی لئے انہیں ڈانٹا گیا ہے جماعت اہل حدیث سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اس لئے اسے جماعت اہل حدیث پر چسپاں کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ اپنے طلباء کو ڈانٹ پلاتے ہوئے سخت الفاظ استعمال کرلیں تو اسے پوری دیوبندی جماعت پر چسپاں کردیا جائے ۔
واضح رہے کہ دیوبند کے اساتذہ آج کل اپنے طلباء کے ساتھ معلوم نہیں کیا سلوک کررہے ہیں کہ وہ بے چارے خودکشی کو ان کی شاگردی پر ترجیح دے رہے ہیں ۔
الغرض مذکورہ قول میں روئے سخن طلباءے حدیث کی جانب ہونے کی دلیل کیاہے محض خطیب کا قول اورآپ حضرات تو بے سند قول کو تسلیم نہیں کرتے تویہاں خطیب کے بے سند قول کو کیوں تسلیم کررہے ہیں جب کہ وہ حماد بن سلمہ کے معاصر بھی نہیں ہیں ۔میں مانتاہوں کہ آپ حضرات اس مسئلہ شدید فقر کی حالت میں ہیں کہ کہیں سے کچھ مل جائے اورکچھ نہ ملاتوخطیب سے ہی کام چلالیا۔ہوسکتاہے کہ مذکورہ خودکشی کرنے والا طالب علم غیرمقلد ہوگا اورجب اس پر ثابت ہواہوگاکہ اب تک میں کتنی گمراہی میں تھا تواس نے مارے شرم کے خودکشی کرلی ہوگی جب کہ اس سے قبل بھی بہت سارے جماعت اسلامی اوردیگر جماعتوں بشمول اہل حدیث جن کا داخلہ دیوبند میں منع ہے ،چوری چھپے پڑھتے رہے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ قول ثابت نہیں اوربفرض ثبوت جماعت اہل حدیث سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔
خلاصہ کلام واضح کرچکاہوں کہ مذکورہ قول ثابت ہے اوردونوں سے ہی ثابت ہے اوراس کا تعلق اہل حدیث کی جماعت سے ہی ہے ۔
جہاں تک ابوحنیفہ سے متعلق اس طرح کے اقوال کی بات ہے توہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ابوحنیفہ کسی گروہ یا جماعت کا نام نہیں بلکہ ایک فرد کا نام ہے لہٰذا اس سے متعلق اقوال میں عموم خصوص کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا ہاں یہ کہاجاسکتاہے کہ ان پر بحالت غضب میں بھی کلام کیا گیا ہے اور الحمدللہ ہم یہ بات مانتے ہیں مثلا امام حمادبن سلمہ نے ابوحنیفہ کو شیطان کہا تو ہم اسے حقیقت پر محمول کرتے ہوئے ابوحنیفہ کو انسانوں کی صف سے نکال کر شیاطین کی فہرست میں نہیں کھڑا کرتے بلکہ یہی کہتے ہیں کہ رد حدیث جیسے خطرناک جرم کی وجہ سے امام حمادبن سلمہ شدید غصہ میں آگئے اور موصوف کو شیطان تک کہہ دیا۔
یہ کہناکہ فرد کے تعلق سے اقوال میں عموم خصوص نہیں ہوتا اقوال کے تعلق سے لاعلمی کااظہار ہے۔ یہ حالت غضب کااظہار تواب ہواہے جب خود پر زد پڑی ہے ورنہ توصرف ماقبل میں حماد بن سلمہ کا ہی قول دوہرایاجاتاتھا۔اوراپ کے معنوی استاد نےتوتصریح کررکھی ہے کہ محدثین کے اقوال کو حالت غضب ،حسد ،معاصرت اوردیگر امور پر محمول کرناان کے ساتھ زیادتی ہے۔ ورنہ جہاں تک حماد بن سلمہ کے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے قول کا سوال ہے تو بقول ابن عبدالبر محدثین ان کے دشمن ہیں اوردشمن کوئی بھی بات کہہ سکتاہے دشمنوں کی بات کا ہی اعتبار کرناہے توپھر اہل حدیث مشہور غیرمقلدین منکرین حدیث کی بات کا اعتبار کیوں نہیں کرتے۔
