• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث:ایک نئے تناظر میں

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
رہی بات اطلاق وعموم کی تو ہم بھی مانتے ہیں کہ ہربات مطلق وعام نہیں ہوتی ہے لیکن تقیید و تخصیص کے لئے دلیل درکارہے ابوحنیفہ سے متعلق ان کے معاصرین اور ان کے قریبی ادار کے لوگوں نے جو مطلق اور عمومی شہادتیں دی ہیں اگرکوئی صاحب تقیید و تخصیص کے صحیح دلائل بھی لے آئیں توہم دلائل کے بقدر تقیید و تخصیص ماننے کے لئے تیار ہیں ، بصورت دیگر ہمیں معذور سمجھاجائے۔
ہماری بات چھوڑ کر آپ خود ہی بتادیں کہ آ پ کے نزدیک امام ابوحنیفہ کے جرح میں سے کتنے مطلق اورکتنے مقید ہیں۔

ویسے آپ کے جملہ سے یہ بات مترشح ہورہی ہے کہ اصل توامام ابوحنیفہ کے جرح میں عموم ہے ہاں اگرکوئی تخصیص کی دلیل آگئی توخاص کیاجائے گا۔
سوال یہ ہے کہ اگراس اصول کو ہم بھی محدثین کے مذمتی اقوال میں رائج کرناشروع کریں توآپ چراغ پاتونہیں ہوں گے؟۔اصل تویہ ہے کہ تمام اہل حدیث ارذل ہوں ہاں جس کے بارے میں اشرف ہونے کا ثبوت مل جائے گا اس کو ہم اشرف سمجھیں گے اورجس کے بارے میں اشرف ہونے کا ثبوت نہ ملے گا اس کو ہم ارذل ہی قراردیں گے۔
اوراصل سوال اس کا نہیں ہے کہ آپ کیاکریں گے زمانہ مستقبل میں ۔ سوال اس کا ہے آپ نے اب تک کیاکیاہے زمانہ ماضی میں ۔ ماضی میں توامام ابوحنیفہ کی ہرجرح آپ حضرت کو مطلق اورعمومی لگتی رہی ہے۔ حتی کہ نحوست اورابوجیفہ جیسے اقوال کی درستگی کیلئے بھی معلمی تاویل ڈھونڈلیتے ہیں اورآپ کے معنوی اساتذہ بضد رہتے ہیں کہ محدثین کی تمام جروحات خواہ کیسی بھی ہوں ان کو تسلیم کرو ورنہ محدثین اشرف سے ارذل ہوجائیں گے۔یعنی ان کی ذات کو بٹہ لگے گا۔ لیکن اگرانہی کے اقوال جو انہوں نے اپنی جماعت کے بارے میں کہے ہیں ان کی تاویل کرلی جائےیاتندخو بدمزاج قراردے کر انہیں تسلیم نہ کیاجائے توکوئی بات نہیں۔ اس سب کے باوجود بھی ضد برقراررہتی ہے کہ نہیں ہم ڈبل اسٹینڈرڈ نہیں ہیں۔ ہم سے زیادہ قول وفعل کی یکسانیت والا کوئی اورنہیں ہے۔

اس فرقہ کا یہ کمال ہے کہ جہاں اہل حدیث کی منقبت مراد ہوت ی ہے تووہاں پر اس کا ترجمہ اہل حدیث کرتے ہیں اوریہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہماری جماعت ہی کی توصیف بیان کی جارہی ہے اورجہاں کہیں اہل حدیث کی مذمت ہوتوترجمہ میں اہل حدیث لکھتے نہیں۔ ضمائر سے انہوں نے، ان کا اوراسی طرح کے دوسرے ضمائر سے کام نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کی ایک مثال دیکھئے ۔اہلحدیث یاعرف عام میں مشہور غیرمقلدین کے مشہور عالم مولوی محمد جوناگڈھی نے خطیب بغدادی کی شرف اصحاب الحدیث کا ترجمہ کیاہے۔اس ترجمہ میں وہ اہل حدیث کی منقبت اوربزرگی والی روایتوں میں توترجمہ میں اہل حدیث لکھتے ہیں

مثلا یہ قول کہ
ماقوم خیرمن اصحاب الحدیث کا ترجمہ یہ کیاہے ۔کہ "اہل حدیث سے بہتر کوئی قوم نہیں"(صفحہ33)لیکن یہ قول اما تری اہل الحدیث کیف تغیر واکیف افسدو ا کا ترجمہ یہ کیاہے۔"دیکھئے تو یہ طالب حدیث کیسے بگڑگئے۔اسی طرح اہل حدیث کی منقبت اوربزرگی والے دوسرے اقوال میں اہل حدیث یاجماعت اہل حدیث ترجمہ کیاہے۔(دیکھئے ص18-32-34)جب کہ مذمت والے اقوال میں ضمائر سے کام نکالنے کی کوشش کی ہے۔اس کی ایک مثال ملاحظہ کریں۔
امام اعمش کے قول
مافی الدنیاقوم شرمن اصحاب الحدیث کاترجمہ یہ کیاہے۔"دنیا میں اس قوم سے بری کوئی قوم نہیں ہے"حالانکہ صحیح ترجمہ اہل حدیث حضرات کےا صول پر ہوناچاہئے تھاکہ دنیا میں اہل حدیث سے بری کوئی قوم (جماعت)نہیں ہے۔اسی طرح امام اعمش کے قول لوکانت لی اکلب کنت ارسلتھاعلی اصحاب الحدیث کا ترجمہ یہ کیاہے"اگرمیرے پاس کتے ہوتے تومیں ان لوگوں پر چھوڑدیتا"لیکن صحیح ترجمہ اہل حدیث حضرات کے مطابق یہ ہوناچاہئے کہ "اگرمیرے پاس کتے ہوتے تو میں اہل حدیثوں پر چھوڑدیتا۔
ان سطور میں جمشیدصاحب نے خود اس بات کی شہادت دے دی کہ اہل حدیث ہر جگہ ’’اصحاب الحدیث ‘‘ یا اس کے ہم معنی الفاظ کو اپنے اوپر چسپاں نہیں کرتے حالانکہ گذشتہ سطور میں موصوف بڑے طمطراق سے کہہ رہے تھے :

اہل حدیث حضرات کایہ عمومی شعار اوروصف ہے کہ کتابوں میں جہاں کہیں ان کو اہل الحدیث ،اصحاب الحدیث یااس کا ہم معنی ومترادف لفظ دکھائی پڑتاہے توفورااس کو اپنی جماعت پر چسپاں کرنے لگتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ اس کے سیاق وسباق سے کون مراد ہیں۔۔۔۔
الحمدللہ زیرنظر تحریر میں جمشید صاحب نے اعتراف کرلیا کہ اہل حدیث حضرات یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سیاق وسباق سے کون مراد ہیں ، اور اسی کے مطابق الفاظ کا مفہوم اخذ کرتے ہیں ، یادرہے کہ جمشید صاحب نے اپنے گذشتہ دعوی پر کوئی ایک بھی دلیل پیش نہیں کی تھی ، اور یہاں آکر خود اعتراف کرلیا کہ اہل حدیث کا ایسا طرزعمل نہیں بلکہ ساتھ میں یہ بھی ظاہر کردیا کہ اس طرح کا طرزعمل اگرکسی کا ہے تو وہ خود بے چارے جمشید صاحب ہی کا ہے ، اس پر ہم اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔

ایک مظاہرہ توابن ابی حاتم نے فہم سقیم کا کیاتھااورمدح کو ذم سمجھ لیاتھااوران کی اتباع میں غیرمقلدین نے بھی روٹی کے فقیر کی طرح اس کو بغیر سوچے سمجھے ذم سمجھ لیا اب اسی کا دوسرامظاہرہ کفایت اللہ صاحب کررہے ہیں۔اورمیرے دواقوال میں تضاد ثابت کرناچاہ رہے ہیں آپ بھی ایک مرتبہ پڑھیں اوردیکھیں کہ تضاد واقعی ہے یاپھر اپنی لاج رکھنے کیلئے زبردستی تضاد پیداکیاجارہاہے۔
اہل حدیث حضرات کایہ عمومی شعار اوروصف ہے کہ کتابوں میں جہاں کہیں ان کو اہل الحدیث ،اصحاب الحدیث یااس کا ہم معنی ومترادف لفظ دکھائی پڑتاہے توفورااس کو اپنی جماعت پر چسپاں کرنے لگتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ اس کے سیاق وسباق سے کون مراد ہیں۔۔۔۔
اس کے بعد میں نے لکھاتھا
اس فرقہ کا یہ کمال ہے کہ جہاں اہل حدیث کی منقبت مراد ہوت ی ہے تووہاں پر اس کا ترجمہ اہل حدیث کرتے ہیں اوریہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہماری جماعت ہی کی توصیف بیان کی جارہی ہے اورجہاں کہیں اہل حدیث کی مذمت ہوتوترجمہ میں اہل حدیث لکھتے نہیں۔ ضمائر سے انہوں نے، ان کا اوراسی طرح کے دوسرے ضمائر سے کام نکالنے کی کوشش کرتے ہیں
کفایت اللہ صاحب جس طرح امام مالک کے جملہ کا صحیح مطلب نہیں سمجھ سکے اسی طرح یہاں بھی اس اردو جملہ کا مطلب درست طورپر نہیں اخذ کرسکے۔ یہ تواہل حدیث کے دواوصاف کا تذکرہ تھا۔ ایک تویہ کہ اہل حدیث کا لفظ دیکھ کر ہی اچھل پڑتے ہیں اورسمجھ لیتے ہیں کہ ہماراہی فرقہ اورطبقہ مراد ہے۔ دوسراوصف ان کایہ بیان کیاگیاکہ اہل حدیث کی منقبت ہوتی ہے تواس کا ترجمہ اہل حدیث کرتے ہیں اورمذمت ہوتی ہے توضمائر سے کام نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ایک وصف میں اہل الحدیث کے لفظ کو دیکھ کر ان کے برتائو کوذکرکیاجارہاہے اوردوسرے میں اہل الحدیث اوراصحاب الحدیث کے تعلق سے تراجم میں ان کے طریقہ کار کوبیان کیاگیاہے دونوں میں تضاد کس طرح ہے یہ میری سمجھ سے باہر ہے اورمیری طرح بہت سارے لوگوں کی سمجھ سے باہر ہوگالیکن ہوسکتاہے کہ کفایت اللہ صاحب کے پاس حسب معمول عجیب وغریب باتوں کی کوئی معلمی تاویل ضرورہوگی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میں نے لکھاتھا
حدیث اوراہلحدیث کا فرق
اوراس میں یہ روایت ذکر کی تھی۔اوراس کے بعد یہ تبصرہ کیاتھا۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا قَاسِمٌ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، «مَا رَأَيْتُ عِلْمًا أَشْرَفَ وَلَا أَهْلًا أَسْخَفَ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ»
2/10جامع بیان العلم وفضلہ
عمرو بن الحارث کہتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا(جانا) کہ کوئی علم علم حدیث سے زیادہ اشرف ہے اوراسی کے ساتھ یہ بھی نہیں جانتاکہ کوئی جماعت اہل حدیث سے زیادہ ارزل (ذلیل) ہے۔
بات اگرچہ تلخ ہے لیکن اہل حدیث کو اس کو داروئے تلخ سمجھ کر نوش فرماناہی چاہئے تھا۔اگرکوئی صاحب یہ تاویل کرناچاہیں کہ نہیں صاحب انہوں نے بعض دوسرے اعتبار سے یہ بات کہی تھی۔ اپنی جماعت کے بارے میں یہ بات انہوں نے کسی اورسیاق وسباق میں کہی تھی مطلقا جماعت اہل حدیث کی مذمت مقصود نہ تھی۔ توہمارسوال صرف اتناہوگاکہ ائمہ احناف کے ایک دوسرے پراسی طرح کے اقوال پیش کرتے وقت کبھی خوف خدایاد نہیں آتا۔ ہوسکتاہے وہاں بھی کسی خاص سیاق وسباق اورحالات میں ایک دوسرے پر تنقید کردی گئی ہو ۔مطلق الفاظ سے جوکچھ سمجھ میں آتاہے وہ مراد نہ ہو۔
اس پر کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں۔
ا
ولا:
یہ روایت ثابت ہی نہیں ہے
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حدثنا عبد الوارث بن سفيان، قال: حدثنا قاسم، قال: حدثنا أحمد بن زهير، قال: حدثنا محمد بن سلام، قال: قال عمرو بن الحارث: ما رأيت علما أشرف ولا أهلا أسخف من أهل الحديث[جامع بيان العلم وفضله: 2/ 255 ]۔

یہ روایت مردود ہے کیونکہ سند میں موجود ’’محمد بن سلام‘‘ کی توثیق کسی بھی ناقد امام سے باسند صحیح ثابت نہیں ۔
یہاں کفایت اللہ صاحب نے جوچالاکی کرنی چاہی ہے وہ قابل داد ہے۔ انہوں نے محمد بن سلام کو ضعیف قراردے دیا لیکن محمد بن سلام کی کوئی تعیین نہیں کی کہ کون سا محمد بن سلام ان کے نزدیک ضعیف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمروبن الحارث سے منقول یہ کلام سند کے لحاظ سے صحیح ہے۔ اس کا اقرار ایک دوسرے مشہور غیرمقلد محقق ابوالاشبال الزہیری کو بھی ہے ۔ انہوں نے جامع بیان العلم وفضلہ کی تحقیق کی ہے اوراس تحقیق میں اس سند کو صحیح قراردیاہے۔ دیکھئے جامع بیان العلم وفضلہ ص1027
حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا قَاسِمٌ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، «مَا رَأَيْتُ عِلْمًا أَشْرَفَ وَلَا أَهْلًا أَسْخَفَ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ»
اس سند کے بارے میں ابوالاشبال الزہیری لکھتے ہیں اسنادہ صحیح
یعنی یہ سند نہ ضعیف ہے نہ حسن لغیرہ اورلذاتہ ہے اورنہ ہی صحیح لغیرہ ہے بلکہ یہ یہ سند ڈائریکٹ صحیح ہے۔
دوسروں کو بتادوں کہ یہ ابوالاشبال الزہیری غیرمقلدین کے مشہور محقق ہیں انہوں نے جامع بیان العلم کی تحقیق توکی ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دیگر کتابوں کی بھی تحقیق کی ہے جس میں سے ایک تقریب التہذیب بھی ہے ۔ ان کی تحقیقات غیرمقلدین کے حلقہ میں وقعت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ اب یہ سمجھنامشکل ہے کہ غیرمقلدین حضرات ان کی تقلید کریں گے یاپھر کفایت اللہ صاحب کی تقلید کریں گے۔