اصل پیغام ارسال کردہ از: جمشید
اہل حدیث سب سے بری جماعت ہیں
عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: " مَا فِي الدُّنْيَا قَوْمٌ شَرٌّ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ(شرف اصحاب الحدیث1/131)
امام اعمش کہتے ہیں کہ دنیا میں اہل حدیث سے بری جماعت کوئی اورنہیں ہے۔
سلیمان بن مہران المعروف بالاعمش محدثین میں سرفہرست ہیں۔ انہوں نے اہل حدیث سے اپناجوشکوہ بیان کیاہے اس کو آپ نے سن ہی لیا۔امام ابوحنیفہ اگر امام ابویوسف کو کچھ کہیں تو موجودہ اہل حدیث اس کاڈھونڈراپیٹتے ہیں اوربعض دریدہ دہن توتین کذاب کی اصطلاح اپنانے سے بھی نہیں شرماتے۔ لیکن جب یہی محدثین اہل حدیثوں کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں توآزاد لب خاموش ہوجاتے ہیں۔ قوت گویائی سلب ہوجاتی ہے۔ بولنے کی طاقت چھن جاتی ہے۔ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بن جاتے ہیں۔
اولا:
امام اعمش رحمہ اللہ نے ایسا حالت غضب میں کہا ہے اور جو کچھ بھی کہا ہے وہ صرف اپنے شاگردوں کو کہا ہے جیساکہ امام اعمش سے مروی اس سلسلے کی تمام روایات یکجاکرنے سے نتیجہ نکلتاہے بالخصوص وہ روایت جسے ہم آگے پیش کررہے ہیں مزید تفصیل شرف اصحاب الحدیث میں موجود ہے اوروہاں خود مولٍف شرف اصحاب الحدیث نے بھی اس طرح کے اقوال کی صحیح مراد بتلائی ہی ۔
اورامام اعمش رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں کے لئے جو سخت الفاظ استعمال کئے تو دراصل ان کا مزاج ہی ایسا تھا کہ وہ کبھی کبھی سخت ہوجایا کرتے تھے اور اس طرح کے الفاظ زبان پر لے آتے تھے ، اس کی کئی مثالیں امام خطیب نے شرف اصحاب الحدیث میں دی ہیں ، کچھ یہاں بھی دیکھتے چلیں :
ہمیں معلوم ہے کہ خطیب نے یہ بات کہی ہے کہ اعمش تندخو اوربداخلاق تھے اوراسی کا وہ مظاہرہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ کیاکرتے تھے لیکن ہمیں خطیب سے اورآپ حضرات کی اسی دورنگی اورڈبل اسٹینڈرڈ کا توشکوہ ہے کہ اماما بوحنیفہ کے ترجمہ میں اعمش کے تعلق سے کچھ نقل کرتے ہوئے خطیب کو یہ بات یاد نہیں آئی اورنہ ہی آپ کے استاد معنوی کو نشرالصحیفہ میں یہ بات یاد آئی کہ کہ اعمش تندخوتھے بداخلاق تھے اسی میں وہ برابھلابول جایاکرتے تھے ۔ یہ بات کب یاد آئی جب اعمش نے یہ بات کہی کہ" اہل حدیث دنیا کی بدترین جماعت ہیں"تب سبھی غیرمقلدین اگلوں اورپچھلوں کو یاد آنے لگاکہ اعمش توایسے ہیں ویسے ہیں لیکن جب امام ابوحنیفہ کی بات تھے تو وہ شیخ الاسلام تھے راس المحدثین تھے اورپتہ نہیں کیاکیاتھے۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنِي أَبُو الْقَاسِمِ الْأَزْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ الْوَاعِظُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ الطَّائِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عُبَيْدٍ، قَالَ: كَانَ الْأَعْمَشُ لَا يَدَعُ أَحَدًا يَقْعُدُ بِجَنْبِهِ. فَإِنْ قَعَدَ إِنْسَانٌ، قَطَعَ الْحَدِيثَ وَقَامَ. وَكَانَ مَعَنَا رَجُلٌ، يَسْتَثْقُلُهُ. قَالَ: فَجَاءَ، فَجَلَسَ بِجَنْبِهِ، وَظَنَّ أَنَّ الْأَعْمَشَ لَا يَعْلَمُ. وَفَطِنَ الْأَعْمَشُ، فَجَعَلُ يَتَنَخَّمُ، وَيَبْزُقَ عَلَيْهِ، وَالرَّجُلُ سَاكِتٌ، مَخَافَةَ أَنْ يَقْطَعَ الْحَدِيثَ " [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 133 واسنادہ صحیح]۔
یعنی محمدبن عبید کہتے ہیں کہ امام اعمش اپنے بغل میں کسی کو بھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے اور اگر کوئی بیٹھ جاتا تو حدیث بیان کرنا ہی بند کردیتے اوراٹھ کر چلے جاتے تھے ، محمدبن عبید کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایک صاحب تھے جو امام اعمش کو پریشان کیا کرتے تھے یہ آئے اور ان کے بغل میں بیٹھ گئے اور یہ سمجھے کہ امام اعمش کو پتہ نہ چلے گا لیکن امام اعمش نے محسوس کرلیا ، پھر اس جانب تھوکنے اورکھنکار نے لگے لیکن وہ آدمی چپ چاپ بیٹھا ہی رہا اس ڈر سے کہ کہیں امام اعمش حدیث بیان کرنا بند نہ کردیں۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْقَطَّانُ، أَخْبَرَنَا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَبَّارُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: " سَأَلَ حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ الْأَعْمَشَ عَنْ إِسْنَادِ حَدِيثٍ، فَأَخَذَ بِحَلْقَهِ، فَأَسْنَدَهُ إِلَى حَائِطٍ، وَقَالَ: هَذَا إِسْنَادُهُ[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 133 واسنادہ صحیح]
یعنی ابواسامہ کہتے ہیں کہ حفص بن غیاث نے امام اعمش رحمہ اللہ سے ایک حدیث کی سند کی پوچھی تو امام اعمش نے ان کی گردن پکڑ کر دیوار سے لٹکا دیا اور کہا یہ لے اس کی سند ۔
ان دونوں واقعات کی سند صحیح ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ امام اعمش رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کے ساتھ کبھی کبھی سختی کرجاتے تھے اور سخت بول بھی جاتے تھے ۔
ثانیا:
امام اعمش سے صرف یہی منقول نہیں کہ وہ غصہ میں اپنے شاگردوں کو سخت بول جاتے تھے بلکہ ان سے بسندصحیح یہ بھی منقول ہے کہ بعد میں جب ان کا غصہ ختم ہوجاتا تو اپنی بات واپس لے لیتے اور اپنے شاگردوں کی تعریف کرتے اور انہیں سب سے بری قوم کے بجائے لوگوں میں سب سے بہتر حتی کہ سرخ سونے سے بھی بڑھ کر عزیز بتلاتے ، ملاحظہ ہو:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہانے کہا:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ ح وَأَخْبَرَنَا أَنَّ الْفَضْلَ أَيْضًا، وَالْحَسَنَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ الْقَطَّانُ، قَالَ أَبُو سَهْلٍ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ دَعْلَجٌ: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْأَبَّارِ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْحَلَبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ مُسْلِمٍ الْحَلَبِيُّ، قَالَ: كَانَ الْأَعْمَشُ إِذَا غَضِبَ عَلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ قَالَ: " لَا أُحَدِّثُكُمْ وَلَا كَرَامَةَ، وَلَا تَسْتَأْهِلُونَهُ، وَلَا يُرَى عَلَيْكُمْ أَثَرُهُ. فَلَا يَزَالُونَ بِهِ حَتَّى يَرْضَى، فَيَقُولُ: «نَعَمْ وَكَرَامَةٌ، وَكَمْ أَنْتُمْ فِي النَّاسِ وَاللَّهِ لَأَنْتُمْ أَعَزُّ مِنَ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ» [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 135 واسنادہ صحیح]۔
یعنی عطاء بن مسلم کہتے ہیں کہ امام اعمش جب طلاب حدیث پر غصہ ہوتے تو کہتے اب میں تم سے حدیث بیان ہی نہیں کروں گا تمہاری کوئی عزت نہیں ، تم اس کے اہل نہیں اور نہ ہی تم پر اس کا کوئی اثر دکھائی پڑتا ہے ، یہ صورت حال دیکھ کر ان کے تلامذہ ان سے اصرار کرتے رہتے یہاں تک کہ انہیں راضی کرلیتے ، اس کے بعد امام اعمش رحمہ اللہ فرماتے : ’’ ہاں ! تم قابل اکرام ہو ، تم لوگوں میں ہو ہی کتنے ، اللہ کی قسم تم لوگ سرخ سونے سے بھی زیادہ عزیز و قیمتی ہو۔
امام اعمش رحمہ اللہ کے اس دوسرے قول سے پوری حقیقت کھل کر سامنے آگئی اور وہ یہ کہ جب امام اعمش غصہ ہوتے تو اپنے شاگردوں کو ڈانٹتے اور سخت الفاظ استعمال کرتے لیکن جب غصہ ختم ہوتا تو اپنے شاگردوں کا اکرام کرتے اور ان کی بہت تعریف کرتے حتی کہ انہیں سرخ سونے سے بھی زیادہ عزیز بتلاتے ، والحمدللہ۔
اولایہ کیوں تسلیم نہیں کیاجاسکتاکہ دونوں واقعے دومختلف حالتوں کے ہیں۔ ہرواقعہ کوشاگردوں پر منطبق کرکے ان کے شاگردوں کو ہی محض کیوں ٹارگٹ کررہے ہیں۔ کچھ خود پر بھی منطبق کرلیجئے۔ دوسرے خطیب کا قول توبے سند اورمعاصرت نہ ہونے کی وجہ سے آپ حضرات کے اصول کے مطابق مردود ہے لہذا اب تطبیق کی شکل یہی بچتی ہے کہ
امام اعمش کا یہ قول کہ اہل حدیث دنیا کی بدترین جماعت ہیں ۔یہ قول عام ہے اورپوری جماعت اہل حدیث کو شامل ہے۔
اعمش کا کسی مجلس میں یامتعدد مجالس میں اپنے شاگردوں کی تعریف کہ تم سرخ سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہو خاص ہے۔ اورعام اورخاص میں تضاد نہیں ہوتا ۔ہم کہیں گے کہ امام اعمش کا یہ قول کہ اہل حدیث بدترین جماعت ہیں اپنے عموم پر باقی رہے گا اورجن مجالس میں جن شاگردوں کی انہوں نے تعریف کی ہوگی وہ اس کے دائرے سے باہر ہوں گے۔
اس تطبیق سے دونوں قول اپنی جگہ پر آگئے ہیں اوراہل حدیث کے اصول کے مطابق بھی تعارض کی صورت میں اولاتطبیق کا ہی راستہ اختیار کیاجاتاہے۔
ثالثا:
ابوحنیفہ امام اعمش کی نظر میں ۔
امام اعمش رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں سے متعلق جو سخت الفاظ کہے اور بعد میں واپس بھی لئے
یہ بھی مجرد دعوی ہے کہ واپس لئے تویہ کسی مجلس یامجالس کی بات ہورہی ہے کہ اس میں اہل حدیث کی توہین بھی کی اورتکریم بھی کی۔اگررئیس ندوی نے اللمحات میں جس طرح نکتہ وری کی ہے اس طرح کی ہم نکتہ نوازی کریں توکہیں کہ اصل بات تووہی تھی جو اعمش نے پہلے کہی لیکن بعد میں شاگردوں کی خوشامد پر کچھ مدحیہ الفاظ بھی کہہ دیئے۔یہ کہیں دکھادیاجائے کہ اعمش نے اہل حدیث کوبدترین جماعت یاقوم ہونے کاجوسرٹیکفٹ دیاہے اسے واپس لیاہوتو ہم بھی اپنی بات واپس لینے میں ایک لمحہ کا تامل نہیں کریں گے ورنہ دوسرے اقوال ذکر کرکے اس قول کو واپس لینے کا دعویٰ کرناناقابل قبول ہوگا۔
جمشید صاحب نے ان الفاظ کو ایک تو جماعت اہل حدیث پر چسپاں کیا، اور دوسرے اسے توڑ مروڑ کرپیش کیا، اور اسی پربہت خوش ہیں ۔
ہم نے اعمش کے قول پیش کیا اوراس کا ترجمہ کیااوراس کا مطلب بیان کردیا۔اس میں توڑنے مروڑنے جیسی کوئی چیز نہیں تھی وہ بتادیں کہ ہم نے کہاں پر اس قول میں غلط بیانی کی ہے۔ یہ کہناکہ یہ قول شاگردوں کیلئے خاص تھااس کوعام کردیاتواس قول میں شاگردوں کا کوئی ذکر نہیں ہے اورہم خطیب بغدادی کے اندھے مقلد نہیں ہیں کہ اس نے جوکہہ دیابغیر کسی سند ووغیرہ کے محض اپنی عقل سے اسے تسلیم کرلیں۔
قارئین لگے ہاتھوں ہم یہ بھی بتادیں کہ امام اعمش رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کو کیا کہا ہے ، ملاحظہ ہو:
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290)نے کہا:
حَدَّثَنِي عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، سَمِعْتُ مُعَرَّفًا، يَقُولُ: دَخَلَ أَبُو حَنِيفَةَ عَلَى الْأَعْمَشِ يَعُودُهُ فَقَالَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ لَوْلَا أَنْ يَثْقُلَ، عَلَيْكَ مَجِيئِي لَعُدْتُكَ فِي كُلِّ يَوْمٍ، فَقَالَ الْأَعْمَشُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: أَبُو حَنِيفَةَ، فَقَالَ: «يَا ابْنَ النُّعْمَانِ أَنْتَ وَاللَّهِ ثَقِيلٌ فِي مَنْزِلِكَ فَكَيْفَ إِذَا جِئْتَنِي»[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 190 واسنادہ صحیح]۔
یعنی امام اعمش رحمہ اللہ کے شاگرد معرف بن واصل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابوحنیفہ امام اعمش رحمہ اللہ کی عیادت کرنے کے لئے آئے اور کہا : ’’اے اعمش ! اگر میرا آپ کے پاس آنا آپ کو بوجھ نہ لگتا تو میں تو روزآنہ آپ کی عیادت کرتا ‘‘ ۔ امام اعمش نے کہا: یہ کون آگیا ؟ لوگوں نے کہا یہ ابوحنیفہ صاحب ہیں ۔ یہ سن کر امام اعمش رحمہ اللہ نے کہا: اے نعمان کے بچے ! اللہ کی قسم تو تو اپنے گھر میں بھی بوجھ بنا ہواہے پھرمیرے پاس آئے گا تو بوجھ کیوں نہیں بنے گا۔
کیا خیال ہے یارو !
ویسے یہ سند جو اعمش کی پیش کی گئی ہے یہ حسن درجے کی ہے نہ کی صحیح درجے کی ۔لیکن پتہ نہیں کس کی تقلید میں وہ تمام سندوں کو اسنادہ صحیح لکھتے چلے جاتے ہیں ایک طوطا کا واقعہ توہمیں یاد ہے کہ وہ بات کے جواب میں
دریں چہ شک کہاکرتاتھا اب ایساتونہیں ہے ناکہ کفایت اللہ صاحب نے اسنادہ صحیح ہی لکھنے کا ٹھیکہ لے رکھاہے کہ لکھیں گے تو صرف اسنادہ صحیح ورنہ کچھ بھی نہیں لکھیں گے۔
اولایہ سمجھناکہ انہوں نے مذکورہ قول طالب علموں کوہی کہاہے کس دلیل سے اخذ کیاگیاہے یاپھر اس باب میں آنکھ بند کرے خطیب کی تقلید کی گئی ہے۔
ثانیایہ کتاب السنۃ سند صحیح سے مولف تک پیش کی جائے کیونکہ یہ کفایت اللہ صاحب کا اصول ہے جو انہوں نے اپنایاہے شیخ الاسلام کی حدت مزاجی والے تھریڈ میں ۔ تو وہ ذرا کتاب کی سند پیش کرکے بتادیں کہ تمام افراد سند کے ثقہ ہیں ۔
ثالثا معرف نے اس کا اثبات کہاں کیاہے کہ واقعہ کے وقت وہ موجود ہے دخل یاقال یااس طرح کے جملے براہ راست مشاہدہ پر دلالت نہیں کرتے تو وہ منقطع ہی ہوتے ہیں۔
رابعاً اس روایت میں خود اس کی تصریح ہے کہ وہ بیمار چل رہے تھے اوربیماری بھی ایسی شدید تھی کہ آواز سن کر بھی نہیں پہچاناجب لوگوں نے بتایاتب سمجھے۔ایسی بیماری میں کوئی کچھ کہہ دے تواسے معذور سمجھناچاہئے لیکن اعمش نے جس وقت غیرمقلدین کو بدترین جماعت یاقوم کہاتھااس میں کسی روایت میں تصریح نہیں ہے کہ وہ بیمار تھے یاکسی اورطرح کی علت میں گرفتار تھے۔
یہ کہناکہ فرد پر عموم وخصوص کا اطلاق نہیں ہوتاہے کفایت اللہ صاحب کی اس سمجھ کااظہار ہے کہ جب ہم عام بولتے ہیں تواس سے افراد ہی مرادہوتے ہیں نفس قول میں عموم وخصوص نہیں ہوتا ۔دوسرے یہ اس سے زیادہ سے زیادہ اتناپتہ چلتاہے کہ ان کو امام ابوحنیفہ سے گرانی تھی ہوسکتی ہے ۔لیکن اس میں اوراہل حدیث کو بدترین جماعت قراردینے میں بہت فرق ہے۔
اولا:
ہم اوپر واضح کرچکے ہیں کہ عمروبن الحارث سے یہ بات ثابت ہی نہیں۔
یہ بات ثابت ہے ۔اوربقول کفایت اللہ نہ صرف عمروبن الحارث بلکہ حماد بن سلمہ سے ثابت ہے فزاد اللہ فضیحتکم ۔اس کے بعد جوکچھ تاویل کی گئی ہے تویہ تاویل بارد ہے ۔
ثانیا:
امام مالک نے امام المغازی محمدبن اسحاق کو دجال من الدجاجلہ کہا تو آپ لوگ ہر گلی کوچے میں اس کا اعلان کرتے پھرتے ہیں، وقت آپ لوگوں کی شرم وحیاء کہاں چلی جاتی ہے ؟
ہم لوگوں کی شرم وحیاء آپ حضرات کے شرم وحیاء کے تعاقب میں ہوتی ہے جہاں محمد بن اسحاق کے قول کی تویہ تاویل کرلی جاتی ہے کہ انہوں نے غصہ میں کہالیکن
کادالدین اور
مااضر فی الاسلام جیسی روایتیں بیان کرنے سے کوئی شرم وحیاء مانع نہیں ہوتی ۔ یاشاید شرم وحیاء کو ہی بیچ کر کھالیاجاتاہے۔
ثالثا:
یہ قول غیر ثابت ہونے کے ساتھ طلاب حدیث سے متعلق ہے وضاحت کی جاچکی ہے۔
طلاب حدیث سے متعلق ہونے کی بات سند صحیح سے مروی نہیں ہے صدیوں بعد یہ بات خطیب نے دوہرائی ہے لہذا اس کی بات کس منطق سے آپ قبول کرسکتے ہیں ذرااس کی وضاحت کردیجئے گا۔
رابعا:
نیز یہ قول حمادبن سلمہ سے بھی نقل کیا ہے اور حماد بن سلمہ نے ابوحنیفہ کوبھی شیطان کہاہے ۔ اس بارے میں کیا خیال ہے ؟؟
ہم ماقبل میں واضح کرچکے ہیں کہ بقول ابن عبدالبر اہل حدیث کا برتائواحناف سے دشمنوں والارہاہے لہذا دشمنوں کی بات معتبر نہیں ہوتی۔ رافضی حضرات صحابہ کرام کو کیاکچھ نہیں کہت رہتے۔ ام المومنین حضرت عائشہ کو برابھلاکہتے ہیں لیکن ہم سبھی جانتے ہیں کہ اہل سنت سے سن کی عداوت اورصحابہ کرام اورام المومنین سے ان کی نفرت اورحسد یہ سب کچھ کروارہی ہے لہذا ان کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیاجاتا۔ یہی حال ابن سلمہ کے تعلق سے بھی ہے وہ کچھ بھی کہتے رہیں۔ ہم ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔ ہاں آپ کا مسئلہ دوسراہے یاپھر آپ بھی صراحت کردیجئے کہ جوکچھ کہاہے انہوں نے دشمنی میں کہاہے۔
یہود ونصاری والا حوالہ آپ نے آگے دیا ہے اوروہی پہنچ کر ہم بتائیں گے کہ یہود ونصاری سے کس کا رشتہ ہے ؟؟
ہم بھی اسی موقع پر واضح کریں گے کہ اصل رشتہ داری کس کی کس سے ہے
آپ کی بے بسی پر مجھے ترس آرہا ہے آپ سوال اٹھارہے ہیں کہ کیا اہل حدیثوں کو شیطان تسلیم کرلیں ۔
میں پوچھتاہوں اس سوال کی بنیاد کیا ہے ؟؟ اور باتوں کے کے لئے تو آپ نے غیرمتعلق یا مردود حوالے پیش کئے لیکن شیطان والی بات کے لئے تو آپ نے کوئی غیرمتعلق یا مردود حتی کہ موضوع حوالہ بھی نہیں پیش کیا !!