۔ علاوہ ازیں اس کی سندپر ہم مختصر کلام کردیتے ہیں تاکہ کفایت اللہ صاحب نے جوعذرگناہ بدترازگناہ اس سند کو مردور قراردینے کے تراشے ہیں اس کی حقیقت طشت ازبام کی جاسکے۔
ابن عبدالبر :حدیث اورفقہ کے امام ہیں۔ حافظ ذہبی تذکرۃ الحفاظ3/217میں لکھتے ہیں
ابن عبد البر الإمام شيخ الإسلام حافظ المغرب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمعت أبا الوليد الباجي يقول: أبو عمر أحفظ أهل المغرب.
قال أبو الوليد الباجي: لم يكن بالأندلس مثل أبي عمر في الحديث. وقال ابن حزم: التمهيد لصاحبنا أبي عمر لا أعلم في الكلام على فقه الحديث مثله أصلا فكيف أحسن منه،
جب کہ حافظ ذہبی سیر اعلام النبلاء 13/357میں لکھتے ہیں۔
ابْنُ عَبْدِ البر 2:
الإِمَامُ العَلاَّمَةُ حَافظُ المَغْرِبِ شَيْخُ الإِسْلاَمِ أَبُو عُمَرَ يُوْسُفُ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِ البَرِّ بنِ عَاصِمٍ النَّمَرِيُّ الأَنْدَلُسِيُّ القرطبي المالكي صاحب التصانيف الفائقة.
قَالَ الحُمَيْدِيُّ: أَبُو عُمَرَ فَقِيْهٌ حَافظٌ مُكْثِرٌ عَالِم بِالقِرَاءات، وَبَالخلاَف وَبعلُوْم الحَدِيْث وَالرِّجَال قَدِيْمُ السَّمَاع يَمِيْل فِي الفِقْه إِلَى أَقْوَال الشَّافِعِيّ.
قُلْتُ: كَانَ إِمَاماً ديِّناً ثِقَة مُتْقِناً علاَمَة مُتَبَحِّراً صَاحِبَ سُنَّةٍ وَاتِّبَاع وَكَانَ أَوَّلاً أَثرِياً ظَاهِرِياً فِيْمَا قِيْلَ ثُمَّ تَحَوَّلَ مَالِكيّاً مَعَ مَيْلٍ بَيِّنٍ إِلَى فَقه الشَّافِعِيّ فِي مَسَائِل وَلاَ يُنكر لَهُ ذَلِكَ فَإِنَّهُ مِمَّنْ بلغَ رُتْبَة الأَئِمَّة المُجْتَهِدين وَمَنْ نَظَرَ فِي مُصَنَّفَاتِهِ بانَ لَهُ مَنْزِلَتُهُ مِنْ سعَة العِلْم وَقُوَّة الفَهم وَسَيَلاَن الذّهن وَكُلُّ أَحَدٍ يُؤْخَذ مِنْ قوله ويترك إلَّا رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-

عبدالوارث بن سفیان:
عَبْدُ الوَارِثِ بنُ سفيان 1:
ابن جبرون -بِضَمِ الجِيْم، المحدِّث الثِّقَةُ، العَالِمُ الزَّاهِدُ، أَبُو القَاسِمِ القُرْطُبِيُّ، الملقَّب بِالحَبِيْبِ

قاسم بن اصبغ:
قاسم بن أصبغ 1:
ابن مُحَمَّدِ بنِ يُوْسُفَ بنِ نَاصِحٍ, وَقِيْلَ: وَاضِحٌ بدل ناصح, فيحرر هَذَا الإِمَامُ الحَافِظُ العَلاَّمَةُ مُحدَّثُ الأَنْدَلُسِ, أَبُو مُحَمَّدٍ القُرْطُبِيُّ, مَوْلَى بَنِي أُمَيَّةَ.
وَانْتَهَى إِلَيْهِ عُلُوّ الإِسْنَاد بِالأَنْدَلُسِ مَعَ الحِفْظ وَالإِتْقَان، وَبرَاعَةِ العَرَبِيَّة, وَالتقدُّم فِي الفتوَى, وَالحُرْمَة التَّامَّة وَالجَلاَلَةِ.
أَثْنَى عَلَيْهِ غَيْرُ وَاحد, وَتوَالِيفُ ابْنِ حَزْم, وَابنِ عَبْدِ البَرِّ، وَأَبِي الوَلِيْدِ الباجي, طافحةً بروايات قاسم بن أصبغ.
سیراعلام النبلاء12/66

قاسم بن اصبغ کے بارے میں یہ بات ملتی ہے کہ آخری عمر میں وہ نسیان کے مریض ہوگئے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی حافظ ذہبی نے اس کی بھی تصریح کردی ہے کہ ایسی حالت میں وہ خود ہی روایت سے رک گئے تھے اورروایت کرناترک کردیاتھا۔ علاوہ ازیں عبدالوارث بن سفیان کی قاسم بن اصبغ سے روایت پر کوئی کلام نہیں ہے۔
احمد بن زہیر:
أحمد بن أبي خيثمة زهير بن حرب الحافظ الحجة الإمام أبو بكر بن الحافظ النسائي ثم البغدادي صاحب التاريخ الكبير:
سمع أباه وأبا نعيم وهوذة بن خليفة وقطبة بن العلاء وعفان ومسلم بن إبراهيم وموسى بن إسماعيل وخلقا كثيرا. حدث عنه البغوي وابن صاعد ومحمد بن مخلد وإسماعيل الصفار وأبو سهل القطان وأحمد بن كامل وآخرون. قال الدارقطني: ثقة مأمون. وقال الخطيب: ثقة عالم متقن حافظ بصير بأيام الناس راوية للأدب أخذ علم الحديث عن أحمد بن حنبل وابن معين وعلم النسب عن مصعب وأيام الناس عن علي بن محمد المدائني والأدب عن محمد بن سلام الجمحي ولا أعرف أغزر فوائد من تاريخه قال ابن المنادي: بلغ أربعا وتسعين سنة ومات في جمادى الأولى سنة تسع وسبعين ومائتين.

محمد بن سلام:
اس زمانہ میں دومحمد بن سلام مشہور تھے
1: مُحَمَّدُ بنُ سَلاَمِ بنِ الفَرَجِ السُّلَمِيُّ مَوْلاَهُمْ * (خَ)
الإِمَامُ، الحَافِظُ، النَّاقِدُ، أَبُو عَبْدِ اللهِ السُّلَمِيُّ مَوْلاَهُمْ، البُخَارِيُّ، البِيْكَنْدِيُّ.

ان کے ثقاہت پر کوئی کلام نہیں ہے ان کی وجہ سے سند تودرست ہوگی ہے۔
2: مُحَمَّدُ بنُ سَلاَّمٍ الجُمَحِيُّ *
العَلاَّمَةُ، أَبُو عَبْدِ اللهِ الجُمَحِيُّ، وَوَلاَؤُهُم لِقُدَامَةَ بنِ مَظْعُوْنٍ.

ایسالگتاہے کہ کفایت اللہ صاحب نے اس سند میں محمد بن سلام سے الجحمی کو ہی مراد لیاہے اوراس کیلئے شاید انہوں نے ان باتوں کو اپناماخذ بنایاہو۔
حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں ان کے شاگردوں میں احمد بن زہیر کا ذکرکیاہے۔ چنانچہ ان کے تذکرہ میں یہ لکھتے ہوئے کہ فلاں فلاں علم فلاں فلاں سے حاصل کیاہے۔
والأدب عن محمد بن سلام الجمحي(تذکرۃ الحفاظ)یہی بات حافظ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں بھی دوہرائی ہے کہ ان کے شاگردوں میں احمد بن زہیر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ خود احمد بن زہیر نے التاریخ الکبیر المشہور تاریخ ابن ابی خیثمہ میں کئی مواقع پر اس کی صراحت کی ہے کہ انہوں نے یہ بات محمد بن سلام الجحمی سے اخذ کیاہے۔دیکھئے۔
وقُرَّة بْن خالد ومغرى بْن خالد السدوسي أَخَوَان:
أَخْبَرَنَا ذاك مُحَمَّد بْن سَلام الجمحي(المصدرالسابق1/131)

وهُوَ صَعْصَعَة بْنُ نَاجِيَة بْنِ عَقَّالِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سُفْيَان بن مُجَاشِع بن درام، وَالْفَرَزْدَقُ اسْمُهُ هَمَّام بْنُ غَالِب بْنِ صَعْصَعَة بْنِ نَاجِيَة.
أخذتُ هَذَا النَّسَب عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَلاَّمٍ الْجُمَحِيّ.(المصدرالسابق1/307)

لیکن انہوں نے اس کو نظرانداز کردیاکہ
اولاًاسی کتاب میں جہاں محمد بن سلام کا الجمحی کے ساتھ ذکر ہے۔ وہیں محمد بن سلام کا بغیر کسی اضافت کے بھی ذکر ہے۔
ثانیامحمد بن سلام الجحمی میں سلام ل کے تشدید کے ساتھ ہے ۔جب کہ محمد بن سلام جوبغیرکسی اضافت کے ہے وہ سلام فتحہ کے ساتھ ہے اوریہ فتحہ کے ساتھ نام مشہور محدث اورناقد رجال کانام ہے۔
ثالثاًالجحمی اورالسلمی ہم عصر ہیں ۔ اس لئے یہ عین ممکن ہے کہ احمد بن زہیر نے دونوں سے ہی استفادہ اوراخذ کیاہو جب کہ امام مسلم کے نزدیک محض معاصرت کافی ہے لقاء کا ثبوت ضروری نہیں ہے۔
اب اگراس سند میں محمد بن سلام سے السلمی ہی مراد ہیں توسند کے صحیح اوردرست ہونے میں کوئی ہی نہیں رہ جاتاہے اوراگراس سند میں الجحمی مراد ہیں تویہ بات واضح رہے کہ ان پر صرف احمد بن زہیر کے والد نے ہی جرح کی ہے اوریہ جرح غیرمفسر ہے ابوخیثمہ کہتے ہیں۔
قال محمد بن أبي خيثمة: سمعت أبي يقول: لا يكتب عن محمد بن سلام الحديث، رجل يرمى بالقدر، إنما يكتب عنه الشعر، فأماالحديث فلا.
اس میں دوباتیں ذکر کی گئی ہیں۔ نمبر1محمد بن سلام سے صرف شعر لیاجاسکتاہے حدیث کے وہ لائق نہیں۔ کیوں لائق نہیں اس کی وضاحت نہیں ہے۔لہذا یہ جرح غیرمفسر ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ان پر قدری ہونے کا طعن کیاگیاہے۔ یہ جرح بھی لائق توجہ نہیں ہے۔کیوں کہ کون ان کوقدری بتارہاہے اس کی وضاحت نہیں ہے محض یہ کہہ دینے سے کہ فلاں پر فلاں طعن کیاجاتاہے وہ جرح غیرمفسر اورناقابل قبول ہوتی ہے۔اورمذہبی اختلاف یعنی کسی کا قدری اورکسی دوسرے فرقہ سے تعلق رکھناموجب ضعف نہیں ہے جیساکہ اصول حدیث میں یہ بات مقرر ہوچکی ہے۔
ویسے ابوخیثمہ کی اس بات پر کہ ابن سلام سے صرف شعر وغیرہ ہی لیاجائے حدیث نہ لیاجائے ان کے بیٹے نےبھی عمل نہیں کیاچنانچہ تاریخ ابن ابی خیثمہ میں محمد بن سلام سے روایت نقل کی گئی ہے۔
ابوخیثمہ کے علاوہ دوسرے ناقدین نے ان کی توثیق وتعدیل کی ہے۔
چنانچہ حافظ ذہبی نے جوکچھ میزان الاعتدال میں لکھاہے اس کو دیکھتے چلیں۔
محمد بن سلام بن عبد الله الجمحى، أبو عبد الله البصري، مولى قدامة ابن مظعون، وهو أخو عبد الرحمن بن سلام.
قال ثعلب: رأيت يحيى بن معين عند ابن سلام فسأله (3) عن هذا الحديث.
روى أبو خليفة عن الرقاشي، قال: أحاديث محمد بن سلام عندنا مثل حديث أيوب عن محمد عن أبي هريرة.
قال أبو خليفة: وقال لي أبي مثل ذلك. وقال صالح جزرة: صدوق.
وقال محمد بن أبي خيثمة: سمعت أبي يقول: لا يكتب عن محمد بن سلام الحديث، رجل يرمى بالقدر، إنما يكتب عنه الشعر، فأما
الحديث فلا.
میزان الاعتدال3/568
اسی بات کو پورے طورپر متفق ہوکر حافظ ابن حجر نے بھی دوہرایاہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔
محمد" بن سلام بن عبد الله الجمحي أبو عبد الله البصري مولى قدامة بن مظعون وهو أخو عبد الرحمن بن سلام كان من أئمة الأدب ألف طبقات الشعراء وحدث عن حماد بن سلمة ومبارك بن فضالة وجماعة وعنه عبد الله بن أحمد بن حنبل وثعلب وأحمد بن علي الأبار وعدة قال أبو خليفة حدثنا محمد بن سلام قال حدثنا زائدة بن أبي الرقاد عن ثابت عن أنس رضى الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال لام عطية إذا خفضت1 فاشمي ولا تنهكي فإنه أسرى للوجه وأحظى عند الزوج قال ثعلب رأيت يحيى بن معين عند بن سلام فسأله عن هذا الحديث روى أبو خليفة عن الرقاشي قال أحاديث محمد بن سلام عندنا مثل حديث أيوب عن محمد عن أبي هريرة قال أبو خليفة وقال لي أبي مثل ذلك وقال صالح جزرة صدوق وقال محمد بن أبي خيثمة سمعت
لسان المیزان5/182

چونکہ ان کی جرح صرف ابوخیثمہ سے منقول ہے اوریہ جرح بھی مبہم اورغیر مفسر ہے لہذا علامہ صفدی الوافی بالوفیات میں اس تعلق سے لکھتے ہیں۔
وَعَامة الْمُحدثين على صدقه وثقته إِلَّا أَن أَبَا خَيْثَمَة قَالَ كَانَ يرْمى بِالْقدرِ الوافی بالوفیات3/96
لہذااگرسند میں یہی محمد بن سلام الجحمی مراد ہیں توبھی سند صحیح ہے اورابوخیثمہ کا نقد مبہم اورغیرمفسر ہونے کی وجہ سے لائق التفات نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
قارئین کرام!آپ نے ملاحظہ فرمالیاکہ محمد بن سلام کو ضعیف قراردینے کی بات محض اس لئے گڑھی گئی ہے کہ تاکہ موصوف اس اثر کی زد میں آنے سے خودکواوراپنی جماعت کو بچاسکیں جس میں علم حدیث کو اشرف اوراہل حدیث کو ارذل کہاگیاہے۔
اس کے ساتھ انہوں نے دوسرانکتہ یہ بھی پیش کیاہے کہ

مزید یہ کہ محمدبن سلام نے اپنے شاگرد احمدبن زہیر کے سامنے اس قول کے قائل کا نام عمروبن الحارث بتلایاہے جبکہ اپنے دوسرے شاگر د محمد بن إسماعيل بن يعقوب کے سامنے قائل کا نام حماد بن سلمہ بتلایا ہے چناچہ:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِمِ الْأَزْهَرِيُّ، أنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ يَحْيَى، أنا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَصْبَهَانِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ وَكِيعٌ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، يَقُولُ: «لَا تَرَى صِنَاعَةً أَشْرَفَ، وَلَا قَوْمًا أَسْخَفَ مِنَ الْحَدِيثِ وَأَصْحَابِهِ» وَالْوَاجِبُ أَنْ يَكُونَ طَلِبَةُ الْحَدِيثِ أَكْمَلَ النَّاسِ أَدَبًا، وَأَشَدَّ الْخَلْقِ تَوَاضُعًا، وَأَعْظَمَهُمْ نَزَاهَةً وَتَدَيُّنًا، وَأَقَلَّهُمْ طَيْشًا وَغَضَبًا، لِدَوَامِ قَرْعِ أَسْمَاعِهِمْ بِالْأَخْبَارِ الْمُشْتَمِلَةِ عَلَى مَحَاسِنِ أَخْلَاقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَآدَابِهِ , وَسِيرَةِ السَّلَفِ الْأَخْيَارِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ وَأَصْحَابِهِ، وَطَرَائِقِ الْمُحَدِّثِينَ، وَمَآثِرِ الْمَاضِينَ، فَيَأْخُذُوا بِأَجْمَلِهَا وَأَحْسَنِهَا، وَيَصْدِفُوا عَنْ أَرْذَلِهَا وَأَدْوَنِهَا[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي 1/ 78]۔
لہٰذا ایک طرف محمدبن سلام کی توثیق کا ثابت نہ ہونا اور دوسری طرف قائل کی تعیین میں اختلاف ، یہ معاملہ کو مزید مشکوک بنادیتاہے۔
اس سے بڑھ کر مضطرب روایات میں آپ کے استاد معنوی رئیس احمد ندوی نے تطبیق کی شکلیں نکالی ہیں۔ اللمحات کی پانچوں جلدیں توآپ کو حفظ ہوں گی۔ تھوڑی کوشش کریں اس میں بلامبالغہ بیس سے زائد ایسے مقامات ملیں گے جہاں اس طرح کےمختلف روایتوں میں رئیس ندوی نے تطبیق کی شکلیں نکالی ہیں اگرآپ تسلیم نہیں کرتے ہیں توآئندہ کےمراسلات میں رئیس ندوی کے اقتباسات پیش کردیئے جائیں گے۔ ویسے بھی علم حدیث میں یہ کوئی مضبوط جواز نہیں ہے۔

محمد بن سلام نے دونوں سے ہی یہ سنی ہواسی فرق کے ساتھ جس فرق کے ساتھ انہوں نے بیان کیاہے۔ یہ کوئی ناممکن الوقوع چیز تونہیں ہے۔ حدیث میں اس طرح کی کتنی باتیں سامنے آتی ہیں جہاں ایک شاگرد ایک ہی حدیث کو دوتین استادوں سے نقل کرتاہے اوراس میں یہی کہہ کر تطبیق دیاجاتاہے کہ اس نے سبھی سے سناہوگالہذا سبھی کا ذکر کردیا۔

اس طرح کے عذرلنگ سے اس اثرکو ضعیف اوربے بنیاد بناکر کچھ "ناواقفین حال "کی ضرورتشفی کی جاسکتی ہے لیکن دنیا میں سب ہی اس طرح کے ناواقفین حال نہیں ہیں لہذا اس سلسلے میں محتاط رہاجائے۔اوربات وہ کی جائے جس کی علم اورتحقیق سے تائید ہورہی ہو ۔محض پردہ پوشی مقصود نہ ہو۔
ثانیا:
اوپر بتایا جاچکا ہے کہ محمدبن سلام نے اسی قول کو حمادبن سلمہ سے بھی نقل کیا ہے اورحمادبن سلمہ حالت غضب میں بہت سخت بول جایا کرتے تھے چنانچہ انہوں نے غضب کی حالت میں ابوحنیفہ کو شیطان تک کہہ ڈالا ، چنانچہ:
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبد اللَّهِ بْنُ عَبد الحميد الواسطي، حَدَّثَنا ابْن أبي بزة، قَالَ: سَمِعْتُ المؤمل يَقُول: سَمعتُ حَمَّاد بْن سَلَمَة يَقُول كَانَ أَبُو حنيفة شيطانا استقبل آثار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يردها برأيه.[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 8/ 239 واسنادہ صحیح]۔
مسلم اورسنن اربعہ کے ثقہ راوی حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ شیطان تھا وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اپنی رائے سے رد کردیا کرتا تھا۔
واضح رہے کہ حمادبن سلمہ سے طلاب حدیث کے بارے میں سخت تبصرہ منقول ہے اور اس میں پوری جماعت کی شمولیت ناممکن ہے جبکہ خود امام حماد بن سلمہ بھی اہل حدیث ہی ہیں ، لیکن ابوحنیفہ کی ایک جماعت یا مسلک کا نام نہیں بلکہ ایک فرد واحد کا نام ہے لہٰذا اسے شیطان کہا گیا تو یہاں عموم وخصوص کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔
ہم اسی کو ڈبل اسٹینڈرڈ اوردوغلاپن یادوہرامعیار کہتے ہیں کہ اگراعمش نے کچھ سخت بات اہل حدیث کے تعلق سے کہی ہے تواس کو تند خود اوربدمزاجی سمجھاجائے اورامام ابوحنیفہ کے تعلق سے کہی ہے تواس کو جرح قراردیاجائے۔ اس ڈبل اسٹینڈرڈ کی وضاحت آپ کے ذمہ ہے یہ کیوں نہ ہم سمجھیں کہ اعمش نے امام ابوحنیفہ کے خلاف جوکچھ بھی کہاہے وہ بھی ان کے بداخلاقی، سوء مزاج اورتندخوئی کا کرشمہ ہے۔

آپ نے یہاں آکر اقرارکرلیاکہاحماد بن سلمہ غصے میں سخت بول جاتے تھے لیکن جب آپ کے استاد معنوی نے یہ روایت نشرالصحفیہ وغیرہ میں ذکر کی تووہاں پر تواس طرح کی کوئی تصریح نہیں کی ۔یعنی حمادبن سلمہ اسی وقت سخت غصے والے ہوں گے جب وہ اہل حدیث کے خلاف کچھ کہیں گے ۔لیکن جب وہ امام ابوحنیفہ کے خلاف کچھ کہیں گے تو بڑے معتدل مزاج ہوجائیں گے۔ ویسے اس روایت کو صحیح قراردینے کابھی کوئی جواز نہیں ہے ۔ مومل ضعیف راوی ہیں۔ لیکن امام ابوحنیفہ کیلئے غیر مقلدین اس میں بھی ردوبدل کردیتے ہیں اورضعیف راوی ان کے یہاں قوی راوی ہوجایاکرتاہے۔

اسی طرح مجھے یاد آرہاہے کہ اسی حملہ بن سلمہ کی وہ بات امام ابوحنیفہ کے سلسلے میں آپ نے مکالمہ کے زمرے میں "ابن تیمیہ کی حدت مزاجی"والے تھریڈ میں نقل کی تھی کہ امام ابوحنیفہ کی سنت کو اپنی رائے سے رد کردیاکرتے تھے۔ وہاں بھی آپ نے سخت غصے والے ہونے کی کوئی تصریح نہیں کی تھی۔یہ سخت غصہ والاہونابس آپ کو اسی جگہ پر یاد آیاجہاں حماد بن سلمہ نے ہی اہل حدیث کو اسخف بمعنی ارذل قراردے دیاہے۔

ویسے یہ جو حماد بن سلمہ کا قول آپ نے نقل کیاہے۔
حَدَّثَنَا عَبد اللَّهِ بْنُ عَبد الحميد الواسطي، حَدَّثَنا ابْن أبي بزة، قَالَ: سَمِعْتُ المؤمل يَقُول: سَمعتُ حَمَّاد بْن سَلَمَة يَقُول كَانَ أَبُو حنيفة شيطانا استقبل آثار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يردها برأيه.[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 8/ 239 واسنادہ صحیح]۔
یہ اثر خود ضعیف ہے اورضعیف اس لئے ہے کہ اس میں مومل بن اسماعیل ہے۔ مومل بن اسماعیل کے ضعف کی محدثین نے واضح الفاظ میں تصریح کی ہے اسی کے ساتھ سبب ضعف کوبھی واضح انداز میں بیان کیاہے۔ جس سے واضح ہے کہ مومل بن اسماعیل پر ہونے والاجرح جرح مفسر ہے۔ اس کے باوجود اسنادہ صحیح کہنایاتوزبیر علی زئی کی تقلید کی وجہ سے ہے جس نے مومل بن اسماعیل کو ثقہ وصدوق قراردے رکھاہے یاپھر یہ خیال کرکے ہوگاکہ چلو اسنادہ صحیح لکھ دیتے ہیں پکڑنے والاکون ہے؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اب ہم قارئین کے سامنے مومل بن اسماعیل کے تعلق سے ناقدین رجال کے کچھ اقوال پیش کرتے ہیں تاکہ اس کی حالت کا اندازہ ہرایک کو ہوسکے۔
اس راوی کے بارے میں اولاالبانی صاحب کا ہی ہم ذکرتے ہیں کیونکہ وہ ان حضرات کے محدث العصر ہیں دیکھئے مومل کے سلسلے میں وہ کیاکہتے ہیں۔
قلت: وهذا خطأ فاحش، وبخاصة من الذهبي؛ لأن مؤملا هذا ليس من
رجال الشيخين أولا، ثم هو شديد الخطأ ثانيا؛ فقد قال فيه إمام المحدثين البخاري:
" منكر الحديث ".
وقد اعترف كل من ترجم له - حتى الذهبي - بأنه سيئ الحفظ، فقال في
" حافظ عالم يخطئ. وثقه ابن معين. وقال أبو حاتم: صدوق شديد في
السنة، كثير الخطأ. وقال البخاري: منكر الحديث. وقال أبو زرعة: في حديثه
خطأ كثير ". وقال الحافظ في " التقريب ":
" صدوق سيئ الحفظ ".
وقد أعتمد قول أبي حاتم المتقدم الذهبي نفسه في " الكاشف "، ثم أتبعه
ببيان سبب كثرة خطئه فقال:
" وقيل: دفن كتبه، وحدث حفظا؛ فغلط ".
قلت: فمثله لا يحتج به إذا انفرد،

سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ12/58

اس کے بارے میں ہم ناقدین کے اقوال ذکر کرتے چلے جاتے ہیں۔ امام بخاری فرماتے ہیں منکرالحدیث
ابوحاتم کہتے ہیں صدوق شدید فی السنۃ کثیرالخطاءیکتب حدیثہ،الجرح والتعدیل 8/374
ابوزرعہ الرازی کہتے ہیں فی حدیثہ خطاء کثیر
ابن سعد کہتے ہیں ثقۃ کثیرالخطاء
یعقوب بن سفیان المعروف الفسوی لکھتے ہیں: قال يعقوب بن سفيان: مؤمل أبو عبد الرحمن شيخ جليل سني سمعت سُلَيْمان بن حرب يحسن الثناء كان مشيختنا يوصون به الا ان حديثه لا يشبه حديث اصحابه وقد يجب على اهل العلم ان يقفوا عن حديثه
فانه يروي المناكير عن ثقات شيوخه وهذا اشد
فلو كانت هذه المناكير عن الضعفاء لكنا نجعل له عذرا.


ساجی کہتے ہیں: صدوق كثير الخطأ وله أوهام يطول ذكرها.
ابونصرالمروزی کہتے ہیں: المؤمل إذا انفرد بحديث وجب ان يتوقف ويتثبت فيه لانه كان سيئ الحفظ كثير الغلط.
ابن قانع کہتے ہیں: صالح يخطئ
دارقطنی کہتے ہیں: : ثقة كثير الخطأ۔اوران سے ایک دوسری روایت میں صدوق کثیر الخطاء کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ اس کے علاوہ علل میں دارقطنی کہتے ہیں۔
وَرَوَاهُ مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَحْيَى الْقَطَّانِ فَوَهِمَ عَلَيْهِ فِي إِسْنَادِهِ، وَهْمًا قَبِيحًا؛علل الدارقطنی9/314
اس کے علاوہ ان کے بارے میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ان کی کتابیں دفن ہوگئی تھیں وہ جوکچھ بیان کرتے تھے یادداشت سے بیان کرتے تھے اسی بناء پر ان کی غلطیاں زیادہ ہوگئیں وَقَال غيره: دفن كتبه فَكَانَ يحدث من حفظه، فكثر خطؤه.اوریہ بات مشہور ہے کہ جب کسی کی غلطیاں صواب سے زیادہ ہوجائیں توپھر وہ ترک کا مستحق ہوجاتاہے۔
اس کے بارے میں حافظ ابن حجر کا فیصلہ یہ ہے کہ مؤمل بوزن محمد بهمزة ابن إسماعيل البصري أبو عبد الرحمن نزيل مكة صدوق سيء الحفظ من صغار التاسعة مات سنة ست ومائتين خت قد ت س ق
تقریب التہذیب1/
دیگر کتابیں یہ ہیں،تہذیب الکمال،طبقات ابن سعد5/501،سیر اعلام النبلاء8/286،من تکلم فیہ وھوموثق1/513،میزان الاعتدال4/284،تہذیب التہذیب10/381،لسان المیزان7/406،موسوعۃ اقوال ابی الحسن الدارقطنی2/674۔
جن حضرات نے اس کی توثیق کی ہے وہ ہیں
ابن معین:انہوں نے اسے ثقہ کہاہے جیساکہ ابن ابی حاتم نے الجرح والتعدیل میں نقل کیاہے۔
اسحاق بن راہویہ نے بھی اس کو ثقہ کہاہے۔جیساکہ
ابودائود سے واضح طورپر توثیق کے الفاط تومنقول نہیں ہیں لیکن ان سے منقول یہ ہے کہ جب اس کے بارے میں پوچھاگیاتوانہوں نے اس کی بڑی تعریف اورعظمت بیان کی ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ لیکن ان کو وہم لاحق ہوتاہے۔
ذہبی نے من تکلم فیہ وھوموثق میں ذکرکیاہے اورصدوق قراردیاہے۔اسی کے ساتھ امام بخاری کا قول منکر الحدیث بھی ذکر کیاہے۔
ان تمام امور سے دوباتیں واضح طورپر سامنے آئیں ہیں
مومل بن اسماعیل پر جوجرح ہے وہ جرح مفسر ہے مبہم نہیں ہے اورتعدیل وجرح جب ٹکرائو ہوتو جرح مفسر کو ترجیح حاصل ہوتی ہے اوراسی کا اعتبار کیاجاتاہے۔اس اصول کی وضاحت تقریباتمام ہی اصول حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔پتہ نہیں کفایت اللہ صاحب اس کو تسلیم کرتے ہیں یانہیں کرتے۔
دوسرے جرح کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اورخود ان کے محدث العصر نے مومل بن اسماعیل کو مجروح تسلیم کیاہے۔
تیسرے جہاں تک ثقہ قراردینے والوں کی بات ہے توآپ کو یاد ہوگاکہ ایک تھریڈ میں ابن معین کے امام ابوحنیفہ کو ثقہ قراردینے کے تعلق سے کفایت اللہ صاحب ہمیں یہ سمجھارہے تھے کہ ثقہ کا معنی کہیں عدالت کے بھی طورپر استعمال ہوتاہے یعنی ثقہ کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ وہ حافظ وضابط ہے بلکہ صرف یہ ہوتاہے کہ وہ عادل ہے۔ یہ دیکھئے کفایت اللہ صاحب کامراسلہ
امام ذہبی رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے بعض مقامات پر یہ صراحت کررکھی ہے کہ ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا ، ذیل میں امام ذہبی کی یہ صراحت ملاحظہ ہو:
امام حاکم رحمہ اللہ نے ایک راوی ’’ خارجة بن مصعب الخراسانی‘‘ کی توثیق کی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ وضاحت کیا کہ اس توثیق سے مراد یہ ہے کہ اس راوی سے جھوٹ بولنا ثابت نہیں ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
وَقَالَ الحَاكِمُ: هُوَ فِي نَفْسِهِ ثِقَةٌ -يَعْنِي: مَا هُوَ بِمُتَّهَمٍ-.[سير أعلام النبلاء 7/ 327]۔

معلوم ہوا کہ بعض ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا اور امام ابن معین رحمہ اللہ کی توثیق ابی حنیفہ بشرط ثابت اسی معنی میں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ خود امام ابن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف فی الحدیث قرار دے رکھا ہے جیساکے حوالے پیش کئے جاچکے ہیں۔
اب یہی بات کفایت اللہ صاحب ان حضرات کے تعلق سے کیوں نہیں کہہ سکتے جنہوں نے مومل بن اسماعیل کو ثقہ قراردیاہے ان کی یہ بات دیانت داری اورسچائی کے لحاظ سے ہے اصطلاحی معنوں میں ثقہ نہیں کہاگیاہے لیکن یہ واضح ہے کہ یہاں پر اورایسے مواقع پر کفایت اللہ صاحب اوران کے لوگوں کو یہ بات بھول کر بھی یاد نہیں آئے گی۔بلکہ ان کو یہ بات صرف امام ابوحنیفہ کے تعلق سے ہی یاد آئے گی اوراگراسی کو ڈبل اسٹینڈرڈ یادوہرامعیار کہہ دیاجائے توہمارے یہ مہربان چراغ پاہوجاتے ہیں لیکن ان کو اپنی حرکت پر غورکرنی چاہئے۔
ہم اگرعرض کریں گے توشکایت ہوگی
جب کہ یہ واضح ہے کہ دارقطنی اوردیگر ناقدین نے اس کو ثقہ کے ساتھ کثیر الخطاء بتایاہے لہذا جن لوگوں نے مطلقا ثقہ کہاہے ان کو بھی ثقہ قراردینااسی معنی پر محمول ہوگا جس معنی پر دارقطنی اوردیگر افراد کا ثقاہت کے ساتھ کثیر الخطاء قراردینے پر محمول ہوگا۔یعنی یہ ثقاہت عدالت کے معنی میں ہوگی حفظ وضبط کے معنی میں نہیں ہوگی
واضح رہے کہ من تکلم فیہ وھوموثق کے محقق مومل بن اسماعیل کی توثیق کے تعلق سے لکھتے ہیں ۔
الحاصل أنه سيء الحفظ، ومقصود الأئمة بتوثيقه أنه عدل، أما في حفظه فهو ضعيف، والله أعلم.
ویسے کفایت اللہ صاحب کی کچھ مزید دورنگیاں آپ کے سامنے پیش کردوں ۔
ابن عبدالبر نے تمہید میں امام ابوحنیفہ کو سی الحفظ عندالمحدثین کہہ دیاتووہ باوجودیہ کہنے کے کہ الذین اثنواعلیہ ووثقوہ اکثر۔امام ابوحنیفہ ضعیف ہوگئے لیکن یہ مومل بن اسماعیل جس کے بارے میں حافظ ابن حجر نے یہ نتیجہ نکالا صدوق سیئ الحفظ وہ ثقہ ہوجاتے ہیں ۔ ایسے دورنگی کہیں اوردیکھی ہوگی آپ نے ۔ یقینانہیں دیکھی ہوگی۔
حافظ ابن حجر اگرامام ابوحنیفہ کی توثیق ابن معین س تہذیب التہذیب میں نقل کرتے ہیں اورواضح طورپر نقل کرتے ہیں اورپھرتقریب میں صرف امام فقیہ مشہور کہتے ہیں اورایک فتوی میں جیساکہ سخاوی نے الجواہر والدرر میں نقل کیاہے کہ وہ جاوزالقنطرہ کے افراد میں شمار ہیں یعنی اب ان کی تضعیف کرنے والے کی تضعیف کا کوئی اثرنہیں ہوگاپھر بھی ان کے نزدیک یہ امام ابوحنیفہ کی توثیق سے اغماض کا پہلو ہے جیساکہ البانی ومقبل اوردوسرے غیرمقلدین بیان کرتے رہتے ہیں ۔لیکن اگرمومل بن اسماعیل کو واضح طورپر سی الحفظ قراردیاجائے تو بھی اس کی سند سے مروی قول اسنادہ صحیح کا درجہ پاتاہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ کفایت اللہ صاحب نے ابن محرز کو مجہول قراردے کر ابن معین کی توثیق کو ضعیف قراردیاتھاالاجری جو امام ابودائود سے سوالا نقل کرتے ہیں اس کی بھی توثیق نامعلوم ہے۔ لہذا وہ بھی حفظ وضبط کے اعتبار سے مجہول ہے۔لیکن شاید غیرمقلدین اس کی بات کو تسلیم کرلیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ مومل بن اسماعیل ضعیف ہے اوراپنے حفظ وضبط کی وجہ سے ضعیف ہے اس پر جرح جرح مفسر ہے۔اورتوثیق کرنے والوں کی توثیق کفایت اللہ صاحب کے اصول کے مطابق سچائی اوردینداری کے معنوں میں محمول ہوگی حفظ وضبط پر محمول نہیں ہوگی۔
جب قارئین نے اتنی تفصیلات پڑھ لیں تویہ ان کے نزدیک واضح ہوگیاکہ اسنادہ صحیح کہنامحض آنکھوں میں دھول جھونکناتھا۔ویسے اس سے قبل بھی کفایت اللہ صاحب کے کچھ اسنادہ صحیح پر نگاہ کھٹکی تھی لیکن اس کا اظہار نہیں کیاگیالیکن اب ان کے اسنادہ صحیح پر خصوصی نگرانی کرنی ہوگی۔
ویسے یہ واضح رہے کہ ان کاسارازور مومل بن اسماعیل کو ثقہ قراردینے کیلئے اس لئے ہوتاہے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت کی تصحیح کی جاسکے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
واضح رہے کہ حمادبن سلمہ سے طلاب حدیث کے بارے میں سخت تبصرہ منقول ہے اور اس میں پوری جماعت کی شمولیت ناممکن ہے جبکہ خود امام حماد بن سلمہ بھی اہل حدیث ہی ہیں ، لیکن ابوحنیفہ کی ایک جماعت یا مسلک کا نام نہیں بلکہ ایک فرد واحد کا نام ہے لہٰذا اسے شیطان کہا گیا تو یہاں عموم وخصوص کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔
یہ بھی واضح رہے کہ حماد بن سلمہ باعتراف کفایت اللہ سخت غصے والے تھے اورغصے میں ویسے بھی عقل زائل ہوجاتی ہے اور حدیث پاک میں ہے کہ غصہ شیطان کے اثر سے ہوتاہے لہذا حماد بن سلمہ بھول گئے کہ ان کی بات کی زد کہاں کہاں پڑرہی ہے اورخود بھی اس زد میں آرہے ہیں ۔ویسے بھی یہ امام ابوحنیفہ کو برابھلاکہنے کا ہی اثر معلوم ہوتاہے کہ اللہ نے ان ہی کی زبان سے خود کو اوردوسروں کو ارذل کہلوادیا۔

جہاں تک عموم خصوص کی بات ہے تویہ کہناکہ فرد میں عموم خصوص نہیں ہوتا،عموم خصوص کامعنی اورمفہوم غلط سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ فرد میں عموم خصوص یہ ہوتاہے کہ ایک بات ایک فرد کے ہی تعلق سے کہی گئی ہے لیکن وہ مطلق نہیں مقید ہے ۔یاپھر کسی غصہ اورغضب کی وجہ سے ہے ۔ نفس قول مراد نہیں ہے ۔مثلاآپ حضرات ہی دہائی دیتے رہتے ہیں کہ امام مالک نے محمد بن اسحاق کو دجال من الدجاجلۃ جو کہاتھاتویہ غصے اورغضب میں کہاتھا۔ ان کی یہ مراد نہیں تھی کہ وہ واقعتاایسے ہیں یعنی یہ صرف غصے کی حالت کا قول ہے۔ مطلق اورعموم اس میں نہیں ہے۔ ۔ اورپھر ان وضاحتوں کی ضرورت ہی کیاہے آپ بقول محدث العصر اپنے ذہبی العصر کے فرمان کے مطابق سند کے صحیح ہونے کے بعد مزید 9 امور کااثبات کریں۔ اس کے بات ہی کسی محدث کی کوئی بات قابل قبول ہوسکتی ہے۔ ویسے یہ واضح رہے کہ ایک لاکھ مسئلہ پوچھنے آنے والے شخص کے تعلق سے جو تاویل انہوں نے کی ہے ۔تمام 9امور کےا ثبات کے بعد ہمیں بھی ایسی تاویل کا حق حاصل ہوگا۔

ثالثا:
اس قول میں روئے سخن طلاب حدیث کی طرف ہے امام خطیب بغدادی جو اس قول کے راوی ہیں اور طلاب حدیث کے آداب پر لکھی گئی کتب میں یہ روایت لاتے ہیں اور روایت درج کرنے بعد بھی فورا طلاب حدیث کو نصیحت بھی کرتے ہیں ملاحظہ ہو:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِمِ الْأَزْهَرِيُّ، أنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ يَحْيَى، أنا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَصْبَهَانِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ وَكِيعٌ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، يَقُولُ: «لَا تَرَى صِنَاعَةً أَشْرَفَ، وَلَا قَوْمًا أَسْخَفَ مِنَ الْحَدِيثِ وَأَصْحَابِهِ» وَالْوَاجِبُ أَنْ يَكُونَ طَلِبَةُ الْحَدِيثِ أَكْمَلَ النَّاسِ أَدَبًا، وَأَشَدَّ الْخَلْقِ تَوَاضُعًا، وَأَعْظَمَهُمْ نَزَاهَةً وَتَدَيُّنًا، وَأَقَلَّهُمْ طَيْشًا وَغَضَبًا، لِدَوَامِ قَرْعِ أَسْمَاعِهِمْ بِالْأَخْبَارِ الْمُشْتَمِلَةِ عَلَى مَحَاسِنِ أَخْلَاقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَآدَابِهِ , وَسِيرَةِ السَّلَفِ الْأَخْيَارِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ وَأَصْحَابِهِ، وَطَرَائِقِ الْمُحَدِّثِينَ، وَمَآثِرِ الْمَاضِينَ، فَيَأْخُذُوا بِأَجْمَلِهَا وَأَحْسَنِهَا، وَيَصْدِفُوا عَنْ أَرْذَلِهَا وَأَدْوَنِهَا[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي 1/ 78]

یعنی امام حمادبن سلمہ یا عمروبن الحارث نے طلاب حدیث کو ڈانٹ ڈپٹ کیا ہے اور ہمارےمہربان جمشید صاحب اسے پوری جماعت اہل حدیث پر منطبق کرتے ہیں جمشید صاحب نے یہ ادا منکرین حدیث سے سیکھی ہے چنانچہ ایک منکر حدیث نے ابھی اس طرح کے اقوال غلط جگہ چسپاں کرنے کی جسارت کی تو فنتہ کوثریت کا قلع قمع کرنے والے علامہ معلمی رحمہ اللہ نے یہ جواب دیا:
لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ خطیب کی بات کا اعتبار ہی کیا۔خطیب نے اپنی سمجھ سے یہ سمجھاہے کہ انہوں نے طلبہ حدیث کو یہ کہاتھا۔ اگرخطیب کے پاس یہ نص موجود ہے کہ انہوں نے طلبہ حدیث کو ہی کہاتھاتوآپ دکھادیں۔ امام ابوحنیفہ کی تقلید سے توآپ حضرات کو عارمحسو س ہوتی ہے لیکن خطیب کی تقلید کرتے ہوئے فخر محسوس ہوتاہے۔ خطیب نے یہ بات نہ براہ راست حماد بن سلمہ سے سنی ہے اورنہ ہی خطیب حماد بن سلمہ کے معاصر ہیں بلکہ خطیب اورحماد بن سلمہ میں 6واسطے ہیں۔ اتنے دور کی آدمی کا کیااعتبار ہوسکتاہے ۔

لیکن یہ بھی خطیب کا دوغلاپن ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کی جرح کے سلسلے میں بعید سے بعید اقوال نقل کردیتے ہیں اورکسی وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھتے اورجب اپنی دکھتی رگ سامنے آتی ہے تو وضاحتوں پر مجبورہوتے ہیں کہ اعمش بداخلاق تھے ۔حماد بن سلمہ غصے والے تھے ۔ انہوں نے طلبہ کو ڈانٹ ڈپٹ کر یہ بات کہی تھی ۔
لیکن جیساکہ سابق میں ذکر کیاگیاہے کہ خطیب کی وضاحت صرف ان کی اپنی سمجھ اورفہم ہے جس کی کفایت اللہ اوردوسرے تقلید کرسکتے ہیں لیکن ہمیں خطیب جیسوں کی تقلید کاکوئی شوق نہیں ہے۔

الغرض یہ کہ مذکورہ قول میں روئے سخن طلبائے حدیث کی طرف ہے اور ان کی تادیب کی لئے انہیں ڈانٹا گیا ہے جماعت اہل حدیث سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اس لئے اسے جماعت اہل حدیث پر چسپاں کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ اپنے طلباء کو ڈانٹ پلاتے ہوئے سخت الفاظ استعمال کرلیں تو اسے پوری دیوبندی جماعت پر چسپاں کردیا جائے ۔
واضح رہے کہ دیوبند کے اساتذہ آج کل اپنے طلباء کے ساتھ معلوم نہیں کیا سلوک کررہے ہیں کہ وہ بے چارے خودکشی کو ان کی شاگردی پر ترجیح دے رہے ہیں ۔
الغرض مذکورہ قول میں روئے سخن طلباءے حدیث کی جانب ہونے کی دلیل کیاہے محض خطیب کا قول اورآپ حضرات تو بے سند قول کو تسلیم نہیں کرتے تویہاں خطیب کے بے سند قول کو کیوں تسلیم کررہے ہیں جب کہ وہ حماد بن سلمہ کے معاصر بھی نہیں ہیں ۔میں مانتاہوں کہ آپ حضرات اس مسئلہ شدید فقر کی حالت میں ہیں کہ کہیں سے کچھ مل جائے اورکچھ نہ ملاتوخطیب سے ہی کام چلالیا۔ہوسکتاہے کہ مذکورہ خودکشی کرنے والا طالب علم غیرمقلد ہوگا اورجب اس پر ثابت ہواہوگاکہ اب تک میں کتنی گمراہی میں تھا تواس نے مارے شرم کے خودکشی کرلی ہوگی جب کہ اس سے قبل بھی بہت سارے جماعت اسلامی اوردیگر جماعتوں بشمول اہل حدیث جن کا داخلہ دیوبند میں منع ہے ،چوری چھپے پڑھتے رہے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ قول ثابت نہیں اوربفرض ثبوت جماعت اہل حدیث سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔
خلاصہ کلام واضح کرچکاہوں کہ مذکورہ قول ثابت ہے اوردونوں سے ہی ثابت ہے اوراس کا تعلق اہل حدیث کی جماعت سے ہی ہے ۔

جہاں تک ابوحنیفہ سے متعلق اس طرح کے اقوال کی بات ہے توہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ابوحنیفہ کسی گروہ یا جماعت کا نام نہیں بلکہ ایک فرد کا نام ہے لہٰذا اس سے متعلق اقوال میں عموم خصوص کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا ہاں یہ کہاجاسکتاہے کہ ان پر بحالت غضب میں بھی کلام کیا گیا ہے اور الحمدللہ ہم یہ بات مانتے ہیں مثلا امام حمادبن سلمہ نے ابوحنیفہ کو شیطان کہا تو ہم اسے حقیقت پر محمول کرتے ہوئے ابوحنیفہ کو انسانوں کی صف سے نکال کر شیاطین کی فہرست میں نہیں کھڑا کرتے بلکہ یہی کہتے ہیں کہ رد حدیث جیسے خطرناک جرم کی وجہ سے امام حمادبن سلمہ شدید غصہ میں آگئے اور موصوف کو شیطان تک کہہ دیا۔
یہ کہناکہ فرد کے تعلق سے اقوال میں عموم خصوص نہیں ہوتا اقوال کے تعلق سے لاعلمی کااظہار ہے۔ یہ حالت غضب کااظہار تواب ہواہے جب خود پر زد پڑی ہے ورنہ توصرف ماقبل میں حماد بن سلمہ کا ہی قول دوہرایاجاتاتھا۔اوراپ کے معنوی استاد نےتوتصریح کررکھی ہے کہ محدثین کے اقوال کو حالت غضب ،حسد ،معاصرت اوردیگر امور پر محمول کرناان کے ساتھ زیادتی ہے۔ ورنہ جہاں تک حماد بن سلمہ کے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے قول کا سوال ہے تو بقول ابن عبدالبر محدثین ان کے دشمن ہیں اوردشمن کوئی بھی بات کہہ سکتاہے دشمنوں کی بات کا ہی اعتبار کرناہے توپھر اہل حدیث مشہور غیرمقلدین منکرین حدیث کی بات کا اعتبار کیوں نہیں کرتے۔


اصل پیغام ارسال کردہ از: جمشید
اہل حدیث سب سے بری جماعت ہیں
عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: " مَا فِي الدُّنْيَا قَوْمٌ شَرٌّ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ(شرف اصحاب الحدیث1/131)
امام اعمش کہتے ہیں کہ دنیا میں اہل حدیث سے بری جماعت کوئی اورنہیں ہے۔
سلیمان بن مہران المعروف بالاعمش محدثین میں سرفہرست ہیں۔ انہوں نے اہل حدیث سے اپناجوشکوہ بیان کیاہے اس کو آپ نے سن ہی لیا۔امام ابوحنیفہ اگر امام ابویوسف کو کچھ کہیں تو موجودہ اہل حدیث اس کاڈھونڈراپیٹتے ہیں اوربعض دریدہ دہن توتین کذاب کی اصطلاح اپنانے سے بھی نہیں شرماتے۔ لیکن جب یہی محدثین اہل حدیثوں کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں توآزاد لب خاموش ہوجاتے ہیں۔ قوت گویائی سلب ہوجاتی ہے۔ بولنے کی طاقت چھن جاتی ہے۔ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بن جاتے ہیں۔
اولا:
امام اعمش رحمہ اللہ نے ایسا حالت غضب میں کہا ہے اور جو کچھ بھی کہا ہے وہ صرف اپنے شاگردوں کو کہا ہے جیساکہ امام اعمش سے مروی اس سلسلے کی تمام روایات یکجاکرنے سے نتیجہ نکلتاہے بالخصوص وہ روایت جسے ہم آگے پیش کررہے ہیں مزید تفصیل شرف اصحاب الحدیث میں موجود ہے اوروہاں خود مولٍف شرف اصحاب الحدیث نے بھی اس طرح کے اقوال کی صحیح مراد بتلائی ہی ۔
اورامام اعمش رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں کے لئے جو سخت الفاظ استعمال کئے تو دراصل ان کا مزاج ہی ایسا تھا کہ وہ کبھی کبھی سخت ہوجایا کرتے تھے اور اس طرح کے الفاظ زبان پر لے آتے تھے ، اس کی کئی مثالیں امام خطیب نے شرف اصحاب الحدیث میں دی ہیں ، کچھ یہاں بھی دیکھتے چلیں :
ہمیں معلوم ہے کہ خطیب نے یہ بات کہی ہے کہ اعمش تندخو اوربداخلاق تھے اوراسی کا وہ مظاہرہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ کیاکرتے تھے لیکن ہمیں خطیب سے اورآپ حضرات کی اسی دورنگی اورڈبل اسٹینڈرڈ کا توشکوہ ہے کہ اماما بوحنیفہ کے ترجمہ میں اعمش کے تعلق سے کچھ نقل کرتے ہوئے خطیب کو یہ بات یاد نہیں آئی اورنہ ہی آپ کے استاد معنوی کو نشرالصحیفہ میں یہ بات یاد آئی کہ کہ اعمش تندخوتھے بداخلاق تھے اسی میں وہ برابھلابول جایاکرتے تھے ۔ یہ بات کب یاد آئی جب اعمش نے یہ بات کہی کہ" اہل حدیث دنیا کی بدترین جماعت ہیں"تب سبھی غیرمقلدین اگلوں اورپچھلوں کو یاد آنے لگاکہ اعمش توایسے ہیں ویسے ہیں لیکن جب امام ابوحنیفہ کی بات تھے تو وہ شیخ الاسلام تھے راس المحدثین تھے اورپتہ نہیں کیاکیاتھے۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنِي أَبُو الْقَاسِمِ الْأَزْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ الْوَاعِظُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ الطَّائِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عُبَيْدٍ، قَالَ: كَانَ الْأَعْمَشُ لَا يَدَعُ أَحَدًا يَقْعُدُ بِجَنْبِهِ. فَإِنْ قَعَدَ إِنْسَانٌ، قَطَعَ الْحَدِيثَ وَقَامَ. وَكَانَ مَعَنَا رَجُلٌ، يَسْتَثْقُلُهُ. قَالَ: فَجَاءَ، فَجَلَسَ بِجَنْبِهِ، وَظَنَّ أَنَّ الْأَعْمَشَ لَا يَعْلَمُ. وَفَطِنَ الْأَعْمَشُ، فَجَعَلُ يَتَنَخَّمُ، وَيَبْزُقَ عَلَيْهِ، وَالرَّجُلُ سَاكِتٌ، مَخَافَةَ أَنْ يَقْطَعَ الْحَدِيثَ " [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 133 واسنادہ صحیح]۔
یعنی محمدبن عبید کہتے ہیں کہ امام اعمش اپنے بغل میں کسی کو بھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے اور اگر کوئی بیٹھ جاتا تو حدیث بیان کرنا ہی بند کردیتے اوراٹھ کر چلے جاتے تھے ، محمدبن عبید کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایک صاحب تھے جو امام اعمش کو پریشان کیا کرتے تھے یہ آئے اور ان کے بغل میں بیٹھ گئے اور یہ سمجھے کہ امام اعمش کو پتہ نہ چلے گا لیکن امام اعمش نے محسوس کرلیا ، پھر اس جانب تھوکنے اورکھنکار نے لگے لیکن وہ آدمی چپ چاپ بیٹھا ہی رہا اس ڈر سے کہ کہیں امام اعمش حدیث بیان کرنا بند نہ کردیں۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْقَطَّانُ، أَخْبَرَنَا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَبَّارُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: " سَأَلَ حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ الْأَعْمَشَ عَنْ إِسْنَادِ حَدِيثٍ، فَأَخَذَ بِحَلْقَهِ، فَأَسْنَدَهُ إِلَى حَائِطٍ، وَقَالَ: هَذَا إِسْنَادُهُ[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 133 واسنادہ صحیح]
یعنی ابواسامہ کہتے ہیں کہ حفص بن غیاث نے امام اعمش رحمہ اللہ سے ایک حدیث کی سند کی پوچھی تو امام اعمش نے ان کی گردن پکڑ کر دیوار سے لٹکا دیا اور کہا یہ لے اس کی سند ۔
ان دونوں واقعات کی سند صحیح ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ امام اعمش رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کے ساتھ کبھی کبھی سختی کرجاتے تھے اور سخت بول بھی جاتے تھے ۔

ثانیا:
امام اعمش سے صرف یہی منقول نہیں کہ وہ غصہ میں اپنے شاگردوں کو سخت بول جاتے تھے بلکہ ان سے بسندصحیح یہ بھی منقول ہے کہ بعد میں جب ان کا غصہ ختم ہوجاتا تو اپنی بات واپس لے لیتے اور اپنے شاگردوں کی تعریف کرتے اور انہیں سب سے بری قوم کے بجائے لوگوں میں سب سے بہتر حتی کہ سرخ سونے سے بھی بڑھ کر عزیز بتلاتے ، ملاحظہ ہو:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہانے کہا:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ ح وَأَخْبَرَنَا أَنَّ الْفَضْلَ أَيْضًا، وَالْحَسَنَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ الْقَطَّانُ، قَالَ أَبُو سَهْلٍ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ دَعْلَجٌ: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْأَبَّارِ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْحَلَبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ مُسْلِمٍ الْحَلَبِيُّ، قَالَ: كَانَ الْأَعْمَشُ إِذَا غَضِبَ عَلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ قَالَ: " لَا أُحَدِّثُكُمْ وَلَا كَرَامَةَ، وَلَا تَسْتَأْهِلُونَهُ، وَلَا يُرَى عَلَيْكُمْ أَثَرُهُ. فَلَا يَزَالُونَ بِهِ حَتَّى يَرْضَى، فَيَقُولُ: «نَعَمْ وَكَرَامَةٌ، وَكَمْ أَنْتُمْ فِي النَّاسِ وَاللَّهِ لَأَنْتُمْ أَعَزُّ مِنَ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ» [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 135 واسنادہ صحیح]۔
یعنی عطاء بن مسلم کہتے ہیں کہ امام اعمش جب طلاب حدیث پر غصہ ہوتے تو کہتے اب میں تم سے حدیث بیان ہی نہیں کروں گا تمہاری کوئی عزت نہیں ، تم اس کے اہل نہیں اور نہ ہی تم پر اس کا کوئی اثر دکھائی پڑتا ہے ، یہ صورت حال دیکھ کر ان کے تلامذہ ان سے اصرار کرتے رہتے یہاں تک کہ انہیں راضی کرلیتے ، اس کے بعد امام اعمش رحمہ اللہ فرماتے : ’’ ہاں ! تم قابل اکرام ہو ، تم لوگوں میں ہو ہی کتنے ، اللہ کی قسم تم لوگ سرخ سونے سے بھی زیادہ عزیز و قیمتی ہو۔
امام اعمش رحمہ اللہ کے اس دوسرے قول سے پوری حقیقت کھل کر سامنے آگئی اور وہ یہ کہ جب امام اعمش غصہ ہوتے تو اپنے شاگردوں کو ڈانٹتے اور سخت الفاظ استعمال کرتے لیکن جب غصہ ختم ہوتا تو اپنے شاگردوں کا اکرام کرتے اور ان کی بہت تعریف کرتے حتی کہ انہیں سرخ سونے سے بھی زیادہ عزیز بتلاتے ، والحمدللہ۔
اولایہ کیوں تسلیم نہیں کیاجاسکتاکہ دونوں واقعے دومختلف حالتوں کے ہیں۔ ہرواقعہ کوشاگردوں پر منطبق کرکے ان کے شاگردوں کو ہی محض کیوں ٹارگٹ کررہے ہیں۔ کچھ خود پر بھی منطبق کرلیجئے۔ دوسرے خطیب کا قول توبے سند اورمعاصرت نہ ہونے کی وجہ سے آپ حضرات کے اصول کے مطابق مردود ہے لہذا اب تطبیق کی شکل یہی بچتی ہے کہ
امام اعمش کا یہ قول کہ اہل حدیث دنیا کی بدترین جماعت ہیں ۔یہ قول عام ہے اورپوری جماعت اہل حدیث کو شامل ہے۔
اعمش کا کسی مجلس میں یامتعدد مجالس میں اپنے شاگردوں کی تعریف کہ تم سرخ سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہو خاص ہے۔ اورعام اورخاص میں تضاد نہیں ہوتا ۔ہم کہیں گے کہ امام اعمش کا یہ قول کہ اہل حدیث بدترین جماعت ہیں اپنے عموم پر باقی رہے گا اورجن مجالس میں جن شاگردوں کی انہوں نے تعریف کی ہوگی وہ اس کے دائرے سے باہر ہوں گے۔
اس تطبیق سے دونوں قول اپنی جگہ پر آگئے ہیں اوراہل حدیث کے اصول کے مطابق بھی تعارض کی صورت میں اولاتطبیق کا ہی راستہ اختیار کیاجاتاہے۔


ثالثا:
ابوحنیفہ امام اعمش کی نظر میں ۔

امام اعمش رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں سے متعلق جو سخت الفاظ کہے اور بعد میں واپس بھی لئے
یہ بھی مجرد دعوی ہے کہ واپس لئے تویہ کسی مجلس یامجالس کی بات ہورہی ہے کہ اس میں اہل حدیث کی توہین بھی کی اورتکریم بھی کی۔اگررئیس ندوی نے اللمحات میں جس طرح نکتہ وری کی ہے اس طرح کی ہم نکتہ نوازی کریں توکہیں کہ اصل بات تووہی تھی جو اعمش نے پہلے کہی لیکن بعد میں شاگردوں کی خوشامد پر کچھ مدحیہ الفاظ بھی کہہ دیئے۔یہ کہیں دکھادیاجائے کہ اعمش نے اہل حدیث کوبدترین جماعت یاقوم ہونے کاجوسرٹیکفٹ دیاہے اسے واپس لیاہوتو ہم بھی اپنی بات واپس لینے میں ایک لمحہ کا تامل نہیں کریں گے ورنہ دوسرے اقوال ذکر کرکے اس قول کو واپس لینے کا دعویٰ کرناناقابل قبول ہوگا۔
جمشید صاحب نے ان الفاظ کو ایک تو جماعت اہل حدیث پر چسپاں کیا، اور دوسرے اسے توڑ مروڑ کرپیش کیا، اور اسی پربہت خوش ہیں ۔
ہم نے اعمش کے قول پیش کیا اوراس کا ترجمہ کیااوراس کا مطلب بیان کردیا۔اس میں توڑنے مروڑنے جیسی کوئی چیز نہیں تھی وہ بتادیں کہ ہم نے کہاں پر اس قول میں غلط بیانی کی ہے۔ یہ کہناکہ یہ قول شاگردوں کیلئے خاص تھااس کوعام کردیاتواس قول میں شاگردوں کا کوئی ذکر نہیں ہے اورہم خطیب بغدادی کے اندھے مقلد نہیں ہیں کہ اس نے جوکہہ دیابغیر کسی سند ووغیرہ کے محض اپنی عقل سے اسے تسلیم کرلیں۔

قارئین لگے ہاتھوں ہم یہ بھی بتادیں کہ امام اعمش رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کو کیا کہا ہے ، ملاحظہ ہو:
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290)نے کہا:
حَدَّثَنِي عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، سَمِعْتُ مُعَرَّفًا، يَقُولُ: دَخَلَ أَبُو حَنِيفَةَ عَلَى الْأَعْمَشِ يَعُودُهُ فَقَالَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ لَوْلَا أَنْ يَثْقُلَ، عَلَيْكَ مَجِيئِي لَعُدْتُكَ فِي كُلِّ يَوْمٍ، فَقَالَ الْأَعْمَشُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: أَبُو حَنِيفَةَ، فَقَالَ: «يَا ابْنَ النُّعْمَانِ أَنْتَ وَاللَّهِ ثَقِيلٌ فِي مَنْزِلِكَ فَكَيْفَ إِذَا جِئْتَنِي»[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 190 واسنادہ صحیح]۔
یعنی امام اعمش رحمہ اللہ کے شاگرد معرف بن واصل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابوحنیفہ امام اعمش رحمہ اللہ کی عیادت کرنے کے لئے آئے اور کہا : ’’اے اعمش ! اگر میرا آپ کے پاس آنا آپ کو بوجھ نہ لگتا تو میں تو روزآنہ آپ کی عیادت کرتا ‘‘ ۔ امام اعمش نے کہا: یہ کون آگیا ؟ لوگوں نے کہا یہ ابوحنیفہ صاحب ہیں ۔ یہ سن کر امام اعمش رحمہ اللہ نے کہا: اے نعمان کے بچے ! اللہ کی قسم تو تو اپنے گھر میں بھی بوجھ بنا ہواہے پھرمیرے پاس آئے گا تو بوجھ کیوں نہیں بنے گا۔
کیا خیال ہے یارو !
ویسے یہ سند جو اعمش کی پیش کی گئی ہے یہ حسن درجے کی ہے نہ کی صحیح درجے کی ۔لیکن پتہ نہیں کس کی تقلید میں وہ تمام سندوں کو اسنادہ صحیح لکھتے چلے جاتے ہیں ایک طوطا کا واقعہ توہمیں یاد ہے کہ وہ بات کے جواب میں دریں چہ شک کہاکرتاتھا اب ایساتونہیں ہے ناکہ کفایت اللہ صاحب نے اسنادہ صحیح ہی لکھنے کا ٹھیکہ لے رکھاہے کہ لکھیں گے تو صرف اسنادہ صحیح ورنہ کچھ بھی نہیں لکھیں گے۔
اولایہ سمجھناکہ انہوں نے مذکورہ قول طالب علموں کوہی کہاہے کس دلیل سے اخذ کیاگیاہے یاپھر اس باب میں آنکھ بند کرے خطیب کی تقلید کی گئی ہے۔