پھرشیطان کی بات کہاں سے آگئی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ہوسکتا آں جناب نے پناہ مانگنے والے حوالہ سے یہ نتیجہ نکالا ہو کہ کسی نے کہا ان سے پناہ مانگو (اس حوالہ کا جواب آگے آرہا ہے) تو شیطان سے پناہ مانگی جاتی ہے اس لئے یہ بھی شیطان ٹہرے ۔
عرض ہے کہ اگرواقعی آپ نے یہی نتیجہ نکالا ہے تو یہ بجائے خود شیطانی استدلال ہے ، کچھ اسی قبیل کے استدال کا ارتکاب آپ کے امام اعظم نے بھی کیا تھا جس کی بدولت انہیں بہت سارے خطابات کے ساتھ ساتھ شیطان کے خطاب سے بھی نوازا گیا تھا، بلکہ بعض روایات میں تو انہیں شیطان سے بھی بدترکہا گیا ہے ۔
چونکہ اہل حدیث حضرات کی فقاہت بمعنی سمجھ کم ہوتی ہے اس کا لوگوں نے شکوہ بھی کیاہے اورخطیب نے النصیحۃ لاہل الحدیث اور الفقیہ والمتفقہ لکھ کر اہلحدیث کو فقہ کی جانب متوجہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ لیکن باوجود اس کے پرنالہ وہیں رہا۔اس میں میرااستدلال صرف تعوذ سے نہیں ہے کہ بلکہ تمام اقوال جو پیش کئے گئے ہیں سبھی کا نتیجہ نکالاگیاہے۔مثلا اعمش نے کہاکہ اہل حدیث بدترین جماعت ہیں تویہ بدترین ہونے کی صفت شیطان کی بھی ہے۔اسی طرح دیگر اقوال ۔
امام اعظم کوتواللہ نے جومقام ومرتبہ دیاوہ اپنی جگہ لیکن اہل حدیث کو توخود اہل حدیثوں نے ذلیل کردیااوربتادیاکہ اہل حدیث صرف ذلیل نہیں بلکہ ذلیل ترین ہیں ۔
اس سلسلے میں حمادبن سلمہ رحمہ اللہ کا قول پیش کیا جاچکاہے ایک بار پھر ملاحظہ فرمالیں:
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبد اللَّهِ بْنُ عَبد الحميد الواسطي، حَدَّثَنا ابْن أبي بزة، قَالَ: سَمِعْتُ المؤمل يَقُول: سَمعتُ حَمَّاد بْن سَلَمَة يَقُول كَانَ أَبُو حنيفة شيطانا استقبل آثار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يردها برأيه.[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 8/ 239 واسنادہ صحیح]۔
مسلم اورسنن اربعہ کے ثقہ راوی حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ شیطان تھا وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اپنی رائے سے رد کردیا کرتا تھا۔
یہ بالکل صحیح وصریح حوالہ ہے کہ ابوحنیفہ کو شیطان کہا گیا ۔
اس کو صحیح کہناتوصحیح قسم کاجھوٹ اورکذب بیانی ہے جس کی حقیقت ماقبل میں اس کی سند پر بحث کرکے واضح کردی گئی ہے۔ ویسے ہم اس کے بارے میں ماقبل میں دوتین مرتبہ اظہار خیال کرچکے ہیں کہ دشمنوں کی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ اوریہ کہ الزام اوراعتراف میں فرق ہوتاہے ۔ حماد بن سلمہ نے اہل حدیث کو جوکچھ کہاوہ اعتراف کی حیثیت رکھتاہے اورامام ابوحنیفہ کو جوکچھ کہاوہ الزام کی حیثیت رکھتاہے اورالزام کیلئے ثبوت چاہئے۔ اعتراف کیلئے اقرار ہی کافی ہے۔
پناہ مانگنے والی بات پر پوری بحث آگے آرہی ہے یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کسی چیز سے پناہ مانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ شیطان ہے کتاب وسنت میں کتنے ایسے نصوص ہیں جن میں
مختلف چیزوں سے پناہ مانگنے کی تعلیم ہے تو کیا یہ ساری چیزیں شیطان ہیں ؟؟
مثلا فقیری وغیر ہ سے پناہ مانگے کی تعلیم ہے تو کیا فقیری شیطان ہے ؟؟؟
اس کی وضاحت ماقبل میں کردی گئی ہے کہ شیطان ہونے کی بات صرف کسی ایک قول سے نہیں بلکہ مجموعی اقوال سے استفادہ کرکے کہاگیاہے۔کسی چیز سے پناہ مانگی جائے کسی چیز کو بدترین خلائق قراردیاجائے کسی چیز کو ذلیل ترین سمجھاجائے توایسی صفات پر توشیطان پر ہی منطبق ہوتی ہیں۔کیاشیطان سے بھی زیادہ بدترین مخلوق موجود ہے؟