ثانیایہ کتاب السنۃ سند صحیح سے مولف تک پیش کی جائے کیونکہ یہ کفایت اللہ صاحب کا اصول ہے جو انہوں نے اپنایاہے شیخ الاسلام کی حدت مزاجی والے تھریڈ میں ۔ تو وہ ذرا کتاب کی سند پیش کرکے بتادیں کہ تمام افراد سند کے ثقہ ہیں ۔

ثالثا معرف نے اس کا اثبات کہاں کیاہے کہ واقعہ کے وقت وہ موجود ہے دخل یاقال یااس طرح کے جملے براہ راست مشاہدہ پر دلالت نہیں کرتے تو وہ منقطع ہی ہوتے ہیں۔
رابعاً اس روایت میں خود اس کی تصریح ہے کہ وہ بیمار چل رہے تھے اوربیماری بھی ایسی شدید تھی کہ آواز سن کر بھی نہیں پہچاناجب لوگوں نے بتایاتب سمجھے۔ایسی بیماری میں کوئی کچھ کہہ دے تواسے معذور سمجھناچاہئے لیکن اعمش نے جس وقت غیرمقلدین کو بدترین جماعت یاقوم کہاتھااس میں کسی روایت میں تصریح نہیں ہے کہ وہ بیمار تھے یاکسی اورطرح کی علت میں گرفتار تھے۔
یہ کہناکہ فرد پر عموم وخصوص کا اطلاق نہیں ہوتاہے کفایت اللہ صاحب کی اس سمجھ کااظہار ہے کہ جب ہم عام بولتے ہیں تواس سے افراد ہی مرادہوتے ہیں نفس قول میں عموم وخصوص نہیں ہوتا ۔دوسرے یہ اس سے زیادہ سے زیادہ اتناپتہ چلتاہے کہ ان کو امام ابوحنیفہ سے گرانی تھی ہوسکتی ہے ۔لیکن اس میں اوراہل حدیث کو بدترین جماعت قراردینے میں بہت فرق ہے۔



اولا:
ہم اوپر واضح کرچکے ہیں کہ عمروبن الحارث سے یہ بات ثابت ہی نہیں۔
یہ بات ثابت ہے ۔اوربقول کفایت اللہ نہ صرف عمروبن الحارث بلکہ حماد بن سلمہ سے ثابت ہے فزاد اللہ فضیحتکم ۔اس کے بعد جوکچھ تاویل کی گئی ہے تویہ تاویل بارد ہے ۔
ثانیا:
امام مالک نے امام المغازی محمدبن اسحاق کو دجال من الدجاجلہ کہا تو آپ لوگ ہر گلی کوچے میں اس کا اعلان کرتے پھرتے ہیں، وقت آپ لوگوں کی شرم وحیاء کہاں چلی جاتی ہے ؟
ہم لوگوں کی شرم وحیاء آپ حضرات کے شرم وحیاء کے تعاقب میں ہوتی ہے جہاں محمد بن اسحاق کے قول کی تویہ تاویل کرلی جاتی ہے کہ انہوں نے غصہ میں کہالیکن کادالدین اورمااضر فی الاسلام جیسی روایتیں بیان کرنے سے کوئی شرم وحیاء مانع نہیں ہوتی ۔ یاشاید شرم وحیاء کو ہی بیچ کر کھالیاجاتاہے۔
ثالثا:
یہ قول غیر ثابت ہونے کے ساتھ طلاب حدیث سے متعلق ہے وضاحت کی جاچکی ہے۔

طلاب حدیث سے متعلق ہونے کی بات سند صحیح سے مروی نہیں ہے صدیوں بعد یہ بات خطیب نے دوہرائی ہے لہذا اس کی بات کس منطق سے آپ قبول کرسکتے ہیں ذرااس کی وضاحت کردیجئے گا۔
رابعا:
نیز یہ قول حمادبن سلمہ سے بھی نقل کیا ہے اور حماد بن سلمہ نے ابوحنیفہ کوبھی شیطان کہاہے ۔ اس بارے میں کیا خیال ہے ؟؟
ہم ماقبل میں واضح کرچکے ہیں کہ بقول ابن عبدالبر اہل حدیث کا برتائواحناف سے دشمنوں والارہاہے لہذا دشمنوں کی بات معتبر نہیں ہوتی۔ رافضی حضرات صحابہ کرام کو کیاکچھ نہیں کہت رہتے۔ ام المومنین حضرت عائشہ کو برابھلاکہتے ہیں لیکن ہم سبھی جانتے ہیں کہ اہل سنت سے سن کی عداوت اورصحابہ کرام اورام المومنین سے ان کی نفرت اورحسد یہ سب کچھ کروارہی ہے لہذا ان کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیاجاتا۔ یہی حال ابن سلمہ کے تعلق سے بھی ہے وہ کچھ بھی کہتے رہیں۔ ہم ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔ ہاں آپ کا مسئلہ دوسراہے یاپھر آپ بھی صراحت کردیجئے کہ جوکچھ کہاہے انہوں نے دشمنی میں کہاہے۔

یہود ونصاری والا حوالہ آپ نے آگے دیا ہے اوروہی پہنچ کر ہم بتائیں گے کہ یہود ونصاری سے کس کا رشتہ ہے ؟؟
ہم بھی اسی موقع پر واضح کریں گے کہ اصل رشتہ داری کس کی کس سے ہے



آپ کی بے بسی پر مجھے ترس آرہا ہے آپ سوال اٹھارہے ہیں کہ کیا اہل حدیثوں کو شیطان تسلیم کرلیں ۔
میں پوچھتاہوں اس سوال کی بنیاد کیا ہے ؟؟ اور باتوں کے کے لئے تو آپ نے غیرمتعلق یا مردود حوالے پیش کئے لیکن شیطان والی بات کے لئے تو آپ نے کوئی غیرمتعلق یا مردود حتی کہ موضوع حوالہ بھی نہیں پیش کیا !!
پھرشیطان کی بات کہاں سے آگئی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ہوسکتا آں جناب نے پناہ مانگنے والے حوالہ سے یہ نتیجہ نکالا ہو کہ کسی نے کہا ان سے پناہ مانگو (اس حوالہ کا جواب آگے آرہا ہے) تو شیطان سے پناہ مانگی جاتی ہے اس لئے یہ بھی شیطان ٹہرے ۔
عرض ہے کہ اگرواقعی آپ نے یہی نتیجہ نکالا ہے تو یہ بجائے خود شیطانی استدلال ہے ، کچھ اسی قبیل کے استدال کا ارتکاب آپ کے امام اعظم نے بھی کیا تھا جس کی بدولت انہیں بہت سارے خطابات کے ساتھ ساتھ شیطان کے خطاب سے بھی نوازا گیا تھا، بلکہ بعض روایات میں تو انہیں شیطان سے بھی بدترکہا گیا ہے ۔

چونکہ اہل حدیث حضرات کی فقاہت بمعنی سمجھ کم ہوتی ہے اس کا لوگوں نے شکوہ بھی کیاہے اورخطیب نے النصیحۃ لاہل الحدیث اور الفقیہ والمتفقہ لکھ کر اہلحدیث کو فقہ کی جانب متوجہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ لیکن باوجود اس کے پرنالہ وہیں رہا۔اس میں میرااستدلال صرف تعوذ سے نہیں ہے کہ بلکہ تمام اقوال جو پیش کئے گئے ہیں سبھی کا نتیجہ نکالاگیاہے۔مثلا اعمش نے کہاکہ اہل حدیث بدترین جماعت ہیں تویہ بدترین ہونے کی صفت شیطان کی بھی ہے۔اسی طرح دیگر اقوال ۔
امام اعظم کوتواللہ نے جومقام ومرتبہ دیاوہ اپنی جگہ لیکن اہل حدیث کو توخود اہل حدیثوں نے ذلیل کردیااوربتادیاکہ اہل حدیث صرف ذلیل نہیں بلکہ ذلیل ترین ہیں ۔

اس سلسلے میں حمادبن سلمہ رحمہ اللہ کا قول پیش کیا جاچکاہے ایک بار پھر ملاحظہ فرمالیں:

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبد اللَّهِ بْنُ عَبد الحميد الواسطي، حَدَّثَنا ابْن أبي بزة، قَالَ: سَمِعْتُ المؤمل يَقُول: سَمعتُ حَمَّاد بْن سَلَمَة يَقُول كَانَ أَبُو حنيفة شيطانا استقبل آثار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يردها برأيه.[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 8/ 239 واسنادہ صحیح]۔
مسلم اورسنن اربعہ کے ثقہ راوی حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ شیطان تھا وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اپنی رائے سے رد کردیا کرتا تھا۔
یہ بالکل صحیح وصریح حوالہ ہے کہ ابوحنیفہ کو شیطان کہا گیا ۔
اس کو صحیح کہناتوصحیح قسم کاجھوٹ اورکذب بیانی ہے جس کی حقیقت ماقبل میں اس کی سند پر بحث کرکے واضح کردی گئی ہے۔ ویسے ہم اس کے بارے میں ماقبل میں دوتین مرتبہ اظہار خیال کرچکے ہیں کہ دشمنوں کی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ اوریہ کہ الزام اوراعتراف میں فرق ہوتاہے ۔ حماد بن سلمہ نے اہل حدیث کو جوکچھ کہاوہ اعتراف کی حیثیت رکھتاہے اورامام ابوحنیفہ کو جوکچھ کہاوہ الزام کی حیثیت رکھتاہے اورالزام کیلئے ثبوت چاہئے۔ اعتراف کیلئے اقرار ہی کافی ہے۔

پناہ مانگنے والی بات پر پوری بحث آگے آرہی ہے یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کسی چیز سے پناہ مانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ شیطان ہے کتاب وسنت میں کتنے ایسے نصوص ہیں جن میں
مختلف چیزوں سے پناہ مانگنے کی تعلیم ہے تو کیا یہ ساری چیزیں شیطان ہیں ؟؟
مثلا فقیری وغیر ہ سے پناہ مانگے کی تعلیم ہے تو کیا فقیری شیطان ہے ؟؟؟
اس کی وضاحت ماقبل میں کردی گئی ہے کہ شیطان ہونے کی بات صرف کسی ایک قول سے نہیں بلکہ مجموعی اقوال سے استفادہ کرکے کہاگیاہے۔کسی چیز سے پناہ مانگی جائے کسی چیز کو بدترین خلائق قراردیاجائے کسی چیز کو ذلیل ترین سمجھاجائے توایسی صفات پر توشیطان پر ہی منطبق ہوتی ہیں۔کیاشیطان سے بھی زیادہ بدترین مخلوق موجود ہے؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جمشید صاحب کی یہ انتہائی ذلیل حرکت اور بدترین تدلیس ہے ۔
ان کی یہ بات پڑھنے والا یہ سمجھے گا کہ ابوبکربن عیاش نے اصحاب الحدیث کو جو برا کہا ہے وہ کسی ایک مجلس کا واقعہ ہے اور آگے جمشید صاحب نے اپنی آبرو بچانے کے لئے جو وضاحت کے ہے اس سے کوئی صرف یہ سمجھے گا کہ کسی اورموقع پر ابوبکر بن عیاش نے اصحاب الحدیث کی تعریف بھی کردی ہے۔
لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ابوبکربن عیاش نے ایک ہی مجلس میں پہلے اصحاب الحدیث کو برا کہا اور فورا ہی اس بات کو واپس لے لیا اور انہیں تمام لوگوں میں سب سے اچھا قرار دیا یہ سب کچھ ایک ہی مجلس اور ایک ہی وقت کی بات ہے ، مزید وضاحت سے قبل آئیے مکمل روایت دیکھ لیتے ہیں:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْبَرْقَانِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُمَيْرَوَيْهِ الْهَرَوِيُّ، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَمَّارٍ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَيَّاشٍ، يَقُولُ: أَصْحَابُ الْحَدِيثِ هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ، هُمُ الْمُجَّانُ، هُمْ كَذَا، هُمْ كَذَا، وَوَصَفَ أَشْيَاءَ، ثُمَّ سَكَتَ. قَالَ: ثُمَّ يَقُولُ: " هَؤُلَاءِ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ، هُمْ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ، هُمْ كَذَا هُمْ كَذَا. قَالَ فَقُلْتُ لَهُ: أَيُّ شَيْءٍ بَدَا لَكَ فِيهِمْ؟ قَالَ. إِنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ يَلْزَمُنِي فِي حَدِيثٍ، فَلَا يَزَالُ بِي حَتَّى يَسْمَعَهُ، وَلَوْ شَاءَ لَذَهَبَ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، مَنْ كَانَ يَقُولُ لَهُ: إِنَّكَ لَمْ تَسْمَعْهُ؟ "[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 136]۔
یعنی ابن عمار کہتے ہیں کہ میں نے ابوبکربن عیاش کو کہتے سنا کہ اصحاب الحدیث بڑے برے ہیں، کچھ بھی کرنے اورسننے کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ، ایسے ہیں ویسے ہیں ، اوراس طرح کی کچھ اور باتیں کہیں اورخاموش ہوگئے ، پھر کہنے لگے : ’’یہ اصحاب الحدیث تمام لوگوں میں سب سے اچھے ہیں ، یہ ایسے ہیں یہ ایسے ہیں ۔ ابن عمار کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ : اچانک آپ کو ان کے بارے میں کیا پتہ چل گیا؟ تو انہوں نے کہا: ان میں سے ہر شخص ایک حدیث کے لئے مجھ سے چمٹارہتاہے اور وہ تب تک میرے ساتھ رہتا ہے جب تک کہ وہ مجھ سے سن نہ لے اور اگرچاہئے تو تو وہ جاسکتاہے اور جو اس سے کہے کہ تم نے اسے نہیں سنا ہے ، اس سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم سے ابوبکربن عیاش نے بیان کیا ۔
اس پوری روایت کو ایک ساتھ پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا کہ ابوبکربن عیاش نے ایک ہی مجلس میں پہلے طیش میں آکر برا بھلا کہہ دیا لیکن جلد ہی خاموش ہوگئے اور فورا اپنی بات واپس لے لی اور ان کی تعریف کرنے لگے۔
یہ پورا واقعہ ایک ساتھ پڑھنے کے بعد بھی کوئی ابوبکربن عیاش کے مذکورہ کلام کو اصحاب الحدیث کی مذمت پر چسپاں کرے تو وہ احمق ہے یا پھر بہت بڑا مکار دغاباز اور تلبیس وتدلیس کا رسیا ہے۔

جمشید صاحب اپنی تدلیس پر پردہ ڈالنے کے لے یہ اعتراف کررہے ہیں کہ ابوبکربن عیاش نے اصحاب الحدیث کی تعریف بھی کی ہے ، لیکن یہ حقیقت نہیں بتلارہے کہ خود اسی مجلس میں ابوبکر بن عیاش نے اپنی بات واپس لے لی اور اس کے بعد ان کی تعریف کرنے لگے ، تدلیس تلبیس کی اتنی بدترین مثال شاید ہی کہیں ملے ۔
کفایت اللہ صاحب نے کچھ القاب وآدادب مجھے بخشے ہیں۔ ذراان القاب وآداب کاجائزہ لے لیں۔ احمق ،مکار ،دغاباز تلبیس وتدلیس کا رسیا۔انہوں نے ایک ہی سانس میں جس طرح یہ بات کہی ہے کہ یاتو وہ احمق ہے یاپھر بہت بڑامکار ۔ اسی سے ان کے ذہنی افق کا اندازہ ہوجاتاہے ۔اگرمیں کہوں کہ فلاں صاحب یاتوگورے ہیں یاپھر بہت کالے تواس کا مذاق اڑایاجائے گا۔ اگرمیں کہوں کہ فلاں صاحب یاتو بہت جاہل ہیں یابہت بڑے عالم ہیں اس کی بھی ہنسی اڑائی جائے گی لیکن ایک ہی جملہ میں انہوں نے تضاد کوجمع کردیاہے کہ یاتومیں احمق ہوں یامکار۔

بھئی تدلیس وتلبیس تواہل حدیث کاخاصہ ہے کتاب المدلسین پڑھ لیجئے دیکھئے تمام ہی بڑےاہل حدیث تدلیس میں ملوث ہیں تواپنی جماعت کی صفت مجھ پر کیوں چسپاں کررہے ہیں۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں کسی سے زناکروں یہ بہترہے اس سے کہ میں تدلیس کروں۔ اوراتنی شناعت کاکام اہل حدیث حضرات کی ایک پوری ٹولی کرتی آئی ہے۔
جہاں تک صفت تلبیس کا تعلق ہے توذرااس کا گہرائی سے جائزہ لیاجائے کہ بات کیاہے۔

ابوبکر بن عیاش کہتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْبَرْقَانِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُمَيْرَوَيْهِ الْهَرَوِيُّ، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَمَّارٍ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَيَّاشٍ، يَقُولُ: أَصْحَابُ الْحَدِيثِ هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ، هُمُ الْمُجَّانُ، هُمْ كَذَا، هُمْ كَذَا، وَوَصَفَ أَشْيَاءَ، ثُمَّ سَكَتَ. قَالَ: ثُمَّ يَقُولُ: " هَؤُلَاءِ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ، هُمْ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ، هُمْ كَذَا هُمْ كَذَا. قَالَ فَقُلْتُ لَهُ: أَيُّ شَيْءٍ بَدَا لَكَ فِيهِمْ؟ قَالَ. إِنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ يَلْزَمُنِي فِي حَدِيثٍ، فَلَا يَزَالُ بِي حَتَّى يَسْمَعَهُ، وَلَوْ شَاءَ لَذَهَبَ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، مَنْ كَانَ يَقُولُ لَهُ: إِنَّكَ لَمْ تَسْمَعْهُ؟ "[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 136]۔
یعنی ابن عمار کہتے ہیں کہ میں نے ابوبکربن عیاش کو کہتے سنا کہ اصحاب الحدیث بڑے برے ہیں، کچھ بھی کرنے اورسننے کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ، ایسے ہیں ویسے ہیں ، اوراس طرح کی کچھ اور باتیں کہیں اورخاموش ہوگئے ، پھر کہنے لگے : ’’یہ اصحاب الحدیث تمام لوگوں میں سب سے اچھے ہیں ، یہ ایسے ہیں یہ ایسے ہیں ۔ ابن عمار کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ : اچانک آپ کو ان کے بارے میں کیا پتہ چل گیا؟ تو انہوں نے کہا: ان میں سے ہر شخص ایک حدیث کے لئے مجھ سے چمٹارہتاہے اور وہ تب تک میرے ساتھ رہتا ہے جب تک کہ وہ مجھ سے سن نہ لے اور اگرچاہئے تو تو وہ جاسکتاہے اور جو اس سے کہے کہ تم نے اسے نہیں سنا ہے ، اس سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم سے ابوبکربن عیاش نے بیان کیا ۔
اس پورے میں غورکیجئے تو انہوں نے اہل حدیث کی مذمت کی وجہ بیان نہیں کی لیکن تعریف کی صرف ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ لوگ اس باب میں قابل تعریف ہیں کہ اگرچاہیں تومجھ سے سنے بغیر کہہ سکتے ہیں حدثناابوبکر بن عیاش لیکن اس کے باوجود وہ مجھ سے چمٹے رہتے ہیں۔یہ تعریف کی وجہ ہوئی۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہواکہ انہوں نے اہل حدیث کو بدترین خلائق جوکہاہے اس سے رجوع کرلیاہے۔

کفایت اللہ صاحب کا اصراربیجاہے کہ یہ سب ایک ہی مجلس کی بات تھی۔ ہم نے چونکہ تفصیل کے بجائے اجمال سے کام لیاتھا۔ اس لئے اتناکہہ کررہ گئے کہ انہوں نے اہل حدیث کی تعریف بھی کی ہے۔ اگرکفایت اللہ صاحب شرف اصحاب الحدیث کا ہی پورامطالعہ کرلیتے توان کو معلوم ہوجاتاکہ ایسی بات ایک ہی مجلس کی نہیں ہوتی تھی کہ ایک ہی مجلس میں اہل حدیث کی تذلیل بھی کی اورتعریف بھی کی ۔بلکہ بسااوقات ایساہوتاتھاکہ ایک مجلس میں کبھی تعریف کی اورکبھی دوسری مجلس میں توہین کی۔

أَخْبَرَنِي أَبُو عَلِيٍّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ فَضَالَةَ النَّيْسَابُورِيُّ الْحَافِظُ، بِالرِّيِّ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَحْمَدَ الْمُسْتَمْلِي، بِبَلْخَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ حَامِدٍ أَبَا عَمْرٍو، يَقُولُ: سَمِعْتُ عِيسَى بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ هِشَامٍ الْعَيْشِيَّ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا أَتَيْنَا أَبَا بَكْرِ بْنَ عَيَّاشٍ، وَهُوَ طَيِّبُ النَّفْسِ، فَإِذَا رَآنَا يَقُولُ: " خَيْرُ قَوْمٍ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، يُحْيُونَ سُنَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَإِذَا أَتَيْنَاهُ، وَهُوَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ، يَقُولُ: شَرُّ قَوْمٍ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، عَقُّوا الْآبَاءَ وَالْأُمَّهَاتِ، وَتَرَكُوا الصَّلَوَاتِ فِي الْجَمَاعَاتِ "
شرف اصحاب الحدیث 137
محمد بن ہشام العیشی کہتے ہیں کہ جب ہم ابوبکر عیاش کے پاس آتے اوراس وقت وہ خوش مزاج ہوتے تھے تو ہمیں دیکھ کر کہتے روئے زمین پر سب سے بہترجماعت جونبی کی سنتوں کو زندہ کرتے ہیں اور جب ہم ان کے پاس آتے اور وہ اس کے علاوہ حال پر ہوتے توکہتے روئے زمین کی بدترین جماعت ،جنہوں نے ماں باپ کے حقوق ادانہیں کئے اورجماعت کی نمازیں ترک کردی ہیں۔
اب کفایت اللہ صاحب بتائیں کہ یہ تعریف اورتذلیل وتوہین ایک ہی مجلس کی بات ہوتی تھی یاالگ الگ مجلس کی بات ہواکرتی تھی ۔ایسے میں اگرمیں نے یہ کہاکہ ابوبکر عیاش نے اہل حدیث کی تعریف بھی کی ہے تواس میں کیاغلط بات میں نے کہی تھی۔اب کیاان کی شان میں یہی جملے دوہرادیئے جائیں کہ

جو اس بات کو صرف ایک مجلس کی بات صرف سمجھتاہے تو وہ احمق ہے یا پھر بہت بڑا مکار دغاباز اور تلبیس وتدلیس کا رسیا ہے
اوریہ کہ
کفایت اللہ صاحب اپنی تدلیس پر پردہ ڈالنے کے لے کہہ رہے ہیں کہ یہ ساری باتیں ایک ہی مجلس کی ہوتی تھی اوراس سلسلے کی دوسراقول جس سے پتہ چلتاہے کہ یہ بات متعدد مجالس کی تھی یعنی کسی مجلس میں تعریف اورکسی مجلس میں تذلیل ۔اس کو وہ چھپاجاتے ہیں اوربھولے سے بھی ذکر نہیں کرتے۔تدلیس تلبیس کی اتنی بدترین مثال شاید ہی کہیں ملے ۔

اس کے ساتھ ساتھ اس روایت کو مکمل دیکھنے سے یہ حقیقت بھی سامنے آگئی کہ ابوبکر بن عیاش کے محولہ کلام میں اصحاب الحدیث سے مراد ان کے اپنے شاگرد ہیں ، کیونکہ ابوبکر بن عیاش نے پہلے ان کی مذمت کی پھر معا بعد ان کی مدح کی ، اس پر سوال کیا گیا کہ اچانک آپ نے ان کے اندر کیا دیکھ لیا کہ اپنی بات بدل دی ؟ تو انہوں نے کہا:
إِنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ يَلْزَمُنِي فِي حَدِيثٍ، فَلَا يَزَالُ بِي حَتَّى يَسْمَعَهُ،
ان میں سے ہر شخص ایک حدیث کے لئے مجھ سے چمٹارہتاہے اور وہ تب تک میرے ساتھ رہتا ہے جب تک کہ وہ مجھ سے سن نہ لے
یہ سیاق صاف بتلاتاہے کہ ابوبکربن عیاش نے جو کچھ کہا ہے وہ اپنے تلامذہ کی بابت کہا ہے
کفایت اللہ صاحب کی یہ بات کئی وجوہات سے غلط ہے۔
اولامجموعی طورپر ابوبکر بن عیاش کے کلام کاجائزہ لینے سے پتہ چلتاہے کہ ابوبکر بن عیاش نے کبھی طلباء کو کہاجیسے کہ محمد بن ہشام کی روایت میں ہے کنااذااتینااورکبھی مطلق کہا جیسے : أَصْحَابُ الْحَدِيثِ هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ، هُمُ الْمُجَّانُ
اب چونکہ اہل حدیث حضرات نے ایک اصول ایجاد ہے کہ کسی نص میں کوئی مطلق ہواورکوئی مقید ہوتومقید کا ذکر کرنامطلق کے عموم میں سے ایک فرد کا ذکرہے مطلق کا انکار نہیں ہے۔اس اعتبار سے دیکھیں تودونوں کلام صحیح ہوجاتاہے یعنی کبھی انہوں نے اپنے شاگردوں کو بدترین خلائق کہااورکبھی مطلقا تمام اہل حدیث کو بدترین مخلوق قراردیا۔

لیکن جمشید صاحب کی جرات دیکھئے کہ ایک طرف روایت کا صرف ایک حصہ وہ بھی منسوخ شدہ حصہ لیتے ہیں، اوردوسری طرف اسے پوری جماعت اہل حدیث پرچسپاں کردیتے ہیں ، اوریہ سب کچھ کرنے کے بعد بخشش کی امید رکھتے ہیں اورپوری ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’اگریہ خیانت علمی ہے تو درشہرشمانیز کنند‘‘ ۔ ہم پوچھتے کہ اس طرح کی بدترین تدلیس کس اہل حدیث نے کی ہے ؟
یہ کہناکہ توہین والی روایت منسوخ ہے ۔ بیکار سی بات ہے۔اس کی واضح دلیل سامنے لائیں۔اگراصحاب الحدیث ھم المجان میں پہلے توہین اوربعد میں تعریف کا ذکر ہے تودوسری روایت جومحمد بن ہشام العیشی سے مروی ہے اس میں پہلے تعریف اوربعد میں توہین کا ذکر ہے تو منسوخ کیاہوا؟

اب ہم اس سلسلے کی تیسری روایت پیش کرتے ہیں جس سے قارئین اندازہ لگالیں گے کہ ابوبکربن عیاش کی اس سلسلے میں صحیح رائے کیاتھی۔
أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَتْحِ هِلَالُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحَفَّارُ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْوَلِيدِ الْجَشَّاشُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: " مَا فِي الدُّنْيَا قَوْمٌ شَرٌّ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَأَنْكَرْتُهَا عَلَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ مِنْهُمَ مَا أَعْلَمُ
شرف اصحاب الحدیث131
ابوبکربن عیاش اعمش سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا"دنیا میں اہل حدیث سے زیادہ بدترکوئی قوم نہیں ہے۔ابوبکر کہتے ہیں کہ میں نے اعمش پر اس قول کےسلسلے میں انکار کیا یہاں تک کہ میں نے بھی اہل حدیث میں وہ بات دیکھ لی جس کو میں جانتاہوں (یعنی اعمش کا یہ بات کہناصحیح تھاغلط نہ تھا)

اب بتایاجائے کہ ابوبکر بن عیاش نے اعمش کے قول کی تائید کی ہے یاتردید کی ہے ؟اوراگرتردید کی ہے تومیراصرف یہ نقل کرنا کہ اہل حدیث بدترین خلائق ہیں اورتعریف کو الگ سے ذکر کرنامجموعی اعتبار سے درست تھایاغلط تھا۔ اب کون تدلیس اورتلبیس کررہاہے اور تضاد میں مبتلاہوکر حماقت اورمکاری کا مجمع الشرین ثابت ہورہاہے۔

جمشید صاحب نے ابوبکر بن عیاش کے کلام میں مستعمل لفظ ’’الْمُجَّانُ‘‘ کا ترجمہ ’’دیوانے عقل سے بے گانے‘‘ کیا ہے ۔
ہم جمشید صاحب سے گذارش کرتے ہیں کسی طالب علم کے پاس بیٹھ کر اس کا صحیح ترجمہ سیکھ لیں۔
کوئی طالب علم نہیں ملاہم نے لغت کی جانب رجوع کیاتواپنی غلطی واضح ہوگئی ۔تصحیح کیلئے شکریہ ادانہ کرناناانصافی ہوگی ۔ ابوبکر بن عیاش کے اہل حدیث کو ھم المجان کہنے کا مطلب یہ ہیں کہ یہ سب مفتے ہیں۔مفت خورے کوبھی اس میں شامل کرلیجئے کیونکہ اہلحدیث کی ایک خاصیت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ بغیر بلائے پہنچ جاتے ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
س سلسلے میں حمادبن سلمہ رحمہ اللہ کا قول پیش کیا جاچکاہے ایک بار پھر ملاحظہ فرمالیں:

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبد اللَّهِ بْنُ عَبد الحميد الواسطي، حَدَّثَنا ابْن أبي بزة، قَالَ: سَمِعْتُ المؤمل يَقُول: سَمعتُ حَمَّاد بْن سَلَمَة يَقُول كَانَ أَبُو حنيفة شيطانا استقبل آثار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يردها برأيه.[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 8/ 239 واسنادہ صحیح]۔
مسلم اورسنن اربعہ کے ثقہ راوی حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ شیطان تھا وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اپنی رائے سے رد کردیا کرتا تھا۔
واضح رہے کہ حمادبن سلمہ سے طلاب حدیث کے بارے میں سخت تبصرہ منقول ہے اور اس میں پوری جماعت کی شمولیت ناممکن ہے جبکہ خود امام حماد بن سلمہ بھی اہل حدیث ہی ہیں ، لیکن ابوحنیفہ کی ایک جماعت یا مسلک کا نام نہیں بلکہ ایک فرد واحد کا نام ہے لہٰذا اسے شیطان کہا گیا تو یہاں عموم وخصوص کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔
آپ نے کفایت اللہ صاحب کی بات پڑھ لی اب مزید کچھ حوالے اورریفرنس دیکھ لیجئے کہ کس کو شیطان کہاگیااورکہنے والے کون کون تھے۔

کفایت اللہ صاحب نے حماد بن سلمہ کے واسطے سے بار بار شیطان کا لفظ استعمال کیاہے۔اوریہ شیطان کا لفظ بار بار ذکرنے سے ان کو ایک قسم کا اہتزاز اورسرور حاصل ہورہاہے توکیوں نہ ہم ان کے اس سرور کو مزید بڑھادیں اورکچھ مزید شیطان کے حوالے دے دیں۔ (واضح رہے کہ ان کو شیطان ہم نے قطعانہیں کہاہے)
حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُكْرَمٍ، حَدَّثَنا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمد، قَالَ: سَمِعْتُ قُرَّادًا يَقُولُ: سَمعتُ شُعْبَة يَقُولُ: إِذَا حَدَّثَ الْمُحَدِّثُ وَلَمْ تَرَ وَجْهَهُ فَلا تُصَدِّقْهُ، لَعَلَّهُ شَيْطَانٌ قَدْ يَتَصَوَّرُ فِي صُورَتِهِ يَقُولُ: حَدَّثَنا وَأَخْبَرَنَا.
الکامل فی ضعفاء الرجال117
شعبہ کہتے ہیں جب کوئی محدث(اہل حدیث)حدیث بیان کرے اورتم اس کا چہرہ نہ دیکھوتواس کی تصدیق نہ کرو شاید کہ وہ شیطان ہو اوراس کی صورت بنالی ہو اورحدثناواخبرناکہہ رہاہو۔

اب ہم بہت سارے فضیلۃ الشیوخ کے ریکارڈنگ بیانات انٹرنیٹ پر سنتے ہیں اوران کی تقدس مآب شکلیں نظرنہیں آتیں توآج سے ہم بھی یہی خیال رکھیں گے کہ وہ سارے کے سارے ہوسکتاہے کہ شیطان ہو یعنی شیطان ان کی صورت میں آکر یہ بیانات نشر کررہاہو۔
اورغیرمقلدین کوبھی شعبہ کے اس فرمان کی تعمیل میں ایسے تمام محدثین وفضیلۃ الشیوخ جس کا چہرہ انہیں واضح طورپر نظرنہ آتاہو یاتوریڈیو پر سننے کی وجہ سے یاانٹرنیٹ پر ریکارنگ سننے کی وجہ سے یاپھر مجمع زیادہ ہونے اوردور ہونے کی وجہ سے۔ ان سب حالات میں اپنے محدثین کو امکانی طورپر شیطان تسلیم کرلیں۔

قَالَ أَبِي: كَانَ شُعْبة يَقُولُ: إسماعيلُ بنُ رَجَاء كأنَّه شَيْطَانٌ
علل الحدیث لابن ابی حاتم 1/112
عبدالرحمن بی ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد ابوحاتم نے کہاکہ شعبہ اسماعیل بن رجاء کے بارے میں کہتے تھے گویاکہ وہ شیطان ہے۔

لیجئے ابھی تک تو شعبہ امکانی طورپر کسی محدث کو چہرہ واضح نظرنہ آنے پر شیطان ہونے کی بات کررہے تھے ۔ اب انہوں نے واضح طورپر ایک محدث کو شیطان کہہ کر اپنی بات کا عملی ثبوت بھی دے دیا۔ اب غیر مقلدین حضرات بھی اپنے محدث العصر اورپتہ نہیں کون کون سے عصر جن کے انہوں نے صرف خطابات سنے ہوں ان کاچہرہ نہ دیکھاہو ان کو امکانی طورپر شیطان تسلیم کرلیں۔

غیرمقلدین حضرات سے خصوصی گزارش ہے کہ ہمیں تووہ تاویل کے دالدہ اورشوقین ہونے کا الزام دیتے ہیں لیکن براہ کرم خود اس کی زد میں نہ آئیں اورتاویل سے بچے رہیں اورجیساکہ شعبہ نے کانہ شیطان کہاہے آپ بھی انہیں کانہ شیطان تسلیم کرتے رہیں۔

ایک مرتبہ سفیان ثوری بصرہ تشریف لے گئے۔انہوں نے عبدالرحمن بن مہدی سے کہاکہ کسی ایسے شخص کو لائو جس سے میں حدیث کا مذاکرہ کرسکوں۔ وہ یحیی بن سعید القطان کو لے گئے۔جب مذاکرہ ختم ہوا تو سفیان ثوری نے ابن مہدی سے کہامیں نے تم سے انسان کو لانے کیلئے کہاتھااورتم شیطان کو لے آئے۔
قال ابن مهدي: قال لي سفيان: جئني بمن أذاكره، فجئته بيحيى فذاكره فلما خرج قال يا عبد الرحمن قلت لك جئني بإنسان جئتني بشيطان
تذکرۃ الحفاظ1/219
قَالَ العَبَّاسُ بنُ عَبْدِ العَظِيْمِ: سَمِعْتُ ابْنَ مَهْدِيٍّ يَقُوْلُ: لَمَّا قَدِمَ الثَّوْرِيُّ البَصْرَةَ، قَالَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ! جِئنِي بِإِنْسَانٍ أُذَاكِرُهُ. فَأَتَيْتُهُ بِيَحْيَى بنِ سَعِيْدٍ، فَذَاكَرَهُ، فَلَمَّا خَرَجَ، قَالَ: قُلْتُ لَكَ: جِئنِي بِإِنْسَانٍ، جِئْتَنِي بِشَيْطَانٍ
سیر اعلام النبلاء7/580
یہ بہت واضح نص ہے کہ ابن قطان نے سفیان ثوری کو شیطان کہاہے۔ اب دیکھئے شیطان کہنے والےسفیان ثوری امیرالمومنین فی الحدیث ہیں اورامام ابوحنیفہ کے تعلق سے ان کے مذمتی اقوال کی رٹ لگائے رہتے ہیں ہیں اورجن کو شیطان کہاگیاہے وہ مشہورومعروف محدث بلکہ استاذ المحدثین ہیں۔ اب غیرمقلدین کس کومطعون کریں گے؟

ہاں یہ ہوسکتاہے کہ جب سب اپنے ہی نکل آئیں تو تاویل کا دامن تھام لیں ۔لیکن بھائی ذراایک سوال کا جواب دیتے جائیں کہ ایسی باتوں کی ہم امام ابوحنیفہ کے سلسلے میں جوتاویل کرتے تھے ان کو تو آپ تسلیم کرنے سے منکر تھے اورہماری تاویل کو تحریف بتادیاکرتے تھے اورکہتے تھے کہ اس سے محدثین کرام کے کلام کی وقعت ختم ہوجاتی ہے لیکن آج جب ضرورت پڑگئی توپھر تاویل کا دامن تھام لیاجائے گاکہ اس سے سفیان ثوری کی حافظہ سے ابن قطان کی مرعوبیت مراد ہے ۔

لیکن بتایاجائے کہ شیطان کو مضبوط حافظہ والا کس نے کہاہے؟

ہم توآج تک یہیں محاورہ پڑھتے آئے ہیں کہ دروغ گوراحافظہ نہ باشد اورجھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اورمحاورہ نقارہ خلق خداہے۔اورشیطان سے زیادہ جھوٹاروئے زمین پر اورکون ہوگا۔

آپ نے ماقبل میں دیکھاہوگاکہ امام مالک کاامام ابوحنیفہ سے متعلق ایک جملہ جومدح میں تھا اس کو زبردستی ذم کے باب میں لے جایاگیاتھایہاں آپ دیکھیں گے کہ واضح طورپر شیطان کہنے کے باوجود کہاجائے گاکہ وہ توتعریف میں ہے۔

اگرآپ کو شیطان کے تذکرہ سے گرانی ہورہی ہے تو بس مزید ایک حوالہ اوردیکھیں پھر میں بھی اپنی بات کو ختم کردیتاہوں۔

أخبرنا البرقاني، أخبرنا أبو بكر الإسماعيلي، أخبرنا عبد الله بن محمد بن سيار قال: سمعت إبراهيم بن الأصبهاني يقول: كان أبو داود الطيالسي بأصبهان، فلما أراد الرجوع أخذ يبكي، فقالوا له يا أبا داود إن الرجل إذا رجع إلى أهله فرح واستبشر، وأنت تبكي؟! فقال: إنكم لا تعلمون إلى من أرجع، إنما أرجع إلى شياطين الإنس، علي بن المديني، وابن الشاذكوني، وابن بحر السقاء- يعني عمرو بن علي-.
تاریخ بغداد9/44
ابراہیم بن الاصبہانی کہتے ہیں کہ ابودائود الطیالسی اصبہان میں تھے جب انہوں نے اپنے وطن کی جانب کوچ کا ارادہ کیاتو رونے لگے ۔ اس پرلوگوں نے ان سے کہاکہ اے ابودائود ،جب آدمی اپنے اہل وعیال کی جانب لوٹتاہے توخوش وخرم ہوتاہے اورآپ رورہے ہیں ۔اس پر ابودائود الطیالسی نے کہا۔تم لوگ نہیں جانتے کہ میں کن کی جانب لوٹ رہاہوں۔ میں شیاطین الانس علی بن المدینی،ابن الشاذکونی،ابن بحرالسقاء (عمروبن علی) کی جانب لوٹ رہاہوں۔


ابودائود الطیالسی نے علی بن مدینی کو ابن الشاذکونی کو اورعمرو بن علی کو واضح طورپر شیاطین الانس قراردیاہے۔ایک تو وہ شیطان ہوتاہے جوناری مخلوق ہے لیکن ایک شیطان وہ ہے جو خاکی ہے لیکن شیطان ہے ۔جیساکہ قرآن میں کہاگیاہے الذی یوسوس فی صدور الناس من الجنۃ والناس جو لوگوں کے سینے میں وسوسے ڈالتاہے اورجنات اورانسانوں میں سے ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ اس کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل ہمیں تاویل کا طعنہ دینے والی پارٹی کے پاس ضرور ہوگا ۔ کیونکہ جب کبھی وہ پھسنتے ہیں تو دوڑکرہماری جانب ہی انہیں پناہ لینی پڑتی ہے۔

ویسے ان سے گزارش ہے کہ ہمیں تاویل پر مطعون کرنے کے بجائے جب باربار آپ کو تاویل کی ضرورت پڑتی ہے تو ہماری ہی پارٹی جوائن کیوں نہیں کرلیتے ۔ دوکشی کے مسافر اکثر ڈوب جایاکرتے ہیں۔ ایک ہی کشتی میں سوار رہیں۔

یاتو ایساہو کہ ایسے اقوال جوامام ابوحنیفہ کے بارے میں ہیں اوروہ امام ابوحنیفہ کی شخصیت سے میل نہیں کھاتے توان کی مناسب تاویل پر تحسین کی جانی چاہئے نہ کہ کسی کوتاویل کا طعنہ دیناچاہئے اوراگرکسی کو تاویل کا طعنہ دیتے ہی ہیں توپھر ان سب نصوص میں بھی بغیر کسی تاویل کے ان حضرات کو بھی وہی کچھ مان لیں جو کہ کہاگیاہے۔

میں نے وعدہ کیاتھاکہ اس پر بات ختم کردوں گالیکن جب بات شیطان کے تعلق سے ہورہی ہو توپھر لذیذ بود حکایت دراز ترگفتم ۔ ایک مزید حوالہ سن لیجئے۔
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: دَعَانِي وَابْنَ جُرَيْجٍ بَعْضُ أُمَرَائِهِمْ فَسَأَلَنَا عَنْ مَسِّ الذَّكَرِ، فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: «يَتَوَضَّأُ» ، فقُلْتُ: لَا وُضُوءَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا اخْتَلَفْنَا قُلْتُ لِابْنِ جُرَيْجٍ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَضَعَ يَدَهُ عَلَى مَنِيٍّ، فَقَالَ: «يَغْسِلُ يَدَهُ» ، قُلْتُ: فَأَيُّهُمَا أَنْجَسُ الْمَنِيُّ أَوِ الذَّكَرُ؟ قَالَ: «لَا، بَلِ الْمَنِيُّ» قَالَ: فَقُلْتُ: وَكَيْفَ هَذَا؟ قَالَ: «مَا أَلْقَاهَا عَلَى لِسَانِكَ إِلَّا شَيْطَانٌ»
مصنف عبدالرزاق،باب الوضوء من مس الذکر1/120
عبدالرزاق سفیان ثوری سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے ان سے سناہے ۔مجھ کو اورابن جریج کو بعض امراء نے بلایااورہم سے مس ذکر کے بارے میں پوچھاتوابن جریج نے کہاکہ اس سے وضوکیاجائے گا۔ اورمیں نے کہاکہ مس ذکر کرنے والے کیلئے وضو نہیں ہے۔جب ہم دونوں اس باب میں مختلف الرائے ہوگئے تومیں نے ابن جریج سے کہاکہ اچھاآپ یہ توبتایئے کہ اگرکوئی شخص منی پر اپناہاتھ رکھ دے تواس کا کیاحکم ہے ۔ابن جریج نے کہاکہ اپناہاتھ دھوئے گا۔ میں نے کہاکہ پھر زیادہ نجس کون ہے منی یاذکر ۔توانہوں نے کہاکہ منی۔ پھر میں نے کہاکہ پھر مس ذکر سے وضواورمنی چھونے سے وضو کیوں نہیں۔ اس پر وہ کہنے لگے ۔یہ بات تمہاری زبان پر شیطان نے ڈالی ہے۔

اس میں بھی ابن جریج سفیان ثوری کے بارے میں جوکچھ کہہ رہے ہیں وہ نہایت واضح ہے۔اس پر مزید کسی حاشیہ اورتوضیح کی ضرورت نہیں ہے۔

میراذاتی خیال ہے کہ ان مزید شیطانی حوالوں سے کفایت اللہ صاحب کو اہتزاز اورسرور حاصل ہواہوگا۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
السلام علیکم !

میں یہ جاننے کا شائق ہوں ابھی تک کہ آیا جونا گڑھی صآحب نے ترجمہ واقعتا ویسے ہی تلبیس پر مبنی کیا ہے جیسا جمشید صآحب بتا رہے ہیں؟؟

ابھی تک کسی اہلحدیث نے اس پر شاید بات نہین کی اس تھریڈ میں ۔

اگر ایسا ہی ہے جیسے حضرت کہہ رہے ہیں تو یہ تو بڑی خیانت والی بات ہے :(
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اگر ایسا ہی ہے جیسے حضرت کہہ رہے ہیں تو یہ تو بڑی خیانت والی بات ہے :(
دیوبندیوں کی کوئی بات کبھی سچی بھی ہوتی ہے؟؟؟!!!
 
Top